Kashif Sara aur Nomi ki Urdu Moral Story - Urdu Kahaniyan Pdf

AoA Website Mein Apka Welcome ha is post mein ap ky liye ik Zabardast story ly kr aya hun jo ky apko boht pasand aye gyi

Yeh Kashif Sara aur Nomi ki Urdu Moral Story ha Jo kay apko Pdf mein mil ri ha ap isy pdf mein Download kar ky read kr sakty hain

Urdu Kahaniyan Pdf Mein Download karny ky liye neachy diye download button pr click kren to apko yeh Urdu Kahani Pdf mein Load Hojye gyi

Kashif Sara aur Nomi ki Urdu Moral Story - Urdu Kahaniyan Pdf

Kashif Sara aur Nomi ki Urdu Moral Story - Urdu Kahaniyan Pdf

Kaahif Ik Karobari Admi Tha aur iski Shadi Sara Say Hui Thi jo Kay boht Well Educated thi in dono ki Shadi ko Kafi saal hogy thy aur inky 2 Bachy bi Thy 

Wo Sab boht Khush Haal Thy Kashif Subha Kaam Kay liye Nikal Jata tha Aur Sara Ghar Mein Free honey ki Wajse Bachon ko Teution parati thi 

Kashif Sara pr Had Say Zyda Eitbar Karta tha aur Yehi Wajha thi kay Sara kay Pas Matric Pas Bachy b Parney Kay liye aty thy Kashif ko is par kabhi eitraz Na Huwa 

Download Urdu Story Pdf

Kashif Sara aur Nomi ki Urdu Moral Story - Urdu Kahaniyan Pdf

i Hope Apko Kashif Sara aur Nomi ki Urdu Moral Story Achi Lagy gyi last mein Coment kar kay ap lazmi batana kay apko story kesi laghi mazeed asi post ky liye website ki aur moral story b read kren
Thanks For Downloading...

آج عشاء کی نماز بڑی خوبصورت تھی۔ بہت سے لمحے آئے، جب دل کیا یہیں رک جائے سب کچھ۔ کیسے خوبصورت لمحے تھے۔ سوچ بڑی چیز ہے۔ اچھی سوچ آ جائے، اچھے الفاظ آ جائیں، کمال ہی ہو جاتا ہے، بات بن جاتی ہے۔
میرا دل کر رہا تھا پھر سے پڑھنے لگوں، پھر سے شروع کر لوں۔ میرا دل کر رہا تھا پھر سے کھڑا ہو جاؤں اللہ تعالیٰ کے سامنے۔ کیسا خوبصورت احساس تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری عجیب سی عادت ہے۔ میں کسی سے کام ہو تو فون کر کے بتاتا ہوں۔ کسی سے ملنے جاؤں تو بس ملنے جاتا ہوں۔ میں ڈاکٹر صاحب سے ملنے جاتا، تو یونہی بغیر بتائے، بغیر معلوم کیے، کہ انہوں نے ملنا ہے یا نہیں۔ مل جائیں گے تو ٹھیک ہے، ورنہ واپس آ جاؤں گا۔
پتہ نہیں کیوں میرے ذہن میں بیٹھ گیا ہے، کہ قرب اور محبت کے لمحے کام لے کر جانے سے ضائع ہو جاتے ہیں۔ مجھے ڈاکٹر صاحب سے محبت تھی، میں نے جانا، اور انہوں نے پوچھنا کیسے آئے ہیں، تو میں نے کہنا، ویسے ہی ملنے آیا ہوں۔ اور ہوتا بھی یہی تھا، ملاقات کو دل کرتا تھا بس، اور میں اٹھ کر ملنے چلا جاتا تھا۔
سٹوڈنٹ لائف میں نماز کی کوئی پابندی نہیں تھی ۔ لیکن بعض دفعہ رات گئے، بعض دفعہ رات ایک دو بجے، میرا دل کرنا نماز پڑھوں، اور میں نے وضو کر کے نماز پڑھنے لگنا۔ بڑی خوبصورت نماز ہوتی تھی وہ۔ اپنے آپ دل چاہ کر پڑھنے والی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں عشاء کی نماز کے لئے مصلّٰی بچھاتے ہوئے سوچ رہا تھا، کتنا قریب جا رہا ہوں میں اس ہستی کے۔ کسی وقت، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہر نماز ایک نئی نماز ہے۔ ہر ملاقات ایک نئی ملاقات ہے۔ اللہ اکبر کہتے ہوئے میرے ذہن میں آیا، وہ جو اس زمین و آسمان کا خالق ہے، وہ جو ہر چیز کا خالق ہے، وہ کتنا عظیم ہے، کتنا مہربان ہے۔ مجھے خیال آیا میں نماز میں داخل ہو چکا ہوں۔ میری نماز شروع ہو چکی ہے۔ میری ملاقات شروع ہو چکی ہے۔ اور پھر رہ رہ کر خیال آتا رہا۔ میں اپنا حفظ روک لوں، مجھے بھول جائے میں کہاں پہنچا تھا، میں پھر شروع کروں۔ لیکن کیسا خوبصورت وقت تھا وہ۔
میں کوئی کام لے کر نہیں گیا تھا۔ میں ویسے ہی گیا تھا۔ مجھے لگا کوئی کام لے کر آنا بھی عجیب ہے۔ عجیب حجاب ہے۔ اللہ تعالیٰ سے معافی اور بخشش کے علاوہ اور کیا مانگ سکتا ہے بندہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں میں ہم ڈرائیونگ کرتے ہوئے، اکثر اپنی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے رہتے ہیں۔ ہر کچھ دیر بعد سب کچھ دھندلا جاتا ہے۔ بندہ کہیں قرب میں پہنچا ہو تو اپنے گناہ ایسے ہی یاد آتے ہیں۔ فرق تو شائد کوئی نہیں پڑتا، لیکن ایسے ہی تصور آتا ہے، کہ اگر یہ یہ گناہ نہ کیے ہوتے تو کتنا خوبصورت لگتا، کتنا شفاف محسوس ہوتا یہ سب کچھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی ٹھیک ہے۔ بندہ سوچ لے، جو کچھ بھی کہنا ہے نماز میں کہنا ہے۔ نماز سے باہر بس انتظار کرنا ہے۔ نماز سے باہر بس اگلی نماز کی تیاری کرنی ہے۔ نماز سے باہر بس سوچ کر بیٹھنا ہے، کہ یہ یہ بات کرنی ہے۔
بندہ بڑا بے قراری سے انتظار کرتا ہے نماز کا۔ جوں جوں نماز کا وقت قریب آتا جاتا ہے، اس کا دل دھڑکنے لگتا ہے، زور سے، اور زور سے۔ زور زور سے۔ بندہ سوچنے لگتا ہے، پتہ نہیں ابھی تھوڑی دیر بعد کیا ہو جائے۔ بندہ سوچتا ہے پتہ نہیں یہ نماز مکمل ہو تو کیا ہو چکا ہو۔
بڑا اچھا لگتا ہے، یہ تصور کر کے، یہ سوچ کر۔
بعض دفعہ تو محسوس ہوتا ہے، کہ ڈسٹربنسز کا خوف بھی ایک دھوکا ہے، ایک رکاوٹ ہے۔ کیسا خوف بھلا ڈسٹربنس کا۔ موٹر چل رہی ہو، بیوی بچے باتوں میں مصروف ہوں، گلی سے کوئی ریڑھی والا گزر رہا ہو، بچے کھیل رہے ہوں، کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ بھی ملاقات کا حصہ بن جاتا ہے۔
بات تو اس تصور کی ہے کہ میں ملنے جا رہا ہوں، میں ملنے آیا ہوں، میں مل رہا ہوں، میں سامنے بیٹھا ہوں۔ وہ کون ہے۔ وہ میرا خالق ہے۔ وہ مجھے پیدا کرنے والا، مجھے بنانے والا ہے۔ میں کچا ہوں، خام ہوں، نامکمل ہوں، اسے سب پتہ ہے۔ میں کیا ہوں، اسے سب پتہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو نمازوں اور تلاوتوں میں انہماک اور وفور عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی

دلیل یہ تھی کہ

تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے أۓ ہو

جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گی ہے

یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گئی

تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے

اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے

ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا

خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے

واپسی پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی

خاتون نے لکھا ہے کہ :

میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹا تقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی

ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے

ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد معمور تھے

روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پرواگرام بنتے ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعث فخر جانتے

اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا

ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ

برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل سے ہی میسر تھے

ٹرین کے سفر کے دوران نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھا

جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے تو

سفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا

اور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا

اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی

ایک بار ایسا ہوا کہ

ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی

اس سے پہلے کہ میں بولتی میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھا

اُس نے ڈرائیور سے کہا کہ ;

ٹرین نہیں چلانی

ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا کہ :

جو حکم چھوٹے صاحب

کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ

اسٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھا

لیکن

بیٹا ٹرین چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوا

بالآخر

بڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا

چند ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی

ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے

ہماری منزل ویلز کی ایک کاونٹی تھی جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا

بیٹی اور بیٹے کو اسٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی

قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہو گئی

جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہو گیا

جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو عالیشان کمپاونڈ کے بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضگی کا اظہار کرنے لگا

وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیا

وہ زور زور سے کہہ رہا تھا

یہ کیسا الو کا پٹھہ ڈرائیور ہے

ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی ہے

میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواؤں گا

میرے لیے اُسے سمجھانا مشکل ہو گیا کہ :

یہ اُس کے باپ کا ضلع نہیں ایک آزاد ملک ہے

یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا

وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ

اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کر سکے

آج یہ واضع ہے کہ :

ہم نے انگریز کو ضرور نکالا ہے

البتہ غلامی کو دیس سے نہیں نکال سکے

یہاں آج بھی کئی

1- ڈپٹی کمشنرز
2- ایس پیز
3- وزرا مشیران
4- سیاست دان
5- جرنیل

صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو گھنٹوں سٹرکوں پر ذلیل و خوار کرتے ہیں

اس غلامی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ

ہر طرح کے تعصبات اور عقیدتوں کو بالا طاق رکھ کر ہر پروٹوکول لینے والے کی مخالفت کرنی چاہئیے

ورنہ صرف 14 اگست کو جھنڈے لگا کر اور موم بتیاں سلگا کر خود کو دھوکہ دے لیا کیجئیے کہ ہم آزاد ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏کسی نے پوچھا: جبران خلیل جبران: انسانوں میں سب سے حیرت انگیز چیز کیا ہے؟اس نے جواب دیا: "لوگ بچپن سے بیزار ہو جاتے ہیں، بڑے ہونے کی جلدی کرتے ہیں، اور پھر دوبارہ بچے بننے کی آرزو کرتے ہیں، وہ پیسے اکٹھے کرنے کے لیے اپنی صحت کو برباد کرتے ہیں، پھر صحت کو بحال کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، وہ مستقبل کے بارے میں فکر مندی سے سوچتے ہیں اور حال کو بھول جاتے ہیں، اس لیے وہ زندہ نہیں رہتے۔ وہ اس طرح جیتے ہیں جیسے وہ کبھی نہیں مریں گے، اور وہ ایسے مرتے ہیں جیسے وہ کبھی جیے ہی نہیں۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

. . . . میرے پاس فیکٹری میں ایک بائیس /24 سالہ لڑکا کام کرتا ہے آج بارش کی وجہ سے میں نے اس سے پوچھ لیا کہ میں بازار ناشتہ کرنے جا رہا ہوں آپ بھی آ جاؤ 
اس نے کہا سر آپ جاؤ میں نے ناشتہ نہیں کرنا میں نے وجہ پوچھی تو ٹال گیا لیکن میرے اصرار پر بتایا کہ اس کے گھر بچہ ہونے والا ہے اور اس کی بیوی کمزور ہے اس لیے میں نے ناشتہ کرنا چھوڑ دیا ہے 10/11 بجے کھانا کھا لیتا ہوں بازار سے دو روٹیاں لے آتا ہوں اور رات کو باہر سموسے والے سے تھوڑی سی چٹنی لے کر روٹی کھا لیتا ہوں اس طرح کرنے سے میرا روز کا 100 روپیہ بچ جاتا ہے میں ان پیسوں سے اپنی بیوی کے لیے طاقت کا شربت اور پھل لے جاتا ہوں  
---------------
میں سوچ رہا تھا جس بچے کے پیدا ہونے سے پہلے باپ بھوک کاٹ رہا ہے کل جب بڑھاپے میں پہنچے گا تو میڈیا اور لبرل ازم سے متاثر یہی تعلیم یافتہ بچہ باپ سے کہے گا آپ کوئی اچھا کام کر لیتے آج ہمارے پاس بھی دولت ہوتی پاس بیٹھی بیوی بھی کہہ دے گی ہاں بیٹا میں نے ساری زندگی تنگی میں ہی گزاری ہے تو اس باپ کے دل کے کتنے ٹکرے ہوں گے۔۔۔

Thanks For Reading plz Coment