Alina aur Hawasi Doston ki Urdu Moral Story - Urdu Kahaniyan Pdf

Assalamualaikum I hope Apko sab log teek hon gy is post ma b hamesha ki Tarh asi story laya hun jo kay apko boht pasand aye gyi

Yeh Alina aur Hawasi Doston ki Urdu Moral Story ha jo kay boht Rula dene wali ha ap isy Pdf mein b Download kar k Save kr Sakty hain

Urdu Kahaniyan Pdf Mein Download karny ky liye Neachy Diye gaye Download Button pr Click karen gy to yeh ap k phone mein Save hojye gyi

Alina aur Hawasi Doston ki Urdu Moral Story - Urdu Kahaniyan Pdf

Alina aur Hawasi Doston ki Urdu Moral Story - Urdu Kahaniyan Pdf

Alina ik University Mein Parti Thi, Ghar Dhor honye ki wajse isy Hostel Mein Rehna Parta Tha aur Ab wo im Zahid Nami Larky kay Sath Rehti thi Dono Subha ik Sath University Jaty

Aur Wapis a Kar Miyan Bv ki Tarh Rehty Thy Jisy Ajkal Girlfriend Boyfriend Kehty hain Zahid kay Dost Ghar par Aty to Alina in kay liye

Roti Chaye Pani Sab Karti jesy ik Wife karti hai Yeh Wohi Alina thi jo Ghar mein Paani ka ik glass tak nah deti thi, Alina ko Iski Sahaliyon Nay Samjya ky Wo Sab jo kr Rahi ha Wo Galt ha

Download Urdu Kahani Pdf

Alina aur Hawasi Doston ki Urdu Moral Story - Urdu Kahaniyan Pdf

i Hope Apko Alina aur Hawasi Doston ki Urdu Moral Story Achi Lagy gyi Coment kar ky Sab log Lazmi Batana ky story kesi laghi aur Mazeed Asi Urdu Kahaniyon ky liye Website ki baqi post b Lazmi Read kren.
Thanks For Downloading...

باپ کی عظمت کا ایک اہم واقعہ:

( ماں باپ کی نا قدری کر نے والے ذرا اس حدیث کے واقعہ کو حرف بحرف پڑھئے اور اپنی دنیا و آخرت درست کر لیجیئے ۔)

ﺍﯾﮏ شخص ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ !!
ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ نہیں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺎﻝ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ،

ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ والد محترم ﮐﻮ بلوایا،

ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ آلہ و ﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﺠﯿﺪﮦ ﮬﻮﺋﮯ...

ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻠﮯ...

ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺠﮫ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ کہتے ہوئے پہنچے،

ﺍﺩﮬﺮ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺒﺮﺍﺋﻞ علیہ السلام ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ
ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮬﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،
 ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭ ﺗﻌﺎلی ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ معاملہ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺌﯿﮯ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮬﯿﮟ،

ﺟﺐ ﻭﮦ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮮ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،
ﮐﮧﺁﭖ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﻌﺪ ﻣﯿں ﺳﻨﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮬﻮﮮ ﺁﺋﮯ ﮬﯿﮟ،

ﻭﮦ ﻣﺨﻠﺺ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺗﮭﮯ،
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﮯ... ﮐﮧ
ﺟﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ بھی ﻧﮩﯿﮟ ہوئے، ﻣﯿﺮﮮ اپنے ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ بھی ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﮯ...

ﺁﭖ کے ﺭﺏ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﻦ ﻟﺌﯿﮯ....

اور آپ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ کو بتا بهی دیا،
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺗﮭﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻨﺎﺋﯿﮟ،

ﺍﻥ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﻧﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮯ،

( ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ آسان ﺗﺮﺟﻤﮧ بتانے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ جو اشعار تھے اور جس اعلی پائے کے تھے اور جو جذبات کی کیفیت تھی، ان کی صحیح ترجمانی اردو میں مشکل ہے بہرحال اشعار کچھ اس طرح سے تھے کہ )

ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ !
ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﺍ
ﮨﻤﺎﺭﯼ محنت ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﺒﮭﯽ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ.
ﺗﻮ ﺭﻭﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، ﮨﻢ ﺳﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯﺗﮭﮯ،

ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﮨﻢ ﮐﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ،

ﺗﻮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻃﺒﯿﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ علاج معالجے کے لیے مارے مارے پھرتے تھے ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ تجھے کچھ ہو نہ جائے

ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ،

حالانکہ ﻣﻮﺕ ﺍﻟﮓ ﭼﯿﺰ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺍﻟﮓ ﭼﯿﺰ ﮬﮯ،

ﭘﮭﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﮔﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ

ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﭼﮭﺎؤﮞ ﻣﻞ ﺟﺎﮮ،

ﭨﮭﻨﮉ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺗﻮﮌﮮ

ﺗﻐﺎﺭﯾﺎﮞ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮔﺮمی ﻣﻞ ﺟﺎﮮ،

ﺟﻮ ﮐﻤﺎﯾﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﯿﺌﮯ،
ﺟﻮ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﯿﺌﮯ،

ﺗﯿﺮﯼ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ اب ﻣﯿﺮﯼ ﮨﮉﯾﺎﮞ تک کمزور ﮨﻮ گئی ہیں لیکن تو کڑیل جوان ہو گیا ہے....

ﭘﮭﺮ....

ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺧﺰﺍﮞ ﻧﮯ ﮈﯾﺮﮮ ڈال ﻟﺌﮯ لیکن ﺗﺠﮫ ﭘﺮ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﮔﺌﯽ...

ﻣﯿﮟ ﺟﮭﮏ ﮔﯿﺎ
ﺗﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ

ﺍﺏ میری خواہش اور ﺍﻣﯿﺪ پوری ہوئی
ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﮨﺮﺍ ﺑﮭﺮﺍ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ،

ﭼﻞ ﺍﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﮭﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﮔﺰﺍﺭﻭﮞ ﮔﺎ،

ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﺁﺗﮯ ﮬﯽ
ﺗﯿﺮﮮ ﺗﯿﻮﺭ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ....

ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﺌﯿﮟ....

ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ہے ﮐﮧ جیسے ﻣﯿﺮﺍ ﺳﯿﻨﮧ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﺎ ہے

ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﮧ ﮐوئی غلام ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﮩﯿں کرتا...

ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ساری زندگی کی ﻣﺤﻨﺖ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﻼ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮ ﮬﻮﮞ....

ﻧﻮﮐﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻮئی ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺩﮮ ﮨﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ...

ﺗﻮ ﻧﻮﮐﺮ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﭨﯽ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮ....

ﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے چہرہ مبارک ﭘﺮ پڑی تو دیکھا کہ

ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺗﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ،

ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ جلال ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ کا گریبان پکڑ کر ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
انت و ما لک لا بیک،
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ،
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ،
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ،
 (رواه الطبراني و البيهقي دیکھئے تفسیر قرطبی )

اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ تو ہم سب مسلمانوں کو اپنے اپنے والدین کی خدمت کر کے دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی سے سرفراز فرما آمین

..........

کاپی 

تھوڑی سی طویل ضرور ہے لیکن میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تحریر آپکے ذہنوں پر اثر ضرور چھوڑے گی۔ اور آپ کافی دیر تک اس کو بھلا نہیں پائینگے۔ میرے نزدیک اردو کی شاہکار تحریروں میں سے ایک ہے

پاؤں سے کانٹا نکالتے ہوئے ننھے کریم کی چیخ نکل گئی۔ وہ ایڑی کو دونوں ہتھیلیوں سے دباتے ہوئے پکارا ’’ ہائے اماں !‘‘ وہ مبہوت و ساکن بیٹھ گیا اور سامنے ویران کھیتوں پر نگاہیں گاڑھ دیں، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی ماں کی آواز کا منتظر ہوتا ہے۔ " میرے انمول لال! میں آئی، میں ابھی کانٹا نکالے دیتی ہوں !"۔۔۔ اس کے سر پر ایک کّوا کائیں کائیں کرتا ہوا گزرا اور لڑکھڑاتا ہوا ایک جھاڑی میں جا گرا کریم بھول گیا کہ اس کے پاؤں میں کانٹا ہے۔ وہ لنگڑاتا ہو بھاگا اور کّوے کو پکڑ لیا ۔ وہ اپنے پروں کو پھڑپھڑانے لگا۔ اڑنے کی کوشش کی مگر اس کا داہنا بازو زخمی ہوچکا تھا ۔ کریم نے زمین سے مٹی اٹھا کر اس کے زخم پر چھڑکی، دو چار ٹھنڈی سانسیں دیں کّوے کو آرام پہنچا تو کھلی ہوئی چونچ بند کر لی اور آنکھوں میں وحشت کی بجائے اطمینان چھلکنے لگا ۔ کریم نے بہت سے پتے اکھٹے کر کے سب سے بڑے نیم کی سب سے اونچی چوٹی پر جمائے ۔ کّوے کو ایک دو بار تھپک کر وہاں بٹھا دیا اور گھر کو لوٹ آیا ۔ اس مصروفیت میں اس کے پاؤں کے درد میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔
وہ ایک کسان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ایک سال ہوا اس کی ماں مر گئی۔ اس کے والد نے پچھلے دنوں ایک شادی کر لی تھی لیکن اب یہ نئی ماں اس سے عجیب طرح سے پیش آتی تھی۔
’’ وہ برتن اندر کیوں نہیں رکھا؟‘‘
’’ وہ پکار اٹھتا ۔‘‘ اندر ہی تو پڑا ہے۔‘‘
وہ اس کے جبڑوں میں گھونسا جماتے ہوئے کہتی۔ ’’ تو مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘
وہ چیخ کر کہتا ۔’’ بتایا تو تھا میں نے!‘‘
کریم نے کئی بار محسوس کیا کہ گھونسے کے زور سے اس کا دل رک گیا ہے لیکن وہ کمبخت اچانک پھر دھڑک اٹھتا اور وہ سہمی ہوئی نظروں سے ایک اور گھونسا سر پر منڈلاتے ہوئے دیکھتا ۔ اوّل اوّل تو اس نے سوتیلی ماں کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی۔’’ چھوڑ دے ۔ چھوڑ دے مجھے ۔ ورنہ میری امّی تیری بوٹیاں نوچ لے گی، چھوڑ دے مجھے ورنہ میرا ابّا تجھے مار ڈالے گا۔‘‘ لیکن ایک دن جب اس کی سوتیلی ماں نے یہ کہا کہ’’ تیری ماں کو تو قبر کے سانپ اور بچھو چمٹے پڑے ہوں گے، وہ تیرے باپ کا گھر تباہ کر کے اگلے جہاں میں آرام سے تھوڑا رہے گی!’’ تو ننھا کریم غصے سے بے بس ہو کر اس پر جھپٹا مگر دھکا کھا کر اوندھے منہ جا گرا ۔ دوڑا دوڑا باپ کے پاس گیا اور چیخنے لگا ’ ’ابّا، خالہ نے میرے دانت توڑ دیئے ۔ یہ دیکھو تو مسوڑھوں سے خون بہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو نا میری کہنیاں چھل گئیں۔ وہ کہتی ہیں تیری ماں کو سانپ بچّھو کھا رہے ہیں۔ وہ جھوٹ بکتی ہے ابّا ۔ میری ماں ہر رات آ کر میرا ماتھا چوم ۔۔۔۔‘‘
تڑاخ کی آواز اور پھر کریم کا کان اس کے باپ کی انگلیوں میں تھا۔ کان کو اینٹھتے ہوئے بولا۔’’ خالہ کے خلاف بک رہا ہے ۔ اب تیری ماں کا راج نہیں رہا کہ گھر کا غلہ نکال کر دکانداروں کے آگے جا ڈالے اور گلچھڑے اڑائے، اب انسانوں کی طرح رہنا پڑے گا یہاں!‘‘
اس دن کے بعد اس نے باپ کے آگے کوئی شکایت نہ کی، نہ اپنی خالہ کے گھونسوں کا جواب کسی دھمکی سے دیا ۔ بس چپ چاپ گھونسے سہہ لیتا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی کھاٹ پر بازو کا تکیہ بنا کر سو جاتا ۔ صبح گھونسے سہہ کر باہر جاتا۔ مویشی چرا کر لاتا اور گھونسے سہ کر سو جاتا۔
اس دن وہ ایک بیل کے پیچھے بھاگا تو اس کی ایڑی میں کوئی بہت لمبا کانٹا چبھ گیا۔ زخمی کّوے کو گھونسلے میں بیٹھا کر گھر آیا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی کھاٹ پر لیٹ گیا جو صحن کے پرلے سرے پر بیلوں کے تھانوں کے پاس دن رات پڑی رہتی تھی۔ کھاٹ کیا تھی ایک جھولا تھا ۔ جس میں ننھا کریم گھٹنے سینے سے لگائے، بازو جسم سے چمٹائے پڑا رہتا تھا۔
اس کی خالہ چولہے کے سامنے بیٹھی تھی اور اس کا باپ پاس ہی ایک پلنگ پر لیٹا حُقّہ پی رہا تھا ۔ اس کی خالہ کہنے لگی ۔’’ ابھی تک کریم نہیں آیا جانے گاؤں میں کیا کرتا رہتا ہے۔ پرسوں کی بات ہے ہمسائی کے ہاں گیا اور کہنے لگا۔’’ مجھے میری نئی ماں مارتی ہے، روٹی نہیں دیتی ۔میں بھوکا ہوں ننگا ہوں۔‘‘ اب اس سے پوچھو میں نے اسے کب مارا ۔ میں نے اسے کب کھانا نہیں دیا ۔ کب کپڑے نہیں پہنائے۔ اس بچے کو سمجھاؤ، ورنہ یہ گھر گھر کھانے کو مانگتا پھرے گا، اور تم شریکوں کے سامنے سر نہ اٹھا سکو گے۔‘‘
اس تقریر کے دوران میں کریم نے ایک دو بار آواز دی ۔’’ میں آگیا ہوں ابّا ، میں آ گیا ہوں۔‘‘ لیکن نہ اس کے باپ نے کچھ سنا نہ اس کی خالہ نے۔ جب وہ سانس لینے کے لئے رکی تو کریم ان کے قریب آیا اور بولا ’’ میں تو کب کا بیٹھا ہوں خالہ ۔‘‘
اس کا باپ حُقّہ ایک طرف کر کے اس ک طرف بڑھا ۔’’ کیوں بے! تیری ماں کیا مری کہ تو ہر بندھن سے آزاد ہو گیا ۔ گھر گھر میرے گِلے ہو رہے ہیں ۔’’ ایک تھپڑ کریم کے منہ پر پڑا۔ اس کے جی میں آئی کہ باپ کے اس ظلم کے خلاف احتجاج کرے، مگر زبان بے حِس ہو کر رہ گئی ۔ وہ چپ چاپ اٹھا اور اپنی کھاٹ کا رُخ کیا ۔
’’ آج لنگڑا کیوں رہا ہے ۔‘‘ اس کے باپ نے پوچھا۔
’’ کانٹاچبھ گیا تھا جی ۔‘‘ کریم نے درد ناک لہجے میں جواب دیا۔ آخری الفاظ کہتے ہوئے اس کی آواز کانپ گئی۔
اس کا باپ گرجنے لگا ۔’’ کانٹا چبھ گیا امیر زادے کے ۔۔۔ آفت آ گئی، اور لنگڑا یوں رہا ہے، جیسے کسی نے پاؤں ہی اڑا دیا ہے۔ ادھر آ، سوئی لے کر دئیے کے پاس بیٹھ جا اور نکال اسے ۔‘‘
کریم اندر جا کر سوئی لے آیا ۔ دیئے کے پاس بیٹھ کر ایڑی اٹھائی اور سوئی سے کانٹے کے اِرد گرد کا گوشت کریدنے لگا۔
رہ رہ کر اِسے اپنی ماں یاد آ رہی تھی جو اِسے ہاتھوں پر اُٹھائے رکھتی تھی۔ جو اِس کے لئے قسم قسم کی چیزیں خرید لاتی تھی۔ کھانے کی چیزیں، پہننے کی چیزیں ۔ جس نے اپنی پڑوسن کو ایک دن کریم کے پاؤں سے کانٹا نکال رہی تھی کہا تھا۔’’ اری ذرا دھیرے دھیرے سوئی پھیر۔ بس یہ سمجھ تو میرے کلیجے پر سوئی پھیر رہی ہے!‘‘
کریم کو یہ بات یاد آئی تو اِس کی چیخ نکل گئی۔ اسکا باپ صحن کے پرلے سرے پر بیلوں کے آگے گ گھاس ڈال رہا تھا ۔ اس کی خالہ اٹھی اور اس کے پاس آ کر کہنے لگی۔ " کیوں بے لونڈے، رو کیوں رہا تھا ۔ سانپ نے ڈس لیا ہے کیا؟‘‘
اس نے حسرت بھری نگاہیں اٹھائیں اور خالہ کی گھورتی ہوئی آنکھوں میں گاڑ دیں ۔ اس کی خالہ نے اس کی گردن پر غصے سے اُلٹا ہاتھ مارا۔ کریم دیئے پر جا گرا ۔ دیا لڑھک کر اس کی گود میں آ رہا ۔ اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔ لہراتے ہوئے شعلوں سے چیخوں کا ایک طوفان بلند ہوا۔ ’’ ابّا، دوڑیو، میرے ابّا، میں جل مرا، ہو ابّا۔‘‘
اس کا باپ ہوا کی طرح اس کے پاس پہنچا۔ گھڑے پر گھڑا انڈیلنا شروع کر دیا۔ آگ بجھ گئی اور اب زمین پر کیچڑ میں لت پت بیہوش کریم آہستہ آہستہ سانس لے رہا تھا ۔ سارا محلہ اکٹھا ہو گیا ۔ لالٹین جلائی گئی۔ کریم کا داہنا بازو، داہنی ران اور داہنی پسلیاں بری طر ح جل چکی تھیں۔ کھال اڑ چکی تھی ۔ اور نیچے سفید چربی چمک رہی تھی ۔ اسے چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ حکیم جی نے زخموں پر مکھن ملنے کو کہا اور اب لوگ چلے گئے!
اب اس کے باپ کا دل پسیجا ۔ اسے اپنی بیوی کی مغموم روح سامنے منڈیر پر اپنا چہرہ ہتھیلیوں میں سنبھالے بیٹھی آنسو گراتی نظر آئی۔ اس کی نگاہیں اپنے جلے ہوئے بیہوش بچے پر گڑی ہوئی تھیں۔ پھر اس نے تاروں کی طرف اڑتے وقت ایک سمت اشارہ کیا۔ کریم کا باپ سب کچھ سمجھ گیا ۔ اسے وہ دن یاد آ گیا جب شہر کے باہر بوڑھے نیم کی ٹیڑھی شاخوں کے گھنے سائے میں ان دونوں نے اپنے والدین کی باہمی دشمنی سے بے پروا ہو کر ہمیشہ کے لئے ایک ہونے کا عہد کیا تھا! اس کے روئیں روئیں سے پسینہ پھوٹ نکلا ۔ اس کا سارا جسم سو گیا۔ وہ غیر ارادی طور پر اپنے بچے کی طرف بڑھا ۔ جس نے اب آنکھیں کھول دی تھیں اور جس کی سوتیلی ماں روٹی پر گھی ڈال کر کھا رہی تھی ۔ وہ کریم کے قریب گیا ۔ ماتھے پر ہاتھ پھیر کر پوچھا ۔ ’’ میرے کریم کہاں کہاں درّد ہے تمہارے ؟ تمہارے کہاں کہاں درد ہے ؟ بتاؤ نا، مجھے بتاؤ کہ وہاں میں اپنے کلیجے کا خون نچوڑ دوں ۔ تم مجھے گھور کیوں رہے ہو ، میرے بچے تم مجھے اس طرح نہ دیکھو ، میرے ننھے اس طرح تمہارے کمینے باپ کی روح میں نشتر گڑ جاتے ہیں ۔ کہاں کہاں درد ہے تمہارے ؟ بتاؤ نا ‘‘
’’ ایڑھی پر ابّا ۔ ‘‘ ایک نحیف آواز آئی ۔ ’’ وہاں کانٹا چبھ گیا تھا ۔
کریم کا باپ کلیجہ پکڑ کر رہ گیا ۔ ابھی تک کریم کو اپنے جلنے کی خبر نہیں تھی ۔ وہ بولے جا رہا تھا ۔ ’’ ابّا یہاں ایڑھی میں اتنا لمبا کانٹا چبھ گیا ، خالہ، ذرا سوئی دینا، میں کانٹا نکال لوں ۔ ‘‘
کریم کا باپ شدت درد سے بلبلا اٹھا، ’’ ہائے میرے بچے، میرے کریم، تم جل گئے ہو، تمہیں معلوم نہیں کیا ؟ اللہ تمہیں اچھا کر دے، بہت جلد اچھا کر دے ۔ میں اپنے کریم کے لئے اتنی چیزیں لاؤں گا کہ میرا کریم انہیں اٹھا تک نہ سکے گا ۔ ‘‘
کریم کو اب آہستہ آہستہ اپنے جلنے کا احساس ہو رہا تھا ۔ اس کا باپ اس کی رنگت کی تبدیلی دیکھ کر ہراساں ہو گیا ۔ ’’ اری لانا ذرا، کھانڈ لانا ۔ کریم کے منہ میں ڈالوں ۔ یہ تو پیلا پڑ رہا ہے ۔ ‘‘
وہ گھی میں لقمہ بھگو کر بولی ۔ ’’ اچھا ہو جائے گا۔ بچے جلتے ہی رہتے ہیں اکثر، تم پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ اچھا ہو جائے گا کمبخت، تم کیوں اپنی جان ہلکان کرتے ہو ۔ ادھر کھانا کھا لو، پروٹھے ٹھنڈے ۔۔۔۔ ! ‘‘
کسان کے بھاری جوتے نے اِسے آگے بڑھنے کی مہلت نہ دی ۔ لقمہ اس کے منہ سے نکل کر فرش پر جا گرا ۔ اس کی کھوپڑی تڑا تڑ جوتے کھانے لگی ۔ اس نے سارا محلہ سر پر اٹھا لیا۔ لوگ جمع ہو گئے ۔ اسے خاموش کرایا۔ کسان کو ضبط کرنے کی تلقین کی اور چلے گئے ۔ کریم اب چارپائی پر بل کھا رہا تھا گوشت کے ننھے ننھے پرزے آپ سے آپ گر رہے تھے، ساری رات اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا رہا ۔
صبح ہوئی تو کریم نے گھٹنے سے سر اٹھاتے ہوئے کہا ۔ ’’ ابّا تم مجھے اب ماروں گے تو نہیں ؟ ‘‘ کسان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے پھوٹ بہے ۔ اس نے انتہائی ضبط سے کہا ۔ ’’ نہیں بیٹا ۔ ‘‘ کریم بولا ۔ ’’ تو ابّا ایک کام کرو۔ گاؤں کی پوربی چراگاہ کے اتری کونے پر نیم کے درختوں کا جھنڈ ہے نا ؟ سب سے بڑے نیم کی سب سے اونچی ٹہنی پر ایک کوّے کا گھونسلہ ہے ۔ اسے جا کر کچھ پانی اور دانے ڈال آؤ ۔ جاؤ گے ؟ ‘‘
’’ ابھی جاتا ہوں ۔ ‘‘ کریم کے باپ نے جواب دیا ۔ لیکن کریم کی ان بے سر و پا باتوں کو نیم بیہوشی پر محمول کرنے لگا ۔ کچھ دیر کے بعد کریم نے آنکھیں کھولتے ہوئے پھر کہا ۔ ’’ کیا نہیں جاؤ گے ابّا ؟ ‘‘
ابھی جاتا ہوں میرے بچے، کریم یہ کہہ کر اٹھا ۔ پانی کے لئے مٹی کا ایک چھوٹا سا پیالہ لیا ۔ دانے مٹھی میں ڈال کر گاؤں کی مشرقی چراگاہ کی طرف گیا ۔ بڑے نیم کی اونچی ٹہنی پر ایک کوّا گھونسلے سے پر نکالے کائیں کائیں کر رہا تھا ۔ وہ اوپر چڑھا کوّے کے پاس پانی رکھ دیا دانے بکھیر دئیے ۔ کوّے کو اٹھا کر دیکھا اس کا ایک بازو بری طرح زخمی تھا ۔ وہ یہ معمّہ نہ سمجھا اس کا دماغ گھو منے لگا ۔ واپس ہوتے وقت ایک شخص نے اسے پوچھا ۔ کہاں گئے تھے آپ ؟ اس نے جواب دیا ۔ ’’ رات کو ۔ رات کو ۔ رات کو جلا ۔ بس دئیے نے کپڑوں کو آگ لگا دی اور جسم کا دائیا ں حصہ گل گیا ۔ ! ’’ پوچھنے والا شخص متعجب اور شرمندہ ہو کر گلی میں مڑ گیا ۔
کریم کا باپ اپنے بیٹے کے پاس آیا ۔ جھک کر پو چھا ۔ ’’ جاگ رہے ہو بیٹا ؟ ‘‘
’’ جاگ رہا ہوں ابّا ، کوّے کا کیا حال ہے ؟ ‘‘
’’ اچھا تھا میرے بچے ۔ تمہیں سلام کہتا تھا ۔ ‘‘
کریم نے ہنسنے کی کوشش کی ۔ ’’ تو میں خود اسے سلام کا جواب دوں گا ابّا ۔ اب ذرا بیل کھول دو ، باہر جانے کا وقت ہو گیا ! ‘‘
کسان ضبط نہ کر سکا ، بے اختیار رونے لگا ۔ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیوی کی طرف دیکھا جو ایک کونے میں بیٹھی اسے بے انتہا نفرت سے گھور رہی تھی ۔ اسے وہ دن یاد آ گئے ۔ جب بیلوں کے لئے ایک علیحدہ ملازم ہوتا تھا اور پھر جب کریم کی ماں چل بسی، تو ملازم کو نکال دیا گیا اور بیل کریم کے آگے لگا دیئے گئے، اسے اپنی ساری زندگی پر اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دینے لگا ۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ وقتی مسّرتوں کے سیلاب میں اس کی اوّلیں محبت اور خاند خاندانی غیرت کا فولادی قلعہ جڑ سے اکھڑ کر بہہ گیا تھا !
وہ روزانہ صبح وشام کوّے کے لئے دانہ پانی لے جاتا اور پھر کریم کے پاس بیٹھا رہتا کوئی تیمار دار آتا اسے کہتا ۔ ’’ بلا ناغہ صبح حکیم جی آتے ہیں، دوا لگا جاتے ہیں ، لیکن کریم کی حالت گرتی جاتی ہے ۔ حکیم جی کہتے ہیں کہ روزانہ کوئی اس کے زخموں کو چھیڑ دیتا ہے ۔ ‘‘
تیماردار کہتا ۔’’ کروٹ بدلنے سے کچے زخم چھل جاتے ہوں گے ۔ ‘‘
مگر اس کی تسلی نہ ہوتی !
کریم کی حالت روز بر وز ابتر ہوتی گئی اور آخر ایک دن ایسا آیا کہ کریم صبح کو بیہوش ہوا تو دوپہر تک اس کی آنکھیں نہ کھلیں ۔ اس کا باپ دیوانوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ بیٹھتا۔ بے مطلب بغیر کسی کام کے ۔ اس نے سر کو زانوؤں پر رکھا ۔ پیچھے دیوار سے سہارا لے کر بیٹھنا چاہا ۔ پاؤں پسار دیئے ۔گھٹنے سیکڑ لئے ، لیکن اس کے اندر کا غم اندوہ اور پشیمانیوں کا دوزخ دہک رہا تھا ۔ اسے ایک لمحہ بھی سکوں میسّر نہ آ سکا ، اور اس کی بیوی مکان کے ایک کونے میں بیٹھ کر انگریزی صابن سے ہاتھ منہ اور پاؤں دھوتی رہی ۔
دوپہر کو کریم نے آنکھیں کھولیں ۔ حکیم جی پاس بیٹھے تھے ۔ انہوں نے پکار کر کہا ۔ ’’ ملک جی بچہ ہوش میں آ گیا ۔ کریم کا باپ دوڑا آیا، کریم کی پیشانی کو اس نے اتنی محبت سے چوما کہ آس پاس کھڑی عورتوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ اس نے پوچھا ۔ ’’ کریم بیٹا، کیا حال ہے اب ؟ طبیعت کیسی ہے ۔ درد کہاں ہے ؟
جواب ملا ۔ ’’ ایڑی میں ابّا ، ایڑی میں درد ہے ۔ ایک لمبا سا کانٹا چبھ گیا وہاں ۔ ‘‘
آئینہ دیکھتی ہوئی سوتیلی ماں کانپ اٹھی ۔ کریم کا باپ بولا ۔ ’’ بیٹا کل تمہارا کوّا پر تول رہا تھا ، مجھے ڈر ہے وہ اُڑ نہ جائے ۔ ‘‘
کریم بولا ۔ ’’ تو ابّا ! آج آخری بار اسے دانے ضرور ڈال آؤ ۔ ‘‘
حکیم جی نے کہا ۔ ’’ اب بچے کی حالت اچھی ہے ۔ ‘‘ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ کریم کے باپ نے اپنی بیوی کو کریم کی دیکھ بھال کی تاکید کی اور مٹھی میں دانے دبائے کوّے کے گھو نسلے کی طرف بھاگا ۔
وہ گلیوں میں بگولے کی طرح اڑا جا رہا تھا ۔ چرا گاہ میں اس کے پاؤں ہوا میں تھرکتے ہوئے معلوم ہوتے تھے ۔ سورج آسمان کے سینے میں دہک رہا تھا ۔ ڈھیروں پر بھیڑیں، بکریاں اور بیل گردنیں جھکائے چر رہے تھے ۔۔۔ ساری کائنات اونگھ رہی تھی!
کریم کا باپ تیزی سے بڑے نیم پر چڑھا ۔ گھونسلے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ کّوا ’’ پُھر ررر ‘‘ کی آواز پیدا کرتا گھونسلے سے باہر نکلا اور چراگاہ پر اڑتا، کھیتوں پر سے تیرتا، ڈھیروں پر سے لپکتا ہوا لرزتے ہوئے افق میں غائب ہو گیا ۔
اس کے حواس معطل سے ہو گئے ۔ وہ ٹہنیوں سے لٹک کر نیچے آ رہا ۔ پوری قوت سے گھر کی طرف بھاگا اور دروازے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔’’ بیٹا کریم وہ کّوا تو اڑ گیا!‘‘
کریم کے لبوں پر ہنسی کھیل رہی تھی جیسے وہ اپنے باپ کے جنون کا مضحکہ اُڑا رہا ہے!
حکیم جی آئے۔ انہوں نے کریم کی نبضیں ٹٹول کر کہا۔’’ آج اس کے زخموں کو کسی نے بہت سختی سے چھیلا ہے، اسی لئے جانبر نہ ہو سکا۔ آپ کے گھر میں کون تھا ملک جی؟‘‘
نئی بیوی کے ہاتھ سے لقمہ گر کر پانی کے برتن میں جا گرا۔
کریم کا باپ کپڑے پھاڑتا ہوا باہر نکل گیا۔’’ لوگو !میرے میرے بچے کی ایڑی میں کانٹا چبھ گیا ہے، اسے نکالو۔ نیم کے درخت میں ایک کوّا رہتا تھا۔ وہ آج پربت سے پرے اڑ گیا ۔ اس کو پکڑ لاؤ۔ میری بیوی نے میرے بچے کے زخم چھیل دیئے ان پر پھاہا رکھو ۔۔۔۔ لوگو ۔۔۔ لوگو! تم میرا منہ کیا تک رہے ہو۔۔۔۔۔!!
رخشندہ بخآری 🍁

.............

ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو سنت سکھا رہے تھے کہ پانی ہمیشہ دیکھ کر پینا چاہیے اور تین سانسوں میں پیﺅ، اتفاق سے ایک یہودی بھی چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ باتیں سن رہا تھا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہماری جانیں، ہمارا مال سب کچھ قربان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں تاثیر ہی ایسی تھی کہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متاثر ضرور ہوتے۔
رات کو سوتے سوتے اس یہودی کو جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن رہا تھا، پیاس لگی، بہت زور کی پیاس محسوس ہوئی، جب اس یہودی کو پیاس لگی تو وہ اپنی بیوی سے بولا کہ مجھے اچھی طرح دیکھ کر پانی پلاﺅ۔ بیوی بولی: آپ کیسی باتیں کرتے ہیں، چراغ بجھا چکی ہوں،رات کا وقت ہے کیا دیکھ کے پانی پلاﺅں؟ ایسے ہی پی لیجیے، پانی تو صاف ستھرا ہوتا ہے گھر کا ہمارے۔“
یہودی کو بڑا غصہ آیا، بیوی سے بولا کہ ”چراغ جلاﺅ“ اور روشنی میں مجھے پانی دیکھ کر پلاﺅ، بیوی بک جھک کرتی اٹھی، سمجھی کہ شوہر پاگل ہوگیا ہے۔
آخر یہودی خود اٹھا اور چراغ روشن کیا، چراغ کی روشنی میں اس کی بیوی نے دیکھا کہ اندھیرے میں وہ جو پانی اپنے شوہر کے پینے کے لیے لائی تھی اس میں ایک سیاہ بچھو (عقرب) تیر رہا ہے، یہودی بھی دیکھ کر حیران رہ گیا، اس پانی میں سیاہ بچھو تیر رہا تھا۔
بیوی کو اس نے تمام ماجرا کہہ سنایا کہ کس طرح اس نے چھپ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنی تھیں کہ ”پانی ہمیشہ دیکھ کر پینا چاہیے“۔
صبح کو وہ یہودی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور رات کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنادیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا۔ یہودی بولا: ”اے اللہ کے رسول! جس مذہب کی احتیاط انسان کی جان بچالے تو وہ مذہب خود پورے انسان کو دوزخ کی آگ سے کیوں کر نہ بچائے گا“۔ اتنا کہا اور وہ یہودی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔

اللہ اکبر.... دوستو! پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو دیکھو۔

...........

چھوٹیوں میں چک ۵۱ تک کا سفر 
ہم گرمیوں کی چھوٹیاں تقریباً ہر بار نانا نانی کے ساتھ سرگودھا میں گزارتے تھے. کبھی سفر بس میں کرتے تھے تو کبھی ریل گاڑی میں معلوم نہیں کہ سفر کے اخراجات کم کرنے کے لئے ریل یا بس کا انتخاب ہوتا تھا یا کسی اور وجہ سے. بس میں ایک طرف کی دو جوڑی ہوئی سیٹیں لیتے تھے اور ساتھ میں رضائی تاکہ پیروں کی جگہ پر ڈال کر ہم میں سے دو بچے نیچے لیٹ سکیں. میری ایک بڑی بہن اور دو جوڑواں چھوٹے بھائی تھے. میں درمیانی تھی اور جس طرح سے عموماً ہم درمیانے نمبر کی اولاد محسوس کرتے تھے، میرا بھی وہی حال تھا. خیر، ہر کسی کو باری باری یہ موقع ملتا تھا کہ نیچے لیٹے. ایک بات تو میں بتانا بھول ہی گئی. ہمارا بس کا سفر ہمیشہ رات کا ہوتا تھا. رات کی دس بجے کی بس اور صبح چھے بجے ہم سرگودھا بس سٹاپ پر ہوتے تھے. امی ڈھیر سارا املیٹ اور پراٹھے یا کبھی کبھی ٹوسٹ ٹیفن میں ساتھ لے لیتی تھیں اور ہماری موج ہو جاتی تھی کہ آج ہم انڈا ٹوسٹ یا پراٹھا کہائیں گے.. ہم گھر کے چھ افراد تھے تو انڈا عموماً بیمار کو یا پھر کسی خاص موقع پر ہی بنتا تھا. آدھی عید تو سفر میں ہی ہو جاتی تھی کہ انڈا ملے گا، ساتھ میں کیلے یا سیب لے لیتے تھے. بہت عیاشی کرنی تھی تو گنڈیریاں لے لیتے تھے. لیکن اس کے ساتھ یہ نقصان ہوتا تھا کہ اترتے وقت تک منہ میں چھالے بن چکے ہوتے تھے کیونکہ گنڈیریوں کا کھانا کوئی اسان کام نہیں ہوتا تھا. لیکن اس کا مذہ ہی کچھ اور ہوتا تھا. ویسے معلوم نہیں ہمیں خوشی نانا نانی نے ملنے کی ہوتی تھی، ان کے گھر پر مکمل چِل ماحول کی ہوتی تھی، یا پھر اپنے گھر سے نکلنے کی ہوتی تھی. 
اللہ اللہ کر کے سرگودھا بس سٹاپ پر پہنچتے تھے، امی ٹانگہ ڈھنڈتی تھیں اور ہم سب کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے ایر ساتھ ہی ساتھ سامان کا خیال رکھنے کا کہہ جاتی تھیں. چند ٹانگے والوں سے نرخ کرنے کے بعد ایک نا ایک ٹانگے بان ہمیں ہماری منزل تک ہمارے پیسوں میں پہنچانے پر راضی ہو جاتا تھا. میری امی کا شمار بھی ان خواتین میں ہوتا تھا جو چار سو کا سوٹ دوکاندار سے بارگینینگ کر کر کے ایک سو پچاس میں لے لیتی تھیں. جو کہ میرے خیال میں ایک ہنر ہے، جو میں نے آج تک نا سیکھا. خیر ٹانگا ایک سیدھی سڑک پر جاتا تھا جس کے دونوں طرف درخت ہی درخت تھے. ہر چک کا نمبر ایک پتھر کی سِل پر لکھا ہوتا تھا. آہستہ آہستہ ہم ہر چک نمبر پڑھ پڑھ کر اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہوتے تھے. ہر ایک سِل ہماری جوشی میں اضافہ کرتی تھی. جب اپنے چک اکونجا کی طرف مُڑتے تھے ہمیں اپنا علاقہ، اپنی جاگیر، اپنی زمین کا احساس ہوتا تھا. بڑھ بڑھ کر ٹانگے بان کو رستہ بتاتے تھے کہ اِدھر مُڑنا ہے اُدھر مڑنا ہے.. گھر کے رستے میں نانا کا پچھلی کا تالاب اتا تھا اور ہماری خوشی دوبالا ہو جاتی تھی جب ہم کسی کو مچھلی پکڑتے دیکھتے تھے کیونکہ نانا نے پہلے سے ہی انکو بتایا ہوتا تھا کہ آج بچے آ رہے ہیں تو مچھلی پکڑنی ہے انکے لئے. گھر کے رستے میں اگر نانا دیکھ گئے تو چلتے ٹانگے سے چھلانگ لگا کر ان کو لپٹ جاتے تھے. نانا بھی لاٹھی کو ہوا میں لہرا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے. 
گھر پہنچے تو نانی نے اہتمام کیا ہوتا تھا. صبح کی چائے کا الگ مزہ ہوتا تھا جب نانی گھر کی بکری سے دودہ دوہ کر لکڑیاں جلا کر کوئلہ بنا کر پڑاتھے اور چائے بناتی تھیں. اب سوچتی ہوں ہمیں کچھ غرض نہیں ہوتی تھی کہ کام کون کرے گا، برتن کون دھوئے گا، وغیرہ وغیرہ.. عرض تھی تو صرف اپنے کھیل کود کی. گھروں کے اندر چھوٹی کہڑکیاں ہوتی تھیں جو ہر جڑے گھر کے دالان میں کھلتی تھی. اب سوچتی ہوں ہم کیسے اتنی چھوٹی کہڑکی سے شوں کر کے دوڑہ کر گزر جاتے تھے. اب وہ کھڑکیاں بہت چھوٹی لگتی ہیں لیکن اس عمر کے لحاظ سے ہمارے لئے کافی بڑی تھیں. 
ہمرے گھر میں ٹی وی نہیں تھا. نانا خبریں ریڈیو سے سنتے تھے اور ہم پوا محلہ رات کے آٹھ بجے والے ڑرامے کے لئے ہمسائے کے گھر پر جمع ہوتے تھے. سب کی خیر خبر بھی مل جاتی تھی، کوں کہاں گیا ہوا ہے، کس کے گھر پر کیا چل رہا ہے. اب سوچتی ہوں کتنے دل گردے کی بات ہے کہ ہر روز گھر میں آٹھ بجے میلا لگنا کوئی اسان کا نہیں تھا. رات کے آتھ بجے کے روٹین کی چھوٹی صرف تم ممکن تھی اگر وہ ہمسائے گھر پر موجود نہیں ورنہ بلا ناغہ ہر گھر سے تین چار لوگ تو تھے ہی تھے. کمرے میں تینوں طرف چارپائیں تھیں، ضروری نہیں کہ سب چارپایئوں پر بیٹھیں، جہاں جس کو جگہ مل گئی، بیٹھ گئے. ہم بچے ڈرامے کے بعد اُٹھ جاتے تھے اور بڑے نو بجے کی خبریں سن نے کے بعد. جب گھر اتے تو نانا نے ریڈیو پر اپنی خبریں سیٹ کی ہوتی تھیں. جس کا ایک خاص ریدم اور سُر ہوتا تھا. شام سے ہی ہم گرمیوں میں چارپائیاں صحن میں ڈال جاتے تھے اور ان پر ڈلنے والے گدّے ایک چارپائی پر کھول دیتے تھے کہ ٹھنڈی ہو جائیں. پانی کے مٹکے نانی صبح سے کنویں کے پانی سے بھر لیتی تھیں جو کہ ایک لکڑی کے سٹینڈ پر پڑے ہوتے تھے. صبح کی چائے سے اگر کوئی دودہ بچ گیا تو برامدے میں چھت سے لٹکتی ایک کھونٹی ہوتی تھی اس میں وہ رکھ دیا جاتا تھا کہ بلی سے دور رہے. اگر کوئی سالن یا روٹی رہ جاتی تو ایک چھوٹی سے الماری جسے ہم ڈولی پولتے تھے جس پر چاروں طرف کھڑکیوں والی جالی لگی ہوتی تھی، اس میں رکھ دیتے تھے. 
بغیر پنکھے، بغیر فریج، بغیر ٹی وی کے دن رات گزرتے تھے. اب سوچتی ہوں ہم نانا کو اطلاح کیسے دیتے ہونگے اپنی امد کی.. ایسا لگتا ہے پچھلی صدی کی بات کر رہی ہوں .. پچھلی صدی کی تو ہے لیکن تقریبا پینتیس چالیس سال پرانی یہ یادیں ہیں جو اب بلکل نا قابل یقین لگتی ہیں.. کتنی خاموشی تھی زندگی میں، ٹھراؤ تھا ہر سو، کتنی اپنائیت تھی، کتنا صبر تھا، کتنا خوصلہ تھا، کتنی اسان اور سہل ہونے کے ساتھ ساتھ بھر پور زندگی تھی. دلوں میں دوسروں کے لئے کتنی جگہ تھی. اللہ ہمیں ضرور یہ موقع دے کہ ہم بھی اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو اچھی یادیں دیں. 
اللہ ہر دادا دادی، نانا نانی کو اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے ساتھ بہر پور زندگی جینے کا موقع دے، یہ بچے ہم بڑوں کی لائف لائن ہوتی ہیں، جب یہ چھوٹ جاتے ہیں تو ہم بڑوں کی لائف لائن کٹ جاتی ہے. الحمد للہ 
عائشہ
..........