Urdu Novel Shehzadi Juliya by Rizwan Ali Ghaman - UrduKahaniyanPdf

Urdu Novel Shehzadi Juliya by Rizwan Ali Ghaman - UrduKahaniyanPdf




شہزادی_جولیا

رضوان_علی_گھمن ✍

قسط 1

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ساری کہانیاں ایسے ہی شروع ہوتی ہیں اس لیے ہماری کہانی بھی ایسے ہی شروع ہوگی۔ کوہ ہمالیہ کے دامن میں ایک خوبصورت سا ملک کالاش تھا۔ ہمالیہ پاکستان کے شمال میں دنیا کا سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہے۔ یہاں بڑی بڑی جھیلیں ہیں سرسبزوشاداب پہاڑ ہیں جن کی چوٹیاں بادلوں سے بھی اوپر ہیں۔ یہاں انتہائی بڑے بڑے گلیشیئرز ہیں۔ جن کو پار کرنا کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ ملک کالاش بھیڑیوں کا ایک چھوٹا سا ملک تھا۔ جو چاروں طرف سے اونچے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ بھیڑیے۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کا کالاش ملک انسانوں کا ہوگا تو جناب آپ غلط ہیں۔ یہ واقعی بھیڑیوں کا ملک ہے۔ انسان نما بھیڑئیے جو انسانی شکل میں رہتے ہیں اور صرف شکار کرنے کے لیے ہی بھیڑیوں کا روپ دھارتے ہیں۔ آج سے کئی سو سال پہلے یہ بھیڑیے مختلف ممالک میں انسانی آبادیوں میں ہی رہتے تھے۔ یہ انسانی شکل میں لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے اور انہیں پہچاننا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں دس گناہ زیادہ طاقتور ہوتے تھے اور ہزار ہزار سال ان کی عمر ہوتی تھی۔ بھیڑیوں کی یہی طاقت اور عمر ان کے لیے خطرہ بن گئی۔ ان کے خون میں بھی طاقت تھی۔ سو سال کا ایک انتہائی بوڑھا اور لاغر ترین انسان بھی اگر ان کا خون پی لیتا تووہ بیس سال کا طاقت ور نوجوان بن جاتا۔ انسانوں کو جب اس طریقے کا پتہ چلا تو وہ خود انسانی بھیڑیوں کو مار کر خون پی پی کر جوان ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ ان بھیڑیوں کی تعداد ختم ہونے لگی۔ انسان پوری دنیا سے ان کو تلاش کرکے مارنے اور خون پینے لگے۔ لاکھوں کی تعداد میں پائے جانے والے بھیڑیئے کم ہوتے ہوتے ہزاروں میں آگئے۔ انسان ان کے خون کے پیاسے تھے۔ اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کچھ بھیڑیے ہمالیہ کا دشوار گزار سفر کرکے یہاں بس گئے۔ کیونکہ یہ علاقہ چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا اس لیے یہاں تک کوئی بھی انسان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہاں صرف پچاس بھیڑیے ہی آئیے اور صرف وہی بچ سکے باقی پوری دنیا میں ان کی آبادی ختم ہوگئی۔ اب دنیا میں صرف کالاش ہی ایک ملک تھا جہاں انسانی بھیڑیے رہتے تھے۔ ان کی تعداد بھی پچاس سے بڑھ کر پانچ ہزار ہو گئی تھی۔ انسانوں نے یہاں پہنچنے کی بھی کوشش کی لیکن یہاں ہمالیہ میں ایک بہت بڑا بزرگ تھا۔ اس کا نام نورشاہ تھا۔ بزرگ نور شاہ نے ملک کا لاش کے گرد ایک روحانی حصار قائم کر دیا۔ اس حصار کی وجہ سے کوئی بھی انسان ان پہاڑوں کو عبور کرکے کالاش نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کالاش کا بادشاہ کاشان ایک رحمدل بھیڑیا تھا۔ وہ اپنے ملک میں انصاف اور محبت سے حکومت کرتا تھا۔ ان کی ایک ہی بیٹی شہزادی جولیا تھی۔ شہزادی جولیا اپنے باپ شاہ کاشان کے برعکس ایک مغرور اور ظالم شہزادی تھی۔ پورے ملک کالاش میں اس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی بھی لڑکی نہیں تھی۔ کالاش ملک کے تمام بھیڑیے اس سے شادی کے خواہش مند تھے۔ وہ سارے شہزادی جولیا کی ایک جھلک پر بھی جان دینے کو تیار ہو جاتے تھے۔ لیکن شہزادی جولیا ان میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرتیں تھیں۔ وہ ہمیشہ ان کی بےعزتی کرتی تھی اور ان پر بہت ظلم بھی کرتی تھی۔ شہزادی جولیا کے ظلم سے کوئی بھی انسان یا جانور محفوظ نہیں تھا۔ کالاش میں ایک نوجوان چرواہا علی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ سارا دن پہاڑوں پر بکریاں چراتا رہتا تھا اور شام کو اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کرتا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھانا بنا کر اپنی ماں کو کھلاتا تھا۔ علی کی بوڑھی ماں اسے ہمیشہ دعائیں دیتی رہتی تھی۔ ایک دن شہزادی جولیا اپنی سہیلیوں کے ساتھ جنگل میں گھوم رہی تھی جب اسے بکری کا ایک چھوٹا بچہ نظر آیا جو بالکل سفید رنگ کا تھا۔ بلکل روئی کی طرح سفید شہزادی جولیا کو وہ بچہ بڑا خوبصورت لگا اور وہ اس بچے کو پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی۔ شہزادی جولیا چونکہ ایک ظالم شہزادی تھی اس لئے بکری کے بچے کو بھی پتہ تھا اور وہ شہزادی سے بچنے کے لیے پہاڑوں کی طرف بھاگنے لگا۔ وہاں اس کی ماں دوسری بکریوں کے ساتھ گھاس چر رہی تھی۔ یہ ساری بکریاں علی چرواہے کی تھیں۔ شہزادی جولیا بھی بچے کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی۔ بچے نے ایک چٹان سے دوسری چٹان کی طرف لمبی چھلانگ لگائی لیکن وہ دوسری چٹان تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور نیچے گہرائی میں گر گیا۔ علی چرواہے نے جب بچے کو چٹان سے نیچے گرتے ہوئے دیکھا تو وہ بھاگ کر نیچے آیا تاکہ بچے کو بچا سکے لیکن وہ چھوٹا بچہ چٹان سے نیچے گرتے ہی مر گیا تھا۔ علی نے اس کا بے جان جسم اٹھایا اور شہزادی جولیا کے پاس آ گیا۔ شہزادی بکری کا بچہ مرگیا ہے علی نے بچے کا مردہ جسم شہزادی جولیا کے قدموں میں رکھتے ہوئے کہا۔ علی کو بھی شہزادی جولیا بہت پیاری لگتی تھی وہ بھی شہزادی کو چھپ چھپ کر دیکھتا تھا لیکن اسے شہزادی کے غصے سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اسے معلوم تھا شہزادی جولیا بڑی ظالم شہزادی ہے۔ 
تم بکری کے بچے کی موت کا الزام ہم پر لگا رہے ہو شہزادی جولیا نے غصے سے کہا۔ نہیں۔۔نہیں۔۔۔۔ شہزادی صاحبہ میں ایسی جرات کیسے کر سکتا ہوں۔ علی نے شہزادی جولیا کا غصہ دیکھا تو فورا اس سے معافی مانگنے لگا۔ نہیں تم نے ہماری بےعزتی کی ہے تم نے شہزادی جولیا کی بےعزتی کی ہے۔ تمہیں اس کی سزا ملے گی۔ شہزادی جولیا نے غصے سے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔ اس کی شکل بدلی اور وہ ایک خونخوار بھیڑیا بن گئی۔ بھیڑیا بنتے ہی شہزادی جولیا نے چھلانگ لگائی اور علی چرواہے کی ٹانگ دانتوں سے پکڑ لی وہ علی کی ٹانگ کو غصے سے چیرنے لگی۔ کچھ دیر تک علی کی ٹانگ کو بھمبوڑنے کے بعد اس نے ٹانگ چھوڑ دی اور علی کو چٹان سے نیچے دھکا دیا۔ علی نیچے گرا تو اس کی زخمی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو گیا۔ علی اپنی بوڑھی ماں کا اکلوتا سہارا تھا ٹانگ ٹوٹنے کے بعد وہ اب بکریاں نہیں چرا سکتا تھا۔ اس لیے اس نے بکریاں بیچ دیں اور چوک میں بیٹھ کر ٹوکریاں بنانے لگا۔ دونوں ماں بیٹے شہزادی جولیا کے ظلم کا شکار ہوئے تھے لیکن وہ بے چارے شہزادی کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ 
کالاش سے ہزاروں کلومیٹر دور اٹلی کے شہر میلان میں مونیکا جادوگرنی ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھی منتر پڑھ رہی تھی۔ کمرے کے بالکل درمیان میں موم بتیوں کا ایک دائرہ بنا ہوا تھا اور مونیکا جادوگرنی اس دائرے میں بیٹھی منتر پڑھنے میں مصروف تھی۔ اس کے سامنے آگ جل رہی تھی جس میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ پورے کمرے میں ہلکی ہلکی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ مونیکا جادوگرنی کی آواز بلند سے بلند تر ہورہی تھی۔ اچانک آگ سے نکلنے والے دھونے کی مقدار زیادہ سے زیادہ ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک مکروہ صورت شیطان نمودار ہوگیا۔ اس کے بڑے بڑے دو سینگ تھے اور بالوں کی جگہ پر چھوٹے چھوٹے سانپ لٹک رہے تھے۔ سانپ اس کے سر پر رینگ رہے تھے۔ یہ کالا شیطان تھا کالی طاقتوں کا سب سے بڑا شیطان۔ مونیکا جادوگرنی بتاو تم نے ہمیں کیوں بلایا ہے۔ کالے شیطان کی چنگھاڑتی ہوئی آواز آئی تو مونیکا جادوگرنی نے منتر پڑھنا بند کر دیا اور آنکھیں کھول دیں۔ کالے شیطان اے میرے مالک اے کالی طاقتوں کے سب سے بڑے مہان شیطان مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ مونیکا جادوگرنی نے سامنے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ بولو اے جادوگروں کی ملکہ تمہیں ہماری کونسی مدد کی ضرورت ہے۔ کالے شیطان نے کھڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا۔ کالی طاقتوں کے سب سے بڑے شیطان کالے شیطان مجھے ہمیشہ زندہ اور جوان رہنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔ میں ہمیشہ زندہ اور جوان رہنا چاہتی ہوں۔ مونیکا جادوگرنی نے اس سے پوچھا۔ نہیں مونیکا جادوگرنی یہ نہیں ہوسکتا ہمیشہ زندہ رہنے کا عمل بہت مشکل ہے تم اسے نہیں کر سکتی ہو اس لیے تم اسے بھول جاؤ۔ کالے شیطان نے اسے منع کرتے ہوئے کہا۔ نہیں اے شیطانی طاقتوں کے بادشاہ مجھے عمل بتائیں میں اسے ضرور پورا کروں گی اور ہمیشہ اس دنیا میں زندہ رہوں گے۔ مونیکا جادوگرنی نے اس کی منت کرتے ہوئے کہا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے کا راز آج معلوم کرلینا ہی چاہتی تھی۔ ٹھیک ہے مونیکا جادوگرنی اگر تم سننا چاہتی ہوں تو ٹھیک ہے میں تمہیں عمل بتا دیتا ہوں۔ لیکن یاد رکھنا اس دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب بھی کالی طاقتیں حرکت میں آتی ہیں اس کے مقابلے میں روحانی طاقتیں بھی آجاتی ہیں۔ اس عمل سے تمہاری جان کو بھی خطرہ ہوگا۔ کالے شیطان نے مونیکا جادوگرنی سے کہا لیکن وہ بضد رہیں تو وہ عمل بتانے لگا۔ مونیکا جادوگرنی یہاں سے ہزاروں کلومیٹر دور ہمالیہ کے دامن میں بھیڑیوں کا ایک ملک کالاش ہے۔ وہاں کے بادشاہ کاشان کی ایک اکلوتی بیٹی ہے۔ اس کا نام شہزادی جولیا ہے۔ اگر تم کسی بھی طریقے سے شہزادی جولیا کو مار کر اس کے خون سے غسل کرو اور اسکے دل سے نکلے ہوئے خالص خون کا ایک پیالہ پی لو تو تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاو گی۔ تم قیامت تک زندہ اور جوان رہو گی۔ کالے شیطان نے اسے طریقہ بتاتے ہوئے کہا۔ ارے یہ تو انتہائی آسان طریقہ ہے میں اس دنیا کی سب سے بڑی جادوگرنی ہوں۔ میں ابھی جاتی ہوں اور شہزادی جولیا کو اٹھا کر لے آتی ہوں۔ مونیکا جادوگرنی نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ نہیں مونیکا جادوگرنی یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ کالاش ملک کے گرد ایک روحانی بزرگ نورشاہ نے حصار قائم کیا ہوا ہے۔ تم اس حصار کو توڑ کر کالاش میں داخل نہیں ہو سکتی ہو۔ تم جیسے ہی کالاش کی حدود کو کراس کروگی جل کر بھسم ہو جاؤ گی۔ تمہیں کسی بھی طریقے سے شہزادی جولیا کو کالاش سے باہر لانا ہوگا۔ لیکن وہ جیسے ہی روحانی حصار سے باہر آئے گی اس کی یاداشت چلی جائے گی اور وہ بھیڑیا بھی نہیں بنے گی۔ شہزادی جولیا روحانی حصار سے باہر نکلتے ہی عام انسان بن جائیں گی۔ تم اس کو تب ہی مار کر خون پی سکتی ہو جب وہ مکمل بھیڑیا بن گئی ہو۔ اگر تم نے اس کو انسانی حالت میں مار کر خون پیا تو تمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کالے شیطان نے پوری تفصیل سے اسے بتاتے ہوئے کہا۔
#جاری
#شہزادی_جولیا

#رضوان_علی_گھمن ✍

قسط 2
مونیکا جادوگرنی تم اس روحانی حصار کے پار نہیں جاسکتی ہو اور شہزادی جولیا جیسے ہی حصار سے باہر آئے گی تو وہ ایک عام انسان بن جائے گی۔ جب کہ تم شہزادی جولیا کو تبھی مار سکتی ہوں جب وہ ایک بھیڑیے کے روپ میں ہو۔ تو یہ سب کچھ ناممکن ہے۔ اس لیے تم ان سب چیزوں کو بھول جاؤ اور شیطان نے جو ہزار سال کی زندگی دی ہے وہی بہت ہے۔ تم اسی پر اکتفا کرو۔ کالا شیطان اسے سمجھانے لگا لیکن مونیکا جادوگرنی نے پکا عہد کرلیا تھا کہ وہ دائمی زندگی حاصل کر کے ہی رہے گی۔ اس نے کالے شیطان سے مزید تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن اسے بس اتنا ہی معلوم تھا۔ وہ چلا گیا تو مونیکا جادوگرنی نے ایک بار پھر عمل کرنا شروع کردیا۔ اس بار اس نے موم بتیوں کی تعداد بھی دگنی کردی تھی۔ وہ پوری رات اونچی آواز میں منتر پڑھتی رہی آخر صبح کے تین بجے کے قریب کمرے میں ایک چھوٹا سا بونا نمودار ہوا۔ بونے کا قد بمشکل ایک ہاتھ کے برابر تھا۔ اس کا کالا سیاہ رنگ تھا چہرے پر انتہائی بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ یہ بونا شیطان تھا۔ مونیکا جادوگرنی اسے دیکھتے ہیں سجدے میں گر گئی۔ اسے معلوم تھا بونا شیطان انتہائی ظالم شیطان ہے وہ اگر غصے میں آجاتا تو مونیکا جادوگرنی کو ایک پل میں ہی جلا کر راکھ کر دیتا۔ مونیکا جادوگرنی سجدے سے سر اٹھا لو اور ہمارے سامنے بیٹھ جاؤ ہمیں تمہاری خواہش کا علم ہے اور ہم تمہاری مدد بھی کریں گے۔ بونے شیطان نے کڑک دار لہجے میں کہا تو جادوگرنی جلدی سے اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئی۔ مونیکا جادوگرنی تم کڑول جادو کی مدد سے اپنی روح مارخور کے جسم میں لے جا سکتی ہو۔ کیونکہ مارخور ایک روحانی جانور ہے اس لیے وہ مارخور آسانی سے خفیہ راستے کی مدد سے کالاش جا سکتا ہے۔ تمام مارخور کے روپ میں کالاش چلی جاؤ اور وہاں سے شہزادی جولیا کو بہلا پھسلا کر باہر لے آؤ۔ جیسے ہی شہزادی جولیا کالاش کی حدود سے باہر آئے تم اسے میلان لے کر آ جانا۔ یہاں میلان کے کیڈٹ سکول میں دنیا کی چاروں سمتوں کا مرکز ہے۔ پورے چاند کی رات کو جیسے ہی چاند بلکل سر کے اوپر آجائے تو اس وقت اگر بھیڑیے کو تین مختلف زبانوں میں پکارا جائے تو وہ انسانی شکل چھوڑ کر بھیڑیا بن جائے گی۔ شہزادی جولیا جیسے ہی بھیڑیے کی شکل اختیار کرے گی تم اسے لے کر اوپر آسمان کی طرف لے جانا۔ بادلوں کے اوپر جاتے ہیں تمہیں ایک محل نظر آئے گا۔ تم شہزادی جولیا کو اس محل میں لے جانا وہاں میرا ایک بہت بڑا بت بنا ہوا ہے۔ تم اس بت کے قدموں میں شہزادی جولیا کو قربان کر کے اس کے خون میں نہانا اور پھر خون کا پیالہ پینا اس سے تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاؤ گی۔ مونیکا جادوگرنی تم شہزادی جولیا کا خون پیتے ہیں موت سے آزاد ہو جاؤ گی۔ بونے شیطان نے اس کو پوری تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ جادوگرنی تینوں زبانوں میں سے ایک زبان افریقہ کے گھنے جنگلات میں بولی جانے والی زبان ہو۔ دوسری ایمازون کے گھنے جنگلات میں بولی جانے والی زبان ہسپانوی زبان ہو۔ اور تیسری مقدس شہر ویٹی کن سٹی کی زبان اٹالین ہو۔ جب ان تینوں زبانوں میں بھیڑیے کو پکارا جائے گا اور پھر چوتھی بار جیسے ہی شہزادی جولیا بھیڑیے کا نام لے گئی وہ فورا بھیڑیے کی شکل میں تبدیل ہو جائے گی۔ تم اسی وقت اس کا ہاتھ پکڑ کر اوپر چاند کی طرف پرواز کرنی شروع کر دینا۔ اگر تمہیں ایک پل کی بھی دیر ہوگئی تو شہزادی جولیا دوبارہ انسانی شکل میں آ جائے گی۔ بونے شیطان نے مونیکا جادوگرنی کو پوری تفصیل بتائی اور غائب ہو گیا۔ بونے شیطان کے جاتے ہی مونیکا نے دل ہی دل میں ایک منتر پڑھا اور وہ بھی وہاں سے غائب ہو گئی۔ مونیکا جادوگرنی اگلے ہی پل ہمالیہ کے دامن میں موجود ایک غار میں نمودار ہوئی۔ اس نے جلدی سے غار میں موم بتیاں جلا کر دائرہ بنایا اور اس دائرے میں بیٹھ گئی۔ اب وہ منتر پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ اس نے منتر کی مدد سے ایک مارخور کو قابو کیا اور اس کے اندر اپنی روح داخل کردی۔ بونے شیطان نے اسے کالاش میں جانے کا راستہ بتا دیا تھا اس لیے وہ آسانی سے کالاش پہنچ گئی۔ مارخور چونکہ ایک مقدس جانور ہوتا ہے اسلئے بزرگ نور شاہ کے حصار میں داخل ہوگیا۔ مارخور جیسے ہی کالاش پہنچا سامنے ہی جنگل میں شہزادی جولیا اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ شہزادی کی جیسے ہی مارخور پر نظر پڑی تو وہ اس کو پکڑنے کے لیے بھاگی مارخور بھی آگے آگے بھاگنے لگا۔ ذرا سی دیر میں ہی وہ خفیہ دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر شہزادی جولیا رک گئی ہے۔ پورے کالاش میں سے کسی کو بھی خفیہ راستے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ صدیوں پرانی قسم تھی جسے کوئی بھی نہیں توڑتا تھا۔ کیا ہوا شہزادی جولیا آپ اچانک رک کیوں گئی ہیں۔ اچانک مارخور انسانی آواز میں بولنے لگا۔ ارے تمہیں انسانی زبان آتی ہے شہزادی جولیا مارخور کو بولتے ہوئے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ جی شہزادی ان پہاڑوں کی دوسری طرف ایک شہزادہ درخت لگا ہوا ہے جس پر سال میں ایک ہی پھل لگتا ہے۔ رضوان علی گھمن 
کہانی پسند آئے تو پلیز آگے شیئر کیجئے اور دوستوں کو ضرور مینشن کیجیے۔
جو بھی انسان یا جانور اسے کھا لیتا ہے تو پھر وہ انسانی اور حیوانی دونوں زبانیں بولنے لگتا ہے۔ مارخور آہستہ آہستہ چلتا ہوا شہزادی جولیا کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت خفیہ دروازے کے پاس صرف وہ دونوں ہی کھڑے تھے۔ اچھا تو اگر میں بھی وہ پھل کھا لو تو کیا مجھے تمام جانوروں کی بولیاں آجائیں گی۔ شہزادی جولیا نے جلدی سے کہا۔ وہ پیار سے مارخور کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ جی شہزادی صاحبہ آپ اگر وہ پھل کھا لیں تو آپ بھی جانوروں کی بولیاں بولنے اور سمجھنے لگیں گی۔ مارخور نے شہزادی سے کہا۔ اچھا تو پھر تم جاؤ اور میرے لئے وہ پھل توڑ کر لے آؤ شہزادی مارخور کو شہزادہ پھل توڑ کر لانے کا کہنے لگی۔ نہیں شہزادی اس پھل کو وہیں توڑ کر کھایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی اس پھل کو توڑ کر درخت سے دور کیا جاتا ہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے۔ پھل کھانے کے لیے آپ کو خود درخت تک جانا ہوگا۔ مارخور شہزادی کو سمجھانے لگا۔ اچھا لیکن میں تو اس حصار سے باہر نہیں جا سکتی ہوں۔ میرے ابا شاہ کاشان نے سختی سے منع کیا ہوا ہے۔ شہزادی جولیا نے معصومیت سے کہا۔ ارے شہزادی آپ فکر مت کریں ہم نے کونسا زیادہ دور جانا ہے۔ اس دروازے کے دوسری طرف ہی تو درخت لگا ہوا ہے ۔ آپ ابھی جائیں گی اور اگلے ہی پل پھل کھا کر واپس بھی آ جائیں گی۔ مارخور جلدی جلدی بول رہا تھا۔ نہیں اس میں خطرہ ہے شہزادی اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ ارے شہزادی دیکھو میں بھی تو آپ کے ساتھ ہی جا رہا ہوں۔ صرف کچھ لمحوں کی ہی تو بات ہے اس کے بعد آپ کالاش کے ہر جانور اور پرندے کی زبان بولنے اور سمجھنے لگیں گی۔ مارخور شہزادی جولیا کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ جلد ہی شہزادی مارخور کی باتوں میں آ گئی اور وہ مارخور کے ساتھ چلتی ہوئی خفیہ دروازے تک پہنچی اور اس نے روحانی حصار کراس کر لیا۔ جیسے ہی شہزادی جولیا نے کالاش کا حصار کراس کیا اس کی یاداشت اسی وقت چلی گئی ۔ اس نے اپنے ساتھ چلتے ہوئے مارخور کی طرف دیکھا تو وہاں مونیکا جادوگرنی کھڑی تھی۔ جادوگرنی نے جلدی سے شہزادی جولیا کا ہاتھ پکڑا اور دل ہی دل میں منتر پڑھنے لگی۔ منتر ختم ہوا تو اسی وقت چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ کچھ دیر بعد اندھیرا چھٹا تو وہ دونوں واپس میلان شہر کے پراسرار کمرے میں پہنچ گئی تھیں۔ اس نے ایک منتر کے ذریعے شہزادی جولیا کے دماغ میں یہ چیز بٹھا دی کہ وہ اٹلی کے شہر میلان کی رہنے والی ہے۔ مونیکا جادوگرنی نے اپنے منتروں کے ذریعے جولیا کو اٹالین زبان بھی سکھا دی تھی۔ مونیکا جادوگرنی نے ایک تھیٹر کرائے پر لیا اور وہاں لوگوں کو ڈراما سکھانے لگی۔ چاند رات کو ابھی پورے بیس دن باقی تھے۔ اس نے بھیڑیے والا ایک ڈرامہ تیار کیا اور اس کے ریہرسل کروانے لگی۔ مونیکا جادوگرنی نے میلان کیڈٹ سکول کے گراؤنڈ میں بھیڑیے والا ڈراما کرنے کی تیاری شروع کردی۔ دوسری طرف شہزادی جولیا کے گم ہوتے ہی پورے ملک میں اس کی تلاش شروع ہوگئی۔ شہزادی بہت مغرور اور ظالم تھی اس لیے کالاش کےلوگ اس سے نفرت کرتے تھے۔ شہزادی کے جانے کے بعد لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ صرف بادشاہ کا شان اور اس کے سپاہی ہیں اسے تلاش کر رہے تھے لیکن وہ کالاش میں ہوتی تو ملتی۔ شہزادی جولیا تو ان سے ہزاروں کلومیٹر دور میلان میں پہنچ چکی تھی۔ شہزادی جولیا کی گمشدگی کے تیسرے دن ایک روشن چہرے والا بزرگ کالاش آیا اور اس نے شہزادی جولیا کی خبر سنائی۔ شاہ کاشان شہزادی جولیا کی یاداشت چلی گئی ہے وہ اب مکمل انسان بن گئی ہے۔ اسے واپس لانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ جب پورے چاند کی رات کو چاند عین شہزادی جولیا کے سر پر ہو گا تو اس وقت کوئی صاف دل والا لڑکا اسے سرخ پھول سنگھائے تو اسے پرانی باتیں یاد آجائیں گی۔ شاہ کاشان کیا اس ملک میں کوئی ایسا صاف اور شفاف دل والا لڑکا ہے جو شہزادی جولیا سے محبت کرتا ہو۔ جو اسے دل سے واپس لانا چاہتا ہو۔ بزرگ نے بادشاہ سے کہا تو بادشاہ اپنے پیچھے پورے مجمع کو دیکھنے لگا۔ لیکن کوئی بھی صاف اور شفاف دل والا نہیں تھا جو شہزادی جولیا سے محبت کرتا ہو۔ بادشاہ مایوس ہوگیا۔ میں ہوں اے روشن چہرے والے بزرگ میرا دل بالکل پاک اور صاف ہے۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کبھی چوری نہیں کی کبھی کسی دوست کو گالی نہیں دی۔ میں پاک دل والا ہوں اور شہزادی جولیا سے محبت بھی کرتا ہوں۔ اچانک مجمع سے آواز آئی اور علی چرواہا لنگڑاتا ہوا آگے آیا۔ اس کی ایک ٹانگ شہزادی جولیا نے توڑ دی تھی لیکن علی پھر بھی شہزادی سے محبت کرتا تھا۔ اس نے شہزادی کو معاف کر دیا تھا۔ علی چرواہا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تمہاری تو ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے تم کیسے اٹلی جا سکتے ہو۔ شاہ کاشان نے اس کی ٹانگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں بادشاہ جب سچے دل سے ارادہ کر لو تو پھر منزل خود بخود ہی آسان ہوجاتی ہے۔ ادھر آؤ بچے بزرگ نے علی کو اپنے پاس بلایا تو وہ لنگڑاتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا۔ بزرگ نے کچھ پڑھ کر علی کی ٹانگ پر پھونک ماری تو اسکی ٹانگ بلکل ٹھیک ہوگئی
#جاری
#شہزادی_جولیا

#رضوان_علی_گھمن ✍

قسط 3 سکینڈلاسٹ
بچے میں تمہیں ابھی میلان شہر میں پہنچا دیتا ہوں۔ جولیا وہاں ایک تھیٹر میں روزانہ آتی ہے تم بھی وہیں داخلہ لے لینا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی رہنا۔ پندرہ دن بعد پورے چاند کی رات ہے۔ تم نے اسی دن جولیا کو یہ سرخ پھول سونگھانا ہے۔ وہ جیسے ہی اسے سونگھے گی اس کی یاداشت واپس آجائے گی۔ بزرگ نے اسے ایک سرخ رنگ کا پھول دیا جسے علی چرواہے نے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ بیٹا چودہویں رات سے پہلے کبھی بھی جولیا کو یہ نہیں بتانا کہ تم اسے جانتے ہو یا تم ایک بھیڑیے ہو۔ اگر تم نے اس رات سے پہلے یہ راز اس پر آشکار کیا تو تم دونوں کی جان کو خطرہ ہوگا۔ انسان تمہارے خون کے پیاسے ہوں گے۔ جو بھی تم دونوں کو مار کر تمہارا خون پئے گا وہ دوبارہ جوان ہو جائے گا اور ایک لمبی زندگی جئے گا۔ اگر کسی کو پتہ چلا تو اس دنیا میں سارے ہی انسان تمہارے خون کے پیاسے ہو جائیں گے۔ اس لیے کبھی بھی اپنا راز کسی پر مت کھولنا۔ شہزادی جولیا کو بھی مت بتانا اس کی یاداشت واپس آئے گی تو وہ خود ہی تمہیں پہچان لے گی۔ بزرگ نے علی کو تمام باتیں سمجھائیں اور اسے آنکھ بند کرنے کا کہا۔ علی نے آنکھیں بند کر لیں تو اسے ایسا لگا جیسے وہ اڑ رہا ہو۔ آنکھیں کھول دو بیٹے تم میلان پہنچ چکے ہو۔ اسے بزرگ کی آواز آئی تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ علی نے اپنے آپکو میلان کے سنٹرل اسٹیشن کے باہر موجود پایا۔ کالاش میں اردو زبان بولی جاتی تھی۔ جلد ہی علی کو کچھ پاکستانی لڑکے مل گئے جو اردو میں بات کرتے تھے۔ وہ لڑکے علی کو لے کر ایک کیمپ میں آگئے۔ یہ مہاجرین کا ایک بہت بڑا کیمپ تھا۔ یہاں کیمپ میں اور بھی مزید پاکستانی لڑکے رہتے تھے۔ علی نے ان کو بھی پاکستان کا ہی بتایا۔ پاکستان میں کالاش نام کے خفیہ ملک کے علاوہ ایک شہر بھی تھا اس کا نام بھی کالاش تھا۔ کالاش شہر پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔ لڑکے علی کو کالاش شہر کا رہنے والا ہی سمجھنے لگے۔ دوسرے دن علی نے جادوگرنی مونیکا کے تھیٹر میں داخلہ لے لیا۔ تھیٹر رات کو آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک ہوتا تھا۔ علی نے جاتے ہی شہزادی جولیا کو پہچان لیا لیکن شہزادی چونکہ اپنی یاداشت کھو چکی تھی۔ اس لیے اس نے علی کو نہ پہچانا۔ علی بھی کالاش کی حدود سے باہر آ گیا تھا۔ لیکن بزرگ کی وجہ سے اس کی یاداشت بھی قائم تھی اور وہ ہر رات کو بارہ بجے بھیڑیا بھی بن جاتا تھا۔ جیسے ہی رات کے بارہ بجتے علی کی شکل تبدیل ہو جاتی اور وہ کچھ پل کے لیے بھیڑیا جاتا تھا۔ یہ اسکی فطرت تھی جو کبھی بھی نہیں بدل سکتی تھی۔ اسے گوشت کی طلب ہوتی تھی۔ کچے گوشت کی خوشبو اسے پاگل کردیتی تھی۔ لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ پر کنٹرول کرتا تھا۔ علی کے کیمپ میں بہت سے لڑکے رہتے تھے۔ علی کا دل خون پینے کو کرتا تھا۔ لیکن ان کو بچپن سے ہی سکھایا جاتا تھا کہ انسان بظاہر بہت کمزور سی مخلوق ہوتی ہے۔ دس دس انسان مل کر بھی ایک بھیڑیے کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ان کی عمر بھی صرف ساٹھ ستر سال ہوتی ہے۔ لیکن یہی انسان دنیا کی سب سے خطرناک ترین مخلوق ہوتی ہے۔ وہ سارے انہیں انسانوں کے خوف سے چھپ کر رہ رہے تھے۔ علی انہی انسانوں کے درمیان رہ رہا تھا۔ اسے ان کمزور سے انسانوں سے ڈر تو لگتا تھا لیکن وہ پھر بھی انہی کے درمیان اپنی شناخت چھپا کر رہ رہا تھا۔ رات کے بارہ بجے وہ کیمپ کے ایک تاریک گوشے میں چلا جاتا تھا۔ اور کچھ پل وہیں گذار کر جب اپنی اصل حالت میں آ جاتا تو پھر واپس آ جاتا تھا۔ نیا جدید کمپیوٹر والا زمانہ تھا۔ لوگ جنوں بھوتوں اور بھیڑیوں کی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے کسی کو بھی شک نہیں ہوتا تھا۔ علی روزانہ تھیٹر جانے لگا۔ مونیکا جادوگرنی نے بھیڑیے والا ڈرامہ تیار کر لیا تھا۔ اس نے ہسپانوی زبان میں بولنے کے لیے فیلیکس لیا تھا۔ جبکہ افریقی زبان کے لیے سیلا کو۔ دونوں لڑکے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ فیلیکس بالکل چھوٹا سا نوجوان لڑکا تھا۔ اس کا وزن بمشکل پچاس کلو بھی نہیں تھا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں افریقی سیلا ایک دیوہیکل نوجوان تھا۔ وہ سات فٹ کے قریب تھا اور اس کا وزن بھی سو کلو سے اوپر تھا۔ سیلا افریقی جان سینا لگتا تھا۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور نوجوان بھی تھا۔ فرانچسکو پچیس سال کا ایک نوجوان تھا اور وہ انگلش اور اٹالین دونوں زبانیں انتہائی روانی سے بولتا تھا۔ فرانچسکو کے لمبے سنہری بال تھے۔ وہ بلکل ہالی وڈ کے کسی فلمی ہیرو کی طرح لگتا تھا۔ تھیٹر کی ساری لڑکیاں فرانچسکو کے آگے پیچھے پھرتی تھیں۔ لیکن فرانچسکو شہزادی جولیا سے دوستی کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ تھیٹر میں اور بھی کافی لڑکیاں تھیں لیکن میں صرف دو کاہی تعارف کرواؤں گا۔ سب سے پہلی لڑکی مارگریٹا تھی۔ یہ اٹالین تھی۔ گورا رنگ دبلی پتلی سی بیلے ڈانسر تھی یا پھر بیلے ڈانسر لگتی تھی۔ مارگریٹا کی ایک ایک ادا سے ڈانس چھلکتا تھا۔ دوسری لڑکی کارمن ہے۔ یہ فرانسیسی تھی۔ سنہری بال نیلی آنکھیں گول چہرہ کارمن کے لئے لفظ خوبصورت کہنا کافی نہیں تھا۔ رضوان علی گھمن
کہانی اگر پسند آتی ہے تو پلیز آگے شیئر ضرور کریں اور دوستوں کو بھی ضرور مینشن کیجیے۔ یہ لکھاری کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
وہ اس سے کہیں بڑھ کر حسین تھی۔ چلو چلو جلدی سے تیار ہو کر آ جاؤ ہمیں ریہرسل کرنی ہے۔ مونیکا جادوگرنی نے تالی بجائی اور سب کو اکٹھا ہونے کا کہا۔ وہ سارے اکٹھے ہوگئے تو مونیکا ان کو ریہرسل کروانے لگی۔ اچھا سب سے پہلے جولیا آگے آئے گی اور بھیڑیے کی کہانی سنائے گی۔ جب وہ چلائے گی کہ بھیڑیا آگیا بھیڑیا گیا تو آپ نے اس کی مدد کے لیے بھاگ کر آنا ہے۔ لیکن وہ جھوٹ ہوگا۔ دوسری بار سیلا آگے آئے گا اور ایسے ہی چلائے گا۔ آپ نے پھر مدد کے لیے بھاگ کر آگے آنا ہے۔ تیسری بار فیلکس ہوگا آپ سب نے تینوں بار ہی اس کی مدد کے لیے آنا ہے لیکن تینوں بار ہی یہ جھوٹ ہوگا۔ چوتھی بار آپ سب نے منہ دوسری طرف کر لینا ہے۔ ایک بار پھر جولیا آگے آئے گی اور بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا چلائے گی۔ اس بار اصل میں بھیڑیا آجائے گا اور جولیا کو اٹھا کر لے جائے گا۔ آپ سب نے چوتھی بار اس کی کوئی مدد نہیں کرنی ہے۔ بس یہی ٹوٹل ڈرامہ ہوگا جس میں یہ سبق ہوگا کہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ کسی نے کوئی سوال کرنا ہو تو بولو مونیکا نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ افریقن اور ہسپانوی کے ساتھ کیا انگلش زبان بھی چلے گی۔ ہم چار زبانیں کرلیتے ہیں۔ فرانچسکو نے مشورہ دیا۔ ایسے تو پھر اردو زبان بھی شامل کر لو۔ ڈیڑھ بلین لوگ اردو کو سمجھتے ہیں۔ علی نے فرانچسکو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اس کو فرانچسکو کا جولیا کے قریب جانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ نہیں زبانیں صرف تین ہی رہیں گی زیادہ زبانیں ہونے سے ڈرامے میں دلچسپی ختم ہوجائیگی۔ ویسے بھی وہاں صرف اٹالین بچے ہی ہوں گے۔ انہیں ڈیڑھ بلین والی زبان سمجھ نہیں آئے گی۔ مونیکا جادوگرنی نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور وہ سارے دوبارہ ڈرامے کی ریہرسل کرنے لگے۔ اگلے پندرہ دن تک وہ لوگ بلکل تیار ہو چکے تھے۔ جولیا علی اور فرانچسکو دونوں کے درمیان جھول رہی تھی۔ وہ دونوں ہی اچھے لڑکے تھے اور دونوں ہی جولیا کی محبت کے طلبگار تھے۔ لیکن جولیا کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس کے حق میں فیصلہ کرے۔ اس لیے اس نے یہ فیصلہ وقت پر چھوڑ دیا۔ پورے چاند کی رات آئی تو مونیکا ان سب کو لے کر میلان کیڈٹ سکول آگئی۔ یہاں چودھویں رات کا چاند رات کے دس بجے بلکل عین سر پر آ جاتا تھا۔ مونیکا جادوگرنی ساڑھے نو بجے سٹیج پر آگئی۔ یہ سٹیج سکول کے گراؤنڈ میں بنایا گیا تھا۔ سامنے میلان کیڈٹ سکول کے بچے اور ان کے والدین بیٹھے ہوئے تھے جو ڈرامہ دیکھنے آئے تھے۔ مونیکا جادوگرنی نے تمام کرداروں کا ایک مختصر سا تعارف کروایا اور ڈرامہ شروع ہوگیا۔ وہ ڈائریکٹر کی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی جو سٹیج پر ہی ایک کونے میں رکھی ہوئی تھی۔ سب سے آگے شہزادی جو لیا تھی جبکہ باقی سارے لڑکے اور لڑکیاں پیچھے گروپ کی صورت میں کھڑے تھے۔ جولیا اٹالین زبان میں چلائی بھیڑیا آ گیا بھیڑیا آگیا۔ پیچھے کھڑے تمام لڑکے اس کی مدد کو آئے لیکن وہ جھوٹ بول رہی تھی۔ جولیا کے بعد باری باری فیلیکس اور سیلا بھی آئے اور وہ بھی جھوٹ موٹ چلائے۔ بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا۔ پیچھے کھڑے سارے لڑکے اس کی مدد کو بھاگ کر آئے اور پھر مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اب ڈرامے کا کلائمکس چلنے لگا۔ شہزادی جولیا ایک بار پھر آگے آگئی اور تمام گروپ کے لڑکے اور لڑکیاں دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہوگئے۔ علی بھی باقی گروپ کے ساتھ منہ دوسری طرف کئے کھڑا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے سرخ پھول نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ پورا چاند سر کے اوپر آ گیا تھا اگلے کچھ ہی سیکنڈوں میں چاند شہزادی جولیا کے بلکل سرکی سیدھ میں آجاتا۔ اسی وقت علی نے اسے پھول سونگھانا تھا۔ جولیا سامنے آکر کھڑی ہوگئی مونیکا جادوگرنی بھی تیار تھی۔ وہ بھی اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ جیسے ہی شہزادی جولیا اپنی شکل تبدیل کر کے بھیڑیا بنتی وہ فورا اسے پکڑ کر اوپر آسمان کی طرف لے جاتی۔ فرانچسکو نے بھی پیچھے کی طرف آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کردیا۔ علی نے ایک چور نظر سے فرانچسکو کو دیکھا۔ بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا۔ اچانک شہزادی جولیا چلائی تو علی کو اپنے اندر ایک عجیب سا احساس ہوا۔ بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا وہ دوسری بار چللای۔ اور اس کے ساتھ ہی شہزادی جولیا نے بھیڑیے کی شکل اختیار کرلی۔ علی پیچھے پلٹنے لگا لیکن چاند رات کا اثر اس پر بھی ہو چکا تھا۔ وہ خود بھی اپنی اصل شکل میں آ گیا تھا۔ علی بھی بھیڑیا بن گیا تھا۔ اس کے ہاتھ سے سرخ پھول نیچے گر گیا جسے فرانچسکو نے جلدی سے اٹھایا اور شہزادی کی طرف جانے لگا۔ علی کو خطرے کا احساس ہوا تو اس نے چھلانگ لگائی اور فرانچسکو کی ٹانگ پر اپنے دانت گاڑھ دیئے۔ فرانچیسکو زمین پر گھرا تو علی جو اس وقت بھیڑیا بنا ہوا تھا وہ اسے بھمبوڑنے لگا۔ انسانی خون کی خوشبو نے اسے وحشی بنا دیا تھا۔ دوسری طرف شہزادی جولیا بھی بھیڑیا بن گئی۔ اسے بھی انسانی خون کی خوشبو آئی تو وہ بھی خون پینے کے لیے فرانچسکو کی طرف لپکی۔ لیکن وہ فرنچسکو تک نہ پہنچ سکی۔
#جاری
#شہزادی_جولیا

#رضوان_علی_گھمن ✍

قسط 4آخری
اس سے پہلے ہی مونیکا جادوگرنی نے اسے پکڑ لیا اور اسے لے کر آسمان کی طرف اڑنے لگی۔ علی فرانچسکو کا تازہ خون پی کر مکمل وحشی بھیڑیا بن گیا تھا۔ اس نے فرانچسکو کی ٹانگ چھوڑی اور گلے کی طرف بڑھا۔ وہ اس کے گلے کا خون پینا چاہتا تھا۔ فرانچیسکو زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ بھیڑیے نے اس کی پوری پنڈلی ہی چبا ڈالی تھی۔ اور اب وہ اس کے گلے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بھیڑیا جیسے ہی اس کے نزدیک آیا فرانچسکو نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑا ہوا سرخ پھول اس کے آگے کردیا۔ پھول کی خوشبو جیسے ہی بھیڑیے کے ناک سے ٹکرائی تو اسے ایک جھٹکا سا لگا اور وہ دور ہٹ گیا۔ فرانچسکو نے ہمت کی اور دوبارہ اس کے آگے سرخ پھول کردیا۔ بھیڑیے نے اسے سونگھا اور وہ انسانی شکل میں آ گیا۔ علی کا وحشی پن ختم ہوا تو اسے شہزادی جولیا کی فکر ہوئی۔ اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا وہاں مونیکا جادوگرنی اسے تیزی سے اوپر آسمان کی طرف لے جارہی تھی۔ علی تم نے سارا کام خراب کر دیا ہے میں بھی شہزادی جولیا کو بچانے کے لیے آیا تھا لیکن تمہارے حملے کی وجہ سے میری ٹانگ زخمی ہوگئی ہے۔ اگر تم مجھ پر حملہ نہ کرتے تو میں شہزادی جولیا کو بچا لیتا۔ فرانچسکو نے تکلیف سے کراہتے ہوئے کہا۔ اس کے ٹانگ علی نے پوری چبا ڈالی تھی۔ وہ بے بسی سے اوپر آسمان کی طرف جاتی ہوئی شہزادی جولیا کو دیکھ رہا تھا۔ مونیکا جادوگرنی اسے ہوائی قلعے میں لے جاتی اور وہاں اسے قتل کر کے اس کا خون پی لیتی اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی۔ شہزادی جولیا کو بچانے کے لیے تو میں آیا تھا۔ مجھے لگا تم دشمن ہو اور شہزادی جولیا کو نقصان پہنچانے لگے ہو اسی لیے میں نے تم پر حملہ کیا تھا۔ میں کسی کو بھی شہزادی جولیا کے نزدیک نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔ علی نے جلدی سے کہا۔ وہ اوپر آسمان کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ مونیکا جادوگرنی اسے لے کر آسمان میں اوپر سے اوپر ہوتی جا رہی تھی۔ ہم دونوں شہزادی جولیا کو بچانے آئے تھے لیکن بدقسمتی سے اسے نہ بچا سکے۔ ہم اب کبھی بھی شہزادی تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ علی نے مایوسی سے کہا۔ بچو مایوسی گناہ ہے۔ جو مایوس ہوجاتا ہے اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ سیلا نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ زیر لب ہلکا سا مسکرا رہا تھا۔ ہم آپ کیا کرسکتے ہیں۔ مونیکا جادوگرنی اسے اوپر آسمان کی طرف لے کر اڑ رہی ہے۔ ہم اوپر آسمان میں نہیں جاسکتے۔ علی بے بسی سے سیلا کی طرف دیکھنے لگا۔ اچھا تم اوپر نہیں جا سکتے تو کیا ہوا میں تو اوپر جا سکتا ہوں ناں اور تمہیں بھی لے کر جا سکتا ہوں۔ سیلا نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک قلابازی کھائی اور دوسرے ہی لمحے وہ ایک بہت بڑا باز بن گیا۔ چلو جلدی کرو اور دونوں میرے اوپر بیٹھ جاؤ میں تمہیں اوپر ہوائی قلعے میں لے جاتا ہوں۔ باز نے انسانی آواز میں کہا تو علی اور فرانچسکو دونوں جلدی سے اس کے اوپر بیٹھ گئے۔ باز انہیں لے کر اوپر آسمان کی طرف اڑا اور ہوائی قلعے میں لے گیا۔ وہاں مونیکا جادوگرنی نے شہزادی جولیا کو بونے شیطان کے پتلے کے سامنے لٹایا ہوا تھا اور ایک خنجر لے کر کچھ پڑھ رہی تھی۔ وہ شہزادی جولیا کو شیطان بونے کے قدموں میں قربان کرنے والی تھی۔ مونیکا جادوگرنی رک جاؤ تم کبھی بھی اپنے شیطانی مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی ہو۔ علی نے چیختے ہوئے کہا۔ باز بھی اب واپس سیلا کے روپ میں آگیا تھا۔ سیلا دراصل روحانی بزرگ نورشاہ ہی تھے جنہوں نے علی کو میلان بھیجا تھا اور وہ خود بھی شہزادی جولیا کی مدد کے لئے آگئے تھے۔ برائی کی طاقتوں کے خلاف ہمیشہ روحانی طاقتیں مقابلہ کرتی ہیں۔ بزرگ نورشاہ نے آنکھیں بند کرکے ایک عمل پڑا تو اس کے ہاتھ میں تلوار آگئی۔ اس نے تلوار علی کو دی اور اسے مونیکا جادوگرنی سے لڑنے کا کہا۔ علی نے تلوار کو ہوا میں لہرایا اور مونیکا جادوگرنی کی طرف بڑھا۔ جادوگرنی مونیکا کے ہاتھ میں بھی ایک تلوار نمودار ہوئی اور وہ بھی مقابلے پر آ گئی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ دونوں ہی تلواربازی میں ماہر تھے اور دونوں ہی بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر حملہ کر رہے تھے۔ مونیکا جادوگرنی جادو کرنا چاہتی تھی لیکن روحانی بزرگ نورشاہ ان کے کسی بھی جادو کو پورا نہیں ہونے دے رہے تھے۔ کافی دیر تک دونوں ایک دوسرے سے لڑتے رہے آخر علی کو ایک موقع مل گیا۔ جادوگرنی نے تلوار گھمائی تو علی نیچے کی طرف جھکا تلوار کا وار اس کے سر کے اوپر سے چلا گیا۔ جادوگرنی کو ایک جھٹکا لگا اور وہ آگے کی طرف بڑھی۔ علی اوپر اٹھا اور اس نے ایک بھرپور وار جادوگرنی کی گردن پر کیا۔ تلوار کے لگتے ہی جادوگرنی کا سر تن سے جدا ہو گیا۔ جادو گرنی کے مرتے ہیں وہاں اندھیرا چھا گیا اور چاروں طرف آندھیاں چلنے لگیں۔ اپنی آنکھیں بند کر لو سیلا کی آواز آئی تو سب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ آندھیاں کچھ دیر تک چلتی رہی اور پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اچانک چاروں طرف سے تالیوں کی آواز آنے لگی۔ 
رضوان علی گھمن۔ دوستوں کو ضرور مینشن کیجیے۔
اپنی آنکھیں کھول دو سیلا کی آواز دوبارہ آئی تو انہوں نے آنکھیں کھول دیں وہ سب سکول کے گراؤنڈ میں سٹیج پر کھڑے تھے۔ سامنے بیٹھے ہوئے چھوٹے بچے اور ان کے والدین تالیاں بجا رہے تھے۔ فرانچسکو کا پیر بھی بزرگ نے ٹھیک کر دیا تھا۔ اور شہزادی جولیا بھی ٹھیک ہو گئی تھی۔ اسے سب یاد آگیا تھا۔ علی مجھے معاف کردو میری وجہ سے تمہاری ٹانگ ٹوٹ گئی تھی شہزادی جولیا نے آگے بڑھ کر علی سے معافی مانگی۔ کوئی بات نہیں شہزادی صاحبہ آپ ہماری شہزادی ہوں اور شہزادیاں کبھی بھی اپنی رعایا سے معافی نہیں مانگتیں۔ علی جلدی سے آگے بڑھا اور شہزادی جولیا کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے سر کو شہزادی کے سامنے جھکا لیا تھا۔ نہیں علی تم رعایا نہیں ہو تم شہزادے ہو میں تمہیں اپنا شوہر تسلیم کرتی ہوں۔ آج سے تم میرے دل کے شہزادے ہو۔ شہزادی جولیا نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ فرانچسکو نے برا سا منہ بنایا جبکہ سیلا مسکرانے لگا۔ جادوگرنی مونیکا اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی۔ شہزادی جولیا اور علی کچھ دن میلان میں ہی رہے اس کے بعد سیلا نے جو کہ اصل میں بزرگ نور شاہ تھے نے انہیں کالاش واپس بھیج دیا۔ وہاں دونوں نے شادی کر لی۔ بادشاہ کاشان نے تخت وتاج علی کے سپرد کردیا اور وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ 
#ختم_شد