Janam Saien Novel by Writter RK Full Story - UrduKahaniyanPdf

Janam Saien Novel by Writter RK Full Story - UrduKahaniyanPdf




ناول : جانم سائیں  

قسط نمبر 1 

از قلم 

آر کے 

°°°°° 

  اس بڑی سی  حویلی میں دو خاندان آباد ہیں ایک ریعان سائیں (جو چھوٹا سرکار ہے ) کی فیملی اور دوسری سکندر سائیں (جو اسکا بڑا بھائی ہے)کی ۔۔ ریعان سائیں  کی ایک بیٹی رخماء اور دوسری حوریہ  ہے  رخماء اور حوریہ  جب چودا سال کی تھیں تب انکے والدین کا انتقال ہو جاتا ہے مگر انکی چچی جنہیں سب اماں سائیں کہتے ہے انہوں نے دونوں کو بہت پیار سے رکھا انکی ہر خواہش پوری کی  کیونکہ حوریہ پڑھائی کو لے کر اپنی لائف میں بہت سیریس رہتی تھی اس لیے وہ امریکہ پڑھنے چلی گئی جبکہ اسکی یہ خواہش بھی اماں سائیں نے پوری کر دی تھی ۔۔  اور دوسری انکے بڑے بھائی سکندر سائیں  جنکے دو بیٹے ایک بڑا دلاور سائیں اور چھوٹا حاشر سائیں ۔ ان دونوں بھائیوں میں بہت پیار ہے یہ دونوں ایک دوسرے کی جان ہے  جبکہ انکی اماں سائیں نہایت سخت شخصیت کی مالک تھی  اس بڑی حویلی  نما گھر کی  وہ بڑی تھی  یہاں پر سب انہیں اماں سائیں کہتے تھے اس گھر پر مانو کہ انکی چلتی تھی اور اگر کوئی انکے کیے فیصلوں کے خلاف جانے کی کوشش بھی کرتا تو اسے بہت سخت سزا ملتی تھی ۔۔۔   وہ اپنے گرد بڑی سی شال اوڑھے سیڑھیاں عبور کر رہی تھی جبکہ ہال میں ایک عورت زمین پر بیٹھی رو رہی تھی مگر جب اماں سائیں کو نیچھے آتے  دیکھا تو بھاگ کر انکی طرف آئی 


 اماں سائیں  ہماری مدد کریں خدا کا واسطہ ہے دوسرے گاؤں کے سردار نے ہماری ساری زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ہمیں گھر سے نکالنے کی دہمکیاں دیں رہے ہے یہاں تک کہ  انہوں نے ہماری اپنی ماؤں اور بہنوں کی عزت کو نقصان پہنچانے کی بھی دہمکیاں دی ہے  ہم اپنے گھر پر محفوظ نہیں ہے ۔خدا کا واسطہ ہے  اماں سائیں  ہمیں ان شیطان لوگوں سے بچا لیں ۔۔ 

وہ اپنے ہاتھ جوڑے اسے مدد مانگ رہی تھی  جبکہ اسکی باتیں سن اماں سائیں کو بہت غصہ آیا کیونکہ کیسی بھی دوسرے گاؤں کے سردار کی اتنی ہمیت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس گاؤں کے لوگوں کے ساتھ کچھ بھی  برا کرے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر ایسی ویسی کوئی بھی بات اماں سائیں تک پہنچ جائے تو پھر اس شخص کا کیا حال ہوتا ہے 


رونا بند کر۔۔۔ اے پاگل عورت۔۔ ابھی ہم زندہ ہے ہم دیکھتے ہے کہ کس میں اتنی ہمت ہوئی ہے کہ وہ ہمارے گاؤں کے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیں اور ان سب سے بڑھ کر کوئی ہمارے گاؤں کی عورت پر غلط نظر ڈالے ۔۔ 

اماں سائیں نہایت سخت لہجے میں بولی تھی جسکی وجہ سے یہ اس عورت نے رونا بند کیا 


آپ کچھ کرو اماں سائیں ہمارا اس طرح سے گزارا نہیں  ہے ان لوگوں سے کہو کہ ہماری زمینیں واپس کر دیں  

اس عورت کی یہی رٹ سن اماں سائیں کو غصہ آنے لگا  

ٹھیک ہے تم جاؤ اپنے گھر ہم دلاور سائیں سے کہہ کر تماری زمینوں کا کچھ کرواتے ہے اور اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہم دیکھ لیں گے ان لوگوں مگر ۔۔تم ابھی اپنے گھر جاؤ بچے انتظار کر رہے ہوگے جاؤ  

اماں سائیں نے اپنا رخ ہال میں موجود صوفے کی طرف کیا اور جا کر بیٹھ گئی جبکہ اب یہ عورت انکے پاس آتی انکے قدموں میں بیٹھ گئی اور دوبارہ سے ہاتھ جوڑنے لگی 


کرم ہو اماں سائیں ۔۔ اپنے ہماری بہت بڑی مشکل آسان کر دی الله کرم کریں اس حویلی پر ۔۔ 

وہ اپنی دعاؤں سے اماں سائیں کا شکریہ ادا کر رہی تھی  

ٹھیک ہے بس بس ۔۔ اب تم جاؤ ۔۔ 

اماں سائیں کے کہنے پر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک نظر ان پر ڈالتی وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ اسکے جانے کے بعد اماں سائیں اپنے پاس کھڑی ملازمہ سے مخاطب ہوتی ہے 


دلاور سائیں کدھر  ہے صبح سے نہیں دیکھا میں نے 

اماں سائیں کے سوال پر ملازمہ نے سر جھکائے جواب دیا  

اماں سائیں وہ حاشر سائیں کے ساتھ دوسرے گاؤں کے سردار کو ملنے گے ہیں کیونکہ آپ سے ملاقات کے پہلے وہ دلاور سائیں سے مل چکی تھی اور اپنی پریشانی برا چکی تھی اس لیے دلاور سائیں اور چھوٹے سائیں دوسرے گاؤں گئے ہوئے ہے  

ملازمہ کی بات سن اماں سائیں تھوڑا سا خیران تو ہوئی تھی کہ دلاور ایسے کیسے بنا کچھ بتائے دوسرے گاؤں چلا گیا تھا مگر پھر وہ اپنے ان خیال کو جھٹک دیتی ہے  

جب وہ دونوں آئے تو انہیں میرے کمرے میں آنے کا کہنا  ۔۔۔اور ہاں  وہ رخماء کو بولو کہ آج یونیورسٹی سے چھٹی کر لیں کیونکہ آج حوریہ کی پاکستان میں واپسی ہے اس لیے میں چاہتی ہوں کہ اس حویلی کو شاندار پھولوں سے سجایا جائے اسکے واپس آنے کی خوشی میں اس حویلی کے ہر ملازم میں پانچ پانچ ہزار بانٹ دیئے جائے اور خیال سے رات کے کھانے میں حوریہ کی پسند کے کھانے بنے ہونے چاہیں ۔۔ 

اماں سائیں اپنا حکم سنا رہی تھی جس پر ملازمہ نے سر جھکائے عمل کیا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ اسکے جانے پر ہی رخماء تیزی سے سیڑھیاں عبور کرتی بہاری سانسیں کرتی انکے پاس آئی اور انہیں بازوں سے پکڑتی کھڑا کرتی انکے گلے ملتی ہے 


اماں سائیں آج آپی واپس آرہی ہے آپ کو پتا ہے 

میری ابھی ان سے بات ہوئی ہے وہ کہہ رہی تھی کہ انہوں نے آپ کو سب سے پہلے بتایا تھا اپنے واپس آنے کا مگر آپ نے مجھے نہیں بتایا کیوں۔ ۔۔ مگر خیر میں تو بہت ہی بہت زیادہ خوش ہوں کہ میری بہن واپس آرہی ہے  

اسکے چہرے سے خوشی صاف جہلک رہی تھی کہ وہ اس وقت کس قدر خوش ہے 


میں تو تمہیں بتانے ہی والی تھی مگر حوریہ نے منا کیا تھا کہ وہ خود تمہیں بتائے گی مگر خیر چھوڑو یہ بتاؤ کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں یا پھر یونہی بھوکے پیٹ خوشی سے پاگل ہوتی جا رہی ہوں  

نہیں اماں سائیں مجھے تو بھوک زرا سی بھی نہیں لگی میں تو بہت خوش ہوں آپی کے آنے پر۔ ۔ اس لیے میں تو جا رہی ہوں کیچن میں آپی کی پسند کی بریانی بنانے ۔۔ 

رخماء اپنی بات مکمل کر اپنا رخ کیچن کی طرف کرتی ہے جبکہ اماں سائیں صوفے پر بیٹھتی نفی میں سر ہلاتی ہے ۔۔۔ 

°°°°°° 

تمہیں اچھے سے معلوم ہے سرکار کہ ہمارے گاؤں کے لوگوں کو اگر ذرا سی بھی پریشانی ہو تو ہم اس پریشانی کی جڑ ہی کاٹ دیتے ہے تم نے جس عورت کی زمین پر قبضہ جمایا ہوا ہے اسکی زمین کو چھوڑ دو کیونکہ یہی اچھا ثابت ہوگا تمہارے لیے ۔۔ 

دلاور نہایت سخت اور رعب دار لہجے میں بولا جبکہ سامنے موجود شخص تھوڑا سا چونکا 


اور تم بھی اچھے سے جانتے ہو دلاور سائیں کہ جس چیز پر ہمارا دل آ جائے وہ ہمیشہ کے لیے ہماری ہو جاتی ہے ۔۔۔ 

 وہاں پر موجود حاشر جو کب سے اس شخص کی خڈ دہرمی دیکھ رہا تھا  کہ وہ زمین نہیں چھوڑے گا  اسکی باتیں سن حاشر کا پارا ہائی ہوا اس  نے فوراً سے اٹھ کر اسکی قمیض کا کالر پکڑ لیا  

جب دلاور سائیں کہہ رہا ہے کہ اسکی زمین چھوڑ دیں تو بات سمجھ میں نہیں آتی  کیا تجھے 

حاشر انچی آواز میں بولا  

چھوڑو مجھے ۔۔ 

وہ اپنے کالر کو آزاد کرواتا بولا جبکہ حاشر اسکے کالر کو چھوڑتا سرخ آنکھوں سے اسکی طرف دیکھتا ہے  

اگر ہم چاہے تو تیرے گھر میں ماتم کا ماحول بنا سکتے ہے مگر ہم نے کبھی ایسا کرنا سیکھا ہی نہیں مگر اگر تو ابھی بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو پھر مجھے یہ بھی کرنا ہوگا اور ایک بات یاد رکھنا سرکار حاشر سائیں کیسی سے نہیں ڈرتا ۔۔ 

وہ اسے خوف میں مبتلا کر گیا تھا جبکہ وہ اسکی باتیں سن فوراً سے بول پڑا  

ایسا مت کرنا ہم چھوڑ دیں گے اسکی زمین تم بس ہمارے گھر والوں کو کچھ مت کہنا ۔۔ 

وہ ڈرے ہوئے لہجے میں بولا جبکہ دلاور اٹھ کھڑا ہوا اور اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ ایسے جھاڑا جیسے دھول لگی ہو ۔۔


بہت اچھے سرکار جو کہا ہے ویسا کر کے بھی دیکھانا وارنہ جیسا ہم نے کہا ہے ہم بھی وہ کر کے دیکھائے گے ۔۔


دلاور اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھ تھپتھپی دیتا ہے جبکہ اب حاشر اسکا کالر چھوڑتا ہے مگر پھر دلاور نے  ایک نظر اس دارے پر ڈالی اور اپنا رخ باہر کی طرف کیا جبکہ اسکے پیچھے حاشر چل رہا تھا ۔۔۔ 

وہ اپنی جیپ کے پاس آتے اس میں بیٹھ گے جبکہ دلاور نے رعب دار آواز میں گاری چلانے کو کہا ۔۔


واہ بھائی داد دینی پڑے گی آپکی تو کیا سمجھایا ہے اپنے اس کو ۔۔ 

حاشر دلاور کو دیکھتے خوش ہوا جبکہ وہ اسکی بات کا آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا بلکہ مسکرا دیا تھا 


تم سناؤ انتسام کیسی جا رہی ہے زندگی اگر کوئی مسئلہ پیش آئے تو ہمیں بتا دیا کرو بلآخر تم جانتے حاصل ملازم ہو ۔۔۔ 

 سائیں سرکار سب ٹھیک ہے ۔ بہت کرم ہے آپکا ۔۔۔ 

انتسام گاڑی کا ہینڈل گھماتا ہے جبکہ سامنے سے اچانک ایک لڑکی آ جاتی ہے مگر پھر انتسام جیسے تیسے کر گاڑی کو روک لیتا ہے ۔۔


میں دیکھ کر آتا ہوں سائیں سرکار ۔۔۔ 

انتسام  فوراً سے گاڑی سے باہر نکلتا ہے اور اس لڑکی کے پاس جاتا ہے جبکہ وہ زمین پر أمندے منہ بیٹھی اپنی بازو کی کونی کو سہلا رہی تھی ۔۔ 

ارج تم یہاں پر کیا کر رہی ہو اور کہی لگی تو نہیں ۔۔۔ 

انتسام ارج کو یہاں پر دیکھ کر خیران ہوا تھا جبکہ وہ بچاری اپنے بازو کو دیکھ دیکھ کر رونے والی شکل بنا لیتی ہے ۔۔۔ 

بھائی کیا آپ دیکھ کر نہیں چلا سکتے تھے گاڑی کو دیکھے کتنی چوٹ لگی ہے ۔۔۔ 

ارج آٹھ کھڑی ہوئیں تھی جبکہ اسکے کھڑے ہونے پر دلاور کی نظر بے اختیار اس پر پڑی اور بس دلاور تو آنکھیں ٹکائے اسے ہی دیکھنے لگا جبکہ ساتھ بیٹھا حاشر اسکی طرف دیکھتا خیران تھا مگر پھر موقع محل دیکھ کر مسکرا دیا ۔۔۔۔ 

جاری ہے  ۔۔۔


New novel

ناول : جانم سائیں 

قسط نمبر:2 

از قلم 

آر کے 

°°°°°° 

چلو چھوڑو یہ بتاؤ کہی لگی تو نہیں ہائے یہ تو خون بہہ رہا ہے  

انتسام ارج کا بازو پکڑتا اسے دیکھتا ہے جبکہ اب دلاور سائیں ارج کو دیکھنی کی غرض سے گاڑی سے باہر نکلتا ہے ۔۔ وہ پٹیالہ شلوار اور شارٹ کرتے میں تھی جبکہ اسکے بالوں کی چھوٹیاں بنی ہوئی تھی سر پر ڈوبٹا نہیں تھا کیونکہ وہ نیچھے گرنے کی وجہ سے پھسل گیا تھا اسکی آنکھیں بلکل گہنی  سیاہ کالی تھی جبکہ رنگ گاؤں میں رہ کر بھی شہریوں جیسا  تھا جبکہ دوسری طرف دلاور سائیں کالی رنگ کی قمیض اور شلوار میں ملبوس تھا جبکہ قمیض کے اوپر گولڈن کلر کی بہت مہارت سے کڑہائی کی ہوئی تھی پاؤ میں کالے رنگ کی کھیڑی تھی جبکہ اسکی مونچھیں ساہ رنگ کی ہونے کی وجہ سے  اسکے سفید چہرے کو اور دلکش بناتی تھی ہاتھ پر بیش  قیمتی ساہ  رنگ کی گھڑی تھی۔ وہ جب بھی سیاہ رنگ کا جوڑا ڈالتا تو گاؤں کی سبھی لڑکیوں کو تو پیچھے رہنے دو حویلی کی ملازمہ تک کا دل میلہ کر دیتا ۔ مگر اسکا غصہ اور سخت لہجہ ان سب کا دل صاف کر دیتا ۔۔


کیا ہوا ہے۔۔۔۔ انتسام ۔۔۔۔۔۔یہ کون ہے ؟!؟ 

دلاور ارج پر نظریں گاڑے انتسام سے پوچھتا ہے جبکہ اب گاڑی میں بیٹھا حاشر بھی تجسس سے انکی باتیں سننے لگ جاتا ہے جیسے  اسکو یہ سب بہت مزے کا لگ رہا ہو ۔۔


سائیں سرکار یہ میری چھوٹی بہن ہے  اسکا نام ارج ہے ۔  

وہ دلاور کی طرف نظریں کر دیکھ جواب دیتا ہے 

میرے خیال میں تو تمہاری ایک ہی بہن تھی ؟!؟ میرب ۔۔ پھر یہ ؟!؟ 

دلاور کی بات سن ارج کافی خیران ہوئی کیونکہ وہ پوچھ ہی بہت دلچسپ انداز میں رہا تھا  

نہیں سائیں سرکار  یہ مجھ سے چھوٹی ہے اور میرب  سے بڑی  ۔۔ 

دلاور اپنی آنکھیں چھوٹی کرتا اسے بڑے ہی غور سے دیکھتا ہے جبکہ ارج فوراً سے اپنے سر پر ڈوبٹا لیتی ہے  

کافی پیارا نام ہے ۔۔۔ اررج ۔۔۔ 

دلاور کے منہ سے ارج کو اپنا نام سنا بہت ہی عجیب لگ رہا تھا کیونکہ وہ اسکے نام کو طویل کر چکا تھا


بب۔۔ بھائی میں چلتی ہو اماں میرا انتظار کر رہی ہو گی ۔۔ 

ارج دلاور کی نظروں سے اوجھل ہو نے کی غرض سے کہتی فوراً  وہاں سے جانے کی بات کر گئی اور بنا انکا جواب سنے  وہاں سے بھاگنے لگی  

روکو ۔ دلاور اسے پچھے سے آواز دیتا روکتا ہے ۔۔ 

جج جی ۔۔ کیا ہوا ہے سائیں سرکار۔۔۔ 

ارج نے ڈر کھاتے وہی روک کر پیچھے دیکھے جواب دیا جبکہ اب دلاور دو قدم آگے بڑھتا اسکے پاس آتا ہے ۔۔۔ 

تم ہم سے ڈر کیوں رہی ہو جیسے ہم نے تمہیں کوئی سزا سنانی  ہو اور ایسے بھاگ کیوں رہی تھی ۔۔؟!؟ 

 نن ۔ نہیں سائیں سرکار وہ تو ۔۔۔؟


وہ بولتے بولتے روکی کیونکہ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا بات کرے ۔۔


ہمیں سائیں سرکار نا  کہو تم ہماری عمر کے برابر ہو اس لیے ہمیں نام سے بولا سکتی ہو ۔۔۔ 


دلاور اسے اپنی باتوں سے یہ سمجھا  رہا تھا کہ وہ اسکے منہ سے سائیں سرکار نام سنا پسند نہیں کرتا تھا مگر کیوں۔۔۔ یہ بات اب ارج کو کافی خیران کر رہی تھی تبھی وہ ایک نظر دلاور پر ڈالتی ہے جو ابھی بھی بس اسے ہی آنکھیں چھوٹی کر دیکھ رہا تھا مگر جب ارج نے دیکھا تو چہرے پر یک طرفہ مسکراہٹ لے آیا ۔۔۔ 

مجھے جانا ہے اماں میرا انتظار کر رہی ہو گی ۔۔۔


ارج اسکی بات کا  کوئی جواب نا دیتی وہاں سے بھاگ گئی جبکہ انتسام اور حاشر انہیں دونوں پر نظریں ٹکائے دیکھ رہے تھے  

 انتظار تو ہم بھی کرے گے اب تمہارا جانم سائیں۔۔۔


دلاور خود سے محاطب ہوتے بڑبڑا ۔۔۔  

°°°°°° 

اماں سائیں آپی کی فلائٹ لینڈ کر چکی ہے ۔۔۔ہائے میں تو بہت خوش ہوں بہت مزا آئے گا ۔۔ 

رخماء تیزی سے سیڑھیاں عبور کرتی اپنی سانسیں تیز کر چکی تھی مگر جب سامنے اماں سائیں کو ملازم سے بات کرتے دیکھا تو بھاگ کر انکے ہاتھوں کو تھامتی ہواؤں میں تیز تیز چکر لگانے لگی ۔۔۔


چھوڑ احمق لڑکی جان لے گی کیا اپنی اماں سائیں کی  کچھ شرم کر اپنی بوڑھی اماں سائیں کو مارنا چاھتی ہے پاگل ۔۔۔ 

اماں سائیں اسے روکتی غصہ کرنے لگی کیونکہ وہ چکر کے چکر میں اب اماں سائیں کا بھی حال برا کر چکی تھی ۔۔۔ 

اوہ ہو اماں سائیں آپ کو تو آج پھر سے جوان ہو جانا چاہے آپکی بیٹی جو آرہی ہے اور ویسے بھی اب آپ کو  ان چکروں کا عادی ہو جانا چاہے کیونکہ میں ایک اور چکر لگانے لگی ہو اور بھی آپ کے ساتھ ۔۔۔


رخماء پھر سے اماں سائیں کا ہاتھ پکڑ چکر لگانے لگی جبکہ اب اماں سائیں نے سختی سے اسے منا کیا  

بس  کر دے پاگل لڑکی تو اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی مارے گی اب چھوڑ مجھے ورنہ تیری خیر نہیں ۔۔۔ 

اماں سائیں نے اپنا ہاتھ چھڑوا تے  کہا ۔۔۔  

ارے اماں سائیں آپ تو غصہ ہی ہو گئی ہے پتا نہیں ہمارے سائیں سرکار اپکا غصہ کیسے سہہ جاتے تھے بچارے ۔۔۔  

رخماء اپنی بتیسی نکال کہتی ہے جبکہ اسکی بات اماں سائیں کو اچھی خاصی کہر  میں ڈال گئی ۔۔۔


بہت بتمیز ہو گئی ہے تم جو منہ میں آتا ہے بس بول دیتی ہے ۔۔اماں سائیں صوفے پر بیٹھی اپنا سانس بھال کر رہی تھی۔۔ 

رخماء اپنی بات مکمل کر وہاں سے بھاگی ہی تھی کہ سامنے سے دلاور اور حاشر نظر آئے تبھی وہ انکے پاس آتی ہے ۔۔۔ 

اسلام و علیکم میرے بڑے سے بورنگ سے بھائیوں آپ  دونوں کو کچھ خبر بھی ہے کہ اس حویلی میں کیا ہو رہا ہے ۔۔۔  

رخماء کی بات سن دونوں نے پہلے تو وسلام میں جواب دیا پھر اسی سے  پوچھنا چاہا کہ کیا ہو رہا ہے 


کیوں کیا ہوا ہے آخر ۔۔۔جو اس طرح سے اماں سائیں کو چکر پے چکر کھلا رہی ہو اور خود کا سانس بھی پھلا رکھا ہے ۔۔۔ 

دلاور نے تو وہی کھڑے پوچھا مگر حاشر ان دونوں کو اکیلا چھوڑ اماں سائیں کے پاس جا کر انکے ساتھ بیٹھ جاتا ہے  

 واہ جی واہ دیکھ رہی ہے اماں سائیں آپ کہ ان دونوں کو میری بڑی بہن کی کچھ خبر ہی نہیں کہ آج وہ واپس پاکستان آرہی ہے ۔۔۔۔


کیا حوریہ  آرہی ہے اففف اللہ وہ تو پوری حویلی کو سر پر اٹھا لیتی تھی بچپن میں اب پتا نہیں کس کو اٹھائے گی سر پر کرنا سکون تھا اس حویلی میں مگر اب سب جانے والا ہے حوریہ کی آمد پر ۔۔


حاشر رخماء کی بات سن فوراً سے بول پڑا مگر اسکی بات رخماء کو تیش دے گئی جسے دیکھتا  دلاور رخماء کے کندھوں پر ہاتھ پھیلاتا اسے اپنے ساتھ لگاتا ہے ۔۔۔۔


ارے میری چھوٹی سی جان ہمیں پتا ہے کہ آج حوریہ واپس آرہی ہے وہ تو بس حاشر تم سے نوک جھونک کرتا رہتا ہے تمہیں پتا تو ہے کہ کتنا تنگ کرتا ہے سب کو اور کیسا ہے یہ ۔۔۔


آپ ٹھیک کہہ رہے ہے بھائی یہ ہے ہی بہت برے مگر خیر آپی  نے کہا ہے کہ جس نے بھی مجھے لینے آنا ہے اسے  ایئرپورٹ پر بھیج دے تاکہ میں گھر آ جاؤں


رخماء کے کہنے پر دلاور نے فوراً سے حاشر کی طرف دیکھا جس کا مطلب حاشر اچھے سے سمجھ گیا تھا 

بھائی ایسے کیوں دیکھ رہے  ہے میں نے نہیں جانا میں ابھی  تھکا ہارا  آپ کے ساتھ  آیا ہوں تو میں اس کو کیوں لینے جاؤں  وہ آجائے گی آپ کسی ڈرائیور کو بھیج دیں  پلیز ۔۔  

حاشر کی بات سن رخماء ہنسی نا روک سکی 


اب تو تم ہی جاؤ گے حوریہ کو لینے اس لیے اب جاؤ وہ کیا سوچتی  ہو گی کہ اس کے گھر آنے کی خوشی کیسی کو بھی نہیں میں نہیں چاہتا کہ تمہارے نا جانے پر تمہیں سزا دو اس لیے اب جاؤ کوئی بہانا نہیں۔۔۔ 

دلاور سخت لہجے میں بولا جبکہ اب حاشر صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا وہ اپنا  رخ باہر کی طرف کرتا جانے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے رخماء نے اسے آواز دیں ۔۔۔


حاشر بھائی اگر آپی اپکو پہچان نا سکی تو اپنے گھبرا نہیں کیونکہ اب تو مجھے بھی کبھی کبھی آپ کوئی اور ہی مخلوق سے آئے لگتے ہے ہاہاہا ۔۔


رخماء کی بات سن دلاور اپنی ہنسی نا روک سکا تبھی وہ رخماء کا ساتھ دیتا ہنسنے لگا ۔۔۔ جبکہ حاشر غصیلہ بنا وہاں سے باہر چلا آیا ۔۔۔ 


آنے دو اس حوریہ کو کیا سمجھا ہوا ہے ان سب نے مجھے کہ میں حاشر سائیں اسکا ملازم ہو جو اسے ایئرپورٹ لینے جاؤ ۔۔  

وہ غصے سے گاڑی کا دروازہ کھول اندر بیٹھتا ہے جبکہ اب ملازم گاڑی اس حویلی سے باہر نکال چکا تھا  ۔۔۔۔ 

جاری ہے۔۔۔

ناول :جانم سائیں  

قسط نمبر: 3 

تحریر: آر کے 

°°°°°  

وہ اس وقت ایئرپورٹ کے باہر کھڑا حوریہ  کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ نجانے کب آئے گی کیونکہ اسے یہاں آئے ہوئے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا وہ کافی بیزاری سے یہاں کھڑا تھا ایک تو  اسے یہاں زبردستی بھیجا گیا تھا اور اوپر سے حوریہ کا بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا  تبھی وہ اپنی بیزاری کو دور کرنے کی غرض سے اپنی جیب سے ایک سرکٹ کی ڈبی نکال ایک سرگیٹ کو جلا کر اپنے ہونٹوں میں رکھ کشش بھرنے لگا ابھی اسنے دو ہی کشش بھرے تھے کہ سامنے سے آتی ایک لڑکی نظر آئی ۔۔ وہ بلیک ٹائٹس اور وائٹ شرٹ پہنے ہوئے تھی بالوں کو ٹل پونی  کی ہوئی تھی ہونٹوں پر ڈارک ریڈ  لپسٹک تھی جبکہ پاؤ میں ہائی ہیل ہونے کی وجہ سے   اسکے قد میں اضافہ ہو رہا تھا   رنگ بلکل کیسی سفید بدام جیسا تھا وہ دیکھنے میں بلکل کیسی ہارٹ فلم کی طرح لگ رہی تھی جسکی وجہ سے حاشر کا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا مگر منہ کھنے کی وجہ سے اسکا سرگیٹ نیچھے زمین پر جا گرا تھا ۔۔ سگریٹ کے گر جانے  کی  بھی حاشر کو کوئی فکر نا تھی  ۔۔۔۔ 

 امریکن لوگ اتنی ہاٹ ہوتے ہے اگر مجھے پتا ہوتا تو میں بھی پڑھنے نا چلا جاتا وہاں پر۔ مگر  ہائے یار کہی یہی تو حوریہ نہیں اگر ایسا ہے تو ضرور میری طرف ہی آئے گی اگر ایسا ہوا تو میری قسمت۔مگر پلیز اللّٰہ یہ حوریہ ہی ہو ۔۔۔ 

حاشر دل میں دعا گو تھا ۔۔ جبکہ وہ لڑکی اسی کی طرف آرہی تھی ۔۔۔ 

حویلی سے آئے ہو ۔۔اماں سائیں نے بھیجا ہے ؟!؟  آئی گیس ۔ 

حوریہ سوال کرتے پوچھتی ہے جبکہ حاشر سر کو تیزی سے ہلاتا جواب دیتا ہے ۔۔۔ 

کہیں آپ حوریہ تو نہیں ۔۔۔  

حاشر کنفرم کرنے کے لئے پوچھتا ہے ۔۔۔ 

یس یو آر ایٹ آئی ایم حوریہ ویسے باقی سب کدھر ہیں  کیا وہ مجھے لینے نہیں آئے مگر خیر کوئی بات نہیں تم ایک کام کرو کہ یہ سارا سامان گاڑی میں رکھوا دو  میں بہت تھک گئی ہوں ۔ 

حوریہ اسے اپنا سوٹ کیس پکڑاتی وہاں سے چلی گئی جبکہ اسکا ایسے کرنا حاشر کو تیش دیں گیا تبھی وہ سوٹ کیس کو غصے سے پکڑتے اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا  اسنے سوچھا  بھی نہیں تھا کہ یہ ایسی ہو جائے گی امریکہ رہ کر یا پھر شاید رخماء والی بات کہ اسنے اسے پہچانا ہی نہیں تھا ۔۔ 

اوہ ہیلو تم اس گاڑی میں کیوں بیٹھو گے جاؤ جاکر پچھلی گاڑی میں بیٹھو پتا نہیں اماں سائیں نے کن کن   نمونوں کو حویلی میں رکھا ہوا ہے کہ مالک کے ساتھ بیٹھے گے ۔۔۔  

حاشر جو گاڑی میں بیٹھنے ہی والا تھا اسے پہلے حوریہ نے اسے روکا مگر باتیں اس طرح سے سنائی کہ جیسے حاشر واقعے میں ملازم ہو۔۔ 

اوہ ہیلو میڈم میں حاشر سائیں ہوں کوئی ملازم شازم نہیں جو پچھلی گاڑی میں بیٹھو اور اگر آپ کو کوئی بھی مسئلہ ہے تو آپ جاسکتی ہے واپس امریکہ جہاں سے آپ آئی ہے ۔۔۔ 

حاشر اسے ہی سنانے لگ جاتا ہے ۔۔ حوریہ کو بھی ابھی ہی پتا چلا تھا کہ یہ حاشر ہے اسے تھوڑی سی شرم تو آئی تھی مگر جب اسنے حاشر کے منہ سے بے لگام باتیں سنی تو فوراً سے شرم کہی بھاگ گئی اب اسے بھی برا لگا تھا ۔۔۔ 

مجھے تو پہلے ہی پتا  تھا کہ تم ویسے کے ویسے ہی ہو گے وہی بتمیزی وہی اکڑ جو تم میں پچپن میں تھی ۔۔۔  

حوریہ بھی اب کیسی سے کم نہیں بولی تھی ۔۔ 

تو تم کو کوئی مسئلہ ہے میرے ایسا ہونے سے  

بڑی آئی ۔۔ حاشر بڑبڑایا مگر اسکے برعکس اب حوریہ چپ چاپ گاڑی میں آکر بیٹھ گئی جبکہ حاشر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ۔۔۔ 

اسنے ایک نظر اس پر ڈالی تھی جو باہر دیکھنے میں مصروف تھی یا پھر شاید وہ حاشر کو نظرانداز کر رہی تھی 

°°°°°  

کیا ضرورت تھی اکیلی گھر سے باہر جانے کی اور اگر جانا بھی تھا تو میرب کو ساتھ لے جاتی کم از کم مجھے  تسلی تو رہتی اب دیکھو چوٹ لگا کر آ گئی ہو ۔۔۔ تم سے زرا بھی اپنا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ 

شگفتہ بی ارج کو اچھی خاصی سنا رہی تھی اور ساتھ ساتھ اسکے منہ میں نوالے بنا کر ڈال رہی تھی کھانے کے ۔۔ 

اماں کیا ہو گیا ہے اپکو اس میں میری کوئی  غلطی نہیں آپ بھائی کو ڈانٹو مجھے نہیں کیونکہ وہ گاڑی چلا رہے تھے ۔۔۔ 

ارج  نوالا نگلتی  منہ کھولتی ہے جبکہ اب وہاں پر انتسام بھی آگیا تھا ۔۔ 

تو تم کو دیکھ کر چلنا چاہیے تھا مگر خیر چھوڑو اب کیسی ہو اور وہ سائیں سرکار کیا کہہ رہے تھے تم سے ۔؟!؟۔۔ 

انتسام چار پائی پر بیٹھتے بولتا ہے مگر اسکی بات ارج کو دلاور سائیں کی یاد دلا گئی جسکو خیال سے نکالنا نا ممکن ہو گیا تھا ۔۔ نجانے انتسام کو یہ سوال کب سے کھٹک رہا تھا ۔ کہ دلاور سائیں نے اسے کیا پوچھا تھا ۔ 

میں کچھ پوچھ رہا ہو ارج تم سے ۔۔ 

انتسام کی آواز ارج کو واپس خوش کی دنیا میں لائی ۔ 

نن۔۔نہیں ۔۔ بھائی ۔ ۔۔ کچھ بھی نہیں تو ۔۔۔ 

وہ ہڑبڑا کر بولی تھی ۔۔ 

وہ بس گھر والوں کا پوچھ رہے تھے ۔  

ارج کی بات انتسام کو مطمئن کر گئی۔  

 ٹھیک ہے اچھا یہ بتاؤ یونیورسٹی کیسی جا رہی ہے تمہاری سب ٹھیک تو ہے کیسی چیز کی کمی تو نہیں ۔؟!؟ 

انتسام نے چار پائی پر پڑی چنگیر سے روتی کا نوالا بنا کر منہ میں رکھا ۔ ۔ 

نہیں بھائی کیسی چیز کی ضرورت نہیں ۔۔۔ الحمدللہ سب ٹھیک ہے۔ اب میں چلتی ہوں مجھے بہت کام ہے کرنے والا۔ 

ارج اپنی بات کے مکمل ہونے پر وہاں سے چلی گئی جبکہ اسکا جانے کا مقصد صرف ایک ہی تھا اور وہ صرف دلاور کا کوئی ذکر نہ کرے یا پھر وہ اسکو تنہا یاد کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ 

°°°°° 

 رات کے آٹھ بجے گاڑی  ایک شاندار حویلی کے سامنے آ روکی تھی  اس حویلی کی سجاوٹ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ کیسی پی آم نے آج یہاں پر آنا تھا مگر وہ پی آم حوریہ تھی ۔۔ ہر طرف رنگ برنگی لائٹس تھی پھولوں کا مہارت سے استعمال کیا گیا تھا دل جو لبھانے والی خوشبو چارو طرف تھی ۔۔۔  

اماں سائیں دیکھے کون آیا ہے  ۔ 

حاشر گاڑی سے ابھی نکالا ہی تھا کہ سامنے ہال میں کھڑے دلاور ۔ رخماء اور اماں سائیں تھیں جو شاید اسکا ہی انتظار کر رہے تھے  رخماء تیزی سے آتی حوریہ کو گلے سے لگا لیتی ہے ۔۔۔ 

آئی مس یو سو مچ آپی جی ۔۔  

آپ کو کیا کبھی بھی میری یاد نہیں آئی تھی ؟!؟ 

رخماء اسکے گال چومتے گلا کرنے لگی ۔۔  

میری پیاری بہن یاد تو میں نے بھی بہت کیا تھا آپ سب کو مگر کیا کر سکتے تھے آخر مجبوری تھی۔۔۔باقی پڑھائی کیسی جا رہی ہے ۔۔  

فٹ فاٹ جا رہی ہے باقی آپ کی کیسی رہی امریکہ میں سڈی میں نے سنا تھا کہ وہاں پر بہت ہی پیارے پیارے لڑکے تھے آپکی کلاس میں ۔۔ 

ہاں تھیں تو اگر تم کہتی تو ایک عدد تمہارے لیے کے آتی اب چلو اماں سائیں سے بھی ملنا ہے آتی ہی تمہاری فرمائشیں شروع ہو گئی ہے ۔۔۔ 

حوریہ رخماء کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی مگر جب سامنے اماں سائیں اور دلاور کو دیکھا تو ان سے پیار وصول کیا کبھی اماں سائیں اسے اپنے گلے سے لگاتی تو کبھی رخماء ۔ سب لوگ بہت خوش تھے حوریہ کی واپسی پر مگر ایک شخص کو اسکی موجودگی بلکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی اور وہ کوئی اور نہیں بلکے پی آم کا ملازم حاشر تھا ۔۔  

*********** 

 واہ رخماء تم تو بہت ہی اچھی شف بن گئی ہو بہت ہی مزے کی ہے بریانی دل خوش کر دیا یار امریکہ میں تو اس بریانی کو میں ترس گئی تھی ۔۔  

حوریہ بریانی کھاتی بولی جبکہ رخماء اپنی تعریف سن بہت ہی  خوش ہوئی تھی مگر حاشر اسے دیکھتا فوراً بول پڑا شاید اسکو ہر کام میں ٹانگ اڑانے کی عادت تھی یا پھر یہ عادت صرف حوریہ کے لیے تھی  

نہیں یار اس میں نمک تھوڑا زیادہ ہے دیکھو مجھ سے تو کھانے بھی نہیں ہو رہی ۔۔  

حاشر جان بوجھ کر کہتا ہے ۔ 

مجھے تو نہیں لگ رہا نمک زیادہ پتا نہیں تمہیں کہاں سے ایسا لگ رہا ہے ۔۔۔ 

حوریہ کو کہاں برداشت تھا حاشر کا ایسا کہنا تبھی وہ فوراً سے بولی جبکہ اب حاشر کھانے کو  ختم کرتا ہے  ۔۔۔ 

میں نے کھا لیا ہے کھانا اماں سائیں اب میں سونے جا رہا ہوں ۔۔۔ 

اماں سائیں نے حاشر کو اٹھتے دیکھا تو جانے کی وجہ پوچھنے لگی ۔۔ 

روکو حاشر کھانا تو ختم کرو رخماء نے اتنے پیار سے بنایا ہے پہلے کھانا کھا لو  پھر چلے جانا   ۔۔۔ 

اماں سائیں بہت مزے کی بنی ہے بریانی مگر مجھے نیند آ رہی ہے بہت تھک گیا ہوں صبح  بات ہوگی اب مجھے اجازت دیں اماں سائیں۔۔۔ 

حاشر اپنی بات کے مکمل ہونے پر وہاں سے چلا گیا جبکہ حوریہ کو اسکا اس طرح سے جانا بلکل بھی اچھا نہیں لگا تھا  شاید اسکو حوریہ کی بات پسند نہیں آئی تھی یا پھر کوئی اور وجہ تھی ۔۔۔ 

حوریہ کھانا کھاؤ وہ تو بس اپنی مرضی کا مالک ہے تم کیوں ٹینشن لیتی ہو اسکی عادت ہے ۔۔ 

دلاور حوریہ کو پلیٹ میں چمچ ہلاتے دیکھ رہا تھا کہ کیسے ابھی دو منٹ پہلے تیزی سے کھانا کھا رہی تھی مگر اب چپ ہو گئی ہے اسے وجہ تو معلوم تھی کہ یہ سب حاشر کی وجہ سے ہے ۔۔۔ 

نہیں دلاور بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں بہت مزے کا ہے کھانا واقع میں رخماء۔۔۔ 

حوریہ رخماء کی طرف دیکھ جواب دیتی ہے جبکہ رخماء بھی پر سرار مسکراہٹ سے دیکھتی ہے  

حاشر اپنے کمرے میں آتا بیڈ پر اپنی سیاہ شال پھینکتا لیٹ گیا جبکہ چہرہ اوپر چھت کی طرف تھا ۔۔  

سمجھتی کیا ہے خود کو مجھے باتیں سنائے گی دیکھتا ہوں کہ اب کیسے بچو گی مجھ سے اگر تمہارا جینا  حرام نا کیا تو پھر میرا نام بھی حاشر  نہیں اب بس کل کا انتظار ہے  ۔۔ ہائے امریکن چھپکلی۔۔ ہاہا  

حاشر خودی سے باتیں کرتا ہنس رہا تھا اسکی ہنسی سے یہ تو اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ جو بھی کرے گا وہ حوریہ کے لیے سو فیصد برا ثابت ہو گا اب بس انتظار تھا حاشر کو تو صبح کا ۔۔۔۔ 

°°°°° 

ایسا کیا ہے تم میں کہ یہ دل تمہیں یاد کرنے سے غافل نہیں رہنا چاہتا۔ ہمیں ملے ہوئے صرف چند گھنٹے ہی ہوئے  ہے مگر تم نے میرے دل کو اپنی قید میں کر لیا ہے میں نے آج تک کیسی لڑکی کو اپنے حواسوں پر اتنا سوار نہیں کیا پھر تم میں مجھے ایسا کیا بھا گیا ہے ۔۔ جانم سائیں ۔۔۔ 

دلاور اس وقت حویلی کے ٹیرس پر موجود تھا آنکھوں کے سامنے بار بار ارج کا چہرہ آرہا تھا دل بے چین ہوا پڑا تھا کہیں بھی سکون میسر نہیں تھا ہر طرف بے چینی تھی اسکی آنکھیں اسکا لہجہ اسکی یاد نے پاگل کیا ہوا تھا اس وقت دلاور کو ۔ وہ جو آج تک کیسی لڑکی سے سیدھی طرح بات تک نہیں کرتا تھا پھر یوں۔ کیسی کی نظروں میں قید کیسے ہو گیا ۔ 

یہ مجھے کیا ہو رہا ہے کیوں تمہارا ہی خیال  مجھے پاگل کر رہا ہے ایسے لگ رہا ہے کہ تمہارے بغیر جینے کا کوئی تصور ہی نہیں میں نے اپنی زندگی میں ہزاروں لڑکیاں دیکھی ہے مگر تم ان سب سے الگ ہو اب تو ملنا ہی پڑے گا تم سے جانم کیا معلوم تم بھی ایسی کیفیت میں ہوں ۔ ۔۔۔ 

کیا ہوا ہے بھائی میری طرح اپکو بھی چین نہیں مل رہا اس حویلی میں جو یہاں چھٹ پر آگے ہے آپ ۔۔ اور یہ کس سے ملنے کا پلین بن رہا ہے کہیں اس حویلی میں کوئی آریا ہے کیاااا۔۔ 

اور یہ آپ کس چین وین کی بات کر رہے ہے کہی دل تو نہیں دے دیا  کیسی کو ۔۔ 

حاشر کو نیند نہیں آرہی تھی تبھی وہ سرگیٹ پینے کی غرض سے چھٹ پر جاتا ہے مگر وہاں تو سامنے دلاور نظر موجود آیا وہ اب اسکے سامنے تو سرگیٹ پینے سے رہا تبھی دبے قدموں سے چلتا اسکے پاس آتا ہے  

کوئی نہیں آرہا ۔  اور نا ہی میں نے دل دیا ہے کیسی کو ۔ کچھ بھی نہیں ہوا مجھے اور ہونا بھی کیوں ہے تمہاری طرح حوریہ سے تھوڑی نا ہر وقت لڑتا رہتا ہوں کہ پھر لڑائی کر کے بعد میں یوں نیند نا آنے پر چھتوں کے چکر لگاؤ ۔۔ 

دلاور کے حوریہ کا نام لینے پر حاشر کا موڈ خراب ہو گیا ۔۔۔  

بھائی بس کر دیں  چلے ٹھیک ہے میں حوریہ سے لڑتا ہوں مگر آپ کس کے خیالات میں کھوئے ہوئے تھے بتائے نا کہی وہ ااارررررججج تو نہیں اففف اللہ اب تو بھابی ارج کہنا پڑے گا معاملہ دل دا اے ۔۔  

حاشر نا سمجھیں میں بولا تھا جبکہ اسکی سمجھ دلاور کو اچھے سے آ گئی تھی ۔۔۔  

بکواس بند کر پتا نہیں تیرا دھیان کدھر ہوتا ہے آج کل جو ایسی بے تکی باتیں کرتا ہے خبردار جو اب ایسا کچھ بھی کہا ورنہ ۔۔۔  

دلاور سخت لہجے میں بولا تھا کیونکہ اسے حاشر سے اس بات کی بلکل بھی امید نہیں تھی یا شاید وہ حاشر کے منہ سے سچ سن غصہ کر گیا تھا کیا واقعی میں دلاور اس پر دل ہار بیٹھا تھا ۔۔۔  

ٹھیک ہے یہی پر رہے میں تو چلتا ہوں اپنے کمرے میں کیا پتا نیند ہی آجائیں اور ہاں جو میں نے کہا ہے اس پر تھوڑا سا غور کرنا سائیں سرکار کیا پتا پھر اپکو بھی نیند میسر ہو جائے چین وین والی اور سکون کی ہاہاہا 

وہ آنکھ مارتے کہتا ہے اسکا انداز کافی لطف اندوز تھا مگر تبھی حاشر دلاور کی طرف کمر کرتا سیڑھیوں سے نیچھے چلا گیا جبکہ دلاور اسکی باتوں کی عکاسی کرنے لگا ۔۔۔۔ اسکی کہیں ساری باتیں دلاور کو گھما گئی تھی ۔ اب وہ ان سب کا حل چاہتا تھا جو اسے صرف ارج کے پاس ہی ملے گا کیونکہ وہ اک اور ملاقات کا خواہش مند تھا۔ 

°°°°°° 

ارج بس بہت ہو گیا میں نے اب اماں سے کہنا ہے کہ وہ تمہارے  گھر رشتہ  بھجے آخر کب تک یونہی چلے گا کل کو کوئی بھی اگر رشتہ لے آیا تو تمہاری اماں تو بھاگ کر دیں گی جو میں نہیں چاہتا ۔۔۔ 

طاہر تم صبر نہیں کر سکتے  تھوڑی دیر کے لیے ابھی میری پڑھائی ختم نہیں ہوئی جب تک پڑھائی ختم نہیں ہوتی تب تک اماں میرا کہی رشتہ طے نہیں کرے گی 

ارج اور طاہر اس وقت چھٹ کے بنیرے کے ساتھ ٹیک لگائے باتیں کر رہے تھے جبکہ اب ارج سیدھی ہوتی بیٹھتی ہے ۔۔۔ 

اور کتنا انتظار کرو میں پورے دو سال ہو چکے ہے اب اور انتظار نہیں ہوتا ہم ایک بار شادی کر لیں پھر دیکھنا میں تمھیں پڑھنے سے منا نہیں کرو گا ۔۔ خود چھوڑ کر آیا کرو گا یونیورسٹی۔۔ 

طاہر اسکے قریب آتے بولا مگر ارج اب اپنی ٹھوڈی گھٹنوں پر رکھتے بولی ۔۔۔ 

اچھا ٹھیک ہے بھیج دینا اپنی اماں کو میری اماں کے پاس  آجائیں گا تمہارے دل کو بھی سکون جب وہ صاف صاف کہہ دیں گی کہ ابھی ہم نے ارج کی شادی کا کچھ سوچھا ہی نہیں ۔۔  

ارج بھاری آواز نکال کہتی ہے جبکہ اب کی بار طاہر مسکرا دیا ۔۔  

شادی تو تمہیں کرنی ہی ہوگی ارج اور وہ بھی مجھ سے میں بھی دیکھتا ہو کہ کون انکار کرتا ہے میرے  بھجے رشتے سے ۔۔۔  

طاہر اب اٹھ کہڑا ہوا تھا ۔۔  

جا رہے ہو ابھی ہی ۔۔۔  

ارج فوراً سے بول پڑی تھی  

ہاں اگر جلدی جاؤ گا تو تبھی جلدی آؤ گا تمہیں لینے کے لیے ۔۔ اس لیے اپنا خیال رکھنا اب میں چلتا ہوں  

طاہر ارج کی طرف توجہ سے دیکھتا وہاں سے چلا گیا جبکہ اب ارج بھی چھٹ سے ہوتی نیچھے آئی اور ہال میں بچھی  چار پائی پر آکر لیٹ گئی مگر چہرہ آسمان کی طرف تھا جہاں سے چاند کی روشنی دل کو سکون دیتی تھی ۔۔  

وہ آنکھوں کو بند کرتی لمبا سانس لیتی ہے مگر تبھی  اچانک دلاور سائیں کا چہرہ نظر آیا ۔۔ 

ارج تو ان سے دور ہی رہنا پتا نہیں کیسے انسان ہے مجھے تو انکی شکل سے ہی ڈر لگتا ہے پتا نہیں بار بار میں انہی کو ہی کیوں سوچھ رہی  ہو۔  نہیں اب مجھے  اچھے اچھے سے خواب دیکھنے ہے ۔۔ 

آنکھو کو جھٹ سے کھولتی  ارج خودی سے باتیں کرتی خود کو  تسلی دیں رہی تھی جبکہ اب وہ اپنی  آنکھیں بند کرتی گھری نیند سو  گئی تھی ۔۔۔۔ ایک طرف چاند نے ارج پر روشنی کی ہوئی تھی تو دوسری طرف دلاور پر۔ دونوں کے چہرے روشنی کی تاب سے چمک رہے تھے ۔۔ مگر دلاور ابھی بھی بس ارج کی یاد میں قید تھا۔ یہ کیسا روگ لگنے والا تھا دلاور سائیں کو ۔ جو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا نجانے اسکی محبت کیا کچھ کروا دے گی ۔ طاہر کا ارج کو چاہنا اور دلاور سائیں  کا ارج کو چاہنا ۔ نجانے یہ قسمت کس پر مہربان ہوگی ۔ کس کو ملے گا ارج کا ساتھ عمر بھر کے لیے۔ 

°°°°°

واہ رخماء تم تو بہت ہی اچھی شف بن گئی ہو بہت ہی مزے کی ہے بریانی دل خوش کر دیا یار امریکہ میں تو اس بریانی کو میں ترس گئی تھی ۔۔ 

حوریہ بریانی کھاتی بولی جبکہ رخماء اپنی تعریف سن بہت ہی  خوش ہوئی تھی مگر حاشر اسے دیکھتا فوراً بول پڑا شاید اسکو ہر کام میں ٹانگ اڑانے کی عادت تھی یا پھر یہ عادت صرف حوریہ کے لیے تھی  

نہیں یار اس میں نمک تھوڑا زیادہ ہے دیکھو مجھ سے تو کھانے بھی نہیں ہو رہی ۔۔  

حاشر جان بوجھ کر کہتا ہے ۔۔ 

مجھے تو نہیں لگ رہا نمک زیادہ پتا نہیں تمہیں کہاں سے ایسا لگ رہا ہے ۔۔۔ 

حوریہ کو کہاں برداشت تھا حاشر کا ایسا کہنا تبھی وہ فوراً سے بولی جبکہ اب حاشر کھانے کو ختم کو ختم کرتا ہے  ۔۔۔ 

میں نے کھا لیا ہے کھانا اماں سائیں اب میں سونے جا رہا ہوں ۔۔۔ 

اماں سائیں نے حاشر کو اٹھتے دیکھا تو جانے کی وجہ پوچھنے لگی ۔۔ 

روکو حاشر کھانا تو ختم کرو رخماء نے اتنے پیار سے بنایا ہے  پھر چلے جانا   ۔۔۔  

اماں سائیں بہت مزے کی بنی ہے بریانی مگر مجھے نیند آ رہی ہے بہت تھک گیا ہوں صبح  بات ہوگی اب مجھے اجازت دیں اماں سائیں۔۔۔ 

حاشر اپنی بات کے مکمل ہونے پر وہاں سے چلا گیا جبکہ حوریہ کو اسکا اس طرح سے جانا بلکل بھی اچھا نہیں لگا تھا  شاید اسکو حوریہ کی بات پسند نہیں آئی تھی یا پھر کوئی اور وجہ تھی ۔۔۔ 

حوریہ کھانا کھاؤ وہ تو بس اپنی مرضی کا مالک ہے تم کیوں ٹینشن لیتی ہو اسکی عادت ہے ۔۔ 

دلاور حوریہ کو پلیٹ میں چمچ ہلاتے دیکھ رہا تھا کہ کیسے ابھی دو منٹ پہلے تیزی سے کھانا کھا رہی تھی مگر اب چپ ہو گئی ہے اسے وجہ تو معلوم تھی کہ یہ سب حاشر کی وجہ سے ہے ۔۔۔ 

نہیں دلاور بھائی ایسی تو کوی بات نہیں بہت مزے کا ہے کھانا واقع میں رخماء۔۔۔  

حوریہ رخماء کی طرف دیکھ جواب دیتی ہے جبکہ رخماء بھی پر سرار مسکراہٹ سے دیکھتی ہے  

حاشر اپنے کمرے میں آتا بیڈ پر اپنی سیاہ شال پھینکتا لیٹ گیا جبکہ چہرہ اوپر چھت کی طرف تھا ۔۔  

سمجھتی کیا ہے خود کو مجھے باتیں سنائے گی دیکھتا ہوں کہ اب کیسے بچو گی مجھ سے اگر تمہارا جینا  حرام نا کیا تو پھر میرا نام بھی حاشر  نہیں اب بس کل کا انتظار ہے  ۔۔ ہائے امریکن چھپکلی۔۔ ہاہا  

حاشر خودی سے باتیں کرتا ہنس رہا تھا اسکی ہنسی سے یہ تو اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ جو بھی کرے گا وہ حوریہ کے لیے سو فیصد برا ثابت ہو گا اب بس انتظار تھا حاشر کو تو صبح کا ۔۔۔۔ 

°°°°° 

ایسا کیا ہے تم میں کہ یہ دل تمہیں یاد کرنے سے غافل نہیں رہنا چاہتا۔ ہمیں ملے ہوئے صرف چند گھنٹے ہی ہوئے  ہے مگر تم نے میرے دل کو اپنی قید میں کر لیا ہے جانم سائیں ۔۔۔ 

دلاور اس وقت حویلی کے ٹیرس پر موجود تھا آنکھوں کے سامنے بار بار ارج کا چہرہ آرہا تھا دل بے چین ہوا پڑا تھا کہیں بھی سکون میسر نہیں تھا ہر طرف بے چینی تھی اسکی آنکھیں اسکا لہجہ اسکی یاد نے پاگل کیا ہوا تھا اس وقت دلاور کو  

یہ مجھے کیا ہو رہا ہے کیوں تمہارا ہی خیال  مجھے پاگل کر رہا ہے ایسے لگ رہا ہے کہ تمہارے بغیر جینے کا کوئی تصور ہی نہیں میں نے اپنی زندگی میں ہزاروں لڑکیاں دیکھی ہے مگر تم ان سب سے الگ ہو ۔۔۔  

کیا ہوا ہے بھائی میری طرح اپکو بھی چین نہیں مل رہا اس حویلی میں جو یہاں چھٹ پر آگے ہے آپ ۔۔ اور یہ آپ کس چین وین کی بات کر رہے ہے کہی دل تو نہیں بدل گیا آپکا  

حاشر کو نیند نہیں آرہی تھی تبھی وہ سرگیٹ پینے کی غرض سے چھٹ پر جاتا ہے مگر وہاں تو سامنے دلاور نظر موجود آیا وہ اب اسکے سامنے تو سرگیٹ پینے سے رہا تبھی دبے قدموں سے چلتا اسکے پاس آتا ہے  

کچھ بھی نہیں ہوا مجھے اور ہونا بھی کیوں ہے تمہاری طرح حوریہ سے تھوڑی نا ہر وقت لڑتا رہتا ہوں کہ پھر لڑائی کر کے بعد میں یوں نیند نا آنے پر چھتوں کے چکر لگاؤ ۔۔  

دلاور کے حوریہ کا نام لینے پر حاشر کا موڈ خراب ہو گیا ۔۔۔  

بھائی بس کر دیں  چلے ٹھیک ہے میں حوریہ سے لڑتا ہوں مگر آپ کس کے خیالات میں کھوئے ہوئے تھے بتائے نا کہی وہ ااارررررججج تو نہیں اففف اللہ اب تو بھابی ارج کہنا پڑے گا معاملہ دل دا اے ۔۔  

حاشر نا سمجھیں میں بولا تھا جبکہ اسکی سمجھ دلاور کو اچھے سے آ گئی تھی ۔۔۔  

بکواس بند کر پتا نہیں تیرا دھیان کدھر ہوتا ہے آج کل جو ایسی بے تکی باتیں کرتا ہے خبردار جو اب ایسا کچھ بھی کہا ورنہ ۔۔۔  

دلاور سخت لہجے میں بولا تھا کیونکہ اسے حاشر سے اس بات کی بلکل بھی امید نہیں تھی یا شاید وہ حاشر کے منہ سے سچ سن غصہ کر گیا تھا کیا واقعی میں دلاور اس پر دل ہار بیٹھا تھا ۔۔۔  

تھیک ہے یہی پر رہے میں تو چلتا ہوں اپنے کمرے میں کیا پتا نیند ہی آجائیں اور ہاں جو میں نے کہا ہے اس پر تھوڑا سا غور کرنا سائیں سرکار کیا پتا پھر اپکو بھی نیند میسر ہو جائے چین وین والی اور سکون کی ہاہاہا  

حاشر دلاور کی طرف کمر کرتا سیڑھیوں سے نیچھے چلا گیا جبکہ دلاور اسکی باتوں کی عکاسی کرنے لگا ۔۔۔۔ 

°°°°°° 

ارج بس بہت ہو گیا میں نے اب اماں سے کہنا ہے کہ وہ تمہارے  گھر رشتہ  بھجے آخر کب تک یونہی چلے گا کل کو کوئی بھی اگر رشتہ لے آیا تو تمہاری اماں تو بھاگ کر دیں گی جو میں نہیں چاہتا ۔۔۔ 

طاہر تم صبر نہیں کر سکتے  تھوڑی دیر کے لیے ابھی میری پڑھائی ختم نہیں ہوئی جب تک پڑھائی ختم نہیں ہوتی تب تک اماں میرا کہی رشتہ طے نہیں کرے گی 

ارج اور طاہر اس وقت چھٹ کے بنیرے کے ساتھ ٹیک لگائے باتیں کر رہے تھے جبکہ اب ارج سیدھی ہوتی بیٹھتی ہے ۔۔۔ 

اور کتنا انتظار کرو میں پورے دو سال ہو چکے ہے اب اور انتظار نہیں ہوتا ہم ایک بار شادی کر لیں پھر دیکھنا میں تمھیں پڑھنے سے منا نہیں کرو گا ۔۔ خود چھوڑ کر آیا کرو گا یونیورسٹی۔۔ 

طاہر اسکے قریب آتے بولا مگر ارج اب اپنی ٹھوڈی گھٹنوں پر رکھتے بولی ۔۔۔ 

اچھا ٹھیک ہے بھیج دینا اپنی اماں کو میری اماں کے پاس  آجائیں گا تمہارے دل کو بھی سکون جب وہ صاف صاف کہہ دیں گی کہ ابھی ہم نے ارج کی شادی کا کچھ سوچھا ہی نہیں ۔۔  

ارج بھاری آواز نکال کہتی ہے جبکہ اب کی بار طاہر مسکرا دیا ۔۔  

شادی تو تمہیں کرنی ہی ہوگی ارج اور وہ بھی مجھ سے میں بھی دیکھتا ہو کہ کون انکار کرتا ہے میرے  بھجے رشتے سے ۔۔۔  

طاہر اب اٹھ کہڑا ہوا تھا ۔۔  

جا رہے ہو ابھی ہی ۔۔۔  

ارج فوراً سے بول پڑی تھی  

ہاں اگر جلدی جاؤ گا تو تبھی جلدی آؤ گا تمہیں لینے کے لیے ۔۔ اس لیے اپنا خیال رکھنا اب میں چلتا ہوں ۔۔۔ 

طاہر ارج کی طرف توجہ سے دیکھتا وہاں سے چلا گیا جبکہ اب ارج بھی چھٹ سے ہوتی نیچھے آئی اور ہال میں بچھی  چار پائی پر آکر لیٹ گئی مگر چہرہ آسمان کی طرف تھا جہاں سے چاند کی روشنی دل کو سکون دیتی تھی ۔۔  

تبھی اچانک دلاور سائیں کا چہرہ نظر آیا ۔۔ 

ارج تو ان سے دور ہی رہنا پتا نہیں کیسے انسان ہے مجھے تو انکی شکل سے ہی ڈر لگتا ہے پتا نہیں بار بار میں انہی کو ہی کیوں سوچھ رہی  ہو۔  نہیں اب مجھے  اچھے اچھے سے خواب دیکھنے ہے ۔۔ 

ارج خودی سے باتیں کرتی خود کو  تسلی دیں رہی تھی جبکہ اب وہ اپنی  آنکھیں بند کرتی گھری نیند سو  گئی تھی ۔۔۔۔ ایک طرف چاند نے ارج پر روشنی کی ہوئی تھی تو دوسری طرف دلاور پر۔ دونوں کے چہرے روشنی کی تاب سے چمک رہے تھے ۔۔  

°°°°° 

جاری ہے۔۔۔

ناول:جانم سائیں

قسط نمبر:4 +5

از قلم: آر کے

°°°

اماں سائیں میں لیٹ ہو رہی ہو یونی سے آپ بھائی کو بولے مجھے یونی چھوڑ آئے آگے ہی دس منٹ لیٹ ہو چکی ہو اور جاتے جاتے بھی آدھا گھنٹہ لگ جائے گا ۔

رخماء یونی کے لیے تیار ہو چکی تھی اب بس اسے کوئی چھوڑنے نہیں جا رہا تھا تبھی وہ اپنے کمرے سے باہر آتی اماں سائیں کے کمرے میں جاتی انہیں اپنی پریشانی بتا رہی تھی ۔۔

میری بچی حاشر  کو بولو وہ تمہیں چھوڑ آتا ہے ۔

اماں سائیں نے بیڈ پر بیٹھے بیٹھے ہی کہا مگر اب رخماء تھوڑی سی آگے بڑھی 

اماں سائیں حاشر بھائی مجھے کہی بھی نظر نہیں آرہے پتا نہیں کدھر ہے اور اوپر سے میں لیٹ بھی ہو رہی ہو آپ کچھ کرے میں آج یونی سے ہرگز چھوٹی نہیں کرنا چاہتی پلیززز اماں سائیں۔

رخماء نے بہت معصومیت سے کہا جبکہ اب اس کمرے میں حوریہ بھی داخل ہوئی تھی اس نے آج پھر سے جینز اور شرٹ پہنی ہوئی تھی مگر اسکے برعکس رخماء نے یونی کا سفید لباس پہنا ہوا تھا حوریہ کو انہوں نے کئی بار کہا اپنا لباس تھوڑا سا بدلو مگر وہ امریکہ میں رہتی اب ان چیزوں کی عادی ہو چکی تھی۔

آپی کیا آپ نے حاشر بھائی کو دیکھا ہے کہیں پر ؟!؟

رخماء نے حوریہ سے سیدھا سوال کر ڈالا جسکا جواب حوریہ کے پاس بھی موجود نہیں تھا۔

نن۔ نہیں تو ۔ کیوں کیا ہوا ہے گھر چھوڑ کر بھاگ گیا ہے ۔۔

حوریہ نے مسکراہٹ دبائی۔۔

آپی ایسی بات نہیں ہے دراصل مجھے وہ یونی چھوڑنے جاتے ہے مگر آج پتا نہیں کدھر غائب ہو گے ہے 

اوہ اچھا مجھے تو لگا کہ وہ کوئی بھی کام اچھے سے نہیں کرتا مگر ہمم یہ بھی ٹھیک ہے ۔

حوریہ اماں سائیں کے پاس آتی بیٹھ جاتی ہے جبکہ اب رخماء نفی میں سر کو جنجش دیتی دروازے کی طرف رخ کرتی ہے مگر تبھی حاشر دروازہ کھولے اندر داخل ہوتا ہے ۔۔

دیکھو رخماء بھٹکا ہوا بھوت واپس آ گیا ۔ اب اسے کہو کہ تمہیں یونی چھوڑ آئے ۔

حوریہ فوراً سے بولی تھی جبکہ اسکی بات حاشر سنتا خیران ہوا کیونکہ وہ ابھی اس کمرے میں داخل ہوا تھا اس لیے اسے کیسی بات کا بھی علم نہیں تھا ۔

آپ کدھر گم ہو جاتے ہے کچھ پتا بھی ہے کہ مجھے یونی جانا ہوتا ہے آپکی وجہ سے آج میں لیٹ ہو گئی ہوں جلدی کرے ۔

رخماء کمرے سے باہر نکل چکی تھی جبکہ حاشر ایک نظر حوریہ پر ڈالتا ہے جو اسے آنکھو کے اشارے سے باہر کا دروازہ دیکھا رہی تھی 

دیکھ لو گا تمہیں بھی امریکن  چھپکلی نا ہو تو ۔

حاشر دل میں بڑبڑایا تھا مگر تبھی وہ اپنی موچھوں کو بل دیتا  باہر نکل آیا ۔

°°°

میری پیاری سی چھوٹی سی فرمابردار بہن تم آج ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ مجھے کچھ کام ہے پلیزز

رخماء کو حاشر نے پیچھے سے آواز دے کر روکا تھا جبکہ وہ اپنا سفر اب گاڑی کی طرف طے کر رہی تھی ۔

اور میں اس بات کی وجہ جان سکتی ہوں کہ آپ مجھے آج ڈرائیور کے ساتھ کیوں جانے کو کہہ رہے ہے ؟!؟ اور اتنی میٹھی زبان کہا سے استعمال کر رہے ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اپنے رات کو واقع میں کوئی بھوت شوت دیکھ لیا ہے جسکا اثر آپکے دماغ اور زبان پر اچھا خاصا ہوا ہے ۔ 

رخماء نے اپنی بات کی تصدیق چاہی ۔جبکہ اسکی باتیں حاشر دانت پیستا سن رہا  تھا 

مجھے کیسی بھوت شوت نے کچھ بھی نہیں کہا اور نا ہی میں نے اسے دیکھا ہے ۔۔ وہ تو بس۔۔۔ خود دیکھو ۔۔ تمہاری بہن نئی نئی آئی ہے واپس حویلی تو میں نے سوچھا کہ اسکو آج گاؤں تو دیکھا دو تاکہ وہ بھی یہاں پر آکر خوش ہو ۔۔ 

حاشر نے اپنی رائے پیش کی مگر اسکی بات سن رخماء کی ہنسی کنڑول سے باہر ہو رہی تھی ۔

اووووہ اچھا تو یہ معاملہ ہے میں بھی سوچھوں کہ آج حاشر سائیں کہیں بھی نظر نہیں آرہے ۔مگر خیر میں چلی جاؤ گی ۔مگر صرف ایک شرط پر ۔

رخماء نے اپنی شرط پیش  کی مگر حاشر شرط لفظ سنتا ہی خیران ہو جاتا ہے ۔۔

کیا شرط ہے بولو ۔۔

اوکے پانچ ہزار دیں ابھی ۔۔ کافی دن ہو چکے ہے میرے ہاتھو سے خارش نہیں جا رہی تھی مجھے کیا پتا تھا میرے پیارے سے بھائی کے برکتوں والے پیسے آنے والے ہے ۔۔ خیر البتہ پیسے دیں ۔۔

حاشر کا تو منہ ہی کھل گیا تھا پانچ ہزار روپیوں کی شرط سن تبھی وہ جلدی سے اسے بند کرتا ہے ۔

پاگل ہو گئی ہو اتنی بڑی رقم ۔ کچھ تو کم کرو ۔۔

نہیں دینے ہے تو ابھی دیں ورنہ میں جا رہی ہو اماں سائیں کو بتانے کہ آپکے لاڈلے بیٹے نے مجھے یونی نہیں چھوڑنے جانا بلکہ حوریہ آپی کو پورا گاؤں دیکھانا ہے ۔۔ میں تو چلی ۔۔ 

رخماء اپنا رخ حویلی کے اندر کرتی ہی ہے کہ حاشر اسے پیچھے سے آواز دیتا قدموں کو روکتا ہے

اچھا ٹھیک ہے دیتا ہو مجھے پتا ہے کہ تم بہت ہی بھوکی ہو ۔۔ 

حاشر اپنی قمیض کی پاکیٹ سے بٹوا نکالتا ایک نوٹ باہر لاتا اسے رخماء کے سامنے کرتا ہے جسے دیکھتی رخماء اپنے پیٹ پر دونوں ہاتھ باندھتی ہے 

یہ کیا ہے صرف ایک ہزار اسے میرا کچھ بھی کام نہیں چلے گا اور آج کے دور میں اسکی کوئی فوٹو بھی نہیں کھینچتا پھر آپ مجھے کیوں دیں رہے میں پورے پانچ ہزار ہی لوں  گی ورنہ ۔۔

رخماء دوبارہ سے اسے دھمکی دے رہی تھی جسے سنتا حاشر فوراً سے اپنے  بٹوے سے   ایک کرارا نیا تازا نوٹ پورے پانچ ہزار کا رخماء کے آگے پیش کرتا ہے جسے پہلے تو رخماء آنکھیں پھاڑ دیکھتی ہے مگر پھر تبھی آگے بڑھ کر فوراً سے پکڑتی ہے ۔

تھینکس بھائی اللہ اپکو اور دیں تاکہ آپ مجھے دیتے رہے ۔۔ اب جائے جلدی سے آپی آپکا انتظار کر رہی ہو گی ۔۔ 

ہاں ہاں جا رہا ہوں مگر تم بھی اپنا  خیال رکھنا باقی چھٹی ٹائم میں خود آ جاؤ گا تمہیں لینے اس لیے اب جاؤ ۔۔

حاشر گاڑی کا دروازہ کھولتا رخماء کو اندر بیٹھاتا ہے جبکہ اب وہ ڈرائیور کو اچھے سے نصیحت دے رہا تھا ۔۔

حاشر گاڑی کا دروازہ بند کرتا وہی کھڑا رہا جبکہ اب گاڑی وہاں سے چلی گئی ۔

اب آئے گا مزا ۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے کون بچاتا ہے امریکن چھپکلی ہاہاہاہا۔۔۔۔

حاشر اپنی ہی  کہی باتوں پر کھل کر ہنسا تھا ۔۔

°°°°°

 رخماء کل کیوں نہیں آئی تھی یونی تمہیں پتا بھی ہے کہ میں نے تمہارا کتنا انتظار کیا تھا مگر تم پھر بھی نہیں آئی ۔ اور اوپر سے تم نے نا تو کوئی مجھے میسج کیا اور نا ہی کوئی کال یار انسان ہو کوئی پتھر  نہیں کہ سہہ جاؤ گا تمہاری جدائی اور تم ہو کہ ابھی بھی لیٹ آئی ہو ۔ تمہیں اچھے سے پتا ہے کہ مجھے تمہارا لیٹ آنا بلکل بھی پسند نہیں ۔۔ نہیں ہوتا مجھ سے تمہارا انتظار۔۔   نہیں آتا چین اس دل کو تمہیں دیکھے بغیر ۔۔

حیدر  رخماء کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا جو اپنا رخ اپنی کلاس کی طرف کرتی ہے کیونکہ وہ اسکی باتوں سے تنگ آ چکی تھی جب سے یونی آئی تھی تب سے حیدر  نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ کل کیوں نہیں آئی ۔ وہ اسے اگنور کرتی ہے  مگر تبھی حیدر  آگے سے اسکا راستہ کاٹتا ہے ۔۔۔

میں تم سے بات کر رہا ہوں رخماء ۔۔ اور تم ہو کہ مجھے اگنور کر رہی ہو میں جان سکتا ہو اتنی بیزاری کس چیز پر ناراض تو مجھے ہونا چاہیے تم سے مگر تم ہو کہ خود ہو کر بیٹھی ہو ۔۔

حیدر  تھوڑا سا آگے قدم رکھتا ہے ۔۔تبھی رخماء اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہے ۔۔

کہا تو تھا کہ آپی  نے آنا ہے واپس اس لیے میں نہیں آسکتی ہوں یونی  مگر لگتا ہے تمہارا دماغ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کم ہے اس لیے سنی باتیں بھول جاتے ہو مگر پلیزز ابھی کے لیے میرا راستہ چھوڑو ۔۔۔

رخماء اپنے قدموں کا رخ دوسری طرف کرتی ہے جبکہ اب حیدر  دوبارہ سے اسکے آگے آ جاتا ہے مگر اس بار وہ تین قدم آگے بڑھا تھا ۔۔

بہت اچھے سے یاد رہتی  ہے مجھے باتیں اور تمہاری تو میرے دل پر کیسی لکیر کی طرح دفن ہوئی پڑی ہے ۔ خیر  چھوڑو مجھ سے پرومس کرو کے اج کے بعد لیٹ نہیں آؤ گی ۔۔

حیدر اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا ہے جبکہ رخماء ایک نظر اسکے ہاتھ پر پھر اسکے چہرے پر ڈالتی ہے

کیا تم پاگل ہو گے ہو صرف ایک دن ہی لیٹ آئی ہو اور تم ہو کہ پتا نہیں کیسی حرکتیں کر رہے ہو کبھی کبھی تو مجھے تمہاری باتوں اور حرکتوں سے ڈر لگتا ہے۔  

حیدر اپنا ہاتھ پیچھے کرتا اب دو قدم اور آگے بڑھا ان دونوں میں صرف ایک قدم کے فاصلے نے روکاوٹ ڈالی ہوئی تھی  رخماء کو  اسکے اس طرح سے آگے آنے پر ڈر لگ رہا تھا کیونکہ یہ یونیورسٹی کا ماحول تھا اور یہاں پر ارج بھی پڑھتی تھی اس لیے رخماء تبھی  فوراً سے بات بدلتی ہے

اوکے فائن ۔۔ ٹھیک ہے آج کے بعد کبھی لیٹ نہیں آؤ گی اب خوش ہو ۔

حیدر چہرے پر مسکراہٹ لاتا ہے ۔

ہمم ٹھیک ہے مگر اگر تم نے اپنا پرومس بھولا تو ایک بات یاد رکھنا میں تمہاری حویلی آ جاؤ تمہیں لینے اور اپنے ساتھ لاؤ گا ۔ اور میں کیسی سے بھی نہیں ڈرتا  تمہاری اماں سائیں سے تو بلکل بھی نہیں ۔

حیدر نڈر ہو کر بولا جبکہ اسکی بات رخماء کو ڈر دے گئی تھی ۔۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر اماں سائیں کو حیدر کے بارے میں کچھ بھی پتا چلا تو  پوری حویلی میں ہنگامہ برپا ہو جائے گا ۔ اماں سائیں کبھی بھی یہ سہہ نہیں پائے گی کہ انکے سائے میں یہ سب ہوتا ہے مگر رخماء نے آج تک حیدر کو صرف اپنا دوست ہی سمجھا مگر حیدر تو اسکو اپنی جان سمجھ بیٹھے ہے

نن ۔نہیں حیدر تم نہیں آؤ گے حویلی ورنہ اماں سائیں ہم دونوں کو زندہ زمین میں گاڑ دے گی جو میں بلکل بھی نہیں چاہتی تمہیں اپنی زندگی کی کوئی فکر نہیں مگر مجھے تو زندہ  رہنے دو اس لیے یہ فضول کی ضد کبھی مت کرنا ۔۔ اب چلو کلاس میں آگے ہی لیٹ ہو چکی ہوں۔

رخماء اپنی بات مکمل کرتی وہاں سے چلی گئی جبکہ حیدر اپنے بیگ  کو کندھے سے تھوڑا سا اوپر کرتا اسکے پچھے پیچھے چلتا ہے۔  

°°°°°

دلاور نے آج سیاہ قمیض اور سفید شلوار پہنی ہوئی تھی جبکہ اسکی قمیض پر لمبی لمبی سفید گوٹے کی کڑھائی ہوئی تھی ۔ وہ سیاہ کھیڑی ڈالے بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے اور موچھوں کو بل دیتا ہال سے باہر نکل رہا تھا جبکہ اسکی نظر حاشر پر گئی جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کہیں جانے والا ہے ۔۔ تبھی دلاور اپنی بات کی تصدیق کرتے اسکے پاس آتا ہے ۔۔

بھائی کدھر جا رہے ہے آپ ۔ 

دلاور کے سوال پوچھنے سے پہلے ہی حاشر نے سوال کر ڈالا ۔

ہاں وہ کچھ کام تھا  تو اس لیے جا رہا ہوں مگر تم کہاں پر جانے کی تیاریوں میں ہو اتنا سج دھج کر ۔

حاشر کے پہنے کپڑوں پر ایک نظر ڈالتا دلاور آنکھ اٹھاتا پوچھتا ہے ۔۔ یہ بات تو عام تھی کہ حویلی میں سبھی سج دھج کر رہتے تھے مگر حاشر آج کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تیار ہو کر کھڑا تھا ۔

کیا بھائی آپ مجھ پر شک کر رہے ہے مجھ معصوم پر جس نے آج تک کیسی لڑکی کو اپنی دوست تک نہیں بنایا ۔۔ آپ بدل گے ہے بھائی ۔۔۔ ویسے شک تو مجھے کرنا چاہیے آپ پر کہ کس کی نظروں کا جادو سر چڑھ بول رہا ہے 

 دلاور کو حاشر کی باتیں کیسی سوئی کی طرح چبی رہی تھی نجانے وہ ایک ہی لمحے میں اسکو کیا کچھ سنا گیا تھا ۔ تبھی دلاور اسکی بات کا کوئی جواب دیتا تبھی حوریہ وہاں آ پہنچی ۔ جسے دیکھتا حاشر نظریں ہٹا نا سکا ۔

شکی شکی نظروں سے دیکھو گے تو اماں سائیں تک بھی بات پہنچ جائے گی ۔ حویلی میں ملازم کچھ زیادہ ہی ہے ۔ ان سے بچ کر رہو ایسا نا ہو کہ ان نظروں کا ازالہ تمہیں گھر کے کام کر چکانا پڑے ۔۔

دلاور حاشر کی نظروں کو نوٹ کرتا اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ تین دفہ تھپتھپاتا ہے جبکہ حاشر اسکی باتوں کو سمجھتا  گلا تر  کرتا  ہے ۔۔


چلتا ہو ۔ اپنے کام کو دل لگا کر کرنا ۔ ہاہا چھوٹے سائیں ۔۔

حاشر کے گال کو تھپتھپاتا وہ اب وہاں سے چلا گیا جبکہ اب حوریہ اسکے پاس آتی ہے ۔

چلیں ۔۔ 

حوریہ اپنا رخ گاڑی کی طرف کرتی اسے حکم سنا رہی تھی جبکہ حاشر بھی جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولتا اسکے اندر بیٹھتا ہے مگر اس گاڑی میں صرف ایک حاشر اور حوریہ تھی۔   

گاؤں تو کافی خوبصورت ہو گیا ہے ان دس سالوں میں مجھے تو دیکھ کر یقین ہی نہیں آرہا کہ جب میں لاسٹ ٹائم یہاں۔ پر آئی تھی تب بہت  کم آبادی تھی مگر اب فصلے اور لوگ کافی ہو چکے ہیں 

حوریہ حویلی سے باہر گاڑی نکلنے پر سامنے ہرے بھرے کھیت دیکھتی فوراً سے بولی تھی جبکہ حاشر آئینہ میں اسے دیکھتا دل میں مسکرایا تھا ۔

واہ یار کتنے پیارے پیارے کپڑے پہنے ہوئے ہے ۔۔ گاڑی ۔۔ روکو ۔۔ جلدی سے روکو ۔۔ 

حوریہ کی نظر باہر سے آتی لڑکیوں کی قطار کو دیکھتی حاشر کو گاڑی روکنے کو کہتی ہے جبکہ وہ اب گاڑی کو روکتا پیچھے اسکی طرف دیکھتا ہے مگر وہ اسے اگنور کرتی تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھولتی باہر نکلی۔  

واہ کتنے پیارے کپڑے پہنے ہوئے ہے تم سب نے ۔ کیا آپ سب میرے ساتھ ایک۔ایک فوٹو بنوائے گے پلیززز میں اپنی دوستوں کو دیکھانا چاہتی ہوں 

حوریہ ان کے بیج آتی اپنے فول کو پینٹ کی پاکیٹ سے باہر نکالتی ہے جبکہ وہ لڑکیاں اسے دیکھتی بہت خوش ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے حوریہ کو بچپن میں دیکھا تھا ۔۔ وہ ہاں میں سر کو جنجش دیتی ہیں جبکہ حوریہ اپنے فول کا کیمرہ آن کرتی سب کے ساتھ فوٹو بناتی ہے جبکہ حاشر وہی پر کھڑا اسکا فوٹو شوٹ دیکھ رہا تھا کہ کیسے اپنے چہرے کے پوز بنا بنا کر انکے ساتھ فوٹو کھینچ رہی تھی ۔۔

اوکے بائے تھینکس ڈیئر فوٹو کے لیے ۔۔ 

اسکے انگلش میں بولے الفاظ وہ سبھی نا سمجھی تھی مگر حاشر کو اچھے سے سمجھ آ گیا تھا ۔ 

کچھ نئی ۔۔۔کچھ نئی۔۔۔۔ تم لوگ جاؤ اب ۔۔ 

حاشر حوریہ کا ہاتھ پکڑتا ان لڑکیوں کو یہاں سے جانے کو کہہ رہا تھا جبکہ حوریہ اسکی حرکت کو نوٹ کرتی فوراً سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچتی ہے ۔

یہ کیا حرکت تھی ۔ وہ چہرہ خیران کرتی پوچھنے لگی 

کیا مطلب۔۔۔ کیا۔۔۔ حرکت تھی ایک ہاتھ ہی تو پکڑا ہے تمہارا 

وہ اکڑ کر بولا ۔

تو ۔ کیا کرو  آج تو ایسا کر لیا اگر سب دوبارہ کیا تو سمج جانا اچھا نہیں ہوگا ۔۔

وہ اسکو اپنی باتوں میں سرد لہجا لاتی وارن کر رہی تھی ۔

کیا کر لو گی تم ۔۔ اگر تمہاری زندگی کا ساتھ ہمیشہ کے لیے میرے ہاتھوں میں لکھا گیا ہو گا تب بھی ایسے کرو گی ۔ 

وہ اسکی سوچ سے پرے کہہ گیا ۔

کیا مطلب تمہارا۔۔۔۔ ؟!؟

مطلب صاف ہے ۔ اب سمجھو یہ نا سمجھو وہ تمہاری عقل کی بات ہے۔ 

آنکھو کو بھنوں بناتی وہ اسکے کہے سے متاثر ہوئی 

ت۔۔ توو۔۔۔ ایسا کچھ ۔۔ نہیں ہوگا ۔۔۔ اگر زندگی پیاری ہے تو مجھے  ہاتھ لگانے کی غلطی مت کرنا ۔۔

حاشر اب تنگ آگیا تھا نجانے وہ ایسا کیوں کر گیا تھا 

معاف کرو میری دشمن غلطی سے پکڑ لیا تھا ۔۔ 

حاشر ہاتھ جوڑتا اسے معافی مانگنے لگا جبکہ اسکی یہ حرکت طنزیہ تھی ۔۔

وہ اسے اگنور کرتی دوبارہ سے گاڑی میں آکر بیٹھتی ہے۔ 

پتا نہیں سمجھتی کیا ہے خود کو ۔ امریکن چھپکلی نا ہو تو ۔۔

حاشر بڑبڑاتا گاڑی میں آکر بیٹھتا ہے ۔۔

°°°°

جاری ہے ۔۔

ناول :جانم سائیں  

قسط نمبر:6  

تحریر: آر کے 

°°°°° 

ایسا کچھ نہیں ہوگا دلاور خبر دار جو تم نے اب یہ گھٹیاں بات کی تو ۔ تم کیا چاہتے ہو کہ ہم اس عام سی لڑکی کے گھر تمہارا رشتہ لے کر جائے کیا دنیا میں کوئی اور لڑکی نہیں رہی تھی جو اپنی ہی گاؤں کی عام سی لڑکی کے ساتھ عشق لڑا بیٹھے ہو  

دلاور اس وقت اماں سائیں کے کمرے میں موجود کھڑا انکا غصہ برداشت کر رہا تھا کیونکہ اسنے بات ہی ایسی کی تھی ۔ جو اماں سائیں کا دماغ خراب کرنا جانتی تھی ۔  

مگر اماں سائیں مجھے وہ اچھی لگتی ہے ۔ میں صرف اسی سے نکاح کر وفا بس اسی سے ۔ آپ لے جائے نا میرا رشتہ ارج کے گھر ۔  

اماں سائیں جو بیڈ پر بیٹھی تھی دلاور انکے پاس آتا انکا ہاتھ پکڑ پاس بیٹھتا ہے ۔ 

دیکھو دلاور ۔ اگر یہ بات گاؤں والوں کو پتا چلے کہ ہمارے بیٹے کو حویلی کے ڈراؤر کی بہن پسند ہے تو لوگ کیا باتیں بنائے گے ہم کچھ نہیں سنا چاہیے تم اپنی اس فضول کی ضد کو بند کرو۔  

وہ اپنا ہاتھ پیچھے کرتی کہتی ہے ۔ 

ٹھیک ہے پھر اماں سائیں ہم بھی آپکی ہی اولاد ہے اگر اپنی ضد کو پورا نا کیا تو پھر کہنا ۔ اب تو ہمارے اور ارج کے درمیان اگر کوئی آیا تو وہ خود اپنی حالت کا زمدار ہوگا کیونکہ اب سائیں سرکار کے عشق کا سوال ہے ۔  

وہ اپنی شال کو رعب دیکھتا اپنے کندھوں کے گرد لپیٹے وہاں سے باہر چلا گیا جبکہ اماں سائیں اسکی باتیں سنتی اور بھی زیادہ غصہ ہوگئی تبھی تو وہ اسکو پیچھے سے دلاور کہہ کر روکتی ہے مگر وہ ایک قدم بھی رکنا تو دور کی بات آہستہ ہی نہیں رکھتا ۔  

تمہیں پانے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑا تو ہم  بھی ہر حد پار کر جائے گے  ۔۔  

ماتھے پر پڑے بل  تھے غصہ سے سرخ آنکھیں تھی عنابی سے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ آئی اور وہ حویلی سے باہر نکلتا کیسی کو کال۔کرتا ہے ۔ 

°°°°° 

رخماء ایک بات بولو ۔ تم برا تو نہیں مانو گی  

ہا کہو کیا بات ہے ۔ 

حیدر اور رخماء دونوں یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھے کیسی کونے کے ٹیبل پر موجود تھے وہ سب سے الگ بیٹھے تھے ۔ 

یار مجھے تم سے کچھ کہنا ہے پلیززز تم۔مان جاؤ گی ۔ 

رخماء خیران تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔  

آخر کہنا کیا چاہتے ہو سیدھا سیدھا بتاؤ ۔ 

میں تم۔سے شادی کرنا چاہتا ہوں مجھے پتا ہے کہ ہم دونوں صرف دوست ہے مگر میں تمہیں دوست سے بڑھ کر سمجتا ہوں ۔ میں تمہارا خود سے بھی زیادہ خیال رکھو گا ۔ بہت چاہتا ہوں تمہیں ۔ میں نے اپنی چچی سے کہا ہے کہ وہ تمہارے گھر رشتہ لے کر جائے میرا اور آج آئے گی وہ ۔۔  

حیدر اپنی خوشی بتاتا رخماء کی جان نکال گیا ۔  

کیا بکواس کر رہے ہو تم ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔ اگر اماں سائیں کو پتا چلا تو دونوں کو مار دے گی ۔  

وہ ڈرتی کہتے اب اٹھ کھڑی ہوئی تھی جبکہ حیدر بھی کھڑا ہوتا ہے ۔۔ 

تم اتنا ڈرتی کیوں ہو اماں سائیں سے وہ کچھ نہیں کر سکے گی ہم دونوں کا اور میں تمہیں عزت کے ساتھ اپنانا چاہتا ہوں ۔ پھر اس میں ڈرنا کس چیز کا ۔ 

پاس آتے وہ اسکی کلائی پکڑتا آنکھوں میں دیکھتے اسکے اور قریب آنے لگا ۔۔ 

یہ کیا ۔۔۔  کیا ۔۔ کر رہے ہو۔    

وہ کہتی فوراً سے ہاتھ پیچھے کرتی ۔ارد گرد دیکھتی ہے۔    

دیکھو رخماء میں تم سے محبت کرتا ہوں اور نکاح کرنا چاہتا ہوں مجھے پتا ہے کہ تمہاری فیملی میں یوں یہاں پڑھنے کی جگہ پر رشتے بنا لینا پسند نہیں ہوگا مگر میں یہ ثابت کرو گا کہ محبت جہاں بھی کی جائے وہ صرف محبت ہی ہوتی ہے اور مجھے تم۔سے وہی محبت ہے جس پر تم ناز کر سکو اور مجھ سے اپنا حق وصول کرو ۔۔ 

یہ کیا ہے سب کیوں ایسی باتیں کر رہے ہو کیوں ۔۔ یہ سب کر تم کیا جتانا چاہتے ہو ۔۔ 

آنکھیں اس حسن زادے کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھی  

میں کچھ بھی ظاہر  نہیں کر رہا بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے تم۔چاہیے ہم ایک ساتھ زندگی گزار سکتے ہے اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی بھی تمہارے قریب کوئی درد نہیں آنے دو گا ۔ آئی لو یو رخماء ۔  

آگے بڑھتا وہ اپنے جذبات میں شدت لے آیا اتنا بھی حیال نا اسکو کہ یہاں پر سبھی لوگ بس انکو ہی دیکھ رہے ہے اسکے ایسا کرنے پر رخماء کے وجود پر پہاڑ گرا تھا حیدر اسے دور ہوتا کہ تبھی رخماء نے اسکے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا وہ اس لڑکے سے ایسی غلطی کی کوئی امید نہیں رکھتی تھی ۔ حیدر کا چہرہ شرم سے جھک گیا تھا تمام لوگ ان دونوں کی طرف دیکھتے آپس میں باتیں کرنے لگے وہی رخماء یہ سب برداشت نا کرتی وہاں سے بھاگنے لگی رفتار بہت تیز تھی ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا اسنے اور حیدر اسکو وہاں سے جاتے دیکھ اسکے پیچھے بھاگنے لگا ۔  

 وہ ابھی یونیورسٹی سے باہر ہی نکلی تھی کہ سامنے اسکو حاشر نظر آیا کیونکہ وہ اسے گھر لے جانے آیا تھا وہ بھی اپنے آنسو صاف کرتی خاموشی سے گاڑی میں آکر بیٹھ جاتی ہے حاشر نے پہلے نوٹ تو کیا کہ آنکھیں سرخ ہے مگر پھر یہاں بات کرنا مناسب نا سمجا وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے وہاں سے چلے گے جبکہ حیدر اب وہاں پر آتا انکی گاڑی کو دیکھ رہا تھا ۔  

یہ میں نے کیا کر دیا ۔۔  

خود کو کوستے بالوں میں انگلیاں پھنسائے غصہ کرنے لگا ۔  

وہ کیا سوچھتی ہوگی میرے بارے میں ۔۔ پلیزز رخماء۔۔۔ مجھے معاف کر دو ۔ پلیزز۔ میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا مگر نجانے مجھے کیا ہو گیا تھا ۔  

اب پچتاوے کے سوا کچھ نا تھا ۔۔ 

نہیں میں اسکو ٹھیک کرو گا ۔۔   

جلدی سے پینٹ کی پاکیٹ سے فون نکالتا وہ اپنی ماں کو کال کرتا ہے ۔  

امی جان پلیزز۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ مجھے رخماء پسند ہے آپ پلیزز میرا رشتہ لے کر جائے اسکے گھر پلیزز امی  جان ۔ میں نہیں رہ سکتا ۔۔ آپ آج ہی جا رہی ہے بس ۔  

روتے ہوئے فون کو بند کرتا وہ اپنی گاڑی کی طرف چلا۔گیا  

دوسری طرف خالدہ   بی  نے اپنے اکلوتے بیٹے کو یوں روتے دیکھ اپنا حال برا کر لیا تھا ایک وہ دونوں کی تو ایک دوسرے کی زندگی تھی گھر میں ان دونوں کے سوا کوئی نا تھا ۔  

وہ خود سے عہد کر تی اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی ۔  

°°°°°° 

کیا ہوا ہے تمہیں صبح تو بہت خوش لگ رہی تھی اب کس نے تم۔سے پہاڑ کھدوا لیا ہے جو یوں مظلوم کی طرح چپ بیٹھی ہو۔۔ 

باہر نظر رکھتی رخماء حاشر کی بات پر فوراً سے آگے دیکھتی ہے جہاں وہ گاڑی کو چلا رہا تھا  

ککچھ نہیں بھائی وہ بس آج ایک دوست نہیں آئی تھی ۔ تو ۔۔اپکو ایسا لگ رہا ہے ۔۔  

اوو اچھا ۔ ایسی بات ہے ۔ مگر تم زیادہ سوار مت کیا کرو ۔ خود پر ٹینشن کو ۔ نجانے وہ کتنی مزے کر رہی ہو گی گھر پر اور تم یہاں پر ہلکان ہو رہی ہوں 

گاڑی کو سڑک کی دوسری طرف لے جاتے وہ سر نیچھے کرتا آگے دیکھتا کہتا ہے ۔ 

رخماء کوئی جواب نا دیتی چپ رہی حیال صرف حیدر کا تھا ۔ 

کیو سوچے گی میری دوستیں ۔ جب انہیں پتا چلے گا یہ سب ۔ تم نے مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ہے حیدر ۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرو گی 

آنکھو میں نمی بھر آئی تھی۔ تبھی وہ اپنی کلائی سے آنسو صاف کرتی باہر دیکھتی ہے ۔  

°°°°°° 

گھر آتے وہ کیسی سے بھی سلام۔سے زیادہ بات کرتے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔ اماں سائیں خیران تھی کہ اسکو اچانک کیا ہوا ہے۔   

تبھی وہ اسے بات کرنے کے مطلب سے اسکے کمرے میں جاتی ہے مگر حوریہ کو ساتھ لے کر ۔  

رخماء رونے میں مصروف ہوتی اپنی حالت بوری کر رہی تھی ۔  

یہ کیا ہوا ہے تمہیں جو یوں چھپ چھپ کر رو رہی ہو ۔ اور ہمیں کچھ بھی نہیں بتا رہی ہو سب ٹھیک تو ہے کیا کچھ ہوا ہے یونیورسٹی میں ہمم بتاؤ رخماء  

اماں سائیں اسکو دیکھتے ہی پوچھتی ہے۔  

کچھ نہیں اماں سائیں وہ تو آج بس کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ۔ باقی سب ٹھیک ہے ۔ آپ پریشان نہ ہو 

سیدھا ہوتے جواب دیتی رخماء ان سے نظریں چراتی ہے  

کیوں کیا ہوا ہے تمہاری طبیعت کو صبح تو اچھی خاصی تھی پھر اب کیا ہوا ہے تمہیں  

حوریہ کہتے پاس آتے ہے  

آپی آپ بھی نا ۔ ۔۔ 

رخماء آدھی بات کرتی کمرے کے چکر لگا کر سامان کو آگے پیچھے رکھنے لگتی ہے ۔۔ ہاتھوں میں جھنجلاہٹ تھی ۔ 

اماں سائیں باہر کوئی خاتون آئی  ہے ۔ رخماء بیٹی کے دوست کی امی ۔ آپ دیکھ لیں ۔  انہوں نے کچھ ضروری بات کرنی  ہے آپ سے۔  

ملازمہ یک دم کمرے میں آئی اور کہہ کر وہاں سے چلی گئی ۔ رخماء کی جان جا رہی تھی یہ سوچھ کر کہ وہ یہاں پر کیا کرنے آئی ہے  

ہم ابھی دیکھ کر آتے ہے اور تم اسکو کچھ کھانے کو دو ۔ پتا نہیں کچھ کایا بھی ہے کہ نہیں تبھی تو طبیعت کا رونا رو رہی ہے۔   

اماں سائیں کہتی کمرے سے باہر نکل گئی ۔ رخماء نے انکو روکنا چاہا مگر پھر خود بھی انکے پیچھے جانے لگی ۔ 

رخماء میں تمہاری بڑی بہن ہوں مجھے سچ بتاؤ کہ کیا ہوا ہے تمہیں جو یوں پریشان لگ رہی ہوں ۔  

حوریہ نے اسکا بازوں پکڑ روکا تبھی وہ اسکے گلے لگتی زور سے رومی لگی بلآخر بہن کا سہارا جو مل گیا تھا پہلے تو حوریہ نے کچھ نہیں کہا مگر جب دیکھا کہ وہ چپ ہی نہیں ہو رہی تو اسکی کمر کو سہلانا شروع کیا ۔ 

بس رخماء چپ ہو جاؤ۔ مجھے کچھ بتاؤ گی کیا ہوا ہے تمہیں جو یوں تو رہی ہوں ۔  

اپی۔۔  وہ حیدر۔   نے۔ میرے ساتھ ۔۔  

کیا حیدر۔  نے کیا ہے تمہارے ساتھ ۔  

آپی وہ ۔ میرے ساتھ بتمیزی کی ہے سب لوگ دیکھ رہے تھے میں اب کبھی نہیں جاؤ گی یونیورسٹی ۔ آپ اماں سائیں سے کہہ کر انکو جہاں سے بھیج دیں پلیززز۔ 

وہ روتی گلا ہلکا۔ کر رہی تھی  تبھی ایک ملازمہ نے یہ ساری باتیں سن لی تھی ۔ کیونکہ وہ رخماء کے لیے کھانا لا رہی تھی وہ بھی اماں سائیں کے کہنے پر  حوریہ نے آگے سے کچھ نہیں کھا تھا وہ تو بس اسکو چپ کروانا چاہتی تھی جو وہ ہو نہیں رہی تھی۔ 

°°°°° 

سیڑھیوں کو عبور کرتی اماں سائیں نیچھے آئی تو سامنے ایک عورت سیاہ شال کو شانو تک آڑو وہ صوفے پر بیٹھی ارد گرد چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔   

سلام لیتی وہ اٹھ کہڑی ہوئی تھی جبکہ اماں سائیں بھی آگے سے جواب دیتی  انکو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہتی ہے ۔  

ماشاءاللہ سے گھر بہت پیارا ہے میں یہاں پہلی بار آئی ہوں ۔ تو اس لیے آپ مجھے جانتی نہیں ہوگی۔مگر میں رخماء بھٹکا اچھے سے جانتی ہوں میرا بیٹا اور وہ دونوں ایک ساتھ پڑھتے ہے ۔  

اووو اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہوئی ۔پھر۔ کیسے آنا ہوا آپکا ہمارے گھر پر۔  

اماں سائیں کہتی ٹانگ پر ٹانگ رکھتی  ہے 

دراصل بات یہ ہے کہ میں آپکی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں آنے  حیدر کے لیے مجھے امید ہے کہ آپ انکار نہیں کرے گی ۔ میں سمج سکتی ہوں کہ وہ دونوں ایک ساتھ پڑھتے ہے جسکی وجہ سے باتیں تو بنے گی مگر میں آپ سے وعدہ کرتی ہو کہ کبھی بھی رخماء کو اپنی بہو نہ سمجھو گی بلکہ آپ ی بیٹی سمجو گی  

خالدہ بی نے نہایت احترام سے کہا ۔اماں سائیں آگے کچھ پیش کرتی  

کہ پیچھے سے آتی ایک ملازمہ نے انکے کان میں سرگوشی نما کچھ کہا تھا ۔ 

جو وہ سنتے کیسی آگ کی طرح غصہ ہو گئی تھی ملازمہ نے جو سنا اس میں دس بڑھا کر اماں سائیں کو سنائی تھی جو اماں سائیں کا پارا ہوئی کر گئی ۔ 

دیکھیں ۔۔ آپ ہمارے گھر آئی ہم۔بہت خوش ہے مگر ہمارے گھر اپنے بیٹے کا رشتہ لانے سے پہلے اسے یہ پوچھ تو آتی کہ کیا رنگ کھلا کر آیا ہے وہ ہماری بیٹی کے ساتھ ۔  

اماں سائیں یک دم کھڑی ہوتی غصہ دیکھا دیکھا  رہی تھی ۔  

دیکھیں وہ بچے ہے اور اس نادان عمر میں یہ سب ہو جاتا ہے بچوں سے ۔ اس لیے ہی تو ہم رشتہ لے کر آئے ہے ۔  

اچھا تو ماں کو سب بتا کر بھیجا ہے بیٹے نے ۔ دیکھو بی بی ہمارے گاؤں میں یہ کوئی عام بات نہیں۔  ہم جان لے لیتے ہے اس انسان کی جسکی وجہ سے ہمارے عزت نفس پر حرف بھی آئے اس لیے اچھا ہو گا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ ورنہ اپنے بیٹے کو موت کے منہ میں دیکھو گی۔   

اماں سائیں فیصلہ سناتی وہاں سے چلی گئی جبکہ خالدہ بی بھی شرم سے سر جھکائے وہاں سے چلی گئی تھی ۔  

°°°°° 

رخماء ۔۔   رخماء۔۔۔   

وہ گرجتی کمرے میں آئی سامنے ابھی تک رخماء حوریہ کے سینے سے لگی تو رہی تھی۔   

کیا اس لیے تمہیں شہر بھیجتے تھے ہم کہ یہ گل کھلا کر آؤ۔۔ کیا کر کے آئی ہو اس لڑکے کے ساتھ ۔ ارے تجھے تو ہماری عزت کا بھی خیال نہیں آیا ۔ بے شرم۔لڑکی ۔۔  

اماں سائیں اسکا بازوں سے پکڑتی کمرے سے باہر لاتی غصہ میں بس بولے جا رہی تھی حوریہ کی تو جان ہی جا رہی تھی ۔ رخماء نجانے کس حال میں تھی اس وقت۔    

دیکھیں اماں سائیں۔۔ آپ جو سوچ رہی ہے ویسا کچھ نہیں ہوا ۔۔ وہ صرف میرا دوست ہے ۔۔ اماں۔۔ ساااا۔ 

چٹاخ ۔۔  

اسکے آنسو سے نم گالوں پر اماں سائیں نے زور دار تھپڑ رسید کیا  

وہ اسکو ہال میں لاتی زمین پر گراتی  ہے 

اگر تم نے یہ سب نہیں کیا تو اسکی ماں کیوں آئی تھی یہاں پر رشتہ لے کر ۔۔ کوئی عیاشی کی ہو گی تبھی تو وہ آئی تھی ۔ یونہی کوئی نہیں آتا کیسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنانے ۔  

رخماء خیران تھی کہ خالدہ بی اسکا رشتہ لے کر آئی تھی ۔۔  

مجھے کچھ نہیں پتا اماں سائیں۔۔  وہ کیوں آئی تھی مگر آپ میرا یقین کرے میں نے اس حویلی کی عزت پر حرف بھی نہیں لایا جس سے آپکا سر جھک جائے ۔۔ 

بس بہت ہوا لڑکی ۔۔  اب ہم ایک لفظ بھی نہیں سنے گے ۔ دیکھتے ہے تمہارا رشتہ اور کلمہ پڑھا کر رخصت کرتے ہے ۔۔ 

رخماء رو رو کر آنکھیں سرخ کر گئی کیا یہ ہوتے ہے اپنے جنکو اس پر یقین ہی نہیں تھا ۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ ایک لڑکی کی عزت پر لگا ایک حرف بھی ہزاروں بری نظروں اور رسوائی کا اہل بن جاتا ہے ۔ 

وہ زمین پر ہاتھ پھیرتی چیخ چیخ کر رو رہی تھی ۔اسکی چیخوں پکار حویلی میں گونجی تھی۔   

°°°°° 

رات کے گیارہ بج رہے تھے جب گاؤں کی سڑک پر چار گاڑیا اندھے منہ چلائی جا رہی تھی ان میں سایہ جیپ سب سے آگے تھی وہ گاڑی میں بیٹھا موچھوں کو بل دیتا آگے کی طرف دیکھ رہا تھا   

آگے والی گاڑی کیسی عام سے گھر کے سامنے آکر روکی تھی اندھے کی وجہ سے اور رات ہونے سے کیسی کا اتنا دھیان نہیں تھا ۔  

وہ گاڑی سے باہر نکلتا سرگیٹ کو سلگہاتا اپنے موچھوں میں چہپے لبوں پر رکھتا ہے ۔ 

جیسا کہا ہے ویسا کرو۔ ہمیں کوئی شور شرابا نہیں سنا ۔  

ان میں سے ایک۔ملازم۔اس گھر میں میں داخل ہو جاتا ہے ۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ باہر آتے کچھ کہتا ہے ۔  

کام ہو گیا ہے سائیں سرکار ۔۔۔  

اسکا کہا سن مقابل شخص کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ رونما ہوئی ۔۔  

°°°°    

تم یہاں پر کیا کر رہی ہوں حوریہ سب ٹھیک تو ہے۔  اتنی رات کو۔ یہاں پر ۔۔ 

حاشر ہمشہ کی طرح ٹیرس پر جاکر سرگیٹ پینا چاہتا تھا مگر وہاں پر حوریہ موجود تھی ۔ 

کچھ نہیں بس رخماء کے لیے بہت پریشان ہوں وہ ایسی نہیں ہے تم تو اسکو اچھے سے جانتے ہو   وہ ایسا کچھ بھی کچھی بھی نہیں کر سکتی ۔  

حوریہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے حاشر نے ایک نظر آسمان پر ڈالی ۔جبکہ حوریہ بھی وہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔  

میں نے کب کہا کہ رخماء ایسی ہے ۔ وہ میری چھوٹی بہن ہے حوریہ ۔ اور رہی بات اماں سائیں کی تو کچھ دن ناراضگی دیکھائے گی پھر خود ہی پیار سے بات کرے گی رخماء سے ۔  

آنکھیں کیسی تارے پر روکی تھی۔  

آپ ٹھیک کہہ رہے ہے ۔ مگر وہ لڑکا ۔  

میں نے سب پتا کروا لیا ہے اس کے بارے میں ویسے تو مجھے اچھا معلوم ہوا ہے ۔ مگر پھر بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ اللہ سب جانتا ہے ۔  

ہمم آپ ٹھیک کہہ رہے ہے۔ حاشر سائیں  

حوریہ کرسی سے اٹھتی ہے  

کدھر جا رہی ہو۔   

بے اختیار زبان بولی تھی ۔حوریہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا  

اپنے کمرے میں سونے جا رہی ہوں ۔ کیوں کیا کوئی کام ہے ۔ 

نہیں بس یونہی پوچھ لیا اب جاؤ اور رخماء کو بھی زرا دیکھ لینا خود بھی ٹینشن نا لیتی رہنا ۔ 

حاشر نے واپس نظریں آسمان کی جانب کی ۔ 

آپ بھی سونے چلے جائے رات بہت ہو گئی ہے ۔  

حوریہ کہتی وہاں سے چلی گئی ۔ حاشر بھی اسکے جاتے سرگیٹ کو پینے لگتا ہے۔   

°°°°°° 

یہ منظر ایک بڑے سے دارے کا تھا جسکے اردگرد چھوٹی سی دیوارے بنی ہوئی تھی ۔ ملازم اسلے  کے ساتھ کھڑے تھے ۔  

مولوی سے کہنا آج جو نکاح ہونے جا رہا ہے اسکی خوشی میں جو مانگے گا تجھے وہ دیا جائے گا ۔ اور جا کر دیکھ  اسے خوش آیا ہے یا پھر نہیں ۔ 

وہ ملازم کو حکم سناتا دل فریب مسکراہٹ دباتا ہے ۔ ملازم بھی اپنے کاندھے پر بندوق کو لٹکائے وہاں سے چلاگیا۔   

مگر جب وہ کچھ دیر بعد آیا تو چہرہ فک ہوا پڑا تھا۔  

کیا ہوا ہے تھے جو یوں منہ بنا کر پھر رہا ہے آج تو یہ اپنی شکل کو ٹھیک کر لے تیرے سائیں سرکار کا نکاح ہے آج ۔  

دلاور ہنستے کہتا ہے 

سائیں سرکار وہ لڑکی بھاگ گئی ہے یہاں سے پتا نہیں کہاں چلی گئی ہے ہم نے تو اسکو بیہوش کیا تھا مگر پتا نہیں کب خوش آیا اور بھاگ گئی ۔  

چٹاخ۔۔۔   

دلاور نے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اسکو ایک  زور دار تھپڑ مارا غصہ تھا کہ کہیں کم ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ 

کیا بکواس کر رہا ہے تو۔۔  تجھے تو بعد میں دیکھو گا ۔  

دلاور بڑے بڑے قدم رکھتا اس دارے سے باہر نکل گیا اور گاڑی میں آکر بیٹھتے سڑکوں پر دوڑانی شروع کر دی ۔  

مگر تبھی ایک لڑکی تیزی سے بھاگتے ہوئے نظر آئی ۔ اس نے گاڑی کو فل سپیڈ دے کر اسکے سامنے گاڑی روکی۔   

ہاہاہاہا کہاں جاؤ گی مجھ سے بچ کر جانم سائیں ۔ یوں روٹھا نہیں کرتے ۔ چلو ہمارے ساتھ آج  ہمارا نکاح ہے ۔۔ 

وہ ارج کو کلائی سے پکڑتا ہی ہے کہ تبھی ارج چیخ اٹھتی ہے۔  

بچاؤ۔۔    کوئی ہے ۔۔ پلیززز۔۔ میری مدد کرو۔   

وہ انچا بولتی اسکے ہاتھ پر اپنے دانتوں سے کاٹتی ہے  

آہ۔ ۔ پاگل جانم سائیں ۔۔ یہ کیا حرکت تھی۔  تم۔ دلاور  کا عشق ہو کوئی عام چیز نہیں کہ کیسی بھی راہ چلتے کے ہاتھ میں پکڑا دو اس لیے اپنے زہین سے طاہر کا خیال نکال دو ۔اور چلو میرے ساتھ۔ ۔ 

خدا کا واسطہ ہے مجھے جانے دو ۔۔ سائیں سرکار ۔۔ یہ سب ٹھیک نہیں ۔۔ میرے گھر والے میرا انتظار کر رہے ہوگے۔   

تو کیا ہوا۔  جانم سائیں ۔ ہم نے بھی بہت انتظار کیا تھا ۔ اب اگر انکی باری آئی ہے تو تم بھی تھوڑی سی تسلی رکھو ۔  

اب چلو میرے ساتھ آگے ہی بہت وقت ضائع کر چکا ہوں ۔ اب اور نہیں کر سکتا۔    

دلاور اسکو اپنے ساتھ گھسیٹتا گاڑی کے پاس لاتا ہے اور زبردستی اندر بیٹھتا خود بھی بیٹھتے گاڑی کے دروازے کو لاک کر دیتا ہے تاکہ وہ باہر نا نکل سکے ۔ 

وہ اسکو واپس دارے میں لاتا کمرے میں لے جاتا ہے جہاں پر مولوی صاحب آگے ہی تشریف لائے بیٹھے تھے۔ دلاور نے اسکو ماں باپ بہن کی دھمکیاں دے کر جیسے تیسے نکاح کر ہی لیا تھا ۔۔۔ 

مولوی کے جانے کے بعد اس نے اسکو ابھی خاصی رقم دی تھی ۔  

ارج سے تو یہی نہیں سمجا جا رہا تھا کہ یہ وہی سائیں سرکار تھا ۔ مگر جو بھی ہو وہ اب اسکا شوہر بن چکا تھا ۔ جو ارج کبھی قبول نا کر سکتی تھی کیونکہ دلاور نے یہ رستہ گن پوائنٹ پر کروایا تھا۔  

وہ نکاح کے مکمل ہونے پر اس کمرے میں دوبارہ داخل ہوتا ہے۔   

چلو اٹھو تمہیں گھر چھوڑ آؤ۔۔۔  

لہجہ کیسی ہمدرد کی صورت اختیار کرتا تھا ۔ 

کس منہ سے جاؤ گی گھر میں۔   کیوں تم۔تو بڑے ہی زمین جاگیر دار بنتے ہو نا پھر مجھے اپنے ساتھ گھر لے جاتے کہاں جاتی ہے تمہاری غیرت ۔  

وہ فوراً سے کھڑی ہوتی اسکا کالر پکڑتی ہے۔  آنکھیں لگاتار رونے کی وجہ سے سرخی مائل تھی ۔ 

جااانم سائیں۔۔  تمہارا مجھ پر حق ہے جسکو تمہیں زرا بھی استعمال نہیں کرنا آتا ۔ مگر خیر ہم تمہیں تمیز کے دائرے سمجھا دے گے اور جہاں رہی بات ہماری غیرت کی تو شکر ادا کرو کہ تمہیں اپنی بیگم بنایا ہے ورنہ ہمیں استعمال کر کے پھینکنا آتا ہے ۔ ۔ 

دلاور اسکی کلائی پکڑتا اسے دور کرنے کے ارادے ترک کرتا خود پر اور جھکاتا ہے ۔۔ 

واللہ یہ آنکھیں ۔ کتنی حسین ہے میرے محب کی۔   

وہ لب کھولتا پھونک اسکے چہرے پر گراتا۔ اسکی آنکھیں بند کر گیا ۔۔  

سیدھا سیدھا کہہ دو کہ آج کی رات ہم سے دور نہیں رہنا چاہتی ہو اس لیے ہمارے سارے جانے کی بات کر دی تم نے ۔ 

آواز دھیمی سی تھی ۔  

ارج کی دھڑکنیں اتنی تیز تھی کہ دلاور بڑے ہی دلچسپ انداز میں اسکی تیز سانسوں اور دھڑکنیں کو سن رہا تھا ۔۔ 

واہ ۔۔ مزہ آگیا آج تو ۔۔  

دلاور پیچھے ہٹتے طنزیہ مسکراہٹ سے کہتا ہے ۔ 

اب تو تم ہمارے ساتھ حویلی ہی جاؤ گی ہماری بیگم بن کر مگر فی الحال کے لیے جانم سائیں آج کی رات یہی پر گزارنی پڑے گی مگر زرا بھی فکر مت کرنا ہم بعد میں ۔۔۔۔ سمجھ گئی ہو نا۔    

دلاور آنکھ مارتے کہتا ہے ارج کو لگا کہ اس میں زرا بھی شرم نہیں۔  

تم جیسے بے غیرت مرد سے مجھے اسی کی امید ہے۔   

دلاور  ارج کے منہ سے یہ لفظ سن دماغی توازن بھول گیا ۔ 

چپ ۔ خبردار جو یہ لفظ کہا ۔ میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں اگر بے غیرت ہوتا تو تمہاری جوانی میرے ہاتھو سے ختم ہوتی۔    

دلاور اسکی ٹھوڈی پکڑتا اپنے الفاظوں کا کہر اس پر برسا رہا تھا۔   

ارج ڈرتے روتی اسکا بازوں پکڑتی خود سے دور کرتی ہے۔   

بہتر جانم سائیں کہ آئندہ خیال رکھنا ہم ہر بار خود پر قابو نہیں رکھ سکتے ۔ ایک تو ہمیں اللہ نے بیوی ہی اتنی حسین دی ہے اور اوپر سے ظالم ۔۔ 

جاری ہے ۔

جانم سائیں  

قسط 7  

آر کے 

°°°°°° 

رخماء یار کب تک یونہی رہو گی کمرے میں بند پلیز باہر نکلو ۔ میں جب سے آئی ہوں تم بس کمرے میں رہتی ہو ۔ چلو میرے ساتھ ۔  

حوریہ کمرے میں آتی اسکو بیڈ پر بیٹھا دیکھ کہتی ہے ۔ 

آپی دل نہیں۔۔ آپ چلی جائے نا ۔مجھے یہیں پر رہنا ہے ۔  

جھٹ سے اٹھتے وہ کہہ گئی ۔ 

مگر۔۔۔ یہ لڑکی کیا کر رہی ہے ادھر دلاور ۔۔ میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں ۔۔  

حوریہ کچھ بھی بولتی آگے کی تبھی اسکو۔  اماں سائیں کے انچی آواز سنائی دی ۔  

یہ کہہ رہی ہے اماں سائیں۔۔ ؟!؟ 

وہ دونوں خیران ہوتی کمرے سے باہر نکلی ۔ جب زمانے دلاور کے ساتھ ایک لڑکی نظر آئی جس نے اپنے شانوں پر شال کی ہوئی تھی سفید چہرہ تھا مگر آنکھوں سرخ تھی رونے کے باعث۔  

میں پوچھتی ہوں کہ یہ لڑکی کیا کر رہی ہے ہماری حویلی کس رشتے سے لے کر آئے ہو تم یہاں کر اسکو  

اماں سائیں یہ میری ۔۔  بیوی ہے ۔میں نے اسے نکاح کر لیا ہے آپ سے کہا تھا نا کہ صرف ارج سے ہی نکاح کرو گا ۔  

وہ ارج کی طرف دیکھتا ہے جو سر جھکائے ۔ کانپتے وجود سے ان سب کی باتیں سن رہی تھی ۔ 

اووو اچھا تو یہ ہے وہ لڑکی جسکے پیچھے تم ہماری حویلی کی غیرت کو بیچ آئے ہو اب تو نکاح بھی کر لیا ہے تم نے  

اماں سائیں آگے آتی  ارج کو آنکھیں چھوٹی کرتی دیکھتی ہے۔    

اماں سائیں یہ ہماری بیگم ہے ۔ آپ کو جو کہنا ہے وہ ہمیں کہے مگر ہم اپنی جانم کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں سنے گے۔   

واہ بیٹا واہ ۔ ابھی نکاح کر کے آئے ہو اور ابھی اسکے پلو کے ساتھ لگے مجھے باتیں سنا رہے ہو۔  کیا سوچھ کر تم نے یہ نکاح کیا ۔ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ میری اولاد اتنی منہ زور کیسے  ہوئی ہے۔ 

دلاور آگے بڑھتا ہے ۔۔۔ 

اماں سائیں ایسا کچھ نہیں ۔ آپ غلط سوچ رہی ہے   بس۔ دلاور ۔ بس تمہاری کمی تھی جو یہ کر کے بھی تم نے بہت ہی بڑا کام کیا ہے ۔ بس ۔ میری اولاد کو جب میری فکر نہیں تو مجھے کیوں لگے تم سے۔   

اماں سائیں کہتی سیڑھیوں کی طرف رہ کرتی ہے۔   

روک جائے اماں سائیں ۔۔  

ارج انچی آواز میں کہتی انکے قدم روک لیتی ہے۔  

مجھے بھی اس رشتے سے آزادی چاہیے میں طلاق چاہتی ہوں ۔۔  

اسکے بولے الفاظ ہال میں خاموشی اختیار کر گے دلاور غصہ ظبط کرنی والی آنکھوں سے دیکھتا اسکی کلائی پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا ہے  

جانم ایسے نہیں کہتے ابھی تو ہمارا نکاح ہوا ہے اس لیے چپ اب ایسی بات کی تو۔۔ 

آنکھوں سے کھا جانے والی نظریں تھی جو ارج کی سیاہ بھنوؤں آنکھوں میں دیکھتا اسکو ڈرا رہا تھا۔  کہ تبھی اماں سائیں ایک طرفہ طنزیہ مسکراہٹ لاتی دوبارہ سے نیچھے آتی ہے۔   

دیکھیں اماں سائیں مجھے اس گھر میں رہنے اور آپکے بیٹے میں کوئی دل چسپی نہیں اس لیے مجھے طلاق چاہیے ابھی ۔  

ارج یہ سب جان بوجھ کر کر رہی تھی کہ دلاور کے لیے مشکلات پیدا کر سکے مگر وہ بھی دلاور سائیں تھا پھر بہلا اپنی جانم کو کیسے نا قابو کرتا ۔  

میں نے کہا نا چپ خبردار جو ایک لفظ بھی کہا ورنہ تمہاری زبان کاٹ دو گا ۔ تمہارے ساتھ نکاح کیا ہے یہ کوئی گڈا گوڈی کا کھیل نہیں جو طلاق چاہیے  

چھوڑو مجھے ۔۔ تم سب بے غیرت ہو یہاں پر ۔ سب ۔ 

ارج نے لحاظ بولی تھی اماں سائیں کا تو مانو میڑ ہی ہائی ہو گیا اس عام سی لڑکی کے منہ سے یہ لفظ سن ۔ 

چٹاخ ۔۔   

ارج تیزی دیکھاتی اپنا بازوں آزاد کرواتی ہے کہ تبھی اماں سائیں اسکے پاس آتی ایک زور دار تھپڑ رسید کرتی ہے کچھ پل کے لیے سب کے منہ بند ہو گے تھے آنکھیں خیران کن تھی کہ یہ کیا ہوا ہے تھپڑ ارج کو نہیں بلکہ دلاور کو لگا تھا کیونکہ وہ ارج کے سامنے آتا اسکا تھپڑ بھی کھا گیا ۔ اماں سائیں چونک گئی تھی اور کیوں نا چونکتی یہ جو کام کر گئی تھی دلاور کی نظر ایک پل کے لیے زمین پر جھکی تھی دوسری طرف ارج چند قدم پیچھے ہوتی ڈر گئی کہ سب پتا نہیں کیا ہوگا۔  

بہت اچھا ہوا جو تم نے اپنی بیوی کا تھپڑ کھایا اب تمہیں بھی عقل آئے گی کہ جب بیوی کی زبان قابو سے باہر ہو تو اسکا ازالہ شوہر کو اٹھانا پڑتا ہے  

دلاور نے آنکھیں اٹھاتی صرف ارج کی طرف دیکھا تھا ۔ اماں سائیں اب اور برداشت نا کرتی وہاں سے چلی گئی کیونکہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو تھپڑ جو مار بیٹھی تھی اور یہ کام ان کے لیے نہایت تکلیف دہ تھا ۔ حوریہ اور رخماء بھی ان دونوں سے کوئی بات کیے بغیر اوپر چکی گئی تھی کیونکہ وہ اگر کوئی بھی بات کرتی تو اماں سائیں انکا بھی یہی حال کرتی جو آج دلاور کا ہوا تھا آج سے پہلے اس پر کیسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا مگر آج اپنی ہی ماں کے ہاتھو سے تھپڑ کھایا تھا س نے صرف اپنی جانم کے لیے سب پتا نہیں اس کا کیا حال کرے گا وہ ۔۔  

مجھے تو لگا کہ تم صرف بے غیرت مرد ہو مگر یہاں پر تو تم سے بھی اعلیٰ ترین لوگ بھی موجود ہے۔   

وہ پھر سے الفاظ چبا چبا کر کہہ رہی تھی جو دلاور کی برداشت سے باہر تھے۔   

تبھی وہ چپ کرتا اسکی کلائی مظبوطی سے پکڑتا اپنے ساتھ گھسیٹنے والے انداز میں اوپر لاتا اپنے کمرے میں لے جاتا ہے ۔  

کمرے میں آتے ہی وہ اسکو پیچھے سے کھینچتے تیزی سے آگے  بیڈ پر گرا دیتا ہے اور خود آگے بڑھتا اسکے سر پر کھڑا ہوتا ہے  

ارج أمندے منہ بیڈ پر جا کر گری تھی جسکی وجہ سے اسکی قمیض تھوڑی سی پوزیشن سے ہلی  تھی۔  

آج بتاؤ گا کہ بے غیرت مرد کیا ہوتا ہے اور میں کون ہو ۔ کتنی بار کہا تھا کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو مگر نہیں یہ جو کینچی کی طرح چلتی ہے آج اسکو کاٹنا ہی پڑے گا۔ جانم سائیں۔  

ارج جلدی سے سیدھی ہوتی بیڈ کے اوپر پاؤ کرتی پیچھے کی طرف خود کو گھسیٹ رہی  تھی کہ تبھی دلاور ایک لمبا سانس لیتا اسکے پاس آکر بیٹھتا ہے۔   

اب کیا ہوا ہے تمہیں ۔ چلاؤ نا اپنی زبان سے  کہو نا مجھے بے غیرت ۔۔ بولتی کیوں نہیں ہو ۔  

وہ تیزی سے آگے ہوتا اسکا جبڑا دبوچ لیتا ہے ۔ 

پلیزز ایسا مت کرو ۔ میں نے کیا کیا ہے۔   مجھے میرے گھر جانے دو ۔۔  

بس بس جانم سائیں اتنا یاد مت کرو اپنے گھر کو ایسا نا ہو کہ پھر میں حقیقت میں بھی تمہارے لیے تمہارے گھر  والے صرف یاد بنا دو ۔  

وہ آگے بڑھتا اپنا جھکاؤ کرتا اسکی آنکھوں میں ہی دیکھ رہا تھا جن میں صرف خوف جہلک رہا تھا  

اسکی ٹھوڈی کو اوپر کرتا وہ اسکے لبوں پر فوکس کرتا مزید آگے بڑھتا ہے ارج نے اپنی سانس روک رکھی تھی وہ زور سے آنکھیں بند کرتی آنے والے حادثے پر رضامند ہوتی چپ رہی تھی جبکہ دلاور اسکی کیفیت کو دیکھتا کچھ پل یونہی رہا پھر یک   دم اسکو خود سے آزاد کرتا وہ بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا 

وہ کچھ بھی نا کہتے کمرے سے باہر چلا گیا ۔  

ارج نے آنکھیں کمرے کے دروازے کی آواز پر کھولی تھی ۔۔ دل زور زور سے مچل رہا تھا۔۔ 

°°°°° 

امی آپ جب سے آئی ہے حویلی سے ہو کر تب سے چپ رہتی یے کچھ بتائے نا کہ کیا ہوا تھا وہاں پر مجھے فکر ہو رہی ہے آج بھی رخماء یونیورسٹی نہیں آئی تھی پلیزز امی کچھ تو بتائے نا ۔ 

حیدر خالدہ بی کے پیچھے پیچھے چلتا ان سے بات کر رہا تھا جبکہ وہ کیچن میں کھڑی اسکو اگنور کرتی فریج سے کچھ سامان نکالنے میں لگ جاتی ہے  

امی میں آپ سے بات کر رہا ہوں پلیزز کچھ تو بتائے کہ کیا کہا تھا انہوں نے ۔۔ کیا انکار کر دیا ہے ۔ ان لوگوں نے ۔  

حیدر آواز آہستہ کرتا کہتا ہے دل سے جان ہلک تک آرہی تھی  

ہاں انکار کر دیا ہے ان لوگوں نے یہ کہہ کر کہ اپنے بیٹے کو لڑکیوں کی تمیز کرنا سیکھا پہلے ۔۔ کیا ضرورت تھی یہ حرکت کرنے کی اب وہ کبھی بھی رخماء کا تم سے رشتہ نہیں کرے گے نجانے آج کل کی نوجوان نسلوں کو یہ سب کرتے شرم نہیں آتی۔  

خالدہ بی کے منہ سے یہ لفظ سن حیدر کا چہرہ شرم سے جھک گیا تھا ۔ 

امی دیکھے۔ ۔۔ آپ بس مجھے بتا دے کہ ان لوگوں نے رشتے سے کیوں انکار کیا ہے آخر کیوں ۔ 

خالدہ بی کرسی پر آکر بیٹھتی ہے کہ تبھی حیدر انکو کندھوں سے پکڑتا نہایت اخترام سے کہتا ہے 

امی۔۔۔ آپپپ ۔۔۔۔  

چھوڑو مجھے ۔۔ مجھے تو شرم آرہی ہے کہ تم نے یہ حرکت کی ۔۔ اگر تمہاری کوئی بہن ہوتی تو کیا تمہاری برداشت سے باہر ہوتا کہ کوئی بھی لڑکا اسکے ساتھ یوں کرتا جو تم نے کیسی کی بہن کے ساتھ کیا ہے ہمم بتاؤ نا ۔۔ 

خالدہ بی کا غصہ بڑ رہا تھا مزید  

اپنے غصے کو ظبط کرتی وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔  

حیدر وہی پر انکو جاتے دیکھتا پریشان سا ہو گیا  

°°°°°° 

ارے یار میری بات تو سن لو ۔ تمہیں پتا ہے آج رخماء کیوں نہیں آئی ۔ یار وہ مجھ سے بات بھی نہیں کر رہی پتا نہیں ایسا کیوں ہے ۔ کیا تمہاری بات نہیں ہوتی اسے اگر ہوتی ہے تو اسکو یہ کہنا کہ حیدر نے تم سے بات کرنی ہے پلیزز 

حیدر سجل کے پیچھے چلتا باتیں کر رہا تھا ۔تبھی وہ بے زاری لائی روکتے پیچھے ہوتی ہے 

دیکھو حیدر وہ تم سے اب کبھی بات نہیں کرے گی تو اس لیے بہتر ہے کہ تم اسکو بھول جاؤ کیونکہ تم نے جو حرکت یونیورسٹی میں کی تھی وہ سب کو پتا چل گئی ہے اور اسکی اماں سائیں کو بھی شکر کرو کہ ابھی صرف اسکا رشتہ کہیں اور طے ہوا ہے ورنہ وہ جتنے ظالم لوگ ہے تمہاری لاش بنا کر پھر اسکی ڈولی اٹھاتے ۔ 

کیا کہہ رہی ہو تم۔ 

اسکا رشتہ کہیں اور ۔۔ مگر کیوں ۔۔ 

حیدر نے آنکھیں پھاڑ دیکھا 

ہاں ایسا ہی ہے اسکا رشتہ اماں سائیں نے کہیں اور کر دیا ہے۔  اور چند دن بعد اسکا نکاح کروا کر کہیں بھی رخصت کر دے گی۔ اس لیے تم اسکو بھول جاؤ۔ اور مشکلات مت بناؤ اسکے لیے آگے ہی اسکی فیملی بہت ظالم ہے ۔ 

سجل کہتی اسکو بائیں سماجی وہاں سے چلی گئی جبکہ حیدر کا دماغ سن ہو رہا تھا کہ نکاح وہ بھی کیسی اور کے ساتھ ۔ 

رخماء تم صرف میری ہو ۔ اور دیکھانا تمہارے تک پوچھنے کے لیے مجھے اپنی جان بھی قربان کرنی پڑی تو کر گا ۔ ہمارے درمیان کوئی نہیں آسکتا تم صرف میری ہو صرف میری ۔ نکاح صرف ہم دونوں کا ہوگا۔ 

حیدر نے پوکیٹ سے فوج نکلا اپنا رخ یونیورسٹی سے باہر کیا اور گاڑی کی طرف آتے سڑک کی طرف دیکھتا اور فون پر بات کرتے سمجانے  والے انداز میں بتاتے اپنی گاڑی میں بیٹھا۔ 

میں بھی دیکھتا ہوں کہ کون تمہیں مجھ سے دور کرتا ہے۔  بہت جلد ملاقات ہوگی رخماء۔۔ 

°°°°°°° 

رات کے ایک  بج رہے تھے جب سب اپنے اپنے کمروں میں موجود سو رہے تھے مگر اس حویلی میں ابھی بھی دو شخصیات کے پاس سے بھی نیند نا گزری تھی ایک طرف رخماء تو دوسری طرف ارج تھی دلاور کے جانے کے بعد وہ کمرے  سے باہر بلکل بھی نہیں نکلی تھی اس نے کل رات سے کچھ نہیں کھانا تھا اور وہ باہر جا کر ان سے مانگ بھی نہیں سکتی تھی ایک تو منہ زور زبان جو چلا چکی تھی اب کون ہوتا جو اسے کھانے کا پوچھتا ہوں۔۔ 

وہ پھر بھی بھوکے پیٹ سونے کی کوشش کرتی ہے مگر جیسے تیسے کر اسکی آنکھ لگ ہی جاتی ہے ۔۔ 

رخماء بھی کمرے میں موجود صرف حیدر کے بارے میں ہی سوچھ رہی تھی ۔ ویہی عمل اسکو بسر بار یاد آرہا تھا۔  اک تو غصہ اور اوپر سے دل کر رہا تھا کہ خود کو ہی جان سے مار دے ۔ ایسی زندگی ہوں جینا چاہے گا کہ جس میں ایک لڑکی کے کردار پر تاکید کی جائے اور سب سے بڑی بات کہ اپنے ہی ایسا سمجھے۔    

بیڈ سے ٹیک لگائے وہ آنکھوں کو بند کرتی سونے کی کوشش کرتی ہے جب آنکھوں میں نیند آلود ہونے لگی تو جھٹ سے کیسی کی موجودگی کو محسوس کرتی اس نے آنکھیں کھولیں ۔اور  بس یہ آنکھیں ایک بٹن کی شکل لے گئی کیونکہ جو مقابل کھڑی شحصیت تھی وہ اسکی سوچو سے بھی باہر تھی ۔ 

تت۔   تممم۔۔ تم کیااااا۔   کررر رہے ہو۔    

وہ جھٹ  سے اٹھتی کمرے کے اردگرد نظر گھماتی ہے جبکہ وہ شخص اسکے پاس آتا  اپنے ایک ہاتھ سے اسکے لبوں پر رکھتا چپ کروا دیتا ہے ۔ 

شششش ۔۔۔  

چلو میرے ساتھ میں تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہو چلو ۔  

حیدر نے رخماء کے قریب ہوتے سرگوشی نما کہا آواز آہستہ تھی ۔ وہ آرام سے ہاتھ پیچھے کرتا ہے کہ تبھی رخماء چیخنے کی کوشش کرتی کچھ بولنا چاہتی تھی مگر حیدر پھر سے اسکے لبوں پر ہاتھ ہاتھ رکھتا اسکو چپ کروا گیا ۔  

میں نے کہا نا چپ ۔ کوئی شور نہیں ہوگا یہاں پر میں بھی دیکھتا ہوں کہ تمہارا کہیں اور رشتہ کیسے ہوتا ہے ۔۔  

مم۔۔ ممم۔۔ مججھھ۔  

وہ اسکے ہاتھو پر ہاتھ مارتی خود سے دور کرنے کی جدو جہد شروع کرتی  ہے 

اگر شور نہیں کرو گی تو ٹھیک ہے میں اٹھاتا ہوں ہاتھ ۔  

وہ آنکھو سے سمجھاتے ہاتھ پیچھے کرتا ہے ۔  

۔۔ رخماء لمبا سانس لیتی کچھ کہنے کی کوشش کرتی ہے  

تت ۔۔ تمم۔ پاگل ہو گے ہو کیا ۔ یہ کیا حرکت تھی ۔  

رخماء مجھے اس وقت بس تمہیں یہاں سے لے جانا ہے اور ہم پھر نکاح کر لے گے مجھے پتا ہے کہ تمہیں یہ بہت ہرٹ کرے  گا مگر میں بہت خوش رکھو گا تمہیں ۔۔ بلیو می ۔  

 حیدر گستاخی سے بڑتا اپنی باتوں سے قربت بڑھا رہا تھا جو رخماء کی برداشت سے باہر تھا تبھی وہ اسکے گال پر ایک تھپڑ رسید کرتی اسکو چپ کرواتی ہے کچھ پل کے لیے دونوں کے درمیان خاموش قابض ہو گئی ۔  

آنکھیں اٹھاتا وہ ایک پل بھی ضائع کیے بغیر رخماء کی کلائی پکڑتا اسکو بیڈ سے کھڑا کرتا اپنے سینے پر جھکاتا ہے۔  

مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میں نے بہت ہرٹ کیا ہے مگر میرا یقین کرو میں بہت شرمندہ ہوں بہت چاہتا ہوں تمہیں۔ تم کیسے کیسی اور کے ساتھ نکاح کا سوچ بھی سکتی ہوں۔  دیکھوں ان آنکھوں میں کیا صرف تمہارے لیے محبت نہیں۔   

رخماء کے دونوں ہاتھ حیدر کے سینے پر تھے جبکہ جھکاؤ چہرے پر تھا وہ محبت میں کائل آنکھو سے دیکھ رہا تھا ۔ 

چھھ۔ چھوڑو مجھے ۔۔ نہیں کر نا مجھے تمہارے نکاح ۔ میں اپنی اماں سائیں اور اس حویلی کے ساتھ بغاوت نہیں کر سکتی ۔  

ٹھیک ہے پھر میں بھی اپنی محبت میں بغاوت نہیں کر سکتا ہونا تو تمہارا مجھے ہی ہے پھر چاہے جتنی التجا کر لو۔ ۔ائی ایم سوری رخماء۔  

حیدر اپنی بات کے مکمل ہونے پر ہاتھ میں موجود ٹیشو اسکے چہرے پر رکھتا اسکی آنکھوں کو بند کر گیا رخماء بھی اپنے قدموں پر کھڑا نا رہ سکتی تھی اور وہ گرنے ہی والی تھی کہ حیدر نے کمر میں ہاتھ ڈال اسکو اپنے سینے پر جھکا لیا وہ آنکھیں نیچھے کرتا اسکے چہرے کی طرف دیکھتا ہے جو اس وقت بے حد حسین لگ رہا تھا تبھی وہ محبت دیکھاتا اسکے ماتھے پر بوسا دیتا ہے ۔ 

°°°°° 

صبح کے چھ بج رہے تھے جب اس گاؤں کے ایک گھر سے انچی انچی آوازیں گونج رہی تھی ابھی تو کھیتوں پر سورج اپنی ہلکی ہلکی کرنے چھوڑ رہا تھا 

ارے مری بیٹی کو کون لے گیا ارے کون ظالم تھا جس نے یہ سب کیا ۔ ہائے اللہ میری بیٹی پلی پوسی ۔۔ پتا نہیں کہاں پر ہوگی۔  ظالوں اللہ پہنچنے تم سب کو  

شگفتہ بی رو رو کر سب گھر والو پر قیامت کا رہی تھی طاہر بھی ان کے گھر پر موجود تھا سب لوگ کیسی فلم کو دیکھنے یہاں پر آئے ہوئے تھے ہر کوئی باتیں کرتا اک دوسرے کو نتیجے سنا رہا تھا کہ تبھی انکے گھر کے باہر ایک ساہ رنگ کی جیپ روکی جبکہ اسکے پیچھے بھی گاڑیاں تھی سب لوگ خیران تھے کہ تو سائیں سرکار کی گاڑیاں ہے پھر یہاں پر کیا کر نے آئے ہے۔  وہ اس گھر کے دروازے پر راستا بناتے پیچھے ہٹ رہے تھے ۔  

ابھی تو میں نے اپنی بیٹی کا بیاہ بھی کرنا تھا نجانے کون لے گیا میری جان کو ہائے ربا ۔ مجھے میری بیٹی واپس دے دے۔   

شگفتہ بی اپنے ڈوبٹے سے آنسو صاف کرتی مسلسل رو رہی تھی ۔  

ارے اماں کیا ہو گیا ہے تجھے ۔۔ ٹھیک ہے تیری بیٹی۔  اور ہمارے گھر پر ہماری بیگم کی حیثیت سے رہ رہی ہے۔  اس لیے اب ہم کو تھوڑی بدعائیں دے کیا پتا قبول ہو کر ہماری جانم کو درد ہو جو ہم چاہتے نہیں ۔ اپنے داماد کو پیار سے دعائیں دیا کر ۔اب تو ہمارا اس گھر کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق بن گیا ہے ۔  

دلاور سفید لباس میں ملبوس شانو پر اچرک اوڑھے ہمیشہ کی طرح موچھوں کو بل دیتا اندر داخل ہوتا ہے شگفتہ بی اسکی باتیں سن کیسی بے جان کی طرح اسکے پاس آتی پاؤ میں گر پڑتی ہے طاہر کی جان ہے بن آئی تھی کہ اس نے ارج کے ساتھ نکاح کر لیا ہے ۔ وہ اپنی باتوں کی تصدیق چاہتا تھا  

سائیں سرکار۔۔  ہماری بیٹی واپس کر دو۔  

نا نا ماں یہ تو کیا کہہ رہی ہے۔  بیٹیاں رخصت ہونے کے بعد صرف اپنے شوہر کے گھر کی ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ ہماری بیگم ہے ہم اسکو یہاں پر کیوں۔ چھوڑ دے آخر حویلی کی عزت ہے وہ ہماری ۔ اس لیے تو ایسا مت بول اب اٹھ یہاں سے یوں توڑی نا اچھا لگتا ہے کہ گھر آئے نئے نئے داماد کو ایسے خوش آمدید کہا جائے ۔  

اور تم سب لوگ یہاں پر کیا کر رہے ہو جاؤ یہاں سے گھر میں ابھی روٹیاں توڑی نہیں ہوگی کہ یہاں پر منہ اٹھا کے آگے ہو سب کے سب ۔ 

دلاور غصہ کرتے ان سب کی طرف دیکھتا کہتے ہے کہ تبھی طاہر آگے آتا اسکا کالر پکڑ لیتا ہے بغیر کیسی خوف کے سب لوگ خیران تھے  

کمینے کہاں ہے میری ارج بتا ۔ مجھے تو پہلے دن سے ہی شک تھا کہ تو ایسا ہی ہوگا ۔ تونے ہی اغواہ کیا ہے ہماری ارج کو ۔ 

طاہر کی یہ گستاخی دلاور کا غصہ زمین آسمان کر گئی۔  وہ اپنے مظبوط ہاتھوں سے اسکے ہاتھوں کو دور کرتا اپنے کالر کو جھاڑتا ہے کہ تبھی سب لوگ یہ منظر دیکھتے اپنے منہ کھول لیتے ہے کیونکہ دلاور نے اسکے چہرے پر تین تین مرتبہ تھپڑ رسید کیے تھے پہلے دو تھپڑ تو اسنے ہوش میں کھڑے کھائے تھے مگر اگلا تیسرا اسکو زمین پر گرا گیا۔  

خبردار جو اپنی زبان سے ہماری جانم کو کچھ بھی کہا   اور تیری اتنی اوقات نہیں ہمارا کالر پکڑنے کی اس لیے آج کے بعد اپنی اوقات دیکھ کر ہمارے سامنے آنا ۔ سمج آئی بات تجھے ۔۔ 

وہ دھاڑتے ہوئے بول رہا تھا اب سبھی گاؤں کے لوگ چپ ہوتے وہاں سے جانے کے کیونکہ سائیں سرکار نے جو اسکا حال کیا تھا اگر کوئی بھی وہاں پر رہتا تو اسکے ساتھ بھی یہی ہوتا۔  

اور بند کرو یہ رونا دھونا اماں۔ خوش ہو کہ تیری بیٹی کا نصیب ہمارے ساتھ جوڑا ہے ناکہ اس طاہر کے ساتھ اگر تجھے پتا چل جائے کہ جتنا یہ شریف ہے گاؤ سے باہر تو تو کبھی بھی اسکا رشتہ نا کرتی ارج سے اور اس بارے میں سوچھتی تک نا ۔ میں بس یہاں ہر یہی بتانے آیا ہوں کہ وہ اب میری عزت ہے اس لیے اب تماشا مت بنانا ورنہ تم جاتی ہو اماں کہ سائیں سرکار کیا کچھ کر سکتا ہے بہتر اب میں چلتا ہوں 

وہ کہتے وہاں سے چلا گیا شگفتہ بی کے دل کو سکون ملا مگر طاہر اتنی بھڑ میں دلاور کے ہاتھو سے تھپڑ کھا کر دماغی توازن کھو چکا تھا دلاور جو گاڑی میں بیٹھنے والا تھا کہ تبھی طاہر آگے بڑھتا ملازم کے ہاتھ سے بندوق چھینتے دلاور کی طرف نشانا بناتے گولی چلا دیتا ہے سبھی بولی کی آواز اس گھر پر سایا کر گئی پرندے خوف سے چیخنے لگے ہر طرف ملازموں کی بھاگ دوڑ لگ گئی کچھ تو دلاور کی طرف لپکے مگر کچھ ظاہر کو پکڑنے لگے کیونکہ وہ فائیر کر کے وہاں سے بھاگنے لگا مگر ملازموں نے پیچھا کرتے اسکو پکڑ ہی کیا تھا۔ دلاور گولی کھاتے پہلے تو ہڑبڑا گیا تھا مگر تبھی ملازم اسکو سہارا دیتے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹاتے ہے گولی اسکو پیٹ کو چھو کر گئی تھی۔  مگر خون کافی تھا اور اوپر سے لباس بھی سفید جسکو دیکھ کر دل دہل جاتا تھا ۔ 

°°°°°°

مولوی صاحب سے کہو کہ تیار رہیں نکاح کے لیے میں ابھی جا رہا ہوں دیکھنے اس لیے۔ تم یہاں کا حیال رکھنا ۔

وہ اپنے دوست کو سمجھاتا وہاں سے چلا گیا یہ سب ایک چھوٹے ہے فلیٹ میں موجود تھے حیدر نے رخماء کو یہاں پر ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر رکھا تھا نکاح کرنے کی غرض سے مولوی کو بھی بلا لیا تھا اب پتا نہیں رخماء کا کیا ریکشن ہوگا آگے سے ۔وہ کمرے میں آتے سامنے رخماء کو پاتا ہے جسے کرسی کے ساتھ باندھا گیا تھا مگر صرف کلائی کو 

رخماء ۔۔ یہ کیا ہوا ہے تمہیں۔۔  

وہ اسکی کلائی پر خون دیکھتا فوراً سے آگے بھاگا کیونکہ رخماء کا بچار بار کوشش کرنا اس خون کو بہا گیا ۔

دیکھاؤ مجھے۔   

چھوڑو۔۔  پلیززز۔ حیدر مجھے جانے دو۔ اماں سائیں ہم دونوں کو قتل کر دے گی پلیزز۔ مجھے جانے دو۔  

ششش خاموش۔ بلکل خاموش۔۔  چھوڑ آؤ گا تمہیں حویلی مگر پہلے نکاح کرنا ہو گا مجھ سے ۔ 

حیدر ریلیکس ہوتے کہتا اسکی فکر بڑھا گیا۔ 

تم پاگل ہو گے ہو کیا۔  یہ کیا بچو والی ضد ہے اگر اماں سائیں کو پتا چلا کہ انکی جوان اولاد ایک۔ادھی رات باہر گزار کر آئی ہے تو کیا سوچھتی گی وہ ۔تم تو ایک لڑکے کو تمہیں تو اسکی کوئی فکر نہیں مگر میں ایک لڑکی ہو ۔ خدا کا واسطہ ہے جانے دو ۔ 

حیدر کائی جوا دیے بغیر اپنے کام میں مصروف تھا وہ اسکی دونوں کلائیوں سے کرسی کو کھولتا اسکی کلائی کو پکڑتا خون کو دیکھتے آنکھیں نم کر لیتا ہے۔ 

دیکھو کیا حال کر لیا ہے تم نے ۔۔ اب مجھے پہلے یہ پٹی لگانی ہوگی پھر نکاح کرنا ہوگا تم تو ابھی سے مجھ سے کام نکلوانے لگ گئی ہو رخماء۔ 

وہ ہلکی سی مسکراہٹ سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا مگر تبھی رخماء کرسی سے اٹھتی اسکو دھکا دیتی بھاگنے لگی ۔ 

رخماء ۔۔  روکو ۔۔ کہاں جا رہی ہوں ۔۔  ہاہاہاہا دروازہ بند ہے جان ۔۔ 

رخماء جو دروازے کی طرف لپکی تھی کہ سامنے اسکو بند پا کر حیدر اسکی کرسی پر بیٹھتا دیوان وار کہتا ہے 

اوففففف رخماء تم کتنی معصوم ہو میری جان ۔ اچھا باتیں بعد میں پہلے یہ مرہم لگاتا ہوں ۔

حیدر اٹھتے کمرے میں موجود ٹیبل کی طرف جاتا ایک باکس کو لاتا اس میں سے پٹی اور روئی نکالتا رخماء کی طرف رخ کرتا ہے جو ابھی تک دروازے کے ساتھ لگی کھڑی تھی 

ادھر لاؤ۔ پٹی کرو  کیوں ضد کی تھی یہاں سے جانے کی ۔ اب ایسا مت کرنا میں نہیں دیکھ سکتا تمہیں یوں اس طرح سے۔  

محبت کرتا ہوں جب تمہیں بھی مجھ سے محبت ہوگی نا پھر دیکھانا میرے درد میں ہونے پر تمہیں کیسا محسوس ہوگا ۔ 

کرسی پر بیٹھتے 

اپنے کام میں مصروف وہ کہتے اپنی پٹی کو مکمل کر گیا رخماء نے آگے سے کچھ بھی نا کہا تھا ایک دفعہ نظر اسکے چہرے پر گری تھی سیاہ ہلکی سی شیونگ سرخ سفید چہرہ تھا ۔ لبوں کو کھولتے وہ دل لگا کر اسکو پٹی  کرتا اب اٹھ کھڑا ہوا 

چلو یہ تو ہو گیا اب ہم جلدی سے نکاح کر لیتے ہے پھر تمہیں بھی گھر چھوڑ آؤ گا ۔ 

وہ کہتے کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ رخماء روتے گالوں کو تر کر رہی تھی آنسو روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے کیا اب واقع میں اسکا نکاح حیدر سے ہونا تھا یاں پھر نہیں۔۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ 


جاری ہے ۔۔۔

جانم سائیں 

قسط آخری 8

تحریر آر کے 

°°°°° 

حوریہ یہ سب کیا ہوگیا ۔ پتا نہیں کس نے یہ سب کیا۔  ہمارے بیٹے کے ساتھ ۔۔ تووو۔ تم حاشر کو کال کرو اور پوچھو کہ کس ہسپتال میں داخل کیا ہے دلاور کو۔   

اماں سائیں روتی دل بھاری کر رہی تھی حوریہ انکو کندھوں سے پکڑتی چپ کرواتی حوصلہ دے رہی تھی  

اماں سائیں چپ ہو جائے پلیززز اللہ سب ٹھیک کر دے گا میں کرتی ہو حاشر کو کال ۔ 

حوریہ فون کو پکڑتی لرزتے ہاتھوں  سے حاشر کو کال کرتی  ہے  مگر تبھی ارج جو کمرے میں موجود تھی شور مچا سنتی کمرے سے باہر نکلی اور ملازمہ سے پوچھا ۔۔ 

یہ شور کیوں ہو رہا ہے ۔۔  کیا بات ہے ۔۔ جو اماں سائیں یوں تو رہی ہے۔  ؟!؟ 

آنکھیں سوالیہ تھی ۔ ملازمہ نے خیران ہوتے جواب دیا  

بی بی صاحب اپکو  نہیں پتا کہ سائیں سرکار صبح ہی آپکے گھر گے تھے مگر وہاں پر ایک طاہر نامی لڑکے نے گولی چلا دی اسکو تو پکڑ لیا ہے مگر سائیں سرکار ہسپتال میں ہے آپ ان کے لیے دعا کریں ۔ ملازم بتا رہا تھا کہ خون زیادہ بہا ہے ۔ 

حوریہ نے اونچی آواز میں اس ملازمہ کو بلایا تو وہ فوراً بھاگتی وہاں سے چلی گئی جبکہ ارج کو ڈھیروں عدد شرمندگی تھی نجانے کیا خوف تھا کچھ پل یہ خود سے بیگانی ہو گئی تھی پاؤ سے زمین جاتی محسوس ہو رہی تھی کیا یہی لکھا تھا قسمت میں۔   مانا کہ وہ دلاور سے محبت نہیں کرتی تھی مگر یوں اسکے اس حال میں ہونا اسکو بھی درد دے گیا تھا وہ قدم پیچھے کرتی دوڑ لگاتی اماں سائیں کے کمرے میں داخل ہوتی ہے  

اماں سائیں یہ کیاا۔ ہوا ہے ۔۔ دلاور کدھر ہے ۔۔  

حوریہ اسکو کہو کہ یہاں سے چلی جائے ہم اسکی شکل برداشت نہیں کر سکتے  

اماں سائیں کا غصہ ابھی  بھی تازہ تھا جو یوں کہتی ارج کی آنکھوں سے آنسو رواں کر گئی  

ارج تم پلیزز ابھی جاؤ یہاں سے ۔ بس دعا مر کہ اسے کچھ نا ہو۔   

مگر مجھے اسکے پاس جانا ہے پلیزز مجھے لے جاؤ۔  

خبردار جو یہ لڑکی وہاں پر گئی ۔ اماں سائیں اٹھتی سری ہے پاس آتی اسکی کلائی پکڑتی کمرے سے باہر گھسیٹتی ہے  

کیا کہا تھا تو نے کہ اس حویلی میں بے غیرت لوگ رہتے ہے تو سن لیں اب تو بھی یہاں  پر رہے گی  اور تجھے یہاں سے کوئی بھی نہیں نکالے گا ۔سن لو سب ملازم اسکو کمرے سے اگر میں نے باہر دیکھ لیا تو۔ سب اپنی جان چھپا لیانا مجھ سے۔  ٹانگیں توڑ دو گی   

اماں سائیں کہتی ارج کو کمرے میں بند کرتی وہاں سے چلی گئی ۔ 

وہ حوریہ کو ساتھ لیتی حویلی سے باہر جانے ہی لگی تھی کہ سامنے حاشر اور دلاور آتے نظر آیا حاشر نے اسکو سہارا دیا تھا اماں سائیں حیران تھی کہ یہاں ہر کسیے آگیا ۔مگر اس وقت خیرانگی سے زیادہ فکر کا حق تھی ۔ 

دلاور یہ کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔ 

کچھ نہیں اماں سائیں بس تھوڑا بہت خون بہہ گیا تھا گولی کی وجہ سے مگر اب ٹھیک ہوں ۔ ارج کدھر ہے۔ ؟!؟ 

اس وقت بھی ڈھیٹ بنے ہو کہ ارج کدھر ہے ۔ چلو میرے ساتھ ۔۔ تمہیں ہسپتال لے کر جاؤ۔۔ یوں گھر پر رہنا ٹھیک نہیں۔۔  

اووفف اماں سائیں میں ابھی آرہا ہوں ہسپتال سے اب جا کر کسی کرو گا وہ بھی دیکھ کر کہے گے کہ اسکو پھر کے آئے ہے ۔  

مجھے بس اپنے کمرے میں آرام کرنا ہے ارج سے کہیں کہ کچھ بنا کر کھلا دے ۔ بلکہ رہنے دے میں خود ہی کہہ لو گا اب چلتا ہوں۔   

دلاور نے حاشر کا سہارا چھوڑ کر کہا کہ تبھی حاشر نے اسکے بازوں کو پکڑا ۔ 

یار دیکھ تو لیں کتنی چوٹ لگی ہے تجھے اماں سائیں ٹھیک کہہ رہی ہے کہ ہسپتال جلتے ہے  ۔ 

ہائے ۔۔ چھوڑ یار سمجا کر اپنی بیگم کو اتنا بڑا دکھ نہیں دینا چاہتا ایک رات کا اس لیے نہیں جا سکتا۔   

دلاور آنکھ مارتے کہتا حاشر کو بھی ہنسا گیا۔   

وہ آہستہ آہستہ قدم رکھتا ہال میں داخل ہوتا سوری جاتے کمرے کی طرف جاتا ہے مگر تبھی اسکا کیسی کی سسکیوں کی آواز آئی اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کوئی کھڑا تو نہیں مگر وہاں پر کوئی نہیں تھا۔  

اسنے کمرے کو آن لاک کیا۔  کیونکہ اماں سائیں نے ارج کو اسی کے کمرے میں بند کر رکھا تھا۔ پہلے تو وہ خیران ہوا کہ لاک کس نے کیا کمرہ مگر پھر تبھی سسکیوں کو سوچتا اندر داخل ہوا تو زمانے ارج بیڈ کے کارنر پر بیٹھی رو رہی تھی۔  

اپپ۔۔  آپ آگے۔   کہیں ۔۔  

وہ دلاور کو دیکھتی فوراً سے آگے بڑھتی پریشان ہوتے اسکے قریب تر قریب ہو رہی تھی اسکو یہ بھی خوش نا رہا کہ ایسا کرنا وہ پسند نا کرتی تھی۔  

کیوں رو رہی تھی تم جانم ۔۔ دیکھو تمہارے طاہر نے گولی ماری ہے مجھے۔  وہ ہم دونوں کو ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتا ۔ اب میں کیا کرو۔ کیونکہ میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا۔  

دلاور لبوں پر ہنسی دباتا بیڈ پر بیٹھتا ہے  

آہ ۔۔ بہت زور کی لگی ہے تمہیں تو کوئی فکر ہی نہیں اپنے شوہر کی دیکھو۔  سارے کپڑوں پر خون لگ گیا ہے تمہارے معصوم شوہر کا ۔  

دلاور ایک نظر لباس پر ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ وہ اب کپڑے بدلنے کا ارادہ کرتا تھا  

بیٹھے رہے۔   میں لاتی ہوں کپڑے۔    

کاااا سچ میں۔۔ 

دلاور آنکھیں بڑی کرتا۔ ارج کا سر جھکا گیا  

 پھر ایک کام کرنا بدل بھی خود دینا ۔ یار ہلا بھی نہیں جا رہا۔ 

دلاور کے بات پر ارج نے نظریں اٹھائے دیکھا۔  

جانم ایسے کویں دیکھ رہی ہو اگر مجھے پتا ہوتا تو ہسپتال میں ہی کپڑے بدلوا لیتا مگر کیا کرو وہاں پر میری بیگم جو موجود نا تھی مگر خیر۔ کوئی بات نہیں اب تو ہے نا ۔۔  

دلاور تھوڑا سا بیڈ کے اوپر کو کر بیٹھتا اپنی قمیض کے اوپر والے بٹن کھولتا ہے پھر بازوں سے بٹن کھولتا اسکو کھنیوں سے اوپر کرتا اب ارج کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ کب آگے کچھ کرے گی  

میں کیسی ملازم کو بھیجتی ہوں ۔  

ارج کہتی مڑی تھی کہ تبھی دلاور یک دم اٹھتے اسکی کلائی پکڑتا اپنی طرف کھینچتا ہے مگر یوں اٹھنے کی وجہ سے درد محسوس ہوا تھا جسکے باعث اسکی آنکھوں خونی انقلاب لے آئی ۔ 

روک جاؤ۔۔ میں خود بدل لو گا کپڑے۔  تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔  ہاں ۔ ایک کام کر دو ۔کل۔سے کچھ نہیں کھایا میرے اور اپنے لیے کچھ اچھا سا کھانا بنا لو۔ تاکہ جب میں باتھ سے باہر آؤ تو کھانا تیار ہو مجھے پتا ہے کہ تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا اس لیے کیسی ملازمہ سے کہاں ایسا نا ہو کہ تمہیں کچھ ہو جائے ۔۔  

دلاور کی آنکھیں صرف ارج کے چہرے پر تھی دیوان وار دیکھتا ۔ وہ اسکی نظریں بھی خود پر جما گیا تھا ارج بھی بس اسکی طرف دیکھتی آنکھیں نم کر گئی کی کیسے اسکو پتا کہ اسنے کھانا نہیں کھایا اور اوپر سے اسنے بھی نہیں کھایا تھا۔ وہ آنکھو وک سوالیہ بناتا کچھ پوچھتا ہے  

ایسے کیا دیکھ رہی ہوں کہیں پیار ویار تو نہیں ہو گا مجھ سے ویسے مجھے کوئی مسئلہ۔  نہیں  اگر تم ابھی مجھ سے محبت وصول کرنا چاہتی ہو تو میں تیار ہوں اس حالت میں بھی ۔۔  

دلاور شانوں سے پکڑتا اپنے اور قریب کرتا اسکا دین بدل رہا تھا۔ تبھی وہ آنکھیں چراتی جیسے تیسے کرتی وہاں سے باہر نکل گئی تھی ۔۔  

دلاور بھی ایک زور دار قہقہہ لگاتا کپڑے بدلنے کی غرض سے باتھ میں گھس جاتا ہے ۔۔ 

°°°°°  

یہ رخماء کدھر ہے صبح سے نہیں دیکھا اسکو۔  جاؤ اسے کہو کہ آج تیار ہو جائے رشتہ دیکھنے آرہے ہے  

حوریہ سے کہتی اماں سائیں بیڈ پر بیٹھی ملاز۔ہ کو سمجا رہی تھی کھانے کے متعلق ۔  

اماں سائیں میں نے رخماء بی بی  کو صبح نہیں دیکھا پتا نہیں کدھر ہے وہ ۔ 

ملازمہ جو کام کے متعلق سمج رہی تھی فوراً سے بولی  

کیا مطلب تمہارا کہاں پر ہے وہ لڑکی۔    

اماں سائیں کہتی اٹھتی ہے  

مجھے نہیں پتا اماں سائیں وہ کدھر ہے مگر ہم نے سارا کمرہ ڈھونڈ لیا ہے وہ کہیں نہیں ملی۔  

کیا بکواس کر رہی ہو پاگل لڑکی۔ جاؤ دیکھو کدھر ہے وہ۔  

اماں سائیں میرا یقین کرے وہ اپنے کمرے میں موجود نہیں۔  مجھے تو لگتا ہے کہ وہ بھاگ گئی ہے حویلی سے۔     

ملازمہ نے بے لگام باتیں کر ڈالی ۔۔  

اماں سائیں گرتی گرتی بچی تھی ملازمہ اور حوریہ نے آگے بڑھتے انکو سمبھالا تھا  

°°°°°°° 

رخماء۔    رخماء۔۔   دیکھو میں آگیا ہوں اب جلدی سے سائن کرو۔  

حیدر کمرے میں آتے ہاتھ میں پیپر تھامے رخماء کی طرف جاتا ہے  

حیدر مجھے گھر چھوڑ آؤ پلیززز۔۔  

نہیں جان ایسا نہیں کر سکتا میں مجھے یہ سب کرنے پر تمہاری اماں سائیں نے کیا ہے اگر وہ میرے رشتے سے نا نکار کرتی تو آج تم اپنے گھر پر ہوتی مگر وہ کہتے ہے نا جو ہوتا ہے وہ اچھے کے لیے ہوتا ہے اس لیے سائن کرو 

حیدر آگے بڑھتا پیپر سامنے کرتا ہے رخماء نے کپکپاتے ہاتھو سے انکو تھاما۔ 

میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرو گی حیدر۔ تم نے ایک بے بس لڑکی سے اپنی آنا میں آکر یہ نکاح کیا ہے تمہیں اسکی سزا ملے گی ۔ 

اوففف۔ رخماء۔ تم کیوں بھول رہی ہو میں تمہیں چاہتا ہوں ۔ اس لیے ہی تو نکاح کر رہا ہوں ۔۔ 

اچھا چھوڑو یہ سب میں تمہیں منا لو گا۔    

مگر پہلے سائن کرو۔  

حیدر نے پین آگے کرتے کہا جسے رخماء نے چند منٹ بعد پکڑا۔  

بہت گڈ۔   اچھے سے معلوم ہے تمہیں کہ سائن کرے بغیر نہیں جا سکتی تم یہاں سے اس لیے اب جلدی سے ہم دونوں کو ایک کر دو ۔  

رخماء کے کانوں میں بار بار اماں سائیں کے الفاظ گونج رہے تھے کہ یعنی نہیں کوئی کرتا کیسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی قبول اس نے کچھ کیا ہوگا تبھی تو رشتہ کے کر آئی ہے اسکی ماں۔۔  

رخماء نے کپکپاتے ہاتھو سے ان پر اپنی مہر لگا دی اور تا عمر کے لیے حیدر کی ہو کر رہی گئی مگر سائن کرنے کے بعد ہاتھوں سے پین زمین پر جا گرا تھا ۔ 

وہ پین کو زمین سے اٹھاتا رخماء کے آغوش میں دیکھتا ہے  

حیدر کچھ بھی نا کہتے پیپر تھامے وہاں سے چلا گیا۔ جبکہ رخماء چیخ چیخ کر رو رہی تھی    

°°°°°° 

ارج کمرے میں آتی کھانے کا ٹرے بیڈ پر رکھتی ارد گرد چکر لگاتی ہے ہاتھوں کو مسلتی وہ بہت پریشان لگ رہی تھی ۔ 

دلاور باتھ کا دروازہ کھولتا باہر نکلتا ہے  

کیا ہوا ہے تمہیں۔۔ ہممم۔    

کچھ نہیں۔۔۔ وہ ۔۔  

وہ وہ کیا لگا رکھی ہے تم نے جانم ادھر آؤ ہمارے پاس آکر بیٹھو ۔  

دلاور بیڈ پر بیٹھتے کہتا ہے ۔ 

ارج بھی چند فاصلے پر بیٹھی ۔ 

دلاور بالوں میں تولیہ ہلاتے ارج کو اپنی آنکھوں کی تپش میں لیتا ہے ۔ 

جانم کیا ہوا ہے تمہیں ۔۔ سب ٹھیک تو ہے ۔  

وہ ۔ میں نے ملازمہ سے سنا ہے کہ رخماء گھر سے بھاگ ۔ مرا مطلب چلی گئی ہے ۔۔  

کیااا۔ کہہ رہی ہوں ۔وہ کدھر ہے ۔۔  

مجھے نہیں پتا ۔ ابھی ملازمہ سے سنا ہے ۔ 

دلاور فوراً سے اٹھا۔۔  

وہ کمرے سے باہر چلا گیا ۔ مگر سیدھا اماں سائیں کے کمرے میں داخل ہوا  

میں کیا سن رہا ہوں اماں سائیں کہ رخماء نہیں ہے حویلی میں کدھر چلی گئی ہے وہ۔۔  

دلاور نے آتے ہی سوال پوچھا مگر ارج اسکے پیچھے ہی موجود تھی ۔ 

بڑے صاحب آپ کو کچھ نہیں پتا اماں سائیں نے انکا رشتہ طے کر دیا تھا اس وجہ سے وہ یہاں سے چلی گئی ۔  

ملازمہ نے کہا تو اماں سائیں نے اسکی طرف دیکھتے باہر جانو کو کہا۔ ۔ 

کیا مطلب کہ رشتہ طے ہو گیا تھا اسکا۔ اور مجھے کچھ بتایا بھی نہیں گیا ۔ آخر کیوں ۔۔  

ہاں طے تو کیا تھا اسکا رشتہ مگر وہ کہتے ہے نا کہ  اگر اولاد ہی بےفیز ہو تو یہ دن بھی دیکھانا پڑتا ہے وہ اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہے اب تو ہمارا منہ کالا کر گئی تیری بہن۔۔  

اماں سائیں چپ کو جائے آپکی طبیعیت بگڑ جائے گی چپ جائے۔    

دلاور آگے جاتا ان کے پاس بیٹھتے چپ کرواتا ہے  

کہ تبھی حوریہ بھاگتے ہوئے اس کمرے میں آئی سب کی بے اختیار نظر ہر گئی تھی چہرے سے خوشی صاف جھلک رہی تھی۔   

اماں سائیں۔۔۔ وہ رخماء واپس آگئی ہے ۔۔  دیکھیں وہ واپس آگئی ہے اماں سائیں۔۔۔  

حوریہ کی باتیں اماں سائیں کا خون کھول گئی کہ وہ اب یہاں پر واپس کیا کرنے آئی ہے تبھی وہ غصے سے اٹھتی باہر چلی جاتی ہے مگر دلاور بھی اٹھتا باہر جانے ہی لگتا ہے کہ زمانے ارج نہر آتی ہے۔   

وہ اسکا ہاتھ مظبوطی سے پکڑتا اپنی محبت جتاتے باہر لے کر جاتا ہے۔  مگر باہر حیدر اور رخماء ہال میں کھڑے نظر آئے ۔  

کیا کرنے آئی ہو واپس یہاں پر۔   دل نہیں بھرا ہمیں مار کر جو اب دفن ہوتے بھی دیکھنا چاہتی ہوں ۔ 

اماں سائیں گرجتی بولی ۔  

اور دیکھو اس لڑکی کو اپنے عاشق کے ساتھ آئی ہے  

اماں سائیں دیکھیں ۔ ایسا کچھ نہیں ہوا ہمارے درمیان جس سے آپ کی قبر تک بات جائے۔   ہم دونوں نے نکاح کیا ہے ایک پاکیزہ رشتے میں بندھ گے ہے 

حیدر نے رخماء کا ہاتھ پکڑتے آگے بڑھتے بے خوف کہا 

دیکھو لڑکے ۔۔ عزت تو وہ جو اب ہماری چلی گئی۔ نکاح کرنے سے تم نے یہ جتایا ہے کہ تم اس حویلی کی لڑکیوں سے پہلے عیاشیاں کرو گے پھر تھمٹ نا بنے تمہارے لیے اس لیے نکاح کر لو گے۔   

اماں سائیں لفظ چبا چبا کر کہہ رہی تھی۔   

اماں سائیں۔  ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی غلط رشتہ نہیں بنایا اور خدا کی قسم یہ میری محبت ہے ۔ میں اپنی محبت سے عشق کرتا ہوں ۔  

کیوں چپ ہے تو رخماء۔  بتا نا۔   کیا کہہ رہا ہے یہ لڑکا۔   کیا تو نہیں کرتی تھی اسے محبت۔۔  

رخماء کی نظریں جھکی دیکھ وہ کہتی ہے  

پلیززز۔ اماں سائیں ۔۔ میں آپکی بیٹی ہوں میرا یقین کرے۔    

بیٹی جیسی ہو مگر بیٹی نہیں۔۔   

انکے بولے  یہ الفاظ رخماء کے دل پر لگے تھے ۔ 

 چلی جاؤ یہاں سے ۔ جس کے ساتھ نکاح کیا ہے اب اسکو کہو کہ تمہیں لے جائے یہاں سے ۔  

اماں سائیں کمر دیکھاتی جانے لگی ۔  

رک جائے اماں سائیں۔۔   

حیدر کہتے رخماء کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھتا اسکا محافظ لگ رہا تھا ۔ 

آپ اسکو معاف کر دے اسنے کبھی نہیں چاہا تھا مجھ سے نکاح کرنا مگر میں نے اسکو زبردستی مجبور کیا تھا ۔  

حیدر کے چہرے پر رخماء کی نظر پڑی 

ہممم تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہم اسکو اب دوبارہ اس حویلی میں رہنے دے گے ۔ نہیں۔۔ کبھی نہیں۔۔  

لے جاؤ اسکو یہاں سے ۔  

اماں سائیں آپ جو کہے گی میں وہ کرو گا بس آپ اسکو معاف کر دے ۔ یہ نہیں رہے گی آپکی ناراضگی کے ساتھ میرے پاس۔  

تو کیا کریں ہم تمہیں یہ سب پہلے سوچنا چاہیے تھا  

اماں سائیں نے صاف صاف انکار کر دیا۔   

حیدر پلیز چلے یہاں سے  

رخماء کوئی بھی رشتہ نا پاتے شاپنگ شوہر کا ہاتھ پکڑتے جانے کس کہتی ہے جبکہ حیدر اسے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا سر کو نفی میں جنجش دیتے جانے سے انکار کرتا ہے ۔۔ 

آپ کیا چاہتی ہے ۔  

اسنے اصل بات کی۔   

اسکو چھوڑ دو ابھی ۔ اسی وقت طلاق دو اسکو ۔  

اماں سائیں کی کہی بات سب کی جان نکال گئی۔  

اماں سائیں یہ آپ کیا کہہ رہی ہے وہ ابھی بچہ کے ۔ اگر ایسے میں ان دونوں نے نکاح کر لیا ہے تو آپ خوش ہو کہ ان میں عقل ہے ورنہ جو لڑکے ہوتے ہے آج کے دور میں وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرتے ۔ 

دلاور آخر میں بول کی پڑا ۔ 

حاشر بھی ہال میں آتے یہ سب دیکھتا چونک گیا تھا مگر خاموش رہا  

جاؤ میں نے معاف کیا تمہیں۔ مگر تم یہاں پر اس گھر میں نہیں رہو گی تب تک جب تک ہمارا تم دونوں پر سے غصہ نا ختم ہو جائے  

اماں سائیں نے بھی ہار مان لی تھی کیونکہ انکے لیے رخماء کے آنسو بہایت تکلیف دہ تھے۔  

رخماء آگے بڑھتی انکا ہاتھ چومتی اپنے ماتھے سے لگاتی ہے ۔  

  یار یہ سب کیا ہو رہا ہے یہ لڑکا کون ہے ۔۔  

حاشر تھوڑا سا ان سب سے دور ہوتے حوریہ کے پاس آتے پوچھتا ہے۔   

چپ کرو ۔ کیوں اماں سائیں سے مرواؤ گے بعد میں بتاتی ہوں ابھی چپ کر جاؤ ۔۔۔ 

حوریہ دانت پیستی کہتی خاموش ہو گئی تھی جبکہ حاشر بھی اسکی مان گیا۔  

اماں سائیں ان سب کو چھوڑیں اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے جبکہ حیدر بھی رخماء کا ہاتھ تھامے اس ہال سے باہر نکل گیا ۔  

°°°°°° 

رخماء اور حیدر گھر آگے تھے خالدہ بی نے ان دونوں کو پیار دیا تھا انکے نکاح ہونے پر کیونکہ وہ اب متفق تھی اس رشتے سے۔  انہوں نے دیکھا تھا کہ حیدر رخماء کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ وہ بھی اسکو اپنی بیٹی مانتی کوئی بحث نا کرتی ہے ۔  

انہوں نے ان دونوں کو آرام کرنے کے لیے کمرے میں چھوڑ دیا تھا ۔ 

رخماء یہ سب کیا ہے ۔ ہم دونوں ایک ساتھ نہیں سوئے گے کیا۔  جو یوں الگ الگ بستر بنا دیے ہے تم نے 

حیدر نے صوفے  پر پڑے بستر کی طرف دیکھا۔ کیونکہ وہ ابھی ابھی باتھ سے باہر نکلا تھا  

مجھے تمہارے ساتھ تو کیا تمہارے پاس بھی نہیں رہنا سونے کی تو بہت دور کی بات ہے  

وہ کمفرڈ کو سیدھا کرتی لیٹ جاتی ہے  

نہیں اب ایسا کیا کر دیا ہے میں نے کہ تم مجھ سے یوں بات کر رہی ہوں ایک تو تم سے نکاح کیا ہے اتنی مشکل کے ساتھ اور اوپر سے مجھے اس جنگ میں جیتنے کا اعزاز یونہی کہ انعام دینے کہ یوں رویہ دیکھا رہی ہو۔ دیکھو اچھا نہیں یہ سب ۔ 

اپنی بکواس بند کرو سمج آئی تمہیں۔۔  

رخماء نے بازار ہوتے کہا  

اور اگر ایسا نا کرو تو کیا کر لو گی تم ۔۔  

حیدر اپنا رخ اسکی طرف کرتا بھاری قدم رکھتا اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا  

اچھا سوری ۔ اب تو معاف کر دو مجھے ۔۔ دیکھو کتنی مشکل سے تم مجھے ملی ہو اب ایسے ناراض رہو گی تو پھر میرا دل بج جانا ہے  

تو اسے مجھے کیا لگے یہ سب پہلے سوچنا تھا  

حیدر مزید آگے بڑھتا اسکے سر پر کھڑا ہو جاتا ہے سوچ تو ابھی بھی بہت کچھ رہا ہوں اپنے اور تمہارے بارے میں۔ مگر وہ کیا ہے نا کہ اب سوچ ہی سکتا ہوں کر نہیں سکتا۔  مگر کوئی بات نہیں میرے اللہ کو مجھ سے تمہاری محبت سے زیادہ محبت ہے جس طرح سے انہوں نے تمہیں نہاتے نصیب میں لکھا اس طرح سے میری محبت بھی تمہارے دل پر لکھ دے گے جو تم پر ترس عمر فرض ہو جائے گی۔  

حیدر اس پر  جھکتا اسکی چوٹیاں پر ہاتھ رکھتا  ماتھے پر بوسا دیتا ہے ۔ مگر چند پل کے بعد وہ پیچھے ہٹا  رخماء کی آنکھیں بند تھی۔ نجانے کیا سکوں تھا اسکی قربت میں ۔ محبت اگر نکاح میں ہو تو قربت میں سکوں جنت کی مانند ہوتا ہے آج انکی محبت بھی نکاح کی شکل میں مکمل ہو کر انکا کلام بن گئی تھی۔  وہ دونوں ہمیشہ کے لیے اب خود سے خدا نا تھے  

خدا کرے تمہیں مجھ سے محبت ہو جائے ۔ پھر دیکھنا ایک ساتھ یونیورسٹی جایا کرے گے اور ہاں پھر سب کو میں بتاؤ گا  کہ یہ وہی لڑکی ہے جس نے مجھے تھپڑ مارا تھا اور میں نے اسے انتقام لینے کے چکر میں خود کو ڈھیروں نقصان کر لیا ۔ ہاہاہاہا 

حیدر شرارت سے کہتے پیچھے ہٹا ہی تھا کہ رخماء نے صوفے پر پڑا تکیہ اسکی طرف پھینکا جسے حیدر نے بڑی ہی مہارت سے تھام لیا تھا ۔ دونوں کے چہرے اس وقت خوش تھے  

°°°°° 

ارج یار دیکھو نا یہ کیا ہوا ہے مجھے ۔  

دلاور نے شیشے کے سامنے سے ہٹتے ارج کو پکارا جو میز پر کچھ چیزیں سیٹ کر رہی تھی  

کیا ہوا ہے آپ کو۔   دیکھائے۔   مجھے۔     

ارج نا سمجھی کے عالم میں کہتی اسکے پاس آتی ہے  

یہ دیکھو۔  میری موچھوں سے تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا نا آج رات بس یہی پوچھنا تھا  

دلاور نے معصوم سا چہرہ بناتے کہا تو ارج کے گال شرم سے لال ہوئے ۔ 

کس نے کہا آپ سے کہ میں آپکے ساتھ سو گی ۔۔ مجھے کوئی پاگل جانور نہیں کاٹا کہ آپ کے ساتھ سو جاؤ ۔۔ 

دلاور نے پیچھے ہوتے  ارج کی طرف رخ کیا ۔ کیونکہ وہ اب شیشے میں اپنے عکس سے باتیں کر رہے تھے  

جانم میں نے تو سونے کی بات ہی نہیں کی ۔ پھر تم نے کیوں کہا ۔۔  

وہ۔۔ ممم ۔۔ ارج نظریں زمین پر پھیرتی کہتی ہے کیونکہ وہ آگے کا اندازہ لگاتی کہہ چکی تھی ۔ 

ہاہاہا۔۔ تم کہو تو۔ ایک  شریف عورت ۔ اگر ہم کہیں تو بے غیرت مرد ۔ وااا۔ جانم سائیں ۔ واہ ۔  

دلاور ارج کی ٹھوڑی کو اپنی شہادت کی انگلی سے اوپر کرتا کہتا ہے ۔ 

آہم۔  اہم ۔۔ ویسے تم نے اچھا نہیں کیا تھا ۔  

دلاور نے آدھی بات کی  

کیااا۔۔ ؟!؟ 

ارج نے پوچھنا چاہا ۔۔۔  

وہی ۔ تمہاری وجہ سے دلاور سائیں نے پہلی بار تھپڑ کھایا تھا ۔ اور تمہارا حق بنتا تھا کہ ایک چھوٹی سی مرہم ہی لگا دیتی۔  مگر نہیں تم تو خوش ہوئی تھی اس وقت۔  

ایک تو دلاور کا اسکو پورانے الفاظ یاد دلانا اور اوپر  سے تھپڑ ۔ یہ سبھی ارج کو شرمندہ کر گیا ۔تبھی  وہ بچو والا  چہرہ بناتی رونے لگا جاتی ہے کیونکہ اسکو رونے کا ڈھنگ بلکل بھی نہیں تھا  

اووو ہو۔   دیکھو ۔۔ جانم ایسے نہیں کرتے چپ بس چپ۔  

دلاور اسکو اپنے حصار میں لیتا چپ کرواتا اسکی کمر کو سہلانا شروع کرتا ہے۔  

اچھا اب چپ بھی کر جاؤ ۔ کیوں مجھے اماں سائیں سے ایک اور تھپڑ کھلوانا  چاہتی ہوں  

نن۔ نہ نہیں تو ۔۔ ایسا نہیں۔۔ نہیں ہے۔    

ارج نے اٹک اٹک کر کہا۔  

دلاور اپنے حصار میں اور مضبوطی لاتا اسکے گرد ہاتھو کو مائل کرتا اپنے سینے میں چھپا  گیا ۔ 

°°°°°° 

رات کے سیاہ بادلوں میں وہ دونوں ایک۔ دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔   

آپ کہتے کیوں نہیں اماں سائیں سے کہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہے ۔۔  حوریہ نے آج سیاہ رنگ کا جوڑا پینا وہا۔تاھ صرف حاشر کی مرضی کا مگر وہ اس لباس میں کافی حد تک پری پری لگتی تھی اس نے آج سیاہ قمیض اور شلوار گوٹے کی کڑھائی اور نیٹ کا دوپٹہ لیے نہایت حسن کی پری لگ رہی تھی حاشر بھی ساہ رنگ کے جوڑے میں ہی تھا ۔ دونوں کو دیکھ کر  صرف ایک ہونے کا ثبوت ملتا تھا  

حوریہ نے حاشر کی گود میں سر رکھ کہا تو حاشر نے چہرہ بادلوں سے ہٹاتے شرارت سے دیکھا۔   

تم کیا چاہتی ہو کہ دلاور بھائی کی طرح مجھے بھی اماں سائیں سے تھپڑ کھانے کو ملے ۔۔ وہ تو آپی ارج سے عشق والا عشق کرتے ہے اور تم تو مجھ سے بس لڑتی رہتی ہو۔ اچھا نہیں ہوگا کہ مجھے تم سے بھی کوئی اچھی سے لڑکی مل جائے۔ ۔  

حاشر کی بات پر حوریہ چونکہ تھی ۔ 

کیا مطلب آپکا ۔ آپ میرے لیے بس اماں سائیں سے چند تھپڑ نہیں کھا سکتے تو ٹھیک ہے میں بھی  جا رہی ہوں بیٹھے رہے یہی پر ظالم سائیں  

حوریہ کی باتیں سنتا وہ مسکرا رہا۔تھا مگر اب تو حوریہ اسکی گود سے سر اٹھاتی وہاں سے بھاگنے لگتی ہے حوریہ اپنے شانوں سے بھگانے کی وجہ سے دوپٹہ نیچھے پھسلا چکی تھی ۔  

تبھی حاشر اسکا پلو پکڑتا پیچھے سے روکتا ہے  

اور وقت وہی تھم سا گیا تھا  ۔۔۔۔ 

ختم شدہ