Badshah aur Loundi ki Short Stories in Urdu - Urdu Kahaniyan Pdf

AoA Umeed ha ap sab log teek hun gy is post mein b ap ky liye mazy daar story laya hun jo kay apko boht pasand aye gyi

Yeh Badshah aur Loundi ki Short Stories in Urdu ha jo ky apko pdf mein ri ha ap isy download kar ky Read kar skty hain

Urdu Kahaniyan Pdf mein Download karny ky liye neachy diye huey download button pr click kren gy to yeh Apky File Manager mein Pdf mein save hojye gyi

Badshah aur Loundi ki Short Stories in Urdu - Urdu Kahaniyan Pdf

Badshah aur Loundi ki Short Stories in Urdu - Urdu Kahaniyan Pdf

Badshah Haroon Rasheed Ko ik Loundi ki Zarorat thi is ny elaan kia kay mujy ik loundi Darkaar ha Yeh Sun kar Darbar Mein 2 loundiyan Hazir huien aur Kehny Laghi

Kay Badshah Salamat Humein Khareed Lean in mein Say ik Ka Rang Kala tha aur ik Loundi ka White tha 

Lakin Badshah Haroon Rasheed Nay Kaha kat Mujy ik Loundi Cheiye 2 Nahi, White Loundi Boli kay Mujy Khareed Lean kiyn kay Ghora Rang Acha Hota ha Dosri Tarif Black Boli kay Mujy rakh lean

Download Urdu Kahani in Pdf
Badshah aur Loundi ki Short Stories in Urdu - Urdu Kahaniyan Pdf

I hope Apko Badshah aur Loundi ki Short Stories in Urdu Achi lagy gyi Coment kr ky lazmi bataye ga ky Kesi laghi aur Mazeed stories kay liye website ki baqi post b lamzi read kren.
Thanks For Downloading...

اللہ تعالیٰ نے رزق کے 16 دروازے مقرر کئے ہیں اور اس کی چابیاں بھی بنائی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں حاصل کر لیں وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا۔
۔
* پہلا دروازہ نماز ہے۔ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے ان کے رزق سے برکت اٹھا دی جاتی ہے۔ وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان رہتے ہیں۔

* دوسرا دروازہ استغفار ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ استغفار کرتا ہے توبہ کرتا ہے اس کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اللہ ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔

* تیسرا دروازہ صدقہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا، انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا 

* چوتھا دروازہ تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں اللہ اس کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ 

* پانچواں دروازہ کثرتِ نفلی عبادت ہے۔ جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے اگر تو عبادت میں کثرت نہیں کرے گا تو میں تجھے دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا، لوگ سنتوں اور فرض پر ہی توجہ دیتے ہیں نفل چھوڑ دیتے ہیں جس سے رزق میں تنگی ہوتی ہے 

٭ چھٹا دروازہ حج اور عمرہ کی کثرت کرنا ، حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی ہے 

٭ ساتواں دروازہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا۔ ایسے رشتہ داروں سے بھی ملتے رہنا جو آپ سے قطع تعلق ہوں۔ 

٭ آٹھواں دروازہ کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے۔ غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے 

٭ نوواں دروازہ اللہ پر توکل ہے۔ جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا تو اسے اللہ ضرور دے گا اور جو شک کرے گا وہ پریشان ہی رہے گا 

٭دسواں دروازہ شکر ادا کرنا ہے۔ انسان جتنا شکر ادا کرے گا اللہ رزق کے دروازے کھولتا چلا جائے گا 

٭ گیارہواں دروازہ ہے گھر میں مسکرا کر داخل ہونا ،، مسکرا کر داخل ہونا سنت بھی ہے حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ رزق بڑھا دوں گا جو شخص گھر میں داخل ہو اور مسکرا کر سلام کرے 

٭بارہواں دروازہ ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہیں ہوتا 

٭ تیرہواں دروازہ ہر وقت باوضو رہنا ہے۔ جو شخص ہر وقت نیک نیتی کیساتھ باوضو رہے تو اس کے رزق میں کمی نہیں ہوتی 

٭چودہواں دروازہ چاشت کی نماز پڑھنا ہے جس سے رزق میں برکت پڑھتی ہے۔ حدیث میں ہے چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے اور تندگستی کو دور بھگاتی ہے 

٭ پندرہواں دروازہ ہے روزانہ سورہ واقعہ پڑھنا ۔۔ اس سے رزق بہت بڑھتا ہے

٭ سولواں دروازہ ہے اللہ سے دعا مانگنا۔ جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے اللہ اس کو بہت دیتا ہے 
۔
..........
حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے میں اسے نماز پڑھتا دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ پچیس چھبیس سال کا خوبصورت نوجوان قتل کے مقدمے میں دو دن پہلے ہی یہاں لایا گیا تھا جہاں سے چند دن بعد عدالتی کاروائی کے بعد اسے جیل منتقل کیا جانا تھا۔۔۔ اس کے خلاف کیس کافی مضبوط تھا اس لیے گمان غالب تھا کہ ایک دو پیشیوں کے بعد ہی اسے سزائے موت سنا دی جائے گی۔۔۔
میں ایک پولیس والا ہوں، اور پہلے دن سے ہی میرا رویہ اور لہجہ اس کے ساتھ کافی سخت رہا تھا۔۔۔لیکن اس کے لبوں پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہمیشہ وہ مجھے بڑا سمجھتے ہوئے ادب سے اور نرم لہجے میں بات کرتا تھا۔۔۔
اور مجھ جیسا سخت انسان بھی دو دن میں ہی اس کے اچھے اخلاق کے سامنے ہار گیا تھا۔۔۔
اب وہ سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگ رہا تھا۔۔۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔ وہ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ جس سے مانگ رہا ہے وہ اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو۔۔۔
دعا کے بعد اس کی نظر مجھ پر پڑی تو اس کے لبوں پر پھر وہی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔ وہ اٹھ کر میرے پاس آیا اور ہمیشہ کی طرح میرا حال احوال پوچھا۔۔
آج خلاف معمول میرا لہجہ کافی نرم تھا۔۔
باتوں کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ کیا واقعی اس نے قتل جیسا جرم کیا ہے۔۔ کیونکہ مجھے اس کی معصومیت سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ قتل جیسا جرم کر سکتا ہے۔۔۔
"ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔۔ تو پھر میں ایسا گھناونا جرم کیسے کرسکتا ہوں؟"
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔
"تو پھر؟"
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
"جب اللہ اس دنیا میں کسی کو اختیارات دیتا ہے نا تو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ اختیارات اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔۔۔ وہ ان سب کو اپنا کمال اور حق سمجھ بیٹھتے ہیں۔۔۔
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔ ہمارے علاقے کے ایک بااثر انسان نے قتل کردیا اور اتفاق سے میں وہاں سے چند قدم ہی دور تھا۔۔۔ اس نے الزام مجھ پر لگا دیا۔۔ جھوٹے گواہ بھی تیار کرلیے گئے اور میں یہاں آگیا"
مجھے دکھ سا ہوا۔۔۔
"تو تمہارے گھر والون نے کچھ نہیں کیا؟"
"گھر والوں نے اپنی سی کوشش کی لیکن وہی بات اس معاشرے میں لوگ بھی ڈر کے مارے اسی کا ساتھ دیتے ہیں جو طاقتور ہو"
وہ پھر سے مسکرایا تھا ۔۔
مجھے اس کے سکون کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔۔
"تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ ہو سکتا ہے کچھ دنوں تک تمہیں موت کی سزا سنا دی جائے؟"
"ان شاءاللہ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ میں نے اس کے آگے اپنی عرضی رکھ دی ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔۔"
اس نے پر یقین لہجے میں جواب دیا۔۔
میں نے پھر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"میں اپنے اللہ کی بات کررہا ہوں۔۔۔ اسے میری بے گناہی کا علم ہے اور وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا"
اس کے ہر ہر لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی۔
"تمہیں یقین ہے کہ دعا سے کام ہوجائے گا۔۔۔؟ اگر نہ ہوا تو۔۔۔؟؟" 
میں نے پوچھا۔۔
"جب اس سے مانگا جاتا ہے نا تو پھر شک میں نہیں پڑتے کہ وہ قبول نہیں کرے گا۔۔۔ بس سب کچھ اس پر چھوڑ کر انتظار کرتے ہیں"
اس کے لہجے میں یقین ہی یقین تھا۔۔۔ میں بس اس کے چہرے کو تکتا رہ گیا کہ اس سے پہلے اللہ پر اتنا یقین شاید ہی کسی میں دیکھا ہو۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دن مزید گزر گئے۔۔ اس دوران اس کے گھر والے بھی اس سے ملنے آئے تھے۔۔۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔۔ ماں کا رو رو کر برا حال تھا لیکن اس کے سکون میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔۔ وہ مسلسل سمجھاتا رہا کہ میں نے اللہ کے سامنے عرضی رکھ دی ہے اسے پتا ہے میں بے گناہ ہوں دیکھ لیجئے گا وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔
میں نے اللہ پر اتنا یقین اس سے پہلے صرف پڑھا ہی تھا لیکن کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔میرے دل میں اب اس کے لیے عقیدت کے جذبات پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔۔۔ شاید اللہ کی محبت ہوتی ہی ایسی ہے جو پتھر دل کو بھی پگھلا دیتی ہے۔۔۔
اور پھر جب اسے عدالت میں پیش کیا جانا تھا اس سے ایک دن پہلے ہی عجیب واقعہ ہوا۔۔۔
جس شخص نے خود قتل کرکے الزام اس پر لگایا تھا وہ اپنی بیوی اور اکلوتے بچے کے ساتھ گاڑی میں کہیں جارہا تھا کہ اسے ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں اس کی بیوی اور بچہ تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ اسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔۔۔ کافی گھنٹوں بعد ہوش میں آنے کے بعد اسے بیوی اور بچے کے مرنے کی خبر ملی تو اس کی حالت اور بگڑ گئی۔۔۔ 
اسی جان کنی کے عالم میں اسے کچھ یاد آیا۔۔۔ اس نے چیخ کر قریب موجود ڈاکٹر کو اس کی ویڈیو بنانے کا کہا۔۔۔ بار بار اصرار پر ڈاکٹر نے نرس کو ویڈیو بنانے کا اشارہ کیا تو اس نے ویڈیو میں بڑی مشکل سے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور اس نوجوان کو بے گناہ قرار دے کر ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی۔۔۔
اس نے ڈاکٹر سے وعدہ لیا کہ وہ یہ ویڈیو ضرور پولیس سٹیشن لے کر جائے گا۔۔۔۔۔ شاید بیوی بچے کے مرنے کے بعد اور اپنی حالت کا علم ہوجانے کے بعد وہ اس گناہ کو ساتھ لے کر مرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
ادھر ویڈیو پولیس سٹیشن پہنچی ادھر وہ آدمی مرگیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج عدالت میں اس کی پیشی تھی۔۔ عدالت کے سامنے اس کی بے گناہی کا ناقابل تردید ثبوت ویڈیو کی شکل میں موجود تھا۔۔ لہذا اسے باعزت بری کر دیا گیا۔۔۔
میں کمرہ عدالت میں کھڑا گم سم سا سوچ رہا تھا کہ اللہ ان بندوں کی جو صحیح معنوں میں اس پر ایمان لاتے ہیں ان کی ایسے بھی مدد کرسکتا ہے۔۔۔
اس کی ہتھکڑیاں کھول دی گئی تھیں ماں روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی تھی باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔۔۔
آج اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔۔ شاید اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے ان حالات میں تنہا نہیں چھوڑا تھا اور اس طرح سے اس کی مدد کی تھی جس کا کسی کو وہم و گمان تک نہ تھا۔۔
اور مجھے یاد ہے مجھ سے ملنے کے بعد جب وہ جانے لگا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ وہ کوئی ایسی بات بتا کر جائے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں۔۔
تو اس کے الفاظ تھے۔۔
*"اللہ سے بڑھ کر کوئی ہمدرد اور دوست نہیں۔۔۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے اسی سے مانگیں اور پھر یقین بھی رکھیں کہ وہ قبول کرے گا۔۔۔ وہ محض کسی سوچ یا تصور کا نام تو ہے نہیں۔۔۔ بلکہ وہ تو ایک زندہ حقیقت ہے۔۔۔ وہ اس وقت بھی ہمارے ساتھ ہے۔۔ شہ رگ سے بھی قریب۔۔ وہ ہمیں دیکھتا رہتا ہے کہ مشکل میں ہمارا رد عمل کیا ہوگا۔۔ اور جو اس سے مانگ کر شک میں نہیں پڑتے، اللہ بھی انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔۔۔ ایسے طریقوں سے اس کی مدد کرتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے"*
وہ اب واپس جارہا تھا اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں آج ہی مسلمان ہوا ہوں یا جیسے میں نے آج اپنے اللہ کو پالیا ہے۔۔۔۔
.............
کہتے ہیں کہ ایک دن گاؤں کے کنوئیں پہ عجیب ماجرا ھوا کہ جو ڈول بھی کنوئیں میں ڈالا جاتا واپس نہ آتا جبکہ رسی واپس آ جا تی ، سارے لوگ خوفزدہ ھو گئے کہ اندر ضرور کوئی جن جنات ھے جو یہ حرکت کرتا ھے ، آخر اعلان کیا گیا کہ جو بندہ اس راز کا پتہ لگائے گا اس کو انعام دیا جائے گا ،، ایک آدمی نے کہا کہ اس کو انعام کی کوئی ضرورت نہیں مگر وہ گاؤں والوں کی مصیبت کے ازالے کے لئے یہ قربانی دینے کو تیار ھے مگر ایک شرط پر ،، شرط یہ ہے کہ میں کنوئیں میں اسی صورت اتروں گا جب رسا پکڑنے والوں میں میرا بھائی بھی شامل ھو ،،

اس کے بھائی کو بلایا گیا اور رسہ پکڑنے والوں نے رسا پکڑا اور ایک ڈول میں بٹھا کر اس بندے کو کنوئیں میں اتار دیا گیا ، اس بندے نے دیکھا کہ کنوئیں میں ایک مچھندر قسم کا بندر بیٹھا ھوا ھے جو ڈول سے فورا رسی کھول دیتا ہے ،، اس بندے نے اپنی جیب کو چیک کیا تو اسے گڑ مل گیا ،، اس نے وہ گڑ اس بندر کو دیا یوں بندر اس سے مانوس ھو گیا ، بندے نے اس بندر کو کندھے پر بٹھایا اور نیچے سے زور زور سے رسہ ہلایا ،، گاؤں والوں نے رسا کھینچنا شروع کیا اور جونہی ڈول اندھیرے سے روشنی میں آیا وہ لوگ بندر کو دیکھ کر دھشت زدہ ھو گئے کہ یہ کوئی عفریت ہے جس نے اس بندے کو کھا لیا ھے اور اب اوپر بھی چڑھ آیا ھے ، وہ سب رسہ چھوڑ کر سرپٹ بھاگے مگر اس بندے کا بھائی رسے کو مضبوطی سے تھامے اوپر کھینچنے کی کوشش کرتا رھا تا آنکہ وہ کنارے تک پہنچ گیا ، کنوئیں سے نکل کر اس نے بندر کو نیچے اتارا اور لوگوں کو اس بندر کی کارستانی بتائی پھر کہا کہ میں نے اسی لئے اپنے بھائی کی شرط رکھی تھی کہ اگر میرے ساتھ کنوئیں میں کوئی ان ھونی ھو گئ تو تم سب بھاگ نکلو گے جبکہ بھائی کو خون کی محبت روکے رکھے گی ، یاد رکھیں کوئی لاکھ اچھائی کرے مگر خونی رشتے آخرکار خون کے رشتے ہی ہوتے ہیں ، ان کی قدر کریں.....
.............
*واپڈا آفس کے سامنے ایک شخص کیلے بیچ رہا تھا*
*واپڈا کے ایک بڑے افسر نے پوچھا کیلے کا فی درجن کیا بھاؤ ہے؟* 
*کیلے کس کے لئے خرید رہے ہو* *صاحب؟*

*افسر۔ کیا مطلب ؟*

*کیلے والا :*

*مطلب یہ کہ*
*یتیم خانے کے لئے لے رہے ہو تو 40 روپیہ درجن*
*اولڈ ہوم کے لئے لے رہے ہو تو 50 روپیہ درجن*
*بچوں کے ٹفن کے لئے 60 روپیہ درجن*
*گھر کھانے کے لئے لے رہے ہو تو 70 روپیہ درجن*
*اگر پکنک کے لئے خریدنے ہوں تو 80 روپیہ درجن*

*افسر یہ کیا بیوقوفی ہے؟*
*ارے بھائی جب سب کیلے ایک جیسے ہیں تو ریٹ الگ الگ کیوں؟*

*کیلے والا:*

*پیسے کی وصولی کا اسٹائل تو آپ لوگوں والا ہی ہے*
*جیسے* 

*1 سے 100 یونٹ کا الگ ریٹ*
*100 سے 200 کا الگ*
*200 سے 300 کا الگ*
*300 سے 400 کا الگ*

*بجلی تو آپ ایک ہی کھمبے سے دیتے ہو ؟*
*تو پھر گھر کے لئے الگ ریٹ*
*دکان کے لئے الگ ریٹ*
*کارخانے کا الگ ریٹ*

*اور ایک بات۔۔ اور میٹر کی قیمت ہم سے لیکر پھر میٹر کا کرایہ الگ لیتے ہو۔۔۔انکم واپڈا کو ہوتی ہے اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہم سے الگ لیتے ہو*
*سرچارج اور ایکسٹرا سرچارج کیا بلا ہے جو ہم سے لیتے ہو؟*

*میٹر کیا امریکہ سے امپورٹ کیا ہے 25 سال سے میٹر خرید کر بھی اس کا کرایہ بھر رہا ہوں* 
*آخر میٹر کی قیمت کتنی ہے؟*  

*آپ بتا دو مجھے ایک ہی بار*

*اسی طرح سوئی گیس والوں نے انھی پائی ہوئی اے*

 *کڑوا سچ ۔😱😒*

منقول
.............
ایک دانا آدمی کی گاڑی گاوں کے قریب خراب ہوگئی اس نے سوچا کہ گاوں سے کسی سے مدد لیتا ہوں
وہ جیسے ہی گاوں میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا ایک بوڑھا شخص چارپائی پر بیٹھا ہے اور اس کے قریب مرغیاں دانہ چگ رہی ہیں ان مرغیوں میں ایک باز کا بچہ بھی ہے جو مرغیوں کی طرح دانے چگ رہا ہے وہ حیران ہوا اور اپنی گاڑی کو بھول کر
 اس بوڑھے شخص سے کہنے لگا کہ یہ کیسے خلاف قدرت ممکن ہوا کہ ایک باز کا بچہ زمین پر مرغیوں کے ساتھ دانے چگ رہا ہے 
تو اس بوڑھےشخص نے کہا دراصل یہ باز کا بچہ صرف ایک دن کا تھا جب یہ پہاڑ پر مجھے گرا ہوا ملا میں اسے اٹھا لایا یہ زخمی تھا میں نے اس کو مرہم پٹی کرکے اس کو مرغی کے بچوں کے ساتھ رکھ دیا جب اس نےپہلی بار آنکھیں کھولیں تو اس نے خود کو مرغی کے چوزوں کے درمیان پایا یہ خود کو مرغی کا چوزہ سمجھنے لگا اور دوسرے چوزوں کے ساتھ ساتھ اس نے بھی دانہ چگنا سیکھ لیا 
اس دانا شخص نے گاوں والے سے درخواست کی کہ یہ باز کا بچہ مجھے دے دیں تحفے کے طور پر یا اس کی قیمت لے لیں میں اس پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں 
اس گاوں والے نے باز کا بچہ اس دانا شخص کو تحفے کے طور پر دے دیا 
یہ اپنی گاڑی ٹھیک کروا کر اپنے گھر آ گیا 
وہ روزانہ باز کے بچے کو چھت سے نیچے پھینک دیا کرتا مگر باز کا بچہ مرغی کی طرح اپنے پروں کو سکیڑ کر گردن اس میں چھپا لیتا
وہ روزانہ بلاناغہ باز کے بچے کو اپنے سامنے ٹیبل پر بیٹھاتا اور اس کہتا کہہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر
اسی طرح اس نے کئی دن تک اردو پنجابی سندھی سرائیکی پشتو ہر زبان میں اس باز کے بچے کو کہا کہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر 
اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو 
آخر کار وہ دانا شخص ایک دن باز کے بچے کو لے کر ایک بلند ترین پہاڑ پر چلا گیا اور اسے کہنے لگا کہہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرو تم باز کے بچے ہو اور اس شخص نے یہ کہہ کر باز کے بچے کو پہاڑ کی بلندی سے نیچے پھینک دیا 
باز کا بچہ ڈر گیا اور اس نے مرغی کی طرح اپنی گردن کو جھکا کر پروں کو سکیڑ لیا اور آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ زمین تو ابھی بہت دور ہے تو اس نے اپنے پر پھڑ پھڑائے اور اڑنے کی کوشش کرنے لگا
 جیسے کوئی آپ کو دریا میں دھکا دے دے تو آپ تیرنا نہیں بھی آتا تو بھی آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے 
تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے آپ کو بیلنس کرنے لگا کیونکہ باز میں اڑنے صلاحیت خدا نے رکھی ہوتی ہے 
تھوڑی ہی دیر میں وہ اونچا اڑنے لگا 
وہ خوشی سے چیخنے لگا اور اوپر اور اوپر جانے لگا 
کچھ ہی دیر میں وہ اس دانا شخص سے بھی اوپر نکل گیا اور نیچے نگاہیں کرکے اس کا احسان مند ہونے لگا
 تو دانا شخص نے کہا اے باز میں نے تجھے تیری شناخت دی ہے اپنے پاس سے کچھ نہیں دیا
یہ کمال صلاحیتیں تیرے اندر موجود تھیں مگر تو بے خبر تھا
 یہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہے 

🇵🇰ہماری ایک خاص شناخت ہے

🕋 ہم ایک خاص امت کے ارکان ہیں 

 ہم ایک ایٹمی ملک کے شہری ہیں

ہمارے اندر اللہ رب العزت نے بے پناہ صلاحیتیں رکھی ہیں

مگر پرابلم یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد بے شمار مرغیاں ہیں جن میں ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات بھی شامل ہیں

 جو مسلسل ہم کو بتاتے ہیں کہ ہم باز کے بچے نہیں مرغی کے بچے ہیں 

جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم سپر پاور نہیں ہو سپر پاور کوئی اور ہے 

جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم بہادر اور طاقتور نہیں ہو بلکہ بزدل اور کمزور ہو 

تمھاری تو قوم ہی ایسی ہے 

تم دہشتگرد ہو تم لوگ آگے نہیں بڑھ سکتے 

کامیابی کی شرط یہ ہے کہ ہم خود کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ ہم ایک بہترین امت اور بہترین قوم بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔