Rula Dene Wali Urdu Moral Stories - Urdu Kahaniyan Pdf

Assalamualaikum Umeed krty hain ap sb log teek hun is post mein b apko behtareen Story milny wali ha jo ky apko boht pasand aye gyi

Yeh Saud ki Rula Dene Wali Urdu Kahani ha Jo kay pdf mein apko mil ha ap pdf mein download kr skty hain

Urdu Kahaniyan Pdf mein download karny ky liye neachy diye huey download button pr click kren to file automatically save hojye gyi

Rula Dene Wali Urdu Moral Stories - Urdu Kahaniyan Pdf

Rula Dene Wali Urdu Moral Stories - Urdu Kahaniyan Pdf

Yeh Saudia Arab kay ik City mein pais honey wala Sacha Waziya ha, Ik Saudi ka Biyan kay mein aur Saudia kay ik Miya Mein Tijarat Krty Thy ik Din Jummy Kay Baad Janazay ka Elaan Huwa.

Namaz Janaza ki Adagai ki gai to logon nay ik dosry sy Pochna Shuru kr dia yeh Janaza Kis Ka ha, Pata Chala kay heh Janaza Mery Dost Saud ka ha jo Pechli Raat Dil ka Dhoora Parnay sy Mar Gaya tha

Download Full Urdu Kahani in Pdf

Rula Dene Wali Urdu Moral Stories - Urdu Kahaniyan Pdf

i Hope Apko Saud ki Urdu Kahani Achi lagyi gyi sb log coment kr k lazmi batana ky kesi laghi aur Mazeed Urdu Kahaniyan Pdf mein Download karny ky liye website ki baqi post b lazmi read kijiye ga

Thanks For Downloading...


آج جب کئی گھروں میں افطاری کا دستر خوان سجے گا تو دستر خوان کی ایک دو نشست خالی ہونگی، ان نشستوں سے جڑی یادیں انہیں رولا دیں گی ، وہ نشستیں مرحومین کی ہونگی یا ان پیاروں کی ہونگی جو اب کسی بیماری سے لڑ رہے ہیں اور ہسپتالوں میں صاحب فراش ہیں، یا وہ نشستیں ہونگی جو رزق کی خاطر اپنے پیاروں کو چھوڑ کر پردیس جا بیٹھے ہیں،

اللہ کریم ہمارے مرحومین کی بخشش فرما، بیماروں کو صحت کاملہ عطا فرما، جو پردیس میں ہیں انہیں اپنے حفظ و ایمان میں رکھ،

 اے دونوں جہانوں کے مالک ہمیں صحت اور عافیت کے ساتھ رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطافرما۔ 


اللهمَ آمین یارب العالمین

..........

میں بھانجی کے ہمراہ بیوٹی پارلر میں موجود تھی۔ وہ شادی سے قبل مختلف پارلرز کا وزٹ کر رہی تھی۔ یہ پارلرز جو اب ’’اسٹیٹس سمبل‘‘ بن گئے ہیں۔ ہمارے شہر میں سب جانتے ہیں کہ کس پارلر کے کیا نرخ ہیں۔ اسی لیے جب شادی یا ولیمے میں اسٹیج میں دلہن کے پاس جاتے ہیں تو دعائیں دینے اور نیک خواہشات کا اظہار کرنے سے پہلے ہر ایک کا سوال یہی ہوتا ہے کہ کس پارلر سے تیار ہوئی ہو؟ یہ اتنا سادہ سوال نہیں ہوتا، اس سوال میں بہت سے سوال پوشیدہ ہوتے ہیں جس میں دلہن کے معاشی پس منظر کو جاننا بھی شامل ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ آپ سماجی تقاضوں سے کتنا واقف ہیں۔ اب گلی محلے کے بیوٹی پارلرز سے متوسط خاندانوں کی لڑکیاں بھی تیار نہیں ہوتیں، ان سے معمولی نوعیت کی سروسز لی جاتی ہیں۔ تیاری کے لیے مشہور زمانہ بیوٹی پارلرز کا رخ کیا جاتا ہے جن میں بیشتر کسی ماڈل اداکارہ کے نام پر ہوتے ہیں۔

ہاں تو میں ذکر کر رہی تھی اس منظر کا جو ذہن پر نقش ہو گیا۔ جدید لباس میں دوپٹے سے بےنیاز بالوں کو انتہائی خوبصورتی سے کچھ نے جوڑے کی شکل میں اور کچھ نے پونی سٹاٹیل کی شکل میں مضبوطی سے باندھا ہوا۔ انتہائی اسمارٹ جن کی چلت پھرت بتا رہی ہے کہ ان میں سے بیشتر نے ’جم‘ وغیرہ جوائن کیا ہوا ہوگا یا ورزش اور واک کی عادی ہوں گی۔ ویسے تو یہاں کی مصروفیات بجائے خود ورزش سے کم نہیں، لیکن بہرحال اگر کوئی آپ کو ’فٹ‘ نظر آتا ہے تو اس کے لیے بہت کچھ کوشش بھی کرتا ہے، اور اس کی داد بھی پاتا ہے۔ ڈھیلے ڈھالے چربی چڑھے جسموں پر کوئی دوسری نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا اور ڈالتا بھی ہے تو ہمدردی کی، اور دل سرگوشی کرتا ہے ’ ہائے بےچاری‘، جس کو زبان پر آنے سے بمشکل روکنا پڑتا ہے۔ ہاں وہ ورکرز صرف اسمارٹ ہی نہیں تھیں بلکہ ان کے ہاتھوں کی حرکت بتا رہی تھی کہ وہ اپنے کام میں کس قدر ماہر ہیں۔ ظاہر ہے ہر دن ایک ہی کام کر رہی ہیں اور معاوضہ پا رہی ہیں۔ تیز بجتی ہوئی موسیقی، راہداری میں لگا بڑا سا اسکرین جس پر کسی ٹی وی چینل کا اسٹائل ایوارڈ براہ راست آ رہا تھا، دیواروں پر دیدہ زیب تصاویر ان دلہنوں کی جویہاں سے تیار ہوئی تھیں، کچھ پاکستانی اور انڈین ادا کاراؤں کی تصاویر جو غالباً لذت نگاہ کے لیے تھیں۔ پارلر کے مختلف کمروں سے خوبصورت دلہنیں تیار ہو کر نکل رہی تھیں۔ کچھ دیر استقبالیے کے ساتھ پڑے صوفوں پر بیٹھتیں۔ اس دوران ان کے ساتھ آئی ہوئی بہنیں یا کزنز وغیرہ ان کے خاندانوں کی خواتین بھی تیار ہونے آئی ہوئی تھیں۔ آس پاس بیٹھی کچھ لڑکیوں سے گفتگو کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ کسی کی بھابھی تیار ہو رہی ہیں جن کا آج ولیمہ ہے، کسی کی بہن جن کی آج رخصتی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ امیاں بھی مختلف کمروں سے ’تیار شدہ‘ برآمد ہو رہی تھیں۔ سارا خاندان اب عموماً ایک ہی پارلر بک کرا لیتا ہے کہ الگ الگ لانا لے جانا کس کے لیے ممکن ہوگا اور درجنوں کاموں کے درمیان۔ یہ انھی بیوٹی پارلرز کا کمال ہوتا ہے کہ اب اکثر شادیوں کی تقریبات میں جا کر ہمیں دلہن اور دولہا کی امی کو پہچاننے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس وقت تو ہمیں انتہائی شرمندگی ہوئی جب بھتیجی کی شادی میں ہم نے اپنے دائیں ہاتھ کی جانب کھڑی خاتون سے مصافحہ کرنے کے بعد سامنے کھڑی دولہا کی بہن سے پوچھا کہ امی جان کہاں ہیں، ہم تلاش کر رہے ہیں کہ ان کوپہلے مبارکباد دے دیں؟ تو وہ لڑکی ہنستے ہوئے بولی جن سے ابھی آپ نے سلام دعا کی ہے، یہی تو امی ہیں میری، آپ پہچانی ہی نہیں۔ ہماری انتہائی شرمندگی کو یہ کہہ کر اس نے زائل کر دیا کہ ہم بھی امی سے یہی کہہ رہے تھے کہ آج تو آپ بالکل پہچانی ہی نہیں جا رہیں! میک اپ کی دبیز تہوں میں چھپے سراپے کو تلاش کرتے ہوئے کبھی کبھی اپنی کم نگاہی کا بھی اعتراف کرنا پڑ جاتا ہے!

اس سارے منظرنامے میں یہ منظر بہت دلکش تھا کہ کمرے سے دلہن ایک ناز و انداز کے ساتھ برآمد ہوتی۔ دوتین لوگ یعنی گھر والی خواتین لپکتیں، اس کو صوفے پر بٹھاتیں، رشک بھری نگاہوں سے اس پر بہت سی نظریں اٹھتیں۔ اتنے میں کسی کے فون پر بیل بجتی، پارلر کے سامنے گاڑی آ کر رکتی، دلہن کچھ خواتین کی مدد سے گاڑی میں بیٹھتی اور گاڑی روانہ ہوجاتی۔ ہر چند منٹ بعد ایک دلہن برآمد ہوتی، چند منٹ بعد گاڑی برآمد ہوتی، اور دلہن روانہ ہوجاتی۔ میری بھانجی جس کے ساتھ میں موجود تھی وہ تو استقبالیے پر مختلف معلومات لیتی رہتی، ان کی بڑی بڑی البمز دیکھتی رہی، کبھی وہ اپنے موبائل اسکرین پر بھی بہت کچھ دکھا اور سمجھا رہی تھیں جس سے مجھے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی، ماسوائے اس کے کہ دنیا کتنی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے تو دلہنیں سکھی سہیلیوں کی مدد سے گھر میں تیار ہو جاتی تھیں۔ جو جو آرائش کا سامان جس جس کے پاس ہوتا اکٹھا ہو جاتا تھا۔ مہندی، ابٹن گھر میں بہنیں اور بھاوجیں ہی لگا دیتی تھیں۔ شرمائی لجائی دلہن پر خوب روپ چڑھتا تھا۔ آج کل لڑکیاں مہینوں پہلے تیاری کے لیے پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ مختلف ویب سائٹس کے وزٹ ہوتے ہیں کہیں کے بال پسند آتے ہیں تو کہیں کا میک اپ۔ اس میں بھی کسی کا آنکھوں کا میک اپ پسند آتا ہے تو کسی کا بیس اور کسی کا ہیر اسٹائل تو کسی کا دوپٹہ سیٹ کرنے کا اسٹائل۔ میں تو اپنے گھر میں یہ سب ڈسکشن سن سن کر لطف لیتی ہوں کہ واہ رے زمانے تیری چال کے سب رنگ نیارے۔ ایک نکاح کی سنت کو پورا کرنے کے لیے کتنی مغز ماری ۔ جس نبیؐ کی یہ سنت ہے اس کے اور بھی بہت سے احکامات ہیں جو خاص انھی مواقع کے لیے ہیں مگراس پوری فضا میں کہیں بھولے سے بھی کسی کو یاد نہ آئیں گے۔

مجھے بیوٹی پارلر کا یہ منظر اس وقت بری طرح یاد آیا جب میں ایدھی سینٹر کے سرد خانے سے متصل انتظارگاہ میں بیٹھی تھی۔ ممانی جان کی میت ہسپتال سے ایدھی سینٹر کے سرد خانے میں رکھی گئی تھی رات گزارنے کے لیے، اس لیے طے پایا کہ غسل کے بعد گھر لائی جائے کیونکہ اپارٹمنٹ کی کئی منزلہ عمارتوں میں جبکہ لفٹ کی سہولت بھی نہ ہو، میت کو لے جانا اور سیڑھیوں سے اتارنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جس کمرے میں ہم موجود تھے، پیچھے پینا فیلکس کے بینر پر درج تھا ’ایدھی غسل و میت سینٹر‘، سامنے بہت بڑے بینرز پر دوسرا کلمہ درج تھا، ساتھ ہی ایک چھوٹے سے کارڈ پر عبارت درج تھی کہ ’ویڈیو بنانے اور تصویر لینے کی اجازت نہیں‘، کمرے کی دیوار کے ساتھ کوئی گز اونچا چبوترہ تھا جس پر ہم سب بیٹھے تھے۔ ترتیب سے اسٹریچرز پر میتیں رکھی ہوئی تھیں، سفید کپڑوں میں لپٹی ہوئی۔ جس کے غسل کی باری ہوتی، اس کو سرد خانے سے نکال لایاجاتا۔ اب ہمارے سامنے ممانی جان کا ٹھنڈا وجود غسل کا منتظر تھا۔

میرے دائیں طرف تیس برس کے لگ بھگ ایک خاتون برابر رو رہی تھیں۔ ان کے سامنے بھی اسی طرح ایک جنازہ اسٹریچر پر موجود تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ بولیں میری ساس ہیں۔ میں نے تعزیت کی اور معلوم کیا کہ کوئی بیماری وغیرہ تھی؟ تو بولیں کہ نہیں کل رات اچانک ہارٹ فیل ہوا ہے۔ بیٹیاں تو روتی ہی ہیں ماؤں کی جدائی پر، مجھے بہو کا یوں زار و قطار رونا بہت اچھا لگا اور بڑا رشک آیا کہ مرحومہ کتنی اچھی ساس ہوں گی!

انتہائی بائیں جانب دو ادھیڑ عمر عورتوں کی بےکلی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ان دونوں کو ایک تیسری خاتون سنبھال رہی تھیں۔ ان کے سامنے بھی اسٹریچر پر کوئی خاموش وجود تھا جو انھیں چھوڑ کر جا چکا تھا۔ میں نے پوچھا مرحومہ سے کیا تعلق ہے آپ کا تو دلاسہ دینے والی خاتون بولیں یہ دونوں ان کی بیٹیاں ہیں، میں ان کے ماموں کی بیٹی ہوں۔ ذرا دیر میں غسل خانے کا دروازہ کھلا، اندر موجود خاتون نے آواز دے کر کسی کو بلایا، داخلی دروازہ کھلا، تیزی سے دو مرد اندر داخل ہوئے، غسل خانے سے اسٹریچر کو دھکیلتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھے، جہاں ایمبولینس پہلے ہی منتظر تھی۔ بہت اہتمام سے جنازے کو اسٹریچر سے ایمبولینس میں شفٹ کیا گیا، باقی لوگ وہیں ساتھ والی نشست پر بیٹھ گئے، ساتھ میں جو غمزدہ سے صاحب تھے وہ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر براجمان ہوگئے، ایمبولینس لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ ہر نصف گھنٹے بعد یہی منظر دہرایا جا رہا تھا۔ چونکہ ہماری تیسری باری تھی اس لیے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ اس عبرت کدے کے ہر لمحے سے عبرت حاصل کی جائے۔ سٹریچر کو غسل خانے کے اندر لے جانے اور باہر نکالنے کے لیے مرد حضرات کو مدعو کیا جاتا، باقی امور خواتین نے سنبھالے ہوئے تھے۔

پھر ہماری باری آگئی، اتنی تند و تیز رفتار سے دو آدمی ممانی جان کا اسٹریچر دھکیل کر غسل خانے میں لے گئے، پھر باہر نکل گئے۔ وہاں مشینی انداز سے کام کرتی دو عورتوں سے میں نے سوال کیا کہ یہاں ایک دن میں کتنے مرنے والے نہلائے جاتے ہیں۔ اس نے منہ میں موجود پان کو جلدی سے حلق کی جانب دھکیلا، زبان کو بولنے کے لیے فارغ کیا اور گویا ہوئی، باجی ہر دن کی تعداد الگ الگ ہوتی ہے، کبھی کبھی سو سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں، کبھی پچاس اور کسی دن تو دس بارہ ہی ہوتے ہیں۔ وہ تیزی سے ممانی جان کی طرف بڑھی تو ہم نے کہا کہ ہمیں غسل کے لیے تمہاری ضرورت نہ ہوگی، بس سامان مہیا کر دو۔ دائیں بائیں دروازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولی اس میں روئی ہے، کپڑے ہیں، کافور، صابن، کفن اس دراز میں ہے۔ اس نے بڑی بڑی بالٹیوں میں گرم ٹھنڈے پانی کے نل کھول دیے۔ ان سب کے لیے یہ سب کتنا عام سا ہوگا، ان کے معمولات میں شامل ہے۔ ایک دن میں کتنے مردے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہوں گی۔ لواحقین کا رونا دھونا الگ، ایمبولینسوں کا منٹ منٹ آنا، ایک کا آنا اور ایک کا جانا۔ کوئی ان عورتوں سے پوچھے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ میں بڑے ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹرز اور عملے کے بارے میں بھی سوچتی ہوں کہ زندگی کی حقیقت اوراس کا اصل روپ ان سے زیادہ کس نے دیکھا ہوگا! مگر دیکھنے اور سوچنے کے درمیان بھی ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ میں نے سوال کیا کہ تم لوگ نماز پڑھتی ہو؟ تو بے چارگی سے وہ بولی ’وقت ہی کہاں ملتا ہے، پھر پاکی ناپاکی کا بھی یہاں مسئلہ رہتا ہے، ہر وقت تو یہی کام کرتے رہتے ہیں‘، میں نے تلقین کی کہ تم اتنا بڑا کام کر رہی ہو، جس کی حدیث میں بہت اجر کی خوشخبری ہے۔ پاکی ناپاکی کا وہم چھوڑ دو، نماز ادا کر لیا کرو، تو تمھارا یہی کام روز آخرت تمھاری نجات کا سبب بن جائے گا۔ ان کو سب گنتی تھی کہ کتنے بجے تک کتنے مردے اور نہلانے ہیں۔

پھر ممانی جان بھی کفن پہن کر تیار ہو گئیں، پھر ان کو اسٹریچر پر شفٹ کر دیا تب ان خاتون نے آواز دی اور وہی دو آدمی تیزی سے داخل ہوئے، اسی طرح میت باہر آئی، چبوترے کے باہر کھڑی ایمبولینس میں منتقل کر دی گئی، ہم پیچھے موجود گاڑی میں بیٹھ کر ایمبولینس کے ہمراہ گھر کی جانب روانہ ہو گئے، جہاں ایک ایک منٹ میت کا انتظار کیا جا رہا ہوگا۔ جونہی میت شامیانے میں رکھ کر آخری دیدار شروع ہوا، خواتین بے تابانہ آگے بڑھیں۔ عبرت کی نگاہ تھی ہر نگاہ، کسی کے ہاتھ میں تسبیح، کسی کے ہاتھ میں سپارے اور سب کی آنکھوں میں آنسو۔ پھر کسی خاتون نے بآواز بلند کہا کہ میت کا دیدار صرف محرم کریں گے، کوئی نامحرم اس طرف نہ آئے۔ اس سے قبل جب کفن پہنایا گیا تو اس میں اوڑھنی بھی موجود تھی۔ جو خواتین کے لباس آخر کے ساتھ موجود ہوتی ہے، جس سے سر ڈھانپا جاتا ہے کہ بال نظر نہ آئیں۔ کسی نے کوئی تصویر لینے کی کوشش نہ کی حالانکہ ہر اک کے پرس میں موبائل فون موجود تھے۔ کسی کو بھی خیال نہ آیا کہ یہ لمحات کتنے تاریخی ہیں، اب یہ وجود قیامت تک کے لیے نظروں سے اوجھل ہوجائے گا، اس لیے ایک ایک لمحے کی تصاویر لی جائیں، ویڈیوز بنائی جائیں۔ لمحات تو یہ بھی یاد ار تھے۔ تقریب تو یہ بھی بہت اہم تھی۔

کتنی مماثلت ہے ان دونوں جدائیوں میں، وہ ماں کے گھر سے جدائی، میکے سے جدائی، وہاں بھی ایک دوسری زندگی کا آغاز، وہاں بھی فیز تبدیل ہوا، وہ دن بھی تیاری کا خاص دن تھا اور یہ بھی۔ یونہی خاندان کی دوتین خواتین تیاری کے لیے لے کر گئیں مگر کتنا فرق تھا بیوٹی پارلر اور ایدھی سینٹر کے ماحول میں۔ وہاں بڑے سے بینر پر کلمہ شہادت دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ لا الہ کی شہادت ہم مردے کو اٹھاتے وقت دیتے ہیں، یہ شہادت تو ہمیں اپنی زندگیوں میں دینی تھی۔

یکبارگی میرا دل درد سے بھر گیا کہ یہی سب خواتین تو بھتیجی کی شادی میں موجود تھیں۔ آج کتنا اہتمام ہے کہ کوئی نامحرم اندر نہ آئے جبکہ بوڑھے جسم میں، جس میں روح بھی موجود نہیں، کسی کے لیے کیا کشش ہوگی، مگر کسی نے کوئی تصویر نہ لی کہ شریعت میں پسندیدہ نہیں۔ بیوٹی پارلر کی کوئی شریعت نہ تھی جہاں ’اوڑھنی‘ نام کی کوئی چیز نہ تھی، عملے کی نوجوان لڑکیوں کے جسموں پر، وہاں ہر لمحے تصاویر بن رہی تھیں، ہر ادا سے بن رہی تھیں، اور وہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے سے ہزاروں لوگو ں نے دلہن کا دیدار کیا ہوگا۔ اس رخصتی پر بھی سب آبدیدہ ہیں اور اس پر بھی آبدیدہ تھے، مگر آج کس قدراللہ کے حدود کی پاسداری کی گئی، اس روز کسی کو ایک لمحے کو بھی کسی ایک حد کا خیال نہ آیا، جبکہ کیمرہ مینوں نے دلہا دلہن کو اسٹیج پر گھیراہوا تھا، تیز میوزک پر ہر لمحہ پوز بدلوائے جا رہے تھے، اس لیے کہ ہر ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ ہر لمحہ یادگار ہے۔ یادگار تو زندگی کا ہر دن ہے کہ دوبارہ اسے پلٹ کر نہیں آنا۔ جن کو کچھ نہیں معلوم شاید ان کی بخشش آسان ہو جائے مگر یہاں تو سب کو سب کچھ معلوم ہے۔ تب ہی تو میت کے پاس نامحرم بھی نہ آئیں، کوئی تصویر نہ اتارے، تقریب میں اختلاط نہ ہو، زبانوں پر استغفار ہو، ذکر ہو، تقریب تو شادی کی بھی خالصتاً مذہبی ہوتی ہے، ایک نکاح کی سنت کی پیروی، اس کو لہو و لعب کی نظر کر دیا جاتا ہے، اور اس آخری رخصتی کو خالصتاً مذہبی رنگ دیا جاتا ہے۔ میکے سے سسرال اور دارالعمل سے دارالحساب۔ دونوں تقاریب کے شرکاء ایک ہی ہوتے ہیں مگر رویے دونوں جگہ کس قدر مختلف ہوتے ہیں۔ اسلام نے خوشی منانے پر کوئی قدغن نہیں لگائی، مگر اس کی بھی حدود وضع کی ہیں۔ اس رخصتی کی خوشی پر سماج کے اکثر لوگوں کے جو انداز و اطوار ہوتے ہیں، وہ اس بات کا اظہار ہوتے ہیں کہ وہ اس دوسری رخصتی کو یکسر فراموش کر چکے ہیں۔

بیوٹی پارلر کے دروازے پر بھی ہر چند منٹ میں ایک کار آ کر رکتی تھی اور ایدھی سینٹر کے دروازے پر بھی ایک ایمبولینس۔ شاید اس کار سے ایمبولینس تک کا سفر ہی زندگی کا اصل امتحان ہے !!

زندگی کے میلے میں بس یہی سمجھتے ہیں

غفلتوں کے مارے ہم

ہم نے جس کو دفنایا بس اسی کو مرنا تھا

...........

ایک دانا آدمی کی گاڑی گاوں کے قریب خراب ہوگئی اس نے سوچا کہ گاوں سے کسی سے مدد لیتا ہوں

وہ جیسے ہی گاوں میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا ایک بوڑھا شخص چارپائی پر بیٹھا ہے اور اس کے قریب مرغیاں دانہ چگ رہی ہیں ان مرغیوں میں ایک باز کا بچہ بھی ہے جو مرغیوں کی طرح دانے چگ رہا ہے وہ حیران ہوا اور اپنی گاڑی کو بھول کر

 اس بوڑھے شخص سے کہنے لگا کہ یہ کیسے خلاف قدرت ممکن ہوا کہ ایک باز کا بچہ زمین پر مرغیوں کے ساتھ دانے چگ رہا ہے 

تو اس بوڑھےشخص نے کہا دراصل یہ باز کا بچہ صرف ایک دن کا تھا جب یہ پہاڑ پر مجھے گرا ہوا ملا میں اسے اٹھا لایا یہ زخمی تھا میں نے اس کو مرہم پٹی کرکے اس کو مرغی کے بچوں کے ساتھ رکھ دیا جب اس نےپہلی بار آنکھیں کھولیں تو اس نے خود کو مرغی کے چوزوں کے درمیان پایا یہ خود کو مرغی کا چوزہ سمجھنے لگا اور دوسرے چوزوں کے ساتھ ساتھ اس نے بھی دانہ چگنا سیکھ لیا 

اس دانا شخص نے گاوں والے سے درخواست کی کہ یہ باز کا بچہ مجھے دے دیں تحفے کے طور پر یا اس کی قیمت لے لیں میں اس پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں 

اس گاوں والے نے باز کا بچہ اس دانا شخص کو تحفے کے طور پر دے دیا 

یہ اپنی گاڑی ٹھیک کروا کر اپنے گھر آ گیا 

وہ روزانہ باز کے بچے کو چھت سے نیچے پھینک دیا کرتا مگر باز کا بچہ مرغی کی طرح اپنے پروں کو سکیڑ کر گردن اس میں چھپا لیتا

وہ روزانہ بلاناغہ باز کے بچے کو اپنے سامنے ٹیبل پر بیٹھاتا اور اس کہتا کہہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر

اسی طرح اس نے کئی دن تک اردو پنجابی سندھی سرائیکی پشتو ہر زبان میں اس باز کے بچے کو کہا کہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر 

اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو 

آخر کار وہ دانا شخص ایک دن باز کے بچے کو لے کر ایک بلند ترین پہاڑ پر چلا گیا اور اسے کہنے لگا کہہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرو تم باز کے بچے ہو اور اس شخص نے یہ کہہ کر باز کے بچے کو پہاڑ کی بلندی سے نیچے پھینک دیا 

باز کا بچہ ڈر گیا اور اس نے مرغی کی طرح اپنی گردن کو جھکا کر پروں کو سکیڑ لیا اور آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ زمین تو ابھی بہت دور ہے تو اس نے اپنے پر پھڑ پھڑائے اور اڑنے کی کوشش کرنے لگا

 جیسے کوئی آپ کو دریا میں دھکا دے دے تو آپ تیرنا نہیں بھی آتا تو بھی آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے 

تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے آپ کو بیلنس کرنے لگا کیونکہ باز میں اڑنے صلاحیت خدا نے رکھی ہوتی ہے 

تھوڑی ہی دیر میں وہ اونچا اڑنے لگا 

وہ خوشی سے چیخنے لگا اور اوپر اور اوپر جانے لگا 

کچھ ہی دیر میں وہ اس دانا شخص سے بھی اوپر نکل گیا اور نیچے نگاہیں کرکے اس کا احسان مند ہونے لگا

 تو دانا شخص نے کہا اے باز میں نے تجھے تیری شناخت دی ہے اپنے پاس سے کچھ نہیں دیا

یہ کمال صلاحیتیں تیرے اندر موجود تھیں مگر تو بے خبر تھا

 یہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہے 


🇵🇰ہماری ایک خاص شناخت ہے


🕋 ہم ایک خاص امت کے ارکان ہیں 


 ہم ایک ایٹمی ملک کے شہری ہیں


ہمارے اندر اللہ رب العزت نے بے پناہ صلاحیتیں رکھی ہیں


مگر پرابلم یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد بے شمار مرغیاں ہیں جن میں ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات بھی شامل ہیں


 جو مسلسل ہم کو بتاتے ہیں کہ ہم باز کے بچے نہیں مرغی کے بچے ہیں 


جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم سپر پاور نہیں ہو سپر پاور کوئی اور ہے 


جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم بہادر اور طاقتور نہیں ہو بلکہ بزدل اور کمزور ہو 


تمھاری تو قوم ہی ایسی ہے 


تم دہشتگرد ہو تم لوگ آگے نہیں بڑھ سکتے 


کامیابی کی شرط یہ ہے کہ ہم خود کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ ہم ایک بہترین امت اور بہترین قوم بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

..........

ایک آدمی سے کسی نے پوچھا کے آج کل اتنی غربت کیوں ھے؟

جواب ملا۔

میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ھے۔ ۔


۔آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے۔


ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے۔۔


(سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استمعال کرتے تھے۔


اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے۔


اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔


کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔


جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔


اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔


گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔


آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔


مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔


آج تو اسکول کے بچوں کے دو یا تین یونیفارم ضرور ہوتے ہیں۔


آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔۔


ہمارے دور میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔۔


آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ھے اُسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا... 


غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے۔


آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ھے..


اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں 

غریب ہوں۔


 *آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ھے.*


*ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.*


"سچ بات یہ ہے کہ پہلے درجہ بندی کم تھی معاشرتی اسٹیٹس کم و بیش ایک جیسا تھا ، توکل بہت تھا، باہمی ہمدردی زیادہ تھی، مل کر رہنا اچھا سمجھتے تھے جبکہ آجکل تنہائی پسندی ہے، علم کم مگر عمل بہتر تھا ۔

اس دور میں اللہ کی نعمتیں بدرجہا زیادہ ہیں لیکن اکثر شکر ، توکل اور باہمی تعلقات کمزور ہیں .

اللّہ کریم ہم سب کو کامل ہدایت بخشے آمین 😊

............

ایک بادشاہ محل کی چھت پر ٹہلنے چلا گیا۔ ٹہلتے ٹہلتے اسکی نظر محل کے نزدیک گھر کی چھت پر پڑی جس پر ایک بہت خوبصورت عورت کپڑے سوکھا رہی تھی۔ 

بادشاہ نے اپنی ایک باندی کو بلا کر پوچھا: کس کی بیوی ہے یہ؟

باندی نے کہا: بادشاہ سلامت یہ آپ کےغلام فیروز کی بیوی ہے۔

بادشاہ نیچے اترا ، بادشاہ پر اس عورت کے حسن وجمال کا سحر سا چھا گیا تھا۔

اس نے فیروز کو بلایا۔ 

فیروز حاضر ہوا تو بادشاہ نے کہا : فیروز ہمارا ایک کام ہے۔ ہمارا یہ خط فلاں ملک کے بادشاہ کو دے آو اور مجھے اسکا جواب بھی ان سے لے آنا۔ 

فیروز: بادشاہ کو حکم سر آنکھوں پر اور وہ اس خط کو لے کر گھر واپس آ گیا خط کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا، سفر کا سامان تیار کیا، رات گھر میں گزری اور صبح منزل مقصود پر روانہ ہو گیا اس بات سے لاعلم کہ بادشاہ نے اس کے ساتھ کیا چال چلی ہے۔

ادھر فیروز جیسے ہی نظروں سے اوجھل ہو گئا بادشاہ چپکے سے فیروز کے گھر پہنچا اور آہستہ سے فیروز کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

فیروز کی بیوی پوچھا کون ہے؟

بادشاہ نے کہا: میں بادشاہ تمہارے شوہر کا مالک۔ 

تواس نے دروازہ کھولا۔ بادشاہ اندر آ کر بیٹھ گیا۔

فیروز کی بیوی نے حیران ہو کر کہا: آج بادشاہ سلامت یہاں ہمارے غریب خانے میں۔

بادشاہ نے کہا : میں یہاں مہمان بن کر آیا ہوں۔

فیروز کی بیوی بادشاہ کا مطلب سمجھ کر کہا: میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں آپکے اس طرح آنے سے جس میں مجھے کوئی خیر نظر نہیں آ رہا۔ 

بادشاہ نے غصے میں کہا: اے لڑکی کیا کہہ رہی ہو تم ؟ شاید تم نے مجھے پہچان نہیں میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک۔

فیروز کی بیوی نے کہا: بادشاہ سلامت میں جانتی ہوں کہ آپ ہی بادشاہ ہیں لیکن بزرگ کہہ گئے ہیں کہ

اگر مچھر گر جائے کھانے میں 

تو میں ہاتھ اٹھا دیتا ہوں اگرچہ کے میرا دل کرتا ہے کھانے کو

میں تمہارے پانی میں کوئی پھول نہیں چھوڑوں گا 

لوگوں کا بکثرت یہاں آنے جانے کی وجہ سے

شیر کو اگرچہ جتنی بھی تیز بھوک لگی ہو لیکن وہ مردار تو نہیں کھانا شروع کر دیتا

اور کہا: بادشاہ سلامت تم اس کٹھورے میں پانی پینے آ گئے ہو جس میں تمہارے کتے نے پانی پیا ہے۔

بادشاہ کو اس عورت کی باتوں سے بڑا شرمسار ہوا اور اسکو چھوڑ کر واپس چلا گیا لیکن اپنے چپل وہی پر بھول گیا ۔

یہ سب تو بادشاہ کی طرف سے ہوا۔

اب فیروز کو آدھے راستے میں یاد آیا کہ جو خط بادشاہ نے اسے دیا تھا وہ تو گھر پر ہی چھوڑ آیا ہے اس نے گھوڑے کو تیزی سے واپس موڑا اور اپنے گھر کی طرف لپکا۔ فیروز اپنے گھر پہنچا تو تکیے کے نیچے سے خط نکالتے وقت اسکی نظر پلنگ کے نیچے پڑے بادشاہ کے نعال (چپل) پر پڑی جو وہ جلدی میں بھول گیا تھا۔ 

فیروز کا سر چکرا کر رہے گیا اور وہ سمجھ گیا کہ بادشاہ نے اس کو سفر پر صرف اس لیئے بیھجا تاکہ وہ اپنا مطلب پورا کر سکے۔ فیروز کسی کو کچھ بتائے بغیر چپ چاپ گھر سے نکلا ۔ خط لے کر وہ چل پڑا اور کام ختم کرنے کے بعد بادشاہ کے پاس واپس آیا تو بادشاہ نے انعام کے طور پر اسے سو ١٠٠ دینار دیئے۔ فیروز دینار لے کر بازار گیا اور عورتوں کے استعمال کے قیمتی کپڑے اور کچھ تحائف بھی خریدئیے۔ گھر پہنچ کر بیوی کو سلام کیا اور کہا چلو تمہارے میکے چلتے ہیں۔ 

بیوی نے پوچھا: یہ کیا ہے؟

کہا: بادشاہ نے انعام دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ پہن کر اپنے گھر والوں کو بھی دکھاو۔

بیوی : جیسے آپ چاہئیں، بیوی تیار ہوئی اور اپنے والدین کے گھر اپنے شوہر کے ساتھ روانہ ہوئی داماد اور بیٹی اور انکے لیئے لائے گے تحائف کو دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ 

فیروز بیوی کو چھوڑ کر واپس آ گیا اور ایک مہینہ گزرنے کے باوجود نہ بیوی کا پوچھا اور نہ اسکو واپس بلایا۔

پھر کچھ دن بعد اسکے سالے اس سے ملنے آئے اور اس سے پوچھا: فیروز آپ ہمیں ہماری بہن سے غصے اور ناراضگی کی وجہ بتائیں یا پھر ہم آپکو قاضی کے سامنے پیش کریں گئے۔

تو اس نے کہا: اگر تم چاہو تو کر لو لیکن میرے ذمے اسکا ایسا کوئی حق باقی نہیں جو میں ادا نہ کیا ہو۔

وہ لوگ اپنا کیس قاضی کے پاس لے گئے تو قاضی نے فیروز کو بلایا۔

 قاضی اس وقت بادشاہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ لڑکی کے بھائیوں نے کہا: اللّٰه بادشاہ سلامت اور قاضی القضاہ کو قیام ودائم رکھیں۔ قاضی صاحب ہم نے ایک سر سبز باغ، درخت پھلوں سے بھرے ہوئے اور ساتھ میں میٹھے پانی کا کنواں اس شخص کے حوالے میں دیا۔ تو اس شخص نے ہمارا باغ اجاڑ دیا سارے پھل کھا لیئے، درخت کاٹ لئیے اور کنویں کو خراب کر کے بند کردیا۔ 

قاضی فیروز کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: ہاں تو لڑکے تم کیا کہتے ہو اس بارے میں؟

فیروز نے کہا: قاضی صاحب جو باغ مجھے دیا گیا تھا وہ اس سے بہتر حالت میں نے انہیں واپس کیا ہے۔

قاضی نے پوچھا: کیا اس نے باغ تمھارے حوالے ویسی ہی حالت واپس کیا ہے جیسے پہلے تھا؟

انہوں نے کہا : ہاں ویسے ہی حالت میں واپس کیا ہے لیکن ہم اس سے باغ واپس کرنے کی وجہ پوچھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔

قاضی: ہاں فیروز تم کیا کہنا چاہتے ہو اس بارے؟

فیروز نے کہا: قاضی صاحب میں باغ کسی بعض یا نفرت کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ اسلیئے چھوڑا کہ ایک دن میں باغ میں آیا تو اس میں ، میں نے شیر کے پنجوں کے نشان دیکھے۔تو مجھے خوف ہوا کہ شیر مجھے کھا جائے گا اسلیئے شیر کے اکرام کی وجہ سے میں نے باغ میں جانا بند کردیا۔

بادشاہ جو ٹیک لگائے یہ سب کچھ سن رہا تھا، اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا۔ فیروز اپنے باغ کی طرف امن اور مطمئن ہو کر جاو۔ واللہ اس میں کوئی سک نہیں کہشیر تمھارے باغ آیا تھا لیکن وہ وہاں پر نہ تو کوئی اثر چھوڑ سکا ،نہ کوئی پتا توڑ سکا اور نہ ہی کوئی پھل کھا سکا وہ وہاں پر تھوڑی دیر رہا اور مایوس ہو کر لوٹ گیا اور خدا کی قسم میں نے کبھی تمھارے جیسے باغ کے گرد لگے مظبوط دیواریں نہیں دیکھیں۔

تو فیروز اپنے گھر لوٹ آیا اور اپنی بیوی کو بھی واپس لے لیا۔ نہ تو قاضی کو پتہ چلا اور نہ ہی کسی اور کو کہ ماجرا کیا تھا!!!


کیا خوب بہتر ہے اپنے اہل وعیال کے راز چھپنا اپنی تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے

اپنے گھروں کے بھید کسی پر ظاہر نہ ہونے دو۔


اللہ آپ لوگوں کی اوقات خوشیوں سے بھر دے آپکو ، آپ کے اہل وعیال کو اور آپکے مال کو اپنے حفظ و امان میں رکھے امین