Wo meri Maa ki Khuwaish Thi By Writter Kanwal Full Complete Novel by Urdukahaniyanpdf

Wo meri Maa ki Khuwaish Thi By Writter Kanwal Full Complete Novel by Urdukahaniyanpdf


Epi 1

کہانی : میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی❤

رائٹر کنول


میں جب 2 سال کا تھا تو میری والدہ کے نانا کا انتقال ہوگیا تھا۔۔۔  ان دنوں میری امی اپنے میکے میں رکی ہوئی تھیں کیونکے میرے والد ۔۔۔اور دادی نے انھیں مل کر مارا پیٹا تھا۔۔۔بھت زبردست جھگڑے چل رہے ہیں۔۔۔دادی ہر بات پر امی ابو کو لڑوا دیتیں۔۔۔ اور خود تماشائی بن جاتیں۔۔۔ اتنی بھولی جیسے انھوں نے کچھ کیا ہی نہیں ۔۔۔۔  اس لئے میرے نانا نے انہیں روک لیا تھا۔۔۔۔ انتقال میں میری والدہ کی خالہ کی نوسی  بھی آئی ہوئی تھی جو ابھی صرف ایک سال کی تھی۔۔۔۔ دو سال کے بچے کو کہاں عقل و شعور ہوتا ہے۔۔۔ میں نے کھیلتے وقت اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ میں نے تو فقط ہاتھ پکڑا تھا میری ماں تو دل میں ہی لے کر بیٹھ گٸ۔۔۔۔۔ اس کا نام” والناس “ تھا۔۔۔۔ میری ماں کی بہت کم عمری میں شادی ہوٸی تھی۔۔۔۔۔۔۔ بس وقت اور حالات نے انہیں تھوڑا سنجیدہ کر دیا تھا ۔۔۔ لیکن جب وہ میرے ساتھ ہوتیں تو ان کا شرارتی پن واپس لوٹ آتا۔۔۔۔ میری والدہ نہایت حاضر دماغ تھیں اور بہت ذھین و ہوشیار۔۔۔۔ وہ پورے خاندان کی سب سے ذہین اور خوبصورت لڑکی تھیں۔۔۔میرے نانا نانی نے زبردستی ان کی شادی کرواٸی ورنہ وہ تو ابھی پڑھنا چاہتی  تھیں۔۔۔۔ مزے کی بات یہ تھی کہ میرے دادی نے بھی زبردستی کی تھی میرے والد کے ساتھ۔۔۔۔۔۔


 میری والدہ جتنی پردے والی تھیں۔۔۔۔ میرے والد اتنے ہی آزاد مزاج۔۔۔۔ انھیں میری والدہ کا پردہ بلکل پسند نہیں تھا۔۔۔انھوں نے اس شادی کی بہت مخالفت کی مگر دادی نے زبردستی کر راہی دی۔۔۔۔۔۔ میری دادی ۔۔۔میری نانی کے سیدھے مزاج سے بڑی متاثر ہوٸی تھیں۔۔۔انھیں لگا جیسے ماں سیدھی ھے ۔۔۔(سیدھی مطلب بےوقوف)ویسی ہی بیٹی ہوگی ۔۔۔۔ بس یہی سوچ کر انہوں نے تین سال تک میرے باپ کی مخالفت برداشت کرلی لیکن منگنی نہیں توڑی۔۔۔۔جس کا بدلا میرے والد نے میری ماں سے شادی کی دوسری رات ہی لینا شروع کردیا۔۔۔۔۔وہ میری امی کو ذھنی اذیتیں دینے لگے ۔۔۔۔اور ایک سال کے اندر اندر ہی میری دادی نے میری ماں کو پیٹوانا بھی شروع کردیا۔۔۔ کیونکہ میری والدہ ان کے معیار جتنی بے وقوف نکل کر نہیں آئیں تھیں۔۔۔۔


میرے ابو بھت ہی امیر و کبیر آدمی تھے۔۔۔۔ساری جائیداد انہیں کی تھی۔۔۔وہ بچپن سے پڑھاٸی چھوڑ کر کمانے میں لگ گۓ تھے۔۔۔۔خدا نے انھیں چھوٹی سی عمر میں بہت نوازا تھا ۔۔۔۔وہ صرف 23سال کی عمر میں ڈبے کے بہت بڑے کارخانے کے مالک تھے۔۔۔میرے والد کیونکہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔۔تو وہ ATM کارڈ کہلاتے تھے۔۔۔۔میرے ابو کو دادی ۔۔دادا۔۔۔چاچا۔۔۔پھوپھوٸیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔۔۔۔ کہتے ہیں نہ جب تک بےوقوف زندہ ہے عقلمند بھوکا نہیں مر سکتا ۔۔۔۔بس وہی مثال چل رہی تھی میرے گھر میں۔۔۔۔میری دادی نے ابو کے ذھن میں سونا بیچنے کی بات ڈال دی۔۔۔۔جبکے میری ماں کی شادی کو ابھی صرف اٹھ مہینے ہی ہوۓ تھے۔۔۔۔ انہوں نے میری ماں سے کہا کہ اپنا سونا بیچ دیں جو وہ میکے سے   لاٸیں ہیں اور اس کے بدلے  تیسرے نمبر والے چاچا کو ایک دوکان دلا دیں۔۔۔۔۔میری امی اس کے لٸے راضی نہ ہوٸیں۔۔۔۔۔میرے ابو ذھنی اذیتیں تو دے ہی رھے تھے اب نانا کے دیۓ سونے کے پیچھے بھی پڑھ گۓ تھے۔۔۔۔۔


امی نے نھایت پریشان ہوکر نانا کو بتایا کے ان کی سسرال والے سونے کے پیچھے پڑھ گۓ ہیں۔۔۔۔تو نانی نے میری دادی سے خود بات کی ۔۔۔اس کے بعد تو میری والدہ کا موبائل تک چھین لیا گیا۔۔۔میرے دادا نے چھپا دیا تھا ان کا سیل ۔۔۔۔


میری والدہ شادی ہوکر دوسرے شہر گٸ تھیں۔۔۔۔ ایک موبائل ہی رابطے کا ذریعہ تھا۔۔۔۔وہ بھی ان لوگوں نے چھین لیا۔۔۔۔کیونکے میری امی پہلی رات ہی امید سے ہوگٸ تھیں تو ان لوگوں نے ان کے سفر پر پابندی لگا دی تھی۔۔۔۔۔نہ وہ مل سکتی تھیں نہ بات کرسکتی تھیں۔۔۔۔اور انہیں خوف صورت اور خطرناک حالأت میں ۔۔۔۔میں (ذیشان) دنیا میں تشریف لے آیا۔۔۔۔میرے پیدا ہوتے ہی میری دادی اور دادا غم و غصے سے پاگل ہوگۓ۔۔۔۔وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ لڑکی ہو۔۔۔۔پر ہوا میں۔۔یعنی لڑکا۔۔۔۔حالت یہ تھی کے جائیداد کا اصل وارث آ گیا جو اب کسی سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔۔۔۔میرے دادا نے تو میرے پیدا ہونے پر میٹھاٸی تک نہ باٹی۔۔۔۔ لوگ بولتے رہے کہ پوتا ہوا ہے مٹھائی تو کھلاؤ پر وہ تو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے اور بانٹتے بھی کیوں۔۔۔۔انہیں کون  سہ خوشی ہوئی تھی میرے پیدا ہونے پر۔۔۔۔


میرے پیدا ہوتے ہی ایک نیا ڈرامہ شروع ہوگیا تھا گھر میں۔۔۔میرے ابو کی چاچی برابر والے گھر میں ہی رہتی تھیں۔۔۔ان کی دو بیٹیاں تھیں۔۔۔۔۔ چاچی مشہورِ زمانہ جادوگرنی تھی۔۔۔۔۔اس کی بیٹیوں کے کردار کے بارے میں محلے کا ہر لڑکا جانتا تھا۔۔۔۔ ان کے گھر کا ماحول نہایت ہی گندا تھا۔۔۔۔ چاچی کے منہ پر وہ گالیاں ملتیں جو شاید گالیوں کی ڈکشنری میں بھی نہ ہوں۔۔۔۔ یقین مانیں جو گالیاں کبھی آپ نے سنی بھی نہ ہو گیں ۔۔۔ وہ چاچی کے منہ پر ہر وقت کا کلمہ تھیں۔۔۔۔میری دادی کی بھی چاچی سے ہر وقت لڑائی رہتی تھی لیکن نہ جانے میرے پیدا ہوتے ہی ایسا کون سا کرشمہ ہوا تھا... کہ یہ لڑائی دوستی میں بدل گئی۔۔۔۔۔ میری دادی نے مجھے  میری والدہ سے چھین کر ان کے گھر بھیجنا شروع کر دیا۔۔۔۔میں پورے پورے دن ان کے گھر پڑا رہتا۔۔۔۔ میری دادی دنیا کی نظر میں اچھا بننے کے لیے سب سے بہانا بناتیں کے چاچی اور ان کی بیٹیوں کو مجھ سے بہت محبت ہے۔۔۔۔ ان کی بیٹی صبح ہوتے ہی لینے آ جاتی ہیں تو میں مجبور ہو جاتی ہوں دینے پر۔۔۔۔ 


آپ سوچ سکتے ہیں اس ماں پر کیا گزرتی ہوگی جس سے اس کا بچہ چھین لیا جاتا ہو اور پورے دن کچن میں کھڑا رکھا جاتا ہو۔۔۔۔۔ وہ سب سے رو رو کر کہتی رہتیں کہ میرا بچہ لا دو مجھے اسے دودھ پیلانا ہے وہ بھوکا ہو گا۔۔۔۔ لیکن کسی کے کان پر جوں ہی نہیں رینگتی۔۔۔۔۔۔ لڑائی جھگڑے اسی طرح چلتے رہے اور آخر کار میری والدہ کو نانا نے روک لیا۔۔۔۔


میری امی کا نام (فبیحہ) اور والد کا نام (شایان)۔۔۔۔


میں جب صرف دو سال کا تھا تب میری ماں اپنے گھر میں ایک ایک سے کہتی کہ میں تو اپنے بیٹے کا رشتہ ( والناس) کے لے کر جاؤں گی۔۔۔۔ یہ سن سب خوب ہنستے۔۔۔۔میری نانی تو والناس کی خالا کے کان تک بھی یہ بات پہنچا آٸیں تھیں کے فبیحہ ھر وقت گھر میں یہ بولتی ہے۔۔۔۔۔


پھر ایک دن اچانک میرے دادا اور والد آکر مجھے میری ماں سے چھین کر لے گئے۔۔۔۔ وہ ملنے کا بہانہ کر کے آئے تھے۔۔۔ موقع پاتے ہی مجھے لے کر گاڑی میں بیٹھ گۓ۔۔۔۔۔میری ماں تڑپتی سی رھ گٸ۔۔۔۔ انہوں نے دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ فبیحہ نے اپنا بیٹا خود ہی دے دیا۔۔۔ہم اسے لینے گۓ تھے پر وہ آٸی ہی نھیں۔۔۔۔۔اور بیٹا زبردستی ہمیں پکڑ دیا۔۔۔۔ 


کبھی اکیلے بیٹھ کر سوچتا ہوں۔۔۔تو سمجھ نھیں پاتا لوگوں نے کیسے یقین کر لیا ان کی بات پر۔۔۔ بھلا کوئی ماں بھی خود سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو جدا کر سکتی ہے؟؟؟۔۔۔۔ کیا ان عورتوں کے سینے میں ماں کا دل نہیں جو انہیں خبر نہیں کہ ایک ماں اپنی جان تو دے سکتی ہے پر اپنے بیٹے کو جدا نہیں کرسکتی ۔۔۔۔۔۔عورتیں بیٹھ کر میری ماں کو برا بھلا کہتیں۔۔۔۔میرے نانا نے دو تین بار فون کر کے مجھے مانگا ۔۔۔۔لیکن دادا نے اپنی فرعونیت دیکھاٸی اور یہ کھ کر فون کاٹ دیا کے جاکر کورٹ سے لے لو۔۔۔۔میرے نانا کوٸی امیر آدمی نہ تھے۔۔۔۔بڑی مشکل سے تو قرضہ لے کر انھوں نے امی کی شادی کی تھی۔۔۔۔وہ دو سال بعد بھی قرضہ ہی اتار رہے تھے۔۔۔۔ بیٹی کو جب بڑے گھر میں بیاتے ہیں تو جہیز بھی پھر اس بڑے گھر کے مطابق ہی دیتے ہیں۔۔۔۔بھلے ہی بال بال قرضے میں ڈوب جاۓ۔۔۔۔۔میرے نانا کا بھی یہی حال  تھا۔۔۔۔میرے نانا نے خاندان کے تمام بڑوں سے بات کی ۔۔۔جو خود کو چوہدری بنتے تھے ۔۔۔۔پر میرے دادا کے آگے سب خاموش ہوگۓ۔۔۔۔۔۔شاید پیسا چیز ہی ایسا ہے۔۔۔کوٸی بھی میرے دادا سے بیگاڑنا نھیں چاھتا تھا۔۔۔۔۔میرے دادا دادی نے ابو کو دوسری شادی کے سنہرے خواب دیکھا دیے تھے۔۔۔جس کے بعد تو وہ دادا کا طوطا بن کر رہ گۓ تھے ۔۔۔اپنی جیسے کوٸی عقل ہی نہ ہو۔۔۔۔۔۔


میں کس طرح پلا بڑا ہوں یہ تو صرف میں ہی جانتا ہوں۔۔۔یا میرا خدا۔۔۔۔جب سے میں پیدا ہوا تھا میرا باپ میری ماں سے کہتا تھا " بچے بن ماں کے پل جاتے ہیں" ۔۔۔۔اس جملے سے ثابت ہوتا ہے کے وہ میری ماں کو کبھی رکھنا چاہتے ہی نھیں تھے۔۔۔۔۔اس پر میری ماں تڑپ کر کھتی "  پلتے نھیں رولتے ہیں۔۔۔۔کیوں میرے ہوتے ہوۓ بچے کو بن ماں کا کرنے پر تلے ہو؟؟؟" اب سوچتا ہوں تو دل کھتا ہے "ھاۓۓۓۓۓ۔۔۔۔۔کتنا سچ کھتی تھی میری ماں"


میرے دل میں میری ماں کے لٸے شدید نفرت بھر دی تھی ان لوگوں نے۔۔۔۔۔اتنی کے میں انھیں کبھی دیکھنا بھی نھیں چاھتا تھا۔۔۔۔۔لوگ مجھے دیکھ بےساختہ  کہ اٹھتے کہ تم تو بالکل اپنی ماں جیسے خوبصورت ہو۔۔۔۔ یہ جملہ سنتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔۔۔مجھے اپنے باپ کی طرح کالا ہونا منظور تھا پر اپنی ماں سے کسی بھی معاملے میں مشابہت رکھنا۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔۔


میں انٹر کے امتحان سے فارغ ہوکر اپنے دوست کی شادی میں کراچی گیا۔۔۔۔میری ماں بھی کراچی کی تھی۔۔۔۔کراچی میں داخل ہوتے ہی میرا دل باولا سہ ہوگیا۔۔۔۔قابو میں ہی نھیں آرھا تھا۔۔۔۔۔ناجانے کیسی عجیب سی بے چینی نے میرے دل کو جگڑ لیا۔۔۔شاید وہ میری ماں کا شھر تھا اس لٸے۔۔۔۔۔ میں شادی میں شرکت کرکے فورا لوٹ جاؤں گا یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دیتا۔۔۔۔


شادی میں ۔۔۔۔میں اپنے دوست کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔۔ میں نہایت ہی خوبصورت و خوبرو نوجوان تھا اس لیے ہر لڑکی مجھے مڑ مڑ کر دیکھتی۔۔۔۔ اچانک ویٹر سے میرے کپڑوں پر کافی گر گئی۔۔۔۔ جیسے صاف کرنے۔۔ میں تیزی سے واش روم کی جانب بڑھا۔۔۔۔ واپسی پر میں اپنا کورٹ جھاڑتا ہوا آرہا تھا ۔۔۔ میں نے دیکھا نہیں کہ سامنے سے ایک لڑکی آ رہی ہے۔۔۔۔۔وہ اپنے سیل میں مگن تھی۔۔۔ ہم دونوں کے سر  زور سے ٹکرا گئے۔۔۔"آہ“ میں نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے جب اس لڑکی کی جانب دیکھا ۔۔۔ تو پہلی ہی نظر میں اس کا گرویدہ ہو گیا۔۔۔ وہ سر سے پاؤں تک سراپاۓ حسن تھی ۔۔۔”اف“۔۔۔۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس لمحے دل کی کیفیت کیا ہوگی تھی۔۔۔۔نہ جانے کیوں اس کے چہرے پر مجھے دیکھتے ہی مسکراہٹ بکھر آئی۔۔۔۔شاید اسے بھی میں اچھا لگ گیا تھا۔۔۔۔ (ایسے ہی اندازہ لگا رہا ہوں پکا نہیں کہ سکتا)۔۔۔” تم ذیشان ہو۔۔۔۔ رائٹ؟؟؟“ اس نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا۔۔۔۔ میں تو ہکا بکا نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔ میں تو پہلی بار کراچی آیا تھا پھر اس حسینہ کو میرا نام کیسے پتا۔۔۔ فی الحال موقع اچھا تھا جان پہچان بڑھانے کا۔۔۔۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے اس کے آگے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا”جی ۔۔۔۔میں ذیشان۔۔۔۔۔۔پر آپ مجھے کیسے جانتی ہیں؟؟؟“۔۔۔۔


وہ ہلکا سا شرمسار ہو کر میرا ہاتھ دیکھنے لگی” سوری۔۔۔۔ میں لڑکوں سے ہاتھ نہیں ملاتی“ اس کے کہتے ہی میرا دل چاھا کے اپنا سر دیوار پر زور سے دے ماروں۔۔۔۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میں نے کسی کی جانب ہاتھ بڑھایا ہو اور اس نے منع کیا ہو۔۔۔۔۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے اپنے ہاتھ کو  اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔۔۔مجھے محسوس ہوا کہ اس نے مجھے ذلیل کر دیا ہے ۔۔ ”اچھا ۔۔میں چلتا ہوں“ غصے سے کہہ کر ۔۔۔میں دانت پیستا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔ میں غصے کا بڑا تیز تھا یا یوں کہیں کہ وقت اور حالات نے مجھے ایسا بنا دیا تھا کہ میں چھوٹی چھوٹی بات پر بھی غصہ ہو جایا کرتا۔۔۔۔۔


”ذیشان ۔۔۔ میری بات تو سنو“وہ کھتے ہوۓ پیچھے آٸی۔۔۔۔

”جی بولیں۔۔۔۔“ میں نہایت بیزاری سے اس کی جانب دیکھتے ہوۓ بولا۔۔۔۔۔


”میں والناس“ وہ اپنا تعارف کرانے لگی۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں اپنا نام بتاتے وقت ایک الگ سی چمک  آگئی تھی۔۔۔۔ اس کی آنکھیں پرامید تھیں اپنا نام بتانے کے بعد۔۔۔جیسے مجھ سے کہ رہی ہوں کے اگلا جملا ۔۔۔۔میں یہ ادا کروں ” أو۔۔والناس تم۔۔۔۔“۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں تو اسے جانتا تک نہیں تھا۔۔۔ ان فیکٹ یہ نام بھی پہلی بار سن رہا تھا زندگی میں۔۔۔  


جاری_ہے ☺

کہانی 

میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی       

رائٹر حُسنِ_کنول

Epi_2


” کون والناس؟؟؟ میں نہیں جانتا“ میں نے صاف گوئی سے جواب دیا۔۔۔۔

” تم واقعی مجھے نہیں جانتے۔۔۔ تمہارے ساتھ ناول میں ہیروئن  میں ہی ہوں“ اس کا لہجہ نہایت حیران کن تھا اور آنکھوں میں چمک۔۔ جب وہ خود کو میری ہیروئن کہہ رہی تھی۔۔۔۔

میں الجھی نگاہ سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ پاگل لڑکی کیا باتیں کر رہی ہے۔۔۔۔ پہلی نظر دیکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک لگی تھی پر اب محسوس ہو رہا تھا شاید ذھنی توازن ٹھیک نہیں ہے اس کا۔۔۔۔۔ میں نے جان چھڑانے میں ہی عافیت سمجھی۔۔”اچھا۔۔۔او۔کے۔۔۔“ کہ کر میں ذرا آگے ہی بڑا تھا کے وہ تیزی سے چل کر میرے آگے آکر راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔۔۔” تمہیں مجھے دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی؟؟“ وہ پرامید نظروں سے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔


”خوشی؟؟۔۔۔ تمہیں دیکھ کر ؟؟۔۔۔پہلے یہ بتاؤ تم ہو کون؟؟“میں نے اسے دیکھتے ہوۓ حیران و پریشان ہوکر سوال کیا۔۔۔۔۔ میرا لہجہ نہایت سخت تھا پوچھتے وقت۔۔۔ لیکن وہ عجیب پاگل تھی مجھے دیکھ پھر بھی مسکراتے ہوئے کہنے لگی” بتایا تو ہے تمہارے ناول کی ہیروئن“۔۔۔۔۔ اب اس کی باتیں میرا بلڈ پریشر ہائی کر رہی تھیں۔۔۔۔


” کیا یہ لڑکوں کو پٹانے کا نیا طریقہ ہے؟؟۔۔۔ پہلے ہاتھ نہ ملا کر ان کی انسرلٹ کرنا پھر آگے آکر راستہ روک کر کھڑے ہوجانا ۔۔۔۔اور بار بار خود کو اس کی ہیروئن کہنا۔۔۔۔“میں نے اسے دیکھ بےرخی و بےزاری سے استفسار کیا۔۔۔ تو جوابا  مسکراتے ہوئے کہنے لگی” لگتا ہے تم نے ابھی تک ناول پڑھا ہی نہیں“


عجیب لڑکی تھی  نہ میرے غصے کا اثر ہو رہا تھا اس پر نہ بے رخی اور بے زاری کا ۔۔۔۔بس مجھے دیکھ ایسے فدا ہوئے جا رہی تھی جیسے سالوں سے جانتی ہو۔۔۔۔یا میری کوٸی فین ہو۔۔۔۔”کون سہ ناول؟؟۔۔۔۔“میں نے ابرو اچکاتے ہوۓ اسے دیکھ پوچھا۔۔۔۔


” میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی“اس نے مسکراتے ہوئے ناول کا نام لیا۔۔


”سوری۔۔۔ میں ناول نہیں پڑتا“ میں نے سپاٹ سہ جواب دیے  کر اس کے سائیڈ سے جانے کی کوشش کی تو اس نے فورا اپنا ہاتھ  راستے میں حائل کر کے مجھے پھر روکا۔۔۔۔


”  یہ تو غلط بات ہے یار ۔۔۔تمہیں پڑھنا چاہیے تھا ۔۔۔خاص تمہارے لئے ہی تو لکھا گیا ہے وہ“ اس کے لہجے میں افسردگی تھی یہ جملہ کہتے ہوئے۔۔


” تم کیا باتیں کر رہی ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا؟؟۔۔۔ پلیز میرا رستہ چھوڑو مجھے جانا ہے“ میں اسے بیزاری سے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا


”اچھا۔۔۔بابا۔۔۔ میں ہٹ جاتی ہوں تمہارے راستے سے۔۔۔ پر پہلے اپنا موبائل دیکھاؤ“ اس نے میرے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔۔


” کیا اپنا موبائل دوں؟؟میں بھلا کیوں  ایک اجنبی لڑکی کو۔۔۔“ ابھی میں بول ہی رہا تھا کہ اس نے میرے کورٹ سے خود ہی موبائل نکال لیا میں تو دم بخود آنکھوں سے اس کی جرات دیکھتا رھ گیا۔۔۔۔


”یہ کیا بدتمیزی ہے؟؟“ میں اسے دیکھ غصے سے بولا لیکن وہ تو موبائل میں مگن تھی۔۔۔


”او۔۔نو۔۔۔ پاس ورڈ“ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔۔ پھر میری جانب بغور دیکھا ایک لمحہ ضائع کئے بغیر میرا انگوٹھا پکڑ کر موبائل کے اسکرین پر ٹچ کردیا۔۔۔۔ میں اس کی جرت دیکھ ۔۔اس کا چہرہ تکتا سا رہ گیا تھا۔۔۔۔


” یہ کیا بلا ہے؟؟“ میں اسے دیکھ دل میں سوچنے لگا۔۔۔” اسکیوزمی۔۔۔۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ اپنی حد پار کر رہی ہیں؟؟“ میں نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے اس سے استفسار کیا۔۔۔۔۔ میں اس کی اس حرکت پر غصے سے تلملا اٹھا تھا۔۔۔۔ مگر اسے دیکھ ذرا سا بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا کے اسے میرے غصے سے کوئی فرق پڑ رہا ہو۔۔۔ وہ تو نہ جانے کیا کرنے میں مصروف تھی میرے موبائل میں۔۔۔


” ایک منٹ“ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا موبائل میں دیکھتے ہوئے۔۔۔۔۔


”یہ لو۔۔۔۔ ناول کے دو حصے جو آچکے ہیں وہ میں نے تمہیں سینڈ کر دیے ہیں واٹس ایپ  پر۔۔۔۔۔۔۔ پلیز پڑھنا مت بھولنا۔۔۔۔ اوکے۔۔۔“ اس نے میرا سیل واپس دیتے ہوئے انتہاٸی منتی انداز میں کہا۔۔۔


” میں نے کہا ناں۔۔۔ میں ناول نہیں پڑتا“


”ہاں ہاں سنا میں نے لیکن بس یہ والا پڑھ لو پلیز“ وہ التجاٸی انداز میں کہنے لگے۔۔۔۔” بہت ہیٹ جا رہا ہے یہ ناول لوگ بہت بے صبری سے اس کے تیسرے اور آخری حصہ کا انتظار کر رہے اور مجھے یقین ہے اس کا تیسرا حصہ لوگوں کے دلوں کو چھو جائے گا۔۔۔۔مجھے یقین ہے فبیحہ کو اس کا ذیشان مل جائے گا“ بس اس کا آخری جملہ ادا کرنا تھا میرے کان کھڑے ہو گئے۔۔۔۔۔ وہ میری ماں کا نام لے رہی تھی۔۔۔۔۔۔” کیا مطلب ہے اس بات کا؟؟“ میں تجسس سے پوچھنے لگا۔۔۔


” تم واقعی بہت خوبصورت ہو جیسا ناول میں لکھا ہے۔۔۔۔ (سورہ یوسف) واقعی کمال وظیفہ بتایا انہوں نے۔۔۔۔۔ بہت لکی ہو تم کے کسی نے تمہارے لئے اتنی دعاٸیں کی ہیں۔۔۔۔۔اللہ“ وہ میرے حسن پر فدا ہوتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔


ؓ اپنے دل میں: ”اف۔۔۔۔۔ یہ تعریف کرنے کا کون سا انداز تھا میں سمجھ ہی نہیں سکا ۔۔۔۔وہ پگلی کیا کہہ رہی تھی ؟؟۔۔ کون سا وظیفہ؟؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا“ لوگ میرے حسن کی تعریف کرتے تھے لیکن وہ کچھ انوکھے انداز میں کر رہی تھی۔۔۔۔۔”شکریہ۔۔۔ اب میں جاوں۔۔۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو“ میں نے طنزیہ لہجے میں اجازت طلب کی تو اس نے فورا رستہ چھوڑ دیا۔۔۔۔


” اچھا سنو“ اس نے پیچھے سے آواز لگاتے ہوئے روکا۔۔۔ میں دانت پیستے  ہوئے واپس مڑا اس کی جانب۔۔۔”بولو“


” تمہیں ریل لائف والناس پسند آئی؟؟؟“ اس کی آنکھیں بہت زیادہ پرامید تھیں یہ سوال کرتے وقت۔۔۔۔ لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا پوچھنا چاھ رہی ہے مجھ سے۔۔۔۔


”کیا مطلب؟؟“ میں نے الجھ کر سوال کیا۔۔۔


” نہیں کچھ نہیں ۔۔۔۔جب ناول پڑھ لو گے تو سمجھ آجائے گا کہ میں نے کیا سوال کیا ہے اس لیے پلیز ضرور پڑھنا“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور چلی گئی۔۔۔۔


وہ لڑکی والوں کی طرف سے تھی اور میں لڑکوں والوں۔۔۔ ہمارا سامنا پھر اسٹیج پر ہوا۔۔۔۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی لیکن میں نے فورا منہ موڑ لیا۔۔۔۔۔


******--------******


میں گھر آ کر واپس اپنے معمول کے کام کاج میں لگ گیا میں اپنے والد کے ساتھ کارخانے میں بیٹھتا تھا اس لیے جب میں تھکا ہوا  گھر لوٹتا تو سواۓ نیند کے کچھ نہیں سوجھتا  تھا میرے ذہن کو۔۔۔۔


ایک رات خواب میں فبیحہ آٸی ۔۔۔۔ وہ رو رہی تھی بہت۔۔۔۔ میں چونک کر اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔میرے حواس ابھی تک کام نہیں کر رہے تھے ٹھیک طرح۔۔۔۔ پہلے تو اس کی یاد میرے دل کو جکڑ گٸی۔۔۔۔ آخر ماں تھی وہ میری۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے دل کو سنبھالا اور وہ ساری بری باتیں یاد کریں جو اس کے بارے میں مجھ سے کہی گئیں تھیں۔۔۔۔کے اس ظالم عورت نے مجھے خود اپنی زندگی سے نیکال کر پھینک دیا تھا۔۔۔۔پھر میں کیوں اس کی خاطر اپنے دل کو جلاتا ہوں۔۔۔۔۔۔ دوبارہ سونا چاہا لیکن نیند تھی کہ مجھے منہ چڑا رہی تھی۔۔۔۔ میں اپنا موبائل لے کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ ایسے ہی چلا رہا تھا کہ والناس  کا سینڈ کیا ہوا ناول نظر آیا۔۔۔۔ میں نے دیکھا تو ناول کا تیسرا حصہ ابھی تک نہیں ڈلا تھا۔۔۔۔۔ کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا تو میں نے سوچا ناول ہی پڑھ لوں۔۔۔ ہوسکتا ہے اتنا بور ہو کہ پڑھتے پڑھتے ہی نیند آجائے۔۔۔۔۔۔ مجھے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا ۔۔۔۔میرا معلوماتی مطالعہ کافی زبردست تھا ۔۔۔لیکن ناول کبھی نھیں پڑھے۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔ میں کبھی کبھار جاسوسی کتابیں و رسالے پڑھ لیا کرتا تھا۔۔۔۔


میں نے بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی پڑھنا شروع کیا۔۔۔


(ناول: میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی


میری کہانی میری زبانی: 

سوچھ رہی ہوں کہاں سے لکھنا شروع کروں ۔۔۔۔۔اللہ یہ زندگی وہ سبق سیکھاتی ھے ۔۔۔۔ جو کسی کتاب یا  تعلیمی ادارے میں نہیں سکھائے جاتے۔۔۔۔ہر لمحہ آنے والا ٹریجر ہنٹ   کی طرح ہوتا ہے۔۔ خبر ہی نہیں ہوتی کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔۔۔۔جب میں میٹرک سے اے گریٹ میں پاس ہوٸی تو بہت خواب تھے میری آنکھوں میں۔۔۔۔۔ میں جب کالج میں پہلی بار لسٹ میں نام چیک کرنے گٸی تو میں اور میری مما حیران رھ گٸے کے کمپیوٹر سٹڈی کے سبجیکٹ میں میں ساتویں نمبر پر ہائیسٹ رینکنگ پر تھی۔۔۔۔ میرے لئے یہ بہت بڑی بات تھی کیوں کہ میں نے بغیر کسی ٹیوشن اور کوچنگ کے یہ پوزیشن حاصل کی تھی۔۔۔میری آنکھوں میں اتنے خواب تھے جتنے آسمان پر ستارے ۔۔۔۔خدا نے مجھے بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کیا تھا۔۔۔۔ میں جس جگہ جاتی ۔۔۔ میرا پرچار شروع ہو جاتا  ۔۔۔وہ سلائی سینٹر ہو یا بیوٹیشن کا کورس۔۔۔۔وہ  ناظرہ قرآن ہو یا عالمہ کا کورس۔۔۔۔آپ میری ذھانت کا اس بات سے اندازہ لگاٸیں کے میں یونی کی اسٹیڈی اور عالمہ کا کورس ساتھ ساتھ کررہی تھی۔۔۔۔ لوگ مجھ سے مذاق میں کہتے تھوڑا سہ فیض ہمھیں بھی دے دو۔۔۔۔۔میں صرف پڑھاٸی کا کیڑہ تھی۔۔۔۔


جاری_ہے🙂

Epi_3

کہانی : میری_ماں_کی_خواہش_تھی_وہ_پگلی


ناول چل رہا ہے(میرا رشتہ نھایت امیروکبیر خاندان سے آیا۔۔۔۔سب میری قسمت پر عش عش کرنے لگے۔۔۔ میں پڑھائی کی بہت شوقین تھی ۔۔۔مجھے فیوچر بنانا تھا اپنا۔۔۔میںری صرف میڑک کرتے ہی منگنی کروادی گٸی۔۔۔۔منگنی تین سال رہی۔۔۔اس دوران میں آرام سے پڑھتی رھی۔۔۔میرا منگیتر مجھ سے فون پر بات کرنے کی بھت ضد کرتا لیکن میں اس کے لٸے کبھی تیار نہ ہوٸی۔۔۔۔میرے نزدیک وہ منگیتر تھا تو کیا۔۔۔۔تھا تو نامحرم ہی ناں۔۔۔۔میرے اور شایان کے مزاج میں زمین  آسمان کا فرق تھا۔۔۔۔میں نے عالمہ کا کورس جب سے اسٹارٹ کیا تھا ۔۔۔میری سوچ بھت زیادہ گانے باجے ۔۔فلمیں ڈراموں کے خلاف ہوگی تھی۔۔۔۔میں نے شرعی پردہ کرنا بھی شروع کردیا تھا۔۔۔مجھے لوگ یونی میں بہن جی کہ کر بلانے لگے تھے ۔۔۔پر مجھے کوٸی فرق نھیں پڑتا تھا۔۔۔


دیوانے کو تحقیق سے دیوانا نہ کھنا۔۔۔۔۔

دیوانا بھت سوچ کر دیوانا بنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کیونکے میں بھت مضوط قوت ارادی رکھتی تھی۔۔۔جب میں نے پردے کا ارادہ کرلیا سو کرلیا۔۔۔ایسا نھیں کے مجھے مخالفتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔۔۔لیکن ضدی مزاجیت تو مانو کوٹ کوٹ کر بھری تھی مجھ میں۔۔۔۔زیادہ تر لوگوں نے یہ کہ کر سمجھایا کے پردہ نہ کرٶ تمھارا منگیتر بھت آزاد دماغ ہے۔۔۔۔


میں جس دعوت میں جاتی وہاں کی مہمانے خصوصی بن جاتی۔۔۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے ایسا کیوں؟؟؟۔۔۔۔مجھ میں ایسا کیا خاص تھا۔۔۔تو نھیں جی ۔۔۔مجھ ناچیز میں بھلا کیا خاص ہوسکتا ہے۔۔۔خاص تو میری سسرال والوں میں تھا۔۔۔جہاں بھی آتے ۔۔۔۔اتنے بڑے بڑے اور مہنگے تحفے ساتھ ساتھ پھولوں سے بنا زیور لاتے۔۔۔۔۔کے ناچاھتے ہوۓ بھی میں خود بہ خود لوگوں کی نظر کا مرکز بن جاتی۔۔۔۔ہر محفل میں مجھے گجرے پہنانے کی رسم شروع ہوجاتی ۔۔۔۔میں بھت شرمندگی محسوس کرتی تھی ۔۔۔۔خاندان کی ہر لڑکی مجھ جیسی سسرال کی تمنا کرنے لگی تھی۔۔۔۔


پر مجھے کچھ عجیب محسوس ہونا شروع ہوگیا تھا۔۔۔میری  سگی چاچی شایان کی پھوپھو لگتی تھیں ۔۔۔۔چاچی کی امی سے زیادہ تر لڑاٸی رھتی تھی ۔۔۔چاچی کے میکے میں ۔۔۔میری ماں کے سب کھلے دشمن تھے۔۔۔۔اور جو دشمنی ماں سے ہو وہ بیٹی سے ہونا تو فرض ہے۔۔۔۔میں اپنی امی کو اکثر سمجھاتی کے کیوں اپنے دشمنوں میں مجھے بھیج رہی ہو۔۔۔۔پر قربان جاٶں اپنی ماں کی سادگی پر ۔۔۔وہ سمجھتی ہی نھیں تھیں ۔۔انھیں تو صرف وہ مہنگے تحفے وہ محبت بھرے گجرے جو میری ساس لاتی تھی وہ  نظر آتے تھے۔۔۔۔۔)


اتنا پڑھنے کے بعد میں واقعی سو گیا تھا۔۔۔۔میں پہلی بار ناول پڑھ رہا تھا اس لٸے میں نے ناول راٸٹر کا نام تک پڑھنے کی زحمت نہ کی ۔۔۔۔اگر نام پڑھ لیتا تو خدا جانے ۔۔۔پھر میں نے ناول پڑھنا تھا بھی یا نہیں۔۔۔۔۔۔


******-------------*********


کچھ دنوں بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میں یونی میں فارم جمع کرواکر آرہا تھا کے راستے میں سیل رنگ ہوا ۔۔۔ میں نے باٸیک سائیڈ پر لگائی اور کال ریسیو کی۔۔۔۔ میں نے جلد بازی میں نام نہیں دیکھا”ہیلو“


دوسری طرف کال پر والناس  تھی ” زیادہ انگریز مت بنو۔۔۔ سلام کرو“ اس نے ہیلو کے جواب میں فورا ٹوکا تھا۔۔۔


اس کی بات سنتے ہی میں نے پہلے سیل کان سے ہٹا کر نام چیک کیا۔۔۔۔۔ سیل پر والناس کا نام شو ہورہا تھا۔۔۔۔”اففففففف۔۔۔۔۔۔یہ پاگل۔۔۔۔ اس نے مجھے کیوں فون کیا ؟؟؟۔۔۔۔ بہت دماغ کھاۓ گی ۔۔۔۔کال کاٹ دیتا ہوں“ یہ سوچ کر میں نے کال کاٹ دی۔۔۔۔۔


”ہا۔۔۔۔۔ہاۓ۔۔۔۔۔۔اس نے میری کال کاٹ دی۔۔۔۔۔۔اسے تو میں ابھی بتاتی ہوں ۔۔۔۔بچو میں بھی والناس ہوں ۔۔۔۔رک “اس کے بعد تو وہ دھڑا دھڑ کالیں مارنے لگی۔۔۔۔۔اس نے مجھے  پاگل کر دیا تھا کال کرکر کے۔۔۔۔۔


”کیا بلا ہے یہ ؟؟۔۔۔کیوں پیچھے پڑی ہے میرے؟؟“میں  اپنی بیچارگی پر خودی ترس کھا رہا تھا۔۔۔۔۔پہلے ذھن میں آٸیڈیا آیا اسے بلاک کرنے کا۔۔۔پر پھر اس کا خوبصورت سراپا آنکھوں میں لہرا گیا۔۔۔نہ جانے کیا سوچ کر میں نے کال دوبارا ریسو کرلی” السلام علیکم“اس بار میں نے ذرا جتانے والے انداز میں سلام کیا تھا۔۔۔۔


”وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎“اس نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔۔۔۔”کال کیوں کاٹی میری؟؟؟“ اگلے ہی لمحے اس نے اکڑانا انداز میں پوچھا۔۔۔


”آپ کو کام کیا ہے مجھ سے ؟؟؟۔۔۔وہ بولیں جلدی۔۔۔۔۔مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔۔راستے میں باٸیک روک کر بات کررہا ہوں۔۔۔“میں نے اس کے اکڑانا انداز پر آنے والے غصے پر قابو پاتے ہوۓ۔۔۔۔۔ ڈاٸرک اسے اصل موضوع پر لایا تھا۔۔۔اگر وہ مجھے پہلی ہی نظر میں پیاری نہ لگتی تو اب تک تو میں اسے ٹھیک ٹھاک کھری کھری سنا چکا ہوتا۔۔۔۔۔۔یہ میرے ظرف کی انتہاء تھی ۔۔۔۔جو میں اس کے لٸے دیکھا رھا تھا۔۔۔۔


 ”ہاۓ ۔۔۔کتنے بدتمیز ہو تم  ۔۔۔۔ایسے بول رہے ہو جیسے پیچھے پڑی ہوں تمھارٕے۔۔۔“وہ ابھی بول ہی رہی تھی کہ میں نے تیزی سے بات کاٹتے ہوئے”تو اور کیا کر رھی ہیں آپ؟؟؟۔۔۔“مجھ سے خاموش نہ رہا گیا اس کی بات سن۔۔۔۔


”میں نے تو بس ناول کے متعلق جاننے کے لیے فون کیا تھا۔۔۔۔ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔“ اس کی آواز ہی بتا رہی تھی کہ وہ غصہ پی رہی ہے۔۔۔۔


”ناول کے متعلق۔۔۔۔کیا؟؟؟کیا جاننا تھا تمہیں؟؟“میں تجسس سے استفسار کرنے لگا۔۔۔


”یہی کے تم نے پڑھا یا نہیں؟؟“ اس کی آواز میں سنجیدگی محسوس ہوئی۔۔۔۔


” یار۔۔۔ اس ناول میں ایسا کیا خاص ہے جو تم ہاتھ دھوء کر میرے پیچھے پڑ گٸی ہو؟؟؟۔۔۔۔۔۔بور لگا مجھے تو“میں منہ بسور کر بولا۔۔۔۔


” تمہیں وہ بور لگا۔۔۔۔ آئی ڈونٹ بلیف ڈیٹ ۔۔۔۔۔کیسے تمھیں وہ بور لگ سکتا ہے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔وہ کسی کی ریل آپ بیتی ہے ۔۔۔۔“وہ نھایت جذباتی ہوکر لیکچر دینا اسٹارٹ ہوگٸی تھی۔۔۔۔۔”تمھارے پاس دل نہیں ہے کیا؟؟؟“ اس نے غصے میں مجھ سے پوچھا۔۔۔۔۔۔ اس کا سوال مجھے کارٹنوں پر لوٹا گیا تھا ۔۔۔کے آخر کیوں ایک ناول کے چکر میں وہ مجھے اتنا سنا رہی ہے۔۔۔۔ جب کہ میں نے اسے صاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ میں ناول پڑھنے میں انٹرسٹ نہیں رکھتا۔۔۔۔


”مجھے لگتا ہے تم پاگل ہو۔۔۔۔کسی نفسیاتی ڈاکٹر سے چیک ۔اپ کراٶ اپنا۔۔۔۔۔ تمہیں سخت ضرورت ہے“ یہ کہ کر میں نے غصے سے فون کاٹ کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔۔۔۔اس لمحے میرا دل چاھا کے اس والناس کا حشر کردوں۔۔۔۔”پاگل ۔۔۔اسے تو بلاک لسٹ میں ہی ڈال دینا چاھٸیے“ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ابو کا فون آگیا۔۔۔۔ان سے بات کرنے میں ۔۔۔میں والناس کو بلاک کرنا بھول گیا۔۔۔۔


******----------********


میں نے والناس سے لڑاٸی تو کر لی غصے میں۔۔۔۔لیکن غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا کے میں کچھ زیادہ ہی بول گیا والناس کو۔۔۔۔سونے لگا تو نیند منہ چڑا رہی تھی۔۔۔۔باربار والناس کا خیال ذھن کو جھنجھوڑ رہا تھا۔۔۔( سوری) کا لفظ زندگی میں طنزیہ تو بہت بار کہا تھا مگر شرمسار ہوکر کبھی نہیں۔۔۔۔۔(سوری) کا لفظ لکھنے میں بھی مانو مجھے اپنی شان گھٹتی ہوٸی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کار اپنی انا کو ذرا جھکاتے ہوۓ (سوری) کا میسج والناس کو سینڈ کرہی دیا۔۔۔۔۔۔۔ساتھ ساتھ ایک کیوٹ سہ اسٹیکر بھی سینڈ کیا ۔۔۔۔۔


ایسا لگا میرے میسج کے انتظار میں ہی بیٹھی ہو۔۔۔۔فورا ہی ”اٹس اوکے “ کا ریپلاۓ آگیا۔۔۔۔اس نے بھی کیوٹ سہ اسٹیکر سینڈ کیا تھا (ناچتا ہوا بندر) میں نے پوچھا یہ کیا ہے۔۔۔۔کہنے لگی ”تم ہو ۔۔۔۔جو چھوٹی چھوٹی بات پر غصے میں ناچ جاتے ہو۔۔۔۔“یہ پڑھتے ہی میرا قہقہہ بلند ہوا ۔۔۔۔میں اس کے ریپلاۓ کے لیے اچھا سہ اسٹیکر تلاش کرنے لگا۔۔۔اتنی دیر میں وہ گٹ ناٸٹ کہ کر آف لائن ہوگئی۔۔۔۔ رات بھر میں باربار اس ناچتے ہوۓ بندر کے اسٹیکر کو دیکھتا اور ہنستا۔۔۔۔


ہماری زیادہ بات نھیں ہوتی تھی ۔۔۔لیکن جب بھی ہوتی وہ ناول پڑھنے پر ضرور زور دیتی۔۔۔۔دو مہینے بعد۔۔میں بارش کے سببب اپنا مال جہاں رکھواتا تھا اس گودام میں پھنس گیا۔۔۔۔ایک گھنٹہ گزر گیا تھا لیکن بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔نیٹ بھی کافی سلو چل رہا تھا۔۔۔۔۔مجھے اچھا لگتا تھا والناس کے میسجز باربار پڑھنا۔۔۔۔اس وقت میں چٸیر  کھڑکی کے پاس لگا کر بیٹھ گیا اور میسجز پڑھنے لگا۔۔۔۔اس کے ہر میسج کی آخری لائن سیم ہوتی تھی۔۔۔ناول پڑھ لو پلیز۔۔۔۔ اور میرا ہر بار ریپلائے یہی ہوتا کہ میرے پاس ٹائم نہیں ہے جب موقع ملے گا تو ضرور پڑھ لوں گا۔۔۔سوچا آج ٹاٸم ہے پڑھ لیتا ہوں۔۔۔۔وہ بھی خوش ہوجاۓ گی۔۔۔


میں نے ڈاٸرک شادی کی پہلی رات سے پڑھنا اسٹارٹ کیا۔۔۔۔ آج بھی میں نے ناول راٸٹر کا نام نہیں پڑھا بس بےدلی سے پڑھنا شروع ہو گیا۔۔۔۔


ناول :میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی


( شادی کی پہلی رات ہی کمرے میں گھستے ہی میرے بھت تیز سر میں درد شروع ہوگیا۔۔۔۔شایان میرے لٸے خود جاکر چاۓ بناکر لاۓ۔۔۔۔میں بتا نہیں سکتی ۔۔۔۔۔میں کتنا خوش ہوٸی یہ دیکھ کے۔۔۔کے میرا ہسبینڈ خود اپنے ہاتھوں سے میرے لٸے چاۓ بناکر لایا ہے۔۔۔۔میں نے خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین لڑکی گمان کرلیا تھا۔۔۔۔لیکن چاۓ پینے کے تھوڑی دیر بعد ہی مجھے اچانک سے بھت سردی لگنے لگی۔۔۔۔اور مجھے 104 بخار ہوگیا۔۔۔۔۔بخار کی شدت اس قدر بڑھ گٸی کے مجھے فورا ہسپتال لے جایا گیا۔۔۔۔میں تو بلکل ٹھیک اپنے گھر سے وداع ہوکر آٸی تھی پھر یہ اچانک بخار وہ بھی 104 ۔۔۔۔۔۔میری ساس نے سب سے بولنا شروع کردیا کے میں گھر سے ہی بیمار آٸی ہوں۔۔۔۔


دوسری رات تو میری زندگی کی یادگار رات ہے ۔۔۔۔چاہوں تو بھی نہ بھول سکوں ایسی۔۔۔۔میرا بخار کم نہیں ہورہا تھا۔۔۔۔لیکن سارے فراٸض ادا کرواۓ جارھے تھے مجھ سے۔۔۔۔۔۔رات کے دو بجے کے قریب مجھے اچانک کسی کے رونے کی آوازیں  آنے لگیں۔۔۔۔میری حالت بھت خراب تھی ۔۔۔پھر بھی اپنے وجود میں ہمت جمع کر کے میں اٹھ کر بیٹھی کے آخر یہ رونے کی آوازیں کہا سے آرہی ہیں ۔۔۔۔میں تو ہکا بکا رھ گٸ ۔۔۔وہ میرا شوہر رو رہا تھا۔۔۔میں نے سوچا کے وجہ پوچھوں ۔۔۔پر اتنا وقت ہی نہ مل سکا ۔۔۔اس نے الماری پر زور زور سے مکے مارنا اسٹارٹ کردیا۔۔۔۔میں بری طرح گھبرا گٸی۔۔۔۔۔میں نے زندگی میں کبھی کسی انسان کو خود کو مارتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔میں بھت خوفزدہ ہوگٸ تھی۔۔۔


میں نے اپنی ساس کو بتایا صبح ہوتے ہی۔۔۔لیکن انھوں نے مزاق میں اڑا دی بات۔۔۔۔مجھے سمجھ نھیں آیا کے میں کیا کروں۔۔۔۔اب تو یہ ہر رات کا معمول بن گیا تھا ۔۔۔کے وہ راتوں کو اٹھ کر روتا ۔۔۔خود کو مارتا ۔۔۔۔شوکیس کا سارا سامان پھینک دیتا۔۔۔۔اتنا ہی نھیں اب وہ باتیں کرنے لگا تھا ۔۔۔مجھے دیکھ کر کبھی زور زور سے ہنستا ۔۔۔کبھی اپنے پاس بلاتا ۔۔پھر خودی دھڑم کر کے بیڈ پر گر جاتا اور سو جاتا۔۔۔۔۔خوف کے مارے مجھے نیند ہی نھیں آتی تھی۔۔۔۔)اتنا پڑھنے کے بعد مجھے ترس آنے لگا تھا اس عورت پر۔۔۔۔۔جبکے میں اچھی طرح واقف تھا کہ یہ تو فقط ایک ناول ہے۔۔۔۔۔۔اب جاکر مجھے تجسس پیدا ہوا کے آخر اس بیچاری کے ساتھ کیا معاملہ چل رہا تھا

Epi 4   میری_ماں_کی_خواہش_تھی_وہ_پگلی❤

رائٹر : حُسنِ_کنول


شادی کے صرف پندرہ یا بیس دنوں بعد مجھے ایک بھت حسین و جمیل بچہ دیکھا خواب میں ۔۔۔۔۔اس کا حسن نھایت نورانی تھا ۔۔۔اس جیسا خوبصورت بچہ میں نے ریل لاٸف میں تو کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔وہ بچہ بہت بھوکا تھا ۔۔۔۔بس اتنا ہی دیکھا تھا خواب میں , میں نے کے میری آنکھ کھل گئی۔۔۔۔جب میری آنکھ ‏ کھلی۔۔۔تو میں نے خود کو بھوکا محسوس کیا ۔۔۔۔شدت سے بھوک لگی ہوٸی تھی اس لمحے مجھے ۔۔۔بس اسی دن سے میرے دل میں اس جیسے نورانی بچے کی خواہش پیدا ہوگئی۔۔۔مانا میری زندگی کا کوئی پرسان حال نہ تھا پھر بھی میں نے اگلے دن سے سورہ یوسف کی تلاوت شروع کردی۔۔۔۔اور اس کا دم کیا ہوا پانی پیتی۔۔۔۔۔


میری زندگی۔۔۔۔۔اففففف۔۔۔۔۔کیا لکھوں ۔۔۔۔ایسے ایسے ناممکنات والے حادثات شروع ہو چکے تھے کہ اگر میں بیان کروں تو آپ یقین نہ کریں ۔۔۔۔۔جن میں سر فہرست میرے ہسبینڈ پر جن کا آنا تھا ۔۔۔جب میرے ہسبینڈ نے محسوس کیا کے میرا  ڈر و خوف تھوڑا کم ہوگیا ہے۔۔۔۔جبکے سچ کہوں تو ایسا ہر گز نہ تھا۔۔۔۔میں تو پوری رات جاگا کرتی تھی خوف کے مارے۔۔۔۔وہ راتیں جو میں نے خوف کے سائے میں روتے ہوئے گزاریں وہ میرے لئے ناقابلِ بیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جب بھی یاد کرتی ہوں ایسا لگتا ہے پھر دوبارہ انہی لمحوں کو جینے لگتی ہوں جس کے سبب مجھے اپنی حالت غیر ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔۔میرا دل میرے قابو میں نہیں آتا جب یاد کرتی ہوں ان خوفناک راتوں کو۔۔۔۔


ایک رات میرے ہسبینڈ  نے خود مجھ سے کہا کہ مجھ پر جن آیا ہوا ہے۔۔۔یہ کہ کر زور زور سے قہقہے لگانا شروع کر دیئے یہاں تک کہ اپنی گردن بھی آڑی کر لی۔۔۔۔ عجیب عجیب آوازیں نکالنے لگے۔۔۔۔۔بس وہ میرے خوف کی انتہاء تھی ۔۔۔مانو اس نے میری جان نیکال دی تھی۔۔۔ میرے سامنے چئیر پر دوپٹا رکھا تھا ۔۔۔وہ مانا نیٹ کا تھا ۔۔۔ لیکن اس وقت  میرا دماغ مفلوج ہو گیا تھا مارے وہشت و خوف کے۔۔۔نیٹ کا دوپٹہ میں کبھی کمرے سے باہر پہن کر نہیں نیکلتی تھی۔۔۔ ہمیشہ بڑی شال سے اپنا سر کور رکھتی تھی لیکن اس رات جو سامنے ہاتھ لگا بس وہ دوپٹہ اوڑھا اور کمرے سے فورا تیری سے بھاگتے ہوئے نیچے آئی۔۔۔۔میں امید سے تھی ۔۔۔شادی کو تین ماہ گزرنے کو آرہے تھے۔۔۔۔میرا سیڑھیوں سے نیچے بھاگتے ہوئے آنا بہت خطرناک تھا اس حالت میں۔۔۔۔لیکن میں نے اس وقت اپنی جان بچانے کو اہمیت دی ۔۔۔۔۔ جیسے میری جگہ کوئی بھی عورت ہوتی تو کرتی۔۔۔۔میری ساس مزاق میں لینے لگی۔۔۔ جیسے ہر بار کرتی  تھیں۔۔۔۔۔ میں نے انہیں ہر چیز بتائی۔۔۔۔اپنی ماں سمجھ کر۔۔۔ لیکن انہوں نے کبھی میری بات کا یقین ہی نہیں کیا بلکہ ہستیں اور مزاق اڑاتی میرا۔۔۔۔اس رات میں واپس کمرے میں جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔۔۔۔پھر میری ساس اور دیور چھت پر گۓ ۔۔۔میرا گھر میری ساس کے گھر کے بالکل برابر میں تھا اور چھت سے آنے جانے کا راستہ دیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی نظر میں۔۔۔۔میں بھت خوش نصیب تھی جو مجھےایک الگ گھر ملا تھا ۔۔۔۔۔ ورنہ عام طور پر نٸی دولہنوں کو ایک کمرہ ملتا ھے۔۔۔۔لیکن کہتے ہیں نہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔۔۔۔بس میری یہی مثال تھی۔۔۔۔ میرے ہسبینڈ لوگوں کے سامنے تو اتنی محبت اور جان نثار کرنے والے ۔۔۔۔کے کبھی کبھار تو میں بھی شک میں پڑ جاتی۔۔۔۔۔۔


اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کے وہ راتوں میں اٹھ کر عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔میری ساس نے میرے شوھر سے خود بات کی ۔۔۔۔۔میری ساس مجھے واپس زبردستی کمرے میں چھوڑ آٸی ۔۔۔وہ بلکل نارمل تھا یہ دیکھ میرا سر چکرا گیا تھا۔۔۔۔ وہ ہنس کر کہنے لگا کہ میں تو صرف مذاق کر رہا تھا۔۔۔۔یہ پاگل لڑکی نہ جانے کیوں اتنا ڈر گئی۔۔۔۔۔۔۔


۔تین مہینے ۔۔۔۔۔۔پڑھنے میں شاید زیادہ محسوس نہ ہوں۔۔۔۔۔لیکن میرے لیے تین صدیوں کے برابر تھے۔۔۔۔۔وہ سب کچھ جو وہ کرتا تھا صرف مزاق تھا ۔۔۔یہ سن کر میرا ذھن کام ہی نہیں کیا کے میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔اب جب جن والا ناٹک ختم ہوا ۔۔۔تو مجھے لگا شاید زندگی تھوڑی سکون میں آجائے۔۔۔لیکن یہ میری بھول تھی ۔۔۔۔۔میں نے دیکھا میرے سسر پر بابا آتے ہیں چھت والے۔۔۔۔۔جس چھت سے میرا راستہ تھا۔۔۔۔۔


مطلب۔۔۔۔۔میں کہاں پھنس گٸی تھی ۔۔۔مجھے سمجھ نھیں آتا تھا۔۔۔۔۔۔ اتنے ماڈل دیکھنے والے لوگ اندر سے اتنی جہالت میں ڈوبے نکل کر آئیں گے یہ تو میں نے کبھی گمان بھی نہ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور اتنا ہی نھیں میری چاچی ۔۔۔۔ جو میرے شوہر کی پھوپھو لگتی تھیں ۔۔۔۔مجھے تو شادی کے بعد پتا چلا کے ان پر بھی بابا آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور ان کے بابا سے تو وہاں سب بھت ڈرتے ہیں۔۔۔۔۔جب ان پر بابا آتے وہ آنکھیں چڑا لیتیں اور چیخ چیخ کر بولنے لگتیں۔۔۔۔ان پر بابا دیکھنے کا شرف بھی مجھے شادی کے بعد سسرال میں ہی نصیب ہوا۔۔۔۔۔ میری زندگی گزری تھی چاچی کے ساتھ پر میں نے کبھی ان پر جن آتے نہیں دیکھے تھے۔۔۔۔۔۔پھر یہ اچانک کہاں سے جن آنا شروع ہو گئے ان پر میری سسرال میں جاتے ہی؟؟؟۔۔۔۔۔ وہ جب بھی میرے سسرال آتیں ان پر جن آجاتے اور وہ ڈیمانڈ کرتے کہ گھر خالی کرو ۔۔۔۔۔ ہم چھت پر رہتے ہیں ہمیں پریشانی ہو رہی ہے اس لڑکی کے آنے جانے سے۔۔۔۔۔


مزے کی بات یہ تھی کے میرے سسر پر آنے والا جن بھی یہی کہتا تھا کہ وہ چھت کا جن ہے۔۔۔۔۔بس میں ۔۔۔۔جی بلکل آپ نے درست پڑھا۔۔۔(میں)ان کی کہی بر بات مانتی رہوں (یعنی سسر کی)تو میں چھت سے آنا  جانا کر سکتی ہوں وہ مجھے تنگ نہیں کریں گے۔۔یہ آفر صرف میرے لئے تھی ۔۔۔۔ میری زندگی کم۔۔۔۔ فٹبال زیادہ بن گئی تھی۔۔۔۔ایک طرف سے چاچی کھیل رہی تھیں ۔۔۔۔ایک طرف سے سسر۔۔۔۔۔۔اور شوھر کی تو بات ہی نیرالی تھی۔۔۔۔۔انسان ۔۔انسانوں سے لڑھ سکتا ہے ان جنوں سے کیسے لڑے؟؟؟۔۔۔۔۔۔


ایک رات میرے شوہر نے باتوں ہی باتوں میں مجھ سے کہا کہ کاش تم شادی سے پہلے فون پر بات کرلیتیں تو میں تم سے پوچھتا کیا تمہیں میں پسند ہوں اور تم منع کر دیتیں تو میں یقین مانو منگنی توڑ دیتا ۔۔۔۔۔۔میں نے جوابا کہا۔۔۔ میں اپنے والدین کی مرضی کے خلاف کیوں جاتی بھلا۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی ہمارے یہاں لڑکیوں سے نہیں پوچھتے پسند ناپسند کی۔۔۔۔۔مجھے اس کی کہی یہ بات الجھا گٸی تھی ۔۔۔۔چھوٹی نند سے معلوم ہوا ۔۔۔۔۔کے شایان کی شادی زبردستی کرائی گئی تھی مجھ سے۔۔۔۔۔۔ تو سمجھ آئی مجھے یہ بات کہ وہ میرے کندھے پر بندوق رکھ کے چلانا چاھتا تھا۔۔۔۔۔لیکن چلا نہ سکا۔۔۔۔۔۔۔اب مجھے کافی باتیں سمجھ آنے لگیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ اب  مجھے سمجھ آیا تھا کہ تین مہینے تک مجھے ڈرایا نہیں جا رہا تھا بلکے مجھے اپنی زندگی سے نیکالنے کی بھرپور کوشش کی جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔پر میں ڈھیٹ ہڈی کہاں ان جنوں سے بھاگنے والی تھی ۔۔۔۔۔۔۔


اب نئے تماشے میرے منتظر تھے ۔۔۔۔یہ کہاں جانتی تھی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے ہسبینڈ کمرے میں آتے ہی سب چیزیں بند کردیتے۔۔۔۔۔۔ ای۔سی۔۔۔۔۔ لائٹ۔۔۔۔۔ ٹی وی۔۔۔۔ سیل۔۔۔۔یہاں تک کے اگر میں انھی کے کپڑے استری کر رہی ہوں وہ بھی بند کرا کے مجھ سے کہتے بس سونے لیٹ جاٶ۔۔۔۔۔اور خود بستر پر لیٹ کر زوردار آواز میں ڈیگ چلاتے ۔۔۔۔۔ خود بھی روہانسہ آواز میں پوری رات گاتے۔۔۔۔۔۔وہ بھی صرف ایک گانا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سلسلہ فجر تک چلتا۔۔۔۔۔اتنے شور میں کیسے نیند آسکتی ہے ۔۔۔۔۔یہ ذہنی ٹارچر مجھے اب پاگل کر رہا تھا۔۔۔۔۔میں نے آخر کار ان سب سے تنگ آکر ایک رات اپنی مما کو فون پر سب کچھ بتادیا۔۔۔۔۔ انہوں نے میری ساس سے بات کی ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بڑوں میں بات ہوئی تھی تو وہ میرے شوہر کو سمجاتے پر معاملہ بالکل الٹ ہو گیا۔۔۔۔۔میرے سسر نے الٹا مجھی پر چڑاٸی کر ڈالی۔۔۔۔۔میرے ہسبینڈ سے تو کچھ نہ کہا بلکے مجھ سے کہنے لگے ۔۔۔۔۔تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں جنہیں گھر بسانے نہیں آتے۔۔۔۔۔جو ہر چھوٹی چھوٹی بات اپنی ماں کو بتاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔میرے شوھر سے مخاطب ہوکر کہنے لگے اس کا موبائل چھین لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہماری عزت خراب کر رہی ہے معاشرے میں۔۔۔۔۔۔۔آج میں سوچتی ہوں میری جگہ ان کی بیٹی ہوتی تو کیا وہ تب بھی یہی فیصلہ سناتے۔۔۔۔۔۔۔فلحال کچھ ہی دنوں بعد میرا سیل میرے سسر نے خود چھپا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آخر کار مجھے ٹریول کرنے کی اجازت ملی۔۔۔۔تو میں اپنے گھر آٸی۔۔۔۔۔۔میں گھر آکر اپنے والدین بہن بھائی سب سے الگ الگ مل کر پھوٹ پھوٹ کر روٸی۔۔۔۔۔۔میری حالت بھت خراب تھی ۔۔۔۔میں نیند سے چیختی ہوئے اٹھتی اور پھوٹ پھوٹ  کر روتے ہوۓ کہتی کے مجھے ان لوگوں کے پاس مت بھیجو۔۔۔۔۔۔۔ میرے والدین بہت سیدھے تھے انہیں لگا کہ اولاد ہو جائے گی تو سارے معاملات خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔اب سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے اس جھوٹی  امید پر۔۔۔۔۔۔میں نے کبھی نہیں دیکھا کے ایک مرد کو بچے نے باندھا ہو۔۔۔۔۔۔اگر ایسا ہوتا تو نہ جانے مجھ جیسی کتنی لڑکیوں کے گھر بس جاتے۔۔۔۔۔۔


میری حالت اتنی خراب رھنے لگی تھی کے میرے اولاد کو کچھ نہ ہوجاۓ۔۔۔۔۔یہ خطرہ میرے ساس سسر کو لاحق ہوگیا تھا۔۔۔۔میں بس ہر وقت یا تو کچن میں کام کرتی یا بےجان سی پڑھی روتی رہتی۔۔۔۔۔۔او ۔۔۔۔سوری اپنا مشھور لقب تو میں نے آپ سے ابھی تک شٸیر کیا ہی نہیں ۔۔۔۔۔گیس کرنا چاہیں گے؟؟؟۔۔۔۔۔ چلے ہنڈ دے دیتی ہوں۔۔۔۔۔کیا یاد کریں گے کس ناول راٸٹر سے پالا پڑا ہے۔۔۔۔(میں پڑھی لکھی تھی)۔۔۔}

یہ پڑھتے ہی ذیشان کے منہ پر بے ساختہ آیا” پڑھی لکھی جاہل“۔۔۔۔۔کیونکے فبیحہ کو بھی اسی لقب سے پکارتے ہیں دادی دادا آج تک۔۔۔۔۔پھر اس نے آگے پڑھا


{چلیں چھوڑیں ۔۔۔۔میں ہی بتا دیتی ہوں ۔۔”پڑھی لکھی جاہل“۔۔۔۔۔۔۔۔میرے ڈیڈ میرے پڑھے لکھے ہونے پر بڑا فخر کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ ہر وقت مجھے میری گریجویٹ بیٹی۔۔۔۔ میری گریجویٹ بیٹی کہتے ان کی زبان نہیں تکھتی تھی۔۔۔۔۔اور بلکل اس کی الٹ میرے ساس سسر مجھے پکارتے۔۔۔۔۔میری روح تک تکلیف محسوس کرتی تھی اس لقب کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان لوگوں نے میرا پڑھا لکھا ہونا گناہ بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کبھار مجھے خود پر بھت غصہ آتا کے آخر کیوں ہوں میں پڑھی لکھی؟؟؟۔۔۔۔۔} 


ذیشان : میں نے جب یہاں تک پڑھا تو مجھے بھت غصہ آیا ناول راٸٹر کی سسرال والوں پر۔۔۔۔۔کیسے انھوں نے اتنی ذھین و ہوشیار لڑکی کو آدھا ذھنی مریض بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں پڑھاٸی کا بھت شوقین تھا اور علم کی اہمیت کو سمجھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔میں مزید آگے پڑھنا شروع ہی کر رہا تھا اس سے پہلے میرٕی نظر کھڑکی سے باہر پڑی تو میں نے دیکھا کہ بارش تھم گئی ہے۔۔۔۔۔ میں نے ناول وھیں روک دیا اور فورا بائیک کی چابی اٹھا کر گھر کے لیے نکلا اس سے پہلے کہ دوبارہ بارش شروع ہو اور میں پھر سے گودام میں پھنس جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔


******-------*******


اب میں ناول پڑھنے میں انٹرسٹ لے رہا تھا لیکن بارش والے دن کے بعد سے مجھے موقع  ہی نہیں مل پارہا تھا پڑھنے کا۔۔۔۔۔ایک دن مجھے کال آٸی ۔۔۔۔ میں ہیلو ہیلو کرتا رہا مگر دوسری طرف سوائے خاموشی کے کچھ نہ تھا۔۔۔۔۔۔میں نے کال کاٹ دی۔۔۔۔پھر ایک دو دن بعد مجھے اسی نمبر سے دوبارا کال آئی۔۔۔ پھر میں ہیلو ہیلو کرتا رہا لیکن دوسری طرف سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہ تھا۔۔۔۔۔میں نے اس کال یا نمبر پر زیادہ دیھان نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب تیسری بار آٸی ۔۔۔۔تو مجھے محسوس ہوا کہ جب میں ہیلو کہتا ہوں تو دوسری سائیڈ جو شخص ہے وہ روتا ہے۔۔۔۔میرا دل کہنے لگا کے یہ فبیحہ ہے۔۔۔۔۔پر اس عورت کے پاس میرا نمبر کہاں سے آتا؟؟؟۔۔۔۔۔۔ اور پھر مجھے وہ کانٹیک کرے گی ہی کیوں ؟؟؟ جسے خود اس نے اپنی زندگی سے نکال کر پھینکا ہو۔۔۔۔۔۔ہاۓ اس کمبخت دل کا کیا کروں جو یہ سوچ کر ہی خوش ہوجانا چاھتا تھا کے شاید اسے اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوا ہو اور اسے میں یاد آگیا ہوں آج۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس نمبر کو رونگ نمبر کے نام سے سیف کر لیا۔۔۔۔میں نہیں جانتا کیوں لیکن جب بھی اس رونگ نمبر سے فون آتا میں فوری اٹھا لیتا اور کان سے لگا کر ہیلو ہیلو کرتا رہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مانا سخت نفرت تھی مجھے فبیحہ سے۔۔۔۔۔۔ میں خود سے ہی لڑتا۔۔۔کے  اگر وہ فبیحہ ہے بھی تو کیا؟؟؟ میں کیوں اس عورت کا فون اٹھاتا ہوں؟؟؟۔۔۔۔۔ ہر بار یہی سوچتا کہ اب کال نہیں اٹھاٶں گا ۔۔۔چاھے کتنا بھی بجتا رہے۔۔۔۔لیکن جب فون آتا تو میری نفرت پر میری ممتا کی ترسی ہوٸی محبت غالب آجاتی اور میں فون اٹھا لیتا۔۔۔۔۔۔۔ مانا کہ دوسری طرف سوائے خاموشی کے کچھ نہ ہوتا لیکن یہ احساس ہی کافی تھا کہ وہ مجھے فون کرتی ہیں۔۔۔۔۔میں نے یہ بات گھر میں سب سے چھپاکر رکھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ******---------******


میں کینٹین سے گزر کر اپنی کلاس روم کی جانب جا رہا تھا کے میرا کندھا کسی سے ٹکرایا ۔۔۔میں نے سرسری سی نظر ماری کے کس اندھے کو میں سامنے سے آتا نظر نھیں آیا ذر ایک نظر اسے دیکھ تو لوں۔۔۔۔۔ جیسے ہی دیکھا میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھر آئی۔۔۔۔تھوڑا حیران بھی ہوا ۔۔۔ پر یہ دیکھ زیادہ کنفیوز  ہوا کہ عجیب لڑکی ہے ٹکرانے کے بعد بھی اپنے سیل سے نظر ہٹانے کیلئے تیار نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اتنا بھی کیا سیل میں مگن ہونا کے دنیا کی خبر ہی نہیں۔۔۔


” ہیلو“ میں نے پیچھے سے مخاطب کرنے کی نیت سے آواز لگائی تو وہ میری آواز سن حیرت سے پیچھے پلٹی۔۔۔۔


”ذیشان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یہاں کیسے؟؟؟“ والناس کے چہرے پر مجھے دیکھتے ہی خوشی جھلک اٹھی تھی۔۔۔اگلے ہی لمحے حیرت کے عالم میں مجھ سے پوچھنے لگی۔۔۔۔


” یہ تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیے۔۔۔۔ تم میری یونی میں کیا کر رہی ہو؟؟؟“ سچ کہوں تو مجھے بہت خوشی ہوٸی تھی اسے اپنی یونی میں دیکھ۔۔۔۔لیکن میں یہ واضح کردوں کہ میں اسے ایک اچھے دوست کی نظر سے دیکھتا  تھا۔۔۔۔۔


” تمہاری یونی؟؟؟۔۔۔۔ او تو تم یہاں پڑھتے ہو۔۔۔۔ میں یہاں پینٹنگ کمپٹیشن کے لئے آئی ہوں۔۔۔۔“ اس کے لہجے میں کافی فخر تھا یہ بتاتے ہوئے۔۔۔۔۔جس پر میں اسے چھیڑے بغیر نہ رہ سکا ” اُو۔۔۔۔۔۔ تو آپ 24  گھنٹے موبائل  چلانے کے علاوہ بھی کوئی ہوبی رکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔“ میں نے ذرا طنزیہ کہ کر اپنی مسکراہٹ دباٸی تھی۔۔۔۔۔


”ہاہاہاہا۔۔۔۔۔ ویری فنی۔۔۔۔۔۔۔۔“وہ کہ کر ابھی مزید آگے کچھ بولتی کہ اس سے پہلے ایک لڑکا اس کا نام لیتے ہوئے وہاں آیا۔۔۔۔۔ 


”چلو والناس ۔۔۔ تمہارا کمپیٹیشن تین بجے تک ہے ۔۔۔۔ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔۔۔۔ چلو کینٹین چلتے ہیں“وہ لڑکا مجھے مکمل اگنور کر والناس کو اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔۔۔مجھے تجسس ہوا کے کون ہے یہ والناس کا۔۔۔۔ وہ میرے سامنے ہی والناس کو لے کر جانے لگا۔۔۔۔۔


” اسکیوزمی ۔۔۔۔۔آپ کی تعریف؟؟؟“اس کے اگنور کرنے سے کہیں زیادہ مجھے اس کا والناس کا ہاتھ پکڑنا برا لگ گیا تھا۔۔۔۔میں نہیں جانتا کیوں پر کوئی اور اس کا ہاتھ تھامے یہ میرے دل کو گوارا نہیں تھا۔۔۔۔۔میں نے اس لڑکے سے ذرا رعب دار آواز میں پوچھا۔۔۔


”رضا ۔۔۔۔کیوں کوئی پرابلم ہے؟؟؟“ اس نے مڑ کر مجھے دیکھ مغرور انداز میں جواب دیا۔۔۔۔


”ہاں۔۔۔۔میں والناس کا دوست ہوں اور جاننا چاہتا ہوں تم والناس کے کون ہو؟؟؟؟“ جیسے ہی میں نے خود کو دوست کہہ کر انٹرڈیوس  کرا۔۔۔۔۔والناس نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں اور زبان دانتوں میں دباٸی جیسے میں نے کچھ غلط کہ دیا ہو۔۔۔۔۔والناس نے دو تین لمحے بعد ہی مجھے غصے سے کھاجانے والی نظروں سے گھورا تھا


”واقعی؟؟؟“ وہ طنزیہ انداز میں کہنے لگا۔۔۔۔جس بھرم سے وہ بات کر رہا تھا مجھے اب وہ والناس کا کوئی قریبی معلوم ہوا۔۔۔۔۔بس ڈر دل کو یہ لگا کے کہیں خود کو اس کا فیونسے یا ہسبینڈ نہ بول دے۔۔۔۔۔


جس غصے سے وہ مجھے دیکھ رہی تھی مجھے لگا ۔۔۔۔۔مجھے خاموش ہو جانا چاہیے۔۔۔۔۔


”بھاٸی ہوں میں اس کا۔۔۔۔۔اور پلیز ذیشان تم اِس کی طرح پاگل مت بنو۔۔۔۔۔ عقل سے کام لو ۔۔۔۔جو نہیں ہو سکتا اس کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دو۔۔۔۔ یہی بہتر ہے تم دونوں کے لیے“ وہ میرا نام جانتا تھا یہ دیکھ میں ہکا بکا ہوگیا۔۔۔۔لیکن وہ بول کیا رہا تھا یہ سمجھ نہیں آیا تھا مجھے۔۔۔۔۔۔۔کبھی کبھار سوچتا ہوں شاید میں بہت ‏فیمس ہوں۔۔۔۔کسی کو نام بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی مجھے۔۔۔۔۔۔وہ بھی اوپر سے آیا تھا والناس کی طرح۔۔۔۔ وہ تو کہہ کر چلا گیا۔۔۔پر میں کافی دیر تک اس کی کہی بات سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔۔


مجال ہے اتنا غور و تفکر کرنے کے بعد بھی کچھ سمجھ آٸی ہو مجھے کے والناس کا بھائی کیا کہہ کر گیا ہے۔۔۔۔میں اپنا سر کھوجاتا ہی رہ گیا۔۔۔۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ والناس کا کمپٹیشن تین بجے ہے تو میں اسے سپورٹ کرنے اور ساتھ ساتھ معافی مانگنے۔۔۔۔ ٹھیک وقت پر پہنچ گیا۔۔۔۔اس نے کمپیٹیشن شروع ہونے سے پہلے ایک نظر میری جانب دیکھا اور پھر خفگی سے نظریں پھیر لیں۔۔۔۔۔اسکی ناراضگی مجھے احساس دلا رہی تھی کہ میں نے غلط کیا تھا اس کے بھائی سے بات کرکے۔۔۔۔پر میں کیا کروں میں بس اس وقت خود پر کنڑول نہیں کرسکا تھا۔۔۔۔


فی الحال کمپیٹیشن شروع ہو چکا تھا۔۔۔پانچ منٹ گزرنے کے بعد مجھے ناول پڑھنے کا خیال آیا۔۔۔۔۔ پینٹنگ کا مجھے  کوئی شوق نہیں تھا۔۔۔اس لیے موبائل نیکال کر ناول پڑھنا شروع کردیا۔۔۔ناول کی منظر نگاری اس قدر خوبصورتی سے کی گئی تھی کہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں وہ سب کچھ ہوتے دیکھ رہا ہوں جو ناول رائٹر بیان کر رہی ہے۔۔۔


۔ناول شروع کرتے ہی مجھے لگا میں رائٹر کی بنائی ہوئی دنیا میں آگیا ہوں 


ناول : میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی


(اکثر جب مہمان آتے تو میرے ساس سسر مجھے ان کے سامنے زبردستی لیٹا دیتے ۔۔۔۔کیونکے میں بیٹھے بیٹھے جھونکے لیتی تھی۔۔۔۔رات بھر جاگنے کے سبب میں دن میں اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد اگر سو بھی جاٶں تو میری ساس  مجھے کسی نہ کسی کام سے اٹھا ہی دیتی تھی۔۔۔ کچی نیند میں بار بار اٹھنے کے سبب میرے سر میں درد رھنے لگا تھا۔۔۔اس لٸے میں نے دن کا سونا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔بس جھونکو سے اپنی ننید بھرتی۔۔۔۔جب میرے ساس مہمانوں کے سامنے اپنی بہو کو سونے لیٹا دیتی اور خود کچن میں جاکر کام کرتی تو لوگ اس کی شان میں بڑے ہی قصیدہ پڑھا کرتے ۔۔۔۔۔مجھ سے کہتے تم بڑی خوش نصیب ہو جو تمھیں ایسی ساس ملی۔۔۔۔۔۔ایک سوال کروں ؟؟؟۔۔۔ہمیشہ ذھن میں آتا ہے۔۔۔۔لوگ اندھے ہوتے ہیں کیا؟؟؟۔۔۔۔انھیں کیا میری آنکھوں کے نیچے کے ڈاک سرکل نظر نہیں آتے تھے ؟؟؟۔۔۔۔میرے چہرے پر جو ہر وقت افسردگی و خوف رھتا تھا وہ نظر نہیں آتا تھا کیا؟؟؟۔۔۔۔یا ۔۔۔۔معاشرہ ایسا ہی ہے؟؟؟۔۔۔۔۔امیروں کے خلاف اف بھی نہیں لاتا زبان پر۔۔۔۔۔


چلیں چھوڑیں ۔۔۔۔۔معاشرے کے دوغلے لوگ تو بھت بعد میں آتے ہیں ۔۔۔پہلے تو اپنے ہی ڈس لیتے ہیں آستین کے سانپ کی طرح۔۔۔۔جیسے میرے مامو نے کیا ۔۔۔۔جب میرا رشتہ آیا تھا تو میرے مامو سے میرے والد نے لڑکے کے حوالے سے پوچھ تاچھ کی۔۔۔۔۔جیسے سارے والدین کرتے ہیں۔۔۔۔۔میرے مامو پورے خاندان کے سب سے امیر وکبیر آدمی ہیں۔۔۔۔وہ واحد ہیں جن کی  عزت میرے  سسر بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔ورنہ میرا سسر بھت اونچی چیز ہے وہ کسی کو خاطے میں نہیں لاتا۔۔۔۔۔تب میرے مامو نے کہا۔۔۔۔تمھاری بیٹی خوش نصیب ہے جو اتنے اچھے لڑکے کا اسے رشتہ آیا ہے ۔۔۔۔اگر میری بیٹی کا آتا ۔۔۔۔میں تو فورا ہاں کردیتا ۔۔۔۔۔بس یہ بات میرے والد کا اعتماد بڑا گٸی۔۔۔۔اور انھوں نے رشتے کی ہاں کردی۔۔۔۔۔شادی کے بعد مجھے پتا چلا کے ان کی بیٹی کے لٸے رشتہ گیا تھا مجھ سے پہلے۔۔۔۔پر انھوں نے صاف انکار کرکے اپنی بیٹی کو ان لوگوں سے بچالیا۔۔۔۔اس بات کا جب مجھے علم ہوا تو مجھے شدید دکھ ہوا۔۔۔۔۔لوگ اپنی بیٹی کے لیے جس رشتے کو اچھا نہیں سمجھتے۔۔۔۔وہ دوسرے کی بیٹی کے لئے کیسے اچھا ہو جاتا ہے؟؟؟۔۔۔۔شاید میں بےوقوف ہوں۔۔۔ معاشرے کے تقاضوں سے ناواقف ہوں اس لئے ایسے عجیب سوال کر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔آپ بھی بور ہورہے ہوں گے۔۔۔۔۔شاید کچھ تو یہ سوچ رہے ہوں کے آخر یہ ناول لکھ ہی کیوں رہی ہوں ۔۔۔۔۔تو میں بتادوں۔۔۔۔۔یہ آپ کے لٸے ناول ہے۔۔۔۔مجھ بیچاری کے لٸے یہ ایک واحد راستہ ہے اس شخص تک یہ باتیں پہچانے کا ۔۔۔۔جو مجھ سے بھت دور ہے۔۔۔۔۔۔اور مجھے غلط سمجھتا ہے ۔۔۔۔میں اسے بتانا چاہتی ہوں میں بھت مجبور تھی۔۔۔۔۔وہ مجھے غلط نہ سمجھے ۔۔۔۔۔۔میں اتنی بری نہیں ہوں جتنا وہ شخص مجھے تصور کرتا ہے۔۔۔۔مجھے دنیا کے لوگ برا کہیں میں برداشت کرسکتی ہوں بلکے کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔پر اس ایک شخص کا مجھے برا کہنا ۔۔۔۔میرے دل کو پارے پارے کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔میں اتنی اذیت محسوس کرتی ہوں کے بیاں کے لیے الفاظ ختم ہو جاتے ہیں میرے پاس۔۔۔۔۔) 


ذیشان : اتنا پڑہنے کے بعد میں سوچ میں پڑھ گیا تھا کے آخر وہ شخص کون ہو سکتا ہے جس کے لئے رائٹر پورا ایک ناول ہی لکھ دے۔۔۔۔کیا سارے ناول اتنا ہی حقیقت کا گمان دیتے ہیں جتنا یہ دے رہا ھے۔۔۔۔ کیونکہ میری زندگی کا تو یہ پہلا ناول تھا جو میں پڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔اِسے پڑھتے وقت مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ رائٹر خود مجھ سے بات کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔مجھے بتارہی ہو اس کے ساتھ کَیا ، کَیا ظلم ہوۓ ہیں اور کِس کِس نے۔۔۔۔۔۔۔ کِس کِس طرح کیۓ ہیں۔۔۔۔۔۔میرے دل میں آیا ضرور وہ شخص بہت خاص ہوگا رائٹر کے لیے جس کی خاطر اس نے اتنی محنت سے ناول لکھا ہے۔۔۔۔۔جبکے جا بجا لکھا ہے کے ۔۔۔۔۔۔۔اسے تکلیف ہوتی ہے یہ سب لکھتے ہوۓ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔


میں نے ایک نظر والناس کی پینٹنگ کی جانب دیکھا جو ابھی تک مکمل نھیں ہوٸی تھی۔۔۔۔میں نے اندازہ لگا لیا کے ابھی وقت ہے میرے پاس اور ناول پڑھنے کا۔۔۔۔۔۔ذھن میں آیا کے ہوسکتا ہے آگے ناول میں لکھا آجاۓ اس شخص کے بارے میں۔۔۔۔۔۔میرے دل میں تجسس تھا اس شخص کو لے کر۔۔۔۔۔


جاری_ہے🙂

رائٹر : حُسنِ_کنول❤

epi_5

کہانی : میری_ماں_کی_خواہش_تھی_وہ_پگلی❤


ایک دن کچی پکی نیند میں تھی جب میرے ہسبینڈ سے میری ساس نے سمجھانے والے انداز میں کہا ” تو کیا چاھتا ہے ؟؟؟۔۔۔۔تیری اولاد بھی تیری طرح ہو جلی جلی ۔۔۔۔۔کیوں اسے اتنا تنگ کر رہا ہے؟؟؟۔۔۔۔اگر تیری اولاد کو کچھ ہوگیا تو اس کا ذمہدار کون ہوگا ؟؟؟ ۔۔۔۔کبھی سوچا ہے ۔۔۔۔انسان بن جا ۔۔۔۔“ بس اس دن کے بعد سے میرے ہسبینڈ تھوڑا بدلنا شروع ہوۓ ۔۔۔۔۔۔وہ اتنا بدل گٸے کے میری زندگی سور گٸی۔۔۔۔اتنی محبت کے میں ان چار مہینوں کی اذیت کو بھول گٸی ۔۔۔۔سب کچھ ایک سنہرے خواب میں بدل گیا۔۔۔۔۔ہم میاں بیوی بہت خوشحال زندگی گزارنے لگے۔۔۔۔میرے سسر اور چاچی پر آنے والے جن حضرات نے بھی اب مجھے آکر سلامی دینا چھوڑ دیا۔۔۔۔میں بلکل ایک نارمل زندگی گزارنے لگی ۔۔۔میری ہر خواہش بولنے سے پہلے ہی پوی ہونے لگی تھی۔۔۔۔


میں روز رات کو سورہ یوسف پڑھتی ۔۔۔۔چاھے طبعیت کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو۔۔۔۔میں اکثر سوچا کرتی تھی کے اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام یوسف ہی رکھوں گی۔۔۔


ویسے میں ایک عالمہ بنے والی لڑکی تھی تو میں واقف تھی کے کبھی کوٸی نیک اللہ کے ولی کسی انسان  کے اس طرح جسم میں آکر فرماٸش نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔جس طرح چاچی اور میرے سسر کرتے ہیں ۔۔۔۔اپنے مطلب کے بابا آتے تھے ان پر۔۔۔۔۔کوٸی بھی اپنی مرضی کا کام کروانا ہو ۔۔۔۔چلو بھٸی۔۔۔۔۔ بابا  حاضر ہوگۓ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے سسر ۔۔۔۔ بابا بن کر مجھ سے باربار کہتے تیری لڑکی ہوگی۔۔۔۔۔میں بھت خوش تھی یہ دیکھ کے میری سسرال میں کوٸی لڑکا ہونے پر زور نہیں دے رہا۔۔۔۔سب بس لڑکی چاھتے ہیں۔۔۔۔۔کبھی میرے شوہر نے تنھاٸی میں بھی اس کی خواہش ظاہر نہیں کی۔۔۔۔یہ بات میرے دل کو بھت پرسکون رکھتی تھی۔۔۔۔مجھے میرا سیل بھی دے دیا گیا تھا۔۔۔۔میری ساس بھی بلکل میری ماں کی طرح میرا خیال رکھنے لگیں۔۔۔۔مجھے یقین نھیں آتا تھا کے آخر سب ٹھیک ہوگیا ۔۔۔۔ اب سوچتی ہوں تو اپنی نادانیوں اور سادگی پر ماتم کرنے کا دل چاھتا ہے میں پاگل تھی سمجھ نہیں سکی کے آخر میرے اردگرد چل کیا رہا ہے۔۔۔۔


پھر میرے گھر ایک حسین و جمیل و نوانیت سے بھرپور شہزادے کی ولادت ہوٸی۔۔۔۔۔  آپریشن تھیٹر میں جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکڑنی نے بتایا کے میرا بھت خوبصورت بیٹا ہوا ہے۔۔۔۔یقین مانیں اس نیم بےہوشی کی حالت میں۔۔۔۔میں کہنے لگی ۔۔۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟۔۔۔۔سب نے کہا ہے میرے بیٹی ہوگی ۔۔۔۔تو ڈاکڑنی ہسنے لگی ۔۔۔اور یہی کہتے ہوۓ میں دوبارا بےہوشی میں چلی گٸی۔۔۔۔۔میرے بیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔اتنا ہی نورانی جتنا میں نے خواب میں دیکھا ۔۔۔۔۔۔میرا بیٹا اتنا حسین۔۔۔۔۔۔۔۔ (تھا)نہیں لکھوں گی۔۔۔۔کیونکے وہ ہے۔۔۔۔(تھا) کا لفظ ماضی کے لٸے استعمال ہوتا ہے ۔۔۔اور میرا بیٹا آج بھی اتنا ہی نورانی ہے۔۔۔۔جو اسے دیکھتا ہے وہ تعریفی کلمات ادا کیٸے بغیر رھ نہیں پاتا۔۔۔۔۔میرے ہسبینڈ کا رنگ سیاہ کالا تھا ۔۔۔ جب میرا بیٹا ان کی گود میں ہوتا ۔۔۔۔تو لوگ یقین نہیں کرتے کے وہ ان کا بیٹا ہے۔۔۔۔۔میرے بیٹے کی خوبصورتی اور نورانیت کے چرچے پورے خاندان میں تھے۔۔۔۔۔۔


میرے بیٹے کے ہوتے ہی سب بدلنا شروع ہوگیا ۔۔۔۔۔میری ساس اور چاچی ساس میں جو ہر وقت لڑاٸی رھتی تھی وہ اچانک میرا بیٹا پیدا ہوتے ہی دوستی میں بدل گٸی۔۔۔۔میرے  بیٹے کا نام میں یوسف نہ رکھ سکی۔۔۔۔ساس نے رکھنے ہی نہیں دیا۔۔۔۔ میری ساس نے میرے بیٹے کا  نام “ }


ذیشان  : میں بچے کا نام پڑھنے ہی والا تھا کے اچانک تالیاں بجنا شروع ہوگیٸں۔۔۔میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو والناس کمپیٹیشن  جیت چکی تھی ۔۔۔۔میں ناول پڑھنے میں اتنا محو ہوگیا تھا کے والناس کی پینٹنگ کب سلیکٹ ہوٸی اور کب فرسٹ پرائز  جیتی مجھے کچھ خبر ہی نہیں ۔۔۔۔لیکن تالیاں بجانے میں ۔۔۔۔میں نے کوٸی کنجوسی نہ دیکھاٸی ۔۔۔وہ بھت خوش نظر آرہی تھی ۔۔۔۔


”ذیشان دیکھو“ وہ سب سے پہلے اپنا سرٹیفکٹ مجھے دیکھاتے ہوۓ بولی ۔۔۔۔اس کا لہجہ بتارہا تھا کے وہ جیت کی خوشی میں اپنی خفگی بھول گٸی ہے۔۔۔۔


میں اپنا سیل جیب میں رکھ ۔۔۔۔اس کا سرٹیفکٹ دیکھنے لگا ۔۔۔”بھت بھت مبارک ہو “ میں نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔۔۔مجھے واقعی دلی خوشی تھی اس کے جیتنے کی۔۔۔۔اس کا چہرہ اس لمحے کھلتے گلاب کی مانند خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔۔وہ ہستی ہوٸی بھت حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔پتا نہیں کیا کہ رہی تھی مجھ سے۔۔۔۔میں تو بس اس لمحے اس کا حسین سراپا دیکھنے میں کھو گیا تھا۔۔۔۔


”کیا ؟؟۔۔۔مسکراۓ کیوں جارہے ہو ؟؟“وہ مجھے دیکھ الجھ کر پوچھنے لگی۔۔۔جب اس نے دیکھا کے میں کوٸی ری۔ایکشن نہیں دے رہا تو میری آنکھوں کے آگے چوٹکی بجانے لگی۔۔۔۔اس چٹکی کے سبب میں حواسوں میں لوٹا تھا۔۔۔۔ 


”کیا؟؟؟؟“ میں بھوکھلا کر استفسار کرنے لگا۔۔۔۔


”تم نے سنا بھی ہے؟؟۔۔ میں نے ابھی کَیا  ، کَیا کہا تم سے؟؟؟“  جب والناس نے ابرو اچکاتے ہوۓ ذرا خفگی بھرے لہجے سے پوچھا تو میں نےاپنا چہرا تھوڑا شرمساری سے نیچے کرتے ہوۓ اپنا سرکھوجاتے ۔۔۔۔۔بڑا بھولا سہ چہرہ بناکر نفی میں گردن ہلا دی۔۔۔۔۔


”تم ۔۔۔“ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کے وہ غصہ پی رہی ہے ۔۔۔اس کے غصہ پینے کی ادا بھی بڑی پیاری لگی میرے دل کو۔۔۔۔۔میں نے نوٹ کیا تھا وہ غصے کے وقت بلکل خاموش ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔جو میرے نزدیک ذھانت کی علامت تھی۔۔۔۔


”اچھا یہ چھوڑو ۔۔۔یہ بتاٶ ۔۔۔تمھارا بھاٸی مجھے کیسے جانتا ؟؟“میں نے تجسس سے پوچھا تھا۔۔۔۔


”تم نے میرے سوال کا جوب دیا ۔۔۔۔جو میں دوں “وہ خفگی سے کہتی ہوٸی میرے ہاتھ سے سرٹیفکٹ چھین کر جانے لگی۔۔۔۔


”والناس ۔۔۔سوری۔۔۔۔۔“میں نے شاید نوٹ نہیں کیا لیکن اب میں اسے بلا ہچکچاہٹ سوری کہتا تھا۔۔۔۔اور ایک بار نہیں ۔۔۔باربار کہتا رہتا۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک وہ مان نا جاۓ۔۔۔لیکن جیسے جیسے ہماری دوستی بڑ رہی تھی ویسے ویسے اس کی ناراضگی کے وقت میں بھی طوالت بڑتی جارہی تھی۔۔۔۔وہ اب ایک ایک ہفتے روٹ کر بات نہیں کرتی تھی ۔۔۔اور میں پاگلوں کی طرح اسے مناتا رہتا۔۔۔۔کیونکے جب تک اس سے بات نہ کرلوں میرا دن ہی نہیں گزرتا تھا۔۔۔۔


*****----------*********

ایک دن کا ذکر ہے میں وانیہ چاچی کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔کافی مزےدار باتیں چل رہی تھیں ۔۔۔۔وانیہ میری نھیں میرے ابو کی چاچی تھی ۔۔۔۔۔میری تو دادی لگتی تھیں رشتے کی۔۔۔۔مگر میں بھی اپنے ابو کی طرح چاچی ہی بلاتا۔۔۔۔ہاں اگر میرا لڑنے اور ان سے گالیاں سننے کا مونڈ ہو تو میں ضرور ان کو چھیڑنے کے لیے دادی بلاتا۔۔۔۔۔ جس پر جو گالیوں کی برسات مجھ پر شروع ہوتی ۔۔۔ وہ تو میں لکھنے سے بھی قاصر ہوں۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے میں بتادوں وانیہ چاچی پورے خاندان میں جادوگرنی مشھور تھیں۔۔۔۔۔۔جب میری ان سے تپی ہوتی تو میں انھیں جادوگرنی کہ کر ہی بلاتا۔۔۔۔۔۔ جس سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔۔۔۔ اور پھر جدید گالیوں کی ڈکشنری ایجاد ہوتی جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہ سنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ لکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔


ایسے ہی مزاق مستی میں وانیہ چاچی نے مجھ سے کہا کے تو بھی زن مرید بنے گا اپنے باپ کی طرح۔۔۔۔۔۔میں شروع سے اپنے باپ کو بہت بیچارہ تصور کرتا تھا۔۔۔۔۔اور فبیحہ کو چالاک لومڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے صاف کہا” ہرگز نھیں ۔۔۔۔ میں عورت کو اس کی اوقات میں رکھنا جانتا ہوں۔“۔۔۔میں نے یہ جملا بڑے بھرم سے ادا کیا ۔۔۔تو وانیہ چاچی ہنس دیں۔۔۔۔۔ کہنے لگیں تیرا باپ بھی یہی کہا کرتا تھا شادی سے پہلے۔۔۔۔لیکن اتنا بڑا زن مرید نیکلا کے شادی کی پہلی ہی رات اپنی بیوی کے لٸے خود چاۓ بناکر لایا“ چاچی کا یہ کہنا تھا کہ میرے کان کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔مجھے ناول کی وہ لاٸنیں یاد آ گئیں تھیں جس میں اسی بات کا ذکر ہوا تھا۔۔۔۔۔


”چاچی کیا فبیحہ کو بخار چڑھ گیا تھا پہلی ہی رات اور اسے ہسپتال لے جایا گیا تھا؟؟؟“میرے سوال پر وانیہ چاچی چونک گٸیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ میں تو کبھی فبیحہ کے بارے میں بات کرنا تو دور نام تک لینا گوارا نہیں کرتا تھا۔۔۔۔


”تجھے کس نے بتایا یہ؟؟“ وہ سوال پر سوال کر رہی تھیں


” یہ چھوڑو ۔۔۔۔۔یہ بتاؤ کیا ہسپتال لے جایا گیا تھا اسے؟؟؟“ میں بڑا اشتیاق میں تھا کہ ان کا جواب کیا آتا ہے۔۔


” ہاں۔۔۔۔گھر سے ہی بیمار آٸی تھی ۔۔۔۔۔104 بخار تھا اسے۔۔۔۔“ بس یہ سنتے ہی میرا دماغ چکرا گیا میں الجھ کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔پوری زندگی میں جو فبیحہ کے بارے میں سنا  وہ سچ تھا ؟؟؟  یا جو ناول میں پڑھا ہے ۔۔۔۔۔وہ سچ ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ چل کیا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔پھر میرا ذھن والناس پر گیا۔۔۔۔۔ میں تیزی سے چاچی کے گھر سے نکل کر ڈائرک اپنے کمرے میں آیا۔۔۔۔


میں نے والناس کو کال ملائی۔۔۔۔۔”اَلسَلامُ عَلَيْكُم ۔۔۔آج کال کیسے کرلی تم جیسے مغرور شخص نے مجھے؟؟؟“ وہ حیران ہوئی تھی میری کال پر کیونکہ میں کبھی بھی اسے کال نہیں کرتا تھا ہماری بات ہمیشہ صرف میسج پر ہی ہوا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔


”وہ ناول ؟؟۔۔۔۔کس کا ہے؟؟“ والناس آگر سچ نہ بھی بتاتی تو بھی میں سچاٸی سے واقف ہوچکا تھا۔۔۔۔۔میں جان گیا تھا وہ ناول فبیحہ یعنی میری ماں کا ہے۔۔۔۔۔میں بس تصدیق کرنا چاھتا تھا۔۔۔۔۔ بہت سارے سوال تھے میرے ذہن میں  جو میں پوچھنا چاہتا تھا۔۔۔۔


”او۔۔۔۔۔تو نام پڑھ لیا آج تم نے “اس نے اندازا لگایا تھا کے میں کیوں اتنے جذباتی ہوکر پوچھ رہا ہوں ۔۔۔۔جبکے اس کی بات سن میرے کان کھڑے ہوۓ تھے ۔۔۔


”ہاں ۔۔۔وہ تمھاری ماں کا ناول ہے۔۔۔۔۔اس میں جو کہانی ہے وہ تمھاری ماں کی آپ بیتی ہے۔۔۔۔وہ“ ابھی وہ بول ہی رہی تھی کے میں غصے سے چیخ پڑا ”تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟؟“


”کیونکے اگر بتادیتی تو ڈر تھا کے شاید تم کبھی پڑھنے پر راضی ہوتے ہی نھیں۔۔۔۔۔جبکے وہ ناول خاص تمھارے لیٸے ہی لکھا گیا ہے۔۔۔۔تبھی تو اتنا اصرار کرتی تھی ناول پڑھنے پر۔۔۔۔“وہ روہانسہ آواز میں بول رہی تھی ۔۔۔میں نے غصے میں فون کاٹ دیا۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔اس وقت مجھے والناس پر شدید غصہ آرہا تھا۔۔۔۔۔لیکن جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوا تو مجھے اب ناول میں کی گٸیں باتیں سمجھ آنے لگیں تھیں ۔۔۔۔شایان نام کا جو ذکر ناول میں ہوا تھا ۔۔وہ محض ایک اتفاق نہیں تھا  ۔۔۔۔وہ پورا میرے والد کا اصل کراد بیان کیا تھا فبیحہ نے ۔۔۔۔وہ بچہ جس کا ذکر ناول میں تھا وہ کوٸی اور نہیں (میں) تھا۔۔۔۔۔اس میں جھوٹ نھیں لکھا تھا واقعی فبیحہ کو پڑھی لکھی جاہل کہ کر سب بلاتے ہیں یہاں۔۔۔۔۔جتنا میں سوچتا مجھے اتنا ہی وہ ناول سچا لگنے لگا۔۔۔۔۔۔میرے دل میں خیال آیا شاید وہ خاص شخص جسے میری ماں ناول پڑھانا چاہتی تھی وہ (میں) ہوں۔۔۔۔کیونکے مجھے یاد ہے  والناس نے کہا تھا اس ناول کا ھیرو( میں) ہوں۔۔۔۔۔


میرے ذھن میں ایک کے بعد ایک خیال آرہا تھا۔۔۔ہزاروں  سوالات میرے ذھن میں بجلی کی تیزی سے دوڑ رہے تھے۔۔۔۔۔جن کے جوابات دینے کے لیٸے وہاں کوٸی موجود نہ تھا۔۔۔۔سواۓ اس ناول کے۔۔۔۔مجھے لگا میرے ہر سوال کا جواب شاید  اس ناول میں چھپا ہے ۔۔۔۔


میں نے فورا اپنا سیل نیکالا اور ناول پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔ لیکن آج پہلے میں نے رائٹر کا نام پڑھا۔۔۔اس پر لکھا تھا 


(راٸٹر : منتظرۓ فبیحہ ) ۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ اگر میں یہ نام پہلے پڑھ لیتا تو میں یہ ناول پڑھتا یا نہیں۔۔۔۔لیکن اب میں تجسس رکھتا تھا جاننے میں کے آخر ہوا کیا تھا فبیحہ کے ساتھ۔۔۔۔ اس کا نام ہی پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ شاید یہ لفظِ (منتظر) میرے لٸیے لکھا ہے۔۔۔ وہ انتظار کررہی ہیں میرا۔۔۔۔صرف یہ احساس ہی کے میری ماں میرا انتظار کررہی ہے ۔۔۔ میرے پورے جسم پر جھرجھری لے آیا تھا۔۔۔۔


ناول : میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی


ؐ{میری ساس نے میرے بیٹے کا نام” ذیشان “رکھا ہے۔۔۔}


ذیشان : بس اتنا پڑھتے ہی میری آنکھوں سے آنسو خود بخود رواں ہوگۓ۔۔۔کیونکے انھوں نے لکھا تھا (میرے بیٹے)۔۔۔یہ لفظ ۔۔۔۔ شاید ان لوگوں کے لئے کوئی معنی نہ رکھتے ہوں جن کی مائیں انھیں ہر روز یہ الفاظ کہتی ہوں۔۔۔صبح شام کہتی ہوں۔۔۔ پر مجھ جسے ترسے ہوئے بچے کے لیے یہ الفاظ بہت اہمیت کے حامل تھے۔۔۔۔۔یہ( میرے) کا لفظ کتنا پیارا ہوتا ہے ۔۔۔آج جانا تھا میں نے۔۔۔۔


جاری_ہے🙂

رائٹر :حُسنِ_کنول❤

Epi_6

کہانی : میری_ماں_کی_خواہش_تھی_وہ_پگلی❤


ذیشان کے پیدا ہوتے ہی میرے سسرال  کا ہر شخص گرگٹ  سے بھی تیز رنگ بدل گیا۔۔۔مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔۔۔۔اور جب سمجھ میں آنا شروع ہوا تو کافی دیر ہوچکی تھی۔۔۔۔میری ساس صبح فجر میں ہی ذیشان کو لینے پہنچ جاتیں۔۔۔پہلے میں یہ ان کی محبت سمجھتی رہی۔۔۔ ہم سیدھے لوگوں کا یہی مسئلہ ہے جسے خود ہوں ویسے سامنے والے کو تصور کرتے ہیں ۔۔۔میری ساس نے صرف پانچ دن کے بچے کو فیڈر  لگادی۔۔۔کون لگاتا ہے اتنے چھوٹے بچے کے فیڈر؟؟؟۔۔۔۔۔۔ڈاکڑ بھی منع کرتے ہیں۔۔۔۔۔کیونکے اس طرح بچہ بھت جلد ماں کا دودھ چھوڑ کر فیڈر کے دودھ پر آجاتا ہے۔۔۔۔لیکن اس بات سے اُس وقت میں ناواقف تھی۔۔۔۔جو میری ساس کہتی وہ کرتی۔۔۔۔میرا بیٹا بلکل بھی نارمل نہیں  تھا۔۔۔۔وہ ہر وقت بھت بھوکا رہتا۔۔۔۔ صبح شام رات بس اسے دودھ پلانے میں گزرتے۔۔۔۔۔


اگر یہ ناول  پڑھنے والی کوٸی ماں ہے تو وہ بتاۓ مجھے کیا ایک ماں اپنے بچے کو بھوکا چھوڑ سکتی ہے؟؟؟۔۔۔۔نہیں ناں۔۔۔۔۔تو میں کیسے چھوڑ دیتی۔۔۔۔میرا ذیشان کسی کے پاس رھتا ہی نہیں تھا۔۔۔وہ یا تو دودھ پیتا یا روتا۔۔۔۔۔۔اس کا رونا اتنا خطرناک تھا کے کوٸی کتنا بھی کوشش کرلے اسے مجھ سے دور نھیں رکھ سکتا تھا۔۔۔۔ میری سسرال میں تو میرے سسر ہی بابا تھے اس لئے کسی اور کے پاس جا کر دم کرانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔میں نے جیسے تیسے کر کے سوا مہینہ کاٹا۔۔۔۔۔ اس پورے سوا مہینے میں بس ذیشان کو بیٹھ کر ہر وقت دودھ  پیلاتی رہتی ۔۔۔۔جبکے میرا ذیشان آپریشن سے ہوا تھا۔۔۔آپریشن کے بعد میری کمر میں ویسے بھی بہت درد رہتا ۔۔۔۔اور ہر وقت بیٹھ کر دودھ پیلانے کے سبب اب مزید درد  بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔میری کمر درد سے پھٹ رہی ہو۔۔۔۔۔ اس قدر شدت سے تکلیف ہوتی تھی مجھے۔۔۔۔۔اور بھی بھت مسٸلے پیدا ہوگٸے تھے لیکن یہ ناول جس خاص شخص کے لٸے لکھا جارہا ہے۔۔۔وہ ابھی بھت چھوٹا ہے ۔۔۔۔وہ ان باتوں کو ابھی سمجھنے سے قاصر ہے۔۔۔۔ لیکن جس دن وہ مجھے ملے گا ۔۔۔۔میں اکثر سوچتی ہوں۔۔۔۔۔ایک ایک بات اسے بتاٶں گی۔۔۔۔تاکے اسے پتا چلے ۔۔۔۔میں بےقصور تھی۔۔۔۔۔سچ بتاٶں یہ لکھتے وقت میں رو رہی ہوں کیونکہ مجھے نہیں پتہ میری یہ چھوٹی سی امید کتنی سچی ہے کہ وہ مجھے ایک دن ضرور ملے گا۔۔۔۔مل کر مجھ سے باتیں کرۓ گا۔۔۔۔میرے ساتھ ہونے والے پورے واقعے کو تحمل مزاجی سے سنے گا۔۔۔۔لوگ تو بھت کہتے ہیں جھوٹی امیدوں پر جینا چھوڑ دو فبیحہ ۔۔۔۔پر میں کیا کروں ۔۔۔میرا دل نہیں مانتا۔۔۔۔۔۔


سوا مہینہ ہونے پر جب میں اپنے میکے رھنے گٸی تو وہاں میری سگی چاچی جن کا نام ماریہ تھا ۔۔۔وہ بھی سب کی طرح میرے ذیشان کو دیکھنے آٸیں۔۔۔۔۔یہ ماریہ چاچی وہی ہیں  جن پر میری سسرال میں آتے ہی بابا آجایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔لیکن کبھی بھی۔۔۔۔میرے میکے میں نہیں آۓ۔۔۔۔جب  وہ ذیشان کو دیکھنے میری امی کے گھر آٸیں تو ان پر بابا آگٸے۔۔۔۔۔میرا دل چاھا اس وقت کے اپنا سر کسی دیوار سے دے ماروں۔۔۔۔۔۔سسرال میں کیا کم تماشے لگاتی تھیں ماریہ چاچی جو اب میکے میں بھی شروع ہوگٸیں تھیں۔۔۔۔۔عجیب  عجیب باتیں کرنے لگیں۔۔۔ میرا بیٹا بس ہر وقت روتا رہتا تھا ۔۔۔۔تو اس وقت بھی وہ رو رہا تھا تو اسے دیکھ آنکھیں چڑھا کر چیختے ہوۓ بولنے لگیں۔۔۔۔”یہ تیرا بچہ نہیں رو رہا۔۔۔۔یہ جن کے بچے رو رہے ہیں۔۔۔۔“ جب انھوں نے یہ بات کہی تو میں پاگل سی ہوگٸی۔۔۔۔کے اب اپنے ڈراموں میں انھوں نے میرے ذیشان کو بھی شامل کرلیا ہے۔۔۔ویسے جب بھی ان پر بابا آتے تو میں خاموشی سے ان کی ساری باتیں سنتی اور مانتی لیکن جب بات میرے ذیشان پر آئی تو میں نے ان سے سوال کئیے۔۔۔جس کے اکثر جوابات انھوں نے غلط دیٸے۔۔۔۔۔ جس سے مجھے پتہ چلا کہ ان پر کوئی بابا یا جن نہیں آتے۔۔۔ وہ صرف ناٹک کر رہی تھیں۔۔۔لیکن میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔ کیا مل رہا ہے انھیں اس ناٹک سے؟؟؟۔۔۔۔کیا مل رہا ہے میری زندگی میں مشکلات پیدا کر کے؟؟؟۔۔۔


اگلے ہی دن میرے ہسبینڈ کا فون آیا۔۔۔۔وہ کہنے لگے میں تمھیں لینے آرہا ہوں۔۔۔۔میں ان کی بات سن کر حیران رہ گٸی ۔۔۔میں  پورے چھ مہینے بعد اپنے گھر آٸی تھی۔۔۔۔ابھی آۓ ہوۓ تین  چار دن بھی نہیں گزرے تھے کے وہ مجھے اچانک لینے آرہے تھے۔۔۔۔میرے ڈیڈ نے پریشان ہوکر یوں اچانک مجھے لے جانے کی وجہ پوچھی تو شایان نے بتایا کے ماریہ چاچی کے بڑے بیٹے کا انھیں فون آیا تھا۔۔۔۔۔انھوں نے کہا کے مجھ سے بےادبی ہوٸی ہے ۔۔۔۔چھت والے جنوں کی شان میں۔۔۔ان کے بچے رو رہے ہیں ۔۔۔۔جو ذیشان کی صورت میں ہمیں دیکھایا جارہا ہے۔۔۔۔اگر ان سے معافی نہیں مانگی گٸی تو وہ ذیشان کو مار دیں گے۔۔۔۔۔“ 


یہ بات میرے حواس اڑا گٸی تھی۔۔۔۔۔ یہ بات تو میں جان چکی تھی کہ ماریہ چاچی ناٹک کر رہی ہیں ان پر کوئی جن نہیں آتا  لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے کسی کے بچے کے مرنے کا لفظ اتنی آسانی سے ادا کر سکتی ہیں؟؟؟ کیا وہ خود ایک ماں نہیں ہیں؟؟؟۔۔۔۔۔۔ 


ماریہ چاچی نے وارننگ جاری کر دی تھی کہ میں کل شام  مغرب کی اذان سے پہلے پہلے چھت پر جا کر معافی مانگوں ورنہ جو بھی میرے بچے کے ساتھ ہوگا اس کی ذمہ داری ان کی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں جانتی تھی وہ جھوٹ بول رہی ہیں لیکن  ایک ماں کا دل کیسے سکون پالے اتنی بڑی بات سننے کے بعد۔۔۔۔۔ماریہ چاچی نے ظلم کی انتہا کی تھی ایک ماں پر۔۔۔۔میرے ہسبینڈ اس وعدے کے ساتھ مجھے لے کر گئے کہ کل معافی مانگنے کے بعد مجھے واپس میرے گھر چھوڑنے خود آئیں گے اور یہ بات میرے سسر نے بھی فون کرکے بار بار میرے والدین سے کرٸی۔۔۔۔۔میں نے چھت پر جاکر معافی مانگ لی۔۔۔۔پر میرے ذیشان کا رونا بند نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔میرے سسر اور ہسبینڈ اپنے وعدے سے مکرگئے۔۔۔۔۔میری حالت ابھی کام کرنے کے خاص طور پر کچن میں روٹی بنانے کے بلکل قابل نہیں تھی۔۔۔۔۔ہر وقت دودھ پیلانے کے سبب میری کمر درد سے پھٹتی تھی۔۔۔۔۔۔ میں بہت کمزور ہو گئی تھی آپریشن کے بعد۔۔۔۔میری ساس نے ذیشان کو اب مجھ سے چھین کر کروانیہ چاچی کے گھر بھیجنا شروع کر دیا۔۔۔۔ تاکہ ذیشان کی وجہ سے میں کام چوری نہ کرسکوں۔۔۔۔۔ وہ الگ بات تھی کہ سب کے سامنے کہہ کر خودکو مظلوم دیکھاتیں  کے وہ تو مجھ سے کوئی کام کرواتی ہی نہیں۔ ۔۔سارے کام خود ہی کرتی ہیں کچن میں کھڑے  ہو کر۔۔۔۔۔


ذیشان کو مجھ سے ہمیشہ دور رکھا جاتا۔۔۔مجھے اتنا ترساتے کے میں اکثر بیٹھ کر روتی۔۔۔۔میں سیڑھیوں کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی اور ہر ایک سے کہتی پلیز میرے ذیشان کو لادو۔۔۔۔ لیکن کوئی میری سنتا ہی نہیں جسے دیکھو یہی کہتا کہ وہ تو نیچے سو رہا ہے اس کی نیند خراب ہو جائے گی۔۔۔مجھے ہمیشہ یہ بات الجھا دیتی کے وانیہ چاچی ایسا کیا کرتی ہیں ذیشان کے ساتھ کہ وہ وہاں جاتے ہی سو جاتا ہے۔۔۔۔۔ مجھے ڈر لاحق رہتا تھا کہ کہیں وہ اسے کوئی دوائی تو نہیں پیلارہی ہیں سونے کی۔۔۔۔


یہاں تک کے ایک بار ذیشان کی طبیعت بہت خراب تھی ۔۔۔۔اسے ٹھنڈ لگ گٸی تھی ۔۔۔اسکی طبیعت مزید خراب نہ ہو جائے اس ڈر  سے میں اسے نہلا نہیں رہی تھی۔۔۔ خون جما دینے والی سردی میں جھاں بڑے بڑے منہ ہاتھ دھونے میں کپکپارہے تھے۔۔۔۔میری ساس پیچھے پڑی تھی کے اپنے بیٹے کو نہلا ۔۔۔۔میں راضی نہیں ہوٸی کیونکے ذیشان کو پہلے ہی بخار اور الٹیاں لگی ہوئی تھیں۔۔۔۔میری ساس کو صفائی کا فوبیا تھا۔۔۔۔۔۔۔اپنی مثال سنا سنا کر مجھے تنگ کرتیں اور گندھے ہونے کے طعنے دیتیں۔۔۔۔۔۔۔۔میرے ساس کے بچوں میں اور میرے ذیشان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر ہر بچہ ایک الگ نیچر کا ہوتا۔۔۔۔میرے ذیشان بھت کمزور سہ تھا جبکے ان کے بچے بھت صحت مند ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔میری ساس نے مجھ سے چھپ کر صبح ہی وانیہ چاچی کے گھر ذیشان کو نہلانے بھیج دیا۔۔۔۔۔۔میں فورا پہچان گٸی اپنے بیٹے کو دیکھ کے۔۔۔۔کے اسے نہلایا گیا ہے۔۔۔۔۔میں نے اپنی ساس سے پوچھا تو اس ماہا جھوٹی نے صاف انکار کردیا۔۔۔۔جبکے وانیہ چاچی کی چھوٹی بیٹی مجھے خود بتاکر چلی گٸی کے ذیشان کو میری امی نے نہلایا ہے آج۔۔۔۔۔۔نہلانے کے سبب میرے ذیشان کی طبعیت مزید خراب ہوگٸی۔۔۔۔۔جیساکے مجھے ڈر تھا۔۔۔۔۔میرا ذیشان پوری رات الٹیاں کرتا رہا ۔۔۔اور میں روتے روتے صاف کرتی رہی۔۔۔۔۔مجھے محسوس ہونے لگا تھا کے یہ ظالم لوگ میرے بچے کے پیچھے پڑھ گٸے ہیں۔۔۔۔


ماریہ چاچی اس دوران جب میری سسرال آئیں۔۔۔۔۔۔تو اس بار ان کے بابا نے جو ڈیمانڈ کی۔۔۔۔۔اس پر گھر میں جنگ چھڑ گٸی۔۔۔۔۔۔”چھت کا راستہ بند کرٶ ۔۔۔۔ ہمیں تکلیف ہوتی ہے اس کے آنے جانے سے۔۔۔اس سے کہو اپنے گھر کے راستے سے آنا جانا کرے“ماریہ چاچی پر جب چھت کا جن آیا تو اس نے مجھ پر چڑھائی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ویسے اسے بابا کہوں؟؟۔۔۔۔۔۔جن کہوں؟؟؟۔۔۔۔۔یا ماریہ چاچی کی خواہشات کہوں ؟؟ سمجھ نہیں پارہی میں۔۔۔۔۔پڑھنے والے خود ہی اس کا فیصلہ کرلیں۔۔۔۔۔ میرے ذیشان کو مار دیں گے۔۔۔۔یہ ان کے جن بابا نے مجھے وارننگ دوبارا جاری کی۔۔۔۔ میری ساس ویسے تو چاچی کی ہر بات مانتی تھی لیکن یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئی۔۔۔۔۔میری ساس نے اب ماریہ چاچی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔کھنے لگیں ناٹک کررہی ہے۔۔۔۔ہماری چھت بلکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ 


اگر میری ساس کی بات کا اعتبار کیا جائے تو میرے سسر پر جو بابا آتے تھے ۔۔۔۔ان کا کیا ؟؟؟۔۔۔۔وہ جو بابا بن کر مجھ سے  اپنی مرضی کے کام کرواتے تھے ۔۔۔۔۔ان کا کیا؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ ماریہ چاچی کی طرح میرے سسر بھی صرف ناٹک کرتے ہیں۔۔۔۔لیکن یہ سب کیوں ہورہا تھا یہ بات مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔۔۔۔اسی  دوران میرے بھاٸی کے لٸے ہم اپنے چاچا کی بیٹی کو دیکھنے جانے والے تھے۔۔۔۔میرے والد نے فون پر کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ ہماری بیٹی کو بھیج دیں گے جیسے ہی وہ چھت پر معافی مانگ لے گی۔۔۔۔تو پلیز اب بھیج دیں۔۔۔۔یہ بات میرے ساس سسر کو کانٹے کی طرح چبی ۔۔۔۔۔جبکے میرے والد نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی۔۔۔۔انھوں اس بات کا بھی تماشہ بنا دیا۔۔۔۔اس پر بھی گھر میں خوب لڑاٸی ہوٸی۔۔۔۔ میرے ہسبینڈ سمجھے کہ میں نے اپنے گھر والوں سے فون کر کے کہا ہے کہ مجھے یہاں سے لے کر جائیں جبکہ ایسا نہیں تھا میں نے انہیں میسج پڑھاۓ اپنے بھائی کے۔۔۔۔جس میں صاف لکھا تھا کہ ہم تمہیں لینے آ رہے ہیں تیار ہو جاؤ۔۔۔۔پاپا نے تمہارے سسر سے بات کرلی ہے۔۔۔۔۔


میں ان کے گھر کی فری کی نوکرانی تھی ۔۔۔۔۔اس لٸے میرے ہسبینڈ کے میری ساس نے کان بھرنا شروع کر دیے۔۔۔کے ضرور اس نے ہی کچھ کہا ہوگا۔۔۔۔۔۔تبھی اس کا باپ اسے واپس بلارہا ہے۔۔۔۔۔۔میرے ہسبینڈ غصے سے بری طرح لڑنے لگے۔۔۔۔۔میری ساس کی یہ زبردست خوبی تھی کہ جو برائی تھی وہ پیچھے کرتیں میرے سامنے صرف اچھی بنی رہنے کا ناٹک کرتیں ۔۔۔۔۔۔۔مجھے اب احساس ہوا کے یہ تو لڑوا کر تماشہ دیکھنے والوں میں سے ہیں۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ہسبنڈ کو بتایا کہ میں اپنے بھائی کے لیے لڑکی دیکھنے جا رہی ہوں اس لئے اچانک سے مجھے بلایا گیا ہے۔۔۔۔۔اسکے باوجود جب میں واپس آٸی تو میرے ہسبینڈ کا منہ پھولا ہوا تھا۔۔۔۔میری ساس مجھ سے بھت لڑٸی یہ کہ کر کے تو نے میرے بیٹے کی عزت نہیں کراٸی۔۔۔۔۔میری ساس نے اس بات پر جو ہنگامہ  مچایا وہ میرے ہسبینڈ کو مجھ سے بھت دور کرگیا۔۔۔۔۔اب سب کچھ دوبارا شروع ہوگیا ۔۔۔۔میرے ہسبینڈ پھر خود کو مارنے پیٹنے لگے۔۔۔۔اب تو ہم میاں بیوی کے درمیان لڑاٸی ہونا شروع ہوگٸی۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکے میں واقف تھی وہ نارمل لڑکا ہے بلکل ۔۔۔۔۔یہ سب صرف ایک ناٹک ہے مجھے اذیت میں رکھنے کا۔۔۔۔۔۔


میرے ہسبینڈ نے مجھ سے پہلی بار اس لڑاٸی میں کہا ”بچے بن ماں کے پل جاتے ہیں“۔۔۔یہ جملا آج بھی میری روح کو تڑپاتا ہے۔۔۔۔۔اب سوچتی ہوں تو دل چاہتا ہے کے خود کو کوسوں ۔۔۔۔ملامت کروں ۔۔۔کے شایان کے اتنے بڑے جملے کے بعد بھی میں کیوں نھیں سمجھ پاٸی کے وہ لوگ کیا گھٹیا عزائم رکھتے ہیں میرے حوالے سے۔۔۔۔میں نے روتے ہوۓ کہا ۔۔۔”بچے بن ماں کے پلتے نہیں ہیں ۔۔۔رولتے ہیں۔۔۔۔۔جاکر پوچھو ان سے جن کی ماں نہیں ہے۔۔۔کیوں میرے بچے کو بن ماں کا کرنا چاہتے ہو؟؟“۔۔۔۔۔میں اس جملے سے جتنا چڑتی اور سن کر روتی شایان اتنا ہی یہ جملا ادا کرتے۔۔۔۔۔۔اب تو ہر وقت کا تکیہ کلام بن گیا تھا یہ روح کو تڑپانے والا جملہ۔۔۔۔۔کاش میں اس خاص شخص کو بتا سکتی کے میں بے قصور ہوں ۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی پوری کوشش کی سب ٹھیک کرنے کی۔۔۔۔۔لیکن میں ان چالباز لوگوں اور ان کی مکاریوں سے ھار گٸی۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔میں ھار گٸی۔۔۔۔۔میں اکیلی تھی ۔۔۔۔کوٸی میرا ساتھ نہیں دیتا تھا ۔۔۔۔میرے ہسبینڈ بھی مُکَر  گٸے کے میں نے انھیں اپنے بھاٸی کے لٸے لڑکی دیکھنے جانے سے پہلے بتایا تھا۔۔۔۔

Readers kal s e 200 likes hoty hi next epi post ho jaya krygi 

جب بھی ماریہ چاچی آتیں ان کے آتے ہی میرے ذیشان کی اچانک سے طبیعت خراب ہوجاتی۔۔۔۔۔ایک بار تو اس کی طبعیت اتنی خراب ہوگٸی کے اسے ہسپتال لے کر بھاگے رات کے دو بجے۔۔۔۔۔ماریہ چاچی کا بس ایک ہی رٹا رٹایا جملہ "چھت کا راستہ بند کرٶ"۔۔۔۔اور میری ساس ان کی یہ بات مانے کے لٸے تیار نہیں تھی۔۔۔۔۔پھر ایک دن میں نے اپنے سسر کو کچھ زور زور سے پڑھتے ہوۓ دیکھا۔۔۔۔مجھے پتا چلا وہ جادو کرتے ہیں۔۔۔۔یہ بات میں نے آکر اپنے ہسبنڈ کو بتائی۔۔۔لیکن شایان نے کہا کے انھیں پتا ہے۔۔۔۔یہ سن کر تو میں حیران رھ گٸی۔۔۔۔۔انھوں نے کہا انہیں اپنے والدین پر پورا یقین ہے اگر وہ انھیں کچھ کھلا پلا رہے ہیں تو ضرور اس میں انہیں کی کوئی بہتری ہوگی۔۔۔


۔بھلا جادو جیسے کام میں کسی کی کیا بھتری ہوسکتی ہے؟؟؟۔۔۔)


ذیشان : جادو ۔۔۔۔۔یہ پڑھ کر تو میں بھی چونک گیا تھا۔۔۔۔میرے ماں کے ساتھ کَیا ، کَیا ہوا تھا ۔۔۔۔مجھے اس کی آج خبر ہوٸی تھی۔۔۔۔وہ میرے لٸے کتنا پریشان تھیں مجھے اس کا احساس ناول پڑھ کر ہورہا تھا۔۔۔۔میری ماں نے سچ کہا تھا۔۔۔۔بن ماں کے بچے پلتے نہیں رولتے ہیں۔۔۔۔۔میں مزید آگے پڑھنے لگا اس سے پہلے میرا سیل رنگ ہونا شروع ہوگیا۔۔۔فون والناس کا آرہا تھا۔۔۔۔میں نے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور کر کال ریسیو  کی۔۔۔


”اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎“ والناس بڑے پیار سے مجھے سلام کرنے لگی۔۔۔۔اس کی آواز روہانسہ تھی ۔۔۔۔


”وَعَلَيْكُم السَّلَام ۔۔۔۔۔کیا کام ہے؟؟؟۔۔۔۔کیوں کال کی ہے؟؟؟“میں بھت بےرخی سے گویا ہوا۔۔۔۔۔جس کا مجھے خود بھی احساس تھا۔۔۔۔


”تمھاری خیریت جاننے کے لیے۔۔۔۔بھت پریشان ہوں تمھارے لٸے“اگر وہ یہ بات نہ بھی بولتی تو بھی مجھے اندازا ہوگیا تھا کے وہ پریشان ہے میرے لٸے۔۔۔۔


”تو تمہاری اس دوستی کا مقصد صرف مجھے ناول پڑھانا تھا ۔۔۔۔راٸٹ؟؟؟“ میرے سوال پر دوسری طرف سوائے خاموشی کے کچھ نہ تھا۔۔۔۔” تو میں نے صحیح گمان کیا۔۔۔۔ تمہاری دوستی مجھ سے بے وجہ نہیں تھی ۔۔۔“میں طنزیہ  مسکرایا یہ کہ کر۔۔۔۔۔۔میرا دل چوٹ کھایا تھا اس کی دوستی کو مطلبی پاکر۔۔۔۔۔ چاہے وجہ کوئی بھی ہو مگر اس کی دوستی خلوص سے نہیں تھی۔۔۔۔۔


”پلیز ناول پورا پڑھ لو ۔۔۔۔اس سوال کا جواب اس ناول میں زیادہ بھتر طریقے سے تمہیں مل جائے گا۔۔۔۔ کہ میری دوستی تم سے کس مقصد کے تحت تھی۔۔۔پلیز“مجھے اس کی آواز میں شدید درد محسوس ہوا۔۔۔۔۔فبیحہ کی آپ بیتی سے والناس کا کیا تعلق ہوسکتا ہے ۔۔۔یہ سوچ کر میں الجھ گیا تھا۔۔۔۔۔


”تم فبیحہ کی کون ہو؟؟؟“ مجھے تجسس تھا یہ جاننے کے لیے کہ آخر اس کا فبیحہ سے کیا رشتہ ہے۔۔۔


”میں فبیحہ کی خواہش ہوں۔۔۔۔“اس نے نھایت رنجیدہ لہجے میں جواب دے کر کال ڈسکنکٹ کردی۔۔۔۔۔۔ میں اس کا جواب سن مزید الجھ گیا تھا۔۔۔۔” یہ ہر بار اوپر سے ہی کیوں آتی ہے ؟؟؟۔۔۔۔۔ کبھی سیدھی بات کا سیدھا جواب نہیں دے سکتی۔۔۔۔ جو سامنے والے کو سمجھ میں آجائے“ میں منہ بسور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔میں اتنی دیر سوچتا رہا کے آخر وہ بولنا کیا چاہتی تھی مجھ سے۔۔۔۔۔


******---------*******


میں اپنے والد  کے ساتھ بیٹھ کر حساب کر رہا تھا کے حساب میں مجھ سے غلطی ہوگٸی ۔۔۔۔انھوں نے غصے میں مجھے کہا ” جاہل کی اولاد“ ویسے یہ الفاظ جب میرے والد ادا کرتے تھے تو مجھے صرف فبیحہ پر غصہ آتا تھا۔۔۔کے اس کی وجہ سے میں آج تک سب کے طعنے سنتا ہوں ۔۔۔۔لیکن اس دن پہلی بار ۔۔۔۔۔میں خود نھیں جانتا کیسے ۔۔۔پر میرے منہ سے نکلا ”فبیحہ جاہل نھیں تھی “میں نے زندگی میں پہلی بر اپنے والد کو پلٹ کر جواب دیا تھا۔۔۔۔۔نہ کے صرف جواب۔۔۔ فبیحہ کی ساٸیڈ بھی لی تھی۔۔۔۔۔ان کے چہرہ کی حیرت اس لمحے دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔۔


”تم اپنی ماں کی ساٸیڈ لے رہے ہو؟؟؟ ۔۔۔۔اس کی خاطر مجھ سے لڑ رہے ہو ؟؟؟۔۔۔۔۔بھول گٸے کَیا ، کِیا ہے تمھاری ماں نے تمھارے اور میرے ساتھ؟؟؟“وہ غصے سے لال پیلے ہو کر استفسار کرنے لگے۔۔۔۔ 


جوابًا میں خاموش ہو گیا۔۔۔۔میں خود پر غصہ ہونے لگا کہ یہ میں نے کیا حرکت کی ہے۔۔۔۔۔کیوں میں اس فبیحہ کی خاطر اپنے والد سے لڑ رہا ہوں۔۔۔۔ضروری تو نہیں وہ ناول سچا ہو۔۔۔۔۔۔ کیا  گارنٹی  تھی کہ وہ ناول سچا تھا ؟؟؟۔۔۔ اس میں جو واقعہ لکھے ہیں وہ سچے ہیں۔۔۔۔نہ تو میں ٹھیک طرح والناس کو جانتا ہوں نہ فبیحہ کو ۔۔۔۔۔تو پھر اپنوں سے کیوں لڑوں ان غیروں کی خاطر۔۔۔۔”سوری “ میں نے شرمندگی سے کہا۔۔۔۔


” وہ تو تمہیں دنیا میں بھی لانا نہیں چاہتی تھی اور تم اس کی خاطر اپنے باپ سے لڑنے کھڑے ہوگئے ہو ۔۔۔۔مت بھولا کرو کہ کَیا ، کِیا ہے اس نے تمہارے ساتھ“جب انھوں نے یہ بات کہی تو میرا خون کھول گیا ۔۔۔۔۔یہ وہ طعنہ تھا جو  بچپن سے سنتا آیا تھا میں ۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی کمبخت کانوں کو اس کی عادت نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔یہ طعنہ میرے نفرت میں مزید شدت پیدا کر دیتا تھا۔۔۔میں مزید وہاں نہ بیٹھا اور غصے سے چلتا ہوا اپنے گھر کی جانب آہی رھا تھا۔۔۔کے رستے میں مجھے ایک مانگنے والی نے روکا ۔۔۔۔وہ دیکھنے میں نھایت خوبصورت لڑکی تھی۔۔۔۔ میں نے صاف کہا کہ میرے پاس دینےکے لئے کچھ نہیں۔۔۔۔مجھے جانے دو۔۔۔۔عجیب لڑکی تھی ۔۔۔میرا ہاتھ پکڑ کہنے لگی۔۔۔۔” کسی بھت نیک عورت کی اولاد معلوم ہوتے ہو۔۔۔۔۔بڑا نورانی ہے تمھارا چہرہ۔۔۔۔۔ سچ میں اتنا نورانی چہرہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔خدا نے بڑا نور دیا ہے تمھیں۔۔۔۔۔۔“ اس مانگنے والی لڑکی کی تعریف مجھے فبیحہ کا سورہ یوسف پڑھنا یاد دلا گٸی تھی۔۔۔۔۔اس لمحے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میرا پورا موجود ہی اس ناول کے سچا ہونے کی دلیل ہے۔۔۔۔اگر وہ ناول جھوٹا ہوتا تو میری صورت اتنی نورانی نہ لگتی۔۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر اکثر لوگ یہی کہتے کہ میرا چہرہ بڑا نورانی ہے اور کوئی کہتا کہ میں تو بالکل اپنی ماں میں ملتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔


یہ بات کے وہ میری لیے سورہ یوسف پڑھا کرتی تھیں جب میں صرف پندرہ یا بیس دن کا تھا ۔۔۔مجھے یہ سمجھ آیا کے وہ عورت مجھے کیسے مارنے کی کوشش کر سکتی ہے جس نے ہر روز صرف میرے حسن کے لٸے  سورہ یوسف پڑھی ہو۔۔۔۔


”وہ مجھے مارنا نہیں چاھتی تھیں۔۔۔۔جھوٹ کہا ان لوگوں نے مجھ سے“میرے منہ پر بےساختہ آگیا تھا یہ جملہ۔۔۔۔ میں نے اس مانگنے والی کو اپنی جیب میں پڑے سارے پیسے دے دیے اور کہا دعا کرنا خدا سب بہتر کردے۔۔۔۔۔


میں نے رات کا کھانا تک  نہیں کھایا اور ناول سیل پر پڑھنا  اسٹارٹ ہوگیا۔۔۔


ناول : میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی 


(میں اپنے میکے سے ایک ہفتہ رک کر آٸی تو اسی رات میں اپنی شادی شدہ نند کے گھر دعوت میں گٸی وہاں پر مجھے اچانک سے بہت سردی محسوس ہونے لگی ۔۔۔۔ گھر واپسی پر میرے بیٹے کی بھی طبیعت خراب ہوگئی۔۔۔۔پوری رات وہ الٹیاں کرتا رہا اور میں پریشان ہوتی رہی کے اچانک کیا ہوگیا ذیشان کو۔۔۔۔ہم دونوں کراچی سے بلکل صحیح لوٹے تھے۔۔۔مجھے بھت تیز بخار ہوگیا۔۔۔۔اور ایسا بخار جو 104 سے کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔۔۔۔اگلے ہی دن مجھے بخار کی حالت میں ایک عجیب سی براؤن سی چیز۔۔۔ جس میں نہایت خشبو آرہی تھی ۔۔۔۔ مجھے اپنے ڈیوائڈر میں ملی۔۔۔اس کی خشبو بڑی ہی عجیب تھی۔۔۔۔میں نے اپنے ہسبینڈ کو دیکھاٸی ۔۔۔۔انھوں نے ابو یعنی میرے سسر کو۔۔۔۔میرے ہسبینڈ بھت ڈر گئے کے یہ کیا چیز ہے اور کیسے ہمارے کمرے میں آئی؟؟؟۔۔۔دو تین مہینے تک میں بستر پر پڑی رہی ۔۔۔۔اس دوران لڑائیوں کا سلسلہ نہ رکا۔۔۔۔۔بلکے مزید زور پکڑ گیا۔۔۔۔بتانے کی ضرورت تو نہیں مجھے یقین ہے کے آپ خود سمجھدار ہیں ۔۔۔۔جب گھر کی نوکرانی بیمار ہو جائے تو اسے گھر میں سکون سے کون رہنے دیتا ہے جو مجھے رہنے دیا جاتا۔۔۔۔۔۔میری ساس میری امی سے فون  پر لڑٸی ۔۔۔۔میرا ذیشان مکمل اب وانیہ چاچی  کے گھر میں پل رہا تھا۔۔۔۔ میں تو بستر پر ایسے پڑھی تھی کہ ہوش ہی نہیں آتا تھا کہ کب صبح ہوئی اور کب شام اور کب رات۔۔۔۔مجھے عجیب عجیب خواب دیکھاٸی دینے لگے تھے۔۔۔۔ڈاکڑ نے میرے بخار کی وجہ سینے میں دودھ کا جمع ہوکر پیپ بن جانا بتایا۔۔۔۔جس کا جلد سے جلد آپریشن ضروری تھا۔۔۔۔۔ میرے ہسبنڈ مجھے ہمیشہ یہی کہتے کہ میرے پاس حرام کا پیسہ نہیں ہے تم پر ضائع کرنے کے لیے۔۔۔۔میرے سسرال میں سب کو یہی لگتا تھا کے میں ناٹک کررہی ہوں۔۔۔۔۔ اب سوچتی ہوں تو مسکراتی ہوں کہ وہ غلط نہیں تھے جو خود جیسا ہوتا ہے۔۔۔۔ دوسرے کو بھی ویسا ہی گمان کرتا ہے۔۔۔۔وہ خود جھوٹے اور مکار لوگ تھے تو انھیں میں بھی جھوٹی لگنے لگی تھی۔۔۔۔


مجھے ایک رات خواب میں نظر آیا کہ ایک شخص مجھ سے کہہ رہا ہے کہ ہم تمہیں بیمار ڈالیں گے ۔۔۔۔ایک سے اٹھو گی تو دوسری میں ڈالیں گے اور پھر یہاں تک کہ تمہیں مار دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خواب مجھے ڈرا گیا۔۔۔۔میں جینا چاہتی تھی۔۔۔۔اپنے لٸیے نھیں۔۔۔۔ اپنے ذیشان کے لٸے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے خواب کے بارے میں صرف اپنے والدین کو بتایا اپنے سسرال والوں کو نہیں کیونکہ مجھے پتہ تھا اس کا کوئی فائدہ نہیں جب بھی میں اپنی ساس کو خوابوں کے بارے میں بتاتی جو عجیب عجیب خواب ان دنوں آرہے تھے۔۔۔ تو وہ  صرف ہستی اور میرا مزاق اڑاتیں۔۔۔۔۔۔۔۔


میری شادی کو ابھی ایک سال بھی پورا نھیں ہوا تھا ۔۔۔۔اور میں مرنے والی حالت میں تھی۔۔۔۔میری ساس سب آنے والوں سے کہتی ۔۔۔۔اپنا دودھ بچاتی تھی یہ۔۔۔۔۔اس لٸے آج اتنی تکلیف میں ہے۔۔۔۔یہ سن کر میں نیم بےہوشی کی حالت میں بھی تڑپتی تھی۔۔۔۔میرے آنسوں روکتے نہیں تھے۔۔۔۔کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں تھی مجھ پر؟؟؟۔۔۔۔۔جب میرا بیٹا مجھ سے دور رکھا جاۓ گا۔۔۔۔اسے  فیڈر پلاٸی جاۓ گی ہر وقت۔۔۔۔تو پھر مجھے یہ مرض لاحق تو ہونا ہی تھا۔۔۔۔۔۔میرے سینے میں درد کے مارے جو تکلیف ہوتی۔۔۔۔میں بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپتی۔۔۔۔۔میرے والد نے ایک دن فون کیا۔۔۔ تو میں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ یہ لوگ مجھے ابھی تک کسی صحیح ڈاکٹرنی کو نہیں دیکھا رہے۔۔۔۔ جس ڈاکٹرنی کے پاس یہ مجھے لے کر جا رہے ہیں اسی کی الڑاساٶنڈ  والی ڈاکڑنی نے میری حالت پر ترس کھا کر مجھے منع کیا ہے کہ یہاں مت آؤ ۔۔۔۔یہ بریسٹ اسپیشلسٹ نہیں ہیں۔۔۔یہ تمہیں مزید بیمار کر رہی ہیں ۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اور دیر ہو جائے۔۔۔۔تم کسی بریسٹ اسپیشلسٹ کو دیکھاؤ۔۔۔۔۔اس الٹرا ساؤنڈ ڈاکٹرنی نے یہ ساری بات میری ساس سے خود کی تھی ۔۔۔۔۔اس کے باوجود کوٸی میری بیماری کو سیریس نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جب میرے والد نے یہ بات سنی تو انہوں نے کراچی میں اسپیشلسٹ ڈھونڈنا شروع کر دیٸے اور اپوائنٹمنٹ بھی لے لی۔۔۔۔۔۔ جب یہ بات میرے شوہر اور میری ساس کو پتہ چلی تو دونوں ناچ  گٸے مارے غصے کے۔۔۔۔۔۔میری ساس کہنے لگی” ایسے کیسے ہم اپنی بیمار بھو کو کراچی بھیج دیں گے علاج کے لیے ؟؟؟۔۔۔۔لوگ کیا کہیں گے؟؟۔۔۔۔ ہماری عزت خراب ہوگی۔۔۔۔۔۔لوگ باتیں کریں گے ہمارے خلاف۔۔۔۔کہیں گے بیمار بہو کو کراچی پھینک دیا۔۔۔“ اس کے بعد میرے ہسبینڈ نے مجھ سے لڑاٸی کی۔۔۔۔اور اسی وقت مجھے لے کر ایک بریسٹ اسپیشلسٹ کے پاس گئے۔۔۔ کہنے کو میں بہت امیر خاندان کی بہو تھی لیکن میری چپل  ٹوٹی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔آپ اس سے اندازہ لگاٸیں میرا کیا حال کر رکھا تھا۔۔۔۔۔میرا دوسرے دن ہی آپریشن بتا دیا گیا۔۔۔۔تو میری ساس کو سب سے پہلے میری چپل کا خیال آیا اتنی بری حالت میں مجھے چپل خریدنے بھیجا کیونکہ کل میرے والدین آنے والے تھے ہسپتال مجھے دیکھنے ۔۔۔۔۔مزید اپنی اذیتیں کیا لکھوں ۔۔۔۔میرا آپریشن ہوا۔۔۔۔۔۔تین مہینے بعد جاکر میرا آپریشن ہوا  تھا۔۔۔۔۔میں بھت کمزور ہوگٸی تھی۔۔۔۔۔سوچ رہی ہوں ۔۔۔۔بھت سنا دی اپنی آپ بیتی ۔۔۔۔اب لکھنا بند کروں ۔۔۔۔ڈرتی ہوں کہیں وہ خاص شخص بور نہ ہوجاۓ۔۔۔۔پڑھتے پڑھتے ناول چھوڑ نہ دے۔۔۔۔۔یہ سوچ کر کے کتنا بورنگ ہے یہ ناول۔۔۔۔۔


میں تو یہ بھی نھیں جانتی کے اس کے پڑھنے کا ذوق کیسا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ پڑھنا پسند کرتا بھی ہے یا نہیں؟؟؟۔۔۔۔۔۔پر پھر سوچتی ہوں ۔۔۔۔وہ میرے وجود کا حصہ ہے۔۔۔۔۔اور میں پڑھاٸی کا کیڑہ تھی تو میرا دل کہتا ہے وہ بھی ضرور پڑھاٸی کا شوقین ہوگا۔۔۔۔۔۔)


ذیشان :اتنا پڑھنے کے بعد میرے آنسوں نہیں رک رھے تھے۔۔۔۔۔میرے آنسوں میرے سیل کی اسکرین پر گر رہے تھے۔۔۔۔۔میرا دل وہ تکلیف محسوس کرپارہا تھا جو اس وقت فبیحہ پر گزری تھی۔۔۔۔۔”ہاں ۔۔۔۔۔میں واقعی آپ کے وجود کا حصہ ہوں۔۔۔۔۔میں بھی پڑھنے کا بھت شوقین ہوں۔۔۔۔۔اور میں اتنا سہ بھی بور نھیں ہورہا ۔۔۔۔بلکے میری تو پوری زندگی سلجھ رہی ہے آپ کا ناول پڑھنے کے بعد۔۔۔۔۔“میں اپنے آنسوں صاف کرتے ہوۓ کہ رہا تھا۔۔۔۔۔

جاری_ہے 🙂

رائٹر : حُسنِ_کنول❤

Epi_7

کہانی : میری_ماں_کی_خواہش_تھی_وہ_پگلی❤


(دوسرے آپریشن کے بعد بھی میں ٹھیک نہیں ہوٸی۔۔۔۔جیساکہ  خواب میں مجھے باربار کہا جارہا تھا کے وہ مجھے بیمار کر کر کے مار دیں گے۔۔۔میں چاہتی تھی کے اٹھوں اور کام کروں تاکے لڑاٸی جھگڑے کم ہوں پر کمزوری اور ہر وقت بخار رہنے کے سبب میں بستر سے اٹھ نہیں پاتی تھی۔۔۔۔


میرے سسر نے شایان سے بولنا شروع کردیا کے یہ ناٹک اب مار کھاکر ہی ٹھیک ہوں گے۔۔۔۔ہر وقت میرے سسر میرے ہسبینڈ کو نامرد کہنے لگے۔۔۔۔طعنہ دیتے کے تجھ سے تیری بیوی سمبھالی نہیں جارہی ہے۔۔۔۔ان کی باتیں سن میں بھی جلد سے جلد کچن میں جانا چاہتی تھی۔۔۔پر ۔۔۔میرا بخار اور میری جسمانی کیفیت میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔ایک دن میں نے اپنی ساس کو سبق پڑھاتے سنا تو مجھے پتا چلا کے اصل ماسڑ ماٸینڈ سسر نہیں میری ساس ہے ۔۔۔۔ہر چیز کے پیچھے۔۔۔۔مجھے پتا چلا کے ساری جاٸیداد جس پر میرے ساس سسر دنیا میں اتراتے پھرتے ہیں وہ اصل میں میرے ہسبینڈ شایان کی ہے۔۔۔۔میرے سسر کا سارا پیسہ اور جاٸیداد تو ان کا لالچ لے ڈوبا ۔۔۔۔۔۔وہ بھی بھت سال پہلے ہی۔۔۔۔۔


میں نے الگ سے اپنے ہسبینڈ سے پوچھا ۔۔۔کیا یہ سارا کاروبار ان کے اکیلے کا ہے۔۔۔۔اس دن اچھے مونڈ میں تھے۔۔۔ان کے سر میں درد ہورہا تھا۔۔۔۔اس لٸے میرے پاس آکر بیٹھ گٸے تھے۔۔۔۔۔باتیں بھی نارمل کر رہے تھے تو میں نے موقع غنیمت جانتے ہوۓ پوچھ لیا ۔۔۔۔تو انھوں نے بتایا کے ۔۔۔۔۔”ہاں ۔۔۔سب میرا ہے۔۔۔۔۔ابو کا لالچ انکا سارا پیسہ اور جاٸیداد کھا گیا۔۔۔۔جب میں صرف چودہ سال کا بچہ تھا۔۔۔تو ہمارے حالات بھت خراب چل رہے تھے۔۔۔لیکن میری ماں نے لوگوں کے سامنے ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔۔۔وہ کہتی تھیں ۔۔۔ بند مھٹی لاکھ کی ۔۔۔۔۔ کھلنے کے بعد خاک کی۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے صرف چودہ سال کی عمر میں ڈبے بنانے کا کارخانہ کھولا۔۔۔اور ایک کاریگر کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔۔۔۔خدا نے جیسے ترقی دینے ہوتی ہے۔۔۔۔وہ اسے دے دیتا ہے۔۔۔۔ابو تو ایسے اِدھر اُدھر  آدمیوں کے پاس بیٹھ کر وقت گزاری کرتے۔۔۔لیکن جیسے ہی انھوں نے  دیکھا کے میرا کارخانہ چلنے لگا تو وہ پہلے تو آکر روز خاموشی سے بیٹھ جاتے ۔۔۔پھر تھوڑے دنوں بعد وہ کاریگروں پر چیخنے چلانے لگے۔۔۔۔میں خاموش رہا۔۔۔کیونکے کاریگر ابو کے خوف سے زیادہ اچھا کام کرتے۔۔۔۔کارخانہ اسٹارٹ بھی میں نے اپنے تھوڑے سے پیسوں سے کیا تھا۔۔۔ابو سے ایک روپیہ بھی نہیں مانگا تھا۔۔۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے میں پورے علاقے کا سب سے کم عمر باکس میکر بن گیا۔۔۔۔۔ابو صرف آکر بیھٹتے۔۔۔۔۔۔لیکن پھر اچانک ضد کرنے لگے کے میں لٸی پکاٶں گا۔۔۔۔میں نے منع کیا۔۔۔کے آپ کو کیا ضرورت ہے صبح اٹھ کر اتنی محنت کرنے کی۔۔۔۔وہ محنتی شخص مانے ہی نہیں۔۔۔۔ابو نے سب کے سامنے بڑے بھرم سے کہنا شروع کردیا یہ ان کا کارخانہ ہے۔۔۔۔۔امی نے مجھے سمجھایا ۔۔۔۔میں انھیں بولنے دوں ۔۔۔اس سے وہ خوش رھیں گے۔۔۔۔وہ جو کر رہے ہیں انھیں کرنے دوں۔۔۔۔۔تاکے وہ یہ محسوس نہ کریں کے وہ اپنے بیٹے کا کھا رہے ہیں۔۔۔اپنی ماں کے سمجھانے کے بعد سے میں نے زندگی بھر اپنا منہ نہیں کھولا کسی کے سامنے کے یہ سارا کاروبار صرف میرا ہے۔۔۔۔اور نہ اپنے ابو کی حیات میں ایسا کروں گا۔۔۔۔۔“


شایان کی باتوں سے مجھے پتا چلا کے کیوں مجھے میرے بیٹے سے دور رکھا جارہا ہے۔۔۔۔کیوں کوٸی نہیں چاہتا تھا  کے میرے گھر لڑکا پیدا ہو۔۔۔۔کیوں میرے لٸے ماریہ چاچی اور سسر پر بابا آتے ہیں ۔۔۔۔


کیونکے میں واحد تھی جو اس بات سے لاعلم تھی ۔۔۔۔باقی سب یہ بات جانتے تھے۔۔۔کے میرے گھر صرف بیٹا پیدا نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔۔مجھے خدا نے پوری جاٸیداد کے اصل وارث سے نواز دیا ہے۔۔۔۔۔۔مجھ پر اب یہ راز آشکار ہوا کے کیوں میرے سسر میرے ہسبینڈ پر جادو کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں کتنی بےوقوف تھی مجھے اس بات کا اب اندازہ ہورہا تھا۔۔۔۔۔اس دن کے بعد سے میں نے غور کرنا شروع کیا تو محسوس ہوا کے میری ساس سسر میرے ہسبینڈ کو اپنے دوسرے بچوں کی خاطر صرف استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔اس بیچارے کو جادو کر کرکے ۔۔۔۔دماغ مفلوج کردیا ہے اس کا۔۔۔۔اس کی اپنی تو کوٸی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے ہی نہیں ۔۔۔۔وہ صرف میرے ساس سسر کے کہنے میں چلتا ہے۔۔۔۔


اگر آپ کبھی ایک نارمل انسان سے بات کریں گے ۔۔۔۔خاص طور پر ایک شادی شدہ مرد سے۔۔۔۔تو اس کی باتیں اپنے ۔۔۔۔اور اپنی اولاد کے فیوچر کے متعلق ہوں گی۔۔۔۔لیکن شایان کا معاملہ بلکل برعکس تھا۔۔۔۔۔۔اس کا ذھن صرف اپنے والدین اور بھن بھاٸیوں کے فیوچر کے اردگرد گھومتا تھا۔۔۔۔وہ جب بھی کوٸی اچھی دوکان یا چیز دیکھتا ۔۔۔تو کبھی نہیں کھتا  کے اپنے لٸے لوں ۔۔۔۔وہ کھتا۔۔۔ یہ میں اپنے فلاں بھاٸی کو دلاٶں گا ۔۔۔۔یہ میں فلاں بھاٸی کے لٸے ایک دن ضرور خریدوں گا۔۔۔۔۔اس کی باتیں اور خواب صرف اپنے بھن بھاٸیوں تک محدود تھے۔۔۔۔۔اپنے لٸے نہ اس کا کوٸی خواب تھا نہ عارضو۔۔۔۔۔۔)


ذیشان : اتنے پڑھنے کے بعد میں نے مارے حیرت کے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔۔۔۔۔مجھے آج پتا چلا تھا کے میری ماں پر سارے ظلموں کی وجہ میرا لڑکا ہونا تھا۔۔۔۔میرا جاٸیداد کا وارث ہونا تھا۔۔۔۔فبیحہ کی کہی ہر بات سچی معلوم ہورہی تھی مجھے۔۔۔۔کیونکے میں نے بھی دیکھا ہے کے کس کس طرح میرے ابو کو دادا دادی اور سارے چاچا اور پھوپھوٸیں لوٹتیں ہیں۔۔۔۔۔اتنا پڑھنے کے بعد میرا ذھن بجلی کی تیزی سے دوڑ رہا تھا۔۔۔۔لیکن صبح کالج جانا تھا۔۔۔۔اس لٸے مجبورا ناول پڑھنا بند کیا اور خود کو نیند کی آغوش میں دے دیا۔۔۔ اب آپ لوگوں سے کیا چھپانا ایک وجہ میرے کالج مس نہ کرنے کی یہ بھی تھی کہ کل والناس کو آنا تھا میری یونی۔۔۔کل یونی میں پینٹنگ کا دوسرا کمپٹیشن منعقد ہورہا تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس کمپٹیشن میں  وہ ضرور پارٹیسپیٹ کرے گی۔۔۔۔۔مانا ناراضگی عروج پر تھی میری اس سے۔۔۔لیکن پھر بھی اسے اتنے دنوں بعد دیکھنے کا موقع مِس نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔


*****----------*****


میں جلدی یونی پہنچ گیا تھا۔۔۔۔مین دروازے کے سامنے ہی تھوڑا دور کھڑا ہوگیا ۔۔۔کیونکے جانتا تھا کے وہ انٹر تو یہی سے ہو گی۔۔۔۔ایک گھنٹہ ضاٸع کیا میں نے۔۔۔صرف اس کے انتظار میں۔۔۔۔مگر وہ آٸی ہی نہیں۔۔۔۔ناجانے کیوں دل بھت اداس سہ ہوگیا تھا۔۔۔۔اس کے بعد تو پڑھاٸی میں بھی آج پہلی بار دل نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔ پینٹنگ کمپیٹیشن آج ایک بجے ہونے والا تھا۔۔۔۔میری کلاس ختم ہوچکی تھی۔۔۔۔ میرے پاس دو آپشن تھے پہلا۔۔۔۔۔ 


ایک گھنٹہ پھر سے والناس کا انتظار کروں اور اپنا وقت ضائع کروں............ یا ......پھر اپنے گھر چلے جاؤں اور گودام جاکر اپنا حساب کروں ۔۔۔۔افففففف۔۔۔۔۔۔ بڑی مشکل تھی۔۔۔۔آپ کو علم ہے ناں۔۔۔۔۔اگر ایک امید ہے اس کے آنے کی۔۔۔تو پھر میں وہ امید کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔۔میں ایک گھنٹہ اس کا انتظار کرتا رہا....پر وہ آٸی ہی نہیں ۔۔۔میرا  دل ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔۔پتا نہیں کیوں بھت اداسی سی چھاٸی محسوس ہورہی تھی مجھے۔۔۔۔۔


 جب سے اس پینٹنگ کمپیٹیشن کے بارے میں پڑھا تھا تب سے انتظار کر رہا تھا اس کا۔۔۔۔کیونکے وہ نہیں آٸی اس لٸے اداس سہ چہرہ بناۓ کھڑا ہوگیا چٸیر سے۔۔۔۔ جیسے ہی میں پلٹا ۔۔۔میرا اداس چہرہ کھل اٹھا تھا یہ دیکھ کے وہ سامنے سے بھاگتی ہوٸی چلی آرہی تھی۔۔۔۔شاید وہ لیٹ ہوگٸی تھی۔۔۔۔اتنا لیٹ ہوجانے کے باوجود وہ مجھے وہاں دیکھ رک گٸی۔۔۔۔میں چاھ کر بھی اپنے چہرے پر آنے والی خوشی ۔۔۔۔جو اس لمحے  صرف اسے دیکھ کر چہرے پر بکھر آٸی تھی وہ روک نہ سکا۔۔۔والناس کے چہرے پر مجھے دیکھتے ہی ایک اطمینانی سی چھاٸی نظر آٸی۔۔۔۔ میں دوبارہ چیٸر پر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔بغیر کچھ بولے ۔۔۔۔


میں نے وھیں بیٹھ کر ناول پڑھنا اسٹارٹ کردیا۔۔۔۔۔۔۔مانا دل نہیں چاھ رہا تھا والناس پر سے نظریں ہٹھانے کا۔۔۔وہ کالے کپڑوں میں قیامت ڈاھ رہی تھی میرے دل پر۔۔۔۔۔پر ۔۔۔۔۔ مجھے ناول بھی تو پڑھنا تھا۔۔۔۔یہ بھی بھت ضروری تھا میرے لٸے۔۔۔۔مجھے جاننا تھا کے کیوں آج فبیحہ میرے ساتھ نہیں ہے ۔۔۔


ناول : میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی


(میرے بیماریوں کے سبب میرا ذیشان مجھ سے بھت دور ہوگیا تھا۔۔۔۔وانیہ کی بڑی بیٹی کو میری ساس ۔۔۔۔میرے ہی سامنے ذیشان کی ماں کہنے لگی تھی۔۔۔۔یہ وہی وانیہ کی بیٹی تھی ۔۔۔جسے ذیشان کے پیدا ہونے سے پہلے میری ساس  آوارا اور گندی لڑکی کہا کرتی تھی اسے۔۔۔۔پر ناجانے میرا ذیشان ایسی کیا مبارک دل پھیر دینے والی چیز لایا تھا اپنے ساتھ۔۔۔کے وانیہ اور اس کی بیٹیاں جنہیں میری ساس ایک آنکھ برداشت نہیں کر پاتی تھی۔۔۔وہ دل و جان سے عزیز ہوگٸیں تھیں میری ساس کو۔۔۔۔۔جھوٹ کیوں کہوں۔۔۔۔۔سچ کہتی ہوں ۔۔۔۔۔ مجھے نہیں سمجھ آیا تھا کہ کیوں وانیہ اور اس کی بیٹیاں میرے بیٹے پر دل و جان سے فدا رہتی ہیں۔۔۔لیکن جب سے شایان نے جاٸیداد کے متعلق بتایا ۔۔۔۔میری بھت سی الجھنیں سلجھ گٸیں تھیں۔۔۔۔مجھے یہ بات پتا تھی کے وانیہ شروع سے ہی اپنی بڑی بیٹی کی شادی شایان سے کرانا چاھتی تھی۔۔۔۔بس میری ساس ہی اس رشتے کے لٸے راضی نہ ہوٸی۔۔۔۔۔لیکن اب مجھے سمجھ آرہا تھا کے وانیہ اور اس کی بیٹیاں میرے ذیشان کے پیچھے نہیں پڑھی تھیں۔۔۔وہ تو جاٸیداد کے وارث کے پیچھے پڑھیں تھیں۔۔۔۔


آپ تصور بھی نہیں کرسکتے کے کتنی شدت سے تکلیف ہوتی ہے ایک ماں کو۔۔۔۔جب اس کی اکلوتی اولاد کو اس کے سامنے ہی کسی اور کی اولاد کہ کر منسوب کیا جانے لگے۔۔۔۔ہر وقت یہ اذیت سہتی تھی میں۔۔۔۔۔ہر وقت دل جلاتی تھی ۔۔۔


اور کَیا ۔۔۔کَیا ظلم لکھوں جو میری ذات پر ڈاھے جارہے تھے۔۔۔ ہر لمحہ اذیت تھا میرا تو۔۔۔۔۔ابھی تو صرف میں نے اپنی زندگی کے دکھوں کا ایک چھوٹا سہ حصہ شٸیر کیا ہے۔۔۔۔۔اس میں نہ میری نندوں کے ظلم کا ذکر ہے نہ دیوروں کی لڑاٸیوں کا۔۔۔۔۔۔نہ وانیہ کی بیٹیوں کا مجھے گالیاں دے دے کر جانے کا۔۔۔۔۔نہ میرے سیل کا دوبارا چھین جانے کا۔۔۔۔نہ میری طبعیت خراب ہونے پر مجھے یہ سمجھاکر ڈاکڑ کے لے کر جانے کا۔۔۔۔کے اگر ڈاکڑ ڑریپ لگانے کی کہے ۔۔۔۔تو صاف منع کردینا۔۔۔۔۔نہ میرے سسر کا مجھے بات بات پر یہ کہنا ” بچہ چھینو اور فارغ کرٶ اسے“ یہ جملا کسی بھی عورت کی جان لینے کے لٸے کافی ہے۔۔۔۔کے اس کا بچہ چھین کر اسے طلاق دے دی جاۓ۔۔۔۔ذیشان کے پیدا ہونے کے بعد میرے سسر پر زیادہ بابا(جن) نہیں آیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی شاید میرے سسر کو۔۔۔۔۔ کیونکے ۔۔۔۔۔اب۔۔۔۔۔ان کے پاس اپنی ہر بات مجھ سے منوانے کا نیا ہتھیار ۔۔۔۔۔۔یہ دل پر  قہر برسانے والا جملا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے خوف سے میری روح بھی کانپتی تھی۔۔۔۔۔۔۔


پتا ہے میرا اصل جرم کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔جو مجھے اب جاکر سمجھ آیا ہے۔۔۔۔۔چلیں آپ سے شٸیر کرتی ہوں۔۔۔۔میرا بےوقوف نہ ہونا۔۔۔۔۔۔جی ۔۔۔بلکل درست پڑھا ہے آپ نے۔۔۔۔میرا بےوقوف نہ ہونا میری زندگی کا سب سے بڑا جرم ہے۔۔۔۔مجھے چاھٸے تھا کے اس معاشرے میں بےوقوف پیدا ہوتی۔۔۔۔۔۔۔اپنا دماغ استعمال ہی نہ کرتی۔۔۔۔۔بس تبھی میری ساس مجھے بسنے دیتی۔۔۔۔پر میں ٹھری عقل مند۔۔۔۔۔جب میری ساس نے شادی کے صرف چار ماہ بعد میرے ہسبینڈ کے ذھن میں میرے میکے سے ملا سونا بیچنے کی ڈالی۔۔۔۔تاکے اسے بیچ کر میرے دیور کو دوکان دلاٸی جاۓ۔۔۔۔تو میں عقل مند ۔۔۔۔اڑ گٸی۔۔۔۔کے یہ سونا میرے ڈیڈ نے اپنی زندگی کی پوری جمع کونجی لگا کر مجھے بنا کر دیا ہے۔۔۔میں اسے نہیں بیچوں گی۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی شادی کے صرف تین چار ماہ بعد۔۔۔۔۔۔وہ بھی تب ۔۔۔جب مجھے اپنی زندگی کی گاڑی کوٸی خاص چلتی نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔۔۔۔ میری نظر میں تو میں نے صرف اپنے ہسبینڈ کو منع کیا تھا لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ اس کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈ تو میری ساس ہے۔۔۔۔ جو میرا سونا بیچ کر کھا جانے کے پیچھے پڑی ہے۔۔۔۔اس لالچی عورت کی نظر میرے سونے پر تھی یہ کہاں جانتی تھی میں۔۔۔۔۔۔میری نظر میں تو وہ ایک امیر و کبیر عورت تھی ۔۔۔۔۔جس کے خود کے پاس نہ ناجانے کتنے تولے سونا ہوگا۔۔۔۔۔۔میرا اپنا سارا زیور بیچنے سے انکار ۔۔۔۔میری ساس کو ھلا گیا۔۔۔۔۔وہ تو پورے خاندان کی سب سے سیدھی عورت کی بیٹی لے کر آئی تھی اپنے شایان کے لیے۔۔۔۔لیکن اس سیدھی عورت کی بیٹی مجھ جیسی ذھین نیکل آٸی ۔۔۔۔۔تو اس میں میرا کیا قصور؟؟؟۔۔۔۔۔ میں نے تو کبھی نہیں پڑھا کے سیدھوں  کی اولاد سیدھی ہی  ہوتی ہے ۔۔۔۔۔نہ جانے میری ساس نے کس کتاب میں پڑھ لی تھی یہ بات۔۔۔۔۔۔۔۔(سیدھی کا لفظ میں یہاں بےوقوف کے معنی میں استعمال کر رہی ہوں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس تب سے۔۔۔۔۔ میں سیدھے ہونے میں اپنی ساس کے معیار پر پوری نہ اتر سکی۔۔۔۔جس کا یقین مانیں مجھے بھت دوکھ ہے۔۔۔۔۔کیونکے اگر میں بےوقوف نیکل آتی تو سوچتی ہوں شاید وہ میرا گھر بسنے دیتیں۔۔۔۔۔۔


ارے ہاں۔۔۔۔۔چھت کی لڑاٸی کے پیچھے کیا راز تھا۔؟؟؟۔۔۔۔۔۔ کیوں ماریہ چاچی چھت کا راستہ بند کروانا چاھتی تھیں۔۔۔۔مجھے بعد میں پتا چلا کے اگر چھت کا راستہ بند ہوگیا۔۔۔۔ تو میں بلکل الگ گھر کی ہوجاٶں گی۔۔۔۔اس کا مطلب سمجھے آپ؟؟؟۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔اووو۔۔۔۔ہوووو۔۔۔۔۔چلیں سمجھاتی ہوں۔۔۔۔۔۔جیسے ہی چھت کا راستہ بند ہوگا ۔۔۔میرے اپنے گھر کا مین گیٹ کھلے گا۔۔۔۔پھر میں باہر سے اپنی ساس کے گھر آنا جانا کروں گی۔۔۔۔تو لوگ دیکھیں گے۔۔۔۔پھر لوگ باتیں بناٸیں گے۔۔۔۔۔لوگ کھیں گے ۔۔۔اتنی مشکل سے روز آنا جانا کرتے ہو ۔۔۔۔ایک کام کرٶ الگ ہی ہوجاٶ۔۔۔۔۔اور شایان کے اپنے والدین سے الگ ہونے کا مطلب ہے ۔۔۔۔۔پوری جاٸیداد کا الگ ہوجانا۔۔۔۔۔بھلا میرے ساس سسر مجھے کیوں اپنا سونے کا انڈا دینے والی مرغی دینے لگے۔۔۔۔۔اور ماریہ چاچی یہ بات جانتی تھیں کے اگر میں ڈر گٸی ایک بار اس چھت سے اور اس کے جنوں سے۔۔۔۔اور میں نے مطالبہ کردیا کہ مجھے الگ گھر میں باہر سے آنا جانا کرنا ہے۔۔۔تو میری ساس جلد سے جلد مجھے شایان کی زندگی سے نیکال باہر کرۓ گی۔۔۔۔اور یہی اس ظالم عورت کا منصوبہ تھا۔۔۔۔۔۔اس نے میری زندگی تباہ کر کے میری ماں سے اپنی لڑاٸی کا بدلا نیکالا۔۔۔۔۔لوگ واقعی اندھے ہوجاتے ہیں بدلا لینے کی آگ میں۔۔۔۔


میں واقعی ڈر گٸی۔۔۔۔۔۔اور ضد پکڑ لی۔۔۔۔میں چھت سے آنا جانا نہیں کروں گی۔۔۔۔میں تو ویسے بھی اپنی ساس کے بیڈ والے کمرے میں بےجان سی پڑی رھتی۔۔۔۔۔ 


میری ساس کی نظر میں اب میری بیماری کا ڈرامہ طول پکڑ  چکا تھا۔۔۔۔۔انھوں نے بھی اب مجھے مار پیٹھ کر کچن میں کھڑا کرنے کا منصوبہ بنایا۔۔۔۔


۔ میں وہ دن کبھی نھیں بھول سکتی۔۔۔۔میرا ذیشان فجر سے اٹھا ہوا تھا۔۔۔۔اور ٹھنڈ کی وجہ سے الٹیوں پر الٹیاں کر رھا تھا۔۔۔۔۔میں بھت پریشان تھی۔۔۔۔ایک تو میں خود بھت بیمار تھی۔۔۔۔اوپر سے ذیشان کا الٹیاں کرنا۔۔۔۔۔میرے ہسبینڈ مجھے ٹاچر کرنے کا کوٸی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ مجھے اور ذیشان کو سردی لگ رہی ہے تو بجائے اے۔سی  کم کرنے کے اور تیز  کھول کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے مجھے تو گرمی لگ رہی ہے بھئی۔۔۔۔۔


ایک ماں سب برداشت کرسکتی ہے ۔۔۔۔پر اپنی اولاد کی تکلیف نھیں ۔۔۔۔میں واقعی پاگل سی ہوگٸی تھی ۔۔۔۔ہر وقت کا ٹاچر سہ سہ کر۔۔۔۔۔۔مجھے بھت تکلیف ہوتی ہے اس لمحے کو یاد کر کے بھی۔۔۔۔۔پر اس خاص شخص کا۔۔۔۔۔ اُس دن کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جاننا ضروری ہے۔۔۔۔۔میں اپنے ہسبینڈ کو بھت پیار سے سمجھانے لگی ۔۔۔۔پلیز اے۔سی بند کرٶ۔۔۔۔۔ مجھے اذیت دینی ہے تو بعد میں دے لینا ۔۔۔۔۔۔ابھی کیوں ذیشان کو تکلیف دے رہے ہو؟؟؟۔۔۔میں تھوڑی دیر تک منتی انداز میں گویا رہی۔۔۔۔۔


ذیشان کیا صرف میرا بیٹا تھا؟؟؟۔۔۔۔۔اس کا نھیں؟؟؟۔۔۔۔۔جو اسے ذیشان کے طبعیت خراب ہونے کا بھی احساس نھیں ہورہا تھا۔۔۔۔


جس پر شایان نے جواب دیا۔۔۔۔خاموش ہوجاٶ ۔۔۔ورنہ میں ماروں گا۔۔۔ تھوڑی دیر میں خاموش ہوگٸی۔۔۔۔ذیشان سو بھی نہیں پارہا تھا ٹھنڈ کی وجہ ۔۔۔۔میں نے دوبارا یہ سوچ کر التجاء کی کے شاید اپنے بیٹے کی خاطر ہی بند کردے۔۔۔۔پر وہ جیسے طوطا بنے بیٹھیں  ہو۔۔۔۔ہر بات کا جواب فقط ایک ہی رٹا رٹایا جملا دے رہے تھے۔۔۔۔”خاموش ہوجاٶ ۔۔۔۔ورنہ میں ماروں گا۔۔۔“ ۔۔۔۔آخر کار میں نے پوچھ ہی لیا۔۔۔”کیوں ماروں گے مجھے ؟؟؟۔۔۔۔میں نے کِیا کَیا ہے؟؟؟۔۔۔“


اس کا جواب بھی وہی دیا ”خاموش ہوجاٶ ۔۔۔۔ورنہ میں ماروں گا“۔۔۔۔۔


مجھے نہیں خبر تھی کے میری ساس کی طرف سے ہی آوڈر جاری ہوچکا ہے کے مجھے مارا جاۓ۔۔۔۔میں نے ایک دن پہلے ہی شایان کے شکایت اپنی ساس سے کی تھی۔۔۔۔کے وہ مجھت تنگ کر رہے ہیں۔۔۔۔ہر وقت کہتے رہتے ہیں کے مجھے ماریں گے۔۔۔۔۔آپ پلیز انھیں سمجھاٸیں ناں۔۔۔۔۔تو انھوں نے لاپرواہی سے جواب دیتے ہوۓ کہا ۔۔۔بھٸی تم دونوں میاں بیوی کا معاملہ ہے۔۔۔۔میں اس میں کیا کہ سکتی ہوں۔۔۔۔۔


میں جانتی تھی کے اگر میری ساس شایان کو سمجھاٸیں گی تو وہ ضرور ٹھیک ہوجاۓ گا۔۔۔۔کیونکے اپنی والدہ کی بات تو وہ آنکھیں بند کر کے مانتا تھا۔۔۔۔ پر وہ راضی ہی نہیں ہوٸیں۔۔۔۔بلکے مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔۔ تو خود سمجھا ۔۔۔۔


میں سمجھاٶں؟؟؟۔۔۔کیسے؟؟؟۔۔۔اگر مجھے سمجھانا ہی آتا تو آج میری زندگی اتنی بری حالت میں نہ ہوتی۔۔۔۔ 


اپنی ساس کی نصحیت مانتے ہوۓ ۔۔۔۔میں نے کوشش کی شایان کو سمجھانے کی۔۔۔۔۔فجر کا وقت تھا۔۔۔۔۔میں اتنی صبح اپنے بیٹے کو لے کر کہاں جاتی؟؟؟۔۔۔۔۔۔اوپر سے بخار نے میرا جسم کے اک اک عضو کو توڑ رکھا تھا۔۔۔۔۔


میں نے پوچھا ”کیوں مارو گے مجھے ؟؟؟۔۔۔۔میں نے کِیا کَیا ہے؟؟؟۔۔۔چلو میری چھوڑو ۔۔۔اگر تمھارے والدین اور میرے والدین تم سے پوچھیں گے ۔۔۔۔۔کے مجھے کیوں مارا ۔۔۔۔۔تو کیا جواب دو گے؟؟؟۔۔۔۔۔اب پہلے والا جہالت کا دور نہیں رہا  ۔۔۔۔اب کوٸی اپنی بیوی کو مارتا ہے تو اسے جیل ہوجاتی ہے۔۔۔۔“بس اتنا کہنا گناہ ہوا تھا میرا۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ۔۔۔۔شایان نے میری گردن موڑ کر مجھے جانوروں کی طرح مارا۔۔۔۔میرے چہرے پر اتنے تھپڑ مارے ۔۔۔کے میں چیخ چیخ کر رونے لگی۔۔۔۔میں بھت نازک سی تھی۔۔۔اور شایان جسم میں پہلوانوں کی طرح۔۔۔۔آپ سوچ سکتے ہیں کے اس بھاری بھرکم  شخص کا ہاتھ جب میرے چہرے پر پڑھ رہے ہوں گے تو کتنی اذیت ہورہی ہوگی مجھے۔۔۔۔۔۔وہ بس مارے چلا گیا ۔۔۔۔مارے چلا گیا۔۔۔۔میں تڑپ تڑپ کر اس لمحے امی بچاٶ ۔۔۔۔۔امی بچاٶ پکار لگاتی رہی ۔۔۔۔پر میرے امی بھت دور تھیں ۔۔۔۔انھیں تو خبر بھی نہیں ہوگی کے کیا قیامت گزر رہی ہے مجھ پر اس لمحے۔۔۔اس نے مجھے مار کر بیڈ سے نیچے دھکا دے دیا۔۔۔۔بغیر یہ سوچے کے مجھے کہاں کہاں لگ سکتی ہے۔۔۔میں تھوڑی دیر تک نیچے فرش پر بےست سی پڑی رہی۔۔۔۔روتی رہی ۔۔۔پھر خود کو سمبھال کر اٹھی اور بیڈ پر لیٹ کر رونے لگی۔۔۔۔میں بھت بیمار تھی۔۔۔میرے پورا وجود کپکپا رہا تھا ۔۔۔مجھ میں چلنے تک کی ہمت نہیں تھی۔۔۔۔۔اتنا تشدد کرنے کے بعد بھی اس کے دل کی بھڑاس نہیں نیکلی تھی۔۔۔۔وہ پھر آیا اور بالوں سے پکڑ کر مجھ نازک صفت کو پھر مارنے لگا۔۔۔پھر مار پیٹ کر مجھے نیچے پھینک دیا۔۔۔اللہ وہ وقت ۔۔۔۔۔وہ قیامت تھا میرے لٸے۔۔۔آج بھی یقین کریں میری آنکھیں خود بہ خود بہنے لگتی ہیں اس لمحے کے یاد آتے ہی۔۔۔میری کہانی کے کاغذ بھیگ رہے ہیں یہ واقعہ لکھتے ہوۓ۔۔۔آنکھوں میں آنسوں آنے کے سبب سب دھوندلا نظر آرہا ہے۔۔۔۔۔۔دل مارے غم کے پھٹ جاۓ گا ایسا لگتا ہے۔۔۔


۔۔۔۔آخر کار شایان کا ارمان پورا ہو ہی گیا ۔۔۔مجھے مارنے کا۔۔۔۔اس کے والدین کو بھی سکون آگیا ۔۔۔مانا وقتی ۔۔۔پر مجھے یقین ہے مجھے تڑپتا ہوا دیکھ بھت سکون مل رہا ہوگا میری سسرل والوں کو۔۔۔


میں بھت نازو کی پلی تھی ۔۔۔۔۔شھزادیوں کی طرح پالا تھا میرے ڈیڈ نے مجھے۔۔۔۔۔ہاتھ لگانا تو بھت دور کی بات ہے۔۔۔۔کبھی چیخ کر بات بھی نہیں کرتے تھے۔۔۔۔بلکے ان کا تو غرور تھی اُن کی یہ پڑھی لکھی بیٹی ۔۔۔۔۔اس غرور کو بالوں سے پکڑ پکڑ کر مارا تھا اس ظالم نے۔۔۔۔۔وہ بھی بیماری کی حالت میں۔۔۔۔۔۔میری ساس کو لگتا تھا کے میں پڑھی لکھی ہوں۔۔۔۔۔اوپر سے میرا بیٹا ہوگیا ہے۔۔۔۔اس وجہ سے مجھ میں بھت غرور آگیا ہے۔۔۔۔۔لو جی ۔۔۔۔۔ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔۔۔جس لڑکی کو ہوش نہیں آتا ۔۔۔۔اسے غرور کہاں سے آۓ گا؟؟؟۔۔۔۔۔آپ خود بتاٸیں۔۔۔۔۔کیا بستر پر پڑا شخص ۔۔۔جسے ہر وقت لگنے لگا ہو کے بس بھت جلد وہ دنیاۓ فانی سے کونچ کر جاۓ گا۔۔۔۔۔غرور کرسکتا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔میرا پڑھا لکھا ہونا کس کام کا۔۔۔۔۔جب ہر وقت مجھے ۔۔۔۔پڑھی لکھی جاہل کے طعنے ملتے تھے۔۔۔۔۔اور بیٹا ۔۔۔۔۔وہ تو مکمل مجھ سے چھین لیا گیا تھا۔۔۔۔بس رات کو سونے کے لٸے میرے پاس آتا تھا۔۔۔۔۔اس دن میں نے صاف کہا کے اب میں شایان کے ساتھ نہیں رھوں گی۔۔۔۔۔لیکن مجھے کہا گیا ۔۔۔۔اگر میں اسی دن وہاں سے اپنے گھر آٸی تو میرے ذیشان کو نھیں بھجیں گے وہ۔۔۔۔۔صرف اپنے ذیشان کی خاطر میں نے یہ خون کا گونٹ پی لیا۔۔۔۔۔


جب میرے خالو آۓ۔۔۔۔۔جو شایان کے سگے ماموں تھے۔۔۔۔یہ تھے وہ عزیم ہستی جنھوں نے میرا رشتہ کروایا تھا۔۔۔۔میں انھیں برا نہیں کہتی کبھی۔۔۔۔کیونکے وہ بیچارے تو خود بھت سیدھے سے ہیں۔۔۔۔بلکل میری امی جیسے۔۔۔۔میری ساس نے ان سے بڑے بھرم سے کہا ”تو کیا ہوگیا اگر شوہر نے مارا تو ۔۔۔۔۔شوہر تو جلا بھی دیتے ہیں “ان کے یہ الفاظ جب میرے والدین تک پہنچے تو میری والدہ کی طبعیت خراب ہوگٸی۔۔۔۔۔میری دادی باربار کہنے لگیں ان لوگوں کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔۔۔۔فبیحہ کو لے آٶ اس سے پہلے وہ واقعی جلا دیں۔۔۔۔۔وہ رات میں نے بھت خوف میں کانٹی۔۔۔۔میں کچن میں پانی پینے تک نہیں جارہی تھی ۔۔۔۔اس خوف سے کے یہ لوگ واقعی مجھے جلا ناں دیں۔۔۔۔کیونکے ہماری ہی برادری میں کچھ دنوں قبل ہی ایک آدمی نے اپنی بیوی کو جلا دیا تھا۔۔۔۔۔آپ گمان بھی نہیں کرسکتے جو اس رات مجھ پر گزر رہی تھی۔۔۔۔۔اس کے باوجود اپنے ذیشان کی خاطر شایان کے ساتھ رہنے کے لٸے ابھی بھی تیار تھی۔۔۔۔کیونکے میری نظر میں اگر بن ماں کے بچے رولتے ہیں ۔۔۔۔تو بن باپ کے کبھی ٹھیک طرح سے سر اٹھا کر جی نہیں پاتے۔۔۔میں ذیشان کو اس کے ماں باپ دونوں دینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔اور آج بھی چاہتی ہوں۔۔۔۔وہ الگ بات ہے ۔۔۔۔میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔)


ذیشان : بس اتنا پڑھنے کے بعد میری آنکھیں بھر آٸیں ۔۔۔میں  وہاں بیٹھ کر رونا نہیں چاھتا تھا ۔۔۔۔۔اس لٸے اٹھ کر سوئمنگ پول والے ایریے میں چلا آیا۔۔۔۔کیونکے مجھے علم تھا کے وہاں میرے علاوہ اس وقت کوٸی موجود نہ ہوگا۔۔۔وہاں پہنچنےکے بعد میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔۔۔دل چاھ رہا تھا آج چیخ چیخ کر آسمان و زمین کو ھلا دوں۔۔۔۔۔کتنے ظلم کٸیے ہیں ان ظالموں نے میری ماں پر۔۔۔۔۔۔اور وہ بیچاری سب سہتی رہیں صرف میری خاطر۔۔۔۔۔میں روتے روتے زمین پر گرنے والا تھا کے اچانک والناس نے آکر مجھے تھام لیا ۔۔۔۔مجھے اس وقت کسی ایسے کی ضرورت تھی جو اس غم و غصے کی ملی جھلی کیفیت میں مجھے سمبھال لے۔۔۔۔۔اس نے مجھے پکڑ کر بینچ پر بیٹھایا ۔۔۔۔میں سر نیچے کر کے روۓ جارہا تھا۔۔۔۔میں اس وقت خود کے جذبات پر قابو نہیں رکھ پایا۔۔۔۔وہ ناجانے کیوں دل کو اپنی اپنی لگ رہی تھی۔۔۔اس کے سامنے روتے وقت میرے دل کو ذرا سہ بھی عجیب نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔بلکے وہ تو باربار میری کمر پر پیار سے سہلاتے ہوۓ مجھے ہمت دینے لگی۔۔۔۔”کیا ہوا ہے ذیشان ؟؟۔۔۔۔ایسے اچانک سے کیوں رو رہے ہو؟؟؟“اس نے اتنی محبت سے پوچھا کے میں بےساختہ اس کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔۔اس کا چہرہ بتارہا تھا۔۔۔۔کے مجھے روتا ہوا دیکھ وہ بھی تڑپ اٹھی ہے۔۔۔۔۔


”بولو ناں کیا ہوا ہے ؟؟؟“وہ باربار بس مجھ سے پوچھے جارہی تھی۔۔۔۔میں بس روتا رہا۔۔۔۔ہر اس لمحے کو یاد کر کے جب میں فبیحہ کو برا بھلا کہا کرتا تھا۔۔۔۔۔


کافی دیر گزرنے کے بعد مجھے یاد آیا کے والناس کا تو پینٹنگ کمپٹیشن چل رہا تھا۔۔۔۔”تمھارا کمپیٹیشن؟؟؟“ میں حیرت سے استفسار کرنے لگا۔۔۔۔


”وہ تو میں چھوڑ آٸی۔۔۔۔تمھارا روہانسہ چہرہ دیکھا تو پھر مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔۔اس لٸے تمھارے پیچھے چلی آٸی“یہ سن کر میں تو بس۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر ہزاروں جان فدا ہوگیا ۔۔۔۔۔کے وہ اپنا کمپیٹیشن چھوڑ کر آ گئی ۔۔۔۔۔صرف  میری خاطر۔۔۔۔۔


”تم صرف میرے لٸیے چھوڑ آٸیں ؟؟؟“ میں نے دوبارا پوچھا۔۔۔۔دل کے کانوں کو بھت اچھا لگ رہا تھا اس کی یہ بات سننا ۔۔۔۔۔کے وہ صرف میری خاطر اپنا کمپیٹیشن چھوڑ آئی۔۔۔۔


”ہاں۔۔۔۔“اس نے بڑے بھولے پن سے جواب دیا۔۔۔۔ایک تو قاتل حسینہ اتنی خوبصورت اوپر سہ اس کے چہرے کا یہ بھولا پن ۔۔۔۔ھاۓۓۓۓ۔۔۔۔۔۔لگ رہا تھا جان نیکال لے گی آج۔۔۔۔۔۔اس کے ہاں کہتے ہی دل تو چاھا زور سے بھاہوں میں جگڑ لوں ۔۔دو لمحے کے لٸے تو سب کچھ بھول کر بھاٸیں پھلادیں ۔۔۔۔۔وہ چونک کر ہلکا سہ پیچھے ہٹی اور بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے تکنے لگی۔۔۔۔۔ تو حواس بحال ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مجھے اگلے ہی لمحے تعجب بھری نگاہ سے گھور رہی تھی۔۔۔۔میں نے  فورا ہی اپنے جذبات پر قابو پایا۔۔۔۔۔اور امبیرس ہوکر اپنا سر کھوجانے لگا۔۔۔جس پر اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر آٸی۔۔۔۔۔۔


جاری_ہے😊

رائٹر : حُسنِ_کنول❤

ep_8

کہانی : میری_ماں_کی_خواہش_تھی_وہ_پگلی❤


”تم نے فبیحہ کو میرا نمبر دیا ہے ناں؟؟؟“میں جانتا تھا کے یہ کام والناس کا ہے ۔۔۔پھر بھی تصدیق کرنے لگا۔۔۔۔


”ہاں کہوں گی تو غصہ کرٶ گے؟؟؟“اس کا پوچھنے کا انداز ہی بتا رہا تھا کے وہ گھبرا رہی ہے مجھے بتانے میں۔۔۔


”یعنی تم نے ہی کیا ہے ۔۔۔۔راٸٹ ؟؟“میں نے ابرو اچکاکر تفتیشی انداز میں پوچھا تو وہ مزید ڈر گٸی۔۔۔اس نے میرے سامنے ہی رونا شروع کردیا۔۔۔۔۔


”ارے رونا کیوں اسٹارٹ کردیا؟؟؟۔۔۔میں تو صرف پوچھ رہا تھا۔۔“میں اس کے خوبصورت رخسار پر آنے والے آنسوں ۔۔۔۔اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوۓ گویا ہوا۔۔۔


”میں تو صرف ایک ماں کو اس کے بیٹے سے ملانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔اس بیچاری ماں کو۔۔۔۔جسے میں نے ہر وقت روتے ۔۔۔ بلکتے۔۔۔اپنے بیٹے کے لٸیے تڑپتے دیکھا ہے۔۔۔میں جانتی ہوں ۔۔۔۔ مجھے کوئی حق نہیں ہے تمہاری زندگی میں انٹر فیر کرنے کا۔۔۔۔۔پر جب اس ماں کو دیکھتی ہوں تو خود کو روک نہیں پاتی۔۔۔سوری“اس کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کے وہ فبیحہ کی کوٸی قریبی ہی ہے۔۔۔


”اچھا رونا تو بند کرٶ۔۔۔۔اس میں رونے والی کیا بات ہے“ ایک تو لڑکیوں کا سب سے بڑا ہتھیار رونا ہوتا ہے جہاں بات بیگڑتی نظر آئی۔۔۔ وہیں رونا شروع۔۔۔۔سچ بتاٶں جب میں اور لڑکیوں کو روتے دیکھتا تھا تو چڑھ جاتا۔۔۔یہ عادت مجھے میرے ابو سے ملی تھی ۔۔۔لیکن جب والناس روٸی تو میں نے جانا ایک لڑکی کے رونے میں اور ایک من پسند لڑکی کے رونے میں بھت فرق ہوتا ہے۔۔مرد کا دل پسیج جاتا ہے اپنی پسندیدہ عورت کی آنکھوں میں آنسو دیکھ۔۔۔۔ میں اسے چپ کرانے لگا۔۔۔وہ بھی بھت پیار سے۔۔۔۔یہ میری شخصیت کا پہلا بدلاؤ نہیں تھا ۔۔۔اِس جیسے ناجانے کتنے بدلاٶ لاچکی تھی والناس۔۔۔۔جن کا خود مجھے بھی احساس نہیں تھا۔۔۔”تم فبیحہ سے ملتی ہو؟؟؟۔۔۔۔ اور پلیز نارمل جواب دینا ایسا جواب نہ دینا کہ میرے سر سے گزر جائے۔۔۔“میں نے پہلے ہی ٹوک دیا تھا۔۔۔ہاں یار ۔۔۔یہ ہر بار کا ہے۔۔۔۔اوپر سے آتی ہے بلکل۔۔۔۔۔جواب دے بھی دیتی ہے سوال کا۔۔۔۔تو بھی پلے نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔ میں الٹا سلجھنے کے ۔۔۔۔۔مزید الجھ جاتا ہوں۔ ۔


اس کے چہرے پر یہ بات سنتے ہی ایک گھمبیر مسکراہٹ لبوں پر بکھر آٸی۔۔۔۔۔ایک لمحے کیلئے محسوس ہوا جیسے مانو میرا مذاق اڑا رہی ہو۔۔۔۔ میں اس کے چہرے کے تاثرات تعجب سے دیکھنے لگا۔۔۔جو یہ سوال سننے کے بعد مسلسل بدل رہے تھے۔۔۔۔ کافی دیر چہرے کے ایکسپریشن دٸیے اس نے مجھے ۔۔۔۔پھر کہنے لگی” کیا اپنی ماں سے ملنا چاہو گے؟؟؟“اس کا میرے سوال کے جواب میں سوال کرنا مجھے احساس دلا گیا کے فبیحہ کے متعلق آج جو میری آواز میں لچک ہے وہ اس نے محسوس کر لی ہے۔۔۔۔۔۔


”نہیں۔۔۔۔ابھی تو بلکل نہیں۔۔۔۔پہلے میں پورا ناول پڑھوں گا پھر اس بارے میں سوچوں گا “ اس کے سوال پر ۔۔۔۔میں تھوڑی دیر سوچ میں پڑ گیا تھا پھر میں نے ایک گہری سانس منہ سے خارج کی۔۔۔اور سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔۔


”تم ناول پڑھو گے تبھی تو وہ کمپلیٹ ہو سکے گا۔۔۔۔اس کا آخری حصہ ابھی تک نہیں لکھا گیا ہے۔۔۔۔“ والناس نے جب میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔۔۔تو اس وقت جو والناس کی آنکھوں میں پُرامیدی  تھی ۔۔۔وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔۔ جیسے اسے یقین ہو کہ میں ناول ضرور پڑھوں گا جبکہ ابھی تک میں نے اسے نہیں بتایا تھا کہ۔۔۔۔۔۔ یہ علم ہونے کے باوجود کے وہ میری ماں کا ناول ہے۔۔۔ میں پھر بھی وہ ناول ابھی تک پڑھ رہا ہوں۔۔۔


”ہمممم“ میں نے اس کی بات کا کوئی خاص جواب نہیں دیا۔۔۔”یہ چھوڑو ۔۔۔۔یہ بتاٶ وہ کیسی دیکھتی ہیں؟؟؟۔۔۔۔میں نے تو صرف انھیں شادی کی تصویروں میں ہی دیکھا ہے ۔۔۔۔کیا  اب بھی وہ اتنی ہی خوبصورت ہیں ؟؟؟“میرے سوالات شاید والناس کو بتا گٸے کے میرے دل کا جھکاٶ میری ماں کی طرف ہوچکا ہے۔۔۔۔میرے سوالات پر اس کی آنکھیں موتی برسانے لگیں۔۔۔۔ایسا لگا بولنا تو بھت کچھ چاہتی ہے پر بول نہیں پارہی۔۔۔۔ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگی۔۔۔۔”ظالم ۔۔۔۔ایسے سوالات نہ کرٶ ۔۔۔جن کے جوابات بھت مشکل ہیں۔۔۔۔تم اک بار ان سے مل لو۔۔۔۔پھر خودی دیکھ لینا ۔۔۔پھر خودی دیکھ لینا“وہ روہانسہ آواز میں ایک ہی جملے کو دو بار دھراتی ہوٸی گویا تھی۔۔۔۔کسی الفاظ یا جملے کی تکرار اس الفاظ یا جملے میں شدت پیدا کردیتی ہے۔۔۔۔۔وہی شدت والناس کے آخری جملے میں تھی۔۔۔۔میں ناسمجھی کیفیت میں اسے دیکھنے لگا۔۔۔


*****-------------********


میرا سیل کافی دیر سے رنگ ہورہا تھا۔۔۔میں نہاء کر نیکلا تو دیکھا رونگ نمبر سے کال آرہی تھی۔۔۔۔فبیحہ کا فون دیکھ ایک لمحے کے اندر اندر پوری فبیحہ کی زندگی جو میں نے ناول میں پڑھی وہ آنکھوں کے اگلے فلم کی طرح چلتی ہوٸی دیکھاٸی دے رہی تھی۔۔۔ناجانے کیوں ہاتھ کپکپا گٸے۔۔۔۔دل کی دنیا آج بدلی بدلی معلوم ہورہی تھی ۔۔۔آج جب میں نے کال ریسیو کی۔۔۔تو ”اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎“ کی آواز میرے کانوں کی سماعت سے ٹکراٸی۔۔۔۔وہ بھی والناس کی طرح کافی لمباء سلام کر رہی تھیں۔۔۔


ھاۓۓۓۓۓۓۓۓۓ۔۔۔۔وہ خوبصورت لمحہ۔۔۔۔۔۔میں بیان کرنے سے قاصر ہوں اس حسین لمحے کی خوشی۔۔۔ان کی آواز کی وہ میٹھاس جس کے لٸیے میرے کان ہمیشہ سے ترستے رہے۔۔۔۔میری پوری زندگی میں یہ پہلا سلام تھا جو میری ماں کی جانب سے مجھے ملا تھا۔۔۔۔آپ اس لمحے کی خوشی نہیں سمجھ سکتے ۔۔۔۔جو مجھ جیسا بن ماں کا پلا بچا محسوس کررہا تھا۔۔۔۔۔کاش میں اس حسین لمحے کو قید کرسکتا ۔۔۔۔میری آنکھوں سے اشک خود بہ خود جاری ہوگٸے۔۔۔۔زبان ۔۔۔۔وہ تو جیسے آج ساتھ ہی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔میں نے سیل پر ہاتھ رکھ کر پہلے خود کو سمبھالا ۔۔۔اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کی۔۔۔۔سچ کہتا ہوں ۔۔۔۔خود کو میں سمبھال نہیں پارہا تھا۔۔۔۔کتنا تڑپا ہے میرا دل۔۔۔۔میری ماں کی محبت و جداٸی میں۔۔۔۔یہ یا تو ۔۔۔۔۔میں جانتا ہوں یا میرا خدا۔۔۔۔


”وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎“پہلی بار میں نے بھی سلام کا اتنا بڑا جواب دیا تھا۔۔۔میری آواز بھری بھری تھی ان کے سلام اور دعاٶں کا جواب دیتے وقت۔۔۔


”جانتے ہو  وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ کا کیا مطلب ہے ؟؟؟“ایسا لگا وہ مسکراتے ہوۓ پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔


”اللہ کی آپ پر رحمت اور برکت ہو “میں نے جواب دیا تو ایسا لگا کے وہ حیران ہوٸیں ہوں۔۔۔


”جانتے ہو دعا ہے ۔۔۔پھر بھی مجھے دے رہے ہو؟؟؟“ان کی آواز میں شدید حیرت  محسوس ہورہی تھی مجھے۔۔۔۔شاید اس بات کی کے میں انھیں دعاٸیں دے رہا ہوں۔۔۔۔


”کیسی ہیں آپ ؟؟؟۔۔۔۔“بھت مشکل سے بس اتنا ہی سوال کرنے کی ہمت ہوٸی۔۔۔۔جس کے جواب میں مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونے کی آوازیں سناٸی دینے لگیں۔۔۔۔۔۔۔


ہم دونوں ماں بیٹے شاید ایک دوسرے کے لٸے بھت تڑپے ہیں۔۔۔۔اور مزۓ کی بات دیکھیں ہمیں تڑپانے والے کوٸی غیر نہیں تھے۔۔۔۔۔سب ہی خود کو اپنا کہلانے والے تھے۔۔۔۔جن میں سرفہرست میرے والد۔۔۔۔دادا ۔۔۔دادی۔۔۔۔سارے چاچا۔۔۔پھوپھوٸیں۔۔۔۔ماریہ ۔۔۔۔۔وانیہ۔۔۔اس کی بیٹیاں۔۔۔۔سب ہی اپنے ہی تو تھے۔۔۔ان میں پرایا کون تھا؟؟؟۔۔۔۔


سب نے مل کر میری اور میری ماں کی خوشیوں کو سانپ کی طرح ڈسا ہے۔۔۔۔۔۔


میں نے بڑی ہمت جمع کر کے فبیحہ کے لٸے (مما )کا لفظ ادا کیا۔۔۔یہ (مما) لفظ تو میں کبھی تنھاٸی میں بھی فبیحہ کو نہیں کہتا تھا۔۔۔۔جو آج منہ سے الفاظ بناکر ادا کرنے لگا تھا۔۔۔”مما ۔۔میں آپ کا ناول پڑھ رہا ہوں۔۔۔“جب میں نے یہ جملہ کہا تو یقین کریں اپنی آنکھیں مارے کرب کے بند کرلیں۔۔۔۔کیونکے میں نے اپنی پوری زندگی میں پہلی بار فبیحہ کو( مما )کہا تھا۔۔۔۔۔۔


”ایک بار پھر کہنا ۔۔۔جو تم نے ابھی کہا“انھوں نے بڑی  محبت و حسرت سے ۔۔۔ مجھے میرا جملہ دہرانے کے لیے کہا۔۔۔۔۔میں نے بھی اتنی ہی محبت سے جملہ دوبارا دوہرا دیا۔۔۔


ہماری زیادہ بات نہیں ہوسکی کیونکے دادی بولانے آگٸیں تھیں کھانا کھانے کے لٸیے۔۔۔۔اور میں نہیں چاھتا تھا کے کسی کو کانوں کان بھی خبر ہو کہ میں اپنی مما سے اب رابطہ میں ہوں۔۔۔۔میں ان ہی لوگوں میں پل بڑھ کر بڑا ہوا ہوں۔۔۔ان کی مکاریوں اور چالاکیوں سے بخوبی واقف ہوں۔۔۔۔۔اس لٸے میں اپنی مما سے رابطہ کو ابھی ظاہر نہیں کرنا چاھتا تھا۔۔۔


******--------********


رات میں اپنے کالج کا اسائنمنٹ کمپلیٹ کرنے کے بعد ناول پڑھنا اسٹارٹ کیا۔۔۔


ناول : میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی


راٸٹر  منتظرۓ فبیحہ


ذیشان : آج یہ نام پڑھتے ہی دل میں محبت کا جذبہ جوش مارا ۔۔۔اور میں اپنی ماں کے نام سے.... اپنے لب لگا کر چومنے لگا۔۔۔۔آنکھوں میں پھر آنسوں بھر آۓ تھے۔۔۔۔۔جنھیں صاف کر کے میں نے ناول پڑھنا شروع کیا۔۔۔

 

(مارنے کے بعد شایان نے مجھ سے اکیلے میں آکر معافی مانگی۔۔۔۔لیکن جس طرح وہ باتیں کررہے تھے وہ بھت عجیب تھیں۔۔۔۔۔اپنی آنکھیں بھی ایسے چڑھا چڑھا کر بات کررہے تھے جیسے جب جن والا ناٹک کرتے تھے۔۔۔۔تب کیا کرتے تھے۔۔۔۔فلحال میری زندگی میں سواۓ ناٹکوں اور غمگوں کے اور تھا کیا؟؟؟۔۔۔۔۔میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے منہ پر مارنے لگے۔۔۔کہنے لگے مجھے مارو تم بھی۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔اب یہ کون سہ نیا ناٹک اسٹارٹ ہورہا ہے۔۔۔۔۔شایان مجھ سے کہنے لگے ۔۔۔”اپنے والد کو فون کرٶ اور اپنے گھر جاٶ۔۔۔میری نظروں کے  سامنے سے کچھ دنوں کیلئے ہٹ جاٶ۔۔۔۔میں نہیں چاھتا میں دوبارا تم پر ہاتھ اٹھاٶں۔۔۔۔”۔۔۔ان کی بات سن میری تو روح کانپ گٸی تھی۔۔۔یہ سوچ کر ۔۔۔۔کے وہ مجھے پھر مرے گا اگر میں یہاں رکی رہی ۔۔۔۔میں نے انہی کے سیل سے اپنے والد کو فون ملا کر شایان کے کہے الفاظ جوں کے توں بیان کردٸیے۔۔۔۔تاکے وہ مجھے لینے آنے میں دیر نہ کریں۔۔۔۔۔مجھے دوبارا مار کھانے کے خیال سے بھی اپنی سانسیں مارے خوف کے رکتیں محسوس ہورہی تھیں۔۔۔۔۔


ڈیڈ اور میرے چھوٹے چاچا نے دوبارہ تصدیق کے لیے فون کیا کہ واقعی شایان نے یہی الفاظ کہیں ہیں۔۔۔۔وہ خود کہ رہا ہے۔۔۔تم اپنے میکے جاٶ۔۔۔میں نے پھر شایان سے تصدیق کی۔۔۔کیونکے مجھے ڈر تھا کے کہیں ذیشان کو مجھ سے نہ چھین لیں۔۔۔شایان نے پھر ہاں کہا۔۔۔۔۔میں نے اپنے ڈیڈ کو بتادیا۔۔۔۔کے وہ واقعی راضی ہیں۔۔۔۔انھوں نے خود کہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔


لیکن ایس ایکسپیکٹڈ۔۔۔وہ دوسرے دن میرے ڈیڈ اور چاچا کے سامنے مکر گٸے۔۔۔۔۔۔میرے سسر نے بھت براٸیاں کی میری۔۔۔۔وہ بھی میرے ہی ڈیڈ اور چاچا کے سامنے۔۔۔جبکے ایک دن پہلے ہی ان کا بیٹا مجھے مار کر چکا تھا۔۔۔۔میں نے ان جیسے جھوٹے اور بات سے پِھر جانے والے لوگ زندگی میں نہیں دیکھے۔۔۔۔میرے سسر نے صاف کہا۔۔۔۔وہ بھی بڑے اکڑ کر۔۔۔۔”اپنی بیٹی لے جاٶ۔۔۔۔۔ہمارا پوتا کہیں نہیں جاۓ گا“۔۔۔میرا ڈر سامنے آیا۔۔۔۔وہ فرعون نما انسان ایک ماں کو اس کے بچے سے جدا کرنے کی کہ رہا تھا۔۔۔۔میری جگہ کوٸی بھی ماں ہوتی اور اس کا چند ماں کا بچہ اس سے چھین کر کہا جاتا کے ۔۔۔۔چل اپنے باپ کے ساتھ چلی جا ۔۔۔اگر تجھے جانا ہے تو۔۔۔۔۔پر میرا بیٹا نہیں جاۓ گا۔۔۔۔۔تو میں پوچھنا چاہتی ہوں وہ کیا کرتی؟؟؟۔۔۔۔۔ظاہر سی بات ہے اک ماں کا دل رکھنے والی عورت کبھی بھی اپنے چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔۔۔۔۔تو پھر میں کیسے چلی جاتی۔۔۔۔


میرے ڈیڈ مجھ سے الگ سے میری ساس کے کمرے میں بات کرنے آۓ۔۔۔۔میں جب سے بیمار پڑی تھی۔۔۔۔وھیں رھا کرتی تھیں۔۔۔۔میری ساس نندوں او ر دیوروں نے بھت کوشش کی مجھے اس کمرے سے نیکالنے کی۔۔۔۔لیکن میں اپنے گھر چھت کے راستے سے جانے کے لٸے تیار نہیں تھی۔۔۔۔۔ماریہ چاچی کے جن صاف کہ گٸے تھے کے وہ میرے ذیشان کو ماردیں گے۔۔۔۔۔تب سے میں اپنے گھر ہی نہیں گٸی۔۔۔۔میں نے اپنی ساس سے ضد کرنا شروع کردیا تھا کے مجھے اپنے ہی گھر میں ایک کمرا دے دو۔۔۔۔اور میرا گھر بھلے ہی بیچ دو۔۔۔یا جو دل چاھے اس کے ساتھ کرٶ۔۔۔۔۔آپ خود بتاٸیں میں اُس خوبصورت  گھر کا کیا کروں گی ؟؟؟؟۔۔۔۔جو میرے بیٹے اور میری جان پر بن رہا تھا۔۔۔۔


پہلی بار میں اپنے ڈیڈ کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روٸی۔۔۔۔۔ اس وقت جو میرے ڈیڈ کی آنکھیں تھیں وہ آج بھی میری آنکھوں میں رہتی ہیں۔۔۔۔میرے ڈیڈ کی آنکھیں سرخ انگارے کی طرح لال تھیں۔۔۔۔۔اتنی لال کے مانو خون اتر آیا ہو۔۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا ابھی رو دیں گے۔۔۔۔۔خود کو ان کی جگہ رکھ کر سوچوں تو جتنا میں تڑپ رہی تھی اس سے کئی ہزار دوگنا میرے ڈیڈ تڑپ رہے تھے میری حالت دیکھ۔۔۔۔۔۔وہ بیچارے بھت مہینوں سے کوشش کررہے تھے مجھے یہاں سے نیکال کر واپس گھر لے جانے کی۔۔۔۔میرا روحانی علاج کروانے کی۔۔۔۔۔۔پر میری سسرال والے راضی ہی نہیں ہورہے تھے ۔۔۔۔انہیں اپنی جھوٹی شان جو عزیز تھی۔۔۔۔ اگر ان کی بیمار بہو کراچی پہنچ جاتی تو ان کا تو نام خراب ہو جاتا۔۔۔۔


ویسے یہ سچ ہے ۔۔۔۔ لوگوں نے اپنے بے جان ناموں کی خاطر ناجانے کتنے جاندار انسانوں کو تکلیف میں مبتلا کیا ہے۔۔۔۔


ہوا وہی۔۔۔۔۔۔۔۔جو میری سسرال والے چاھ رہے تھے۔۔۔میرے ڈیڈ اور چاچا اتنی دور سے آکر واپس خالی ہاتھ لوٹ گئے۔۔۔۔


میرے والدین میری حالت دیکھنے کے بعد خاموش نہیں بیٹھ سکے۔۔۔۔انھوں نے میرے ماموں جو پورے خاندان کے سب سے امیر آدمی ہیں۔۔۔ان سے بات کی۔۔۔۔۔۔۔انھیں بتایا کے میرے ساتھ کیا کیا معاملات چل رہے ہیں۔۔۔ پہلے تو انہیں یقین ہی نہیں آیا۔۔۔۔۔


 رمضان  شروع ہونے والے تھے۔۔۔۔مجھے مارنے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ذیشان کے ساتھ پورے رمضان کے لٸے گھر رھنے بھیج دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔


میرے گھر والوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ مجھے اس ڈیل  کے ساتھ بھیجا جا رہا ہے کہ رمضان کے بعد مجھے واپس آنا ہے۔۔۔۔۔۔ بغیر کوئی مسئلہ کھڑا کرے۔۔۔۔۔اور یہ ڈیل میرے سسر ۔۔۔۔۔۔ ماموں ۔۔۔۔۔۔اور ماموں کے دوست (جو میری ساس کے سب سے بڑے اور امیر بھاٸی ہیں)۔۔۔۔کے درمیان ہوٸی تھی۔۔۔۔۔جس کا خود ہمیں چاند رات کو علم ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔میں واپس نہیں جانا چاھتی تھی۔۔۔۔۔لیکن مجھے زبردستی واپس بھیج دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔کیونکے خاندان کے دو بڑوں نے اپنی زبان پر بھیجا تھا مجھے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔


عجیب بات ہے ناں۔۔۔۔ شادی کے بعد بیٹی کتنی پراٸی ہو جاتی ہے کہ اس کی زندگی کے فیصلے غیر کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور والدین کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔خاص طور پر غریب والدین کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ تم بتاؤ بیٹا تم کیا چاہتی ہو ؟؟؟۔۔۔۔۔میں نے کہ دیا۔۔۔۔۔میں صرف اپنا ذیشان چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔


لڑکا منتخب کرتے وقت کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا کے میں کیا چاھتی ہوں؟؟؟۔۔۔۔۔۔مجھے شایان پسند ہے بھی یا نہیں؟؟؟۔۔۔۔۔۔پر آج جب میری زندگی کا کوٸی پرسانِ حال نہ تھا۔۔۔۔۔تو مزے کی بات دیکھیں سب مجھ سے پوچھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹا تم بتاٶ ۔۔۔۔۔۔تم کیا چاہتی ہو؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔ پھر آگے فیصلے اسی کے حساب سے ہوں گے۔۔۔۔۔بھت شدت ِکرب میں ہونے کے باوجود یہ لائن ۔۔۔۔۔۔یہ جملہ ۔۔۔۔۔۔اللہ ۔۔۔۔۔۔۔جب کوئی ادا کرتا تو میرے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ خود بخود بکھر آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے جب میری زندگی سے ایک ننھی سی جان منسلک ہو گئ تب مجھ سے پوچھتے ہو۔۔۔۔ کہ میں کیا چاہتی ہوں؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔افففففففففففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا ظلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ میں حد کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ کی کی نظر میں ۔۔۔۔۔۔میں اتنی ہی سمجھدار تھی کہ اپنے فیصلے خود کر سکتی تھی تو پھر مجھ سے پہلے کیوں نہیں پوچھا گیا ؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔اور جب پہلے نہیں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر اب کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔تاکے سب بری الذمہ ہوجائیں۔۔۔۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔تاکے سب کہ سکیں جو کیا تم نے خود کیا ہے فبیحہ۔۔۔۔۔۔۔


لوگوں میں عادت ہوتی ہے خواہمخواہ مشورے  دیتے رہیں گے ہر بات پر لیکن جب واقعی ان سے کسی سیریس معاملے میں مشورہ مانگو تو ایسے ٹال مٹول سے کام لیں گے جسے ان معصوم لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ مشورہ دینا ہوتا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہی میرے ساتھ کیا۔۔۔۔۔۔میں نے سب سے مشورہ مانگا کے بتاٶ اب میں کیا کروں۔۔۔۔۔پر میں نے نہیں دیکھا کسی ایک نے بھی مجھے مخلص ہوکر مشورہ دیا ہو۔۔۔۔۔۔۔میں واپس چلی گٸی۔۔۔۔۔۔۔۔


اگر کوٸی بات بری لگی ۔۔۔۔تو معافی کی طالبہ۔۔۔۔پر کیا کروں دل جلی ہوں۔۔۔۔۔اور دل جلے ایسا ہی لکھا کرتے ہیں۔۔۔۔


جب میں واپس لوٹی تو میری ساس نے اپنی آنکھ  کا دو تین دن بعد ہی آپریشن کروا لیا۔۔۔۔میں اپنے روحانٕی علاج کرواکر بلکل صحیح لوٹی تھی۔۔۔۔۔پورا ایک مہینہ میرے ڈیڈ مجھے اچھے سے اچھے ڈاکڑ اور بابا کو دیکھاتے پھرے تھے۔۔۔۔مجھے ایک اللہ کے نیک بندے نے بتا دیا کے مجھ پر جادو کروایا گیا تھا۔۔۔۔۔اور اس جادو کا مقصد مجھے جان سے مارنا تھا۔۔۔۔جس کا اندازہ مجھے پہلے سے ہی تھا۔۔۔۔۔


مجھے بعد میں احساس ہوا کے اگر شایان مجھے نہ مارتے تو  میرے والدین کبھی کھڑے نہ ہوتے مجھے میری سسرال سے نیکالنے کے لٸے۔۔۔۔اور اگر مجھے وقت رھتے وہاں سے نہ نیکالا جاتا تو شاید میں آج زندہ بھی نہ ہوتی۔۔۔۔پلین ہی مجھے جادو سے مار دینے کا کیا گیا تھا۔۔۔۔۔پر کہتے ہیں ناں جسے خدا رکھے اسے کون چکے ۔۔۔۔۔میرے خدا نے چھوٹی آزماٸش میں ڈال کر مجھے بڑی بلا سے بچا لیا۔۔۔۔۔واقعی وہ ہھت رحمان ہے❤


دو مہنیے۔۔۔۔۔ میں بہت زیادہ لڑاٸی جھگڑو میں رہتی رہی۔۔۔۔اب تو یہ حال تھا کے میرے سسر بات بے بات مجھے ذلیل کرنے لگے ۔۔۔یہاں تک کے مجھے گالیاں بھی دینا شروع کردیں۔۔۔۔یہ گالیوں والی بات جب میرے ڈیڈ کو پتا چلی تو بھت افسردہ ہوۓ۔۔۔۔کے کن لوگوں میں مجھے بیا دیا۔۔۔۔۔میرے میکے میں بہو بیٹیوں کے سامنے گالیاں بکنا سختی سے منع تھا۔۔۔۔میں نے کبھی اپنے ڈیڈ۔۔۔یا بھاٸی ۔۔۔۔یا چاچا ۔۔۔یا بڑے ابو۔۔۔۔یا مامو۔۔۔۔کسی کو بھی گالی بکتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔اس لٸے مجھے بھت تذلیل محسوس ہوتی ۔۔۔۔جبکے میری ساس کے آنکھوں کے آپریشن کے بعد میں نے ہی پورا گھر سمبھال رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔پر پھر بھی قربان جاٶں ان آنکھوں والوں پر جنھیں میں کام کرتی نظر ہی نہیں آٸی۔۔۔۔۔کبھی سوچتی ہوں ۔۔۔۔۔کیا خوف نہیں آتا ان آنکھوں کے اندھو کو خدا سے؟؟؟؟۔۔۔۔۔جو جھوٹ بولتے ہیں کے انہوں نے مجھے کبھی کام کرتے نہیں دیکھا۔۔۔۔چلیں چھوڑیں ۔۔۔۔۔شکوۓ شکایت سے کیا ہونا ہے اب؟؟؟۔۔۔۔۔۔


 ایک دن مجھے کال آٸی میری امی کی طبعیت خراب ہے۔۔۔۔وہ مجھے یاد کررہی ہیں۔۔۔۔میرے سسر نے صاف کہا ۔۔۔۔تمہیں جانا ہے ۔۔۔۔تم جاٶ ۔۔۔۔۔ہمارا پوتا نہیں جاۓ گا۔۔۔۔۔ہر بار والا تکیہ کلام ۔۔۔۔پر اس بار میں بھت پریشان ہوگٸی ۔۔۔۔کے میری امی کو کچھ نہ ہوجاۓ۔۔۔۔میں نے کہ دیا میں جاٶں گی۔۔۔۔۔اس وقت یہی سوچا تھا کے واپس آجاٶں گی کچھ دنوں میں۔۔۔۔شایان نے بھت روکا۔۔۔۔۔پر آج بھی کوستی ہوں اس لمحے کو ۔۔۔۔کے میں نہ روکی۔۔۔۔ہاں ۔۔۔میں صاف کہتی ہوں میری غلطی ہے۔۔۔۔۔مجھے وہاں مر جانا چاہیۓ تھا مگر وہاں سے آنا  نہیں چاہٸے تھا۔۔۔۔۔

                                                  کیونکے معاشرہ نہیں سمجھتا کے ایک لڑکی پر کتنے ظلم ڈاھے جارہے ہیں۔۔۔۔وہ تو بس چاہتا ہے ۔۔لڑکی اپنے گھر میں بسی رھے۔۔۔۔۔چاھے ہر لمحہ مرتی ہو وہ وہاں۔۔۔۔۔۔کوٸی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔۔ایک سچویشن ہے۔۔۔۔جس میں اچھے اچھوں کو فرق پڑتا ہے ۔۔۔پتا ہے کون سی؟؟؟۔۔۔۔جب اپنی بیٹی پر بیتے۔۔۔۔۔۔۔۔


یقین مانیں مجھے لگا یہ لوگ صرف ڈرا رہے ہیں۔۔۔مجھے میرا ذیشان دے دیں گے۔۔۔۔۔مگر ان جیسے فرعون میں نے نہیں دیکھے۔۔۔۔۔انھوں نے واقعی میرے ذیشان کو روک لیا۔۔۔۔۔میں  گھر سے باہر روتی ہوٸی نیکلی۔۔۔۔۔میں نے باربار مانگا ۔۔۔مجھے میرا بیٹا دے دو۔۔۔۔پر ان فرعونوں کو مجھ پر یہ میرے چند ماہ کے بچے پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔۔اگر میری ماں کی طبعیت پیش نظر نہ ہوتی۔۔۔۔۔تو میں مر جاتی مگر اپنے ذیشان کو چھوڑ کر نہیں آتی۔۔میں روتی ہوٸی اپنے گھر پہنچ گٸی۔۔۔۔۔۔میری امی کی۔۔۔۔۔ ذیشان کو میرے ساتھ نہ دیکھ طبعیت مزید خراب ہوگٸی۔۔۔۔۔۔


 میرے گھر والوں نے مجھے روک لیا۔۔۔۔رات میں میرے سسر اور دو دیور خود آۓ ذیشان کو لے کر۔۔۔۔۔میرے گھر میں بھت تماشہ کر کے چلے گٸے۔۔۔۔۔


میرے گھر روکنے کے دوران ہی میرے نانا کا انتقال ہوا۔۔۔۔۔وہاں میری ساری کزنیں آٸیں ہوٸیں تھیں۔۔۔۔۔سب ہی ماشاءاللہ سے اپنے گھر میں خوش و آباد تھیں۔۔۔۔۔یہ وہیں کزنیں تھیں جو میرے مہنگے مہنگے تحفے دیکھ کر عش عش کیا کرتی تھیں میری قسمت پر۔۔۔۔۔۔۔آج سب مجھے بےچارگی والی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ان کی نگاہیں میرے وجود کو چبتی سی محسوس ہورہی تھیں۔۔۔۔۔وہاں والناس آٸی ہوٸی تھی۔۔۔۔۔اب آپ کہیں گے یہ والناس کون؟؟؟“)


ذیشان ” والناس ؟؟؟“میں نام پڑھتے ہی تعجب سے بولا 


جاری_ہے🙂

رائٹر : حُسنِ_کنول❤

ep_9

❤2nd Last❤

کہانی: میری_ماں_کی_خواہش_تھی_وہ_پگلی❤


(میرا ذیشان صرف ابھی ایک سال چھ مہینے کا تھا ۔۔۔۔میں اپنی کزن کے ساتھ بیٹھی ہوٸی تھی۔۔۔۔۔اس کی گود میں والناس کو دیکھ میں نے بےساختہ سبحان اللہ کہا۔۔۔وہ تھی ہی اتنی خوبصورت ۔۔۔۔گول مٹول سی۔۔۔اوپر سے اتنی پیاری مسکان تھی اس کے بھولے سے چہرے پر کے دل موڑ لے اپنی جانب۔۔۔۔۔میرے ذیشان کا نیچر کافی الگ تھا اور بچوں  سے۔۔۔۔وہ جب زیادہ لوگوں کو ایک ساتھ دیکھتا تو گھبرا جاتا۔۔۔وہ دوسرے بچوں کے ساتھ بلکل بھی گھلتا ملتا نہیں تھا۔۔۔۔بس میری گود میں چڑھا رہتا۔۔۔۔میں تو خود بھت ترسی تھی اپنے ذیشان کے لٸے ۔۔۔۔۔شاید یہی وجہ تھی کے میں بھی ذیشان کو لے کر بہت پُوزیسِوف ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔پر والناس میں کوٸی عجیب سی کشش تھی۔۔۔جو مجھے اور میرے بیٹے ۔۔۔۔۔۔دونوں کو بھت متاثر کر گٸی۔۔۔۔۔۔۔ذیشان نے میری گود سے پہلی بار خود اتر کر اس چھوٹی سی منی کا ننھا منھا سہ ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔اور میں نے خود دیکھا وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔۔بس اس لمحے میرے دل میں عارضو پیدا ہوٸی والناس کو اپنے ذیشان کی دولہن بنانے کی۔۔۔۔میرا ناول  پڑھ کر شاید آپ کے گمان میں بھی نہ آیا ہو کے میں بھت چلبلی سی ہوں۔۔۔۔۔ شادی سے پہلے میں بھت مزاقیہ ٹاٸپ لڑکی تھی۔۔۔۔ناول کا مقصد آپ کو اپنی شرارتیں سننا تو تھا نہیں ۔۔۔اس لٸے میں نے ان کا کہیں ذکر نہیں کیا۔۔۔۔۔


لیکن میرے ذیشان کا والناس کا ہاتھ پکڑ لینا۔۔۔۔۔اللہ ۔۔۔۔مجھے وہ پیارا سہ لمحہ آج بھی آنکھوں میں گھومتا ہوا دیکھاٸی دیتا ہے۔۔۔۔بس میں گھر آنے کے بعد ہر وقت مزاق میں کہتی۔۔۔۔”میں تو اپنے ذیشان کا رشتہ لے کر جارہی ہوں والناس کے گھر۔۔۔۔“یہ جملہ ۔۔۔۔۔میرا ہر وقت کا تکیہ کلام تھا۔۔۔۔۔مجھے دلی خوشی محسوس ہوتی تھی اس جملے کو ادا کر کے۔۔۔۔میں اکثر ذیشان سے کہتی۔۔۔”تم بس جلدی سے بڑے ہو جاٶ ۔۔۔۔والناس کو پٹانے کے سارے طریقے خود سیکھاٶں گی تمھیں۔۔۔۔۔۔۔۔“میری امی میری باتیں سن کر بھت ہستیں تھیں۔۔۔۔اور اچانک سے پھر مجھے دیکھ رونا شروع ہوجاتیں۔۔۔۔۔


جب میں اپنی سسرال میں تھی تو بھت مسٸلہ ہوتا تھا دہی لانے کا۔۔۔۔کوٸی دیور لاکر ہی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔اس وجہ سے کھانا پکنے میں بھی اکثر دیر ہوجاتی۔۔۔۔اب جب میں اپنے ذیشان کے ساتھ ہوتی تو اپنا سیل اس کے کان سے لگا کر مزاق میں توتلی زبان میں کہتی ”ہیلو۔۔۔۔۔ذیشان۔۔۔۔۔فبیحہ مما بات کررہی ہوں۔۔۔۔۔۔بریانی پکا رہی ہوں۔۔۔۔دہی لیتے آنا۔۔۔۔“پھر میں خود ذیشان کی زبانی اپنی ہی کہی بات کا منہ بسورتے ہوۓ جواب دیتی۔۔۔۔”بس سارے کام میں ہی کروں۔۔۔۔“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اففففففف۔۔۔۔۔میں اور میرے چھوٹے چھوٹے ارمان و خواہشات۔۔۔۔۔۔۔کتنے لکھوں ۔۔۔۔۔کتنے پڑھیں گے آپ ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔


میں اتنا زیادہ والناس اور ذیشان کی جوڑی بنانے لگی تھی۔۔۔۔کے میری امی نے والناس کی خالہ اور نانی کو بتا دیا۔۔۔کے فبیحہ ہر وقت والناس کو ذیشان کے لٸے مانگنے کی کہتی رہتی ہے۔۔۔۔۔وہ بھی یہ سن ہسنیں لگیں۔۔۔۔۔والناس کی عمر ابھی ٹھیک طرح ایک سال کی بھی نہ ہوٸی تھی۔۔۔۔اور میں دیوانی ۔۔۔۔اسے دل ہی دل اپنی بہو بنا چکی تھی۔۔۔۔۔۔میرا بس نہیں چلتا تھا کے جلدی سے بڑا کر کے شادی کرا دوں ان دونوں کی۔۔۔۔۔جبکے میری سسرال والے اتنے برے تھے۔۔۔۔کے مجھے ڈر تھا کے شاید والناس کے والدین کبھی بھی اس رشتے کے لٸے راضی نہ ہوں۔۔۔۔پر دل تو بچا ہے جی۔۔۔۔۔اب جب عارضو دل میں پیدا ہوگٸی تو ہوگٸی۔۔۔۔۔اسے ختم کرنا اب میرے بس میں نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔


میری سسرال والے اکثر آتے ذیشان سے ملنے۔۔۔اور ہنگامے اور تماشے کر کے جاتے۔۔۔۔لیکن ہمیشہ آتے ماریہ چاچی کے گھر تھے۔۔۔۔۔ہمارے گھر کبھی نہیں آۓ۔۔۔۔میرے والد کا صرف ایک مطالبہ تھا ۔۔۔۔کے مجھے الگ گھر دیا جاۓ۔۔۔وہ مجھے اس بھوت بنگلے میں نہیں بھیجیں گے واپس۔۔۔۔۔ارے ہاں۔۔۔میں آپ کو بتانا تو بھول گٸی۔۔۔۔میں نے اپنے گھر کا نام ”بھوت بنگلہ “ رکھا تھا۔۔۔۔جس کی وجہ سے میری ساس مجھ سے بھت چڑتی ۔۔۔۔اور کہتی ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔جبکے میں سچ کہتی ہوں۔۔۔۔جب میں اکیلی اس بھوت بنگلے میں ہوتی تو بھت سی عجیب عجیب چیزیں ہوتیں۔۔۔۔جیسے مجھے ایک بار کسی کے زور زور سے ہسنے کی آوازیں آٸیں ۔۔۔۔اور ایک بار تو کسی نے میرا گلا بھی دبایا تھا  خوابوں میں آکر۔۔۔۔۔۔وہ گھر پورے پورے دن اندھیرے میں رہتا تھا کیونکہ میں تو اپنی ساس کے گھر ہوتی تھی تو اگر وہاں دوسری مخلوقات آگئی تھیں تو اس میں کوئی عجب کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔مجھ سے پہلے وہ گھر وانیہ چاچی کا تھا۔۔۔۔یہ بات مجھے لوگوں سے بعد میں پتا چلی۔۔۔۔کے وانیہ چاچی وہاں مرتےمرتے بچی تھیں۔۔۔۔وہ خود اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کے لٸے اس گھر کو چھوڑ کر بھاگی تھیں۔۔۔۔جو بعد میں میرے سسر نے ان سے سستے داموں میں خرید کر مجھے دے دیا۔۔۔۔۔۔


فلحال ۔۔۔میرے سسر جب بھی آتے ۔۔۔میری براٸیاں کرتے۔۔۔۔آپ خود بتاٸیں جب آپ کسی سے صلح کرنے جائیں گے تو کیا آپ اس کی برائیاں کریں گے۔۔۔وہ بھی اسی کے خاندان میں بیٹھ کر۔۔۔۔میرا سسر مجھے لینے نہیں آتا تھا۔۔۔۔وہ تو صرف دنیا دیکھاوۓ کے لٸے آیا کرتے تھے۔۔۔۔۔ تاکہ لوگوں کو گمان ہو کہ وہ تو مجھے بار بار لینے آ رہے ہیں بس میں اور میرے گھر والے ہی اچھے نہیں جو ان کے ساتھ نہیں بھیج رہے۔۔۔۔۔۔جبکے یہاں آکر میرے والد کے منہ پر کہتے ۔۔۔”تمھاری فبیحہ ٹاپ کی کام چور ہے۔۔۔۔کوٸی کام نہیں کرتی ۔۔۔۔اور سے زبان چلاتی ہے۔۔۔۔۔۔"


بیٹیاں والدین پر بوجھ نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔۔اور یہ بات میرے ڈیڈ نے ہر بار ثابت کی۔۔۔۔۔۔میرے ڈیڈ نے کہا جب تم یہاں ایسی باتیں کر رہے ہو ۔۔۔۔گھر لے جاکر تو ناجانے کیا حال کرٶ گے اس کا۔۔۔۔۔۔میری بیٹی تمھارے ساتھ نہیں جاۓ گی۔۔۔۔۔میری بیٹی یا تو تب جاۓ گی۔۔۔۔۔۔جب خاندان کے بڑے بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔۔۔۔۔۔۔یا پھر الگ پر جاۓ گی۔۔۔۔۔۔۔


جس پر میرے سسر نے کہا کہ میں خود چوہدری ہوں ۔۔۔۔۔میں تو خود لوگوں کے فیصلے کرتا ہوں۔۔۔۔۔ میرے گھر کے فیصلے کوئی نہیں کرے گا ۔۔۔۔اگر اپنی بیٹی بھیجنا ہے تو بھیج ۔۔۔۔۔۔۔ورنہ میں جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔اس وقت میرے سسر کا غرور سر چڑھ بولتا تھا۔۔۔۔۔۔اتنے مغرور اور اکڑ کر میرے ڈیڈ سے بات کرتے ۔۔۔۔کے میرا دل خون کے آنسوں روتا یہ دیکھ کے۔۔۔۔۔۔۔میرا گھر بسانے کے لٸے میرے ڈیڈ اس فرعون نما آدمی سے کتنا ذلیل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔


ایک سال ہونے کو آرہا تھا۔۔۔۔۔بدھ والے دن ۔۔۔شام کے وقت میرے ہسبینڈ اور سسر ماریہ چاچی کے گھر آۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں پاگل اس دن جلدی سے تیار ہوگٸی۔۔۔۔۔میک۔اپ بھی کیا۔۔۔۔۔یہ سوچ کر کے پہلی بار شایان اور سسر دونوں ساتھ آٸیں ہیں۔۔۔۔۔۔تو ضرور ٹھیک طرح بات کر کے لے جانے ہی آٸیں ہوں گے۔۔۔۔۔ڈیڈ نے بھی امید باندھ لی تھی ۔۔۔۔۔وہ مارکیٹ جاکر ان کی مہمان نوازی کے لیے سامان لے آئے۔۔۔۔۔ہم انتظار کر رہے تھے ماریہ چاچی کے گھر سے ہمارے گھر آنے کا۔۔۔۔۔۔ہمارے گھر کافی قریب قریب ہی تھے۔۔۔۔۔۔اچانک ڈیڈ کو کال کر کے میرے سسر نے ماریہ چاچی کے گھر بلایا۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں ناں بیٹی کا باپ جھکتا ہے۔۔۔۔۔بس وہی ہورہا تھا۔۔۔۔میرے ڈیڈ چلے گٸے بات کرنے ۔۔۔۔۔


تھوڑے دیر بعد غصے میں واپس آۓ۔۔۔اور ذیشان کو لے جانے لگے۔۔۔۔میں خوف میں مبتلا ہوگٸی۔۔۔میں نے پوچھا کیا ہوا ؟؟؟۔۔۔۔ڈیڈ نے بتایا ۔۔۔تمھارا سسر کہ رہا ہے ۔۔تمھاری بیٹی ایک نمبر کی کام چور ہے ۔۔۔سارے کام میری بیوی اور بیٹی کرتی ہیں۔۔۔۔لیکن اب تمھاری مرضی ہے تم اپنی بیٹی کو بھیجنا چاہو تو بھیج دو۔۔۔۔ورنہ ہمیں ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔


جیسے ہی میں نے یہ سننا۔۔۔۔ کے لڑاٸی ہوٸی ہے وہاں۔۔۔میرا دل دھل گیا۔۔۔۔میرے دل کو محسوس ہوگیا کے یہ لوگ میرے ذیشان کو چھینے آۓ ہیں۔۔۔۔کیونکے ایک سال گزر چکا تھا۔۔۔انھوں نے مجھے ناجانے اس میں کتنی بار دوسری شادی یا طلاق کی دھمیکیاں دیں تھیں۔۔۔لیکن میرے ڈیڈ ان کی دھمکیوں سے ڈر کر اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے۔۔۔۔جس کے بعد میں سمجھ گٸی ۔۔۔یہ جائیداد کا وارث مجھ سے چھینے آ گئے ہیں۔۔۔میں نے کہا ڈیڈ سے مجھے ڈر ہے یہ ذیشان سے ملنے نہیں چھینے آۓ ہیں۔۔۔۔۔پر وہ سیدھے سادے آدمی۔۔۔۔۔کہاں سمجھ سکتے تھے میرے سسر کی چلاکی اور مکاریوں کو۔۔۔۔۔


میں نے ذیشان کو اپنے ہاتھوں سے تیار کیا۔۔۔لیکن صرف یہ گمان کر کے وہ صرف ملنے جارہا ہے۔۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اس کے ننھے سے چہرے پر پاٶڈر لگایا تھا۔۔۔۔بال بناۓ تھے۔۔۔ابھی دو ہی دن پہلے میں اس کا اتنا سارا سامان مارکیٹ سے خرید کر لاٸی تھی۔۔۔پر دل میں عجیب سہ خوف لاحق تھا۔۔۔۔میں نے ڈیڈ سے پھر کہا مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔ڈیڈ یہ کہ کر میرے گود سے لے گٸے ۔۔۔کے وہ صرف ملنے کے لٸے بلا رہے ہیں۔۔۔۔ھاۓۓۓ۔۔۔۔سد کروڑ ھاۓۓۓۓۓ۔۔۔۔۔۔اس لمحے کو۔۔۔۔۔اس وقت کو۔۔۔۔۔ان گھڑیوں کو۔۔۔۔۔۔۔یقین ماننیں میں دروازے کے پاس ہی کھڑی ہوگٸی۔۔۔۔میرا دل قابو میں نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔مجھے ایک عجیب سی بے چینی گہرے ہوئے تھی۔۔۔۔۔پھر آخرکار مجھے وہ خبر ملی۔۔۔۔جس کے ڈر سے میری روح تک کانپتی تھی۔۔۔۔میرے چھوٹے بھاٸی نے آکر بتایا کے وہ لوگ ڈیڈ سے لڑ کر۔۔۔۔۔۔۔ ذیشان کو چھین کر کار میں بیٹھا کر لے گٸے۔۔۔۔۔


وہ لمحہ ۔۔۔۔۔میری پوری زندگی کا سیاہ لمحہ ہے۔۔۔۔۔وہ انسان کے روپ میں فرعون آۓ تھے۔۔۔۔ایک ماں سے اس کا بچہ چھین کر لے گٸے۔۔۔۔۔میری روح ۔۔۔میری وجود کا حصہ ۔۔۔میری جان۔۔۔۔میری شرارتیں۔۔۔۔میرے ارمان۔۔۔۔میری عارضویں ۔۔۔۔میرے خواب۔۔۔۔میری زندگی جینے کی وجہ ۔۔۔۔میرا لختِ جگر چھین کر لے گٸے وہ۔۔۔۔۔


میں بھاگتی ہوٸی۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف دوپٹہ سے گھر سے نیکلنے لگی۔۔۔۔میری امی اور بھن نے زبردستی روکا مجھے۔۔۔۔وہ ظالم مردود لوگ کار میں تھے۔۔۔۔اب تک تو بھت دور نیکل چکے ہوں گے۔۔۔۔یہ کہ کر میری امی مجھے سمجھانے لگیں۔۔۔۔


میں بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی۔۔۔۔میرا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا۔۔۔۔۔وہ وقت میری آنکھوں میں گھومنے لگا ہے تحریر کرتے وقت۔۔۔۔ زخم اتنے تازی ہیں جیسے ابھی خون رسنے لگے گا۔۔۔۔سب سے پہلے پتا ہے میری بربادی کا تماشہ دیکھنے کون آیا ؟؟؟۔۔۔۔۔۔چلیں سوچیں۔۔۔۔۔

 

جی بلکل آپ کا اندازہ درست ہے ۔۔۔۔ماریہ چاچی۔۔۔۔۔اس دن کے بعد سے ان پر پھر کبھی بابا کی حاضری نہیں ہوٸی ۔۔۔۔ ضرورت ہی نہیں پڑی ہو گی کیونکہ جسے تباہ کرنا تھا وہ اپنے گھر میں پڑی تھی زندہ لاش کی مانند۔۔۔۔۔۔


ذیشان کے جانے کے بعد میں فقط ایک زندہ لاش تھی۔۔۔۔انھی دوران جب لوگ میرے گھر آرہے تھے تو زرش(والناس کی ماں) بھی آٸی اپنے شوہر اور والناس کے ساتھ۔۔۔۔بس والناس کا چہرہ دیکھنا تھا ۔۔۔۔میری سانسیں مارے غم و کرب کے روکنے لگیں۔۔۔زرش نے میری گود میں والناس کو پکڑا دیا۔۔۔۔والناس کوٸی عام بچی نہیں تھی میرے لٸے ۔۔۔۔۔۔وہ تو میرے ذیشان کی دولہن تھی۔۔۔۔میرا ارمان تھی۔۔۔۔اس وقت شدت سے مجھے اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوا۔۔۔۔یہ واحد وہ خواب تھا۔۔۔۔ جو ذیشان کے جانے کے باوجود میری آنکھوں میں موجود تھا۔۔۔۔۔۔میں نے ان گنت بار اس کے خوبصورت جہرے کو چوما یہ سوچ کر ۔۔۔۔کے یہ میرے ذیشان کی دولہن ہے۔۔۔۔


آپ گمان کر رہے ہوں گے ۔۔۔میں کوٸی پاگل ہوں۔۔۔۔۔پر نہیں۔۔۔۔۔ایسا ہر گز نہیں۔۔۔۔کیونکے میں نے اس خواب کے سہارے اپنی پوری زندگی جی ہے۔۔۔۔۔۔اگر یہ خواب میری آنکھوں میں نہ ہوتا۔۔۔تو مجھے نہیں لگتا کے میں کبھی بھی زندگی کی طرف لوٹ پاتی۔۔۔۔۔ جو آپ کی نظر میں بچگانہ پن یا پاگل پن ہے وہ میرے زندگی جینے کی وجہ ہے۔۔۔۔ تبھی میں کہتی ہوں کبھی بھی کسی کی زندگی کو اپنے نظریے کے مطابق جج نہ کریں۔۔۔۔آپ کیا جانیں وہ بیچارہ کن حالات سے گزر رہا ہے۔۔۔۔


ہم نے ذیشان کو واپس لینے کی بھت کوشش کی۔۔۔۔۔پر میرے سسر نے صاف کہا ۔۔۔۔۔ کورٹ چلے جاٶ۔۔۔۔ہم اپنا پوتا نہیں دینے والے۔۔۔میرے والد نے میری شادی کے لٸے جو قرضہ لیا تھا۔۔۔۔وہ بھی ابھی تک نہیں اتار سکے تھے۔۔۔۔کورٹ کیسے جاتے ہم غریب لوگ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ستم اعلی ستم قریبی رشتے داروں نے ڈھاۓ۔۔۔۔۔کوٸی ساتھ دینے کے لٸے کھڑا ہی نہیں ہوا۔۔۔۔۔لوگ ہمارے گھر بیٹھ کر تو براٸیاں کر جاتے میری سسرل والوں کی۔۔۔۔۔ لیکن ان کی زبانیں ہمارے گھر سے نیکلتے ہی میرے سسر کے حق میں بولنا شروع کردیتیں۔۔۔۔میرے سسر نے اب پورے خاندان میں یہ مشھور کردیا۔۔۔۔۔کے فبیحہ نے بچہ خود دیا ہے۔۔۔۔اور عقل کے اندھوں نے مان بھی لیا۔۔۔۔۔۔بھلا کون سی ماں اپنا بچہ خود جدا کرسکتی ہے ۔۔۔ کیسے اپنے لختِ جگر۔۔۔۔۔ اپنے وجود کے حصے کو خود سے جدا کر سکتی ہے؟؟؟۔۔۔۔لوگ کیسے یقین کرلیتے ہیں ایسی باتوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ابھی تک الجھی ہوں۔۔۔۔۔لوگوں نے کیسے یقین کرلیا ۔۔۔۔اس جھوٹ پر ؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔خاص طور پر خواتین نے۔۔۔۔کیا ان کے سینے میں ایک ماں کا دل نہیں ؟؟؟۔۔۔۔۔۔میں آپ سے کہتی ہوں ۔۔۔اگر آپ ایک ماں ہیں تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں ۔۔۔کیا آپ اپنی اولاد کو خود سے جدا کرسکتی ہیں؟؟؟۔۔۔۔۔۔


ایک دن میرے ہسبینڈ کو مجھ غموں کی ماری پر ترس آیا ۔۔۔اور انھوں نے ذیشان کی چلتے ہوۓ ویڈیو سینڈ کی۔۔۔۔وہ ویڈیو دیکھ میری خوشی کی انتہاء نہ رہی۔۔۔۔میرا ذیشان اپنے پاٶں پر چل رہا تھا۔۔۔۔میرا ذیشان کافی دیر سے چلا تھا۔۔۔۔جبکے اس کی عمر کے سارے بچے بھت پہلے ہی چلنا شروع ہوچکے تھے۔۔۔۔شاید میرے نصیب میں ہی نہیں تھا ۔۔اپنے ذیشان کو چلتے ہوۓ دیکھنا۔۔۔۔۔میں پھوٹ پھوٹ کر روٸی۔۔۔کے ذیشان کبھی میری انگلی پکڑ کر نہیں چلا۔۔۔۔۔ھاۓ۔۔۔۔۔کتنا ارمان تھا میرا۔۔۔۔کے ذیشان میری انگلی پکڑ کر چلے۔۔۔۔۔۔جو مار دیٸے ظالموں نے ۔۔۔۔۔میں اس وقت خوشی و غمی کی ملی جھلی کیفیت میں تھی۔۔۔۔میں نے ان گنت بار وہ ویڈیو دیکھی۔۔۔۔۔اور تڑپ تڑپ کر روئی۔۔۔


وقت گزر ہی گیا ۔۔۔۔۔مجھ سے لوگوں نے واپس پڑھاٸی کرنے کو کہا۔۔۔۔میں نے اپنی ایجوکیشن کمپلیٹ کی۔۔۔۔۔میں بلکل خاموش ہوگٸی تھی۔۔۔۔اکثر کوٸی مزاق کرتی ۔۔۔۔۔تو بجاۓ ہسنے کے رونا شروع کردیتی۔۔۔۔۔۔ذیشان میری آنکھوں میں رھتا تھا۔۔۔۔ہر لمحہ ۔۔۔ہر گھڑی۔۔۔۔میں نے اپنا غم کم کرنے کے لٸے لکھنا شروع کیا۔۔۔۔مجھے اپنے پہلے ہی ناول پر بھت اچھا ریویو ملا۔۔۔۔۔جس کے بعد میں نے ناول نگاری کی جانب توجہ دی۔۔۔۔۔


بھت سالوں بعد ۔۔۔۔۔


والناس ایک دن مجھ سے ملنے خود آٸی۔۔۔۔۔کہنے لگی میں نے ذیشان کی تصویر دیکھی ہے ایف۔بی پر۔۔۔۔۔بھت خوبصورت ہے وہ۔۔۔۔۔۔شایان اور میرے رشتےدار کافی ملے ہوۓ تھے۔۔۔۔اس لٸے مجھے ذیشان کے متعلق خبریں ملتی رہتیں تھیں۔۔۔۔۔جب وہ میرے متعلق کسی سے جلی کُکڑِی باتیں کرتا تو لوگ فورا مجھ تک پہنچا دیتے۔۔۔۔۔۔شاید اسے علم بھی نہیں ہوگا ۔۔۔۔میں ہروقت بس اس کی ایف۔بی پروفاٸل بدلنے کا انتظار کرتی تھی ۔۔۔کیونکے وہ اس میں اپنی نئی تصویر اپلوڈ کرتا تھا ۔۔۔۔۔


کچھ ماہ بعد مجھے زرش کی کال آٸی۔۔۔ اس نے بتایا کے والناس کو ذیشان کے متعلق سب پتا ہے۔۔۔میں الجھ گٸی کے کیا علم ہے اسے ذیشان کے متعلق؟؟؟۔۔۔۔


مجھے اس بات کی ذرا بھی خبر نہیں تھی کے جو سالوں پہلے میں مزاق کیا کرتی تھی۔۔۔۔وہ ایک لڑکی کا خواب بن گٸے تھے۔۔۔۔مانا ارمان میرا بھی تھا۔۔۔۔لیکن مجھ دل جلی نے صبر کرنا سیکھ لیا تھا۔۔۔۔میرے پاس ذیشان کہاں تھا جو میں والناس کو اپنی بہو بناتی۔۔۔۔


۔۔۔میری خالہ نے جب زرش کو والناس کے متعلق میری خواہش بتاٸی۔۔۔۔۔ تو قسمت کا کھیل دیکھیں والناس نے بھی سن لیا تھا۔۔۔۔اور اس کے ننھے سے دل نے اس خواہش کو اپنی خواہش بنا لیا۔۔۔


اب جب والناس کا رشتہ آیا ہے تو وہ راضی نہیں ہورہی ۔۔۔۔۔کہ رہی ہے ۔۔۔۔میں ذیشان سے ہی کروں گی۔۔۔۔زرش چاہتی تھی کے میں اسے سمجھاٶں ۔۔۔کے وہ اپنی ضد اور ذیشان کے آنے کی امید چھوڑ دے۔۔۔


میں نے زرش سے تو کچھ نہ کہا۔۔۔۔۔لیکن میں والناس کو وہ بات کیسے سمجھا سکتی تھی۔۔۔۔جو میں نے کبھی خود نہیں مانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو  خود اسی امید پر زندہ ہوں۔۔۔۔کے ایک دن وہ سب سے لڑ کر مجھ سے ملنے واپس آۓ گا۔۔۔۔۔کہے گا ”مما ۔۔۔۔میں جانتا ہوں ۔۔۔آپ بے قصور ہو ۔۔۔۔آپ نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔۔۔“بس یہ سننے کے لٸے آج تک بڑے بھرم سے تنھاء جیتی ہوں۔۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں ۔۔۔۔جھوٹی امیدں پر جینا چھوڑ دو فبیحہ ۔۔۔۔۔پر وہ فبیحہ ہی کہاں؟؟؟۔۔۔۔۔جو کسی کی سن لے۔۔۔۔۔


والناس ایک دن میرے پاس آکر بھت رونے لگی۔۔۔۔کہنے لگی۔۔۔۔۔دل و جان فدا ہے ذیشان پر۔۔۔۔۔۔۔۔عجیب پگلی تھی۔۔۔۔میرے سینے سے لگ کر رونے لگی۔۔۔۔۔کہنے لگی مجھے نہیں پتا خالہ جان۔۔۔۔بس مجھے ذیشان لاکر دیں۔۔ میں تو کسی اور کا تصور کرنا بھی خود پر حرام سمجھتی ہوں۔۔۔والناس صرف ذیشان کی ہے۔۔۔۔۔بچپن سے سنا ہے میں نے کے میں فبیحہ کی خواہش ہوں۔۔۔۔۔۔آپ کیسے اپنی خواہش کو یوں خود سے جدا کرسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔میں نے ہمیشہ اسے ایس آ لاٸف پارٹنر دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں پہنوں گی کسی اور کے نام کی انگوٹھی۔۔۔۔ 


میں کہاں سے لاکر دوں اس پگلی کو ذیشان۔۔۔۔۔واقعی پاگل ہے وہ ۔۔۔۔۔چھلی سی۔۔۔۔دل کی اتنی صاف ہے کے جو دل میں ہے وہی زبان پر۔۔۔۔۔۔۔۔


پر اسکا ننھا سہ دل اور اس کی بندھی ہوٸی امید میں نہیں توڑنا چاہتی تھی۔۔۔۔پر مسٸلہ یہ تھا کے میں تو خود ذیشان سے بھت دور ہوں۔۔۔۔پھر اپنی اس خواہش کے متعلق اسے کیسے آگاہ کروں۔۔۔۔کیسے بتاٶں۔۔۔۔ایک لڑکی ہے ۔۔۔۔پگلی سی۔۔۔۔جو میری خواہش کو اپنی زندگی مان کربیٹھ گٸی ہے۔۔۔۔۔


اسی مقصد کے پیشِ نظر میں نے ناول لکھا ۔۔۔۔ میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی۔۔۔۔۔


کیونکے یہ واحد راستہ ہے اپنی ہر بات اس تک پہنچانے کا۔۔۔۔۔اور بتانے کا ۔۔۔کے دو لوگ اس کا بےصبری سے انتظار کررہے ہیں۔۔۔۔۔ اپنی پلکیں بچھائے۔۔۔۔۔اور اس امید پر جیتے ہیں کے وہ ضرور آۓ گا۔۔۔۔


پر کبھی سوچتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس کا کیا ردعمل ہوگا میری خواہش جانے کے بعد؟؟؟۔۔۔۔۔۔کیا وہ والناس کو اپناۓ گا ؟؟؟۔۔۔۔۔۔کیا وہ مجھے معاف کردے گا؟؟؟۔۔۔۔۔۔کیا ہوگا آگے ہماری زندگی میں ؟؟؟۔۔۔۔۔یہ جاننے کے لٸے پڑھتے رہیں ۔۔۔۔۔۔ ناول میری ماں کی خواہش تھی وہ پگلی


 شکریہ۔۔۔۔۔)ناول کا دوسرا حصہ جو اب تک شائع ہوا تھا ۔۔۔۔


جاری_ہے

رائٹر : حُسنِ_کنول❤

ep_10

❤LasT___Episode❤

کہانی : میری_ماں_کی_خواہش_تھی_وہ_پگلی❤


فبیحہ کا لکھا ناول ختم ہوا تو میں پہلے تو اپنی ماں کے ساتھ ہونے والے ظلموں پر آج تڑپ تڑپ کر رویا ۔۔۔۔جیسا میری ماں نے لکھنا ہے ناول مںں جابجا ۔۔۔۔۔کے وہ تڑپ کر روٸیں۔۔۔۔۔آج سمجھ آرہا تھا کے کیوں والناس برا نہیں مان رہی تھی ہماری پہلی ملاقات پر۔۔۔۔کیوں وہ بس مسکراۓ جارہی تھی۔۔۔۔اب مجھے راستہ چنا تھا۔۔۔۔کے آگے کرنا کیا ہے۔۔۔۔فجر کی آذان کی آواز میرے کانوں کی سماعت سے ٹکراٸی۔۔۔۔اپنے آنسوں صاف کر کے فجر کی نماز ادا کرنے گیا۔۔۔جب نماز میں سجدے میں جھکا تو میری آنکھیں اشک بار ہوگٸیں۔۔۔۔خیال آیا وہ انتظار کررہی ہیں میرا۔۔۔۔مجھے ان سے ملنا چاہٸے۔۔۔۔۔شاید یہ ان کی تڑپ ہی تھی جو مجھے خوابوں میں نظر آیا کرتی تھی۔۔۔۔


نماز ادا کر کے دادا کے پاس آیا۔۔۔۔۔آج ان کا چہرہ مجھے میری ماں کے ساتھ کیٸے ظلم یاد دلا رہا تھا۔۔۔میرا تو دل بھی نہیں چاہ ریا تھا ان سے بات کرنے کا۔۔۔یا انہیں اپنا دادا کہنے کا۔۔۔۔پر مجبور تھا۔۔۔۔انہیں بتانے پر کے میں کراچی جارہا ہوں ابو کو اطلاع دے دیں ۔۔۔۔


مجھے کراچی آنے کے بعد یہ نہیں پتا تھا کے جانا کہاں ہے۔۔۔۔میں تو کبھی اپنے ننھیال آیا ہی نہیں۔۔۔میں نے والناس کو فون لگایا۔۔


”اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎“اس کا ہر بار کی طرح سے لمباء سہ سلام۔۔۔۔

”وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎“میں نے بھی لمباء سہ جواب دے ڈالا۔۔۔۔”مجھے مما کے گھر کا ایڈریس دو ۔۔“بس میرا اتنا کہنا تھا ۔۔۔وہ خوشی سے اوچھل پڑی۔۔۔۔مجھے اس کی آواز میں خوشی کی خھنک  محسوس ہورہی تھی۔۔۔


”کہاں ہو تم اس وقت ؟؟؟۔۔۔مجھے بتاٶ ۔۔۔میں بھاٸی کے ساتھ تمھیں لینے آتی ہوں “میں نے اپنی لوکیشن اسے بیان کر دی۔۔۔


”تم وہیں روکو۔۔۔میں بس ابھی آتی ہوں ۔۔۔ہم مل کر چلیں گے خالہ جان کے پاس “اس کی آواز خوشی و مسرت سے اس قدر بھری ہوٸی تھی۔۔۔کے میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھر آٸی۔۔۔شاید میری زبان سے ادا ہوا لفظ (مما) اسے یہ بتانے کے لٸے کافی تھا کے میں ۔۔۔۔مکمل ناول کے دو حصے  پڑھ کر آیا ہوں۔۔۔


وہ آٸی تو مجھے اتنی محبت سے لبریز نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔کے ان نظروں کا میرے پاس الفاظوں میں بیاں نہیں۔۔۔۔وہ واقعی پگلی ہے ۔۔۔۔۔کوٸی کیسے صرف کسی کے ارمان کو سن کر اپنی زندگی کی خواہش بنا سکتا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔میں تو یہ سمجھنے سے ابھی بھی قاصر ہوں۔۔۔پر شاید ناول  میں ٹھیک لکھا مما نے۔۔۔۔پاگل ہے بلکل۔۔۔۔۔آج اس کی آنکھوں میں عجیب سی کشش تھی جو مجھے دیوانا کر رہی تھی۔۔باربار کار میں پیچھے پلٹ کر مجھے دیکھتی۔۔۔۔جیسے بے یقینی سی کیفیت میں ہو ابھی تک۔۔۔۔میں بھی جوابًا مسکرا دیتا۔۔۔۔۔


دل میں ایک عجیب سی بے چینی بڑھ رہی تھی۔۔۔مجھے اپنے ہاتھ پاٶں ٹھنڈے ہوتے محسوس ہورہے تھے۔۔۔۔سچ کہوں تو تصور میں بھی چھبی نہیں آرہی تھی کے کیسے ملوں گا ان سے؟؟؟۔۔۔کیا کہوں گا ان سے ؟؟؟۔۔۔۔وہ مجھے دیکھ۔۔۔۔ کیا ری۔ایکشن دیں گی؟؟؟۔۔۔۔کیا میرا یوں اچانک سے ملنے آنا درست ہے ؟؟؟۔۔۔اور ناجانے کتنے سوال بیک وقت ذہن میں گھوم رہے تھے۔۔۔۔ویسےعجیب ہے ناں۔۔۔۔ اتنا نروس میں اپنی ہی ماں سے ملنے کے لٸے ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔میری یہ کیفیت وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے اپنی ماں کی جداٸی کا غم سہا ہو۔۔۔۔۔جنھیں ہر لمحہ ان کی یاد آتی ہو۔۔۔لیکن مجبوریاں پاؤں میں زنجیر باندھے ہوئے ہوں۔۔۔


 سفر ناجانے لمباء تھا؟؟؟۔۔۔۔۔۔ یا۔۔۔۔ مجھے گمان ہورہا تھا۔؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں جانتا ۔۔۔جانتا ہوں تو فقط اتنا کے ہر گزرتا لمحہ مجھے میری  بچھڑی ہوئی ماں کے قریب لے جارہا تھا۔۔۔۔کار جب رکی تو مجھے ایسا گمان ہوا۔ ۔۔کے سانسیں بھی رک نہ جاٸیں۔۔۔انھیں دیکھتے ہی۔۔۔


ذہن میں بہت ساری باتیں یک دم چلنیں لگیں۔۔۔۔۔دل میں آیا پہلے بھت سارے شکوۓ کروں گا۔۔۔۔ان سے ناراض ہوں گا۔۔۔۔کے مجھے یہ سب بتانے کی پہلے کوشش کیوں نہیں کی؟؟؟۔۔۔۔پھر خیال آیا نہیں پہلے انھیں بتاٶں گا کے میں کتنا ترسا ہوں ان کی محبت و شفقت کے لٸے۔۔۔۔انھیں بتاٶں گا ۔۔۔۔میں نے بھی بھت شدت سے آپ سے ملنے کا انتظار کیا ہے۔۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ہوتی ہیں جو بظاہر تو نظر نہیں آتیں لیکن وہ ہمارے پاؤں۔۔۔۔ ہمارے وجود۔۔۔۔ ہماری سوچ سب کو جکڑے ہوتی ہیں۔۔۔۔لیکن  میں یعنی ذیشان ان بیڑیوں کو توڑ کر بغیر کسی کی پرواہ کٸے اپنی ماں سے ملنے چلا آیا۔۔۔۔۔


دروازہ کھولا تو والناس نے مجھ سے دبی آواز میں کہا ۔۔۔بس خاموش رھنا ۔۔۔پہلے وہ اور رضا اندر گٸے۔۔۔ ہاتھ پاٶں کپکپاتے محسوس ہورہے تھے مجھے۔۔۔۔سب سے پہلے میری نانی آٸیں۔۔۔۔میرے گھر میں داخل ہوتے ہی۔۔۔۔وہ بڑی محبت سے میرے سینے سے لگیں۔۔۔۔۔پھر خالہ آٸیں ۔۔۔وہ لگیں۔۔۔۔۔سب ایک ایک کر کے مجھے ایسے دیکھنے آ رہے تھے جیسے میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہوں۔۔۔۔۔سب خود مجھ سے گلے لگے۔۔۔میں تھوڑا عجیب سہ محسوس کررہا تھا۔۔۔۔میں نے اِن لوگوں کے کبھی چہرے دیکھنا بھی گوارا نہیں کٸے تھے۔۔۔۔۔جن کی آنکھیں میرے لٸے آنسوں بھا رہی تھیں۔۔۔۔


”چلو۔۔۔۔انہیں سرپرائز دیتے ہیں“ والناس واپس آٸی تھی مجھے لینے۔۔۔۔بتانے لگی وہ سو کر ابھی ابھی اٹھی ہیں ۔۔۔ وہ بھی یہ کہنے پر کہ کوئی آیا ہے جس سے والناس انہیں ملانا چاہتی ہے۔۔۔۔والناس نے مارے خوشی و ایکسائٹمنٹ کے میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔پر اس لمحے مجھے واقعی اس کے ساتھ کی ضرورت تھی۔۔۔۔میں نے اپنا تھوک نیگلا تھا۔۔۔وہ تو تیزی سے ہاتھ پکڑ کر مجھے مما کے کمرے کے دروازے تک لے آٸی۔۔۔۔


”کون ہے والناس؟؟۔۔۔۔کس کو ملانے لاٸی ہو؟؟““مما کی اندر سے آواز آ رہی تھی۔۔۔۔ان کی آواز شہد کی طرح میٹھی لگی میرے کانوں کو۔۔۔۔


”جاٶ“والناس نے دبی آواز میں مجھ سے کہا۔۔۔ سچ میں۔۔۔۔میں بھت نروس تھا۔۔۔۔اس کے کہتے ہی میں ۔۔۔۔کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔وہ دروازے کی جانب ہی منہ کر کے کھڑی تھیں۔۔۔جب پہلی نظر ان پر میری پڑی تو واللہ سانسیں تھم گٸیں۔۔۔۔وہ بھت خوبصورت ۔۔۔۔ نازک سی گڑیا کی مانند  تھیں۔۔۔۔لاٸٹ گرین رنگ کے قمیض شلوار میں ملبوس ۔۔۔بال فل کیچر تھے۔۔۔مجھے تو پتا ہی نہیں تھا وہ چشمہ بھی لگاتی ہیں۔۔۔۔اتنی پیاری سی تھی میری مما ۔۔۔کے ھاۓۓۓۓ ۔۔۔۔میرا دل۔۔۔۔۔۔۔


اتنی باتیں سوچیں تھیں ۔۔۔کے یہ کہوں گا۔۔۔۔وہ بولوں گا۔۔۔فلاں شکوہ کروں گا۔۔۔۔پر جب وہ سامنے آٸیں ۔۔۔مانو میری  زبان پر قفل لگ گیا ہو۔۔۔۔ساتھ ہی نہیں دے رہی تھی کمبخت۔۔۔۔۔سواۓ ان کے سینے سے لگنے کے ذھن کو اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔۔۔۔وہ تو مانو مجھے دیکھتے ہی سکتے میں چلیں گٸیں ہوں۔۔۔صرف آنکھیں بول رہی تھیں ان کی۔۔۔ان کے آنسوں کا ہر قطرہ ان پر ہوۓ ظلم کی داستان خود بتا  رہا تھا۔۔۔۔یہ لمحہ لکھتے وقت مجھے لگتا ہے ۔۔۔وہ واپس جی رہا ہوں میں۔۔۔۔اتنا خوبصورت کے باربار جینے کا دل کرتا ہے۔۔۔۔


میں بس ان کے گلے لگ گیا۔۔۔۔۔۔بس گلے لگ گیا۔۔۔۔دل چاھتا ہے یہ جملہ باربار لکھوں ۔۔۔تاکے جو جملے میں شدت ہے وہ آپ تک پہنچے۔۔۔۔۔ھاۓۓۓۓ ۔۔وہ خوش نصیب وقت آنپہنچا تھا۔۔۔۔جب میں اپنی ماں کے حصار میں تھا۔۔۔۔جو سوز و گداز ۔۔۔جو کرب انہوں نے میری جداٸی میں سہا تھا۔۔۔۔اس کا انعام فقط وہ جملہ نہیں ہوسکتا تھا جو میں ادا کرنے والا تھا۔۔۔۔لیکن میں نے بار بار ان کے ناول میں پڑھا تھا کہ وہ اس جملے کی منتظر ہیں ۔۔۔۔اس لٸے ادا کٸے بغیر نہ رہ سکا ”مما آپ غلط نہیں تھیں۔۔۔۔مما آپ بے قصور ہیں۔۔۔مما میں آپ کی خواہش پوری کرنے آیا ہوں۔۔۔۔“یہ سن وہ اس قدر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔۔۔۔کے اب میرے پاس الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوگیا۔۔۔ان کی اس لمحے کی خوشی و غم کی ملی جھلی کیفیت بیان کرنے کے لٸے۔۔۔۔لوگ اکثر یہ والی مثال دیتے ہیں۔۔۔کے ہرن کا بچھڑا ہوا بچہ اسے مل گیا ہو۔۔۔۔لیکن یہ مثال میرے نزدیک میری ماں کے جذبات بیان کرنے کے لٸے ناکافی معلوم ہورہی ہے ۔۔۔۔۔کافی دیر تک ہم ماں بیٹے روتے رہے۔۔۔۔یہ دل بڑا ترسہ تھا اپنی ماں کے سینے سے لگنے کے لٸے۔۔۔۔شاید اس لٸے قرار  ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔۔والناس آکر روتے ہوۓ کہنے لگی ”کیا میں بھی آپ کی روتو ٹیم میں شامل ہوسکتی ہوں۔۔۔۔قسم سے۔۔۔مجھے بھی بھت زور سے رونے کا دل چاھ رہا ہے“اس کے کہتے ہی میں اپنی ماں کے سینے سے ہٹ کر ”اس پگلی کو ہی آپ نے اپنی خواہش بنانا تھا؟؟؟“میں نے اسے چھیڑنے کے لٸے منہ بسور کہا تو وہ جوابًا ”دیکھ رہی ہیں خالہ جان یہ کیا کہ رہا ہے۔۔۔۔میں بتا دوں مسٹر  ذیشان ۔۔۔۔شادی تو آپ کو اس پگلی سے ہی کرنی پڑے گی“اس نے ذرا اکڑ کر جواب دیا تھا۔۔۔اپنے آنسوں صاف کرتے ہوۓ تو مما کے چہرے پر بھی پیاری سی تبسم بکھر آٸی۔۔۔


اگلے ہی لمحے اکٹر چھوڑ  ۔۔۔۔۔رونا شروع کر"خالہ جان “کہتے  ہوۓ مما کے سینے سے لگی۔۔۔اس پگلی کو نجانے کیوں یہ گمان ہوا کہ میں اسے پسند نہیں کرتا ۔۔۔جبکے میں نے شرارت سے اپنی مما کو آنکھ ماری تھی۔۔۔۔جس کے جواب میں وہ بھی مسکرا دیں۔۔۔۔۔


یقین کریں مما کا مسکراتا چہرہ دیکھ شدت سے خیال آیا ۔۔۔کیسے ؟؟؟۔۔۔۔کیسے اتنے خوبصورت رخسار پر میرے ظالم باپ نے تماچے مارے؟؟۔۔۔۔۔ان کا ہاتھ نہیں کانپا؟؟؟۔۔۔۔۔۔انہیں شرم نہیں آٸی؟؟؟۔۔۔۔۔کیسے انہوں نے اتنی خوبصورت لڑکی کو کبھی پسند ہی نہیں کیا؟؟؟۔۔۔۔۔شاید زبردستی کی شادی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔خاص طور پر لڑکے کی۔۔۔۔۔ابو نے میری پاکیزہ و حیادار ۔۔۔ با کردار  ماں کی قدر کی ہی نہیں۔۔۔۔۔بن چاھے جو مل گٸیں تھیں انہیں۔۔۔۔


******-------**********

ایک کہانی اور تھی جس سے ابھی تک میں بھی بےخبر تھا۔۔۔۔ چلیں جلدی سے بتا دیتا ہوں زیادہ سنسنی نہیں پھیلاتا۔۔۔


ایک دن اچانک مجھے یونی میں کال آٸی ان نون نمبر سے۔۔۔میں لیکچر لے رہا تھا ۔۔۔اس لٸے سیل سائلینٹ پر تھا۔۔۔۔کلاس اف کے بعد جب میں نے اسی نمبر پر کال بیک کی۔۔۔تو ایک لڑکے کی آواز میری کانوں کی سماعت سے ٹکراٸی۔۔۔وہ مجھ سے ملنا چاھتا تھا۔۔۔۔کہنے لگا کے جب بھی اپنی ماں سے ملنے کراچی آٶ مجھے بتا دینا۔۔۔۔ہم ملنے کی جگہ اور ٹاٸم ڈیسائڈ کر لیں گے۔۔۔۔کوٸی ضروری بات کرنا چاھتا ہے ۔۔۔میری مما کے متعلق۔۔۔۔مجھے بھت اشتیاق ہوا کے آخر یہ ملک علی کندی ہے کون؟؟؟۔۔۔اور کیوں ملنا چاھتا ہے یہ مجھ سے۔۔۔۔


جب میری ملاقات ملک علی کندی سے ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کے وہ میری مما سے شادی کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔۔۔ملک علی دیکھنے میں تو کافی خوبرو نوجوان تھا۔۔۔جھوٹ نہیں کہوں گا۔۔۔اس وقت تو بھت غصہ آیا۔۔۔دل چاہا سالے کا سر پھورٹ دوں۔۔۔لیکن اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوۓ ۔۔۔۔۔اور اچھے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہونے کا لحاظ رکھ کر ۔”آپ جانتے نہیں ہیں کیا ؟؟۔۔۔وہ ایک شادی شدہ عورت ہیں ۔۔۔اور آپ اس وقت اسی کے بیٹے سے بات کر رہے ہیں"۔۔۔۔ میں دانت پیستے ہوئے بولا ۔۔۔میری بات سنتے ہی اس کے چہرے پر ایک پُر اسرار مسکراہٹ بکھر آئی۔۔۔۔۔


”تم بیٹے ہو تبھی تو تمھارے پاس آیا ہوں اپنا پرپوزل لے کر۔۔۔اور رہی بات شادی شدہ ہونے کی ۔۔۔۔تو وہ بیچاری تو زندہ لاش ہے۔۔۔۔وہ کسی کی بیوی کیسے ہوسکتی ہے؟؟؟۔۔۔۔سوری ٹو سے ۔۔۔۔ بٹ۔۔۔۔تمھارے باپ نے اس بیچاری کو دیا کیا ہے نکاح کے بعد۔۔۔سواۓ دوکھ ۔۔تکلیفیں ۔۔۔۔غموں اور تنھاٸی کے۔۔۔جن تنہائیوں کو ختم کرنے کے لیے وہ ناول کا سہارا لیتی ہے۔۔۔۔۔تمھیں نہیں لگتا اس با کردار لڑکی کا بھی اتنا ہی حق ہے زندگی پر جتنا تمھارا اور میرا ہے۔۔۔۔کیوں صرف اسے اپنی ماں ہونے کی سزا دے رہے ہو۔۔۔۔تمھاری محبت میں ۔۔۔۔وہ مظلوم تو تنھاء رہ گٸی ۔۔۔یہ نظر نہیں آتا تمھیں۔۔۔۔میں صرف اتنا جانتا ہوں ۔۔۔میں فبیحہ کو پسند کرتا ہوں۔۔۔۔میں اس کا ریڈر بھی ہوں اور سپورٹر بھی۔۔۔۔میں خود بھی ایک راٸٹر ہوں۔۔۔۔مجھے فبیحہ میں انٹرس اس کے ناول پڑھ پڑھ کر ہوا۔۔۔۔۔تم نے کبھی اس کے ناول پڑھے ہیں؟؟؟۔۔۔۔نہیں پڑھیں ہوں گے۔۔۔۔۔ورنہ تمھیں پتا ہوتا ۔۔۔۔تمھاری ماں کے ایس آ گل کتنے ارمان تھے۔۔۔۔۔لیکن اس چلبلی سی لڑکی کی شادی تو ایک سال بھی نہ چل سکی۔۔۔۔تو وہ ارمان تحریروں میں ہی رہ گٸے۔۔۔۔کبھی فرصت ملے تو پڑھنا۔۔۔۔اور پھر مجھ سے اتنے ہی بھرم سے کہ کر دیکھانا کے وہ تمھاری ماں ہے اور شادی شدہ عورت ہے۔۔۔۔۔۔اسے ان ظلم کی بیڑیوں سے آزاد کر دو۔۔۔۔یہ وہ سب سے خوبصورت تحفہ ہوگا جو ایک بیٹا اپنی ماں کو دے گا۔۔۔۔چاھو تو میری چھان بین نکل وا سکتے ہو۔۔۔۔سواۓ چاۓ کے کسی چیز کا شوق نہیں رکھتا ۔۔۔بولتا کم ہوں ۔۔۔۔لکھتا کمال ہوں۔۔۔۔تمھاری مما کے ناولز میری کمپنی ہی پبلش کرتی ہے۔۔۔۔اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر کا ہوں۔۔۔۔مزید معلومات تم خود نیکل والے ناں۔۔۔۔اور ہاں۔۔۔۔میں تمھاری مما کا رشتہ لے کر بھی جاچکا ہوں۔۔۔۔پر وہ مانتیں نہیں ہیں۔۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اسے تم سے ڈر ہے۔۔۔ کہ تم کیا سوچو گے۔۔۔ تمہارا اس بارے میں کیا نظریہ ہوگا۔۔۔۔۔اس لٸے تم سے بات کرنا چاھتا تھا۔۔۔۔تمھاری تو شادی ہوجاۓ گی۔۔۔۔پر فبیحہ کا کیا ؟؟؟۔۔۔کیا زندگی بھر وہ لڑکی ایسے ہی تنھا رہے گی؟؟؟۔۔۔۔ میں تمہیں دو آپشن دیتا ہوں۔۔۔پہلا ۔۔۔۔فبیحہ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاٶ۔۔۔۔۔اور اپنے باپ سے اور دادا دادی سے اس کا حق دلواٶ۔۔۔اس کے دامن میں جتنے کانٹیں ہیں انھیں ہٹاٶ۔۔۔۔۔لڑٶ سب سے۔۔۔۔آخر بیٹے ہو تم اس کے۔۔۔۔ تم نہیں لڑو گے تو کون لڑے گا اس کے حق کے لٸے۔۔۔۔۔


یا سیکنڈ اپشن۔۔۔۔۔اسے ان سب سے آذاد کردو۔۔۔۔۔پلیز ۔۔۔“ ملک علی کندی کی کہی ہر بات دل پر اثر کر گٸی تھی میرے۔۔۔۔۔۔ دل پر ایسی چوٹ مار کر گیا تھا وہ ۔۔۔جس کا مرہم ڈھونڈنے کے لئے میں پاگل ہوئے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔


میں نے اپنے مما کے کچھ اور ناولز پڑھے۔۔۔۔واقعی وہ ملک علی کندی غلط نہیں تھا۔۔۔۔ان کے چلبلی ہیروئن۔۔۔ان کے ارمان کی عکاسی تھی۔۔۔۔۔جو دل کے کسی کونے میں بے دردی سے مار کر دفن کر دیے تھے انہوں نے۔۔۔۔۔آج میں لکھتا ہوں۔۔۔۔۔میں تڑپ اٹھا انہیں پڑھ کر۔۔۔۔۔اتنے چھوٹے چھوٹے ارمان ۔۔۔۔کے بس۔۔۔۔۔پتا ہی نہیں چلا کب میرے آنکھیں آنسوں برسانے لگیں۔۔۔۔اور وہ آنسوں میری مما کی تحریر پر گرنے لگے۔۔۔۔۔۔ھاۓۓۓۓۓۓ۔۔۔۔۔میری ماں ہونے کے بعد کیا خوشیوں پر سے ان کا حق ختم ہوگیا ؟؟؟؟؟۔۔۔۔یہ سوال میرا ضمیر مجھ سے باربار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ فرسٹ آپشن پر عمل کرنا تو  ناممکن تھا۔۔۔۔۔میرے ابو ۔۔۔دادا ۔۔۔۔دادی۔۔۔۔سارے چاچا انکی بیویاں۔۔۔پھوپھوٸیں۔۔۔۔وانیہ اس کی بیٹیاں۔۔۔۔جو ابھی تک میرے باپ کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔۔۔۔۔ان سب سے بیک وقت  لڑنا ممکن نہیں تھا۔۔۔۔ساتھ ساتھ یہ لوگ جادوگر بھی ٹھرۓ۔۔۔۔۔پتا چلا پھر میری مما کو مارنے کے پیچھے پڑ گٸے تو۔۔۔۔۔۔


اپنے والد کے بارے میں کیا لکھوں ۔۔۔۔آپ خود سمجھدار ہیں۔۔۔۔۔۔کیوں میرے ابو کو میری مما کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔۔۔۔۔وانیہ چاچی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔۔۔پر دادا دادی بھت ٹیڑھی کھیر ہیں۔۔۔۔۔وہ مانیں ہی نہیں ۔۔۔شادی کے لٸے۔۔۔۔۔جو چل رہا تھا ۔۔۔۔ویسے ہی چلنے دیا۔۔۔۔۔۔وانیہ کی پوری فیملی بھی اچھا خاصہ لوٹتی تھی میرے ابو کو۔۔۔۔۔۔۔


اب بہت بڑا فیصلہ میرے نازک کندھوں پر آ گیا تھا۔۔۔۔اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا فیصلہ کرتے؟؟؟۔۔۔۔۔۔


کچھ دنوں بعد میں دوستوں کے ساتھ پکنک کا بہانہ کرکے کراچی گیا۔۔۔۔وہاں اپنی مما سے باتوں ہی باتوں ۔۔۔”آپ کو ملک علی کندی کیسا لگتا ہے؟؟؟“میں سوال کرنے میں بھت ہچکچا رہا تھا۔۔۔۔پر میں نے کافی ہمت جمع کر کے پوچھ ہی لیا تھا۔۔۔وہ میرے اچانک کئے گئے سوال پر چونک کر مجھے دیکھنے لگیں۔۔۔


”کیا ملک سے کوٸی بات ہوٸی ہے تمھاری؟؟؟؟۔۔۔۔“وہ بڑے پریشان ہو کر مجھ سے پوچھنے لگیں۔۔۔


”ہاں۔۔۔۔آپ سے نکاح کی خواہش رکھتا ہے وہ ۔۔۔۔اور میں نے جتنی معلومات حاصل کی ہے اس کے بارے میں۔۔۔۔وہ اچھا اور سلجھے دماغ کا مالک ہے۔۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر وہ آپ کو سمجھتا ہے۔۔۔۔وہ۔۔“ابھی میں بول ہی رہا تھا۔۔۔


”تم بھول گٸے ہو کیا ؟؟۔۔۔۔کے ۔۔۔“جب انھوں نے بولنا شروع کیا تو والناس خاموش نہ رہ سکی اور بیچ کنورسیشن میں کود پڑی۔۔۔۔


”کے آپ شادی شدہ ہیں ۔۔۔یاد ہے ہمیں۔۔۔۔یہ والا صدمہ جو ناسور کی طرح لگا ہے۔۔۔۔بھولنے والا تھوڑی ہے۔۔۔۔پر اب ہم دونوں چاہتے ہیں کے آپ اپنی زندگی میں آگے بڑھیں۔۔۔“والناس تو مجھ سے بھی زیادہ جذباتی ہوگٸی تھی۔۔۔۔مما کی آنکھیں صاف انکار کر رہی تھیں اور لہجہ نھایت احتجاجی۔۔۔۔۔انھوں نے ہم دونوں کو بچہ کہ کر ٹال دیا۔۔۔۔ہم نے بھی ٹھان لی۔۔۔فبیحہ کو خوشیوں بھری زندگی دینے کی۔۔۔۔


میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہو شاید۔۔۔کیونکے میں نے اپنی مما کی دوسری شادی کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔۔۔۔جس پر سواۓ والناس کے سب باتیں بنارہے تھے۔۔۔۔۔۔پر میری نانی نانا ۔۔۔میں لکھ لکھ کر تھک جاٶں اتنی دعاٸیں دیتے مجھے۔۔۔۔


”آپ کیوں شادی نہیں کرنا چاھتیں؟؟؟۔۔۔۔ملک میں کوٸی براٸی ہے ؟؟؟۔۔۔۔یا آپ کو پسند نہیں ہے ؟؟“ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا۔۔۔پر مجال ہے مما کے کان میں جوں بھی رینگ رہی ہو۔۔۔۔


”ذیشان یہ کیسے سوال ہیں؟؟؟۔۔۔کون بیٹا اپنی ماں کی شادی کرواتا ہے ۔۔۔۔تم پاگل ہوگٸے ہوکیا؟؟؟۔۔۔۔“میرے سوالوں پر وہ آگ بگولہ ہوگٸیں تھیں۔۔۔۔پر میں تو آج خاص آیا ہی ان کی( ہاں) کروانے تھا۔۔۔۔ان کے غصے سے ڈر کرچپ نہیں ہوا۔۔۔۔کیونکے آدھی عمر تو وہ اپنی انتظار میں ضاٸع کرچکی تھیں۔۔۔۔۔مزید آدھی کا ضیاء میں افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔میں انہیں ایک خوشحال زندگی دینا چاہتا تھا۔۔۔۔میری نظر میں جس کی وہ پاکیزہ عورت حقدار تھی۔۔۔۔


”کہاں لکھا ہے ایک بیٹا اپنی ماں کا دوسرا نکاح نہیں کرواسکتا؟؟؟ ۔۔۔۔مجھے بتاٸیں۔۔۔۔۔آپ بھی ایک انسان ہیں۔۔۔۔آپ کو پورا حق ہے ایس آ فبیحہ جینے کا۔۔۔۔ہر وقت ذیشان کی ماں ہونے کا میڈیل پہن کر گھومنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔آپ میری ماں ہونے سے پہلے ایک انسان ہیں۔۔۔۔آپ کی بھی تو خواہشات ہوں گی۔۔۔۔۔ ارمان ہوں گے۔۔۔۔۔خواب ہوں گے۔۔۔۔۔۔کیوں ان سب کو مار مار کر جی رہی ہیں؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔پلیز مما ۔۔۔۔زندگی کی طرف لوٹ آٸیں۔۔۔۔۔ایک بار ملک کو موقع دے کر تو دیکھیں۔۔۔۔“میں نے آج مما کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا تھا۔۔۔۔انہیں ۔۔۔۔ان ہی کے زندہ ہونے کا احساس دلایا تھا۔۔۔۔میری بات سن وہ میرے سینے سے لگ کر رونیں لگیں۔۔۔۔


پتا ہے روتے ہوۓ کیا کہ رہی تھیں؟؟؟۔۔۔۔۔کہنٕے لگیں معاشرہ مجھے طلاق یافتہ کہے گا۔۔۔۔اور یہ طعنہ سننے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں۔۔۔۔افففف۔۔۔۔۔یہ معاشرہ اور اس کی طعنہ  کشیأں۔۔۔۔بس نہیں چلتا کے ایک ایک فرد سے جاکر پوچھوں ۔۔۔۔۔اگر حضور کے دور میں بیٹیوں کو زندہ درگو کرنا گناہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا ایک زندہ لڑکی کو طلاق  یافتہ ہونے کے خوف سے زندہ لاش بناکر پوری زندگی گزر وانا گناہ نہیں ہے۔۔۔۔۔کہاں لکھا ہے ایک طلاق یافتہ عورت کو برا بھلا کہو۔۔۔۔۔۔اسے ایسا محسوس کراٶ کے وہ گالی بن گٸی ہے۔۔۔۔۔ ایسا تو کہیں نہیں لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔کہاں سے لاتے ہو یہ فرسودہ نظام؟؟؟۔۔۔۔۔


میں پوچھتا ہوں ۔۔۔۔ایک نیک عورت زندگی اکیلے کاٹنے کو تیار ہے ۔۔۔ صرف شوہر کے نام کا لیبل لگا کر۔۔۔۔مگر طلاق لینے میں معاشرے سے ڈر رہی ہے ۔۔۔۔تو بتاٸیں کون قصوار ہے؟؟؟۔۔۔۔۔وہ عورت ۔۔۔۔۔یا ۔۔۔۔ہمارا فرسودہ نظام والا معاشرہ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔


میں نے کہ دیا اپنی ماں سے۔۔۔۔میں ہوں آپ کے ساتھ۔۔۔میرا یہ کہنا ان کی آنکھوں میں اک عجیب سی چمک لے آیا تھا۔۔۔۔وہ چمک زندگی کو ایک بار پھر سے جینے کی امنگ تھی۔۔۔۔۔مجھے میرا جواب مل گیا تھا۔۔۔۔۔وہ جینا چاھتی تھیں۔۔۔۔۔


بھت تماشے ہوۓ۔۔۔۔۔اتنے کے لکھنے سے قاصر ہوں۔۔۔۔دادی نے تو ہنگامہ برپا کر دیا۔۔۔۔جب انہیں میں طلاق کا مطالبہ کرتا نظر آیا۔۔۔۔۔اففففففف۔۔۔۔۔ کہنے لگیں جادو کیا ہے فبیحہ نے تجھ پر۔۔۔۔۔۔ وہ چالاک لومڑی تجھے اپنے جال میں پھنسا رہی ہے۔۔۔۔ماں بننے کا ناٹک کر کے تجھے اپنی سائٹ کر رہی ہے۔۔۔۔تو بھول گیا تجھے خود پھینک کر گٸی تھی وہ ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ہاں بھٸی ۔۔۔۔کتنا لکھوں۔۔۔۔سمجھ جاٸیں آپ۔۔۔۔۔۔


میں نے ابو سے صاف کہا ۔۔۔میری مما کو طلاق دیں۔۔۔۔انہوں نے پوچھا تم کس حق سے مانگ رہے ہو؟؟؟۔۔۔میں نے بڑے بھرم سے کہا ۔۔۔فبیحہ کا بیٹا ہونے کے حق سے۔۔۔۔ویسے بھی آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ان کے آپ کے نکاح میں بندھے ہونے یا نہ ہونے سے۔۔۔۔۔۔میرے ابو کا ری۔اکیشن اس لمحے دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔۔۔۔ان کا پالا ہوا بیٹا ۔۔۔۔منہ میں زبان فبیحہ کے لٸے رکھتا ہے۔۔۔یہ دیکھ وہ مارے حیرت کے دم بخود رہ گٸے تھے۔۔۔۔انھوں نے کہا فبیحہ خود مانگے گی تو دیں گے ورنہ نہیں۔۔۔۔۔میں بھی ضدی ماں باپ کی ضدی اولاد ٹھرا۔۔۔۔میں تین دن بعد ہی نانا اور بڑے مامو کو لے کر پہنچ گیا۔۔۔۔۔ابو کو کوٸی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔انھوں نے تین طلاقیں ایک ساتھ دے ڈالیں۔۔۔۔


اب مجھ پر دادی نے خوب پابندیاں لگانا شروع کردیں تھیں۔۔۔۔لیکن میں یونی کی چھٹی کر کے کراچی نیکل جاتا۔۔۔۔۔

*****----- ****


آخر کار وہ دن آیا جب میری مما دولہن کے لباس میں اپنے کمرے میں کھڑی تھیں۔۔۔۔میں تو اپنی مما کے سو سو صدقے ہزار ہزار جان واری جارہا تھا۔۔۔۔۔”آپ کی خواہش تھی ناں میرا ہاتھ پکڑ کر چلنے کی ۔۔۔۔چلیں تھام لیں ہاتھ ۔۔۔“میں نے ہاتھ بڑھا کر کہا تو ان کی آنکھیں موتی برسانے لگیں۔۔۔۔


”ارے ارے ۔۔میک۔اپ خراب ہوجاۓ گا“والناس فورا ٹیشو سے آنسوں صاف کرتے ہوۓ بولی۔۔۔ تو میں اسے چھیڑے بغیر نہ رہ سکا ”ہاں مما۔۔۔۔پھر آپ بھی اِس جیسی دیکھیں گی “میں نے منہ بسورتے ہوۓ  والناس کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ بولا۔۔۔۔تو والناس منہ سے زبان نیکال کر مجھے چڑانے لگی۔۔۔۔


”چلیں ہاتھ پکڑیں۔۔۔۔“میں نے مسکراتے ہوۓ ہاتھ پھر بڑایا ۔۔۔تو ہاتھ پکڑ کر بِلَک بِلَک کر رونا شروع ہوگٸیں۔۔۔۔میں نے اپنے جذبات پر بڑی مشکل سے قابو پا رکھا  تھا۔۔۔۔لیکن جب انہیں دلاسہ دینے کے لٸے سینے سے لگایا تو اشک ۔۔۔میرا چہرہ بھی بھیگو گٸے۔۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔وہ لمحہ۔۔۔۔۔والناس مما کو چپ کرانے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔وہ سینے سے ہٹ کر میری پیشانی چومتے ہوۓ بولیں۔۔۔”خدا نے مجھ غریب فبیحہ کی سن لی۔۔۔۔اور تمھیں بھیج دیا۔۔۔۔میرے بچے  تم خدا کی رحمت و نعمت دونوں بن کر آۓ ہو میری زندگی میں۔۔۔۔۔سمجھ نہیں آتا کن الفاظوں میں شکریہ ادا کروں تمھارا۔۔۔۔بس اتنا کہوں گی ۔۔۔ خدا تمہاری جیسی اولاد سب کو دے“ان کے کہے وہ چند جملے میرے دل پر سنہرے قلم سے تحریر ہو گئے تھے۔۔۔۔


”بس کرٶ یار۔۔۔۔کیا مجھے بھی رولاٶ گے؟؟“والناس مما کو چپ کراتے کراتے خود ہی رونا اسٹارٹ ہو چکی تھی۔۔۔


”میری بچی تم بھی آٶ۔۔۔۔اللہ ۔۔پتا ہے میری بڑی خواہش تھی کے میری ایک بیٹی ہو۔۔۔۔۔ تم جب جب مجھ سے میری ہی خوشیوں کے لئے لڑتی تھی ناں۔۔۔ تو مجھے محسوس ہوتا تھا کہ خدا نے میری خواہش پوری کر دی ہے۔۔۔۔“مما نے اس کی پیشانی بھی بڑے پیار سے چومی تھی۔۔۔۔اس وقت تو مجھے بھی والناس پر بڑا پیار آرہا تھا۔۔۔۔وہ واقعی اور لڑکیوں سے کافی مختلف تھی۔۔۔۔اس نے مما کو منانے اور دوسری شادی کرانے میں بھت ساتھ دیا تھا میرا۔۔۔۔بلکے مجھے بعد میں پتا چلا ۔۔۔ملک علی کندی کو میرا فون نمبر دینے والی بھی وہی تھی۔۔۔۔۔یہ جاننے کے بعد تو میں ہزاروں جان فدا تھا اس پر۔۔۔۔۔


وہ لمحہ والناس نے فورا کیمرے میں قید کر لیا جب میں اور مما ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر باھر آۓ۔۔۔۔۔ملک علی کی پہلی شادی تھی تو اس لیے ان کے بہت ارمان تھے۔۔۔مگر مما سادگی سے نکاح اور رخصتی چاھتی تھیں تو ملک علی نے ان کی کہی بات کا مان رکھا۔۔۔۔۔لیکن ولیمہ کافی بڑے پیمانے پر کیا گیا۔۔۔۔میں بھت خوش تھا۔۔۔۔اپنی مما کے چہرے پر خوشی و اطمینانی دیکھ۔۔۔ ان کی آنکھیں بار بار مجھے شکریہ ادا کر رہی تھیں۔۔۔ جواب میں ۔۔۔۔میں بار بار مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔


”مسٹر ذیشان۔۔۔۔ ویل یو میری می  ؟؟؟“میں آرام سے اسٹیج کے پاس کھڑے ہوکر مما کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی کے بولنے کی آواز آئی۔۔۔آواز تو والناس کی تھی۔۔۔میں پیچھے مڑا تو چونک گیا۔۔۔وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر انگوٹھی ہاتھ میں لٸے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔۔مجھے بھت عجیب  فیل ہوا۔۔۔سب ہمیں ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔


”کیا کر رہی ہو ؟؟؟۔۔۔۔۔اٹھو“میں نے ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا


” نہیں پہلے سوال کا جواب دو“وہ بلا کی لاپرواہ لڑکی معلوم ہورہی تھی مجھے۔۔۔۔ جسے اپنے اردگرد کے ہجوم کی ذرا بھی پروا نہ تھی۔۔۔۔۔جبکے میں لڑکا ہوکر ہلکہ سہ گھبرا  گیا تھا۔۔۔۔


” میں سوال کا جواب دے دوں گا پہلے اٹھ جاؤ“میں اسے آنکھیں دیکھاتے ہوۓ گویا ہوا۔۔۔ ہم دونوں سبھی کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ لوگ دولہن دولہا  کو چھوڑ۔۔۔۔۔ ہم ہی پر فوکس کر رہے تھے اب۔۔۔۔۔


”بھٸی درد ہو رہا ہے میرے پاؤں میں۔۔۔۔ جلدی جواب دو“وہ التجاٸی لہجے میں بولی تو میرے چہرے پر گہری تبسم بکھر آٸی۔۔۔۔۔


”افففف۔۔۔۔یہ پگلی۔۔۔۔مما نے بھی یونیک لڑکی چنی ہے میرے لیے۔۔۔۔“دل میں سوچتے ہوۓ ۔۔۔۔۔


میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ”میری ماں کی خواہش  ہو تم پگلی۔۔۔۔۔۔تمھیں منع کیسے کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔پر اب کھڑی ہوجاٶ پلیز “یہ کہ کر میں نے اسے کھڑا کیا۔۔۔۔اس کے چہرے پر مسرت ہی مسرت نظر آرہی تھی۔۔۔۔اس نے مجھے انگوٹھی پہناٸی۔۔۔۔ میرے پاس انگوٹھی نہیں تھی لیکن وہ میرے بدلے کی بھی لے آئی تھی۔۔۔مانا پڑے گا  پوری تیاری سے آئی تھی وہ دیوانی۔۔۔۔۔میں نے بھی بغیر کسی کی پرواہ کیے اسے انگوٹھی پہنادی۔۔۔۔


انگوٹھی پہنا کر ۔۔۔۔میں نے پنگا چھیڑا تھا۔۔۔۔پھر دو سال تک اپنے ابو ۔۔۔۔اور دادا۔۔۔ دادی کو والناس کے لٸے مناتا رہا۔۔۔۔۔ میں نے بہت پلاننگ اور سوچ سمجھ کے کام کٸے تھے سارے۔۔۔۔۔وہاں دوسری طرف والناس کا رشتہ لے کر میری مما خود گٸیں تھیں اپنا ارمان پورا کرنے ۔۔۔۔۔۔ میں واحد لڑکا ہوں گا جس کا ایک ہی لڑکی کے لئے دو طرف سے رشتہ گیا ایک مما کی طرف سے ۔۔۔۔۔ایک ابو کی طرف سے۔۔۔۔۔۔


میں نے زرش خالہ کو الگ سے بھی مطمئن  کیا تھا۔۔۔کے والناس کو ۔۔۔۔۔۔خاص خطرناک ( اپنوں )سے ۔۔۔۔۔۔بھت دور رکھوں گا۔۔۔۔ بس وہ میری ماں کی خواہش مجھے دے دیں۔۔۔۔۔بیان کی ضرورت تو نہیں ہے کہ اپنوں سے مراد یہاں کون ہے ۔۔۔مجھے یقین ہے آپ سمجھ گئے ہونگے 


ہمممم۔۔۔۔۔۔سب ایک حسین خواب سہ لگتا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی خود کی کماٸی سے اچھے علاقے میں ایک تین کمروں کا کشادہ فیلٹ خرید لیا تھا۔۔۔۔۔


ہماری شادی میں کافی ڈرامے بھی ہوۓ۔۔۔۔۔پر اللہ کے کرم سے والناس میری دولہن بن کر آج میرے کمرے میں موجود ہے۔۔۔۔۔کبھی کبھار زندگی ناممکنات کو ممکن کر کے دیکھا دیتی ہے۔۔۔۔جیسے۔۔۔۔۔❤میری اور والناس کی شادی❤۔۔۔۔


شادی کی پہلی رات میں نے اسے بتایا کے اگر میں اس کی بچپن کی محبت ہوں۔۔۔۔۔تو وہ بھی میری پہلی نظر کی سچی اُنس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے بڑی شدت سے چاھا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔جس کی ہر ادا پر سو سو واری قربان جاتا ہے میرا دل۔۔۔۔۔۔۔وہ جھیپ گٸی تھی میری محبت کا اظہار سن کر۔۔۔۔۔میں نے اس کے جھیپے ہوۓ خوبصورت وجود کو اپنی باھوں کے حصار میں جگڑ لیا تھا۔۔۔میں بھت خوش نصیب ہوں  کے مجھے والناس جیسی لائف پارٹنر ملی۔۔۔۔


مما نے اپنا ناول مکمل کر کے شاٸع کیا۔۔۔۔جس پر بھت زبردست ریویو آیا۔۔۔۔لوگوں نے بھت دعاٶں سے نوازا۔❤۔۔۔


Happy_Ending😍


پسند آئے تو لائک اور کمنٹ کریں 🙂