Bachy aur Tree Ki Urdu Kahani - Urdu Kahaniyan Pdf

 Assslam o Alikum website ki new post ma apka welcome ha is mein ap ky liye new amazing story laye hain

Yeh ik Choty bachy aur Tree ki Urdu Kahani hai jo kay pdf mein apko asani sy mil ri hai ap isy pdf mein download kr skty hain

Urdu Kahaniyan Pdf Mein Download karney ky liye neachy diye huey download button pr click kren gy to file apko pdf mein mil jaye gyi

Bachy aur Tree Ki Urdu Kahani - Urdu Kahaniyan Pdf

Bachy aur Tree Ki Urdu Kahani - Urdu Kahaniyan Pdf

Ik Tree tha aur ik bacha roz is kay neachy a kay beth jata tha aur is ky sath khelta kabhi is ky upet char jata aur is sy khel kr jab thak jata to

so is ky saye mein so jaya krta tha
Wo Bacha ab bara hogya aur ab tree kay pas nahi ata tha, Tree boht pershan tha kay ab bacha

 is k bad kiyn nahi ata aur is sy khelta ik din bacha tree ky pas aya to tree isy kehny laga ky ao mery sath kehlo to bachy sy jawab dia mein bara ho gaya hun

Download Urdu Kahani Pdf
Bachy aur Tree Ki Urdu Kahani - Urdu Kahaniyan Pdf

I hope apko Bachy aur Tree Ki Urdu Kahani stroy achi lagy gyi mazeed asi story download aur read krny ky liyr website ki baqi post b lazmi read kren wo b apko pasand aen gyi.
Thanks For Downloading...

بادشاہ کے محل میں صفائی کرتے جب ایک بھنگی کی نظر ملکہ پہ پڑی تو وہ پہلی نظر میں اس پہ فدا ہو گیا۔ لیکن اپنی حیثیت اور ملکہ کی حیثیت میں فرق دیکھا تو سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔ پر دل تھا جو ایک ملاقات کی حسرت میں تڑپتا رہا۔ عشق کی بیماری نے جسمانی بیماری کا روپ لیا اور وہ بستر پہ پڑ گیا۔ بھنگی کی بیوی بھی اس ساری حالت سے واقف تھی۔ بھنگی کی خراب حالت کی بنا پر اسکی بیوی اسکی جگہ کام پہ لگ گئی۔
کئی دن تک جب بھنگی ملکہ کو وہاں نظر نہ آیا تو اس نے اسکی بیوی سے دریافت کیا، بھنگی کی بیوی یہ سوچ کر گھبرا گئی کہ ملکہ کو اصل بات بتا دی تو نا جانے کیا حال ہو ہمارا۔ لیکن ملکہ نے اسکی گھبراہٹ جانچ کر اسے اعتماد میں لیا اور حقیقت پوچھی۔ بھنگی کی بیوی نے وہ ساری صورت حال ملکہ کے گوش گزار کر دی۔ تب ملکہ نے اسے کہا کہ اس سے ملاقات کا یہی ایک رستہ ہے، تم اپنے شوہر سے جا کے کہہ دو کل وہ شہر سے باہر کسی رستے پہ بیٹھ جائے اور بس اللہ اللہ کرتا رہے، نہ تو کسی سے بات کرے اور نہ ہی کسی کا دیا کوئی تحفہ قبول کرے۔ ایسا کرنے سے جب اسکے چرچے بادشاہ تک پہنچیں گے تو ملاقات کے رستے بھی کھل جائیں گے۔
ملکہ کا پیغام سنتے ہی بھنگی کی جان میں جان آئی اور وہ گداؤں کا بھیس بدل کے ایک رستے پہ جا کے بیٹھ گیا اور اللہ اللہ کا ورد شروع کردیا۔ آنے جانے والے اس متاثر ہوتے اور نظرانے ساتھ لاتے لیکن وہ نہ سر اٹھا کے کسی کو دیکھتا نہ ہی کسی چیز کو ہاتھ لگاتا۔ کرتے کرتے خبر بادشاہ تک پہنچی اور اس نے وزیر کو بھیجا کہ دریافت کرو کہ کون ہے وہ اور اسکی سچائی کس حد تک ہے۔ وزیر نے واپس جا کر بادشاہ سے اسکی بہت تعریف کی، بادشاہ فیض پانے کی غرض سے خود چل کر اسکے پاس گیا۔
جب ہر طرف اسکے چرچے ہونے لگے تو ملکہ نے بادشاہ سے اس نیک انسان کی زیارت کی خواہش ظاہر کی۔ بادشاہ نے اجازت دی۔ اسی اثناؑ میں جب بھنگی کو اس بات کا احساس ہو کہ اب تک وہ دل سے نہیں صرف ایک دنیاوی مقصد کے تحت ہی اللہ پاک کے نام کی تسبیح کر رہا تھا۔ وہ جھوٹآ ہے لیکن پھر بھی اللہ کی رحمت اس پر اس قدر ہے کہ لوگ اسکے سامنے جھک رہے ہیں کیا بادشاہ اور کیا عام آدمی سب ہی اسے عزت دے رہے ہیں۔
یہ کرامات تو صرف زبان سے وہ پاک نام لینے کی ہیں اگر سچے دل سے اس نام کی تسبیح کی جائے تو اور کتنی رحمتوں کا نزول اس پہ ہوگا۔ جب ملکہ اسکے پاس پہنچی تو اس نے سر اٹھا کے اسکی طرف نہ دیکھا اور وہ مطمئن ہوئی کہ کوئی آج اس کی وجہ سے اللہ کے قریب ہو گیا وہ روتی ہوئی واپس اپنے محل چلی گئی۔ 
بے شک اس پاک ذات کا ذکر اپنے آپ میں ایک رحمت ہے۔“
...........
آج ظہر کے بعد سٹوڈنٹس نے مجبور کیا کہ سر آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں ،

پانچ گیندیں کھیل کر میں نے دو رن بنائے ،اور چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہوا ،

 اور ضائع ہونے کی وجہ سے سٹوڈنٹس نے میرے آوٹ ہونے پر خوب شور مچا کر بھر پور خوشی کا اظہار کیا ،

ابھی تھوڑی دیر پہلے مغرب کے بعد دوران کلاس انہیں جمع کرکے میں نے پوچھا ،آپ میں سے کون کون چاہتا تھا کہ سر اسکی گیند پر آوٹ ہوں ؟ جو جو بھی باولر تھے تقریبا' سب ہی نے ہاتھ کھڑے کردیئے 

مجھے بے اختیار ہنسی آگئی 

میں نے پوچھا ، میں کرکٹر کیسا ہوں ؟ سب نے کہا ، بہت برے 

میں نے پوچھا ،میں ٹیچر کیسا ہوں ،جواب ملا سر بہت اچھے 

مجھے ایک بار پھر ہنسی آئی ،

آپ لوگ جانتے ہیں ، یہ صرف آپ نہیں کہتے ؟ میں اپنی تعریف نہیں کر رہا ،دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے چار ہزار سٹوڈنٹس جن میں بہت سے میرے نظریاتی مخالف بھی ہیں یہ گواہی دیتے ہیں کہ میں ایک اچھا ٹیچر ہوں ،جبکہ میں آپ کو راز کی بات بتاؤں ، میں جتنا اچھا ٹیچر ہوں شاید اتنا اچھا سٹوڈنٹ نہیں تھا ،مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ،اور بات سمجھنے میں وقت لگا ،لیکن کیا آپ بتاسکتے ہیں اسکے باوجود آج دنیا بھر میں سب مجھے اچھا ٹیچر کیوں مانتے ہیں ؟

سب نے کہا سر آپ بتائیں کیوں ؟

میرا جواب تھا ،ادب 

مجھے اچھی طرح یاد ہے ،ایک باراپنے ایک ٹیچر کے ہاں میں کسی دعوت کی تیاری میں ان کی مدد کر رہا تھا ،فریزر سے برف نکالی ،اس برف کو توڑنے کیلئے کمرے میں کوئی شے نہیں تھی ،استاد کسی کام کیلئے کمرے سے نکلے تو وہ سخت برف میں نے مکا مار کر توڑ دی ، اور استاد جی کے آنے سے پہلے پہلے جلدی جلدی اس ٹوٹی ہوئی برف کو دیوار پر بھی ایک بار مار دیا ،

استاد جی کمرے میں آئے اور دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا ،کہ سکندر تمہیں عقل کب آئیگی ، یوں برف توڑی جاتی ہے ، میں ان کی ڈانٹ خاموشی سے سنتا رہا ، بعد میں انہوں نے میری اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا ،اور ہمیشہ میں بیوقوفوں کی طرح سر ہلا کر ان کی ڈانٹ سنتا رہتا ،انہیں آج بھی نہیں معلوم کہ برف میں نے مکا مار کر توڑی تھی 

اور یہ بات میں نے انہیں اسلئے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے ، ان کی غیر موجودگی میں میں نے اپنی جوانی کے جوش میں برف مکا مار کر توڑ تو دی تھی لیکن جب اچانک ان کی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ میرے اس طاقت کے مظاہرے سے انہیں اپنی کمی کا احساس نہ ہو ،صرف اس خیال کی وجہ سے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور لمبے عرصے تک ان کی ڈانٹ سنتا رہا ،

اور ایک آپ لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر ہدایات دے رہے تھے کہ سر کو یار کر مار ، سر آوٹ ہوجائیںگے 

  جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا ،کبھی کبھی جان بوجھ کر ہارنے سے زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں ، ہم طاقت میں اپنے ٹیچرز اور والدین سے بے شک بڑھ جاتے ہیں لیکن اگر آپ زندگی میں سب سے جیتنا چاہتے ہیں تو اپنے ٹیچرز اور والدین سے جیتنے کی کوشش نہ کریں ، آپ کبھی نہیں ہارینگے
..........
پگڑی والا ۔۔۔۔۔۔۔۔ باورچی
1987 ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺑﺪﺣﻮﺍﺱ ﺗﮭﺎﺟﺘﻨﺎ ﮨﺮ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺟﻮﻥ ﺍﯾﻠﯿﺎ ﻧﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ " ﺟﺎﻧﯽ ﺭﯾﺌﺲ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ،ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺕ ﮨﯿﮟ" 
ﺭﯾﺌﺲ ﺍﻣﺮﻭﮨﻮﯼ ﻓﮑﺮ ﺳﺨﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﮯ "ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﺳﺐ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﺎ۔
ﻻﻟﻮ ﮐﮭﯿﺖ ﺳﭙﺮ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ " ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﺤﺮ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻏﻮﻃﮧ ﺯﻥ ۔۔۔۔ ﺑﮍﯼ
ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺐ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﮦ ﭼﻠﺘﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺎ۔
ﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﮯ ﺁﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﻧﺌﮯ ﺑﺎﻭﺭﭼﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻭﭘﺮ ﻟﭩﮭﮯ ﮐﯽ ﻭﺍﺳﮑﭧ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﺎﺭﺧﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻟﻨﮕﯽ۔ ﺳﺘﺮ
ﮐﮯ ﭘﯿﭩﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺑﺪﻥ ﺳﺮ ﺳﯿﺪ ﺧﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺁﻭﺍﺯ۔ 
ﻭﮨﯿﮟ ﭘﭩﯽ ﭘﺮ ﭨﮏ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﻣﺪﻋﺎ ﮐﯽ۔ ﺭﯾﺌﺲﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮰ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﻗﻄﻌﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ
ﺑﻮﻟﮯ "ﮔﺮﻡ ﻣﺴﺎﻟﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﺁﺝ ۔۔۔۔۔۔۔ﮐﮩﮧ ﺩﯾﻨﺎ ۔۔۔۔۔۔۔"
ﺧﯿﺮ ﻣﯿﺎﮞ!!! ﮐﯿﺎ ﮐﮭﻼﻭﮔﮯﺑﺎﺭﺍﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ؟ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﻧﮯ ﻟﮕﮯ "ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ "۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﺑﻨﺎﺭﮨﮯﮨﯿﮟ۔ ﺧﻔﮕﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ ﺳﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔۔۔ﻧﺌﯽ ﮔﺎﺟﺮ ﮨﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻭﺍﻟﯽ۔۔ ﮐﮭﻮﮰ ﮐﯽ ﻣﺎﺭ ﺩﻭ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔
ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺭﮐﮭﻮﮔﮯ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﮰﯾﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ "ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔
ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻣﻮﺭ ﻃﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺑﯿﭩﮭﺎ " ﻣﯿﮟ ﺭﯾﺌﺲ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ۔ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﺎ ﭘﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ "۔
ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ
ﺑﺎﺕ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺮﯼ ﻟﮕﯽ۔۔۔ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻟﮕﺘﯽ۔۔ﮐﻮﺋﯽ ﻣﮩﺪﯼ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﺗﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮔﺎﺗﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﯿﮟ۔۔ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ۔
ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﻧﮯ ﺭﯾﺌﺲ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺎ
ﻟﺤﺎﻅ ﮐﯿﺎ۔
ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﺭﺍﺕ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮐﺎﻝ ﺑﯿﻞ ﭘﺮﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﻮﺵ ﺳﮯ ﮈﮬﮑﺎ ﺗﮭﺎﻝ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮐﺴﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﻟﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺑﻮﻟﮯ " ﻟﻮ ﻣﯿﺎﮞ۔ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮨﻢ ﮐﯿﺴﺎ ﭘﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
"ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺯﻭﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﯾﮧ ﺟﺎ ﻭﮦ ﺟﺎ۔
ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﻋﺒﺚ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻓﻨﮑﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺗﮭﺎ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ ﺑﻨﮍﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﮓ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ"
ﻣﯿﮟ ﺳﭩﭙﭩﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ"۔
ﻭﮦ ﮨﻨﺴﮯ ﺍﻭﺭﺑﻮﻟﮯ 
"ﻣﯿﺎﮞ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ۔ ﺧﯿﺮﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﮔﮯﮨﻢ "
ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮔﻮﭨﮯ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﻮﺷﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﮬﮑﯽ ﺩﻭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺩﯾﮕﯿﮟ ﺍﻟﮓ ﻻﮰ۔ 
ﺧﻮﺩ ﺳﻨﮩﺮﮮ ﻃﺮﮮ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﮕﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺮﻭﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺼﺎ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭧ ﮈﭘﭧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺨﺸﺎ۔
ﺟﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻓﺎﺭﻍ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮈﺍﻧﭧ ﻟﮕﺎﺗﮯ 
"ﻣﯿﺎﮞ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮨﻮ؟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﺗﻢ۔ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﻢ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ"
ﺭﺧﺼﺘﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮﻭﮦ ﻏﺎﺋﺐ۔ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ؟
ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﺳﻤﯿﺖ ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﮔﻠﮯﺩﻥ ﻭﻟﯿﻤﮧ ﺗﮭﺎ۔ 
ﭘﮭﺮ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﮐﯽ ﺭﺳﻢ۔
ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﺩﻥ ﻓﺮﺻﺖ ﻣﻠﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﮈﺍﻟﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻣﻠﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ۔ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﮐﮧ
ﭘﯿﺴﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮﭼﻠﮯ ﺁﮰ "۔
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﮰ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ "ﻣﯿﺎﮞ!!!! ﻟﮍﮐﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﮯﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮ، ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺁﺳﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﻧﺼﯿﺐ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩﮨﯽ ﺩﮮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺁﺗﺎ"
ﻣﯿﮟ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﮐﻮ، ﺍﺱ ﺑﺎﻭﺭﭼﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻃﺮﮦ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﻭﺿﻌﺪﺍﺭﯼ، ﻓﺮﺍﺧﺪﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﮐﻞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮﻣﯿﮟ ﻣﺎﻭﻧﭧ ﺍﯾﻮﺭﺳﭧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯﮐﯽ ﺭﻗﻢ ﺗﮭﯽ۔ ﺁﺝ ﺳﮯ ﺳﺘﺎﺋﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺁﺝ ﮐﮯ ﮐﻢ
ﺳﮯ ﮐﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﻻﮐﮫ ﺗﻮ ﺗﮭﮯ ﺷﺎﯾﺪ۔ 
ﺟﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﺼﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺗﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﯿﮟ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺏ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﮰ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ 
"ﻣﯿﺎﮞ!!!!!! ﻟﮍﮐﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﮯﮨﻢ ﻧﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮ، ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺁﺳﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ-
ﻧﺼﯿﺐ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩﮨﯽ ﺩﮮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ
ﺧﻮﺩ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺁﺗﺎ "
----------------------------------------------------
ﮈﮬﻮﻧﮉﻭ ﮔﮯ ﮔﺮ ﻣﻠﮑﻮﮞ ﻣﻠﮑﻮﮞ ،
ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻧﺎﯾﺎﺏ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
..........
جنازے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سب لوگ کلمہ پڑھ رہے تھے جنازہ گاہ ابھی کچھ فاصلے پر تھی ۔ تبھی مجھے اپنے ساتھ چلتے ہوئے شخص کی دھیمی مگر صاف آواز سنائی دی ۔
"یا اللہ ! اسے بے حساب اجر دینا ۔ اللہ ، اسے بے حساب اجر دینا "
وہ بار بار یہی بات دہرا رہا تھا ۔تدفین کے بعد میں نے اس سے پوچھا 
 "مرحوم کا آپ کے ساتھ کیا رشتہ تھا"
بولا ، کچھ بھی نہیں ۔وہ میرا کوئی بھی نہیں تھا ۔
مطلب ! میں تھوڑا حیران ہوا ۔ کہنے لگا ۔
"میں بہت غریب آدمی ہوں صاحب ! کچھ عرصہ پہلے میری بیوی شدید بیمار ہوگئی ۔ اس کے آپریشن کے لئے لمبی چوڑی رقم کی ضرورت تھی ، جو میرے بس سے باہر تھی ۔ہر طرف سے مایوس ہو کر گاوں کے چوہدری سے اس شرط پر قرض لیا کہ اگر ایک سال کے اندر ادا نہ کر سکا تو وہ اس میں سود کی رقم بھی شامل کرلے گا ۔اس وقت میں ، دکھ اور غم سے نڈھال تھا اور ضرورتمند بھی ۔اس لئے مان گیا ۔ لیکن جلد ہی احسا س ہو گیا کہ اتنی بڑی رقم تو میں کئی سالوں تک ادا نہیں کر سکوں گا ۔یہی دکھ اور غم لئے مسجد میں بیٹھا اللہ سے فریاد کر رہا تھا ۔روروکر اس سے وسیلہ مانگ رہا تھا کہ وہ میری مشکل آسان فرما دے ۔ 
یہ مرحوم قریب ہی بیٹھا نماز پڑھ رہا تھا ۔ اس نے شائد میری آہ وزاری سن لی ، پاس آکر بولا ,
میں ذیادہ امیر تو نہیں ہوں لیکن وعدہ کرتا ہوں کہ اللہ کی رضا کی خاطر تمہارا قرض اتارنے میں تمہاری مدد کرونگا ۔ اور پھر اس نے واقعی اپنا وعدہ پورا کیا ۔ 
اللہ کا فرمان ہے صاحب ! کہ کسی کے قرض کا بوجھ اتارنے والے کو 
اٹھارہ گنا ذیادہ ثواب ملے گا ۔ تو میں اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ اسے بغیر گنے ، بے حساب اجر عطا فرمائے ۔ جس نے اللہ کی رضاکی خاطر میری مدد کی ۔ تو کیا میں اس کے لئے بہترین اجر کی دعا نہ کروں ، "
وہ تو اللہ ہے صاحب ! سب کچھ کر سکتا ہے ۔ 
اور میں سوچ رہا تھا ، دوسروں کو نفع دینے والے خود کب گھاٹے میں رہتے ہیں ۔ چراغ سے چراغ یونہی جلتے ہیں۔
...........
ایک بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا، چونکہ سردی کا دن تھا اس لئے بادشاہ کا دربار کھلے میدان میں ہی لگا ہوا تھا. سب خواص و عوام صبح کی دھوپ میں بیٹھے تھے۔
بادشاہ کے تخت کے سامنےایک میز تھی اور اس پر کچھ قیمتی اشیا رکھی تھیں ۔
وزیر ، مشیر اور امرا وغیرہ سب دربار میں بیٹھے تھے ، بادشاہ کے خاندان کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔
.
اسی وقت ایک شخص آیا اوردربار میں داخلے کی اجازت چاہی ۔
اجازت مل گئی تو اس نے کہا "میرے پاس دو اشیاء ہیں ، میں ہرملک کے بادشاہ کے پاس گیا ہوں اوراپنی اشیاء کو بادشاہ کے سامنےرکھتا ہوں پر کوئی فرق جان نہیں پاتا ، تمام ہارچکے ہیں اور میں ہمیشہ کامران و کامیاب ہو کرلوٹتا ہوں "
.
اب آپ کےملک میں آیا ہوں
بادشاہ نے کہا "کیا اشیاء ہیں ؟"
تو اس نے دونوں اشیاء بادشاہ کے سامنے میز پر رکھ دیں ۔
.
وہ دونوں اشیاء دکھنے میں بالکل ایک جیسی جسامت، یکساں رنگ، یکساں چمک گویا کہ یہ دونوں اشیاء ایک دوسرے کی نقل محسوس ہوتی تھیں ۔
.
بادشاہ نے کہا یہ دونوں اشیاء تو بالکل ایک جیسی ہیں. تو اس شخص نے کہا جی ہاں دکھائی تو ایک سی ہی دیتی ہیں لیکن ہیں مختلف ۔
ان میں سے ایک ہے بہت قیمتی ہیرا اور ایک ہے شیشہ ۔
بظاہر یہ دونوں ایک سے ہیں ، کوئی آج تک یہ نہیں پہچان سکا کہ کون سا ہیرا ہے اور کون سا شیشہ ۔
کوئ جانچ کر بتائے کہ ان میں سے ہیرا کونسا ہے اور کونسا شیشہ ؟
اگر کوئی صحیح پہچان گیا اور میں ہار گیا تو یہ قیمتی ہیرا آپ کا ہو جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اگر کوئی پہچان نہیں پایا تو اس ہیرے کی جو قیمت ہے اتنی رقم آپ کو مجھے بطور انعام دینا ہوگی ۔
اسی طرح میں کئی ممالک سے جیت کرآیا ہوں ۔
.
بادشاہ نے کہا میں تو نہیں پہچان سکتا ، وزیر و مشیر بولے ہم بھی جانچ نہیں سکتے
کیونکہ دونوں بالکل ایک جیسے ہیں ۔
سب کو گمان تھا کہ اب تو شکست ہی مقدر ہے لیکن شکست پر انعام کا مسئلہ بھی نہیں تھا ، کیونکہ بادشاہ کے پاس بہت دولت تھا، بادشاہ کی عزت کا مسئلہ تھا کیونکہ تمام عالم میں یہ مشہور تھا کہ بادشاہ اور اس کی رعایا بہت ذہین ہے اور اس طرح اُن کی سُبکی ہوتی ۔ کوئی شخص بھی پہچان نہیں پا رہا تھا ۔
.
آخر کار تھوڑی سی ہلچل ہوئی ۔ ایک نابینا شخص ہاتھ میں لاٹھی لے کر اٹھا ، اس نے کہا مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو میں نے تمام باتیں سنی ہیں اور یہ بھی سنا ہے کہ کوئی پہچان نہیں پا رہا ہے ایک موقع مجھے بھی دیں ۔
.
ایک آدمی کے سہارے وہ بادشاہ کے پاس پہنچا اس نے بادشاہ سے درخوست کی کہ ایسے تو میں پیدائشی نابینا ہوں لیکن پھر بھی مجھے ایک موقع دیا جائے جس میں بھی ایک بار اپنی ذہانت کوجانچ سکوں اور ہو سکتا ہے کہ کامیاب بھی ہو جاؤں اور اگر کامیاب نہ بھی ہوا تو ویسے بھی آپ تو ہارے ہوئے ہی ہیں ۔
.
بادشاہ کو محسوس ہو کہ اسے موقع دینے میں کیا حرج ہے ۔
بادشاہ نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔
اس نابینا شخص کو دونوں چیزیں چھو نے کے لیے دے دی گئیں اور پوچھا گیا ،
اس میں کون سا ہیرا ہے ؟
اور کون سا شیشہ؟
یہی آپکو معلوم کرنا ہے ۔
.
اس آدمی نے ایک لمحے میں کہہ دیا کہ یہ ہیرا ہے اور یہ شیشہ ۔
.
جو آدمی اتنے جگہوں سے جیت کر آیا تھا وہ بہت حیران ہو گیا اورکہا
"ٹھیک ہے آپ نے صحیح پہچانا .. آپکو مبارک ہو ۔ اپنے وعدہ کے مطابق اب یہ ہیرا بادشاہ کا ہوا "
.
تمام لوگ بہت حیران ہوئے کہ ایک نابینا شخص نے کیسے جان لیا کہ اصل ہیرا کونسا ہے اور سب نے یہی سوال اس نابینا شخص سے کیا ۔
اس نابینا شخص نے کہا کہ سیدھی سی بات ہے دھوپ میں ہم سب بیٹھے ہیں ، میں نے دونوں کو چھو کر محسوس کیا ۔
جو ٹھنڈا رہا وہ ہیرا
جو گرم ہو گیا وہ شیشہ
.
اسی طرح زندگی میں بھی جو شخص سخت اور مشکل حالات میں گرم ہو جائے اور حالات کا سامنا نہ کر سکے وہ شیشہ کی مانند ہے اور جو تمام حالات میں ٹھنڈا رہے ہو ہیرے کی مانند ہے ۔