Inta al hayat Full Novel By Writter Imaan Abdul Rasheed -UrduKahaniyanPdf

 

Inta al hayat Full Novel By Writter Imaan Abdul Rasheed -UrduKahaniyanPdf



انت الحیات قسط نمبر 1

از قلم: ایمان عبدالرشید 

شاہ میر۔۔شاہ میر رک جاؤ نا، اچھا نا بابا میں ہار گئی اب رک جاؤ نا..آوازیں دیتے دیتے اور بھاگتے بھاگتے حیات کا سانس پھول چکا تھا مگر پھر بھی وہ صدائیں دیتی ہوئی شاہ میر کے پیچھے بھاگتی جا رہی تھی اور شاہ میر اس سے بھی زیادہ تیزی سے دوڑتا ہوا اس کی دسترس سے دور جاتا جا رہا تھا... اب حیات بری طرح سے ہانپنے لگی تھی.. شاہ میر رک بھی جاؤ اب مجھ سے اور نہیں بھاگا جا رہا، حیات سلیمان ہار گئی اور تم جیت گئے نا شاہ میر اب رک بھی جاؤ مگر شاہ میر اس کی بات ان سنی کر کے دوڑتا چلا جا رہا تھا.. اچانک سے زوردار آواز آئی تو شاہ میر نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے حیات بےہوش زمین پر پڑی تھی، شاہ میر کے دل کو کچھ ہوا وہ دوڑتا ہوا واپس آیا.. آیت کے سر پر چوٹ لگی تھی اور خون بہت بہہ رہا تھا.. شاہ میر اسے سہارا دیتے ہوئے گھر لایا.. شاہ میر کے سفید لباس پر اب حیات کے خون کے سرخ دھبے واضح تھے.. ڈاکٹر نے بتایا کہ حیات کو سانس کا مسئلہ ہے اور زیادہ بھاگ دوڑ یا سٹریس حیات کے لئے ٹھیک نہیں..........یہ اس وقت کی بات ہے جب حیات صرف دس سال کی تھی.. 

نعیم جاوید اور سلیمان جاوید  دو ہی بھائی تھے اور کچھ گلیوں فاصلے پر دونوں کے گھر ایک ہی شہر میں تھے.. نعیم جاوید کے دو بچے تھے بڑی بیٹی آنیہ اور چھوٹا بیٹا شاہ میر جبکہ سلیمان جاوید کی دو بیٹیاں ہی تھیں بڑی بیٹی رخسار جس کو وہ بیاہ چکے تھے اور چھوٹی بیٹی حیات.... حیات خاندان میں سب سے چھوٹی اور سب سے لاڈلی تھی...

حیات اور شاہ میر ایف ایس سی کے اسٹوڈنٹ ہیں اور دونوں ایک ہی کالج میں زیر تعلیم ہیں.. شاہ میر کو پڑھانے کی ذمہ داری بھی ہمیشہ سے حیات ہی کی تھی اور کچھ ہی دن میں ان کے پیپرز ہونے والے ہیں... 

آج حیات کو کالج آتے ہوئے کچھ دیر ہو گئی تو شاہ میر کے ساتھ کسی نئی آنے والی لڑکی کی کرسی پڑی تھی جو کہ شاہ میر کی دور کی کزن بھی تھی.. حیات کو بہت برا لگا وہ ہمیشہ سے شاہ میر کے ساتھ بیٹھا کرتی تھی اور آج شاہ میر اپنی کسی دور کی کزن اور پڑوسن تھی کے لیے اسے بھول گیا، آنسو پلکوں کے بند توڑ کر باہر آنے کو بے تاب تھے مگر حیات کنٹرول کیے بیٹھی رہی.. بریک ٹائم میں شاہ میر حیات کے پاس آ کر بیٹھا تو وہ وہاں سے آٹھ گئی، شاہ میر نے حیات کا بازو پکڑا اوئے کیا ہوا ناراض ہو گئی کیا؟ شاہ میر ادھر سے جاؤ اور جا کر اپنی کزن حنا کے پاس ہی بیٹھو.. اچھا اس کا مطلب تم ناراض ہو گئی ہو، میں کیوں ہونے لگی ناراض اور وہ بھی تم سے جاؤ یہاں سے شاہ، اوہ تو میڈم کا موڈ خراب ہے کوئی بات نہیں ابھی ٹھیک کر لیتے ہیں ساتھ ہی شاہ نے مسکراتے ہوئے ایک چاکلیٹ حیات کے سامنے کی یہ حیات کی کمزوری تھی وہ شاہ میر سے جتنا بھی ناراض ہوتی شاہ میر ایسے ہی چاکلیٹ دے کر اسے منا لیتا اور وہ مان جاتی، دھیمی سی مسکراہٹ حیات کے لبوں پر آئی.. مطلب تمہیں پتا تھا میں ناراض ہوں؟ تو کیا نہیں پتا ہونا چاہئے تھا شاہ میر نے ابرو اچکائے.. اب صلح اس شرط پر ہو گی کہ تم آئندہ اس حنا اسلم کے ساتھ نہیں بیٹھو گے.. قبول ہے، قبول ہے اب صلح ناں؟ ہاں، حیات نے مسکراتے ہوئے چاکلیٹ جھپٹی.. اب سوری بھی تو بولو شاہ میر کے بچے اوکے بابا سوری شاہ  نے کان چھوئے، جاؤ معاف کیا.. کیا یاد کرو گے، حیات نے قہقہہ لگایا.. 

اگلے   دن  پھر وہی ہوا،حنا  نے آیت کا بیگ اٹھا کر پچھلی کرسی پر  رکھ دیا اور فون خود شاہ میر یہ کے ساتھ بیٹھ گی۔۔ حیات کو بہت غصہ آیا ۔۔ اور آج تو بریک میں بھی شاہ میر اور حنا نیچے پلے گراونڈ میں اکٹھے  بیٹھ کر لنچ کر رہے تھے حیات کے غصے کی انتہا نہ رہی ۔۔اسے اتنا شدید غصہ آیا کہ  اس نے قریب پڑی اینٹ اٹھا کر حنا اسلم کے سر میں دے ماری اور وہاں سے ہٹ گئی..حنا کے سر سے خون بہنے لگا، حیات نے اس پر بس نہیں کی اس نے کلاس میں جا کر حنا کی ساری کتابیں پھاڑ دیں.. بریک ہونے کی وجہ سے کوئی کلاس میں نہیں تھا اور کسی کو پتا نہیں چلا کہ یہ سب حیات نے کیا ہے.. اس دن کے بعد حنا اسلم سکول نہیں آئی.. حیات اپنے مقصد میں کامیاب رہی اس کے اور شاہ میر کے درمیان کوئی تیسرا اسے ہرگز گوارا نہیں تھا... اور کیوں نہیں تھا یہ وہ بھی نہیں جانتی تھی.. 

حیات اور شاہ میر کے پیپرز ہو رہے تھے اور شاہ میر اپنے چچا کے گھر رہ رہا تھا تا کہ وہ اور حیات کمبائن اسٹڈی کر سکیں.. رات کا ایک بج رہا ہے ، شاہ میر اور حیات لاؤنج میں بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں.. یار حیات کتنی بکواس ہے یہ کیمسٹری مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تم پڑھو بیٹھ کر میں سونے جا رہا ہوں.. شاہ! حیات نے اسے گھورا.. کیا ہے حیات نہیں پڑھا جا رہا نا مجھ سے.. اچھا ادھر لاؤ میں سمجھاتی ہوں تمہیں، حیات کتاب پر سر جھکائے اب بولتی چلی جا رہی تھی اور شاہ میر بس اسے دیکھتا جا رہا تھا ایسے جیسے کسی سحر میں گرفتار ہو.. شاہ میر میری شکل کیوں دیکھ رہے ہو.. تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں حیات پر رونق، زندگی سے بھر پور.. اچھا اور یہ مسکے اس لیے لگائے جا رہے ہیں کہ میں تمہیں کہوں کہ جا کر سو جاؤ، اب تم خود ہی بہت سمجھدار ہو شاہ میر مسکرایا.. اچھا چلتا ہوں دعاؤں میں یاد رکھنا، شاہ مسکراتا ہوا کمرے میں چلا گیا.. اف اللہ اس لڑکے کا کچھ نہیں ہو سکتا، حیات بڑبڑائی اور سر جھٹک کر پڑھنے لگی.. 

رات کے تین بج رہے تھے اور حیات مسلسل شاہ میر کو کالز کر رہی تھی.. بارہویں کال پر شاہ میر نے کال اٹھائی.. ہاں حیات بولو وہ گہری نیند سے بیدار ہوا لگ رہا تھا.. شاہ میں بہت پریشان ہوں.. جی میڈم آپ کیوں پریشان ہیں اور مجھے کیوں پریشان کر رہی ہیں؟ شاہ  میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں تمہیں یاد بھی نہیں ہے کیا کہ کل رزلٹ آنے والا ہے.. اوہ شٹ اپ حیات تم مجھے آدھی رات کو یہ بتانے کے لیے کالز کر رہی تھی.. شاہ میر میں بہت پریشان ہوں.. لیکن میں نہیں اب میں سونے لگا ہوں، شاہ نے کال بند کر دی اور اگلے دن شاہ کے دس نمبر حیات سے زیادہ تھے جس پر وہ مسلسل اسے چڑا رہا تھا... چند روز بعد آنیہ کی شادی بھی تھی تو حیات اور آنیہ اس کی پلاننگ کر رہی تھیں.. آنیہ اور حیات میں خاصی دوستی تھی.. 

مہندی کا فنکشن چل رہا تھا سارے کزنز ہلے گلے اور ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھے.. حیات گولڈن میکسی پر کالا ڈوپٹہ شانے پر ڈالے دلہن بنی آنیہ کے پہلو میں بیٹھی کسی بات پر مسلسل ہنس ہنس کر بے حال ہو رہی تھی اور شاہ میر دور بیٹھا اس کے ہنسنے کے انداز سے لطف اندوز ہو رہا تھا.. مہندی لگانے کی رسم شروع ہو چکی تھی.. بلیک کامدار لہنگے پر گولڈن کام دار کرتی اور گولڈن بلیک ڈوپٹے کے ہمراہ پھولوں کے زیورات پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی.....رخسار اور حیات ڈھولک بجا رہی تھیں اور شاہ میر تصاویر کھینچنے میں مصروف تھا.. بڑے ایک طرف بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے.. شاہ میر حیات کے پاس آیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی.. کل بارات کے لیے تیار ہونے کے بعد مجھے چھت پر ملنا، وہ شرارت سے مسکرایا.. ایسی کون سی بات ہے جو کل کرنی ہے آج ہی کر لو، حیات نے اسے گھورا.. کل مطلب کل پورے دو بجے پہنچ جانا چھت پر میں انتظار کروں گا... شاہ میر کیا مسئلہ ہے؟ بائے بائے کل ملتے ہیں، شاہ میر یہ کہتا ہوا ادھر سے چلا گیا.. 

اگلے دن حیات بہت دل سے تیار ہوئی بلیک میکسی جس کے اوپر ہلکا سلور کام ہوا تھا اس کے ساتھ بلیک ہی ڈوپٹہ جس کے بارڈر پر بھی سلور کام ہوا تھا کندھے پر جھول رہا تھا،گلے میں نفیس سا پٹی سیٹ، اب وہ آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھی جھیل سی کالی آنکھوں میں اب وہ کاجل لگا رہی تھی، ہونٹوں پر سرخ لپ اسٹک لگانے کے بعد اب وہ اپنے بال سنوار رہی تھی.. اس نے اپنا موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا دو بج کر بائیس منٹ ہو رہے تھے.. وہ پورے بائیس منٹ لیٹ ہو چکی تھی.. اس نے جلدی جلدی اپنے بلیک ہائی ہیل سینڈل پہن کر اسٹریپ بند کی اور ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا اور خود ہی خود کو سراہا.. وہ واقعی اس دن بہت خوبصورت لگ رہی تھی..اوہ جھمکے تو میں نے پہنے ہی نہیں، حیات اب جھمکے پہننے لگی.. 

وہ چھت پر پہنچی تو شاہ کا منہ دوسری طرف تھا.. اہم اہم... تمہیں پتا ہے تم کتنے منٹ لیٹ ہو؟، شاہ نے پلٹے بغیر کہا... بس آدھا گھنٹہ، حیات شرارت سے بولی.. اور میں پچھلے ایک گھنٹے سے تمہارا انتظار کرتا ہوا اس دھوپ میں کھڑا ہوں، وہ خفگی سے بولا.. ٹھیک ہے آئی ایم سوری میں جا رہی ہوں، حیات کی آواز بہت اداس ہو گئی تھی.. وہ جانے کے لئے پلٹی.. اچھا جی لیٹ بھی آپ ہیں اور ناراض بھی آپ ہو رہی ہیں، شاہ نے آگے بڑھ کر حیات کی کلائی تھامی.. حیات نے آنسوؤں بھری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا.. سیاہ کانچ کی آنکھیں بھوری آنکھوں سے ٹکرائی اور نظر چرا گئی.. بہت خوبصورت لگ رہی ہو حیات، وہ کسی سحر کے زیر اثر بولا، حیات نے کوئی جواب نہیں دیا.. اچھا حیات ایک بات بولنی ہے تم سے لیکن پہلے وعدہ کرو تھپڑ نہیں مارو گی ، شاہ نے ہنستے ہوئے کہا،ہاں بولو.. جی تو بات یہ ہے محترمہ حیات کہ آپ میری حیات کا بہت اہم حصہ بن چکی ہیں،شاہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا.. پھر وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور ایک پھول حیات کی طرف بڑھایا.. کیا آپ مجھے قبول کر کے میری زندگی کو واقعی حیات بنائیں گی میڈم حیات؟ وہ مسکراتے ہوئے بولا.... حیات نے پھول اس کے ہاتھ سے لے لیا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھی.. حیات جواب تو دیتی جاؤ.. سوچ کر بتاؤں گی، اگر ناں کرتی ہو تو میں حنا اسلم سے بات کر لوں؟، وہ شرارت سے بولا.. میں تمہارا گلا دبا دوں گی شاہ میر کے بچے، حیات ایک لمحے کے لیے مسکراتی ہوئی پلٹی اور پھر نیچے چلی گئی... تمہارا جواب میں بہت اچھے سے جانتا ہوں حیات، شاہ میر خود کہہ کر خود ہی ہنس دیا......

انت الحیات ❤️ 

قسط نمبر 2

از قلم :ایمان عبدالرشید 


کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے باندھو

ابھی آغاز محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں


حنا اسلم کا سر تم نے پھاڑا تھا نا حیات؟ شاہ میر نے اسے ٹیکسٹ کیا.. حیات دل کھول کر ہنسی.. اور کوئی ایسا کر سکتا ہے شاہ؟ اس کا مطلب ہے تم میرے ساتھ کسی اور لڑکی کو دیکھ کر جیلس ہوتی ہو؟ ایسا ہی ہے ناں حیات؟ شاہ بندے کو نا ہر ٹائم خوش رہنے کا کہا جاتا ہے خوش فہمی میں رہنے کا نہیں...پھر کیوں پھاڑا تھا حنا کا سر؟ میری زندگی میری مرضی میں جو چاہوں کروں.. وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن سر تو بے چاری حنا کا گیا ناں حیات.. اچھا تو بڑی فکر نہیں ہو رہی تمہیں اس حنا کی؟ تو کیا نہیں ہونی چاہیے؟ بھاڑ میں جاؤ شاہ اور ساتھ میں اپنی حنا چڑیل کو بھی لے جانا... تو پھر میں تمہیں بھی لے کر جاؤں گا کیونکہ میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گا.. بس بس زیادہ فری نہ ہو! حیات مسکرا رہی تھی.. مسکراہٹ اب اس کے لبوں سے جدا ہوتی ہی کب تھی.. اس کی تمام دعاؤں کا پھل، ہر نیکی کا اجر، زندگی کی مسافت کا حاصل تو اسے مل چکا تھا.. ہر دعا قبول ہو چکی تھی اب تو مانگنے کو کچھ بھی نہیں تھا... بعض اوقات غم ہی نہیں خوشی بھی انسان پر اس قدر حاوی ہو جاتی ہے کہ اسے لگتا ہے کہ اب دعا کی ضرو باقی نہیں رہی جب کہ دعا تو ہر لمحے ضروری ہے.. وہ تو بس خواب بننے لگی تھی... سنہری خواب.. جتنا حس خواب ٹوٹ جانے پر اتنی زیادہ اذیت..


مجھے چبھے کانٹا اور اس کی آنکھوں سے لہو ٹپکے

تعلق ہو تو ایسا ہو....... محبت ہو تو ایسی ہو

حیات کی ماں فرحانہ گھر پر نہیں تھیں اور آج کھانا حیات کو بنانا تھا... حیات ہینڈ فری لگائے شاہ میر سے بات کر رہی تھی اور ساتھ سبزی کاٹ رہی تھی.. اچانک اسے پیچھے سے حنا کی آواز آئی... شاہ حنا آئی ہوئی ہے کیا؟ ہاں.. کیوں آئی ہے وہ ادھر شاہ.. امی کو کچھ دینے آئی ہے حیات.. امی کو کچھ دینے یا تمہارے آگے پیچھے پھرنے؟ حیات کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا.. ایک قطرے کی بارش... وہ ہاتھ میں پکڑا پیاز کب سے ختم کر چکی تھی اور اب وہ لاشعوری طور پر اب وہ چھری اپنے ہاتھ پر چلا رہی تھی... شاہ میر کو کھو دینے کے ڈر سے وہ جانے کتنے زخم اپنے ہاتھ پر لگا چکی تھی.. وہ ہر چیز سے بے خبر تھی.. اس کے دل میں بس ایک ہی خوف تھا.. جدائی کا خوف... وہ کچھ دیر کے لیے ہر چیز بھول بیٹھی تھی یہاں تک کہ اپنا آپ بھی.. یہ بھی کہ وہ اپنے ہاتھ پر کتنے زخم لگا چکی ہے.. حیات کیا ہو گیا ہے میں تو حنا سے بات تک نہیں کرتا.. حیات.. حیات.. وہ اسے پکار رہا تھا.. حیات کے دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو اس کے لبوں سے آہ نکلی.. کیا ہوا حیات؟ شاہ نے فکر مندی سے پوچھا.. خون پورے ہاتھ سے بہہ رہا تھا، حیات کا پنک کرتا اب لال ہو چکا تھا.. پتا نہیں کیا ہوا ہے شاہ بس میرے ہاتھ سے بہت خون بہہ رہا ہے.. حیات کیا کر لیا اب تم نے، اٹھو اور لگاؤ اس پر کچھ میں بھی بس آ رہا ہوں.. اگلے پانچ منٹ میں شاہ اس کے سامنے بیٹھا تھا وہ زمین پر بیٹھی اپنے زخم کو دیکھ رہی تھی..  حیات اب بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟ شاہ نے نرمی سے پوچھا.. وہ جب تم حنا کی بات کر رہے ہیں تھے تو غلطی سے.. کیا بکواس ہے یہ حیات.. حنا میری زندگی میں کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں.. سمجھ آئی تمہیں؟...مگر شاہ حنا ہو یا کوئی بھی اور.. تمہیں کھونے کا سوچوں تو میرے سوچیں منجمند ہونے لگتی ہیں.. دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور پھر یہی سب ہوتا ہے.. تم پاگل ہو حیات تم واقعی پاگل ہو.. ہاں میں واقعی پاگل ہوں شاہ لیکن صرف تمہارے لیے.. صرف تمہارے لیے، حیات مسکرائی

اچھا فلاسفر صاحبہ اب بتائیں اس زخم کا کیا کریں.. تم ہی نے دیا ہے شاہ اب جو چاہو کرو.. زخم تم نے دیا ہے زخم تمہارا لگایا ہوا ہے تو اب مرہم بھی تم ہی رکھو گے ناں.. شاہ میر نے پورا گھر دیکھا کوئی مرہم یا کریم وغیرہ نہ ملی، میڈیکل سٹور بہت دور تھا.. شاہ میر حیات کے قریب ہی زمین پر بیٹھ گیا اور حیات کا خون آلود ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھاما اور اپنے ہاتھ کو ہی اس کے لیے پٹی بنا دیا.. بہترین مرہم.. حیات  نے بے خودی کے عالم میں اپنا سر شاہ میر کے کندھے پر رکھ دیا وہاں ایک اور ہی دنیا تھی، خوابوں کی دنیا..


اپنی نظروں سے اتاروں تیری نظر.. تیرے نینوں کی بلائیں لوں 

واروں میں اپنی جان تجھ پر.. ہائے میں صدقے جاؤں تمہارے 


شاہ میر اور حیات کی ڈگری مکمل ہو چکی تھی اور اب شاہ اپنے ابا کا بزنس سنبھال رہا تھا... اسے بزنس کے سلسلے میں چھ ماہ کے لیے کراچی جانا تھا اور حیات یہ سوچ سوچ کر اداس ہو رہی تھی کہ وہ یہ چھ ماہ شاہ کو دیکھے بغیر کیسے گزارے گی.. شاہ میر اپنے چچا کی فیملی کو ملنے ان کے گھر آیا تھا..بچپن سے لیکر آج تک شاہ کبھی بھی اتنی دیر کے لیے اس سے دور نہیں گیا تھا، دونوں گھروں میں آنا جانا لگا رہتا تھا.. شاہ میں اتنے دن کیسے رہوں گی تمہیں دیکھے بغیر، ویسے ہی جیسے میں رہوں گا حیات.. شاہ.. اچھا نا اب ایموشنل کیوں ہو رہی ہو، کراچی جا رہا ہوں مرنے تھوڑی ہی نا والا ہوں جو تم ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو.. کیا مس ہے شاہ جو منہ میں آتا ہے بول دیتے ہو، اپنا نہیں تو کم از کم میرا ہی خیال کر لیا کرو.. وہ بس ٹکٹکی باندھے شاہ میر کو دیکھتی جا رہی تھی جیسے وہ نظر قضا ہونے سے ڈر رہی ہو .. اچھا حیات اب میں چلتا ہوں اپنا بہت خیال رکھنا.. حیات بس اسے دیکھتی جا رہی تھی.. حیات تم مجھے ایسےدیکھتی ہو نا کہ.. کیسے دیکھتی ہوں شاہ؟ بس دیکھتی ہو نا.. کیسے دیکھتی ہوں.. تم مجھے ایسے دیکھتی ہو جیسے کوئی نظر ہی قضا نہ ہو جائے.. سیاہ کانچ کی آنکھیں بھوری آنکھوں سے ٹکرائی اور ان کے سحر میں گرفتار ہو گئیں...

انت الحیات ❤️ 

قسط نمبر 3

از قلم :ایمان عبدالرشید 


اکتا گئے ہوں گے میری ذات سے

ان کے مختصر رابطے گواہ ہیں اس بات کے


شاہ میر کو کراچی گئے ہوئے دو مہینے ہو چکے تھے، پہلا مہینہ تو وہ مسلسل حیات کے ساتھ رابطے میں رہا لیکن اب رابطوں میں کمی آنے لگے تھی... حیات میسج کرتی تو بات ہو جاتی ورنہ شاہ خود سے اب یہ زحمت نہیں کرتا تھا.. پھر رابطے اور محدود ہونے لگے شاہ اب حیات کی کال بھی نہیں اٹھاتا تھا، میسج کا جواب دینے میں بھی اسے اب میسج کا رپلائی بھی دو دن بعد آتا، شاہ ہمیش یہی کہتا کہ آفس کا بہت کام ہے.. حیات کے دل کو اداسی نے گھیر لیا اگر شاہ کا دو مہینے میں یہ حال تھا تو چھ مہینے ادھر رہنے کے بعد تو وہ اسے بالکل ہی فراموش کر دیتا... حیات مسلسل شاہ کو کالز کر رہی تھی پندرہویں کال پر اس نے کال اٹھائی.. کیسی ہو حیات؟ لگتا ہے تمہارا وہاں کچھ زیادہ ہی دل لگ گیا ہے شاہ تبھی تو تمہیں میری یاد تک نہیں آتی.. ایسا نہیں ہے حیات بھلا بچپن کی دوستی کو بھی کبھی کوئی بھولتا ہے.. بس وقت ہی نہیں ملتا کیا کروں.. پر بے فکر رہو میں اپنی پیاری سی دوست کو کبھی نہیں بھول سکتا... حیات نے کال بند کر دی اس کا دماغ بس ایک ہی لفظ میں الجھ کر رہ گیا. دوستی، صرف دوستی؟ شاہ وہاں اپنی ماں کی سیکنڈ کزن یعنی خالہ کے ہاں ٹھہرا تھا....


اک کرب کا موسم ہے جو دائم ہے ابھی تک

اک ہجر کا قصہ کہ مکمل نہیں ہوتا


شاہ میر 6 ماہ کے لیے گیا تھا لیکن اب آٹھ مہینے ہونے کو تھے لیکن وہ اب تک واپس نہیں آیا تھا.. حیات نے بجھے دل کے ساتھ شاہ میر کو کال کی، کال کسی لڑکی نے ریسیو کی.. شاہ میر کہاں ہے؟ حیات نے پوچھا.. جی آپ کون آپ کو انہیں جو کہنا ہے مجھے بتا دیں میں میسج دے دوں گی.. نہیں اس کی ضرورت نہیں میں دوبارہ کال کر لوں گی.. اوکے اللہ حافظ.. ایک منٹ رکیے گا، اس لڑکی نے کہا.. جی؟ آپ شاہ میر کی چچازاد حیات ہیں؟ حیات کے دل میں ایک امید جاگی کی شاید شاہ میر نے اسے اپنے اور حیات کے بارے میں بتا رکھا ہے اوہ تو وہ واقعی حیات کو بھولا نہیں تھا.. جی میں ان کی چچا زاد حیات ہی ہوں آپ کیسے جانتی ہیں مجھے؟

بس وہ شاہ نے ایک دو دفعہ آپ کا ذکر کیا ہے مجھ سے کافی اچھی دوستی ہے ناں آپ کی؟ دوستی.. حیات کا حلق تک کڑوا ہو گیا.. جی لیکن آپ کون ہیں.. ارے شاہ نے آپ کو میرے بار میں نہیں بتایا میں ایشال سیف ہوں اور بہت جلد ایشال شاہ میر بننے والی ہوں...سمجھ تو آپ گئی ہوں گی ناں.. حیات کو لگا جیسے کسی نے اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہو.. میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں، حیات نے بمشکل اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے کہا.. اللہ حافظ حیات اور اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ شاہ میر سے پوچھ سکتی ہیں، انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ آپ انہیں پسند کرتی ہیں لیکن حیات وہ صرف مجھے چاہتے ہیں.. حیات کچھ بول ہی نا پائی اور اس نے کال بند کر دی.. سردیوں کے دن تھے اور وہ شاہ کو کال کرنے ٹیرس میں آئی تھی.. وہ وہیں بیٹھی رہ گئی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے، شاہ نے کہا  کہ صرف وہ اسے چاہتی ہے صرف وہ؟ اور شاہ کسی اور سے محبت کیسے کر سکتا.. جانے وہ کتنی دیر روتی رہی.. ساری رات وہ ٹھنڈ میں بیٹھی رہی.. اگلے دو دن اسے بہت تیز بخار رہا، سب اس سے ملنے آئے لیکن شاہ نے کال کر کے حال تک نہ پوچھا..کیا کہا کرتا تھا وہ حیات بیمار تم ہوتی ہو سانس میرا اکھڑنے لگتا ہے اور اب؟ 


یہ ہے دنیا یہاں کتنے اہل وفا

بے وفا ہو گئے دیکھتے دیکھتے


حیات نے شاہ کو کال کی یہ پوچھنے کے لیے کہ کیا وہ واقعی اس کے لیے اتنی غیر اہم ہو گئی ہے کہ اسے فرق ہی نہیں پڑتا کہ وہ کس حال میں ہے.. زندہ بھی ہے یا نہیں.. وہ ایشال کی کی گئی باتوں کی اصلیت جاننا چاہتی تھی... شاہ نے کال اٹھائی.. ہاں کیسی ہو حیات.. کوئی فرق پڑتا ہے تمہیں شاہ؟ کیا ہوا حیات؟ ایشال کون ہے شاہ؟ عابدہ خالہ کی بیٹی ہے.. اور تم اسے پسند بھی کرنے لگے ہو.. ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں؛؟ کتنی ہی دیر دونوں طرف خاموشی چھائی رہی.. بولو بھی شاہ.. ہاں حیات اور میں تمہیں بتانے ہی والا تھا.. کیا بتانے والے تھے تم مجھے شاہ یہ کہ میری محبت کی قبر تم بنا چکے ہو اور اب اس پر تمہیں اپنی نئی محبت کا تاج محل بنانا چاہتے ہو یا پھر یہ بتانے والے تھے کہ تم مجھ پر فاتحہ پڑھ کر اب آگے بڑھ چکے ہو.. حیات میری بات سنو.. سب سن لیا میں نے شاہ اب بس دعا کرو کہ تم اب دوبارہ کبھی میری آواز نہ سنو.. اب تم صرف میری موت کی خبر سنو.. اللہ حافظ... حیات نے آنسوؤں سے رندی ہوئی آواز میں کہا اور فون بند کر دیا.. اور اپنے آنسوؤں کو بس بہنے دیا.. بے رنگ آنسو اس کی بے رنگ زندگی کو بیان کر رہے تھے.. یہ بے رنگ برسات اس کی ذات کے ہر رنگ کو دھوتی جا رہی تھی..

انت الحیات ❤️ 

قسط نمبر 4

از قلم :ایمان عبدالرشید 


وہ شخص جس کو میری یاد تک نہیں آتی

حیراں ہوں میں اس شخص کو بھول کیوں نہیں پاتی


حیات بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے زمین پر بیٹھی تھی.. اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار ایک ہی چہرہ آ رہا تھا... سارے باتیں جیسے فلم بن کر اس کے دماغ میں گھوم رہی تھیں.. ایک دس سالہ بچی جھولے پر بیٹھی تھی اور ایک بارہ سالہ بچہ اسے جھولا جھلا رہا تھا.. وہ بچی مسلسل اس بچے کو آوازیں دے رہی تھی.. بس کر دو شاہ جھولا اور تیز نہ کرو، حیات گر جائے گی شاہ.....شاہ.. شاہ.. وہ مسلسل آوازیں دے رہی تھی.. بے فکر رہو حیات شاہ میر تمہیں کبھی نہیں گرنے دے گا، اس بچے نے جھولا مزید تیز کیا اور پھر سے وہی الفاظ دہرائے، میں ہوں نا تمہارے ساتھ حیات اور شاہ میر کے ہوتے ہوئے حیات کبھی نہیں گر سکتی.. میں تمہیں کبھی نہیں گرنے دوں گا حیات... پھر ایک زوردار آواز آئی، حیات نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں، وہ دس سالہ بچی اب منہ کے بل زمیں پر گری تھی اور اس کے ماتھے اور ہونٹ سے خون بہنے لگا، شاہ کا وعدہ جھوٹا ثابت ہوا تھا وہ اس کے ہوتے ہوئے بھی گر گئی تھی.. پھر اسے یاد آیا کہ شاہ اس دن کس طرح سے اس کی حالت پھر اس کی آنکھوں کے سامنے ایک اور منظر آیا وہ سارے کزنز کھیل رہے تھے اور وہ مسلسل شاہ میر کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور وہ اس کی دسترس سے دور جاتا جا رہا تھا.. دور بہت دور.. یہاں تک کے وہ تھک کر گر گئی، گری تو وہ اب بھی تھی، منہ کے بل.. بالکل ویسے ہی جیسے وہ دس سال پہلے گری تھی، دونوں ہی دفعہ وہ شاہ کے پیچھے بھاگ کر ہلکان ہو رہی تھی، فرق بس اتنا تھا تب وہ حیات کے گرنے پر لوٹ آیا تھا اور اب کی بار اس نے خود حیات کو گرایا تھا.. حیات کی آنکھوں کے سامنے ایک اور منظر آیا جب وہ بیمار تھی اور شاہ اسے اپنے ہاتھوں سے دوا کھلا رہا تھا اور وہ مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی کہ اسے دوا نہیں کھانی اور شاہ اسے پیار سے بہلا کر دوا کھلا رہا تھا اور اس کے بعد وہ دوا کھاتی تھی تو صرف شاہ کے ہاتھ سے ورنہ ڈاکٹر سے دوا لا کر پھینک دیتی اور کہہ دیتی کہ اس نے دوا کھا لی ہے اور کتنے اچھے سے جانتا تھا ناں شاہ یہ بات .. وہ جو اس کی شفا تھا، اب وہی اس کا مرض بن چکا تھا... لا علاج مرض. اک زخم جو اب ناسور بننے والا تھا...


اس کے نزدیک غم ترک وفا کچھ بھی نہیں 

مطمئن ایسے ہیں وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں 


شاہ میر پورے آٹھ مہینے بعد کراچی سے واپس آیا تھا... وہ فرحانہ سے ملا تو پتا چلا کہ حیات کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے اور وہ اپنے کمرے میں ہے، وہ فرحانہ سے اجازت لیتا ہوا اب حیات کے کمرے میں آیا، وہ کبھی بھی اس کے کمرے میں دستک دے کر نہیں آیا تھا.. اس نے دروازہ کھولا تو کمرے میں مدھم سی روشنی تھی، صرف ایک سائیڈ لیمپ آن تھا،حیات ملگجے حلیے میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی، چہرے پر آنسوؤں کے نشان اس مدھم روشنی میں بھی واضح ہو رہے تھے، حیات کو پتا بھی نہ چلا کہ کب شاہ کمرے میں داخل ہو کر اس کے قریب آ کھڑا ہوا.. وہ حیات کے قریب آیا اور اس کے کان کے قریب اونچی آواز میں بولا؛ سرپرائز.. حیات نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا.. اسے لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے، وہ  بیڈ سے نیچے اتری اور بھاگتی ہوئی شاہ میر کے گلے لگ گئی اس کے گلے لگ کر بس وہ روتی جا رہی تھی، کچھ دیر کے لیے جیسے وہ ہر چیز بھول گئی.. شاہ میر کا دھوکا، اکھڑا رویہ  سب بھول گئی تھی وہ.. یاد تھا تو بس اتنا کہ وہ اس کے سامنے تھا.. ہاں وہ آ گیا تھا.. تم آ گئے شاہ، اس نے نم آنکھیں اٹھا کر شاہ کو دیکھ.. میں تو آ گیا ہوں بل بتوری لیکن یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے تم نے اپنی بھی اور کمرے کی بھی.. وہ جیسے کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہٹی اسے سب یاد آنے لگا.. اسے لگا وہ مزید برداشت نہیں کر سکے گی، وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گئی.. وہ مسلسل نفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی.. شاہ میر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا.. حیات.. مت کہو مجھے حیات شاہ، حیات سے اس کی حیات تم چھین چکے ہو.. حیات.. شاہ نے بے چینی سے اپنا ہاتھ حیات کے چہرے کی طرف بڑھایا جسے حیات نے جھٹک دیا، شاہ کا ہاتھ اب حیات کے گھٹنے پر تھا.. حیات.. یہاں سے چلے جاؤ شاہ تمہیں خدا کا واسطہ ہے یہاں سے چلے جاؤ.. کہاں جاؤں حیات.. ایشال کے پاس حیات نے رخ موڑا.. اوہ حیات میری بات سنو، وہ حیات کے قدموں میں بیٹھا تھا.. حیات تم بہت اچھی ہو، بہت زیادہ اچھی ہو حیات لیکن میں اس دل کا کیا کروں جو ایشال کو چاہنے لگا ہے.. اور میرے دل کا کیا شاہ؟ حیات اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی.. حیات ہمارے درمیان صرف دوستی ہی تھی ہم ہی کچھ دیر کے لیے اسے کچھ اور سمجھ بیٹھے تھے...یہاں سے چلے جاؤ شاہ.. سمجھنے کی کوشش کرو حیات ہمارے درمیان واقعی صرف دوستی کا رشتہ تھا، محبت کیا ہوتی ہے یہ بات مجھے ایشال سے مل کر سمجھ آئی ہے.. تم مجھے بہت عزیز ہو حیات، بہت زیادہ عزیز.. لیکن ایشال میری محبت ہے اور اس کو کھونا میرے لیے اپنی زندگی کو کھونا ہو گا تم بہت اچھی ہو اور تمہیں کوئی بہت اچھا شخص ہی ملنا چاہیے میں شاید تمہارے قابل ہی نہیں تھا تبھی تو ایشال میرے زندگی میں آئی.. اللہ تمہیں بہت اچھا شخص نصیب کرے حیات جو تمہیں بہت خوش رکھے، اس نے حیات کے ماتھے پر بوسہ دیا اور جانے کے لئے کھڑا ہوا..  شاہ میر،وہ مدھم آواز میں بولی.. شاہ پلٹا، تمہیں پتا ہے شاہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی کیا تھی تمہارے وعدوں پر یقین کر کے تم سے چھپ کر کوئی تعلق رکھنا، جو لڑکیاں چھپے تعلق رکھتی ہیں ناں شاہ پھر ان کو ساری زندگی چھپ کر رونا ہی پڑتا ہے.. چھپے تعلق کیسے تباہ کرتے ہیں میں دیکھ چکی ہوں شاہ..  اللہ تمہیں بہت خوش رکھے حیات... ہاں یہ بھی اچھا ہے.. ساری خوشیاں چھین کر خوش رہنے کی دعا دیتے جاؤ.. کتنے عجیب ہو نا تم بھی شاہ.. زندگی چھین کر، مجھ پر میری سانسوں کو تنگ کر کے تم مجھے جینے کی دعا دے رہے ہو.. حیات، شاہ ایک بار پھر سے حیات کے قدموں میں آ کر بیٹھا، اس کا ایک ہاتھ حیات کے گھٹنے پر تھا.. دھڑکنوں پر پاؤں رکھ کر مجھے کہہ رہے ہو کہ کھل کر سانس لو، شاہ جب تم مجھے دفنا چکے ہو تو یوں بار بار یوں میری قبر پر آ کر مجھے تکلیف کیوں پہنچاتے ہو، حیات کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر شاہ کے ہاتھ پر گرا جو حیات کے گھٹنے پر تھا.. ایک قطرے کی بارش اور پھر سے وہی ضبط کا موسم... حیات پلیز رونا نہیں، شاہ نے بے چینی سے اس کی سیاہ کانچ کی آنکھوں میں جھانکا، سیاہ آنکھیں بھوری آنکھوں سے ٹکرائیں اور اور ان آنکھوں کی ہو کر رہ گئیں.. اتنی فکر ہے تو نہیں جاؤ نا شاہ..اس نے جیسے التجا کی، جانا ضروری ہے حیات.. حیات کی آنکھ سے ایک اور آنسو گرا، بارش کا ایک اور قطرہ.. شاہ میر نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا اور پھر اٹھ کر باہر چلا گیا.. پیچھے رہ گئی صرف حیات.. حیات سے عاری حیات.. تقدیر سے ہاری حیات.. 


انت الحیات ❤️

قسط نمبر 5

از قلم :ایمان عبدالرشید 


خالی ہاتھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز

کس طرح لکیروں سے لوگ نکل جاتے ہیں


حیات اٹھو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ، نعیم بھائی نے شاہ کے آنے کی خوشی میں سب کی دعوت رکھی ہے.. امی آپ چلی جائیں نا میرا دل نہیں چاہ رہا.. حیات...کیا بدتمیزی ہے یہ اٹھو اور تیار ہو جاؤ تمہیں پتہ بھی ہے نعیم بھائی اور سحرش بھابھی تم سے کتنا پیار کرتے ہیں.. چاروناچار حیات کو ادھر جانا پڑا، وہ بے دلی سے تیار ہوئی.... بڑے ابا، وہ نعیم تایا کے گلے لگ کر رونے لگی، کیا ہوا ہماری بیٹی کیوں رو رہی ہے.. کچھ نہیں بس بڑے ابا آپ کی بہت یاد آ رہی تھی کچھ دن سے، تو جب یاد آئے ہماری بیٹی یہاں آ جائے، کاش کہ تمہی سچ میں اپنی بیٹی بنا پاتا حیات، وہ حسرت سے بولے.. کیا آپ لوگ ادھر باتوں میں لگے ہیں ادھر سب بیٹھے انتظار کر رہے ہیں ، سحرش تائی ان کو بلانے آئی... وہاں خوب رونق لگی تھی اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن شاہ اسے کہیں نظر نہ آیا... وہ مطمئن سی ہو کر سب کے ساتھ باتیں کرنے لگی.. کھانا کھانے کے بعد جب سارے بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے تو شاہ بھی وہاں آ کر بیٹھ گیا... سحرش اسے دیکھ کر مسکرائیں.. جی تو آج آپ سب کو یہاں بلانے کا ایک خاص مقصد بھی ہے، تو بات کچھ یوں ہے کہ ہمارے شاہ میر نے اپنے لیے لڑکی پسند کر لی ہے.. عابدہ آپا کی بیٹی ایشال.. میری بہت خواہش تھی کہ میں حیات کو اپنی بیٹی بناتی اور یہ خواہش کسی سے ڈھک چھپی تو ہے نہیں لیکن ہم بچوں پر زور زبردستی کے قائل نہیں، شاہ میر نے ایک نظر حیات کو دیکھا، اور بھوری آنکھیں سیاہ کانچ کی آنکھوں  سے نظریں چرا گئیں... ارے یہ تو تقدیر کے فیصلے ہیں، فرحانہ نے مسکرا کر کہا اب وہ سب ایشال کی تصویریں دیکھ رہے تھے اور حیات گم صم سی بیٹھی اپنی اجڑی حیات کا دل ہی دل میں ماتم کرتی رہی.. ہائے ستم کہ وہ سب سہتی رہی، ہائے ستم کہ وہ سب سہتی رہی ہائے ستم کہ وہ زندہ رہی..... 


کل کا دن ہائے کل کا دن اے جون

کاش اس رات ہم بھی مر جائیں 


ایشال اور شاہ میر کی منگنی کی ڈیٹ فکس کر دی گئی تھی.. وہ ابھی اماں کے پاس سے آٹھ کر کمرے میں آئی تھی اور آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے کو بے تاب تھے، وحشت سی وحشت تھی... اس کا دل چاہ رہا تھا وہ خود کے ساتھ کچھ کر لے خود کو ختم کر لے وہ شاہ کی منگنی پر کسی صورت نہیں جانا چاہتی تھی اسے لگتا تھا کہ وہ وہاں جائے گی تو زندہ نہیں لوٹ سکے گی.. اسے لگ رہا تھا کہ اس کا سانس رکنے لگا ہے، وہ اٹھی اور کمرے کی کھڑکی کھول کر کھڑی ہو گئی، ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے کو چھو رہی تھی.. وہ رو نہیں رہی تھی، وہ بس خاموش سی، الجھے سی کھڑکی کے ساتھ لگ کر مسلسل آسمان کو دیکھ رہی تھی..اسے وہ منظر یاد آیا جب وہ اور شاہ ایسے ہی ٹیرس میں کھڑے تھے اور وہ آسمان کو دیکھ رہی تھی، کیا دیکھ رہی ہو حیات؟ وہ تارا کتنا چمک دار ہے نا شاہ، مجھے لگ رہا ہے میں کبھی اس تارے سے نظر نہیں ہٹا پاؤں گی.. حیات میں نے سنا ہے کہ انسان مرنے کے بعد تارے بن جاتے ہیں تو ایسا کرو تم بھی مر جاؤ اور چمک دار تارا بن جاؤ، شاہ نے قہقہہ لگایا.... شاہ تم کہہ رہے ہو کہ میں مر جاؤں، اس نے خفگی سے شاہ کو دیکھا.. ہاں نا حیات تم مر جاؤ گی تو ناں تم تارا بن جانا پھر میں ایسے ہی گھنٹوں کھڑا ہو کر تمہیں دیکھا کروں گا.. شاہ! حیات نے شاہ کو دیکھ تو وہ ہنس دیا.. حیات بھی ہنس دی وہ آج پھر اس بات پر مسکرا دی.. اس کی سوچوں کا سلسلہ اس کے موبائل کی رنگ ٹون نے توڑا، ایک غیر شناسا نمبر سے کال آ رہی تھی.. اس نے کال اٹھائی. کیس ہو حیات؟ ایشال بات کر رہی ہوں..جی کہیے، وہ بمشکل اتنا ہی کہہ پائی.. منگنی کی خبر تو مل ہی گئی ہو اور دل پر چھریاں بھی چل رہی ہوں گی،ایشال نے ہنستے ہوئے کہا.. جی مل گئی تھی خبر اور دل پر چھریاں کیوں چلیں گی یہ تو خوشی کی بات ہے،حیات بڑے ضبط سے بولی.. میں نے تو سنا ہے بچپن سے چاہتی ہو تم اسے.. آپ کو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ایسا کچھ نہیں ہے اور میں آپ نے مجھے کال کیوں کی کوئی کام تھَا؟ ہاں حیات می چاہتی ہوں کل تم میری اور شاہ میر کی بہت ساری تصویریں بناؤ، سنا ہے تمہاری فوٹو گرافی بھی اچھی ہے. جی بہتر اور کچھ؟ حیات مزید بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی.. ہاں بس یہی اور ضرور آنا.. اللہ حافظ.. حیات کا دل چاہ رہا تھا کہ اسے کچھ ہو جائے، کچھ ایسا کہ اسے اگلی  سانس بھی نہ آئے مگر زندگی کا سلسلہ ہمارے چاہنے تو نہیں رکتا.. وقت مقرر سے پہلے کوئی روح پرواز نہیں کرتی... موت تو اپنے مقررہ وقت پر ہی آنی ہے چاہے زندگی موت سے بدتر ہی کیوں نہ ہو جائے... 


آئینہ کہتا ہے کہنا تو نہیں چاہیے تھا 

تو اب تک زندہ ہے رہنا تو نہیں چاہیے تھا

حیات منگنی پر جانے کے لئے مجبوراً تیار ہو رہی تھی وہ شاہ کو اپنی آ کے سامنے کسی اور کا ہوتا کیسے دیکھ سکتی تھی مگر آج شاید اسے یہ بھی دیکھنا تھا.. موت سے پہلے اسے یوں ہی مرنا تھا... وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی اور خود کو پہچاننے سے انکار کر رہی تھی..رنگ ایسے پیلا پڑا تھا جیسے کسی نے رگوں سے خون ہی نچوڑ لیا ہو.. سیاہ کانچ کی آنکھوں کے نیچے اب سیاہ حلقے واضح تھے، اس نے پیروں کو چھوتا بلیک گاؤن پہن رکھا تھا.. آئینے کے سامنے کھڑے اسے یاد آیا کہ جب شاہ نے اسے پرپوز کیا تھا تب بھی تو اس نے یہی رنگ پہن رکھا تھا.. سیاہ رنگ.. ہجر کا رنگ.. اس نے خود کو کمپوز کیا اور تیار ہونے لگی، اس کے زبردست میک اپ نے چہرے کے تمام تاثرات چھپا دیے تھے.. منگنی کی رسم کے دوران بھی ایشال اسے کئی دفعہ پاس بلاتی رہی، اپنی اور شاہ کی باتیں کرتی رہی لیکن حیات بس بے تاثر چہرے کے ساتھ سب سنتی رہی جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو.. 


گمان ہے تیرے لوٹ آنے کا

دیکھ کتنا بدگمان ہوں میں 


منگنی والے دن حیات کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی، بار بار اس کا سانس اکھڑ رہا تھا.. تین دن وہ ہسپتال میں رہی اور تینوں دن شاہ کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا.. اگر اسے آنا ہوتا تو وہ جاتا ہی کیوں؟؟ 


اپنی رائے کا اظہار کریں کہ آگے کیا ہونے والا ہے...

انت الحیات ❤️ 

قسط نمبر 6

از قلم :ایمان عبدالرشید 


ٹکڑے اٹھا کر میرے مجھے جوڑتا ہے وہ

جڑ جاؤں جب مجھے پھر سے توڑتا ہے وہ


فرحانہ اور سحرش اپنے شوہروں کے ہمراہ گاؤں گئیں ہوئی تھی... حیات گھر پر اکیلی تھی.. وہ کچن میں تھی جب دروازے پر دستک ہوئی، اس نے دو تین بار دستک پر دروازہ نہ کھولا تو دستک دینے والا اور تیزی سے دستک دینے لگا جیسے دروازہ توڑ کر اندر آ جائے گا، حیات کو لگا گلی کا کوئی بچہ ہے،  پنک بلینڈر ڈاٹس والی شرٹ کے ساتھ سادہ کھلا پنک ٹراؤزز اور بالوں کو آزاد چھوڑے وہ کچھ کمزور سی لگ رہی تھی... دروازہ کھولا تو سامنے شاہ میر کھڑا تھا..اس نے جھٹکے سے دروازہ بند کیا امی گھر پر نہیں ہیں آپ جا سکتے ہیں.. جانتا ہوں چچی گھر پر نہیں ہیں لیکن دروازہ تو کھولا، سمجھ نہیں آیا آپ کو جائیں یہاں سے... حیات دروازہ کھولو،اس نے پھر سے دستک دی.. حیات نے دروازہ کھولا اور خود اندر چلی گئی.. حیات سنو.. شاہ نے اسے آواز دی.. کہیے کیا کہنا ہے.. یہ کیسے بات کر رہی ہو حیات؟ کسی اجنبی سے ایسے ہی بات کی جاتی ہے شاہ میر.. میں اجنبی کب سے ہو گیا حیات؟ تب سے جب میں تین دن ہسپتال میں زندگی موت کی جنگ لڑتی رہی اور آپ نہیں آئے، تب سے آپ میرے لیے اجنبی ہو چکے ہیں ... ظاہر ہے آتا تو وہ ہے جس کو پرواہ ہو خیر غیروں سے کیسے گلے.. حیات، شاہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، سیاہ کانچ کی آنکھوں میں نقاہت عیاں تھی.. تم یہاں کیوں آئے ہو شاہ؟ پہلا زخم ابھی میں سیتی نہیں اور تم نیا زخم دینے آ جاتے ہو.. چلے کیوں نہیں جاتے تم میری زندگی سے.. حیات تم لوگوں کے گھر میں کسی زمانے میں چائے پانی کا رواج بھی ہوا کرتا تھا.. جی کہیے کیا لیں آپ.. چائے اور وہ بھی تمہارے ہاتھ کی، چائے پینے ہی تو آیا ہوں... حیات کچن میں جا کر چائے بنانے لگی.. چائے بناتے ہوئے حیات نے چینی کی جگہ سات آٹھ چمچ نمک کے چائے میں ڈال دئیے لو اب پی لو میرے ہاتھ کی چائے، وہ پھیکا سا مسکرائی.. شاہ نے چائے پینی شروع کی تو ایک گھونٹ پی کر رک گیا، بہت اچھی چائے ہے حیات اس نے یہ کہہ کر ساری چائے حلق میں اتار لی، حیات بس اسے دیکھ کر رہ گئی، اتنی بری چائے آخر کیوں پی شاہ نے؟ اگر اسے کچھ ہو گیا تو حیات نے سوچا.. ویسے یہ ہے ہی اس قابل، حیات نے دل میں سوچا...


غیر کے دل میں گر اترنا تھا

میرے دل سے اتر گئے ہوتے 


حیات... حیات.. حیات ایشال نے حیات کو کوئی دس میسج کیے.. جی ایشال! حیات کل نا میرا برتھ ڈے ہے تو مجھے بتاو شاہ میر کو کون سا رنگ پسند ہے؛ میں وہی رنگ پہنوں گی.. حیات میسج پڑھ کر جیسے سوچوں کی دنیا میں کھو گئی.. حیات جانتی ہو مجھے کالا رنگ بالکل پسند نہیں تھا لیکن جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو کالے رنگ سے محبت سی ہو گئی ہے.. آئی لو بلیک اینڈ آئی لو یو... حیات کی سوچوں کا ارتکاز ایشال کے میسج کی ٹون نے توڑا.. بتا بھی دو.. کدھر گئی حیات؟جو اچھا لگے پہن لینا شاہ کی پسند تو بدلتی رہتی ہے اب پتا نہیں کون سا رنگ پسند ہے اسے.. اوکے میں کل تمہیں ہماری تصویریں ضرور بھیجوں گی.. اللہ حافظ 


تمہارا ہم سفر ہونا میری اندھی تمنا تھی 

مگر دستور دنیا ہے، جسے چاہو نہیں ملتا


اگلے دن ایشال نے حیات کو اپنی اور شاہ کی تصاویر بھیجیں.. ایشال نے پیروں کو چھوتا ریڈ گاؤن پہن رکھا تھا.. وہ خوبصورت نہیں تھی لیکن خوبصورت لگ رہی تھی.. شاہ میر نے بلیک جینز پر بلیو شرٹ پہن رکھی تھی.. ایک تصویر میں شاہ نے ایشال کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، دوسری تصویر میں وہ اور ایشال ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے.. مکمل منظر.. وہ منظر جسے حیات کی جگہ ایشال نے پر کیا تھا.. ایک تصویر جس میں شاہ ایشال کو کوئین(Queen) والا خوبصورت چاندی کا نیکلس پہنا رہا تھا... ہر تصویر میں ہر منظر اتنا مکمل تھا.. بس کسی کی جگہ کسی اور نے لے لی تھی... پھول بھی کبھی کسی نے شاخوں کے ساتھ رہنے دیے ہیں پھول کا مقدر ہمیشہ شاخ سے جدا ہونا ہی ہوتا تھا، حیات نے سوچ کر سر جھٹک دیا... 


نہ یاد آؤ کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے


حیات کے لیے بہت اچھا رشتہ آیا تھا اور سارے اس رشتے سے مطمئن تھے اور یہ طے کیا گیا تھا کہ حیات کی بات پکی کر دی جائے اور پھر حیات اور شاہ کی شادی ایک ساتھ ہی کی جائے.... خوشی اور غم تو ساتھ ساتھ ہیں عیدالاضحیٰ کے بعد محرم بھی تو آتا ہے.. حیات نے منگنی کے لئے رضا مندی دے دی تھی.. اور حیات نے بھی کسی اور کے نام کی انگور پہن لی.. اسے لگا تھا شاید اب ہی شاہ کو احساس ہو جائے..


میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں

مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو


حیات آج اپنی پرانی کتابیں وغیرہ نکال کر بیٹھی تھی جب اس کی نظر ایک ڈائری پر پڑی، یہ حیات کی وہ ڈائری تھی جسے وہ کبھی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا کرتی تھی... اس نے ڈائری کا پہلا صفحہ کھولا وہاں اس نے اور شاہ میر نے جانے لکھ لکھ کر کلاس کے دوران کون سی باتیں کی ہوئیں تھیں... پھر وہ صفحے پلٹتی گئی اس پر اس نے بہت سی ایسی باتیں لکھ رکھی تھیں جو شاہ نے اس سے کی تھیں.. پھر ایک صفحے اس کی نظر رکی جس کے درمیان میں ایک دل بنا تھا اور دل میں انت الحیات لکھا تھا، باقی سارے صفحے پر ذرا سی بھی جگہ چھوڑے بغیر ہر جگہ حیات شاہ میر لکھا اور کہیں کہیں ان کے ناموں کے گرد دل بھی بنائے گئے تھے... حیات جانے کتنی دیر اس صفحے کو تکتی رہی پھر اس کی تصویر بنا کر شاہ میر کو بھیج دی.. جس کا شاہ میر نے کوئی جواب نہ دیا... حیات اب روتی نہیں تھی لیکن وہ ہنسنا بھی بھول گئی تھی، کبھی کبھی وہ ہنسنے کی کوشش کرتی تو اس کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں.. تم نے حیات سے اس کی حیات چھین لی ہے شاہ.. تم نے ایسا کیوں کیا شاہ؟


زہر پلانے کے بھی لائق نہ تھے

جنہیں چائے بن کر پلائی

سردیوں کے دن تھے، حیات کمرے میں لیٹی کوئی ناول پڑھ رہی تھی جب  اسے شاہ میر اور فرحانہ کی آوازیں آئیں، شاہ اسے منگنی کی مبارک باد دینے آیا تھا.. اسے جی بھر کے غصہ آیا، اس سے پہلے کہ شاہ کمرے میں آتا اس نے منہ تک بستر اوڑھ لیا تاکہ شاہ کو لگے کہ وہ سو رہی ہے.. شاہ میر کمرے میں داخل ہوا اسے پتا تھا کہ حیات ڈرامے کر رہی ہے تو ایک ڈرامہ اس نے بھی کیا.. اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے کوئی چیز نیچے پھینک کر آواز پیدا کی اور ساتھ میں ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے اسے چوٹ لگی ہے، حیات نے فوراً بستر سے منہ باہر نکالا.. کیا ہوا شاہ؟ اس نے فکر مندی سے پوچھا.. شاہ نے قہقہہ لگایا.. ارے ارے تم سو نہیں رہی تھی ڈرامے کر رہی تھی کیا. . شاہ کے بچے شرم نہیں آتی تمہیں، اس نے شاہ کی طرف پاس پڑا ناول اچھالا جو شاہ کی ٹانگ پر لگا.. آہ، شاہ چیخا.. شور کی آواز سن کر فرحانہ کمرے میں آئی. کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو.. کچھ نہیں چچی بس آپ کی یہ بیٹی پاگل ہو گئی ہے، تم ہو گے پاگل شاہ کے بچے.. پھر ان دونوں نے قہقہہ لگایا.. کچھ دیر کے لیے وہ جیسے پرانے حیات اور شاہ میر بن گئے تھے کتنی دیر بعد حیات آج ایسے دل کھول کر ہنسی تھی.. مگر چند ہی لمحوں میں پھر وہی سرد دیوار ان کے درمیان آ کھڑی ہوئی.. چچی حیات کو بولیں زبردست سی چائے بنا کر پلا دے مجھے ویسے بھی یہ بہت اچھی چائے بناتی ہے.. حیات کب سے اچھی چائے بنانے لگی شاہ میر.. چچی آپ کو نہیں پتہ کیا چلیں چھوڑیں یہ باتیں اور حیات سے کہیں چائے بنا کر لائے اب تو ویسے بھی میڈم کی شادی ہونے والی ہے.. جاؤ بھی حیات شاہ میر کے لیے چائے بنا کر لاؤ، فرحانہ نے کہا تو حیات چائے بنانے چلی گئی.. وہ کچن میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ آج چائے میں کیا ملائے، دل تو چاہ رہا تھا کہ زہر ملا دے.. وہ چائے میں مرچیں ڈالنے لگی تھی لیکن پھر اس نے سوچا نہیں اسے میٹھے سے مورتی ہوں اور ڈبے میں موجود ساری چینی چائے میں انڈیل دی، چائے تو چکھنے کے قابل بھی نہیں تھی...لو پی لو میرے ہاتھ کی چائے مسٹر شاہ میر، اس نے قہقہہ لگایا.. وہ مسکراتے ہوئے چائے لے کر گئ اور کپ شاہ میر کو تھما دیا، اس کی توقع کے بر عکس آج پھر شاہ نے ساری چائے پی لی اور تو اور اس کی تعریف بھی کی، حیات حیران کھڑی بس اسے دیکھتی رہ گئی.. شاہ چائے پیتے ہی ادھر سے چلا گیا یقیناً اس کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گی، حیات نے سوچا.. اس نے موبائل پکڑا، شاہ نے دس منٹ پہلے ایک پوسٹ کی تھی، مجھے دنیا کی سب سے اچھی چائے بنانے والی لڑکی کا پتا چل گیا ہے اگر کسی نے بہتر چائے پینی ہے تو بتائے.. حیات دل کھول کر ہنسی..پھر ایک اور پوسٹ زبان کو مٹھاس چاہیے دل کو قرار.... ایسا کرو چائے بنا کے لاؤ.. وہ پھر ہنسی.. اور پھر ایک آخری پوسٹ جانے کتنے دل سے چائے بناتی ہے وہ.. ہفتوں مٹھاس نہیں جاتی اس چائے کی میرے لبوں سے..

انت الحیات ❤️

قسط نمبر 7

از قلم: ایمان عبدالرشید


ہمارے کردار کے داغوں پر طنز کرتے ہو

ہمارے پاس بھی آئینہ ہے دکھائیں کیا؟


ایشال کو جب یہ پتہ چلا کہ شاہ میر جس چائے کی تعریف اتنے دن سے کر رہا ہے وہ حیات نے بنائی تھی تو اس کے غصے کی انتہا نہ رہی.. اس نے حیات کو کال کی.. حیات نے ابھی کال اٹھائی ہی تھی کہ ایشال شروع ہو گئی، تکلیف کیا ہے تمہارے ساتھ حیات بی بی.. شرم نہیں آتی تمہیں خود منگنی شدہ ہوتے ہوئے بھی میرے منگیتر پر ڈورے ڈال رہی ہو.. ایشال تمہیں کوئی غلطی فہمی ہو رہی ہے شاہ خود آیا تھا.. بس کر دو حیات بی بی تم جیسی لڑکیوں کو بہت اچھے سے جانتی ہوں میں اپنے منگیتر سے تمہارا دل نہیں بھر رہا کیا جو یہ اوچھے کام کر رہی ہو، شٹ اپ ایشال اگر میں کچھ کہہ نہیں رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم جو منہ میں آئی بولتی جاؤ.. مر جاؤ تم حیات جان چھوڑ دو ہماری پہلے اتنی مشکل سے شاہ میر کا دل اپنی طرف کیا تھا، اس کا دل تم سے پھیرا تھا اور اب پھر تم آ گئی ہو، مجھے کوئی محبت نہیں ہے شاہ میر سے شاہ میر تو بس میری ضد بن چکا ہے، ایشال جذبات میں وہ سب بھی بولتی جا رہی تھی جو اسے نہیں بولنا تھا.. حیات نے اسے غصہ دلانے کے لئے ایک دو فقرے اور بولے تاکہ وہ باقی سب بھی سن سکے، ایشال یقیناً ان لوگوں میں سے تھی جو جذبات میں آکر اگلے پچھلے راز اگل دیا کرتے تھے..میں تو جس سے محبت کرتی تھی میں نے اس کا لحاظ نہیں کیا تو تمہارا اور شاہ میر کا کیوں کروں.. میں نے تو صرف ثاقب کو جلانے کے لیے شاہ میر سے منگنی کی تھی، صرف اس کو جلانے کے لیے شاہ میر کو اپنا دیوانہ بنایا تھا اور میں نے تو سوچا تھا کہ ثاقب کو مزہ چھکانے کے بعد میں شاہ میر کو چھوڑ دوں گی لیکن آج اس نے منگنی توڑنے کی بات کر کے میری انا کو ٹھیس پہنچائی ہے اور یہ بات سن لو حیات بی بی میں یہ منگنی کبھی نہیں ٹوٹنے دوں گی، تم جو چاہے کر لو سمجھ آئی تمہیں.. بڑی آئی ایشال سے پنگا لینے والی.. حیات نے کال بند کر دی اور کتنی ہی دیر موبائل ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی تو کیا شاہ کو کسی پلاننگ کے تحت اس سے دور کیا گیا تھا لیکن شاہ کوئی بچہ تو نہیں تھا جو کسی کی باتوں میں آ جاتا.. لیکن پھر شاہ نے ایشال سے منگنی ختم کرنے کی بات کیوں کی.. حیات کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا.. اسے شاہ سے بات کرنی چاہیے؛ اس نے سوچا


نشاط جاں کی قسم تو نہیں تو کچھ بھی نہیں

بہت دنوں ہم نے تجھے بھلا کے دیکھا ہے


آج حیات کے سسرال والے آئے تھے شادی کی بات کر رہے تھے ، کہہ رہے تھے کہ چھ سات مہینے میں شادی کر دیں بس.. فرحانہ سب کو بتا رہی تھیں.. تو اب کیا کرنا ہے، سحرش نے پوچھا.. آپ لوگ ہی چاہ رہے تھے کہ حیات اور شاہ میر کی شادی ایک ساتھ کی جائے تو آپ بھی ایشال کے والدین سے بات کر لیں پھر جیسا وہ کہیں..ہاں یہ ٹھیک ہے ہم اپنے فرائض سے ایک ساتھ فارغ ہو جائیں گے.. میرا تو خیال ہے ابھی جنوری ہے تو اکتوبر، نومبر تک شادی کریں گے، شاہ میر کے آبادی نے کہا.. حیات خاموشی سے یہ ساری کاروائی دیکھ رہی تھی.. شاہ تم خوش ہو؟ اس نے شاہ میر کو میسج کیا.. تو کیا نہیں ہونا چاہیے بہت زیادہ خوش ہوں میں حیات، شاہ کا جواب دیکھ کر وہ خاموش ہو گئی...بالکل خاموش.. حیات، شاہ نے سب کے درمیان بیٹھی حیات کو مخاطب کیا.. جی.. حیات پلیز چائے پلا دو.. کیسا ڈھیٹ ہے یہ اتنی بری چائے پینے کے بعد بھی سب کے درمیان بیٹھ کر چائے مانگ رہا ہے.. آج حیات نے چائے میں لال مرچیں ڈالیں تھیں لیکن شاہ نے یہ چائے بھی پی لی.. میری ہاتھ کی اتنی بد مزہ چائے کیوں پیتے ہو شاہ، حیات نے دل میں سوچا.


تمہارا نام لیتا تھا، بہاریں رک کے سنتی تھیں

تمہارا نام لیتا ہوں، کلیجہ منہ کو آتا ہے


حیات کا ہونے والا شوہر بلال امریکہ میں رہتا تھا اور اس کا کچھ پیپر ورک ابھی باقی تھا لیکن حیات کے سسرال میں نے شادی سے 3 ماہ قبل ہی تاریخ طے کر دی، حیات اور شاہ میر کی شادی ایک ساتھ ہونی تھی... ایشال نے آج پھر حیات کو کال کی مبارک باد دینے کے لیے... حیات سمجھ میں آ رہا مبارک دوں یا تعزیت کروں ہائے تمہارا پیارا شاہ میر اب میرا ہونے جا رہا ہے... بہت دکھ ہو رہا ہے مجھے تمہارے لیے اور ہاں آئندہ شاہ میر کو جب بلانا تو بھائی کہنا لیکن حیات تو بس یہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ واقعی اب کبھی شاہ کا نام لے پائے گی، کیا وہ کبھی اسے پکار پائے گی؟؟


ہم نشیں میں بھی کسی روز وہاں ہوں گی جہاں 

تیری دستک، نہ اشارہ نہ صدا جائے گی 


حیات کی شادی کی تاریخ 10 نومبر رکھی گئی تھی اور آج 15 اکتوبر تھی.. حیات فیملی سمیت شاہ میر کے گھر رہنے آئی تھی،اور ادھر بس  شادی کی تیاریاں چل رہیں تھیں.. حیات کے دل پر اک بوجھ سا تھا، بے چینی سی بے چینی تھی، وحشت سی وحشت تھی.. حیات ایک آخری بار شاہ سے بات کرنا چاہتی تھی.. شاہ کیا ہم ٹیرس میں مل سکتے ہیں؟ اس نے شاہ کو میسج کیا، ضرور.. پانچ منٹ بعد شاہ ٹیرس میں موجود تھا.. ہاں کہو حیات.. شاہ، حیات نے اس کا ہاتھ تھاما... حیات کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.. کیا ہوا ہے حیات؟ شاہ پلیز ایشال سے شادی نہ کرو وہ تم سے محبت نہیں کرتی. کیا مسئلہ ہے حیات؟ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی شاہ تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے.. اور تمہیں میرے بغیر ہی رہنا ہے تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتی حیات... شاہ مجھے اپنی محبت کی بھیک دے دو شاہ، اس نے شاہ کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما، آنسو مزید تیزی سے اس کی آنکھوں سے بہنے لگے.. حیات محبت بھیک نہیں ہوتی جو میں تمہیں دے دوں... میں جانتی ہوں شاہ کہ محبت بھیک نہیں ہے لیکن پھر بھی میں چاہتی ہوں کہ میں ساری زندگی بیکاری بن کر تمہارے در پر بیٹھی رہوں اور تم یہ محبت مجھے خیرات کرتے رہو.. حیات محبت کا اعزاز میں ایشال کو دے چکا ہوں اب تو میں تمہیں محبت کی بھیک بھی نہیں دے سکتا، چاہ کر بھی نہیں حیات.. حیات تمہارے بغیر مر جائے گی شاہ.. کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا حیات، شاہ نے حیات کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ کھینچا، حیات بس روتی چلی جا رہی تھی.. میں تمہیں بتا رہی ہوں شاہ میں مر جاؤں گی اور میری موت کے ذمہ دار تم ہو گے. جاؤ شاہ میر تم آزاد ہو اور اگر میں مر جاؤں تو میرے جنازے پر بھی مت آنا.. میں تم پر سے اپنا جنازہ بھی معاف کرتی ہوں شاہ میر... اس نے رخ موڑا اور باہر دیکھنے لگی... اسے لگا تھا شاہ اسے پکارے گا لیکن وہ چپ چاپ وہاں سے چلا گیا بالکل ویسے ہی جیسے اس کی زندگی سے گیا تھا.. حیات وہیں کھڑی روتی رہی.. پھر آیت وہاں آئی.. حیات جلدی نیچے آؤ اماں اور چچی تمہیں نیچے بلا رہی ہیں جلدی سے نیچے آ جاو، وہ کہہ کر چلی گئی، حیات نے خود کو کمپوز کیا اور وہاں سے باہر نکلی.. اس نے پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا، اس نے سوچا شاید مسلسل رونے کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے، اس نے قدم آگے بڑھانا چاہے تو اس کا پاؤں پھسلا، اس کے لبوں سے زوردار چیخ نکلی حیات اوندھے منہ صحن میں گری تھی اس کے ہونٹ، ماتھے اور سر کے پچھلے حصے سے بہت خون بہہ رہا تھا سارا گھر خون آلود ہونے لگا تھا، شاہ اپنے کمرے سے نکل کر دوڑتا ہوا حیات تک آیا.. اس نے حیات کا سر اپنی گود میں رکھا، اس کا سانس اکھڑ رہا تھا، شاہ کے کپڑے آج پھر خون آلود ہوئے تھے، گہرے لال دھبے، کبھی نہ مٹنے والے داغ.. شاہ اور فرحانہ حیات کو لے کر ہسپتال گئے تھے.. حیات ایمرجنسی میں تھی.. فرحانہ کا رو رو کر برا حال تھا اور شاہ کے دماغ میں حیات کے آخری بار کہے گئے جملے گونج رہے تھے کیا کہا تھا اس نے حیات تمہارے بغیر مر جائے گی شاہ.. اور کیسے شاہ نے اسے دھتکار دیا تھا کہ کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا  اور اب وہ زندگی موت کے درمیان کھڑی تھی اور اس نے تو یہ بھی کہا تھا کہ اس کی موت کا ذمہ دار شاہ میر ہو گا، اوہ خدایا، شاہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھاما، اس کے کپڑوں پر اب بھی حیات کے خون کے دھبوں کے نشان واضح تھے.. اگر حیات کو کچھ ہو گیا تو.. اس سے آگے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا، وہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا... حیات تم میرے لیے کیا ہو مجھے آج انداز ہو رہا ہے، شاہ میر بے بس چہرہ لیے بس روتا جا رہا تھا.. ڈاکٹر باہر آیا تو شاہ دوڑتا ہوا اس کے پاس گیا.. اب کیسی ہے حیات؟ دیکھیں فی الحال ہم کچھ کہہ نہیں سکتے ان کا خون بہت زیادہ ضائع ہو گیا ہے اگلے چوبیس گھنٹے ان کے لیے بہت مشکل ہیں اگر اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران انہیں ہوش نہ آیا تھا تو وہ کوما میں بھی جا سکتی ہیں یا پھر ان کا انتقال بھی ہو سکتا ہے، فی الحال ہم کچھ کہہ نہیں سکتے آپ بس دعا کریں.. 


وہ پھول لے کر آئے ہیں 

ہائے وہ ڈھونڈ رہے ہیں قبر میری

شاہ میر مسجد کے ہسپتال میں بیٹھا حیات کے لیے دعا مانگ رہا تھا، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اگر حیات کو واقعی کچھ ہو گیا تو وہ تو مر ہی جائے گا.. میرے اللہ  حیات کی حیات اسے لوٹا دیجئے میری روح قبض کر لیجیے لیکن حیات کو زندگی سے نواز دیجئے.. حیات تم مجھ جیسے گھٹیا شخص کو ڈیزرو ہی نہیں کرتی، وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے بس روتا جا رہا تھا... اسے حیات کی باتیں یاد آ رہیں تھیں، تم حیات سے اس کی حیات چھین چکے ہو شاہ... اور آج وہ واقعی حیات سے اس کی حیات چھین رہا تھا وہ اس حال میں صرف اور صرف میری وجہ سے ہے، پندرہ گھنٹے ہونے کو تھے لیکن حیات اب تک ہوش میں نہیں آئی تھی.. شاہ میر میری بچی کو کیا ہو گیا، فرحانہ کا رو رو کر برا حال تھا، وہ ٹھیک ہو جائے گی چچی، شاہ نے فرحانہ کے ساتھ ساتھ خود کو بھی تسلی دی....


خدا کرے تو میری یاد میں خاک چھانے

خدا کرے تجھے میری خاک بھی نہ ملے


حیات.. حیات آنکھیں کھولو حیات ایک بار تو آنکھیں کھول کر مجھے دیکھو حیات، شاہ مسلسل اسے پکار رہا تھا مگر حیات کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی، شاہ میر تمہارے بغیر مر جائے گا حیات، اس نے حیات کا سوئیوں میں جکڑا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما.. حیات تمہارے بغیر میری زندگی بھی کسی کام کی نہیں،تمہارا شاہ تمہارے بغیر نہیں جی سکتا شاہ آنکھیں کھولو، وہ مسلسل روتا ہوا حیات کو پکار رہا تھا، آنسو اس کی آنکھوں سے مسلسل بہہ رہے تھے، حیات مانتا ہوں کہ میرا گناہ بہت بڑا ہے لیکن مجھے میرے اس گناہ کی اتنی بڑی سزا تو نہ دو حیات کہ میں جیتے جی مر جاؤں.. حیات نے تھوڑی سی آنکھیں کھولیں اور شاہ کو دیکھ کر مسکرائی.. الوداع شاہ، شاہ کے ہاتھ سے حیات کا ہاتھ پھسلا، شاہ کے ہاتھوں سے اس کی حیات چھوٹی.. شاہ کی دنیا لمحوں میں اجڑ گئی.. حیات حیات.. حیات ،شاہ چیختا ہوا اب حیات کو پکار رہا تھا... حیات کے دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا تھا اور کچھ لمحوں کے لئے شاہ کو لگا کہ اس کا دل بھی اب کبھی نہیں دھڑک پائے گا.. اگر مرنے والوں کے ساتھ مرا جا سکتا تو شاہ ضرور حیات کے ساتھ مر جاتا..

انت الحیات ❤️

قسط نمبر 8

آخری قسط 

از قلم :ایمان عبدالرشید 

حیات حیات، شاہ مسلسل حیات کا نام نیند میں پکار رہا تھا اور اس کی آنکھیں نم تھیں، شاہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور اٹھتے ہی اس نے حیات کا نام پکارا، اوہ شکر حیات کو کچھ نہیں ہوا تھا، وہ صرف شاہ کا خواب تھا.. اس کی آنکھ کب لگی اسے پتا ہی نہ چلا، شاہ وہیں زمین پر سجدہ ریز ہو گیا، میرے اللہ تیرا شکر ہے کہ وہ صرف خواب تھا، میرے اللہ حیات کو میری عمر بھی لگا دے، اسے زندگی بخش دے میرے رب، شاہ سجدے کی حالت میں روتے ہوئے دعائیں مانگ رہا تھا...وہ ذرا سنبھلا تو دیکھا کہ فرحانہ بھی کرسی سے ٹیک لگائے شاید سو گئی تھی، نیند کا کیا ہے یہ تو کانٹوں کے بستر پر بھی آ جاتی ہے، شاہ نے سوچا.. بائیس گھنٹے بعد حیات نے ذرا سی آنکھیں کھولیں اور پھر بند کر لیں،شاہ کو اپنا خواب یاد آیا اس نے سختی سے آنکھیں بند کر لیں، حیات کوما میں چلی گئی تھی.. پچیس دن بعد حیات کی شادی تھی اور وہ ہسپتال میں پڑی تھی... 


اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر

کاش! اس زبان دراز کا منہ نوچ لے کوئی


جب سے حیات ہسپتال میں تھی، شاہ میر ایک دن بھی گھر جا کر نہیں سویا تھا، وہ ہر لمحہ حیات کے پاس ٹھہرا تھا، اس کا خیال رکھ رہا تھی...شاہ حیات کے پاس بیٹھا تھا، حیات کی سانس آہستہ آہستہ چل رہی تھا، ڈاکٹر نے کہا تھا وہ سب سن سکتی ہے.. وہ حیات کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا، شاہ میر صرف تمہارا ہے ، میں کچھ دیر کے لئے بھٹک گیا تھا مجھے معاف کر دو حیات، اس نے اپنا سر حیات کے ہاتھ پر رکھا..اپنے شاہ میر کو معاف کر دو حیات... حیات کو کوما میں گئے ہوئے پندرہ دن ہو چکے تھے، شاہ روز اس کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں کیا کرتا تھا یہ سوچ کر کہ کبھی تو وہ جواب دے گی، حیات کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نمایاں تھے.. شاہ بس اسے دیکھتا جا رہا تھا حیات کی آنکھ سے ایک آنسو گرا، وہی ایک قطرے کی بارش.. شاہ کو اک عجیب سا احساس ہوا حیات کے آنسوؤں کی وجہ صرف وہ تھا، حیات اس حالت میں صرف اس کی وجہ سے تھی، شاہ نے سوچا.. حیات کا آنکھ کھولنا یہ اس بات کی علامت تھی کہ حیات ہوش میں آ رہی تھی، اسی رات حیات نے پوری آنکھیں کھولیں سب کو دیکھا، سب سے بات کی ، وہ نارمل ہو رہی تھی اور یہ سب کے لیے ایک سکون بخش بات تھی کیونکہ 10 دن بعد اس کا نکاح تھا... اگلے دن حیات کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا... 


کیا رہوں بے قرار.. جی بہتر

ہر گھڑی اشکبار.. جی بہتر 

کیا کہا، اک بار پھر سے کروں 

آپ کا اعتبار.. جی بہتر 


گھر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں.. حیات اپنے کمرے میں لیٹی تھی... شاہ اس کے کمرے میں آیا.. کیسی ہو حیات؟ اس نے نرمی سے پوچھا.. حیات نے رخ موڑا، یہاں سے چلے جاؤ شاہ! حیات میں تم سے تمہاری محبت کی بھیک مانگنے آیا ہوں مجھے یوں مت دھتکارو، تم میرے لیے کیا ہو مجھے اندازہ ہو گیا ہے حیات.. ذرا یاد کرو شاہ کس نے کس کو دھتکارا تھا اور تم نے ہی کہا تھا کہ محبت بھیک نہیں ہوتی.. اور میں تمہارے لیے کیا ہوں مجھے بہت دیر پہلے اندازہ ہو گیا تھا.. جاؤ یہاں سے... میری شادی میں صرف 8 دن باقی ہیں اور میں اب صرف اپنے ہونے والے شوہر کے بارے میں سوچنا چاہتی ہوں، کب تک دو بیڑیوں میں سوار رہو گے شاہ،، ادھر دل نہیں لگتا تو ادھر لگا لیتے ہو، یہ دل لگی اب چھوڑ دو اب،خدا کا واسطہ ہے میری زندگی سے نکل جاؤ تمہارے لیے مر چکی ہوں میں، اور آئندہ مجھ سے یوں ملنے نا آنا یہاں سے چلے جاؤ شاہ اور اپنی شادی کی تیاری کرو جا کے....


بہت افسوس ہوا مجھ کو 

کہ اب وہ کھو چکا مجھ کو 

آج حیات کی مہندی تھی، پورے گھر میں رونق لگی تھی.. حیات سامنے بیٹھی مہندی لگوا رہی تھی.. شاہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی مہندی، اور شاہ بھی دلہا بنا تھا اس کی بھی تو مہندی تھی آج.. کل وہ کسی اور کا ہو جائے گا،اس کی آنکھوں کے سامنے، کیسے برداشت کرے گی وہ یہ سب، کیسے وہ شاہ کو کسی اور کا ہوتا دیکھے گی، اسے لگ رہا تھا کہ وہ یہ دیکھتے ہی مر جائے گی، وہ سانس ہی نہیں لے سکے گی لیکن شاہ کیا اسے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا؟ اسے حیات کے جانے کا کوئی غم نہیں تھا کیا.. وہ سوچ ہی رہی تھی کہ شاہ وہاں آیا، ہاں بل بتوری لگ گئی تمہاری مہندی؟ شاہ نے اس کے بالوں کو چھیڑا.. ہاں لگ گئی دیکھو کیسی لگ رہی ہے؟ بہت پیاری بالکل تمہاری طرح.. شاہ کہتا ہوا ادھر سے چلا گیا.... اس نے اپنے مہندی لگے ہاتھ کو دیکھا، کتنی لکیریں تھیں ان ہاتھوں میں لیکن کسی ایک لکیر نے بھی اس کو شاہ سے نہیں ملایا تھا..کاش ان ہاتھوں میں یہ اتنی ساری لکیریں نہ ہوتی بس ایک لکیر ہوتی جو اسے شاہ سے ملا دیتی، حیات نے سوچ کر سر جھٹکا.. مہندی کا فنکشن ختم ہوا تو وہ اپنے کمرے میں جا رہی تھی لیکن کمرے میں سے آتی فرحانہ اور سحرش کی آوازیں سن کر ادھر ہی رک گئی.. جب حیات کے سسرال والوں نے شادی سے انکار کیا تو میں تو ڈر ہی گئی تھی سحرش بھابی کتنی منتیں کیں ان کی سلیمان اور نعیم بھائی نے،اب اگر بچی بیمار ہوئی تو اس میں اس کا تو کوئی قصور نہیں تھا، کیسی کیسی باتیں کیں ان لوگوں نے لیکن میں تو اللہ کا بہت بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ سب ٹھیک ہو گیا.. ہاں اللہ کا شکر ہے، سحرش بولیں.. حیات ہکا بکا کھڑی سب سن رہی تھی مطلب یہ رشتہ بھی ابا اور تایا ابا کی منتوں کی وجہ سے ہوا تھا.. بس اب اللہ ہماری حیات کے نصیب بہت اچھے کرے،سحرش بولیں.. آمین..اور یہ بھی دعا ہے کہ اللہ ہمارے گھر آنے والی کو بھی ہمارے لئے نیک ثابت کرے، شاہ میر تو بس میری ضد ہے، حیات کے کانوں میں ایشال کا کہا گیا جملہ گونجا.. وہ سر جھٹک کر وہاں سے چلی گئی.. 


جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم.. جو چلے تو جاں سے گزر گئے 

رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا 


مولوی صاحب اب حیات کے سامنے موجود تھے.. حیات سلیمان بنت سلیمان جاوید آپ کا نکاح شاہ میر احمد ولد نعیم احمد سے بعوض حق مہر شرعی کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟حیات نے سر اٹھایا.. مولوی صاحب آپ غلط نکاح نامہ لے آئے ہیں میرا نکاح تو بلال کے ساتھ ہو رہا تھا، حیات نے کانپتی آواز میں کہا... یہ آپ ہی کا نکاح نامہ ہے بیٹی، حیات  مولوی صاحب کے ہاتھ سے نکاح نامہ لے کر دیکھنے لگی یہ تو واقعی حیات اور شاہ میر کا نکاح نامہ تھا.. حیات فرحانہ کے پاس گئی.. امی یہ سب کیا ہے اس نے نکاح نامہ فرحانہ کے سامنے کیا.. تمہارا اور شاہ میر کا نکاح ہو رہا ہے اور کیا؟ امی میرا نکاح تو بلال سے ہونا تھا، اس نے کانپتی آواز میں پوچھا.. حیات تمہارا اور بلال کا رشتہ اسی دن ختم ہو گیا تھا جس دن تم کوما میں گئ تھی وہ کسی بیمار لڑکی کو اپنے گھر کی بہو نہیں بنانا چاہتے تھے..امی مجھے شاہ میر سے ملنا ہے ابھی... حیات نکاح.. امی مجھے شاہ میر سے ابھی ملنا ہے اسے یہاں بلائیں، حیات نے پھر سے کہا.. اگلے چند ہی لمحات میں شاہ میر اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا.. یہ سب کیا تماشا ہے شاہ میر، اس نے نکاح نامہ شاہ میر کے سامنے پھینکا..یہ ہمارا نکاح نامہ ہے حیات.. اس مبارک گھڑ ی کو قبول کر لو پلیز یہ کوئی تماشا نہیں ہے حیات... کیا مسئلہ ہے شاہ چاہتے کیا ہو تم... تم مجھے پاگل کر کے دم لو گے پہلے تم نے میری زندگی کو تماشا بنایا اور اب ایشال کے ساتھ ظلم کرنا چاہتے ہو؟؟؟ حیات غصے اور پریشانی کے عالم میں پاگلوں کی طرح ری ایکٹ کر رہی تھی، حیات میں ایشال سے منگنی بہت پہلے ختم کر چکا ہوں.. واؤ شاہ میر صاحب کیا بات ہے آپ کی، جب چاہا منگنی کر لی اور جب چاہا ختم کر لی.. حیات تم بہت اچھے سے یہ بات بھی جانتی ہو کہ ایشال نے صرف اپنی انا کے لیے مجھ سے منگنی قائم رکھی تھی.. اور اس منگنی کو میں بہت عرصہ پہلے ختم کر چکا ہوں، ایشال کی شادی ایک مہینہ پہلے ہو چکی ہے اس کے کزن ثاقب سے.. چپ صرف اس لئے تھا کیونکہ تم بلال سے منسوب ہو چکی تھی.. لیکن تمہیں اس دیکھ میری زندگی میں صرف تم ہو حیات صرف تم ، ہاں مجھ سے غلطی ہوئی ہے لیکن غلطیاں تو انسان ہی کرتے ہیں ناں مجھے معاف کر دو حیات وہ جھک کر حیات کے پاؤں پکڑنے لگا، حیات دو قدم پیچھے ہوئی، کیا کر رہے ہو شاہ، اپنی غلطی کی معافی مانگ رہا ہوں حیات.. اب صرف معافی ہی مانگتے رہنا ہے یا نکاح بھی کرنا ہے مجھ سے، حیات مسکرائی اور شاہ کو دیکھتے ہوئے وہاں سے چلی گئی.. 


اسے گمان تھا ہزاروں ملیں گے مجھ جیسے 

شکستہ لوٹا تو لپٹ گیا مجھ سے چپ چاپ 


حیات سلیمان بنت سلیمان جاوید آپ کا نکاح شاہ میر احمد ولد نعیم احمد سے بعوض حق مہر شرعی کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟حیات مسکرائی، قبول ہے.. حیات سلیمان بنت سلیمان جاوید آپ کا نکاح شاہ میر احمد ولد نعیم احمد سے بعوض حق مہر شرعی کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟دل و جاں سے قبول ہے.. حیات سلیمان بنت سلیمان جاوید آپ کا نکاح شاہ میر احمد ولد نعیم احمد سے بعوض حق مہر شرعی کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟ قبول ہے دل و جاں سے قبول ہے.. 

حیات دلہن بنی شاہ میر کے کمرے میں بیٹھی، وہی منظر جس کے خواب وہ ہمیشہ سے دیکھا کرتی تھی، شاہ میر اس کے سامنے آ کر بیٹھا اور اسے دیکھ کر مسکرایا.. بہت خوبصورت لگ رہی ہو حیات؟ ہاں وہ تو میں لگ ہی رہی ہوں لیکن میں ناراض بھی ہوں میں اب تک مانی نہیں ہوں.. تو ابھی منا لیتے ہیں، شاہ میر نے ایک بڑا سا  باکس حیات کے سامنے کیا اسے کھولو.. حیات نے وہ باکس کھولا تو اس میں بہت ساری چاکلیٹس کے درمیان اک ڈبی رکھی گئی تھی، حیات نے تجسس سے وہ ڈبی کھولی اس میں مزید دو ڈبیاں تھی، پہلی ڈبی کھولی تو اس میں حیات شاہ میر والا گولڈ کا نازک سا بریسلٹ رکھا تھا، حیات مسکرائی.. ناٹ بیڈ not bad ،اچھا لگا مجھے، شاہ میر نے وہ بریسلٹ حیات کی کلائی میں پہنا دیا، اب حیات دوسری ڈبی کھول رہی تھی اس خوبصورت پیکنگ والی ڈبیا میں ایک خوبصورت گولڈ کا نیکلس تھا جس پر انت الحیات لکھا ہوا تھا.. حیات نے نا سمجھ آنے والی نظر سے شاہ میر کو دیکھا.. انت الحیات کا مطلب ہے تم ہو زندگی.. تمہارے ہونے سے ہی تو زندگی ہے حیات، تم نہیں ہوتی تو جیسے موت کا گمان ہونے لگتا ہے مجھے، تم ہو تو زندگی ہے،میری حیات تو تم سے ہے حیات اس لیے یہ بنوایا.. انت الحیات.. تم ہو زندگی..اور شاہ مجھ سے نہیں پوچھو گے تم میرے لیے کیا ہو.. شاہ نے دل چسپی سے حیات کو دیکھا


تم تو دھڑکنوں میں بستے ہو شاہ... انت تضرب کا مطلب جانتے ہو ..انت تضرب کا مطلب ہے تم ہو دھڑکن.. تم ہو تو حیات ہے ،تم ہو تو سانسیں چلتی ہیں.. تم نہیں تو سب بیکار ہے تمہارے ہونے سے ہی تو چلتا دھڑکنوں کا کاروبار ہے ،انت تضرب.. تم ہو دھڑکن.. سیاہ کانچ کی آنکھوں بھوری آنکھوں سے ٹکرائیں اور عمر بھر کے لیے ان کی ہو کر رہ گئیں....

ختم شد