Mera Sitamghar Full Novel By Writer Noor Asif - UrduKahaniyanPdf

 


#merasitmagr

#noorasif

Episode1


ایک ہاتھ میں بُکے پکڑے اور دوسرے ہاتھ میں سوٹ کیس کو گھسیٹتا ہو ا وہ اندر داخل ہوا۔ چہرا خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ اور دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ آج اس دشمن ِ جاں کو دیکھے ہوئے چار سال ہو گئے تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی جو منظر دیکھنے کو ملا۔ اسے دیکھ کر اس کی آنکھیں پتھر ا گئیں۔ ساتوں آسمان اس کے سر پر گرے تھے بُکے اس کے ہاتھ سے گر چکا تھا۔ وہ سامنے ہی کسی کی بانہوں میں دلہن بنی کھڑی کیک کاٹ رہی تھی۔ اس کے ساتھ کھڑا وہ انسان بہت محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

اسے لگا اس کے قدم کسی فولادی چیز نے جکڑ لیے ہوں اس کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا اسی اثنا ء میں اُس دشمنِ جاں کی نظر اس پر پڑی تھی۔ وہ آنکھوں میں بے یقینی لیے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اُلٹے قدموں واپس لوٹ گیا اور وہ پھولو ں کا بُکے زمین پر گرا اپنی بے قدری پر ماتم منانے لگا۔ 


کیا ہوا جان تمہارا دھیان کدھر ہے ایان کی آواز پر عمل نے چونک کر دیکھا وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ آج ہی تو اس کا نکاح ہوا تھا۔ کچھ نہیں وہ بس۔... عمل اس کی محبت لٹاتی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے نظروں کو جھکا کر بولی۔ 

تم جانتی ہو ناں مجھے تمھاری توجہ کہیں اور پسند نہیں۔ میں چاہتا ہوں میں جب تمھارے پاس ہوں تو تم ساری دنیا کو بھلا دو یاد رکھو تو بس اس نا چیز کو۔ وہ مسکراتے ہوئے اس کی کمر پر اپنی گرفت سخت کرتا ہوا اپنا شدت بھرا لمس پورے حق سے اس کے ماتھے پر چھوڑتا ہوا بولا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عمل میری بات سنو پلیز ایک دفعہ۔۔۔

 وہ جو یونیورسٹی جانے کے لیۓ اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگی تھی داور کی آواز پر رکی۔ 

بولو کیا کہنے آئے ہو اب۔ کیوں آئے ہو میری زندگی میں واپس۔ 

تم نے میرا انتظار بھی نہیں کیا عمل وہ دکھ سے بولا۔ 

اس کی بات سن کر وہ ایسے ہنسی جیسے کسی بچے کی معصومانہ بات پر ہنستے ہیں۔

 انتظار کرتی تمھارا۔ بیچ منجھ دار میں مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے تم۔ 

 یقین کی ڈوری تھمائی تھی تم نے جو میں تمھارا انتظار کرتی۔ 

عمل کیا میری محبت اتنی کمزور تھی کہ تم چند سال میرا انتظار نہ کر سکی۔ وہ کرب سے بولا۔ 

محبت کا تو پتہ نہیں مگر تم بہت کمزور انسان نکلے۔ 

پتہ ہوتا تو کبھی تم پر یقین نہ کرتی۔۔

 بلکہ تم نے میرے ہی یقین کو نہیں بلکہ پا پا کے یقین کو بھی توڑا ہے داور! 

 وہ دنیا میں سب سے زیادہ تم پر یقین کرتے تھے۔۔

  تم سے محبت کرتے تھے اور تم نے کیا کیا۔ 

  میرا اور ان کی ذات کا تماشا بنا دیا پوری دنیا کے سامنے۔ 

عمل میں مجبور تھا۔ پلیز مجھے معاف کر دو۔ میرے پاس واپس آ جاؤ۔ وہ مرد ہو کر رو پڑا تھا۔ 

کیا کہا تمھارے پاس آ جاؤں؟ میرا نکاح ہو چکا ہے داور۔ اور میں تمھارے لیے اس انسان کو چھوڑ دوں جس نے پوری دنیا سے لڑ کر مجھے اپنایا اور تم اپنی سو کالڈ مجبوری کی وجہ سے پوری دنیا کے سامنے میری ذات کا تماشا بنا کر چلے گئے۔ وہ بھڑکتے ہوئے لہجے میں بولی۔ 

عمل تم مجھ سے محبت کرتی تھی۔ 

داور اس کی بات پر عمل کے چہرے پر استہزائیہ  مسکراہٹ آئی تھی۔

مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ شاید میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔

 مگر اہان کا میری زندگی میں آنے پر پتہ چلا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ میں تن من اورروح سے صرف ایان کی ہوں۔ ایان نے مجھے بتایا محبت کیا ہوتی ہے۔

  چاہے جانے کا احساس کیا ہوتا ہے۔ مجھے لے کر وہ کبھی اپنی انا اور مجبوری کی آڑ کا بہانہ نہیں کرتا۔ میرے لیے وہ اپنی ذات کی نفی تک کر دیتا ہے۔ 

ہاں میں تمھیں پسند کرتی تھی وہ میرا بچپنا تھا۔ دوست تھے تم میرے۔ جب مجھے تم چھوڑ کر گئے بہت سی راتوں میں روتی رہی۔ 

پاپا تو بلکل خاموش ہو گئے تھے۔ 

لوگوں کے طعنوں نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔ چھوڑ کر تم مجھے گئے اور سوال میرے کردار پر اُٹھا تھا۔ 

میں تو تم سے نفرت کرتی رہی ان گزرے سالوں میں۔ 

مگر اہان میری زندگی میں آئے تو میں دل ہی دل میں تمھارا شکریہ ادا کرتی تھی کہ تمھارے چھوڑنے کی وجہ سے ایک مکمل، مضبوط اور مجھ پر بھروسہ کرنے والا انسان مجھے ملا۔ 

میرا تم سے نفرت کا بھی رشتہ ختم ہو گیا۔ عمل کہتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔ 

داور زمین پر بیٹھ کر اونچا اونچا رونے لگا۔ گزرے سال اس کی آنکھوں کے سامنے آئے تھے۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل,, فراز اور مہناز بیگم کی اکلوتی اولاد تھی۔ جنھیں انہوں نے بہت پیار سے پالا تھا اور دنیا کی ہر اسائش اسے دی تھی۔ 

داور کے ماں باپ بچپن میں ہی کار ایکسیڈینٹ میں فوت ہو چکے تھے۔ 

فراز صاحب کے لیے وہ وقت بہت کڑا تھا۔ 

جب ان کے بھائی بھابھی انہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ داور اس وقت بارہ برس کا تھا۔ اور عمل چار برس کی۔ وہ انھیں اپنے ساتھ ہی لے آئے تھے۔

 فراز صاحب نے عمل اور داور میں کبھی فرق نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ داور کو وہ عمل سے بھی زیادہ چاہتے تھے۔

  مگر مہناز بیگم کو داور ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ 

  فراز صاحب نے داور کو پڑھایا۔۔

 اس کی ہر خواہش پوری کی۔ پڑھائی کے بعد داور نے فراز صاحب کا بزنس سنبھال لیا تھا اور مہناز بیگم کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے تھے۔ 

عمل اور داور کی بہت اچھی انڈر سٹینڈنگ تھی۔

 داور کے آنے کے بعد عمل کی زندگی میں وہ خلا پُر ہو گیا تھا جو وہ اکیلے پن کا محسوس کرتی تھی۔ 

داور اس کا بہت اچھا دوست تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ دوستی پسندیدگی میں بدل چکی تھی۔ 

فراز صاحب نے یہ دیکھتے ہوئے داور اور عمل کا رشتہ پکا کر دیا تھا ابھی عمل بہت چھوٹی تھی۔ 

عمل ابھی صرف سترہ برس کی تھی اور داور پچیس برس کا۔ 

مہناز بیگم کی مخالفت کے باوجود فراز صاحب نے ان کی منگنی اناؤنس کر دی۔ 

داور بہت خوش تھا وہ عمل کو اپنی جان سے بڑھ کر چاہتا تھا۔ اگر اس نے کبھی کسی سے محبت کی تھی تو وہ عمل تھی۔ بچپن سے ہی عمل کو لے کر وہ بہت حساس تھا۔ 

داور اپنے روم میں تیار ہو رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر کے بعد اس کی منگنی تھی کہ مہناز بیگم کمرے میں داخل ہوئی۔ 

تائی جان آپ! اگر آپ کو کوئی کام تھا مجھے کہا ہوتا میں حاضر ہو جاتا۔ داور بہت احترام سے بولا۔

مجھے جو تم سے کام ہے امید کرتی ہوں تم میری بات کی لاج رکھو گے۔ داور مہناز بیگم کی بات پر ہمہ تن گوش ہوا۔ 

جی بولیں تائی جان، دیکھو داور عمل ہماری اکلوتی اولاد ہے۔ کیا کیا سپنے نہین دیکھے تھے۔ شہزادیوں جیسی ہے میری بیٹی۔

 تم خود مجھے بتاؤ کیا تم اس کے لائق ہو۔ 

بچپن سے تم ہمارے ٹکڑوں پر پلتے آئے ہو۔

 تمھارا اپنا کیا ہے۔ ابھی بھی تم اپنی پہچان بناتے اپنا کاروبار کرتے تم اس کاروبار پر قبضہ جما کر بیٹھے ہو جس پر عمل کا حق ہے۔ 

داور مہناز بیگم کی باتوں پر حیران ہو رہا تھا اتنی کڑواہٹ تھی ان کے دل میں اس کے لیے۔ 

میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں یہ منگنی نہ کرو۔ پہلے اپنے آپ کو اس قابل بناؤ پھر میں خود عمل کو تمھارے ہاتھوں سونپوں گی۔۔ ایک میری بیٹی ہے اس کے مستقبل کے ساتھ مت کھیلو۔ 

تائی جان یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں آج ہماری منگنی ہے۔

 باہر پورا خاندان جمع ہے۔ داور پریشانی کے عالم میں بولا۔ 

 تم تو بہت چالاک نکلے داور تم عمل کے ساتھ منگنی اس لیے کر رہے ہو تا کہ تمہیں یہ گھر، جائیداد اور چلا چلایا بزنس مل جائے۔ مہناز بیگم  نخوت بھرے انداز میں بولی۔ 

تائی جان بس میں آپ کی عزت کرتا ہوں اس کا یہ مطلب نہین آپ میری محبت کی توہین کریں۔

 توہین اُن کی کی جاتی ہے جن کی کوئی عزت ہو۔ دوسروں کا نوالہ کھانے والوں کی عزت نہین کی جاتی جوتے مارے جاتے ہیں ان کے سر پر۔ 

 اگر تمھارے اندر زرا سی بھی غیرت ہے تو کچھ بن کر دکھاؤ پھر آنا میرے سامنے میں خود عمل کا رشتہ تمھارے ساتھ کروں گی۔ 

 مگر نہیں تم میں اتنی غیرت ہی نہیں۔ تمھیں بیٹھ کر دوسروں کے نوالے کھانے کی عادت ہو چکی ہے۔ 

مہناز بیگم تو چلی گئی مگر داور کو لگا جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسا اس کے کانوں میں انڈیل دیا ہو۔ 

بغیرت دوسروں کا نوالہ کھانے والا۔ یہ الفاظ داور کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ اس نے پورا کمرہ اُلٹ پُلٹ کر دیا۔ ٹھیک ہے تائی جان اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں کچھ بن کر آؤں تو میں اپنے دم پر کچھ بن کر آؤں گا اب عمل کے سامنے۔ 

داور اس رات خاموشی سے سب کو بنا بتائے وہاں سے چل دیا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل داور کے جانے پر ٹوٹ گئی تھی۔ داور کی جدائی سے زیادہ اپنا بھروسہ ٹوٹنے کا دکھ تھا۔

 لوگ اس کے کردار پر انگلیاں اُٹھانے لگےتھے ۔

  کتنے ہی خاندان کے لوگوں کے منہ سے سنا تھا۔ کوئی تو بات ہو گی جو یوں داور بھاگ گیا۔ 

 کئیوں نے یہ تک کہہ دیا لگتا ہے داور کا دل بھر گیا ہو گا آخر ایک ساتھ رہتے تھے بہکنے میں کون سا ٹائم لگتا ہے۔ 

ان باتوں نے عمل کوتوڑ کر رکھ دیا تھا۔

 فراز صاحب بلکل خاموش ہو گئے تھے لیکن انہوں نے خود کو سنبھالا اور عمل کو اس فیز سے نکالا۔

  وہ گزرے وقت کے ساتھ داور سے نفرت کرنے لگی تھی۔ پھر اس کی زندگی میں اہان مَلک داخل ہوا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ہانیہ مجھے آفس سے لیٹ ہو رہا ہے اور تم کیا آئے روز ضد کرنے لگ جاتی ہو کہ میں تمھیں یونیورسٹی چھوڑ کر آؤں۔ اہان ہانیہ کو دیکھتا ہُوا چڑ کر بولا۔ 

جو جینز شرٹ پہنے بال ڈائی کیے فُل تیار ہوئی اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی۔ 

کیونکہ میں چاہتی ہوں پوری یونیورسٹی دیکھے یہ ہینڈ سم بندہ میرا ہے۔ صرف میر ہے۔ وہ اپنے بال جھٹکتے ہوئے اک ادا سے بولی۔ 

اہان نے ماتھے پر شکنے ڈال کر بیزاری سے اسے دیکھا تھا۔ ابھی منگنی ہوئی ہے شادی میں بہت ٹائم ہے۔ ایان نے اسے باور کروایا۔ 

تو کیا ہوا منگنی ہو گئی ہے تو شادی بھی ہو جائے گی۔ 

ہانیہ اہان ملک کے ماموں کی بیٹی تھی۔ یہ رشتہ ہانیہ کی ضد پر اہان سے ہوا تھا۔ اہان اپنی ماں نتاشہ سے بہت پیار کرتا تھا اور نتاشہ اپنے بھائی پر جان دیتی تھی۔ 

اپنی ماں کی خاطر اہان ملک نے یہ منگنی کی تھی ورنہ ہانیہ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔

 لیکن تمھارے دکھاوے کی وجہ سے میرے آفس کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ اہان کی بات پر ہانیہ قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔ 

 اُو کم آن اہان۔۔۔ اس سے تمھیں کیا فرق پڑتا ہے۔ 

اتنے بڑے بزنس مین کے منہ سے یہ چِیپ باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ 

اہان ہانیہ کی بات پر لب بھینچ کر خاموشی سے ڈرائیونگ کرنے لگا۔ 

اہان نے اسے یونیورسٹی گیٹ پر ڈراپ کیا تھا۔ 

مگر ہانیہ ویسے ہی بیٹھی تھی۔

 اترو اب۔۔۔

 وہ بیزاری سے گھڑی دیکھتے ہوئے بولا۔

 اہان پلیز وہ دیکھو میری فرینڈز کھڑی ہیں۔ پلیز باہر نکل کر ان سے مل تو لو۔ وہ تم سے ملنے کو بے تاب ہیں۔

 پلیز میں چاہتی ہوں پورے ڈیپارٹمنٹ کو پتہ چلے کہ  تمھاری اور میری منگنی ہو چکی ہے۔ 

وہ شوق تو تم واٹس اَیپ پر سٹیٹس لگا کر پورا کر چکی ہو۔ اور فیس بُک پر بھی اناؤنس کر چکی ہو بمعہ میری تصویر کے۔ اہان اسے غصے سے گھورتا ہوا ایک ایک لفظ چباتا ہوا بولا۔ 

پلیز اہان صرف ایک دفعہ مل لو پھر آئیندہ کبھی نہیں کہوں گی۔ 

وہ ہانیہ کی بات پر بیزاری سے گاڑی سے اترا۔ وہ جانتا تھا ہانیہ ایسے نہیں مانے گی۔ 

ہانیہ کی فرئینڈز بھی بلکل اسی کی طرح پاگل اور بے ہودہ ہیں۔ 

اہان بڑبڑاتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف واپس آ رہا تھا اس نے ایک نظر آسمان کو دیکھا جو برسنے کو بے تاب تھا۔ ٹھنڈی ہوا بہت زوروں سے چل رہی تھی۔ وہ جلدی جلدی قدم اٹھانے لگا کہ اس کا کسی سے ٹکراؤ ہوا۔ اس سے پہلے وہ گرتی اہان نے اسے تھام لیا تھا۔۔ 

عمل تیزی سے ڈیمارننٹ پہنچنا چاہتی تھی اس نے اپنی گاڑی لاک کی اور تقریبا بھاگتے ہوئے وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ جا رہی تھی کہ راستے میں اس کا پیر کسی پتھر سے لگا تھا۔۔  

اس سے پہلے وہ گرتی وہ شخص اسے تھام چکا تھا۔ 

عمل کے تمام نوٹس گر چکے تھے۔ گیلے بالوں سے کلپ گر چکا تھا۔  اہان نے دلچسپی سے اس لڑکی کو دیکھا جو اس کی بانہوں میں کھڑی اپنی خوبصورت نیلی آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔ سنہری بال اس کے ہوا میں لہرا رہے تھے۔ 

اہان نے بہت دلچسپی سے اسے دیکھاوائٹ جینز کے اوپر فیروزی لانگ شرٹ پہنے بڑا سا دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ اہان کو بہت خوبصورت لگی۔ اہان کے دل نے  بیٹ مس کی تھی۔ شکریہ آپ نے مجھے تھاما۔ مجھے گرنے سے بچایا مگر اب مجھے گھورنا بند کر کے مجھے چھوڑ سکتے ہیں اس نے کہتے ساتھ ہی اپنا پاؤں زور سے اہان کے پاؤں پر مارا۔ اہان نے کراھتے ہوئے اسے چھوڑ ا تھا۔ عمل غصے سے اپنے نوٹس اُٹھانے لگی جو ادھر اُدھر اُڑ رہے تھے اہان بھی نیچے جھک کر اس کے ساتھ پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔  

نوٹس اکٹھے کرتے ہوئے اس کے بال بھی ہوا کے ساتھ لہرا رہے تھے۔۔

 جنھیں وہ بار بار چہرے سے غصے سے ہٹا رہی تھی.

  اہان نے اس کے بالوں کو چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے گھور کر دیکھا۔

  کیا دیکھ رہے ہیں مجھے؟ نوٹس اُٹھانے میں میری ہیلپ کریں۔ اہان نے مسکراتے ہوئے اس کے نوٹس اکٹھے کرکے اسے دیے۔ عمل نے جھپٹنے کے انداز میں اپنے نوٹس اس کے ہاتھ سے لیے تھے ۔۔

  اور اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ اہان کی آواز اسے سنائی دی۔ ویسے آپ کے ہاں تھینک یُو کرنے کا رواج نہیں ہے کیا۔ 

 اس نے غصے سے مڑ کر دیکھا۔

 بلکل ہے جس انداز میں آپ مجھے گھور رہے تھے نہ میرا دل کیا آپ کی آنکھیں نکال لوں۔۔ وہ غصے سے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولی۔ 

 ہائے،،،، اہان نے دل پے ہاتھ رکھا میرا بھی یہی دل کر رہا ہے آپ کی آنکھیں اپنے پاس ہی رکھ لوں بہت خوبصورت ہیں۔ اہان نے دور سے ہانک لگائی۔۔

بے ہودہ انسان... عمل غصے سے کہتے ہوئے اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی۔ 

بارش بہت تیزی سے برسنے لگی تھی۔ اہان کتنی ہی دیر اس بارش میں کھڑا بھیگتا رہا۔ اور پھر مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اسے ایک بریسلٹ دکھائی دیا۔ جو یقینا عمل کا تھا۔ اہان نے مسکراتے ہوئے وہ بریسلیٹ اُٹھا لیا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہان ہانیہ کے گیٹ پر مسلسل ہارن دے رہا تھا۔ وہ بھاگتی ہوئی اپنی چیزیں اٹھاتی باہر آئی تھی۔

 کیا ہے اہان؟ مجھے تیار تو ڈھنگ سے ہونے دیتے۔۔

  اور کتنا تیا ر ہونا تھا۔ اہان اس کے میک اَپ سے اٹے چہرے کودیکھ کر بیزاری سے  بولا۔ 

 تمھیں آج کیا ہوا۔ مجھے یونیورسٹی ڈراپ کرنے جا رہے ہو۔ خیریت! میری ہزاروں منت کرنے کے باوجود تم ڈھیروں احسان کر کے مجھے لینے آتے ہو۔ 

 ہانیہ نے مشکوک انداز میں اہان کو دیکھا۔ آج میری کوئی میٹنگ نہیں تھی تو سوچا تمہیں ڈراپ کر دوں تاکہ تمھیں اپنی فرئینڈز کے سامنے شو کرنے کا موقع ملے۔

  وہ مسکراتا ہوا اس پر طنز کرتا بولا۔

  جس پر ہانیہ نے سر جھٹکا تھا۔ ویسے ہانیہ تمھارے ڈپارٹمنٹ میں کوئی نیلی آنکھوں والی لڑکی ہے۔ 

  اس نے اپنے مطلب کی بات پوچھی۔ جس کے لیے وہ ہانیہ کو ڈراپ کرنے جا رہا تھا۔ 

ہانیہ اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنسی تھی۔ 

اہان نے گھور کر دیکھا۔ کوئی جوک سنایا ہے تمھیں میں نے۔ 

جوک ہی تو ہے یہ مشرق ہے یہاں نیلی آنکھیں کہاں۔ اگر ہیں بھی تو وہ لینز کا کمال ہو گا۔ 

ویسے تم نے کہاں دیکھی یہ نیلی آنکھوں والی لڑکی۔ ہانیہ نے مشکوک انداز میں اہان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔اہان ایک پل کے لیے گڑبڑایا تھا۔ میں نے نہیں دیکھی۔ ویسے تمھاری ساری فرینڈز عجیب سی تھیں بلکل تمھاری طرح آخر کے تین لفظ اس نے دل میں کہے تھے۔ اس لیے تم سے پوچھ رہا تھا کوئی حسن بھی ہے تمھارے ڈپارٹمنٹ میں یا پھر ایسی ہی فضول لڑکیاں ہیں اُدھر۔ کیا ہوا ایسے میری فرینڈز کو  اتنی اچھی تو ہیں۔ ہانیہ کو غصہ آیا تھا  اہان کی بات پر جو بار بار اس کی فرئینڈز کو عجیب سا بول رہا تھا۔ 

جی بہت اچھی ہیں اور خوبصورت بھی بلکل تمھاری طرح۔۔

 اہان اس کے چہرے پر ڈھیر سارا میک اَپ تھوپا ہوا دیکھ کر طنزیہ بولا۔ 

 ہانیہ شرمائی تھی اس کی بات پر۔

  اہان نے بیزاری اور کوفت سے اسے شرماتے دیکھا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج تیسرا دن تھا وہ مسلسل یونیورسٹی کے اسی احاطے میں کافی دیر تک کھڑا اس کا انتظار کرتا رہتا ۔ 

جہاں وہ اس سے ٹکرائی تھی مگر وہ دشمنِ جاں اسے نظر نہیں آئی تھی۔

 آج بھی وہ مایوس ہو کر پلٹنے لگا تھا۔۔

 بلیک ڈریس پہنے گلے میں سٹالر ڈالے بنا ادھر اُدھر دیکھے بھاگی جا رہی تھی۔ 

 اہان حیران ہوا تھا اس لڑ کی کو اتنی جلدی کیا ہے اگر اتنی ہی جلدی تھی تو وقت پر آتی۔ 

اس سے پہلے وہ لڑکھڑاتی۔ 

اہان نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے گرنے سے بچایا تھا۔ ورنہ وہ منہ کے بل گرتی ۔۔

تھینکس کہتے ہوئے وہ پلٹی ہی تھی کہ ا پنے سامنے اہان کو دیکھ کر مسراہٹ کی جگہ غصے نے لے لی۔ 

اہان نے دلچسپی سے اس کےچہرے کو دیکھا جو غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ 

سنبھل کر چلا کرو۔ میں نہیں چاہتا تمھیں کوئی اور سہارا دے۔ اہان نے مسکرا کر کہا تو عمل کے سر پر لگی تو پیروں پر بجھی۔

آپ کی پسند نا پسند کا میں کیا کروں مجھے کوئی بھی سنبھالے آپ کو اس سے کیا۔ 

عمل کی ناک بھی غصے سے سرخ ہو رہی تھی۔ اہان نے دلچسپی سے اس کی سرخ ناک کو دیکھا۔ 

اہان کو گھورتا پا کر عمل نے اس دن والے لقب سے اسے پکارا بے ہودہ انسان۔۔۔۔

 عمل یہ کہتے ہوئے اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف چل پڑی۔۔

 اہان بھی اس کے پیچھے ڈپارٹمنٹ کی طرف مسکراتا ہوا چل پڑا۔

واپسی پر ڈرائیونگ کرنے ہوئے اہان کے لب مسکرا رہے تھے۔ 

عمل فراز نہیں یہ نام تم پہ سوٹ نہیں کرتا۔

 تمھارا نام عمل اہان ہو نا چاہیے عمل اہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اہان عمل کے بریسلٹ کو چومتا ہوا خود سے بولا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ یونیورسٹی جانے لے لیے گھر سے نکلی ہی تھی کہ تھوڑی دور پہنچ کر اسے لگا کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس نے میرر میں دیکھا ایک کالی پجارو اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ 

ہو سکتا ہے میری غلط فہمی ہو۔ عمل نے خود کو تسلی دی۔ 

راستہ سنسان تھا۔ عمل جلد از جلد وہاں سے نکلنا چاہتی تھی۔ 

اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی۔ 

اس پجارو نےبھی اپنی سپیڈ بڑھائی تھی۔ 

اور ایک دم سے اس کی گاڑی کو کراس کرتے ہوئے

 اس کی گاڑی کے سامنے اپنی گاڑی روکی تھی۔ 

اس گاڑی سے نکلنے والی ہستی کو دیکھ کر عمل حیران رہ گئی۔ 

عمل غصے سے گاڑی سے اتری تھی۔

 یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔۔۔

  عمل نے غصے سے اہان ملک کو گھورتے ہوئے کہا۔ 

بدتمیزی نہیں ہے۔

 مجھے تم سے تھوڑی دیر بات کرنی ہے۔

  میری گاڑی میں بیٹھو۔۔

  اہان نے بہت تحمل سے عمل سے کہا۔ 

پاگل ہو گئے ہو نشہ کر کے آئے ہو کیا؟

 تم میرے لیے انجان ہو ۔۔

 میں تمھاری گاڑی میں کیوں بیٹھوں۔ 

 ٹھیک ہے پھر میں تمھاری گاڑی میں بیٹھ جاتا ہوں۔

  اہان نے مسئلہ حل کیا۔ 

دیکھو میرے راستے سے گاڑی ہٹاؤ۔ ورنہ میں پولیس کو کال کروں گی۔ 

اس نے اہان کو ڈرایا۔ 

اہان مسکریا تھا اس کی بات پر، ویسے ہمارے ہاں کی پولیس جب تک آئے گی نا میں تمھیں کہاں سے کہاں لے جاؤں گا۔ 

واٹ؟ مطلب کیا ہے تمھاری بات کا؟ 

اہان کی بات عمل کا میٹر شارٹ کر گئی۔ وہ گلا پھاڑ کر بولی تھی کہ اسے اپنے گلے میں خراش محسوس ہوئی۔ 

دیکھو! اپنی نازک جان پر اتنا ظلم مت کرو مجھے صرف تم سے دو منٹ بات کرنی ہے۔۔

 اہان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تم یہ اوچھے ہتھکنڈے اپنا کر مجھے ڈرا نہیں سکتے۔ میں ڈرنے والی لڑکیوں میں سے نہیں ہوں اب کی بار عمل نے آرام سے کہا تھا۔

بلکل میں خود چاہتا ہوں تم ڈرو مت بلکہ میں خود تم سے ڈرنے کے لیے تیار ہوں۔شادی کے بعد بہت ڈر کے رہوں گا تم سے۔ دن کو رات کہو گی میں رات کہوں گا رات کو دن کہو گی تو میں دن کہوں گا ویسے بھی لڑکیاں ایسے ہی شوہر کی  تو تمنا کرتی ہیں۔ آہان نے آنکھ مارتے ہوئے مزے لے کر کہا تو عمل کا بس نہیں چل رہا تھا اس کا قتل کر دے۔۔

 شادی اور تم سے لگتا ہے رات کو کوئی خواب دیکھا تھا یا پھر کوئی سستا نشہ کر کے آئے ہو اسی لیے بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔ 

تمھیں جب سے دیکھا ہے میں بِن پیئے بہک رہا ہوں۔ اہان نے کہا تو عمل غصے سے اپنی گاڑی کو وہٰیں چھوڑ کر آگے بڑھی ۔۔

تا کہ آگے جا کر کوئی ٹیکسی لے لے۔ یہ پاگل انسان اس کی جان نہیں چھوڑئے والا تھا۔ 

اس سے پہلے وہ آگے بڑھتی اہان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی میں زبردستی بٹھایا اور خود فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر جلدی سے گاڑی موڑنے لگا۔ 

کیا بد تمیزی ہے بے ہودہ انسان۔ عمل چلائی۔ 

آئی ایم سوری عمل۔ مجھے صرف تم سے دو منٹ بات کرنی ہے۔ بس میری بات سن لو۔ اہان التجائیہ لہجے میں بولا۔ 

عمل نے چند ثانیے اسے گھور کر یکھا۔ 

بکو۔۔۔ عمل نے غصے سے کہتے ہوئے اپنا رخ گاڑی کی ونڈو کی طرف کیا۔ 

اہان نے لمباسانس لیتے ہوئے عمل کو دیکھا تھا اور بات شروع کی۔ 

عمل میں نے جب سے تمھیں دیکھا ہے میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں میں چاہ کر بھی تمھیں بھول نہیں پا رہا۔ 

عمل اس کی بات سن کر ہتھے سےہی اکھڑ گئی۔ 

چار دن ہوئے ہیں مجھ سے ملاقات کو اور آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی۔ دیٹس گریٹ! عمل استھزائیہ ہنسی۔ عمل محبت ہونے کے لیے تو ایک پل ہی کافی ہوتا ہے محبت ہونے کے لیے صدیوں کا انتظار نہیں کیا جاتا یہ تو ایک لمحہ ہوتا ہے کوئی بھی آپ کے دل میں چپکے سے براجمان ہو جاتا ہے۔ 

اور تم میرے دل پر پورے حق اور شان و شوکت سے براجمان ہو چکی ہو۔ 

میں نے کبھی کسی کے لیے ایسا محسوس نہیں کیا۔

 اہان نے اسے اپنے دل کی بات بتائی۔ 

جو لوگ آپ کی طرح بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ناں وہ وقت پرساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ عمل سپاٹ چہرے کے ساتھ بولی۔ 

عمل یہ تو وقت بتائے گا۔۔۔

 بس ایک موقع دے دو اہان نے بہت نرمی سے اس سے التجا کی۔ 

تو کیا چاہتے ہو تم مجھ سے دوستی کرنا تاکہ تم مجھے جان سکو۔ میں تمھارے ساتھ ہوٹلوں میں پھروں ۔۔

تمھاری گرل فرئینڈ بنوں اور 

جب شادی کا وقت آئے تو تم سو بہانے کر کے مجھے چھوڑ دو۔ عمل تلخی سے بولی۔

 عمل اتنا نیگیٹیو کیوں سوچ رہی ہو۔ 

میں تم سے دوستی نہیں کرنا چاہتا۔۔

 میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔

 اہان کے بولنے پر عمل ہتھے سے ہی اکھڑ گئی۔ 

اوہ تو آپ مجھے پرپوز کر رہے ہیں اس طرح مجھے زبردستی گاڑی میں بیٹھا کر۔ ویل ڈن مسٹر ۔۔۔۔۔۔

وہ رکی تھی۔ اہان ملک میرا نام اہان ملک ہے۔۔

اہان  نے اپنا نام بتایا۔ 

دیکھو تم مجھے پرپوز کر رہے ہو اور 

مجھے تمھارا نام ہی نہیں پتا۔ ہاؤ سٹرینج ۔۔۔

عمل تالی بجاتے ہوئے بولی۔عمل تم میری بات سننا نہیں چاہتی تھی تو مجھے یہی طریقہ بہتر لگا۔ اہان نے وضاحت دی۔ 

ٹھیک ہے میں نے سن لی تمھاری بات اب مجھے جانے دو۔ 

اہان نے لب بھینچے تھے اس کی بات پر اور گاڑی واپس گھمائی۔ 

اس نے گاڑی کو وہیں روکا جہاں عمل کو گاڑی میں بیٹھایا تھا۔ عمل نے اترنا چاہا تو اہان نے گاڑی کا دروازہ ایک دم سے لاک کیا۔ 

اب کیا بدتمیزی ہے عمل غصے سے چیخی۔ کوئی بدتمیزی نہیں تمھیں کچھ دینا تھا۔ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے تم سے عمل غصے سے بولی۔ 

میں کچھ نہیں دے رہا تمھاری امانت تمھیں لٹا رہا ہوں۔ اہان نے اس کا بریسلیٹ اسے تھمایا جسے عمل نے جھپٹنے کے انداز میں اس سے لیا تھا۔ 

یہ تمھارے پاس تھا۔ تھینک گاڈ یہ مجھے بہت عزیز ہے عمل کے بولنے پر وہ مسکرایا۔ 

مجھے بھی بہت عزیز ہے یہ۔۔

 مگر پھر سوچا تمھارے لیے اہم نہ ہو۔ تمھارے آگے مجھے ہر چیز بے معنی لگتی ہے۔ 

 یہ کہہ کر اہان نے لاک کھولا تھا عمل غصے سے گھورتی ہوئی گاڑی سے اتر کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ 

اہان نے یونیورسٹی تک اس کا پیچھا کیا تھا اسے یونیورسٹی میں جاتے دیکھ کر اہان نے اپنی منزل کی طرف گاڑی موڑی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#Merastamga

#NoorAsif

Episode 2


کیا کہہ رہے ہو ایان تم نے ہمیں لندن سے ایمرجینسی یہ کہنے کے لیے بلایا ہے۔ نتاشہ کا غصے سے برا حال تھا ایان ملک کی بات سن کر۔ دیکھ رہے ہیں رحمان نتاشہ نے غصے سے اپنے شوہر کو پکارا جو خاموشی سے صوفے پر بیٹھا تھا۔ کیا کہوں تم نے ہی زبردستی ہانیہ سے اس کی منگنی کروائی تھی۔ میں نے تمھیں کتنا روکا تھا جوان اولاد ہے گرم خون ہے کوئی بھی پسند آسکتا ہے جیسے تم مجھے آئی تھی پسند۔ رحمان ملک نے مسکراتے ہوئے نتاشہ سے کہا۔ 

ایک تو آپ کو ہر ٹائم رومینس سوجھتا ہے۔ میں کیا کہہ رہی ہوں آپ سے اور آپ۔ نتاشہ غصے سے چیخی تھی۔ 

رحمان ملک سنبھل کر بیٹھے تھے۔ صیح کہہ رہی ہے تمھاری ماں اگر تمھیں کسی اور سے ہی شادی کرنی تھی تو تم نے ہانیہ کے رشتے کو ہاں کیوں کی۔ 

پاپا ماما کے لیے کی میں نے ان کی خوشی کے لیے کی۔۔ مگر اب میں ہانیہ سے شادی کر لیتا ہوں تو میں اسے خوش نہیں رکھ پاؤں گا۔ کیونکہ میں عمل سے بہت محبت کرتا ہوں وہ تحمل سے انھیں سمجھانے لگا۔ 

اپنی ماں سے بھی زیادہ کرتے ہو۔ نتاشہ دکھ سے بولی۔ 

نہیں ماں۔ آپ کا کوئی نعم البدل نہیں مگر میں اس کے بغیر مر جاؤں گا اہان کرب سے بولا۔ 

اگر تم نے یہ شادی کی تو میں خود کو مار دوں گی۔ ہانیہ نے ٹیبل سے بڑی چھری اٹھا کر اپنے گلے پر رکھی تھی۔ 


ماما پلیز۔۔ اہان آگے بڑھا تھا۔ ماما پلیز ایسے مت کریں۔ اہان تم اس لڑکی سے شادی نہیں کرو گے۔

 نتاشہ چھری گلے پر رکھ کر اہان سے بولی۔ 

رحمان ملک نے جلدی سے آگے بڑھ کر نتاشہ سے چھری چھینی تھی وہ جانتے تھے نتاشہ کے غصے کو۔

 اسی دوران چھری تو رحمان نے ان سے چھین لی مگر نتاشہ کا بی پی شوٹ کر گیا۔

 نتاشہ کو فورا سے ہاسپیٹل لانا پڑا۔

 وہ آئی سی یو کے باہر کھڑا نتاشہ کو دیکھ رہا تھا۔ اہان اپنی ضد چھوڑ دو۔ ورنہ اپنی ماں کو کھو دو گے۔

 رحمان ملک نے اسے پکارا۔ 

یہ ضد نہیں ہے پاپا وہ میری زندگی ہے ۔۔

اگر میں نے اسے چھوڑ دیا تو میں مر جاؤں گا پاپا۔ 

اہان تم اتنے جذباتی کیوں ہو رہے ہو ایک لڑکی کو لے کر۔ 

وہ لڑکی نہیں میری زندگی ہے پاپا ۔۔

جب میں  اسے خود سے دور کرنے کا سوچتا ہوں تو میرا دل رکنے لگتا ہے۔۔

 جب میں سوچتا ہوں وہ کسی اور کی ہو جائے گی تو مجھے ایسا لگتا ہے میرے دل یہ کوئی ہتھوڑے سے ضربیں لگا رہا ہے۔۔

اہان ملک سرخ آنکھوں سے کہتا ہوا رحمان ملک کو خاموش چھوڑ کر چلا گیا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نتاشہ کے ہوش میں آنے کے بعد اہان ملک نتاشہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنا ماتھا نتاشہ  کے ہاتھ کی پشت  پر ٹکائے اس سے مخاطب ہوا۔

 ماما آپ نے جو کہا میں نے ہمیشہ وہی کیا۔

  ہمیشہ آپ کے ہر فیصلے کے آگے اپنا سر جھکایا 

 مگر آج مجھ سے میری  واحد خوشی  مت چھنیں۔

 ماما میں مر جاؤں گا اس لڑکی کے بغیر۔ 

 ماما میری زندگی سے اس لڑکی کو دور نہ کریں۔ ماما پلیز۔ 

 ماما میری پہلی اور آخری خواہش مان لیں۔ میں کبھی آپ کی کسی بات سے انکار نہیں کروں گا آپ جو کہیں گی وہی کروں گا میری زندگی کی واحد خوشی مت چھینیں۔ وہ منت بھرے انداز میں بول رہا تھا۔

 نتاشہ کے دل کو جکڑا تھا کسی نے انھیں اپنے ہاتھ کی پشت گیلی محسوس ہوئی وہ تڑپ اٹھیں۔

 اہان تم رو رہے ہو۔ انہوں نے اپنا ہاتھ چھڑایا۔  

اہان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کروہ  تڑپ اُٹھیں تھیں۔۔

 اہان۔۔۔ نتاشہ نے آنسووں سے اسے پکارا۔ 

 کمرے کے دروازے پر کھڑی ہانیہ نے یہ منظر دیکھا۔۔ نتاشہ کے چہرے پر اس نے نیم رضا مندی دیکھ لی تھی۔ وہ ممتا کے آگے ہار گئیں تھیں۔

  ہانیہ جلدی سے آگے بڑھی تا کہ اپنی بچی کچھی سیلف رِسپیکٹ کو بچا سکے۔ 

ہانیہ تم۔۔۔

 نتاشہ نے ہانیہ کو دیکھ کر نظریں شرمندگی سے پھیریں

 ہانیہ نے آگے بڑھ کر نتاشہ کے ہاتھ پکڑے۔۔

  پھوپھو اہان کی بات مان لیں پلیز۔ میرے لیے تو صرف اہان میرا دوست ہے میر ی محبت نہیں ۔۔

  مگر وہ لڑکی اہان کی زندگی ہے۔ ہانیہ نے اپنی انگوٹھی اتار کر نتاشہ کو دی اور بنا اہان سے نظریں ملائے وہاں سے چل دی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پاپا آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ نے مجھ سے پوچھے بنا ہاں بھی کر دی عمل دکھ اور کرب سے بولی۔ 

اسے فراز صاحب سے اس بات کی امید نہیں تھی۔

 بیٹا وہ لوگ بہت اچھے ہیں انہوں نے بہت مان سے تمھارا رشتہ مانگا ہے۔ 

لیکن پاپا میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ 

بیٹا تمھاری شادی نہیں کر رہے۔۔ بس منگنی کر رہے ہیں۔ 

وہ کرب سے مسکرائی تھی۔ 

اس کی آنھوں میں چھپا درد فراز صاحب نے دیکھ لیا تھا. 

عمل ساری دنیا داور کی طرح نہیں ہوتی۔۔

 بہت اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں پلیز اس بات کو بھول جاؤ۔ 

 انہوں نے عمل کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے سمجھایا۔ پاپا مجھے ڈر لگتا ہے ایک دفعہ پھر میں لوگوں کا مذاق نہ بن جاؤں۔

 عمل کی بات پر وہ تڑپ اٹھے۔ 

نہیں عمل وہ لڑکا ایسا نہیں ہے ایک دفعہ میں دھوکا کھا گیا تھا اب کی دفعہ ایسا نہیں ہو گا۔ پتہ نہیں میری زندگی کتنی ہو میں مرنے سے پہلے تمھیں کسی مضبوط ہاتھوں میں سونپنا چاہتا ہوں۔ 

فراز صاحب کرب سے بولے۔ عمل تڑپ اٹھی تھی فراز صاحب کی بات سن کر۔ 

پلیز پاپا ایسے مت کہیں آپ جیسا کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی۔ عمل نے فراز صاحب کے فیصلے کے آگے اپنا سر جھکا لیا اور وہ اسے دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے چل دیے۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹی پنک شرارہ، ٹی پنک شارٹ شرٹ، دوپٹہ سائیڈ کندھے پر ڈالا ہوا تھا،بال کمر پرکھلے چھوڑے ہوے،چھوٹا سا مانگ ٹیکہ لگائے ہلکاسا سوفٹ میک اَپ کیے وہ بلکل کانچ کی گڑیا لگ رہی تھی۔ 

جب اسے سٹییج پر بٹھایا گیا تو بہت سے لوگ اس کا حسن دیکھ مبہوت  رہ گئے ۔ 

بہت خوبصورت لگ رہی ہو اپنے پاس بیٹھے انسان کی آواز سن کر وہ چونکی تھی۔ 

اور نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

 اہان۔۔۔ اس کے لبوں نے حرکت کی اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ 

اہان نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔

 تمھیں میرے جذبوں پر یقین آیا میں تم سے فلرٹ نہیں کر رہا تھا۔ پوری ایمانداری سے تمھاری طرف بڑھا ہوں میں تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گا۔۔

 کوئی کچھ بھی کہے میں صرف تم پر یقین کروں گا میرے لیے صرف تمھاری ذات اہم ہے میں تم پر خود سے بڑھ کر اعتبار کرتا ہوں عمل۔

 تم نے کہا تھا بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ میں مر تو سکتا ہوں مگر تمہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ 

وہ عمل کا ہاتھ نرمی سے دباتے اس کے وسوسے دور کرنے لگا جو شاید عمل کو اسے لے کر تھے۔۔

 اہان نے کہہ کر عمل کی آنکھوں میں دیکھا۔ 

 عمل نے مسکرا کر دیکھا تھا اہان ملک کو اور نظریں جھکا کر اس کی باتوں پر اپنے یقین کی مہر ثبت کر گئی۔ 

اہان اس کا مسکرانا اور جھکی نظریں دیکھ کر پاگل ہوا تھا۔ 

عمل ویسے تمھاری آنکھوں کا کلر اصل میں ایسا ہے۔ اس نے اس کی آنکھوں کو دیکھ کر کہا۔

آپ کو کیا لگتا ہے عمل نے سوال کیا۔ 

مجھے وہ مسکرایا۔ اتنی خوبصورت آنکھیں صرف میری عمل کی ہو سکتی ہیں ۔۔

جتنی سادہ تم ہو۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں تم یہ بناوٹی چیزیں استعمال نہیں کر سکتی۔ 

وہ یقین اور اعتماد سے بولا۔

 پھر پوچھا کیوں؟ اگر میں نے لینز لگائے ہوئے تو آپ منگنی توڑدیں گے۔ 

عمل آنکھوں میں شرارت لیے بولی۔ عمل بے شک تمھاری آنکھوں نے مجھے تمھاری طرف متوجہ کیا تھا۔

 مگر میں تمھاری روح سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اہان کی آنکھوں میں جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ 

عمل زیادہ دیر تک اہان کی آنکھوں میں نہ دیکھ سکی اور دل زوروں سے دھڑکا تھا۔ وہ اہان کی ایک ایک بات پر سچے دل سے ایمان لے آئی تھی۔ 

کچھ بولو وہ اسے نظریں جھکائے دیکھ کر بولا۔ 

پورے خاندان میں صرف ہم دو کزنز کی ہی آنکھیں بلیو ہیں۔ 

ایک میری اور دوسری داور کی۔

 وہ روانی میں اسے بتا کر لب دانتوں تلے دبا گئی۔

  داور کون؟ اہان نے پوچھا۔ وہ میرا کزن۔ تایا کا بیٹا۔ عمل نے بتایا۔ 

تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں تمھاری آنکھیں زیادہ  خوبصورت ہیں۔

 بلکہ تمھارے کزن سے ہی نہیں پوری دنیا میں سب سے خوبصورت آنکھیں تمھاری ہیں۔۔۔ 

 وہ محبت پاش نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔ 

عمل کا دل اہان کی باتوں سے عجیب  لے  پہ  دھڑک رہا تھا۔ اور چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ 

اہان اسے شرماتا دیکھ کر طمانیت سے مسکرایا اور لمبا سانس لے کر خدا کا شکر ادا کیا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اہان ملک نے اپنی باتوں سے ہی نہیں اپنے عمل سے بھی ثابت کر دیا تھاکہ وہ عمل کو بے انتہا چاہتا ہے۔

 اہان ملک نے فراز صاحب کا بھی بیٹا بن کر دکھایا تھا وہ بنا کہے ان کا ہر کام کر دیتا۔ عمل کو تو وہ ایسے رکھتا جیسے وہ کانچ کی گڑیا ہو۔ دو تین ماہ میں ہی اہان ملک کی ضد پر وہ عمل اہان بن چکی تھی۔۔

 اہان کے پر زور اصرار اور منت سماجت پر فراز صاحب نکاح کے لیے مان گئے تھے..

  مگر رخصتی انہوں نے عمل کی پڑھائی کے بعد رکھی تھی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ نکاح کے بعد عمل کو پہلی دفعہ ڈنر پر لے کر جا رہا تھا۔ آج عمل پوار دن یونیورسٹی میں بھی داور کو سوچتی رہی تھی۔

 ابھی بھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ وہ کیوں آیا ہے۔

  وہ اہان ملک کو اپنا پاسٹ بتانا چاہتی تھی۔۔

 مگر اہان ملک کو کھونے سے ڈرتی تھی۔۔

  اگر اہان ملک نے بھی لوگوں کی طرح اسے قصور وار ٹھہرایا۔۔

   اس کے کردار پر انگلی اٹھائی تو وہ جیتے جی مر جائے گی۔ وہ دل و جان سے اہان ملک کی ہو چکی تھی۔ 

اہان ملک کو کھونے کا سوچ کر ہی اس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپنے لگتا۔ 

اہان ملک اس کو خاموش بیٹھا دیکھ کر اور کچھ سوچتا دیکھ کر پریشان ہوا۔ 

کیا ہوا ڈیئروائفی؟ نکاح کے بعد میں تمھارے چہرے پر خوبصورت رنگ دیکھنا چاہتا تھا۔ 

مگر تم میری موجودگی میں کیا سوچ رہی ہو۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے بولا۔

 تم جانتی ہو نا مجھے بلکل پسند نہیں تم میرے پہلو میں ہوتے ہوئے میرے علاوہ کچھ اور سوچو۔ 

عمل اپنی سوچوں کو جھٹکتے ہوئے مسکرائی۔ 

دل ہی دل مین خدا کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اہان ملک میرا ہو چکا ہے۔ اب میرے ڈپارٹمنٹ کی لڑکیاں جو آپ کو دیکھ کر آہیں بھرتی ہیں ۔۔

آپ کا نکاح کا سن کر مر ہی نہ جائیں کہیں۔ عمل ، اہان ملک کو شرارتی انداز میں دیکھتے ہوئے بولی۔ 

وہ تو میں پہلے بھی تمھارا ہی تھا۔

 نکاح تو میں نے تمھیں اپنا بنانے کے لیے کیا ہے۔ 

 تا کہ پورے حق سے تمھیں دیکھ سکوں تمھیں چھو سکوں وہ محبت سے مسکریا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہان ملک اسے یونیورسٹی چھوڑنے آیا تھا۔ 

عمل اب نیورسٹی کے آ ف ہونے پر اہان ملک کا ویٹ کر رہی تھی گراؤنڈ ایریا میں۔ 

اسے اسد اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا بلکہ اسد ہی نہیں اس کا پورا ٹولہ اس کے ساتھ تھا۔ 

اسد نے عمل کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر جیب سے انگھوٹھی نکال کر اس کے سامنے پیش کی۔

 تمام ارد گرد کے سٹوڈنٹس تالیاں بجانے لگے وہ ہوتفوں کی طرح اسد کو دیکھ رہی تھی۔

 وہ تو صرف اسے کلاس میٹ سمجھ کر چند گھڑی بات کر لیتی تھی۔۔

  وہ کیا سمجھا تھا ۔۔اس کے نکاح کا بھی صرف اس کی عزیز دوستوں کو ہی پتہ تھا۔ 

عمل نے حیرانگی سے اسے دیکھا وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اسے اہان ملک اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ 

عمل پریشان ہوئی تھی اہان ملک کو دیکھ کر۔۔

 بلکہ  ڈر گئی تھی اہان ملک کو دیکھ کر۔ 

اہان ملک اس کی طرف بڑھا اور مسکراتا ہوا اسے دیکھنے لگا اور نرمی سے اس کی آنکھوں کو پوری یونیورسٹی کے سامنے باری باری اپنے ہونٹوں سے چھوا۔ 

اسد کا رنگ لال سرخ ہوا تھا۔ وہ ایک دم اٹھا تھا۔ کون ہو تم اور عمل کو کس حق سے چھو رہے ہو۔ 

اسد لال بھبوکا  چہرہ لیے آہان ملک سے پوچھنے لگا۔ اہان ملک مسکرایا تھا اس کی بات پر ۔۔

عمل حیرانگی سے اہان ملک کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر بلکل غصہ نہیں تھا۔ 

عمل تم یہ گاڑی کی چابی پکڑو اور گاڑی میں جا کر بیٹھو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں اس نے نرمی سے عمل کو کہا۔ 

لیکن اہان عمل ہچکچائی اسے کچھ انہونی کا احساس ہوا۔ عمل میں کہہ رہا ہوں ناں تم جاؤ میں کچھ نہیں کروں گا۔ 

صرف بات کر کے آتا ہوں۔ پلیز اب کی بار اہان ملک نے عمل کو التجائیہ انداز میں کہا۔ 

عمل خاموشی سے اہان ملک کی بات مانتے ہوئے وہاں سے چل دی۔ 

عمل کے جانے کے بعد اہان ملک نے اپنا کوٹ اتار کر یونیورسٹی کے گراؤنڈ ایریا میں زمین پر پھینکا تھا۔

 اور اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اپنی شرٹ کا اوپر والا بٹن کھول کر اپنے بازو کے کف کھول کر اسے اوپر فولڈ کرنے لگا۔

  اسد حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اب میں تمھیں بتاتا ہون کس حق سے اسے چھو رہا تھا۔ اس نے اسد کا گریبان بکڑ کر زور دار مُکا اس کے منہ پر مارا۔۔

  اسد اس کے مُکے سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ اہان ملک نے پے در پے مُکے مار کر اسے بے حال کر دیا۔ 

 اس کے کچھ دوست آگے بڑھے تھے۔

 مگر اہان کا ایک مُکا ہی کھا کر وہا ں سے بھاگ گئے

  اہان ملک نے اب اسے لاتوں سے دھنک کر رکھ دیا بہت سے سٹوڈنٹس نے اگے بڑھ کر اہان ملک سے اسد کو جھڑایا۔ 

  عمل اہان ملک کی ہے آج کے بعد کسی نے اس کے بارے میں سوچا بھی تو اہان ملک اسے زیرِ زمین دفن کر دے گا۔

اہان ملک یہ کہتا ہوا اپنے بٹن بند کیے بازو ٹھیک کیے اپنی ٹائی درست کی اور اپنا کوٹ جھاڑ کر پہنتا ہوا اپنے بالوں کو ہاتھوں سے درست کرتا ہوا گاڑی کی طرف چل پڑا ۔۔جہاں عمل اس کا انتظار کر رہی تھی۔ 

عمل اسے بیٹھتا دیکھ کر ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھنے لگی اتنی دیر کیوں ہوئی وہ کیا کہ رہا تھا۔ 

کچھ نہیں بس اسے پیار سے سمجھا رہا تھا کہ عمل میری ہے اس کے بارے میں آئیندہ کے بعد ایسا ویسا مت سوچنا۔ وہ بتاتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔ 

عمل مشکوک نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ ایسے کیا دیکھ رہی ہو اب تمھیں کیا میں سڑک چھاپ غنڈہ لگتا ہوں۔۔یا فلموں کا ہیرو۔جو میں تمھاری خاطر  مار مار کر ان بھرکس نکال دوں گا۔ میں نے بس سمجھایا ہے وہ بھی بڑے پیا ر سے۔ 

آئیندہ وہ لڑکا تو کیا کوئی بھی تمھارے بارے میں ایسا نہیں سوچے گا اہان ملک پیار سے اس کا ہاتھ دباتا ہوا بولا۔ 

آپ کو مجھ پر غصہ نہیں آیا۔ عمل نے اپنے دل کی بات پوچھی۔

 اہان ملک مسکرایا۔ تمھارا کیا قصور تھا۔اس میں تم اتنی خوبصورت ہو کوئی بھی تمھارے بارے میں سوچ سکتا ہے مگر اب نہیں سوچے گا۔۔ اہان نے مسکراکر عمل کو مطمئین کیا۔ 

ویسے مجھے تمھاری آنکھوں میں ڈر اچھا نہیں لگا۔ آئیندہ  مجھے دیکھ کر ڈرنا مت۔ میں تم پر خود سے زیادہ یقین کرتا ہوں اہان نے کہہ کر عمل کے تمام اندیشے دور کر دیے۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل جیسےہی گھر پہنچی تھی کہ اس کی دوستوں کی کالز آنے لگی۔۔

 اس نے اٹینڈکی تو انہوں نے اسے بتایا کہ کیسے اہان نے اسد اس کے دوستوں کو دھنک کر رکھ دیا تھا۔ وہ اہان ملک کو ہیرو اور پتا نہیں کیا کیا کہہ رہیں تھیں۔ 

 پورے ڈپارٹمنٹ کی لڑکیاں پاگل ہو رہی تھیں اہان ملک کے لیےمگر عمل کو بلکل اچھا نہیں لگا تھا۔۔

  اہان ملک کا اس طرح لڑنا۔ 

 بلکہ اس کے سامنے کتنا معصوم بن رہا تھا وہ غصے سے بیڈ پر لیٹ کر اہان ملک کو سوچ رہی تھی۔

 اہان ملک کی کال پر عمل نے غصے سے اس کا فون کاٹا۔ 

اہان اسے کافی دیر تک فون کرتا رہا عمل سائلنٹ پر لگا کر غصے سے سو گئی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 صبح وہ یونیوسٹی جانے کے لیے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔

 اہان ملک اپنی گاڑی سے اترتا ہو مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔ 

 عمل کو اس کی مسکراہٹ زہر لگی جو ہر ٹائم اسے دیکھ کر مسکراتا تھا۔ اس سے پہلے وہ گاڑی کا دروازہ کھولتی اہان ملک نے اپنے ہاتھ سے گاڑی کا دروازہ بند کرتے عمل کو مسکرا کر دیکھا۔ 

چلو میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھو اہان مسکراتے ہوئے بولا۔ 

مجھے آپ کے ساتھ نہین بیٹھنا عمل غصے سے بولی۔ ٹھیک ہے پھر میں تمھیں گود میں اٹھا کر بیٹھا دیتا ہوں ۔۔

عمل کو غصہ آ یا تھا اس کی بات پر آپ نے مجھ سے نکاح اسی لیے کیا ہے کہ آپ اپنی غنڈہ گردی دکھا سکیں اور مجھ پر ایسے حق جتا سکیں۔ 

عمل کی بات پر اہان نے لب بھینچے تھے۔ گاڑی میں بیٹھو۔ 

گاڑی میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں عمل نے غصے سے رخ موڑا تھا۔

 اہان نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھایا  اور خود لب بھینچتا ہوا اپنی طرف کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔ عمل نے غصے ڈیش بورڈ پر اپنا ہاتھ دو تین دفعہ مارا تھا۔ اور غصے سے سیٹ بیلٹ  باندھی۔ 

کس بات کا غصہ دیکھا رہی ہو۔ اسے ایسےہی جانے دیتا جو تمھیں پرپوز کر رہا تھا۔ آگ لگ گئی تھی وہ منظر دیکھ کر مجھے ۔۔

پھر بھی تمھیں بُرا لگا ہے تو آئی ایم سوری۔۔ مگر آئیندہ کسی نے تمھیں نظر اٹھا کر بھی دیکھا تو ایسے ہی پیش آؤں گا۔ اہان نے لب بھینچ کر اپنی بات مکمل کی۔ 

اچھا آپ ساری دنیا کو ایسے مارا کریں گے جو مجھ سے کچھ کہے گا۔ 

ہاں ماروں گا کیونکہ تم صرف میری ہو۔ اہان سپاٹ انداز میں بولا۔ 

آپ کے غصے کو دیکھ کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔ آپ نے جو غنڈہ موالی والی حرکت کی ہے پوری یونیورسٹی میں میرے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔۔

 پچھتا رہی ہوں آپ سے نکاح کر کے۔

 اس سے تو اچھا تھا میں آپ کو چھوڑ کر اس اسد کا پرپوزل قبول کر لیتی عمل غصے سے بولتی ہوئ وہ کہہ گئی جو وہ  سپنے  میں بھی سوچ نہیں سکتی تھی۔ مگر غصے سے اس کے منہ سے نکل گیا۔ اسے ایک دم سے احساس ہوا تھا۔ 

 اہان نے گاڑی جھٹکے سے روکی تھی اگر عمل نے سیٹ بیلٹ نہ باندھی ہوتی ہو یقینا عمل کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتا۔ اہان نے عمل کی گردن پکڑ ی تھی آئندہ  تمھارے منہ سے میں نے کسی غیر مرد کا نام بھی سنا ناں تمھاری سانسیں روک  دوں  گا میں۔ تم صرف میری ہو۔ اگر آئیندہ ایسی فضول بات کی تو زبان گدی سے کھینچ لوں گا ۔۔

 اہان کی گرفت کافی سخت تھی۔ عمل کو سانس لینے میں دقت ہوئ۔۔

 اہان  غصے سے اسے چھوڑ کے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے  ہوے اپنے اشتعال پر قابو پانے لگا۔ عمل گہرے گہرے سانس لے کر اپنا سانس بحال کرنے لگی ۔۔عمل اہان کے غصے سے کافی ڈر گیئ تھی ۔۔اب وہ ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی اور بے آواز رو رہی تھی ۔۔

 آہان نے گاڑی سٹارٹ کی اور ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا یونیورسٹی پہنچا اور عمل کے اترنے پر اس کی طرف بنا دیکھے گاڑی بھگا کر لے گیا ۔۔

 **********************

#Merastamga 

#noorasif 

Episode3


عمل اہان کے رد عمل سے بہت ڈر گئی تھی بلکہ اسے یقین نہیں آ رہا تھا اہان نے اس سے ایسے بات کی تھی۔ اس لیے وہ بنا کوئی پیریڈ لیے کیب کروا کر گھر چلی گئی۔ 

آج تیسرا دن تھا نہ اہان نے اسے کال کی تھی اور نہ عمل نے اسے کال کی اور نہ ہی اہان گھر آیا تھا۔ 

عمل رات کے پہر سفید ٹاٹٹی پہن کر اوندھے منہ بستر پر لیٹی رو رہی تھی۔ 

 اہان آپ تو کہتے تھے کہ میری ناراضگی آپ کی جان نکال دیتی ہے۔ آپ تو ایک پل کی ناراضگی برداشت نہیں کرتے تھے میری۔۔

  آپ نے مجھ سے  کتنابُرا سلوک کیا۔ مگر معافی تو دور ایک میسج بھی نہیں کیا۔ میں کبھی بھی آپ سے بات نہیں کروں گی۔ 

وہ اوندھے منہ لیٹے روتے ہوئے خود سے باتیں کر رہی تھی۔ اہان کی ناراضگی اور بے اعتنائی اس کی جان لے رہی تھی وہ کہاں عادی تھی اہان کے غصے اور ناراضگی کی۔ ۔۔

کوئی کھڑکی سے کودا تھا۔۔

 اس کی باتیں سن کر اس کے لب مسکرائے تھے۔ 

کھٹکے کی آواز پر عمل ایک دم سے بیڈ سے اُٹھی۔ اندھیرے میں کوئی منہ پر کپڑا باندھے کالی سیاہ آنکھیں لیے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔

 کک کون ہو،،،، تم،،، عمل اسےاپنی طرف بڑھتا دیکھ کر پیچھے کی طرف ہوئی اور دیوار سے جا لگی۔ 

اب وہ خوف سے اسے دیکھ رہی تھی اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا نقاب ہٹانا چاہا اس نے عمل کو ایسا کرنے سے روک دیا۔۔

 اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے۔ 

اہان،،،،،عمل کے منہ سے نکلا۔ اہان نے سوئچ بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی اور اپنا رومال منہ سے ہٹایا۔ تم نے مجھے پہچان لیا اہان مسکرایا۔ آپ کے لمس کو پہچاننے کے لیے مجھے آپ کو دیکھنے کی ضرورت نہیں وہ اس کی بانہوں میں کھڑی نظریں جھکائے ہوئے بولی۔ 

اہان اندر تک سرشار ہوا تھا اس کی بات سن کر۔ 

اچانک ہی وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اہان پریشان ہوا تھا اس کے رونے پر اور گھٹنوں کے بل جھک کر کانوں کو ہاتھ لگا کر معافی مانگنے لگا۔ 

عمل روتے روتے کھلکھلا کر ہنس پڑی اہان کے دل کو ڈھیروں سکون ہوا۔ وہ اسے ایسے روتے میں کھلکھلاتے ہوئے بہت معصوم لگی۔ دھوپ چھاؤں کا منظر لگا جیسے اچانک کالی گھٹائیں چھائے بارش برسنے لگ جائے۔ 

وہ مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا اور اسے بانہوں میں بھرنے لگاکہ  عمل پیچھے ہوئی تھی۔۔

 اہان نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔

  اہان میں ایسے نہیں مانوں گی آپ کو اٹھک بیٹھک کرنی پڑے گی عمل شرارتی انداز میں منہ بسورتے ہوئے بولی۔ 

شرم کرو عمل مجازی خدا ہوں تمھارا وہ عمل کو شرم دلاتا ہوا بولا۔ 

کسی نے مجھے کہا تھا کہ وہ شادی کے بعد میری غلامی کرے گا ۔۔میری ہر بات مانے گا۔ 

ہاں تو شادی کے بعد کہا تھا رخصتی سے پہلے نہیں۔ اہان نے اسے دیکھ کر آنکھ ونک کی۔

 ٹھیک ہے پھر میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔ عمل بچوں کی طرح منہ بسورتے ہوئے بولی۔

  اہان گہرا سانس بھرتا ہوا کان پکڑے اٹھک بیٹھک کرنے لگا۔ دس تک گنتی گنتے ہوئے اہان نے گھور کر عمل کو دیکھا۔۔

   عمل رحم کرو مجھے عادت نہیں ہے۔ اہان چہرے پر مسکینیت طاری کرتے ہوئے بولا۔ عمل نے جھک کر اس کے کانوں سے ہاتھ  اٹھائے تھے اور اس کی چوڑی ہتھیلی پر اپنا مومی ہاتھ رکھا اہان مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر اٹھا  اور اپنے سینے سے لگا یا۔

  عمل دوبارہ سے کبھی ایسی بات مت کرنا وہ اسے پیار سے سمجھاتا ہوا بولا اس نے اہان کی بات پر اس کے سینے سے لگے اثبات میں سر ہلا یا تھا۔ 

اس رات اہان اور عمل نے بہت اچھاٹائم سپینڈ کیا تھا۔ دونوں ہنستے رہے ایک دوسرے سے ڈھیر ساری باتیں کی وہ ایک یاد گار رات عمل کے لیے ثابت ہوئی تھی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  یہ کیا کہ رہے ہیں پاپا آپ؟ 

  عمل نے حیرنگی سے فراز صاحب کو دیکھا جو اسے اس کی رخصتی کے بارے میں بتانے آئے تھے۔ 

پاپا آپ نے تو کہا تھا کہ میری پڑھائی مکمل ہونے کے بعد آپ رخصتی کریں گے۔ 

ہاں کہا تھا مگر اہان چاہتا ہے رخصتی ہو جائے اور تمھاری پڑھائی رخصتی کے بعد بھی تم جاری رکھو گی۔ اور مجھے اس کی بات صحیح لگی ہے۔۔

 نکاح کے بعد رخصتی میں اتنا ٹائم نہیں رکھنا چاہیے۔۔ نکاح کا مطلب ہی رخصتی ہے۔ ایسا کر کے ہم گناہ کا مرتکب ہو رہے ہیں ۔۔میاں بیوی کوایک دوسرے سے  دور رکھ کر۔۔ فراز صاحب نے اسے سمجھایا۔

  یہ سب آپ کو اہان نے کہا ہے۔ عمل نے دانت پیستے ہوئے پوچھا۔ ہاں اسی نے کہا ہے بہت سمجھدار بچہ ہے۔ 

 فراز سر ہلاتے ہوئے اس کی تعریف کر رہے تھے۔ جی بہت سمجھدار بچہ ہے ۔۔دوسروں کو شیشے میں اتارنے کا فن خوب آتا ہے اسے۔ عمل غصے سے کہتے ہوئے وہاں سے چل دی۔ فراز صاحب نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہان آفس میں کام کر رہا تھا کہ اس کا فون بجا۔ فون پر عمل کا نام جگمگاتا دیکھ کر اہان کے لب مسکرائے۔ اس نے فون اٹھایا ہی تھا کہ عمل کی غصے سے بھری آواز گونجی۔ 

سمجھتے کیا ہیں مسٹر اہان آپ خود کو۔ آپ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے سب کو شیشے میں اُتار لیں گے مکر عمل اُن لوگوں میں سے نہیں ہے۔ 

ارے ارے ڈارلنگ سانس تو لو۔ پہلے مجھ نا چیز کا قصور تو بتا دو پھر چاہے جتنا مرضی فائر کرتی رہنا۔ اہان نے مسکراتے ہوئے عمل سے کہا تو عمل کا پارہ مزید ہائی ہوا۔۔

رخصتی کی بات آپ نے کی ہے پاپا سے۔ اہان آپ نے کہاتھا کہ میری سٹڈی کمپلیٹ ہونے تک کا ویٹ کریں گے۔ 

عمل نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔ 

کہا تھاڈئیر وائف مگر وہ کیا ہے ناں۔۔ کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ اہان کا شرارت بھرا لہجہ عمل کو مزید آگ لگا گیا۔ 

اہان اگر رخصتی ہوئی نہ تو میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔ 

ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے میرے تمام دوست اپنی بیویوں کے بولنے پر بہت تنگ ہیں۔۔

 بقول ان کے ساری ساری رات ان کا ٹیپ چلتا ہے اس معاملے میں میں خوش قسمت ہوں گا کہ میری بیوی میری سنا کرے گی۔ اہان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

 میں بہت بُری پیش آؤں گی شادی کے بعد آپ کا جینا حرام کردوں گی۔۔ آپ کا بُرا حال کردوں گی۔ عمل نے ایک اور دھمکی دی۔ 

میں انتظار کروں گا میری جنگلی بلی۔ اہان نے تحمل سے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا تو عمل نے غصے سے فون بند کر دیا۔ اہان نے قہقہہ لگایا تھا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل اپنی شادی کا جو ڑا لینے اہان کے ساتھ شاپنگ پر جانے کے لیے اس کا گیٹ پر انتظار کر رہی تھی۔ جسے لیٹ ہوگیا تھا اسے داور کی گاڑی آتی دکھائی دی۔ داور گاڑی سے اترا تھا۔ عمل اسے دیکھ کر اندر جانے لگی۔ 

میری بات سنو عمل۔ میں تم سے بات کرنے آیا ہوں ایک دفعہ میری بات سنو وہ التجابیۂ لہجے میں بولا۔

عمل نے خود پر ضبط کرتے ہوئے اس کی طرف رخ موڑا۔ بولو کیا کہنے آئے وہ تم۔ 

لیکن پلیز جلدی بات ختم کرو۔ 

اہان آنے والا ہو گا۔۔ میں نہں چاہتی اس کے سامنے کوئی تماشہ ہو۔ 

عمل تم مجھے معاف نہیں کرنا چاہتی مت کرو۔ 

مگر یہ شادی مت کرو عمل میں تمھیں کسی اور کا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔۔

 داور اپنے آنسوؤں پر ضبط کرتا ہوا بہت کرب سے بولا۔ تم نہیں دیکھ سکتے تو یہ تمھارا مسئلہ ہے میں کیا کروں۔ تمھاری خاطر میں اپنی خوشیوں کا گلہ گھونٹ دوں۔ اپنی زندگی اپنی محبت سے جدا ہو جاؤں۔ کیا بچوں جیسی باتیں کر رہے ہو۔ عمل اس پر طنزیہ ہنسی۔ 

عمل پلیز داور عمل کی طرف بڑھا۔ وہیں رُک جاؤداور۔ میری طرف مت بڑھنا۔ میں اہان ملک کی امانت ہوں۔ تمھیں کوئی حق نہیں مجھے نظر بھر کر بھی دیکھ سکو کجا کہ تم مجھے چھوؤ۔ عمل نے داور کو ہاتھ کے اشارے سے روک کر اس کے قدموں کو آگے بڑھنے سے روکا۔ اور خود دو قدم پیچھے ہوئی۔ 

عمل کتنی دور چلی گئی ہو تم مجھ سے۔ اب کی بار داور کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے تم ایسی تو نہ تھی۔ میں تمھارا سب سے اچھا دوست تھا۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ بھروسہ تم مجھ پر کرتی تھی۔ 

میری سب سے بڑی غلطی تھی تم پر بھروسہ کرنا۔ 

عمل کے کہنے پر داور کرب سے مسکرایا۔ یہ چار سال ہر پل تمھارے بارے میں سوچتا تھا۔ گرتا تھا مگر تمھارا چہرہ مجھے سنبھلنے میں مدد دیتا تھا۔ تمھاری یاد ہر پل میرے ساتھ رہتی تھی۔ آ ج میرے پاس سب کچھ ہے نام ہے پہچان ہے روپیہ پیسہ ہے مگر میری زندگی نہیں میرے ساتھ  ۔۔میں تو تہی دامن رہ گیا ۔۔میں تو عمل۔ 

داور دکھ سے بولا۔ 

داور مجھ پر ایک احسان کرو اگر تم مجھ سے واقعی میں محبت کرتے ہو تو چلے جاؤ میری زندگی سے۔ پلیز اگر اہان کو پتا چل گیا تو۔ اس کے دل میں زرہ برابر شک مین برداشت نہیں کر پاؤں گی۔ اسے کھو کر میں جی نہیں باؤں گی عمل داور کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔ 

داور بہتے آنسوؤں سے مسکرایا۔ 

مانگا بھی کیا مجھ سے میری زندگی۔ یہ تمھیں میرا سانس لیتا جسم نظر آ رہا ہے اس میں صرف سانسیں ہیں زندگی کی رمک نہیں۔۔

 اگر خود کی جان لینا حرام موت نہ ہوتا تو کب کا خود کو ختم کر چکا ہوتا۔ تم میرے آگے ہاتھ مت جوڑو میں تمھیں ایسے نہیں دیکھ سکتا۔ چلا جاؤں گا تمھاری زندگی سے۔ داور دکھ سے بولا۔ 

اسی دوران اہان ملک کی گاڑی ان دونوں کے سامنے آکر رکی داور نے رخ بدل کر اپنی آنکھیں بازو سے رگڑی تھیں۔ عمل نے خود کو کمپوز کیا تھا۔ 

اہان ملک مسکراتا ہوا عمل کے پاس آیا۔ 

کیاہوا ڈئیر وائف؟ اہان عمل کا پریشان چہرہ دیکھ کر بولا۔ کچھ نہیں آپ کا ویٹ کر رہی تھی آپ کو دیر ہو گئی تو پریشان ہو گئی تھی۔ عمل زبردستی مسکراتے ہوئے بولی۔ 

اوہ آئی ایم سوری جان! مجھے ایک ضروری کام تھا اس لیے تھوڑی دیر ہو گئی۔۔ تمھیں پریشان کیا شرمندہ ہوں اہان مسکراتے ہوئے اس سے بولا۔ 

عمل نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔۔

 ایسا ہی تھا اہان ملک ،،،چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس سے ہزار دفعہ سوری کرتا تھا۔ اسے ایسا رکھتا تھا کہ جیسے وہ کانچ کی گڑیا ہو۔ جیسے وہ کہیں کی شہزادی ہو اور وہ اس کا غلام۔ عمل آنکھوں میں آنسو لیے اہان کو دیکھ کر مسکرائی۔ 

اہان نے اپنی توجہ داور کی طرف کی جو اب اہان کی طرف رخ موڑ چکا تھا۔ اہان یہ داور ہیں میرے کزن۔ 

عمل کے تعارف کروانے پر اہان آگے بڑھ کر اس سے ملا۔ ہاں ایک دفعہ عمل نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ 

اس کی نیلی آنکھوں کو دیکھ کر اہان ملک کو یاد آیا تھا۔ 

جس پر داور مسکرایا تھا۔ اچھا میرا ذکر کیا عمل نے یقین نہیں آتا۔ 

داور کے کہنے پر عمل نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا۔ آپ رو رہے ہیں اہان ملک نے داور کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اچھنبے سے پوچھا۔ ہان آج کے دن میری محبت مر گئی۔ داور دکھ سے مسکراتے ہوئے بولا۔

 ہاں اہان وہ آج ہی کے دن ان کی وائف کی ڈیتھ ہو گئی تھی بہت محبت کرتے تھے۔ اسی لیے رو رہے ہیں عمل کو کچھ سمجھ نہ آیا تو جلدی سے جھوٹ بول گئی۔ 

غلط کہہ رہی ہیں عمل آپ۔ داور کے کہنے پر عمل کا سانس اوپر کا اوپر ہی رہ گیا۔ میں کرتا تھا نہیں کرتا ہوں۔ داور کرب سے بولا۔ 

اہان نے آگے بڑھ کر داور کو گلے لگایا۔ میں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں آپ پر کیا گزر رہی ہو گی۔ 

محبت روٹھ جائے یا پھر جدا ہو جائے انسان مر ہی جاتا ہے اہان نے عمل کو دیکھتے ہوئے جذب سے کہا۔ 

میں چلتا ہوں۔۔ داور یہ کہتا ہوا وہاں سے چل دیا۔ 

اہان نے مسکرا کر عمل کے ماتھے پر پیار کیا۔۔

 جو وائٹ ڈریس پہنے  نیٹ  کا دوپٹہ گلےمیں ڈالے سیدھا اہان کے دل میں اتر رہی تھی۔ بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ خود پر کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اب تو شادی کی رات کا انتظار ہے۔ اہان کے کہنے پر عمل کا چہرہ شرم سے گلنار ہوا تھا۔ اور نظریں خود بخود جھک گئی تھیں۔ 

اہان اسے بازوں کے حلقے میں لیے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل بوٹل گرین کلر کا غرارہ شرٹ پہنے دوپٹہ سر پر سیٹ کیے نازک سی ماتھا پٹی پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور اہان ملک واری صدقے جا رہا تھا عمل پر۔ 

آج عمل اور اہان ملک کی کمبائن مہندی کا فنکشن تھا۔ نتاشہ بار بار عمل اور اہان کا صدقہ اُتار رہی تھی دونوں کی جوڑی نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔ نتاشہ کا دل ڈر رہا تھا کہ کہیں اس کے بچوں کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ 

اہان کیا مسئلہ ہے آپ کو عمل اہان کو دیکھ کر چڑ کر بولی جو مسلسل اسے دیکھ رہا تھا۔ 

کیا مسئلہ ہے مجھے اہان نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ 

آپ سامنے نہیں دیکھ سکتے اہان آ پ کی گردن تھک جائے گی عمل غصہ ضبط کرتے ہوئے دبے لہجے میں بولی۔ جس پر اہان نے قہقہہ لگایا تھا۔ 

کیا کروں جانِ من اتنی خوبصورت لگ رہی ہو دل کر رہا ہے کھا جاؤں تمھیں۔ عمل نے جھرجھری لی تھی اہان آپ کے ارادے بہت خطر ناک ہیں میں رخصتی سے انکار ہی نہ کر دوں کہیں۔ عمل نے دھمکی دی۔ 

زبردستی اُٹھا کر لے جاؤں گا۔ اگر ایسی کوئی کوشش بھی کی جانِ من۔ اہان نے آنکھ وِنک کرتے ہوئے کہا۔ 

ہائے۔۔۔ مجھے تو کل رات کا انتظار ہے جب عمل تم میرے سامنے ہو گی۔ میرے کمرے میں میرے بیڈ پر میری بانہوں میں کیا حسین عالم ہو گا۔ اہان ملک بے باکی سے بولا۔ 

عمل لال سرخ ہوئی تھی اہان کی باتوں پر اور دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا عمل نے اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے غصے سے اپنا رُخ موڑا تھا۔ جس پر اہان مسکرا کر رہ گیا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہانیہ پاگل ہو رہی تھی آج عمل اور اہان کو دیکھ کر اہان کیسے اس پر اپنی جان نچھاور کر رہا تھا کیسے والہانہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ تو وہ اہان ملک تھا ہی نہیں جسے ہانیہ جانتی تھی۔ وہ تو عمل کا اہان تھا۔ جسے عمل کے آگے کچھ نظر ہی نہیں ااتا تھا۔ 

ہانیہ نے اپنے کمرے کی ہر چیز اتھل پتھل کر دی۔ کوئی چیز اپنی جگہ نہیں تھی۔ ہر طرف کانچ بکھرا پڑا تھا۔ اور ہانیہ پاگلون کی طرح چیخ رہی تھی۔ عمل میں تمھیں نہین چھوڑوں گی جان سے مار ڈالوں گی تمھیں۔ تم نے مجھ سے میرا اہان چھینا۔ 

 ہانیہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو غصے سے عمل کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ 

عمل مہندی کے فنکشن سے واپس گھر آنے کے بعد اہان ملک کی وارفتگیاں یاد کر کے شرم سے مسکرا رہی تھی۔ ہانیہ کالنگ پر حیران ہوتے ہوئے اس کی کال اٹینڈ گی ہی تھی کہ دروازہ ناک کر کے داور اندر داخل ہوا۔ داور تم۔ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو وہ حیران ہوئی۔ 

تم سے آخری دفعہ ملنے آیا ہوں داور سرخ آنکھوں سے بولا۔ 

اس سے پہلے وہ ہانیہ کا فون ڈسکنکٹ کرتی داور نے اس سے فون لے کر بیڈ پر اچھال دیا۔ 

کیا بد تمیزی ہے یہ داور؟ عمل چلائ ۔۔

کوئی بدتمیزی نہیں عمل۔

 آخری ملاقات ہے اس پر صرف مجھے ٹائم دے دو پھر پتہ نہیں کبھی ملاقات ہو نا ہو۔ تمھارا خوبصورت چہرہ جی بھر کر دیھنا چاہتا ہوں۔ داور تکلیف کے عالم میں بولا۔ داور تمھیں شرم آنی چاہیے اس طرح کی بات کرتے ہوئے۔ میں اہان ملک کی بیوی ہوں۔ 

مگر عمل تم نے ایک دفعہ بھی مجھ سے پوچھا میں تمھیں منگنی والے دن کیوں چھوڑ کر گیا تھا۔ کیونکہ تائی جان نے مجھ سے اس دن۔۔۔ 

بس کرو داور جانتی ہوں میں سب کچھ۔ 

عمل تم جانتی ہو پھر بھی تم مجھے قصور وار سمجھتی ہو داور حیرانگی سے بولا۔ 

ماما نے مجھے اور پاپا کو سب کچھ بتا دیا تھا جب لوگوں نے میرے کردار پر انگلیاں اُٹھائی تھیں تو انہوں نے رو دو کر ہم سے مافی مانگی تھی۔۔

مگر داور اس دن میرے دل کے اندر سے جو پھانس تھی نہ کہ تم مجھے کیوں چھوڑ کر گئے۔۔

  اس دن کے بعد مجھے سکون آ گیا تھا۔

 اس میں ماما کی غلطی نہیں تھی بلکہ ماماکا تو احسان تھا مجھ پر اور پاپا پر،، تمھارا اصل چہرہ ہمارے سامنے لے کر آئیں۔ ورنہ آگر تم  مجھے شادی کے بعد چھوڑ کر چلے جاتے تو۔ 

عمل داور نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا تھا۔ مت کرو ایسی باتیں مر جاؤں گا۔ 

عمل میری ایک ریکوسٹ ہے آخری۔ پلیز مان لو مجھے ایک دفعہ خود کو چھونے دو۔ میں تمھارا لمس اپنے ساتھ لے کرجانا چاہتا ہوں۔ 

داور کی بات پر عمل ہتھے سے اکھڑ گئی۔داور ہوش میں ہو۔ 

میرے قریب بھی آئے نہ تم۔ قسم سے خود کو آگ لگا دوں گی۔ مجھے چھونے کا حق صرف اہان ملک کو ہے۔ میں صرف اس کی ہون۔ خدا کے لیے چلے جاؤ۔ دفع ہو جاؤ میری زندگی سے  تمھیں سمجھ کیوں نہیں آتا۔ 

عمل حلق کے بل چلاتی ہوئی غصے سے کمرے سے نکل گئی اور داور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر روتا ہوا اپنی محبت کا ماتم کرنے لگا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریڈ کلر کی میکسی پہنے، جھومر لگائے، چھوٹا سا مانگ ٹیکہ لگئے، آنکھوں میں گولڈن گلِٹر لگائے،  ڈارک ریڈ لِپ سٹک لگائے عمل بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔ 

وہ دھڑکتے دل کے ساتھ برائیڈل روم میں بیٹھی بارات کا انتظار کر رہی تھی۔ ہونٹوں پر شرمیلی مسکراہٹ تھی۔ اہان کی باتیں، اہان کا والہانہ پن یاد کر کے عمل کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ 

مگر کچھ ہی دیر میں عمل کے چہرے پر اہان کی محبت کے رنگ نہیں بلکہ گھبراہٹ اور پریشانی تھی۔ کیونکہ بارات کافی لیٹ ہو چکی تھی۔ وہ اہان کو کتنی دفعہ ٹرائی کر چکی تھی مگر اہان کا نمبر بند تھا۔ ان کے گھر سے کوئی بھی ان کا فون نہیں اُٹھا رہا تھا۔ 

فراز صاحب ایک دفعہ آکر ڈیڈبائی آنکھوں سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر جا چکے تھے۔ 

بہت سی عورتھیں اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھنے کے لیے آ رہی تھیں اور اسے صبر اور حوصلہ کرنے کی ترغیب دے رہیں تھیں۔ 

آج پھر میرا تماشہ بننے والا ہے آج پھر پوری دنیا میرے کردار پر انگلی اُٹھائے گی

۔عمل نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوچا اور اہان اس کو بھی کھو دوں گی جو میری زندگی ہے۔ کیسے رہے گی آپ کی عمل آپ کے بنا۔ میں تو بھول چکی ہوں آپ کے بنا جینا۔ عمل دل ہی دل میں اہان سے شکوہ کر رہی تھی۔ 

عمل اپنی جگہ سے اُٹھی تھی اس سے پہلے وہ گرتی اس نے جلدی سے دیوار کا سہارا لیا۔ اسی دوران اس کی کزنیں بھاگتی ہوئی آئیں کہ بارات آ گئی ہے اور وہ یہ کہہ کر واپس باہر بھاگ گئیں۔ 

عمل کے آنسو رخسار پر بہنے لگے تھے عمل اپنے آپ کو کمپوز کرتی ہوئے دوبارہ سے اپنی جگہ بیٹھی۔ میں بھی ناں کیا کیا سوچنے لگی تھی۔ اہان تھوڑی ناں میرے ساتھ ایسا کریں گے کتنا پیار کرتے ہیں مجھ سے میری تکلیف پر وہ تڑپ کر رہ جاتے ہیں عمل میٹھی مسکان لیے خود کو ڈپٹ رہی تھی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد عمل کو اسٹیج پر اہان ملک کے ساتھ لا کر بیٹھایا گیا۔ 

عمل ہونٹوں پر شرمیلی مسکراہٹ لیے اہان کے پہلو میں بیٹھی تھی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد حیران ہوئی یہ اہان کو کیا ہوا ہے۔۔ ابھی تک مجھ سے کوئی بات نہیں کی عمل نے گردن اُٹھا کر اہان کی طرف رخ کیا۔ جو سنجیدہ اور سپاٹ انداز میں بیٹھا تھا۔ عمل اس کے تاثرات دیکھ کر حیران ہوئی۔ 

لیکن اپنے دل کو سمجھایا مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ 

کتنا ڈرا رہے تھے کچھ دنوں سے سہاگ رات کی باتیں کر کر کے۔ ابھی بھی مجھے ڈرا رہے ہیں۔ 

کوئی بات نہیں اہان ،،کمرے میں جانے دیں مجھے۔ آپ کی خبر لوں گی بلکل پاس نہیں آنے دوں گی آپ کو۔ عمل دل ہی دل میں اہان سے مخاطب ہوئی۔ 

وئیٹر کھانا لے کر اسٹیج کی طرف آیا تو اہان نے اسے منع کر دیا کہ کوئی ضرورت نہیں واپس لے جائے۔ عمل نے پھر سے اہان کو دیکھا اس نے تو آج دوپہر سے کھانا نہیں کھایاتھا ابھی اسے کتنی بھوک لگی تھی۔ اگر اہان کو بھوک نہیں ہے تو مجھ سے تو پوچھ لیتے۔ عمل اب روہانسی ہو رہی تھی اہان کا رویہ دیکھ کر۔۔۔

تھوڑی دیر بعد عمل کی کزنیں دودھ پلائی کی رسم کرنے آئیں تو انہوں نے ایک لاکھ کی ڈیمانڈ کی۔۔

 اہان نے پانچ لاکھ کا چیک کاٹ کر ان کی طرف پھینکا تھا اور ساتھ ہی دودھ کا گلاس واپس لے جانے کو کہا۔۔ اہان کا رویہ کافی تضحکہ آمیز تھا۔ اہان کے رویے پر عمل کا چہرہ بھی سرخ ہوا تھا۔ اس کی کزنیں خاموشی سے وہاں سے چلی گئیں۔ 

 نتاشہ سٹیج کی طرف آئیں اہان یہ کیا بدتمیزی ہے۔ کنٹرول یور سیلف۔ انہوں نے دبے لہجے میں اہان کو سرزنش کی۔ او،،، پلیز ماما بند کروائیں یہ سب کچھ۔۔۔ بیزار ہو رہا ہوں میں رخصتی کروائیں اب۔ اہان سرد اور سپاٹ لہجے میں بولا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رخصتی کے بعد اہان عمل کو لے کر گھر نہیں گیا تھا بلکہ کافی دیر سے وہ سپاٹ چہرہ لیے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ 

عمل کا بھوک سے بُرا حال تھا۔ اور رہی سہی کسر اہان کے رویے نے پوری کر دی تھی۔ اس نے ہمت کر کے اہان سے پوچھا۔ اہان کہاں لےکر جا رہے ہیں آپ مجھے۔ 

جنگل نہیں لے کر جا رہا گھر ہی لے کر جاؤں گا۔

 اب مجھے سکون سے ڈرائیونگ کرنے دو۔ اہان نے سرد انداز میں بات ختم کی۔ 

عمل لب بھینچ کر رہ گئی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کافی دیر سے کمرے میں بیٹھی اہان کا انتظار کر رہی تھی کمر  تختہ ہو چکی تھی عمل کی اہان کا انتظار کرتے کرتے۔۔۔ وہ پتہ نہیں اسے یہاں بیٹھا کر کہاں چلا گیا تھا۔ عمل نے کمرے کو دیکھا تو ایک دفعہ پھر سے رونا آیا۔ بہت سادہ کمرہ تھا۔ اہان نے ایک پھول تک نہیں رکھا تھا کمرے میں۔ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی وہ سنبھل کر بیٹھی تھی۔ 

اہان چلتا ہوا اس کے قریب آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔عمل کی جھکی پلکیں اہان کی نظروں کی حدت سے لرزنے لگی تھیں۔ اہان نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اوپر کیا۔ بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ عمل نے نظریں اُٹھا کر اہان کو دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔ اتنی خوبصورت لگ رہی ہو کہ جی کر رہا ہے تمھارے خوبصورت چہرے پر تھوک دوں۔ اہان کی بات پر عمل نے حیرانگی سے اہان کو دیکھا۔ 

چٹاخ،،،تھپڑ اتنا شدید تھا کہ عمل کو اپنے کان سائیں سائیں ہوتے محسوس ہوئے۔ ہونٹ کا کنارہ پھٹ چکا تھا۔ 

وہ آنکھوں میں ڈر اور خوف لیے اہان کو دیکھ رہی تھی جس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔

 اہان،،، اس نے روتے ہوئے بے یقینی سے اہان کو پکارا۔

  مت نام لو میرا اپنی گندی زبان سے۔ 

 یہ کہتے ہوئے اہان نے اسے اس کی کلائی سے پکڑ کر اٹھایا اور بیڈ سے نیچے دھکا دیا۔ عمل فرش پر اوندھے منہ گری تھی۔ اس سے پہلے وہ سنبھلتی اہان نے اسے دوبارہ بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔ عمل تواب باقائدہ کانپ رہی تھی۔ اہان کا جنگلی اور وحشیانہ سلوک دیکھ کر۔ اہان نے بے دردی سے اس کا دوپٹہ نوچ کر اتارا۔ درد کی شدید لہر اسے اپنے سر میں محسوس ہوئی بہت سے بال اس کے کھینچ گئے تھے۔ 

 اہان کیوں کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ وہ روتے ہوئے پیچھے کی طرف قدم بڑھا رہی تھی۔

بتاؤں گا میری جان بتاؤں گا ابھی تو پوری رات پڑی ہے پہلے اپنے حسن سے مجھے مستفید تو ہونے دو۔ 

وہ زہریلی ہنسی ہنستا ہوا اس کے قریب آیا اور نوچ نوچ کر اس کا زیور اتارنے لگا اور بیڈ پر اسے زور سے دھکا دیا۔ ۔

#Merastamga 

#noorasif 

Episode4


اہان  نے عمل کو بیڈ پر دھکا دیا تھا۔۔عمل ڈرتے ہوئے جلدی سے سیدھے ہو کر پیچھے کی طرف کھسکنے لگی۔۔اور بیڈ  کے كراؤن سے جا لگی۔۔ اہان نے اس کے قریب آ کر اس کے بالوں کو بے دردی سے اپنی مٹھی میں لیا۔ اور اس کے ہونٹوں پے جھکا۔

 اہان کا لمس اتنا شدید تھا کہ عمل کو لگا وہ کبھی سانس نہیں لے پائے گی۔ عمل کے حلق میں عمل کے ہونٹوں سے نکلا خون اترنے لگا۔

  مگر اہان کو پھر بھی اس پر رحم نہ آیا۔

 وہ ساری رات اس سے رحم کی التجائیں کرتی رہی۔ مگر اس وحشی درندے کو اس کی کسی التجا کا اثر نہ ہوا۔ وہ نیم بے ہوش ہو چکی تھی۔ مگر وہ پھر بھی اس کے جسم کو بھنبھوڑتا رہا۔ 

                  **************

صبح عمل کی آنکھ کھلی تو اسے شدید چکر آیا تھا۔ وہ کانپتے بدن کے ساتھ اُٹھی اور اپنے کپڑے تلاش کرتے ہوئے اس نے پہنے..

 اور دیوار کا سہارا لے کر آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ بکھرے بال چہرے پر اور بدن پر جگہ جگہ اہان کی درندگی کے نشان..

  وہ کہیں سے بھی ایک دن کی دلہن نہیں لگ رہی تھی۔ ایک ہی رات میں اہان نے اس کا کیا سے کیا حال کر دیا تھا۔ 

گُڈ مارننگ میری جان! اہان کمرے میں داخل ہوا عمل اسے دیکھ کر ڈرتے ہوئے پیچھے ہوئی تھی اور بیڈ پر جا گری اور اب سہمی سہمی نظروں سے اہان کو دیکھ رہی تھی۔ اہان مسکراتے ہوئے آگے بڑھا اور اس کے گال کو پیار سے چھوا۔ ڈر کیوں رہی ہو مجھ سے کہا تھا ناں میں نے مجھے تمھاری آنکھوں میں ڈر نہیں اچھا لگتا۔ 

اہان وہ سسکی لیتے ہوئے بولی۔ کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ آپ ایسا؟ وہ ڈرتے ہوئے بولی۔ 

گُڈ کوئسچن! چلو تمھیں بتا ہی دیتا ہون بلکہ بتا تا کیا ہوں تمھیں کچھ سناتا ہوں اہان نے موبائل آن کر کے ریکارڈنگ آن کی۔ 

جو اس کی اور داور کی تھی۔ وہ مہندی والی رات کی باتیں تھیں۔ مگر اس کو اَیڈیٹ کر کے کسی اور رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ اہان یہ جھوٹ ہے۔ وہ ڈرتے ہوئے بولی۔ اوہ۔۔۔۔ یہ جھوٹ ہے۔۔ اہان اُٹھ کر غصے سے چلایا۔ 

تمھاری اور داور کی منگنی رہ چکی تھی۔۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔ 

نہین اہان ہماری منگنی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو منگنی والے دن مجھے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی۔ اور تم اسے جلانے کے لیے میرے قریب آئی۔۔ اور وہ تمھارے نکاح کا سن کر بھاگا آیا۔ اب تم مجھے چھوڑ کر اسے اپنانے لگی تھی۔ 

ہاں۔۔۔ اہان نے غصے سے واز اُٹھا کر زمین پر پھینکا۔ عمل،، ڈر کے مارے چیخی تھی۔ 

نہیں اہان! ایسا کچھ نہیں ہے میں ایسا نہیں چاہتی تھی۔ میں صرف آپ سے محبت کرتی ہوں۔ آپ کو کسی نے تصویر کا دوسرا رُخ دکھایا ہے۔ 

وہ اس ریکارڈنگ میں تمھیں چھونے کی بات کر رہا تھا اس کے بعد کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔۔ کس حد تک گئے تھے تم لوگ۔ اہان نے سرد آواز میں پوچھا۔ 

نہیں اہان میں نے اسے خود کاہاتھ بھی نہیں پکڑنے دیا۔ 

جھوٹ مت بولو عمل۔۔ وہ تمھارے گھر رہتا تھا تعلقات تو بہت گہرے ہوں گے۔ وہ سفاکی سے بولا۔

اہان پلیز۔ آپ جانتے ہیں مجھے آپ کے علاوہ کبھی کسی نے نہیں چھوا۔ آپ کو میری بے گناہی کا ثبوت رات کو مل چکا ہے۔ عمل دکھ اور کرب سے بولی۔ اہان ہنسا تھا اس کی بات پر۔ منزل تک پہنچنے کے لیے بہت سارے راستوں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے داور بھی انہیں راستوں سے گزرا ہو مگر منزل تک نہ پہنچا ہو۔ اہان کی بات پر عمل چلائی تھی۔ بس کریں اہان اپنے آپ کو میری نظروں میں اتنا مت گرائیں کے اُٹھ ہی نہ سکیں۔ اہان نے آگے بڑھ کر عمل کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا تھا۔ تمھارے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ نظروں میں تم میرے گر چکی ہو۔ 

مجھے دھوکہ دے رہی تھی اہان ملک کو دھوکا دے رہی تھی۔۔

 اب رہو گی میری قید میں تا عمر۔

  تمھیں تمھارے عاشق کے لیے نہیں چھوڑوں گا۔۔

   میں بلکہ وہ حال کروں گا تمھارا تم کسی کے قابل نہیں رہو گی۔ 

   اور کیا کہہ رہی تھی مجھے تصویر کا دوسرا رُخ دکھایا گیا ہے۔۔

  ٹھہرو تمھیں اور ثبوت دکھاتا ہوں۔۔

   اہان نے ڈرار سے تصویریں اٹھا کر اس کے منہ پر ماری تھیں۔ 

جو س کی اور داور کی تھیں ہاتھوں میں ہاتھ دالے وہ داور کی بانہوں میں  مسکراتے  کھڑی تھی۔ 

اہان یہ جھوٹ ہے۔۔ یہ اَیڈیٹ ہے۔۔

 بے شک ہماری دوستی تھی۔۔ اس نے کبھی میرا ہاتھ بھی نہیں پکڑا۔ عمل روتے ہوئے اپنی صفائی دینے لگی۔ 

 یہ جھوٹی تاویلیں اپنے دل کو دو۔۔ اگر تم سچی ہوتی تو مجھے اپنے پاسٹ کے متعلق سب کچھ بتاتی۔۔

  مجھ سے کچھ نہ چھپاتی۔۔

   تمھیں پتہ تھا کہ تم مجھے بتاؤ گی تو تمھار جھوٹ پکڑا جائے گا اور تم اپنے یار کو جلا نہیں سکو گی۔۔

   اہان کہتے ہوئے غصے سے کمرے کا دروازہ دھاڑ سے بند کرتا ہوا چلا گیا۔ اور عمل اپنے نصیب پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیر سال سے اہان نے اسے اس فلیٹ میں رکھا ہوا تھا جو آبادی سے زرا ہٹ کر تھا۔ اکثر اہان کئی کئی دن چکر نہ لگاتا اور کبھی کبھی ہفتوں اس کے ساتھ اس فلیٹ پر گزار دیتا۔ اہان کی قربت کے لمحات عمل پر بہت بھاری ہوتے وہ کیسے سہتی تھی وہ جانتی تھی اور بس اس کا رب۔۔۔

ابھی بھی وہ گہری نیند سو  رہی تھی۔۔ اہان دو دن سے نہیں آیا تھا۔ 

اپنے پاس کسی کی موجودگی کے احساس سے اس کی آنکھ کھلی تو اہان اس کے پاس تھا۔ وہ ڈر کے مارے پیچھے ہوئی۔۔ 

اہان آپ۔۔۔ ہاں میں! کیا اپنے عاشق کی توقع کر رہی تھی اس نے عمل کو اپنی بانہوں میں لیا۔ وہ آپ اچانک سے آئےتو میں ڈر گئی تھی۔۔ عمل کانپتے لہجے میں بولی۔ 

ویسے عمل تم نے ڈیڑھ سال سے میرے علاوہ کسی کا چہرہ نہیں دیکھا ہے ناں! کل تمھیں کسی سے ملواؤں گا وہ پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا ہوا بولا۔ ویسے کہیں تم یہ تو نہیں سوچ رہی کہ میں تمھیں تمھارے یار سے ملواؤں گا۔۔

 اگر ایسا سوچ رہی ہو تو غلط سوچ رہی ہو اس کو تو تم مرتے دم تک نہیں دیکھ سکتی۔ اہان نے اس کے بال اپنی مٹھی میں لے کر کھینچے تھے۔ عمل درد سے کراہ کر رہ گئی۔ 

  ارے درد ہو رہا ہے میری جان کو ابھی تو پوری رات پڑی ہے یہ سسکیاں سنبھال کر رکھو پوری رات بھر پور موقع دوں گا یہ مشغلہ پورا کرنے کا۔ اہان سفاک لہجے میں بولا۔ اچھا بتاؤں تمھیں کل کس سے ملواؤں گا تمھاری سوتن سے میں شادی کر رہا ہوں ہانیہ سے عمل نے بے یقینی سے اہان کو دیکھا۔اہان مت کریں ایسا میرے تابوت میں آخری کیل مت ٹھونکیں۔

بہت پچھتائیں گے آپ۔ جس دن آپ کو سچائی پتہ چلے گی تب آپ کو عمل نہیں ملے گی۔۔ وہ سسکتے ہوئے بولی۔ 

اہان نے عمل کو جھٹکا دے کر بیڈ پر گرایا اور اس پر جھکا۔ 

تمھارے تابوت میں آخری کیل نہیں بلکہ تمھارا پورا تابوت میں قبر میں اتاروں گا اور ساتھ تمھارے عاشق کا بھی تمھارے ساتھ۔ 

نہیں نہیں۔۔۔ یہ کیا کہہ گیا۔ ۔۔میں تو اسے تمھارے ساتھ قبر میں بھی برداشت نہیں کر سکتا۔

 اس کی قبر الگ سے بناؤں گا۔ اہان یہ کہتے ہوئے عمل پر جھک چکا تھا اور عمل کی دبی دبی سسکیاں شروع ہو چکی تھیں۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے بیڈ پر سفید نائٹی پہنے سو رہی تھی کہ کھٹکے کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی۔ 

سامنے ہی اہان دلہن بنی ہانیہ کو بانہوں میں لیے کھڑا تھا۔ عمل جلدی سے بیڈ سے اُٹھی۔ ہانیہ عمل کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ بکھرے بال زرد اور اداس چہرہ۔ گال پر نشان جو شاید اہان نے اسے دیا تھا۔ مگر وہ اس سوگوار حلیے میں بے پناہ حسین لگ رہی تھی وہ نشان اس کے چہرے کو اور پر کشش بنا رہا تھا۔ 

یہاں سے جاؤ یہ میرا اور ہانیہ کا کمرہ ہے آج سے تم گیسٹ روم میں رہو گی۔ اہان اس کے بکھرے سراپے سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔ 

عمل خاموشی سے وہاں سے جانے لگی۔ رکو۔۔۔ عمل اہان کی آواز پر رکی۔ اور مڑ کر اہان کو دیکھا۔ 

اہان نے ہانیہ کو بیڈ پر پیار سے بٹھایا۔ ہانیہ کے جوتے اتارو۔۔ اہان کی بات پر عمل نے اہان کو دیکھا اور پھر چپ کر کے ہانیہ کے جوتے اتارے۔ ہانیہ کو یہ دیکھ کر اندر تک سکون مل گیا تھا۔ 

عمل نے جوتے اتار کر اہان کو دیکھا۔۔ اہان ایک پل کے لیے اس کی نظروں سے گڑبڑا گیا۔۔

اہان نے نظریں چرائیں تھیں کیا کچھ نہیں تھا ان نظروں میں شکوے شکایت۔۔ اہان اندر تک لرز کر رہ گیا۔ 

مجھ سے جو نظریں چرانے لگے ہو  

 لگتا ہے کسی اور گلی جانے لگے ہو۔

 خواب جو دیکھے ہم دونوں نے مل کے  

 دیرے دیرے کیوں دفنانے لگے ہو۔۔

عمل خاموشی سے وہاں سے چلی گئی اس کے جانے کے بعد اہان نے غصے سے اپنا ہاتھ ڈریسنگ پر مارا تھا۔ شیشہ ٹوٹ کر اس کے ہاتھ کو زخمی کر گیا۔ ہانیہ ایک دم سے اُٹھی تھی اس کے زخمی ہاتھ کو دیکھ کر۔ مگر اہان نے اسے روک دیا اور واش روم میں چلا گیا۔ 

اہان داش روم کے شیلف پر زور زور سے مکے مارتا ہوا روتے ہوئے چلا رہا تھا۔ کیوں کیا؟ 

عمل میرے ساتھ ایسا،،، کیا کمی تھی میرے پیار میں۔ اب وہ اپنے بالوں کو جکڑے چلا رہا تھا۔۔ اہان نے ایک دم اپنے  چکراتے سر کو تھاماتھا۔ باہر کھڑی ہانیہ اہان کی چیخ و پکار پر حیران ہو رہی تھی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل کمرے میں جا کر بیڈ پر گھٹنوں میں سر دیے زور زور سے چیخنے لگی ۔۔کیوں اہان۔۔ کیوں کیا میرے ساتھ ایسا۔ میں تو صرف آپ کی تھی آپ نے کہا تھا آپ سب سے زیادہ مجھ پر اعتبار کریں گے۔۔

 مگر آپ جھوٹے تھے آپ کا ہر وعدہ جھوٹا نکلا۔ اہان آپ کی طرح۔۔ اس کی آہ پکار عرش کو ہلا رہی تھیں۔

 ختم اپنا درد کر جاؤں

 جی میں آتا ہے آج مر جاؤں۔۔

           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح اس کی آنکھ اپنے ساتھ سوئے اہان کو دیکھ کر کھلی جو اس پر بازو رکھے سو رہا تھا۔ وہ حیران ہوئی آج تو اہان کی سہاگ رات تھی۔ اسے تو ہانیہ کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ یہاں کیا کر رہا ہے؟

 عمل نے آرام سے اس کا ہاتھ ہٹا کر اس کے حصار سے نکلنا چاہا۔ اہان نے اپناحصار مزید سخت کیا۔ 

کیا ہوا ڈئیر وائف۔۔ کہاں جا رہی ہو۔۔ اہان اس کے اوپر جھکتے ہوئے پوچھنے لگا ۔آج تو آپ کو ہانیہ کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ عمل آہستگی سے بولی۔ 

اہان مسکرایا۔ تم فکر نہ کرو میں نے اپنا کام کمپلیٹ کر لیا ہے۔ آہان نے آنکھ ماری۔۔ پھر خیال آیا تم سکون سے سو رہی ہو گی کیوں نہ تمھارا سکون غارت کیا جائے۔۔

 اہان یہ کہتے ہوئے عمل پر جھک کر اس کی سانسیں روک چکا تھا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہانیہ کی آنک کھلی اہان کو اپنے ساتھ نہ پا کر ایک دم سے حیران ہوئی تو اہان رات کو عمل کے ساتھ تھا۔ 

یہ سوچ آتے ہی اس کے جسم میں انگارے دوڑنے لگے۔ 

اوہ۔۔ تو اہان تم نفرت بھی کمال کرتے ہو کہ محبت کو تم پر ترس آجائے۔ 

مگر مجھے نہیں آئے گا تم پر ترس۔۔ عمل کو تمھاری زندگی سے اب پوری طرح نکال باہر کروں گی ۔

وہ غصے سے کہتے ہوئے واش روم میں چلی گئی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اہان ہر ویک اینڈ پر ہانیہ کو اس فلیٹ پر لاتا صرف عمل کو جلانے کے لیے۔

 ہانیہ اہان کے رویے سے پریشان ہو گئی تھی اگر وہ گھر پر ہوتی دنوں  چکر نہ لگاتا ۔۔

 عمل کے ساتھ ہوتا تھا اور اگر آتا بھی تو اسے لے کر فلیٹ کی طرف چل پڑتا۔ وہاں وہ اسے اپنے قربت کے لمحات عطا کرتا صرف عمل کو جلانے کے لیے ۔۔

 ورنہ اہان کو ہانیہ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ 

ہانیہ اہان کے رویے سے تنگ آ گئی تھی۔۔ اسے آگ لگا دیتا تھااہان کا عمل کو دیکھنا جن نظروں سے وہ عمل کو دیکھتا تھا۔ اس کی آنکھوں مین صاف صاف عمل کا عکس نظر آتا تھا۔

                            ************


وہ بیڈ پر شرٹ لیس الٹا لیٹا ہانیہ کے ساتھ  کمرے میں  سو رہا تھا۔ 

جب اسے عمل کے سسکنے کی اور ہانیہ کے چیخنے کی آواز سنائی دی۔

 وہ جلدی سے اُٹھا سامنے کا منظر اسے آگ لگا گیا۔ عمل ہاتھ پکڑے سسک رہی تھی ہانیہ نے اس پر گرم چائے اُنڈیلی تھی۔ 

یہ چائے بنائی ہے تم نے۔ہانیہ نے یہ کہتے ہوئے اس پر ہاتھ اُٹھایا ہی تھا کہ جو اہان نے پکڑ لیا اور جھٹکے سے ہانیہ کو  بیڈ پر دھکا دیا۔۔ 

اور عمل کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے لے گیا۔ اسے کمرے میں لے جا کر سائیڈ دراز سے اٹمنٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر لگائی۔ مارنے دیتے اہان کیا فرق پڑ جانا تھا آپ کی بھی تو روز مار کھاتی ہوں ۔۔ 

 اہان ہنسا تھا اس کی بات پر۔ میں نے اسے اس لیے روکا تھا کیونکہ اس کے نازک ہاتھ میں اتنا دم خم کہاں؟تمھیں تو عادت ہے میرے ہاتھوں سے پٹنے کی۔ میں تمھاری عادت نہیں خراب کرنا چاہتا تھا۔ یہ کہہ کر اہان اس کے ہونٹوں پر جھکا اپنی شدت نچھاور کرنے لگا۔ عمل سسک کر رہ گئی۔ 

 کمرے میں واپس آنے کے بعد وہ غصے سے ہانیہ کی طرف بڑھا جو بیڈ پر بیٹھی اسے گھور رہی تھی۔ اس نے جھٹکے سے اس کی کلائی پکر کر اسے اُٹھایا ۔۔

 آئندہ کے بعد تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا بلکہ اسے چھوا بھی نہ تو تمھارے ہاتھ توڑ کر تمھارے گلے میں لٹکا دوں گا۔ اور تم جو اس کے ساتھ سلوک کرتے ہو وہ کیا۔ ہانیہ غصے سے چلائی۔ 

 میں چاہے جو بھی کروں اسے ماروں اس کی بوٹی بوٹی کر دوں۔۔

  مگر کسی اور کو یہ حق نہیں ہے کہ اسے چھو بھی سکے۔ یہ میری فرسٹ ایند لاسٹ وارننگ ہے۔ ورنہ میرا وہ روپ دیکھو گی جو میں نے ابھی تک عمل کو بھی نہیں دکھایا وہ اسے جھٹکے سے چھوڑتا ہوا وہاں سے نکل گیا اور ہانیہ تلملاتی رہ گئی۔ 

             ************

ہانیہ نے داور کا پتہ لگایا اور اس کو کال ملائی۔ 

ہیلو داور! جی میں داور آپ کون اس بات کو جانے دیں کہ میں کون۔ کیا آ پ یہ جاننا نہیں چاہیں گے کہ عمل کس حالت میں کہاں ہے؟ داور عمل کے نام پر سیدھا ہوا۔ کیا مطلب؟ عمل اہان کے پاس ہے اور یقینا اچھی حالت میں ہو گی۔ 

ہانیہ ہنسی تھی داور کی بات پر۔ وہ تو تب کی بات تھی مگر اب عمل کی وہ حالت ہے کہ موت کو بھی اس پر ترس آجائے۔ ہانیہ زہریلے لہجے میں بولی۔ 

داور اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ کیا کہہ رہی ہو یہ تم؟ 

افسوس ہے مجھے آپ پر۔ آپ عمل سے محبت کا دم بھرتے ہیں مگر ڈیڑھ سال سے آپ نے پتہ ہی نہیں کیا عمل کس حال میں ہے۔ میں آپ کو پتہ سینڈ کر رہی ہوں آپ خود آکر دیکھ لیں یہ کہہ کر ہانیہ نے فون بند کر دیا۔ اور داور پہلے فلائٹ پکڑ کر پاکستان آ گیا۔ 

یہاں آ کر اسے پتہ چلا عمل ڈیڑھ سال سے کسی سے بھی نہیں ملی۔ وہ گاڑی دوڑاتا ہوا اس منزل کی طرف روانہ ہواجہاں اس کی عمل تھی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#Merastamga 

Episode5


ہانیہ نے داور کا پتہ لگایا اور اس کو کال ملائی۔ 

ہیلو داور! جی میں داور آپ کون اس بات کو جانے دیں کہ میں کون۔ کیا آ پ یہ جاننا نہیں چاہیں گے کہ عمل کس حالت میں کہاں ہے؟ داور عمل کے نام پر سیدھا ہوا۔ کیا مطلب؟ عمل اہان کے پاس ہے اور یقینا اچھی حالت میں ہو گی۔ 

ہانیہ ہنسی تھی داور کی بات پر۔ وہ تو تب کی بات تھی مگر اب عمل کی وہ حالت ہے کہ موت کو بھی اس پر ترس آجائے۔ ہانیہ زہریلے لہجے میں بولی۔ 

داور اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ کیا کہہ رہی ہو یہ تم؟ 

افسوس ہے مجھے آپ پر۔ آپ عمل سے محبت کا دم بھرتے ہیں مگر ڈیڑھ سال سے آپ نے پتہ ہی نہیں کیا عمل کس حال میں ہے۔ میں آپ کو پتہ سینڈ کر رہی ہوں آپ خود آکر دیکھ لیں یہ کہہ کر ہانیہ نے فون بند کر دیا۔ اور داور پہلے فلائٹ پکڑ کر پاکستان آ گیا۔ 

یہاں آ کر اسے پتہ چلا عمل ڈیڑھ سال سے کسی سے بھی نہیں  اپنے آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا جب آفس میں لگی سکرین پر اسے اپنے فلیٹ کا منظر دکھائی دیا جس میں داور اس کے فلیٹ کے دروازے پر کھڑا تھا اور عمل اندر فلیٹ کے دروازے کے ساتھ لگی ہوئی گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی۔ اہان کو آواز تو نہیں آ رہی تھی مگر داور باہر


داور چلے جاؤ یہاں سے،،، وہ تمھیں مار دے گا وہ بہت وحشی درندہ ہے۔ عمل روتے ہوئے اس سے التجا کر رہی تھی۔ 

نہیں عمل میں تمھیں لیے بغیر نہیں جاؤں گا۔ تم دروازہ کھولو وہ تڑپتے ہوئے بولا۔۔ داور میں دروازہ نہیں کھول سکتی اس نے مجھے لاک کیا ہوا ہے اور چابیاں اس کے پاس ہیں۔

 ٹھیک ہےپھر میں یہ لاک توڑ دیتا ہوں۔ داور نے مظطرب لہجے میں کہا۔۔

داور چلے جاؤ۔۔ اگر اسے پتہ چل گیا وہ تمھیں مار دے گا۔ 

عمل وہ مجھے کچھ نہیں کہے گا۔ میں تمھیں آج یہاں سے لے کر جاؤں گا ۔۔

داور! پاپا کا کیا حال ہے۔

 مما کیسی ہے اس نے داور سے پوچھا۔ 

اس کی بات پر داور خاموش ہو گیا۔ داور کیا ہوا پلیز مجھے بتاؤ۔ تمھیں قسم ہے میری۔پاپا ماما ٹھیک ہیں نہ۔۔

عمل بڑے پاپا اس دنیا سے چلے گئے ہیں تمھارے غم میں۔۔

 انہوں نے بہت کوشش کی تم سے ملنے کی مگر اہان نے انہیں ملنے نہیں دیا۔۔

  وہ پولیس سٹیشن بھی گئےتھے۔

   مگر اہان کے اثرورسوخ سے پولیس والوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ داور کے بتانے پر عمل چیخیں مار مار کر رونے لگی۔ 

عمل پلیز مت روؤ۔ ورنہ میں مر جاؤں گا۔ عمل کی چیخیں داور کو تڑپا رہی تھیں۔ عمل نے اپنے آنسو صاف کیے داور تم یہاں سے چلے جاؤ۔۔ اس کا اثر ورسوخ بہت ہے وہ مجھے نہیں جانے دے گا میں تم سے وعدہ کرتی ہوں میں اب اس کی قید میں نہیں رہوں گی۔ عمل سسکتے ہوئے بولی۔۔

 مگر عمل میں تمھیں ایسے چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ 

داور تمھیں اس محبت کی قسم جو تم نے مجھ سے کی ہے۔ 

داور تڑپ اُٹھا تھا عمل کی قسم پر۔ وہ چپ کر کے چلا گیا۔ 

           .   ***********

اہان غصے سے گاڑی دوڑاتے ہوئے فلیٹ کی طرف جا رہا تھا۔وہ منظر یاد کر کے اہان کے تن بدن میں مرچیں سی لگیں تھیں۔۔

 اہان نے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جھکڑا اور سٹیرنگ پر زور سے ہاتھ مارا۔ زندہ نہیں چھوڑوں گا داور تمھیں۔ میری عمل کے پاس تمھارے آنے کی ہمت کیسے ہوئی اور عمل تمھیں اس کا حساب دینا ہو گا۔ 

 جب وہ فلیٹ پر پہنچا داور اسے کہیں نہیں دکھا۔ اس نے جلدی سے دروازہ کھولا عمل دروازے پے بیٹھی سسک رہی تھی۔ 

اہان نے عمل کے بالوں کو مٹھی میں جھکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لا کر بیڈ پر پٹخاکیا ہوا بہت رونا آ رہا ہے تمھارا عاشق آیا اور تم اس کو دیکھ بھی نہ سکی۔ اہان نے یہ کہتے ہوئے اپنی بیلٹ اتاری اور عمل پر پے در پے وار کرنے لگا۔ عمل کی چیخیں پورے فلیٹ میں گونچ رہی تھیں مگر اہان کو اس پر ترس نہیں آ رہا تھا وہ پاگل ہو رہا تھا وہ منظر یاد کر کے۔ عمل کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے وہ بے ہوش ہو چکی تھی اہان نفرت بھری نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چل دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل کی جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو بیڈ پر پایا اس نے اپنے دکھتے وجود کو گھسیٹا تھا اور بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر پڑے پانی کے جگ کو منہ لگایا اور وہ تقریبًا سارا پانی پی گئی۔

 وہ بیڈ کو پکڑتے ہوئے اٹھی اور دیوار کا سہارا لے کر کچن میں گئی۔ اس نے فریج سے دودھ نکال کر اس کے ساتھ بریڈ کے سلائس لیے۔ کچھ کھانے سے اس کی توانائی بحال ہوئی تو اس نے میڈیسن باکس سے پین کلر لی۔۔اور آئمنٹ نکال کر اپنے زخموں پر لگائی۔ 

 اس نے فیصلہ کر لیا تھا وہ اہان کا ظلم اور نہیں سہے گی۔ وہ یہاں سے بھاگ جائے گی۔ اس کے لیے اسے توانائی کی ضرورت تھی۔۔

  اس نے فریج کھولا جہاں ضرورت کی ہر چیز تھی۔ فروزن چکن، مٹن، کباب، نگٹس، انڈے، بریڈ فروٹ ہر چیز۔

  اہان جب بھی فلیٹ پر آتا ڈھیروں سامان لاتا تھا۔ مگر عمل تھوڑا بہت ہی کھاتی کیونکہ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے کھا رہی تھی ۔۔

  مگر اب اسے اہان کا مقابلہ کرنے کے لیے توانائی کی ضرورت تھی۔اس نے فریزر سے مٹن نکال کر یخنی بنائی اسے پینے سے عمل کو کافی افاقہ محسوس ہوا۔۔

  عمل اپنا خیال رکھنے لگ گئی تھی۔ وہ صاف ستھرے کپڑے پہنتی، فروٹ، دودھ ،اچھا کھانا کھاتی۔۔

  سب سے بڑھ کر اس نے خدا کا دامن تھام لیا تھا۔ اسے یاد آیا اس نے آخری مرتبہ کب نماز پڑھی تھی۔ اسے تو وہ تاریخ بھی یاد نہیں تھی۔ وہ بہت شرمندہ ہوئی وہ پچھلے ڈیڑھ سال سے صرف خدا سے شکوہ کرتی آئی تھی اس کا کیا قصور ہے کہ جو اسے یہ سزا ملی۔۔

  مگر کبھی اللہ کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئی تھی۔ عمل کے سجدے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اور اس کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون چھا گیا تھا۔ اس سکون نے عمل کو پہلے سے زیادہ پُر کشش بنا دیا تھا۔ اچھا کھانے کی وجہ سے عمل کے چہرے پر رونق آنا شروع ہو گئی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

عمل لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جب اہان پورے ایک ہفتے بعد ہانیہ کو لے کر فلیٹ میں داخل ہوا۔اندر داخل ہوتے ہی اس نے عمل کو گہری نظروں سے دیکھا۔ گیلی زلفیں، صاف ستھرا لباس، سب سے بڑھ کر چہرے پر سکون،،، اس نے اہان کے اندر داخل ہونے پر کوئی رسپانس نہیں دیا تھااور نا ہی اس کی طرف دیکھا۔۔اور نا ہی عمل کے چہرے پر کوئی خوف تھا۔ 

بلکہ وہ بہت انہماک سے ٹی وی پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہی تھی۔

 چلو ڈارلنگ تم بہت تھک گئی ہو گی کمرے میں چل کر تمھاری تھکن کا سامان کروں۔ اہان نے کن اکھیوں سے عمل کو دیکھتے ہوئے ہانیہ کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے کہا۔ مگر عمل ہنوز ویسے ہی بیٹھی تھی۔

 اہان ہانیہ کو لے کر اند ر آیا مگر عمل کا سکون اُسے آگ لگا گیا۔ وہ پیچوں تاب کھا کر رہ گیا۔ 

 یہ سکون کہیں داور کی وجہ سے تو نہیں۔ عمل کا داور سے رابطہ تو نہیں۔ 

 یقینا رابطہ ہے ورنہ اُسے اس فلیٹ کا کیسے پتہ چلتا۔ یہ خیال آتے ہی ہو غصے سے کمرے سے باہر لپکا جہاں عمل بیٹھی ٹی وی پر اینکر کی بات پر مسکرائی تھی۔ 

 اور یہ مسکراہٹ اہان کو اندر تک جلا گئی۔ اس نے جھٹکے سے عمل کے بالوں کو مٹھی میں لیا۔ کہاں ہے وہ فون جس سے تم اپنے یار سے رابطہ کرتی ہو۔ 

 کون سا فون؟ میرے پاس کوئی فون نہیں ہے۔ آج پہلی دفعہ عمل کی آنکھوں سے نہ آنسو بہے تھے اور نا ہی اس نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی۔ بلکہ وہ بہت سکون سے اہان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی تھی۔ اس کا آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا اور سکون سے بات کرنا اہان کو آگ لگا گیا۔ جھوٹ بولتی ہے ذلیل عورت۔ تمھارا تمھارے یار سے رابطہ ہے۔۔  تبھی تو تمھارے چہرے پر اتنا سکون ہے۔ عمل اس کی بات پر ہنسی تھی۔

 پتہ ہے اہان ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ تمھارا وقت بھی قریب آنے والا ہے۔

 اللہ نے تمھاری رسی دراز کر رکھی ہے تو تم نے خود کو وقت کا فرعون سمجھ لیا ہے۔ 

 پتا ہے میرے چہرے پے سکون کیوں ہے؟  کیونکہ میرا ضمیر مطمئین ہے۔ میں مظلوم ہوں اور تمھارے چہرے پر بد سکونی کیوں ہے،، کیونکہ تمھارا ضمیر تمھیں کچوکے مارتا ہے۔۔

 کیونکہ تم ظالموں میں سے ہو۔ عنقریب میرا رب تمھیں منہ کے بل گرائے گا۔ تم کبھی اُٹھ نا سکو گے۔ عمل کی باتیں اسے آگ لگا گئیں۔

 اس فرعون کے لیے موسیٰ آیا تھا۔ مگر عمل تمھیں مجھ سے بچانے کوئی نہیں آئے گا۔ تمھیں اپنے یار کا انتظار ہے نہ ۔۔ اس پر میں نے حملہ کروایا ہے افسوس بچ گیا۔ مگر اپنے ایک بازو سے محروم ہو گیا۔ مگر تم فکر نہ کرو عنقریب اسے قبر تک پہنچاؤں گا۔ 

 اہان کے بتانے پر عمل مچلی تھی اس کی گرفت میں۔۔

 اور اپنے آپ کو اس کی گرفت سے چھڑانے لگی۔ 

 جس پر اہان نے اپنی گرفت اور مضبوط کی۔ 

 اہان میری بد دعا ہے تم سکون کو ترسو۔

 تم پل پل اک نیئ موت مرو۔۔

  روز موت کی دعائیں مانگو مگر تمھیں موت نہ  آئے۔ 

  اہان تمھیں آخرت میں بھی کبھی سکون نا ملے۔ وہ پاگلوں کی طرح اسے بد دعائیں دے رہی تھی۔ 

 اہان نے اس کا چہرہ تھپڑوں ںسے سرخ کر دیا۔۔

  مگر اس کا ظلم آج عمل کو خاموش نا کروا سکا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل لاؤنج میں بیٹھی سسک رہی تھی۔

 جب ہانیہ اس کے پاس آئی۔۔

عمل تم یہاں سے جانا چاہتی ہو میں تمھاری مدد کر سکتی ہوں۔۔ 

عمل نے ہانیہ کو دیکھا اور صوفے کو پکڑ کر اٹھی۔

 تم نے ہی یہ سب کیا ہے نہ ہانیہ ۔۔

 ہانیہ مہندی والے دن تمھارا فون آیا تھا مجھے۔ 

 تم نے اس ریکارڈنگ کو اپنی مرضی کا رنگ دے دیا۔۔ 

 وہ آنکھوں میں آنسو لیے اس سے بولی۔

 جس پر ہانیہ  نے قہقہ  لگا یا تھا۔ ہاں میں نے کیا یہ سب کچھ ۔۔ تم میرے اور اہان کے درمیان جو آئی تھی۔ تمھیں سزا تو ملنی تھی۔ 

تمھارا اہان تمھیں مبارک ہو ۔۔

بلکل تمھاری طرح ہے بے حس اور ظالم ہے۔۔

 وہ کرب سے بولی۔ 

ہاں یہ تو ہے۔۔ وہ مجھ سے زرا زیادہ ظالم ہے۔۔

 میں تو تمھاری مدد کر رہی ہوں دیکھو یہاں سے بھاگ جاؤ۔ فلیٹ کا دروازہ کھلا ہے۔۔

 اہان بنا لاک لگائے چلا گیا ہے۔۔

  اس نے بے یقینی سے ہانیہ کو دیکھا ۔۔

  اور جلدی سے اپنا دوپٹہ اچھی طرح خود پر لپیٹا اور خاموشی سے ہانیہ کو دیکھتے ہوئے وہاں سے نکل گئی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہان غصے سے وہاں سے نکل تو آیا مگر عمل کی بد دعائیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔۔

 اور وہ روتے ہوئے چیختے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا۔۔

 اور بار بار اپنے بال جکڑتا سٹیرنگ پر مکے مارتا ۔۔

 اور کبھی اپنے سر کو تھامتا۔

 اچانک سے اس نے بے چینی سے گاڑی واپس فلیٹ کی طرف موڑی۔ 

 پتہ نہیں اس کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔۔

 عمل کو دیکھنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔۔

 جیسے ہی وہ فلیٹ پر آیا اس نے دروازہ کھلا پایا۔ 

 کیا میں دروازہ کھلا چھوڑ کے گیا تھا۔ 

 سب سے پہلے اسے عمل کا خیال آیا وہ بے چینی سے آگے بڑھا۔ اسے پورے گھر میں عمل نہ دکھی۔۔

 وہ ہانیہ کے کمرے کی طرف بڑ ھا جہاں وہ بیڈ پر لیٹی سو رہی تھی۔ ہانیہ۔۔ اس نے غصے سے ہانیہ کو اٹھایا۔۔

 ہانیہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی۔ 

 کیا ہوا اہان؟

 وہ معصومیت طاری کرتے ہوئے بولی۔

  عمل کہاں ہے؟ اہان کے پوچھنے پر وہ حیران ہوتی ہوئی بولی وہ تو آپ کے ساتھ تھی میں تو تب سے کمرے میں ہوں۔ 

وہ غصے سے ہانیہ کو چھوڑ کر باہر کی طرف بڑھا۔ ہانیہ زہریلے انداز میں مسکرا کر رہ گئی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل فلیٹ سے نکل کر چادر میں منہ چھپائے ایک ٹیکسی میں بیٹھی۔ وہ ڈر رہی تھی۔۔

 کہیں ٹیکسی والا اتنی رات کو اس کے ساتھ کچھ غلط نہ کرے۔۔

 اس کے دل میں عجیب وسوسے آ رہے تھے۔۔

  مگر وہ بھول گئی تھی۔۔ اللّه اس کے ساتھ ہے۔۔

   اس نے اللہ کا دامن تھاما تھا۔۔ اللہ نے اسے تھام لیا تھا۔ وہ خیروعافیت اپنے گھر پہنچی گیٹ پر آ کر اس نے بیل زور زور سے بجائی۔۔ داور اندر سے نکلا۔ 

داور کو دیکھنے کی دیر تھی عمل آگے بڑھی اور اس کے سینے سے لگ کر زور زور سے رونے لگی۔ وہ جذباتی ہو رہی تھی داور کو اس کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ 

اسی دوران اہان ملک کی گاڑی آ کر ان دونوں کے پاس رکی۔ 

             ***********

#Merastamga 

#merasitmagr 

Last episode


اسلام و علیکم

اس ناول کا سیزن ٹو بھی ہے۔جو بہت انٹرسٹنگ ہے۔۔آہان عمل داور ہی اس کے مرکزی کردار ہیں۔انشاءاللّہ نیکسٹ ایپیسوڈ کل ہی پوسٹ کر دی جاۓ گی۔❤❤❤❤


عمل کو داور کے گلے لگے دیکھ کر اہان پاگل ہو گیا۔ وہ غصے سے آگے بڑھا اور عمل کو داور سے الگ کیا اور پسٹل سے داور کے سینے پر فائر کر دیا۔ اور عمل کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی میں بیٹھایا اور وہاں سے چل دیا۔ 

عمل خاموشی سے گاڑی مین بیٹھی تھی۔ وہ بلکل پتھر کی ہو چکی تھی۔ اہان غصے سے گاڑی چلاتے ہوئے فلیٹ کی طرف بڑھا راستے میں کئی دفعہ ایکسیڈنٹ ہوتے ہوئے بچا۔۔ مگر عمل کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ 

اہان تو ایک ایسی بھٹی میں جل رہا تھا جس میں وہ سب کو جلا کر راکھ کرنا چاہتا تھا ۔۔ اس کا خود کا وجود  تو کب کا خاکستر ہو چکا تھا۔ ۔اہان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ خود کی اور عمل کی جان لے لے ۔۔داور کے گلے لگے کھڑی بلک بلک کر رونا۔۔۔

۔وہ منظر اہان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود کر رہا تھا ۔۔اس نے گاڑ ی روکی تھی۔۔

عمل پر جھکتے ہوے اسے دو تین تھپڑ کھینچ کر لگا دیے.عمل کے دوپٹے کو نوچ کر اتارا اور اس کی شرٹ کے اگے کے بٹن  کھولتا ہوا  دل کے مقام پر اپنے دانت گاڑ دیے ۔۔

لیکن وہ پتھر کی مورت میں کوئی ہلچل نہ ہوئی ۔۔اہان اس کی گردن اس کے کندھے پر اپنی حیوانیت کے لمس چھوڑنے لگا۔۔مگر عمل بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔۔عمل کو اہان کا لمس صرف تکلیف دیتا تھا۔۔مگر آج یہ لمس زہر کی طرح اس کے وجود میں سرائیت کر رہا تھا۔۔۔اسے لگ رہا تھا بہت سے ذہریلے ناگ اسے ڈس رہے ہوں جیسے۔۔اہان نوچ کر داور کا لمس عمل سے کھرچ دینا چاہتا تھا اسے پور پور زخم دے کر داور کا نرم لمس ذائل کر رہا تھا اہان ایک دم اس سے الگ ہوا اور جھٹکے سے اپنی  طرف کا دروازہ کھول کر نکلا۔۔دسمبر کی یخ بستہ سرد ہوا نے  اہان کا استقبال کیا ۔ہلکی ہلکی بارش سردی میں اور اضافہ کر رہی تھی ۔۔اہان نے عمل کی طرف کا دروازہ کھول کر اسے کلائ سے پکڑ کر کھینچ کر باہر نکالا آ ہان نے اسے کھلے آسمان اور برستی بارش میں کھڑا کیا وہ داور کا لمس مٹانا چاہتا تھا جیسے اور خود اس ٹھنڈک میں آپنے سینے کی جلتی آگ اور اپنے وجود میں جلتے  بھانبھڑ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔جلن کم نہ ہوئی تو عمل کو پکڑکر  اپنی طرف کھینچا تھا اور اس کے سردی سے کانپتے ٹھٹھرتے ہونٹوں کو اپنی سخت گرفت میں لیا اپنا جنون اپنا غصہ اپنی جلن اس کے نازک ہونٹوں پر اتارنے لگا۔۔ 

عمل بے حس بنی اپنے وجود پہ اس کا ظلم برداشت کر رہی تھی۔۔۔

یخ بستہ سرد ہوا اور ٹھنڈی بارش نے نے عمل پر کپکپی طاری کی تھی ۔۔۔۔اہان نے اسے ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا ۔۔اہہہہہہہہ ۔۔۔۔۔۔اس نے سسکی لی ۔۔گرنے ہی لگی تھی ۔۔آہان نے کلائ پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا ۔۔۔۔ کھڑی رہو ۔۔۔۔۔اہان کی سرد اواز گونجی۔۔

کیوں عمل کیوں عمل ۔۔۔۔یہ بدن  کی گرمائش  یہ ہونٹوں کی نرماہٹ ۔یہ تو صرف میرے لئے ہونا چاہیے تھا ۔۔ان نیلی آنکھوں میں میرا عکس ہونا چاہیے تھا ۔۔۔تمہاری سوچوں کی ہر حد بندی  صرف مجھ تک جانی چاہیے تھی ۔۔تم پر صرف میرا حق ہے ۔۔تمھاری ہر چیز پر صرف میرا تسلط میرا حق ہونا چاہیے تھا ۔۔تم صرف اہان کی ملکیت ہو ۔۔پھر کیوں گیئ اس کے قریب کیوں ۔۔۔۔وہ درد سے  چیخا ۔۔۔

۔۔مار دو مجھے آہان ۔۔۔۔عمل کی سرگوشی نما آواز ابھری ۔۔مار دو مجھے ۔۔۔۔اس اندھیری رات میں وہ اپنے ستمگر سے موت مانگنے لگی۔ وہ کوئ بھٹکی ہوئ روح لگ رہی تھی۔۔جس میں زندگی کی کوئ رمک نیہں تھی۔۔

ایک دم سے اس نے اہان کا کالر اپنی مٹھیوں میں دبوچا تھا ۔۔۔مار دو اہان مجھے مار دو ۔۔ایک بار  میں ہی مار دو۔۔۔میں نے تمہارے ساتھ بےوفائی کی ہے ۔۔

میں نے تمھے دھوکہ دیا ۔۔وہ اہان  کا ہر الزام قبول کر کے اس ازیت سے چھٹکارا چاہتی تھی جو اسے تل تل ہر پل مار رہی تھی۔ ۔

مجھے موت چاہیے ۔۔اہان۔۔ پلیز مجھے رہائی دے دو۔۔

 اس زندگی سے پلیز ۔۔۔۔وہ بلکتے ہوے اہان کی شرٹ دبوچے نیچے بیٹھتی چلی گیئ..اب وہ اہان کی  ٹانگوں کے ساتھ لپٹی موت کی التجایئں کر رہی تھی ۔۔

اہان نے کرب سے آنکھیں موند لیں..آنکھوں سے آنسو جل تھل بہنے لگے ۔۔۔

اہان بھی نیچے بیٹھتا چلا گیا۔۔۔اور عمل کو اپنی بانہوں میں لیا۔۔۔اب عمل اہان کی بانہوں میں دھاڑے مار مار کر رو رہی تھی۔ ۔

اہان کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر آیا تھا جب وہ داور کے گلے لگی تھی ۔۔وہ ریکارڈنگ وہ تصویریں ۔۔اہان نے اپنے چکراتے سر کو تھاما تھا ۔۔آنکھیں پل میں لہو رنگ ہوئی۔۔۔۔۔اس نے عمل کو دھکا دیا تھا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو ۔۔عمل سڑک پر گھٹنوں کے بل گری ۔۔عمل گھٹنوں کے بل سڑک پر دونوں ہاتھ رکھے اونچا اونچا رونے لگی۔۔

  اہان نے اٹھ کر گاڑی کے بونٹ پر زور زور سے مکے برساۓ تھے ۔۔۔اور خود کو کمپوز کرتا ہوا عمل کا ہاتھ پکڑتا اسے گاڑی میں ڈالا اور فلیٹ کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔۔


محبّت کو بھرے بازار میں رسوا کیا تونے 


اے سوداگر میرے دل کا کیا سودا کیا تو نے

 


یہ کیسی تیری خودغرضی سنی نہ دل کی عرضی 


میرے آنسو نہ دیکھے تو تیری مرضی 


تیری مرضی تیری مرضی 


تیری مرضی تیری مرضی 


یہ کیسی تیری  خودغرضی

دیا جو زخم بھی تو نے ہرا ہے وہ سلا ہی نہیں 

محبت جا  تجھے چھوڑا مجھے تجھ سے گلا نہیں 

مجھے بس دور جانا تیرے دل سے نگاہوں سے 

گزرنا ہی نہیں تیری گلیوں تیری راہوں سے 

تیری منزل جھوٹی تیرے خواب  کھوٹے 

تیرا سایہ آگے میری آواز پیچھے ہے

تیرا دل کوئی پتھر ہے میری جان اس کے نیچے ہے 

میری سانسیں مجھے دے دے  خدارا مجھے جینے دے 

میری فریاد سن لے تو کبھی میری ارضی 


اہان نے گاڑی فلیٹ پر روکی اور عمل کا ہاتھ پکڑے اندر لایا ہی تھا۔۔ کہ ہانیہ کی آواز پر اس کے قدم وہیں رک گئے۔ 

ہاں ماما آج میری زندگی کا کانٹا ہمیشہ کے ہیے نکل گیا۔ بس اللہ کرے داور اسے ہمیشہ کے لیے لے کر چلا جائے۔۔

 اگر وہ لے کر نہیں بھی گیا تو اہان عمل کو ضرور جان سے مار دے گا۔ مجھے یقین ہے۔۔

 پتہ نہیں،، فون پر آگے سے کیا کہا گیا تھا۔ ہانیہ ہنسی تھی۔ 

عمل کو تو سزا ملنی تھی ماما۔۔ اس نے مجھ سے میرا اہان جو چھینا تھا۔ 

اس کو تو اس عمل کی سزا ملی جو اس نے کیا ہی نہیں۔ اس دن عمل فون آف کرنا بھول گئی تھی۔ 

میں نے اس کی  ریکارڈنگ کو اَیڈیٹ کیا وہ تو بچاری چلا کر کہہ رہی تھی۔۔ 

میں اہان ملک کی ہوں تن من روح سے تم میرا ہاتھ بھی نہیں پکڑ سکتے۔

 یہ حق تو صرف اہان ملک کا ہے۔ 

 کیا ہوا؟ کتنا مان تھا ۔۔

 عمل کو اس محبت پر۔۔

  اور اہان ملک نے کیا کیا اس کو کہیں کا نہ چھوڑا۔

   پھر میں نے داور کی تصویریں اس کے فیس بُک پروفائل سے لیں اور انھیں اَیڈٹ کر کے اہان کو پیش کر دیں۔۔

    اور اہان جو عمل کی محبت کا دم بھرتا تھا اس کے یقین کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ ہانیہ ہنستی جا رہی تھی۔ 

اہان نے ایک دم اپنے سر کو تھاما تھا اور عمل کو دیکھا عمل کی نظروں نے اہان کو پاتال کی گہرائیوں تک گرا دیا۔ ا

س نے گھبرا کر نظریں پھیریں۔۔

 اور چلاتے ہوئے پسٹل ہانیہ پر تانی۔۔

  ہانیہ کے ہاتھ سے فون گر کر چھوٹ گیا. وہ تھر تھر کانپنے لگی اس سے پہلے وہ فائر کرتا عمل نے آگے بڑھ کر اہان سے پسٹل چھینی تھی۔ 

عمل ہٹ جاؤ اس نے مجھے برباد کر دیا.. اہان چیختے ہوئے بولا 

اہان اس نے نہیں تم نے خود کو خود برباد کیا۔ اگر تمھارا یقین پختہ ہوتا کوئی کچھ بھی کہتا.. بلکہ پوری دنیا بھی میرے خلاف کھڑی ہوتی۔۔

 تم میرے ساتھ ہوتے افسوس تم جھوٹے نکلے تمھارے وعدے جھوٹے نکلے۔۔

  تم ایک کم ظرف انسان تھے.. جسے نہ محبت کرنا آئی اور نہ نفرت۔ میں نے تو تم سے پیا ر کیا تھا۔۔ اور تم نے مجھ سے بدلہ لیا۔ لیکن آج میں تم سے نفرت کرتی ہوں بہت زیادہ نفرت۔ 

عمل وہ آگے بڑھا۔ رک جاؤ اہان ورنہ تمھیں شوٹ کر دوں گی۔ 

چلاؤ گولی عمل مجھے سزا دو۔۔

 تا کہ ان اٹکتی ہوئی سانسوں سے مجھے نجات ملے.. 

تم نے ٹھیک بددعا دی تھی۔ میں موت کی دعا مانگ رہا ہوں آج۔ پلیز عمل ایک آخری احسان کر دو مجھے موت دے دو۔ عمل میں نے تم پر ظلم نہیں۔۔بلکہ وہ خود پر کیا ہے۔۔

 وہ عمل کے قدموں میں بیٹھا ہاتھ جوڑتے ہوئے موت کی بھیک مانگ رہا تھا۔  

نہیں اہان تمھاری سزا اتنی جلدی ختم نہیں ہونی چاہیے تم روز تڑپو گے روز موت کی دعا مانگو گے۔۔

 اور تمھیں موت نہیں آئے گی۔۔ اور میرے دل کو سکون ملے گا۔ 

عمل نے کہتے ہوئے پسٹل زمین پر پھینک دیا ۔۔۔وہ مڑنے ہی لگی تھی اہان نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں زور سے تھاما اور اہان کے ناک سے خون جاری ہونے لگا۔۔ اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا۔ اہان عمل اہان کو پکارتے ہوئے اس کی طرف بڑھی۔ 

. .  *************


وہ اہان کے بیڈ کے پاس کھڑی اہان کو دیکھ رہی تھی جو پچھلے دو سال سے کومہ میں تھا۔ 

داور کو گولی دل کے پاس لگی تھی۔۔

 اور وہ بچ گیا تھا۔

 عمل کےکہنے پر داور نے اہان کو معاف کر دیا تھا۔۔ 

 ہانیہ جب اس دن وہاں سے بھاگی تو گاڑی کے نیچے آکر اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گئی تھی۔ 

اس دن وہ جب اہان کا بے ہوش وجود ہاسپیٹل میں لائی تو۔ ڈاکٹرز نے اسے بتایا۔ اہان کے دماغ میں بلڈ کلاٹنگ ہو رہی تھی۔ مگر وہ اپنا مکمل علاج نہیں کروا رہا تھا۔ کسی چیز کو اہان نے اپنے دماغ پر شدت سے سوار کیا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کے دماغ مین بلڈ کلاٹس بن رہے تھے اسی وجہ سے اہان ملک کو سر میں شدید درد اُٹھتا تھا اور کبھی کبھی ناک سے خون بہتا تھا۔ 

اس دن اہان کو سویر دورہ پڑا تھا۔۔ جس کی وجہ سے اہان کو برین ہمبریج ہوا اور وہ کومہ میں چلا گیا۔

 عمل اہان کے پاس کھڑی اہان کو سوتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ 

 اہان آپ نے صحیح کہا تھا آپ نے مجھ پر نہیں خود پر ظلم کیا تھا۔ مجھے اذیت دے کر آپ خود کو اذیت دیتے تھے۔ کیوں اہان کیوں؟ صرف مجھے ہی اذیت دیتے ناں خود کو کیوں دی۔ عمل اہان کے بیڈ کے پاس کھڑی شکوہ کر رہی تھی۔ 

پھر عمل نے جھک کر ٹشو سے اہان کے آنسو صاف کیے۔ جو اہان ملک کی بند آنکھوں سے اکثر بہتے تھے۔ جب جب وہ اس کے پاس ہوتی اہان کی آنکھوں سے آنسو جاری رہتے۔ 

ڈاکٹرز کے مطابق اہان کا دماغ زندگی کی طرف لوٹنا ہی نہیں چاہتا تھا ۔۔

اہان کو لگتا ہے کہ جیسے ہی وہ جاگے گا جو وہ محسوس کر رہا ہے وہ اس سے دور چلا جائے گا۔ 

پچھلے دو سالوں سے اہان ملک بے حس و حرکت مشینوں میں جکڑا بستر پر پڑا تھا۔ عمل اسے کب کا معاف کر چکی تھی۔۔

 بلکہ بہت دفعہ اہان سے کہہ بھی چکی تھی اہان میں نے آپ کو معاف کیا۔۔ پلیز واپس آ جائیں۔ جس پر اہان کی بند آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ یقینا وہ اسے سنتا تھا۔

 آج عمل کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اہان کو ایسے آنسو بہاتا دیکھ کر عمل ایک دم بیڑ پر بیٹھ کر اہان کے سینے سے لگ کر رونے لگی۔۔

  پلیز اہان آپ کی عمل کو آپ کی ضرورت ہے ..

  واپس آجائیں۔ اس سے پہلے آپ کی عمل ٹوٹ جائے۔ آپ سے بہت دور چلی جائے چاہ کر بھی آپ کے پاس لوٹ نہ سکے ..

  پلیز اہان مجھے وہ وقت یاد آتا ہے۔۔

   جب آپ مجھے کانچ کی گڑیا کی طرح رکھتے تھے۔۔

   میں تو بھول گئی ہوں وہ وقت جب آپ نے مجھ پر ظلم کیا تھا۔۔

   مجھے تو صرف آپ کے ساتھ گزارا ہوا اچھا وقت یاد ہے.

   آپ بھی بھول جائیں پلیز.. اہان ..

  عمل  بلک بلک کر رو پڑی۔ 

 اسے محسوس ہوا جیسے اہان نے حرکت کی ہے۔۔ عمل نے ایک دم سے اُٹھ کر دیکھا. اسے اہان کے ہاتھوں کی انگلیون میں حرکت محسوس ہوئی وہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہان ملک کو ہوش آ چکا تھا۔ تین مہینوں کی انتھک محنت سے اہان اُٹھ کر بیٹھنے لگا تھا۔ عمل اس کا ہر چھوٹے سے چھوٹا کام کرتی تھی اس کو ایکسر سائز کرواتی، اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی۔ 

ابھی بھی وہ اہان ملک کو سوپ پلا رہی تھی۔۔

 سوپ بلاتے پلاتے اس نے ٹشو سے اہان کے آنسو صاف کیے ابھی بھی وہ آنسو بہاتا تھا۔۔

 فرق صرف یہ تھا پہلے وہ بند آنکھوں سے آنسو بہاتا تھا اب وہ کھلی آنکھوں سے۔ اہان بہت کم بات کرتا تھا صرف عمل کی باتوں پر ہوں ہاں میں جواب دیتا۔ 

پتہ ہے اہان ۔۔میری سٹڈی کمپلیٹ نہیں ہوئی ابھی کتنے سمیسٹر رہتے ہیں۔

 اب میں سوچ رہی ہوں۔۔ جب آپ بلکل ٹھیک ہو جائیں گے۔۔

  میں ایڈمیشن لے لوں ۔۔پتا ہے میں نے ایڈمیشن کیوں نہیں لیا ۔

    میرا باڈی گارڈ جو نہیں تھا میرے ساتھ۔ اگر مجھے کسی نے پرپوز کر دیا تو۔ 

عمل اہان کو دیکھتے ہوئے شرارت سے بولی۔ عمل نے سوپ کا باؤل سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہی تھا۔۔

 اہان ایک دم سے عمل کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈالے اس کے سینے سے لپٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا۔۔

 عمل مٰیں تمھارا محافظ نہیں تھا۔۔

 میں تو تمھارا ستمگر تھا۔ 

 کیا کیا ظلم نہیں کیا میں نے تم پر۔

 تم مجھے چھوڑ کر کیوں نہیں گئی۔  

 کیوں مجھے معاف کیا؟  میرا گناہ معافی کے تو  لائق نہیں تھا۔ 

  دیکھو عمل مجھے دیکھو میں عبرت کا نشان ہوں۔

 میں اپنی مردانگی کے زوم میں تم پر ظلم کرتا تھا۔۔ اپنی طاقت پر اکڑتا تھا۔ 

 اور خدا نے مجھے تمھارا محتاج بنا دیا۔ تم سچ کہتی تھی خدا نے میری رسی دراز کر رکھی تھی۔۔

  دیکھو جب اس نے میری رسی کھینچی۔۔

 میں منہ کے بل گرا  عمل میں کبھی بھی تم پر ظلم کر کے خوش نہیں رہا۔۔د کوئی اپنی زندگی کو اپنی ہاتھوں سے اذیت دے وہ کہاں چین و سکون میں رہ سکتا ہے وہ بچوں کی طرح عمل سے لپٹا رو رہا تھا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل پورا ناشتہ کمپلیٹ کرو..

 اہان عمل سے بولا جو ناشتہ کرتے ہوئے منہ بنا رہی تھی۔ اہان مجھے ومیٹ ہو جائے گی۔ عمل منہ بسورتے ہوئے بولی۔ نہیں ہو گی ومیٹ۔ ناشتہ ختم کرو۔ 

اہان آپ چاہتے ہیں  میں موٹی ہو جاؤں تا کہ آپ کا پیار کم ہو جائے۔ عمل روہانسی ہوئی۔ 

ارے میری جان میرا پیار تمھارے لیے کبھی کم نہیں ہو سکتا۔۔ چاہے تم بہت موٹی ہو جاؤ۔ اور ویسے بھی ڈاکٹر نےکہا ہے یہ پریگنینسی کی وجہ سے ہے۔۔

 بعد میں خود ہی کم ہو جائے گا۔ وہ پیار سے عمل کے سراپے پر نظریں دوڑاتے ہوئے بولا۔ عمل کا لاسٹ منتھ چل رہا تھا اور عمل کے ہاں ٹرپلیٹس کی آمد تھی جس کی وجہ سے عمل کا پیٹ تھوڑا زیادہ بڑا تھا اور باقی جسم کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا ..

 مگر عمل اپنے ویٹ کو لے کر اکثر پریشان رہتی۔ 

 اہان اب بچوں کے پیدا ہونے کے بعد کہیں ان سے تو زیاہ پیار نہیں کریں گے.. عمل کو نئی پریشانی ہوئی۔

  ارے مائی ڈیئر وائف! میرے لیے سب سے اہم تم ہو..

   تم سب سے پہلے باقی بعد میں۔  

اہان میں بتا رہی ہوں میں بچوں کے لیے راتوں کو نہیں جاگوں گی۔ عمل ہنوز اٹھلاتے ہوئے بولی۔ 

اہان اس کی بات پر ہنسا تھا۔۔ اوکے میری جان بیٹیوں کو میں سنبھالوں گا تم صرف بیٹے کو دیکھنا..

 عمل کے ہاں دو بیٹیاں ایک ایک بیٹے کی آمد تھی۔ 

 تو بیٹے کو بھی آپ ہی سنبھال لینا۔ سب نے مجھے پیٹ میں اتنا ستایا ہوا ہے پتہ نہیں باہر آ کر کیا کریں گے۔ عمل منہ پھلائے بولی۔ 

اوکے میری جان سب کچھ ہو جائے گا۔۔

 تم فکر نہ کرو بس اپنی کیئر کرو ۔۔اہان اس کے گال پر پیار سے ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

ملازمہ چائے لے کر آئی تھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔اہان ملک نے گہری سانس بھر کر دیکھا تھا۔ اب تو گھر کے ہر ملازم کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ 

اہان کیا ہوا کیا سوچ رہے ہیں ۔۔

عمل تھوڑا ملازموں کا خیال رکھا کرو یار۔۔

 یہ باتیں بیڈ روم میں بھی ہو سکتی ہیں۔

  اہان آپ کا پیار کم ہو گیا ہے۔۔

 اپ کو ملازموں کی فکر ہے آپ نے تو کہا تھا۔۔

   آپ میری غلامی کریں گے۔ میری ہر بات مانیں گے۔۔

عمل کی بات پر اہان ملک نے گہرا سانس لیا

  وہ وقتا فوکتا اسے یہ بات یاد دلاتی رہتی۔ 

اچھا ناشتہ ختم کرو عمل۔۔

 اہان کے بولنے پر عمل نے چیخ ماری۔ کیا ہوا عمل اہان مجھے لگتا ہے ٹائم آگیا ہے۔ اہان ایک دم سے اُٹھا اور مسکراتے ہوئے عمل کے ماتھے پر پیار کیا۔۔

 اہان مجھے درد ہو رہا ہے۔۔

  اور آپ کو رومینس سوجھ رہا ہے عمل چیخی تھی۔ عمل بس میں گاڑی نکال رہا ہوں میری جان۔۔ اہان نے جلدی سے ڈرائیور کو کال کی۔۔ گاڑی سٹارٹ کرنے کا حکم دیا۔ 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمل ہاسپیٹل میں بیڈ سے ٹیک لگائے آنکھیں موندھی بیٹھی تھی سب بچوں کو آ کر دیکھ چکے تھے۔ نتاشہ اور رحمان نے تو لاکھوں روپے وار دیے تھے۔۔

 اور مہناز بیگم کا تو بس نہیں چل رہا تھا اپنی جان ہی وار دیتی عمل کے بچوں پر ۔۔ 

عمل اہان کا انتظار کر رہی تھی۔ 

وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ 

دروازہ کھلنے کی اواز پر عمل نے دیکھا۔۔

 اہان بھیگی آنکھوں سے اس کی طرف بڑھا ۔

 اور جھک کر عمل کے ماتھے پر پیار کیا۔۔

  شکریہ ڈیئر وائف۔۔ اتنے پیارے تحفے دینے کا۔

  عمل مسکرائی۔ اہان کے لمس پر۔ آپ نے تو دیکھے نہیں پھر آپ کو کیسے پتہ وہ پیارے ہیں ۔۔

  میری عمل کے ہیں تو یقینا عمل کی طرح پیارے ہوں گے۔۔

   اور ویسے بھی مجھے کسی نے کہا تھا کہ بچوں کے آنے کے بعد میرا پیارکم  تو نہیں ہو جائے گا۔ 

  اس لیے پہلے تمھارے پاس آیا ہوں۔ اہان کہتے ہوئے کاٹ کی طرف گیا جہاں گلابی ڈریس میں اس کی بیٹیاں سو رہی تھیں اور بلو ڈریس میں اس کا بیٹا۔ 

اہان نے باری باری دونوں بیٹیوں کو اٹھا کر پیار کیا۔۔

 انھیں پسند نہیں آیا تھا شاید اس لیے وہ رونے لگ گئیں۔ عمل ان کی آنکھیں تو بلو ہیں اہان حیران ہوا۔ صرف آنکھیں ہی بلو ہیں۔۔ 

 باقی  ساری آپ پر گئیں ہیں۔۔

  انھیں تو نیند ہی نہیں آتی۔۔

  آپ کی طرح راتوں کو جاگیں گی ۔۔مجھے لگتا ہے۔۔

   اہان مسکرایا۔تھا۔ 

   میں تو تمھیں پیار کرنے کے لیے جاگتا ہوں۔ 

   اہان نے عمل کو دیکھتے ہوئے آنکھ ونک کی۔ 

  عمل سرخ ہوئی تھی اہان کی بات پر۔

   اہان نے بیٹے کو اٹھایا وہ ویسے ہی سویا ہوا تھا۔ اہان نے اس کو لٹا کر،،، بڑی مشکل سے  بیٹیوں کو سلایا ۔۔جو ابھی بھی رونے میں مصروف تھیں۔۔ اور عمل کے پاس آیا۔ 

عمل میں بہت خوش ہوں آج۔

 اہان نے عمل کے ہاتھ پکڑے بولا ۔میری زندگی کی ہر خوشی تم سے ہے۔ عمل کو اپنے ہاتھوں پر اہان کے آنسو گرتے ہوئے محسوس ہوئے۔

 عمل تڑپ اٹھی پلیز اہان بھول جائیں وہ سب کچھ۔ 

 عمل کیسے بھول سکتا ہوں۔ یہ پچھتاوہ تو ساری زندگی میرے ساتھ رہے گا۔ جس سے سب سے زیادہ پیار کیا۔۔

 اس کا اعتبار نہیں کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ قاتل بھی میں تھا اور مقتول بھی میں۔ وہ استھزائیہ خود پر ہنسا۔ 

عمل کے گالوں پر بہتے آنسو دیکھ کر اہان نے اپنے لبوں سے اس کے انسو چُنے۔ 

عمل تم مجھے روتی ہوئی اچھی نہیں لگتی۔ 

تو پھر آپ وعدہ کریں آپ کبھی آنسو نہیں بہائیں گے۔ ہر وعدہ کر سکتا ہوں مگر یہ نہیں۔ اہان کہتے ہوئے اپنے بچوں کی طرف گیا عمل نے آنکھیں موندلی تھیں۔ 

اہان نے ایک نظر عمل کو دیکھا تھا جو اس کی کُل کائنات تھی اور پھر اپنے بچوں کو اہان کا سر بے اختیار سجدے مٰیں چلا گیا۔ 

اللہ سچ میں تُو رحیم ہے تو رحمان ہے۔ جس نے مجھ جیسے ظالم کو معاف کر دیا۔ جس نے مجھے میری زندگی پھر سے دے دی۔ اہان سجدے میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔۔۔


********""