Teri Dhaleez Janat hai Complete Novel by Writer Ayesha Zulfiqar - UrduKahaniyanpdf


#تیری دہلیز جنت ہے 

#عائشہ ذوالفقار 

پہلی قسط


تیری دہلیز جنت ہے


عائشہ ذوالفقار 


مکمل ناول (پہلی قسط) 


وہ آج فارس انٹرپرائزرز میں پرسنل سیکرٹری کی جاب کے لئے انٹرویو دینے آئی تھی,  وہاں آ کر پتہ چلا کہ مسٹر حنان فارس آج ذرا دیر سے آئیں گے سو...انتظار فرمائیے 

ایک لمبا سانس بھرتے ہوئے وہ ایک طرف پڑے بنچوں پر گر گئی,  دھیرے دھیرے لڑکیوں کا رش بڑھنا شروع ہو گیا تھا,  ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور سٹائلش لڑکیوں کو دیکھ دیکھ کر اس کا کانفیڈینس گرنا شروع ہو گیا,  وہ نہ تو خوبصورت تھی اور نہ ہی اس نے خوبصورت نظر آنے کی کوشش کی تھی 

نیلی جینز پر کڑھائی والی سیاہ رنگ کی کرتا نما شرٹ اور گلے میں پڑا ہوا پھندا نما دوپٹہ... بالوں کی اونچی سی پونی اور ہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک...  جو حنان فارس کے آنے تک اس نے لبوں پر زبان پھیر پھیر کر آدھی سے زیادہ چٹ کر لی,  تقریباً بارہ بجے کے قریب وہ اپنی لمبی سی گاڑی میں تشریف لایا اور آتے ہی انٹرویوز شروع کر دئیے,  اس نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے اپنے آپ کو پھر سے زندہ کیا تھا 

"مس فاکہہ حنیف...! " حنان کے پی اے نے اس کا نام پکارا تھا,  وہ اپنی فائل اٹھاتے ہوئے کھڑی ہو گئی 

"مے آئی کم ان سر... ؟" اس نے دروازہ کھولتے ہوئے اجازت طلب کی 

"جی مس فاکہہ... تشریف لائیں" اس نے بڑے پروفیشنل سے انداز سے کہا,  وہ اندر آ گئی 

"بیٹھیں پلیز... " حنان نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا, وہ شکریہ کہتے ہوئے اس کے عین سامنے بیٹھ گئی, اس کی سی وی پہلے ہی اس کی میز پر موجود تھی 

"خود کو تھوڑا انٹروڈیوس کروائیں پلیز " حنان نے ایک نظر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

"میرا نام فاکہہ حنیف ہے اور میں نے ایف سی سے کمپیوٹر سائنس میں بی ایس کیا ہے..." وہ کہتی چلی گئی 

"کوئی ورک ایکسپئیرنس ؟" اس نے پوچھا 

"سر میں فی الحال انٹر لوپ میں سینئر کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر جاب کر رہی ہوں " اس نے کہا

"آپ کا اکیڈمک ریکارڈ تو کافی امپریسیو ہے,  ورک ایکسپئیرنس بھی اچھا ہے,  لیکن پرسنل سیکرٹری کے طور پر آپ کا یونیفارم بلیک پینٹ,  وائیٹ شرٹ اور بلیک کوٹ ہو گا... کیا آپ پہن لیں گی؟" حنان نے پوچھا تھا,  بلیک پینٹ تک تو اسے کوئی ایشو نہیں تھا,  وہ اس وقت بھی جینز پہنے ہوئے تھی,  کوٹ بھی پہن ہی لیتی... لیکن وائیٹ شرٹ ؟

"سر میں لانگ شرٹ پہن لوں گی " اس نے کہا

"چلیں ٹھیک ہے... کورٹ کے ساتھ دوپٹہ نہیں چلے گا" حنان نے پھر کہا,  وہ ایک دم بدک گئی 

"دوپٹہ میں نے ضرور لینا ہے... " وہ ذرا تیزی سے بول گئی,  حنان نے ایک دم اس کی طرف دیکھا

"میرا مطلب ہے کہ میں دوپٹے کے بغیر نہیں آ سکتی...سوری " اس نے حنان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 

"چلیں ٹھیک ہے,  آپ جا سکتی ہیں,  اگر آپ اہل ہوئیں تو آپ کو کال کر دیں گے" حنان نے اس کی سی وی بند کرتے ہوئے کہا تھا,  وہ ایک بار پھر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل آئی

"میرا نہیں خیال کہ تجھے یہ جاب ملے گی فاکہہ... ؟" اس نے باہر آتے ہوئے سوچا 

"نہیں تو نا سہی...میں تو کبھی نہ آؤں دوپٹے کے بنا" وہ اپنی طرف سے اس نوکری کو لات مارتی ہوئی گھر واپس آ گئی,  وہاں ایک نیا ڈرامہ شروع تھا

"پھپھو آئی ہوئی ہیں ؟" اس نے کچن میں داخل ہوتے ہوۓ چاۓ بناتی راکعہ سے پوچھا 

"جی... بمعہ اپنے اکلوتے فرزند کے " راکعہ نے ہنستے ہوئے کہا

"ابھی پرسوں تو ہو کر گئیں تھیں " اس نے بیزاری سے کہا

"میر خیال ہے وہ آج کسی خاص مشن پر آئی ہیں" راکعہ نے اندازہ لگایا 

"کیسا مشن ؟" وہ چونک گئی 

"تجھ کو ہی دلہن بناؤں گا.. ورنہ کنوارہ مر جاؤں گا" راکعہ گنگناتی ہوئی چاۓ لیکر باہر نکل گئی,  اس نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے منہ دھویا اور بالوں میں کنگھا پھیرتے ہوئے ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئی,  بآواز بلند اس نے سب کو سلام کیا تھا,  رقیہ پھپھو نے بڑے پیار سے اسے گلے لگا کر اس کا ماتھا چوما, شیراز اس کی طرف دیکھتے ہوئے دھیما دھیما مسکرا رہا تھا 

"کیسا ہوا تیرا انٹرویو ؟" انہوں نے اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے پوچھا 

"بس ٹھیک ہو گیا... " اس نے کہا

"چل کوئی نہیں,  ویسے بھی تجھے اب نوکری کی کیا ضرورت... شیراز کو ایک فوٹو شوٹ کا کنٹریکٹ مل گیا ہے" وہ بہت خوش تھیں

"مبارک ہو بہت بہت... " وہ شیراز کی مسلسل مسکراتی انتہائی دلکش آنکھوں کی تاب نہیں لا پا رہی تھی 

"تجھے بھی بہت مبارک ہو,  قدسیہ... بس اب مجھے تاریخ دے دے,  میں آج تاریخ لیکر ہی جاؤں گی" وہ اصل مدعے پر آگئیں 

"یہ میرے پاس تمہاری امانت ہے رقیہ... جب دل کرے لے جانا " قدسیہ نے مسکرا کر کہا ت

"بس تو پھر ٹھیک ہے,  انعم کے سسرال والے بھی شادی جلدی کرنے کا کہہ رہے ہیں,  میں ان سے بات کر کے تاریخ طے کر لیتی ہوں,  انعم کی بارات آۓ گی اور شیراز کا ولیمہ ہو جاۓ گا" رقیہ کہتی چلی گئیں 

"جیسے تم بہتر سمجھو رقیہ... " قدسیہ ہر طرح سے راضی تھیں

"لے میری رانی... منہ میٹھا کر,  تم دونوں میرے اکلوتے بھائی کی آخری نشانیاں ہو,  اللہ تم دونوں کو ہمیشہ آباد رکھے" انہوں نے برفی کی ڈلی اس کے منہ میں ڈالتے ہوئے دعا دی تھی,  وہ بس ایک لمبی سانس بھر کر رہ گئی 

..................................

وہ تینوں نفوس شام کی چاۓ سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب حاتم قریشی اصل بات کی طرف آۓ

"اب تک تمہارے کتنے شوٹ ہو چکے ہیں رشا... ؟" انہوں نے پوچھا 

"ڈیڈ تین ہو چکے ہیں... سپر ہٹ... آجکل میں چوتھا سٹارٹ ہو جاۓ گا " رشا کی اداؤں کے کیا ہی کہنے تھے 

"یعنی بی بی اے مکمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے" انہوں نے پھر پوچھا 

"ڈیڈ... مجھے ایک فوٹو شوٹ کے کئی کئی لاکھ روپے ملتے ہیں,  پھر کیا ضرورت ہے مجھے بی بی اے مکمل کرنے کی...؟" اس کا دل اچاٹ ہو چکا تھا پڑھائی سے

"میں نے سوچا تھا کہ تمہارا بی بی اے مکمل ہو جاۓ گا تو تم کمپنی سنبھال لو گی,  آہستہ آہستہ سب کچھ سیکھ جاؤ گی اور میں ایک دن سب کچھ تمہیں سونپ کر خود چین کی بین بجاؤں گا" وہ کہتے چلے گئے 

"ڈیڈ... مجھ سے نہیں ہوتا آپ کی طرح اتنا کام... میں جو کر رہی ہوں وہی ٹھیک ہے" رشا نے کہا

"پھر ایسا کرو...پہلے شادی کر لو اور اپنے شوہر کی مرضی سے جو چاہے کرتی رہو" انہوں نے اس کے سر پر دھماکہ کر ہی دیا

"کیا مطلب ؟" وہ سمجھ نہ پائی

"دیکھو رشا... میں اور تمہاری ماں کوئی اپر کلاس کے انتہائی کھلے ڈلے ذہن کے لوگ نہیں ہیں, میں جب اوکاڑہ کے ایک گاؤں سے اٹھ کر اس کمپنی میں ایک معمولی سے کلرک کی نوکری کرنے آیا تھا تو میری جیب میں پورے ایک ہزار روپے بھی نہیں تھے,  بس ٹھان کر آیا تھا کہ محنت کرنی ہے... اور میں نے کی,  تمہاری ماں سے شادی ہو گئی تو اسے بھی لاہور لے آیا,  دھیرے دھیرے خدا نے ایسا بھرا کہ سمیٹنے کو جگہ نہ رہی, آج اس پروردگار کا دیا سب کچھ ہے میرے پاس... دولت,  شہرت,  عزت... سب کچھ,  اور میں چاہتا ہوں کہ میری یہ برسوں کی کمائی ہوئی عزت یونہی سلامت رہے,  تم جو کر رہی ہو مجھے یہ شروع دن سے ہی ناپسند ہے.. ایک ماڈل کو لوگ صرف رشک اور ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہیں,  عزت بھری نظروں سے نہیں... میں صرف تمہاری ضد کے ہاتھوں مجبور ہو گیا" وہ کہتے جا رہے تھے 

"ڈیڈ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟" رشا تنگ آ گئی 

"میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ماڈلنگ سے اگلی چھلانگ مارنے سے پہلے شادی کر لو... " انہوں نے کہا

"ڈیڈ... شادی شدہ لڑکیوں کے لئے شوبز میں کوئی جگہ نہیں ہوتی,  اور جب آپ میرے باپ ہو کر مجھے میری مرضی کا کام نہیں کرنے دے رہے تو ایک پرایا شخص کیسے کر لینے دے گا ؟" رشا نے کہا

"میری بلا سے نہ کرنے دے...میں بس اپنے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں" انہوں نے کہا

"چاہے میری زندگی داؤ پر لگ جاۓ" رشا بھڑک اٹھی 

"شادی کر لینے سے کسی کی زندگی داؤ پر نہیں لگتی رشا... حاتم ٹھیک کہہ رہے ہیں,  شوبز میں کام کرنے والی لڑکیوں کو اچھے رشتے نہیں ملتے,  انہیں کوئی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا,  ویسے بھی تم بائیس سال کی ہو گئی ہو,  پہلے شادی کر لو,  اس کے بعد اپنے شوہر کو راضی کر کہ جو مرضی کرتی رہنا" نورین نے شوہر کی طرفداری کی تھی

"مام پلیز... میرے ساتھ بچوں جیسی باتیں نہ کریں,  آپ ماں باپ ہو کر میرے وجہ سے اتنے انسیکیور ہو رہے ہیں تو سوچیں کہ شوہر نامی وہ اجنبی شخص کیا کرے گا میرے ساتھ... ؟ وہ تو مجھے گھر سے نکلنے ہی نہیں دے گا" اسے غصہ آ گیا

"میں تمہارے لئے کسی لبرل فیملی کا رشتہ تلاش کر لیتا ہوں,  ہم تمہاری ماڈلنگ والی شرط پہلے ہی ان کے سامنے رکھ... " رشا نے ان کی بات کاٹ دی

"ڈیڈ... مام... پلیز,  مجھے نہیں کرنی ابھی شادی,  اگر میری وجہ سے آپ لوگوں کی عزت پر حرف آتا ہے تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہوں" اس نے ببانگ دہل کہہ دیا, وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے,  تبھی بیرونی دروازہ کھلا اور حنان کی گاڑی اندر داخل ہوئی 

"وہ آ گیا میرا وکیل... اب وہ خود ہی لڑ لے گا میرا کیس ؟" رشا بڑے جوش سے اپنی کرسی سے اٹھی تھی,  حنان گاڑی لاک کرتے ہوئے ان کی طرف ہی آ گیا

"حنان... دیکھو نا ڈیڈ کیسے ٹارچر کر رہے ہیں مجھے ؟" وہ زور سے حنان کے ساتھ لگی تھی اور حنان فارس... اس کا دل ایک اور دفعہ ڈانواں ڈول ہو گیا تھا,  وہ اپنا ایک بازو اس کے نرم و نازک کندھوں کے گرد لپیٹتے ہوۓ حاتم قریشی اور نورین قریشی کی طرف آ گیا

"کیسا ہے میرا پتر ؟" حاتم قریشی اسے ہمیشہ ہی بہت فخر سے دیکھا کرتے تھے 

"میں بالکل ٹھیک ہوں ماموں جان... آپ دونوں کیسے ہیں ؟" وہ ان سے گلے مل کر,  نورین سے پیار لیتا ہوا کرسی پر بیٹھ گیا,  نورین اس کے لئے چاۓ بنانے لگیں

"شکر ہے خدا کا... سب ٹھیک ہے" حاتم قریشی نے کہا

"اس بیچاری کو کیوں ٹارچر کر رہے ہیں آپ دونوں ؟" اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا 

"اسے ٹارچر کر کہ کئی ہزار نفلوں کا ثواب جو ملتا ہے ہمیں.. " نورین نے کہا

"حنان یہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ شادی کرو... بھلا میں ابھی سے کیوں شادی کر لوں ؟" وہ تڑخ گئی, نورین نے سارا ماجرا اسے کہہ سنایا

"ایسا کرو... اپنے جیسے کسی ماڈل سے ہی کر لو,  اسے تمہارے شوبز میں کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا" حنان نے ایک نئی پھلجھڑی چھوڑ دی

"میں لو میرج کروں گی... جب لو ہوا تو... " رشا نے ایک نیا اعتراض جڑ دیا

"تو کر لو کسی سے پیار... شوبز میں تو بہت خوبصورت لوگ ہوتے ہیں,  ایک سے بڑھ کر ایک چاکلیٹ بوائز" حنان نے کہا

"تم میرے ساتھ ہو یا ان دونوں کے ساتھ ؟" وہ بھڑک گئی 

"یار میں ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہوں... تمہیں پتہ تو ہے" حنان کو ہنسی آ گئی 

"اچھا چھوڑو... اتنے دنوں بعد آیا ہے بیچارہ بچہ... سکون سے دو گھڑی بیٹھ لینے دو اسے" نورین نے اسے ڈپٹا, وہ برا سا منہ بنا کر چپ ہو گئی

"تیرا کام کیسا جا رہا ہے حنان ؟" انہوں نے پوچھا 

"ارے اس سے کیا پوچھ رہی ہو مجھ سے پوچھو... آجکل پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے اس کا... مسٹر حنان فارس... دی ایمرجنگ سٹار" حاتم قریشی کہتے چلے گئے 

"یہ سب آپ کی مدد اور دعاؤں کی بدولت ہے ماموں جان... " حنان نے کہا

"اللہ ہمیشہ کامیابیاں دے,  کھانا کھا کر جانا اب... " نورین نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا

..................

کل اسے شوٹنگ کے لئے کراچی جانا تھا,  رات کا کھانا کھا کر وہ اپنے کمرے میں آ گیا,  رقیہ نے انعم کے سسرال والوں سے بات کر کہ اس کی اور فاکہہ کی شادی کی تاریخ طے کر دی تھی,  اس کے کراچی سے واپس آنے کے چند دن بعد ان دونوں کا نکاح تھا,  اب بھی اس نے اپنا سیل اٹھایا اور فاکہہ کا نمبر ملا لیا,  وہ رات کا کھانا کھا کر چاۓ بنا رہی تھی 

"کیا کر رہی ہو ؟" اس نے پوچھا 

"آپ کو یاد کر رہی ہوں " فاکہہ کو ہنسی آ گئی 

"ہاں مجھے پتہ ہے تم مجھے کتنا یاد کرتی ہو " شیراز کو اس کے لحجے کی شرارت واضح محسوس ہو گئی تھی 

"میں آپ کو ہر ہر پل یاد کرتی ہوں شیراز... آپ کو کیا پتہ ؟" اس نے بڑے پیار سے کہا تھا 

"مبارک ہو... تمہاری جاب ہو گئی" شیراز نے کہا

"شکریہ" فاکہہ نے کہا

"کب جا رہے ہیں آپ کراچی ؟" اس نے پوچھا 

"پرسوں صبح " شیراز نے کہا

"بس اپنے کام سے کام رکھییے گا اچھا... " فاکہہ نے کہا

"تمہیں پتہ بھی ہے میرا کام کیا ہے... ؟" شیراز ہنسا

"ہروقت خوبصورت لڑکیوں میں گھرے رہنا..." اب کے شرارت وہ کر رہا تھا 

"میں پوری طرح اپنے کام سے کام رکھوں گا ڈارلنگ..." وہ مسلسل ہنس رہا تھا 

"اب آپ یہ چاہ رہے ہیں کہ میں کلس کر کال کاٹ دوں, ہیں نا ؟" فاکہہ نے کہا

"اپنی دفعہ مذاق برداشت ہی نہیں کرتی ہو " شیراز نے کہا

"خیر سے جانا... گڈ نائیٹ" فاکہہ نے دھیرے سے کہتے ہوئے کال کاٹ دی تھی 

........................

وہ آج فارس انٹرپرائزرز میں جوائیننگ کے لئے آئی تھی,  دو دن پہلے ہی اسے سلیکشن کال آ گئی تھی,  کل اس نے انٹرلوپ کو خیر باد کہا اور آج فارس انٹرپرائزرز چلی آئی,  خلاف معمول حنان نے اسے جلد ہی اندر بلوا لیا

"تشریف رکھیں مس فاکہہ... " وہ بولا,  فاکہہ شکریہ کہتے ہوۓ بیٹھ گئی 

"آپ چاہیں تو لانگ شرٹ کے ساتھ دوپٹہ لے سکتی ہیں,  میرے لئے ظاہری نمود و نمائش کبھی بھی اہم نہیں رہی... ہمیشہ ٹیلنٹ اہم رہا ہے,  وقت کی پابندی کیجئے گا اور اپنے کام سے محبت کیجئے گا" حنان نے اس کی سی وی پہ سائن کرتے ہوئے کہا تھا 

"شکریہ سر... انشاءاللہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا" فاکہہ نے کہا

"ٹھیک ہے,  آپ شاہد صاحب سے مل لیں,  وہ آپ کو سب کچھ سمجھا دیں گے" حنان نے کہا,  وہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور چند ہی دنوں میں اس نے حنان کو اپنے کام سے پوری طرح مطمئن کر دیا تھا 

................................

صبح تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا جب وہ اپنے ہوٹل سے شوٹنگ سائیٹ پر پہنچا,  تقریباً سبھی لوگ اس سے پہلے پہنچ چکے تھے,  فوٹو گرافر نے فوراً اسے ریڈی ہونے کو کہا,  کچھ ہی دیر بعد رشا بھی پہنچ گئی,  کیپری ٹائیٹس کے ساتھ انتہائی چست ٹی شرٹ پہنے,  آنکھوں پر سن گلاسز لگاۓ,  بازو میں بیگ لٹکاۓ وہ ایک پرفیکٹ سپر ماڈل تھی,  شیراز کافی دیر تک اس پر سے نظریں نہ ہٹا سکا

"کیا ہوا ؟ ہوش اڑ گئے ؟" میک اپ میں نے مسکرا کر کہا تھا 

"میرے خیال سے وہ ہوش اڑانے ہی تو آئی ہے" شیراز نے کہا

"تمہارا پہلا شوٹ ہے ؟" اس نے پوچھا,  شیراز نے اثبات میں سر ہلا دیا

"شادی شدہ ہو ؟" اس نے پھر پوچھا,  شیراز فوری طور پر جواب نہ دے سکا

"اگر شادی شدہ ہو تو شوبز میں تمہارے کوئی جگہ نہیں ہے" میک اپ مین نے کہا

"نہیں... سنگل ہوں " شیراز نے کہا

"وہ جو ہوش اڑانے آئی ہے نا... بس اسے قابو میں رکھنا, حاتم قریشی کی بیٹی ہے وہ... شوبز کی شہزادی,  دیکھنا کیسے تمہیں دنوں میں آسمانوں تک لے جاۓ گی" میک اپ مین کہتا چلا گیا تھا , شیراز نے ایک بار پھر نظر بھر کر رشا کو دیکھا تھا

"اور شادی مت کرنا... " اس نے شیراز کو ریڈی کر دیا تھا 

.........................

رشا اور شیراز پندرہ دن کراچی میں رکے رہے,  اس دوران وہ رشا سے اچھا خاصا فری ہو گیا, رشا نے بھی اس کی کمپنی کافی انجوائے کی تھی,  شیراز اچھی خاصی پر کشش اور سحرانگیز شخصیت کا مالک تھا تبھی تو شوبز جیسے پروفیشن میں گھس آیا تھا,  پندرہ دن بعد وہ دونوں ایک دوسرے کے فون نمبر لیکر لاہور واپس آ گئے,  ان کی واپسی کے ایک ہفتے بعد وہ شوٹ لانچ ہو گیا

رشا تو پہلے ہی سپر ماڈل تھی,  شیراز کی صحیح معنوں میں دھومیں مچ گئیں,  اس کے فوٹو جینک چہرے کےلئے آفرز کی لائن لگ گئی, ایک کے بعد ایک کمرشلز, فوٹو شوٹس,  شارٹ ویڈیوز,  میوزیکل البمز... وہ ایک دم ہی سلیبرٹی بن گیا, اس دن بھی وہ رقیہ اور انعم کے ساتھ بیٹھا رات کا کھانا کھا رہا تھا جب رقیہ نے س کی شادی کی بات چھیڑ دی

"بس میں اب کل یا پرسوں جا کر تیری اور فاکہہ کی شادی کی تاریخ طے کر آتی ہوں,  پہلے دن تیری بارات لے جائیں گے اور اگلے دن انعم کی بارات آۓ گی اور ساتھ تیرا ولیمہ ہو جاۓ گا,  ٹھیک ہے نا شیراز... ؟" وہ س سے پوچھ رہی تھیں 

"امی اگر آپ مناسب سمجھیں تو میری شادی کچھ دیر کے لئے ملتوی... " اس نے ہلکا سا احتجاج کرنا چاہا تھا 

"شیراز... ابھی تو ایک شوٹ کر کے آیا ہے اور مجھے شادی ملتوی کرنے کا کہنے لگا ہے,  کل کو جب پانچ,  دس شوٹ کر لے گا تو آ کر کہے گا شادی سے انکار ہی کر دیں" رقیہ کو اس کی بات سن کر بہت دکھ ہوا تھا 

"امی میں نے ایسا تو نہیں کہا... " وہ شرمندہ ہو گیا

"میں تو بس تھوڑا وقت چاہ رہا تھا... " اس نے سر جھکا کر کہا

"کتنا وقت... ؟" رقیہ نے پوچھا, وہ بول نہ سکا

"شیراز تو جتنا مرضی وقت لے لے بیٹا... لیکن بس مجھے اس بات کی ضمانت دے دے کہ آخر میں تو شادی فاکہہ سے ہی کرے گا" انہوں نے کہا

"اچھا امی سوری,  آپ جیسے کہیں گی ویسا ہی ہو گا" اس نے ذرا بیزار سا ہو کر کہا تھا, رقیہ اور انعم ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئیں 

اور اگلے ہی دن قدسیہ کی طرف جا کر وہ شیراز اور فاکہہ کی شادی کی تاریخ طے کر آئیں تھیں 


جاری ہے

#تیری دہلیز جنت ہے 

#عائشہ ذوالفقار 

دوسری قسط 


"سر میں اندر آ سکتی ہوں ؟" اس نے حنان کے کیبن کا دروازہ ناک کرتے ہوئے پوچھا تھا 

"جی مس فاکہہ... تشریف لائیں " وہ کسی فائل میں گم تھا,  وہ شکریہ کہہ کر اندر آ گئی 

"سر یہ دونوں فائلز مکمل ہو گئی ہیں" وہ فائلیں اس کی میز پر رکھتے ہوۓ بولی

"ٹھیک ہے,  میں دیکھ لیتا ہوں " حنان نے کہا

"سر مجھے دس دن کی چھٹی مل سکتی ہے ؟" اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا 

"دس دن... کیوں ؟" حنان کی آواز ایک دم اونچی ہو گئی تھی 

"سر پرسوں میری شادی ہے... " وہ نروس ہو کر انگلیاں مروڑنے لگی تھی 

"اوہ اچھا اچھا... بہت مبارک ہو پھر تو آپ کو... بیٹھیں آپ " حنان کا موڈ ایک دم خوشگوار ہوگیا تھا

"شکریہ سر" وہ کرسی پر بیٹھ گئی 

"کیا کرتے ہیں آپ کے فیوچر ہسبینڈ ؟" اس نے پوچھا 

"سر وہ... شوبز میں کام کرتے ہیں" وہ بتاتے ہوئے ہچکچا سی گئی تھی 

"اچھا... واہ بھئی,  پھر تو بڑے چارمنگ ہوں گے,  میرا مطلب شوبز تو دنیا ہی حسین لوگوں کی ہے" حنان دھیرے سے مسکرایا تھا 

"جی سر... " اس نے بس سر جھکا لیا

"ایکٹر ہیں ؟" اس نے پھر پوچھا 

"نو سر... ماڈل ہیں" وہ مسلسل اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی 

"اچھا ٹھیک ہے آپ ان بیچاری انگلیوں کو یوں تہس نہس نہ کریں اور دس دن کی چھٹی کر لیں... خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے" حنان نے اسے دعا بھی دے دی تھی,  وہ ایک نظر اس کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھتی ہوئی کھڑی ہو گئی 

"شکریہ سر" اس نے کمرے سے باہر نکلتے ہوۓ کہا تھا 

.............................

"پھر کیا سوچا تم نے رشا... ؟" حاتم نے آج پھر اسے گھیر لیا تھا 

"کس بارے میں ڈیڈ ؟" اس نے پوچھا 

"شادی کے بارے میں" وہ بولے

"ڈیڈ میں نے کچھ بھی نہیں سوچا... اور نہ سوچوں گی,  کم ازکم اگلے دس,  پندرہ سال تک تو نہیں" وہ تن کر بولی تھی 

"ٹھیک ہے تم نہ سوچو... میں سوچ لیتا ہوں پھر" انہوں نے کہا

"آپ کیا سوچیں گے ؟" وہ ان پر چڑھ دوڑی

"میں سوچ چکا ہوں... اب تم پہلے لڑکا دیکھو گی یا اسے بلوا لوں ؟" حاتم قریشی سب کچھ طے کئے بیٹھے تھے 

"ڈیڈ... " وہ چیخ پڑی

"رشا... میں تمہارا باپ ہوں نہ کہ تم میری... سمجھیں,  تمہارے پاس صرف دو دن ہیں,  اگر کوئی نظر میں ہے تو مجھے بتا دو,  ورنہ میں پرسوں لڑکے کو بلوا لوں گا" وہ اسے وارننگ دیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے 

.........................

گلے سے پھولوں کا ہار اتارتے ہوئے وہ اس کے سامنے آ بیٹھا, فاکہہ نے ایک بھر پور نظر اس پر ڈالی تھی 

"تمہاری منہ دکھائی... " شیراز نے ایک بریسلٹ اس کی طرف بڑھا دیا,  فاکہہ نے چپ چاپ اپنی کلائی اس کے آگے کر دی,  شیراز نے وہ بریسلٹ اس کی کلائی میں سجا دیا 

"آپ خوش ہیں شیراز ؟" فاکہہ کو اس کے چہرے پر خوشی کی ایک بھی رمق نظر نہیں آئی تھی 

"خوش ہوں تو تمہارے سامنے بیٹھا ہوں نا... " شیراز نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا تھا 

"شیراز... میں جانتی ہوں ابھی آپ کا کیرئیر سٹارٹ ہوا ہے اور شوبز جیسے پروفیشن میں شادی شدہ لوگوں کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے,  میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں کبھی آپ کے پاؤں کا کانٹا نہیں بنوں گی, میری طرف سے آپ پر کوئی پابندی نہیں ہوں گی,  آپ جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں,  میں امی اور راکعہ کو خود سپورٹ کر لوں گی... اپنا خرچہ بھی خود ہی اٹھا لوں گی,  میری وجہ سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہو گی آپ کو... " وہ کہتی چلی گئی,  شیراز بس چپ چاپ سنتا رہا

حالانکہ جو کچھ وہ کہہ رہی تھی.... وہ شیراز کو کہنا چاہئے تھا 

.................

"پریشان ہو ؟" وہ جوس کا گلاس ہاتھ میں لئے اس کی طرف آ گیا,  ان دونوں کو ایک ساتھ ایک کمرشل آفر ہوئی تھی,  وہ اسی کے شوٹ پر آۓ ہوۓ تھے 

"نہیں تو... " رشا ٹال گئی 

"پریشان ہو تو جوس گرم کر لیا نا... " شیراز دھیرے سے مسکرا کر بولا 

"میرے ڈیڈ نے مجھے پریشان کر رکھا ہے... بس ہر وقت میری شادی کا رونا روتے رہتے ہیں" وہ ایک دم پھٹ پڑی 

"کہتے پہلے شادی کر لو... پھر جو مرضی کرتی رہنا,  بھلا شادی کے بعد بندے کی کوئی مرضی رہ جاتی ہے" وہ انتہائی عاجز تھی,  شیراز بس چپ چاپ اس کی سنے گیا

"سنو... تم کب شادی کرو گے ؟" رشا نے اچانک ہی پوچھ لیا

"ابھی تو نہیں... " وہ گڑبڑا گیا تھا 

"شیراز... یار میری بات سنو,  تم نے جب شادی کرنی ہو گی کر لینا... لیکن ابھی کے لئے مجھے ایک فیور دے دو,  مجھ سے پیپر میرج کر لو" رشا کو ایک موہوم سی امید نظر آئی تھی 

"بالکل چپکے سے... بالکل سادگی سے ہم دونوں نکاح کر لیتے ہیں,  میرے ڈیڈ بھی مطمئین ہو جائیں گے اور میں بھی اس روز روز کے جنجھٹ سے آزاد ہو جاؤں گی" وہ کہتی چلی گئی 

"لیکن رشا... " رشا نے اس کی بات کاٹ دی

"جب تمہارا دل کرے اس رشتے کو ختم کر دینا... یہ صرف ایک کاغذی رشتہ ہو گا" رشا اس کے سر پر سوار ہو گئی تھی 

"تمہارے ڈیڈ مان جائیں گے ؟" شیراز نے پوچھا 

"میں منا لوں گی" رشا نے کہا

"دیکھو رشا... میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا,  میں ایک مڈل کلاس فیملی سے ہوں,  میری صرف ایک بیوہ ماں ہے اور ایک بہن ہے,  ہر ماں کی طرح وہ بھی دھوم دھام سے میری شادی کرے گی...اور یقیناً کسی نہ کسی رشتے دار کے ہاں ہی کرنا چاہے گی, اگر تم مجھ سے پیپر میرج کرنا چاہتی ہو تو صرف میں تمہارے ڈیڈ سے ملوں گا,  میری فیملی نہیں... میری ماں کسی صورت اس سب کے لئے نہیں مانے گی,  سب کچھ انتہائی خاموشی سے ہو گا اور نکاح کے بعد بھی تم اپنے ڈیڈ کے گھر ہی رہو گی... جب تک میں اپنا ذاتی گھر نہیں بنا لیتا,  میں تمہیں اپنے گھر لیکر نہیں جاؤں گا" شیراز کہتا چلا گیا

"تم میرے ڈیڈ سے تو ملو...باقی پھر دیکھتے ہیں" رشا نے ایک لمبی سانس بھری تھی 

........................

وہ اپنے آفس میں تھا جب اسے رشا کی کال آئی 

"کہاں ہو تم ؟" ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی آواز کے جلترنگ حنان کو ڈانواں ڈول کر گئے

"آفس میں..." اس نے کہا

"شام کو گھر آ سکتے ہو ؟" رشا نے کہا

"خیریت... ؟" حنان نے پوچھا 

"تم سے یک کیس لڑوانا ہے اپنا... " وہ مسکرا کر بولی تھی 

"اور اگر میں ہار گیا تو... ؟" حنان نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی تھی 

"سوال ہی پیدا نہیں ہوتا,  بڑے پرانے وکیل ہو تم میرے" رشا نے کہا 

"کیس کیا ہے ؟" اس نے پوچھا 

"تم شام کو آؤ تو سہی... پھر بتاتی ہوں " رشا نے کہا

"اوکے باس" حنان نے مسکراتے ہوئے کال کاٹ دی تھی 

.......................

آج ان دونوں کے کمرشل شوٹ کا آخری دن تھا, میک اپ مین رشا کو ریڈی کر کے شیراز کی طرف متوجہ ہو گیا,  شیراز کا موبائل رشا کے ساتھ والی کرسی پر پڑا تھا , اچانک اس پہ کال آنے لگی,  رشا نے ایک دو دفعہ تو اگنور کر دیا لیکن جب تیسری دفعہ وائبریشن ہوئی تو اس کا موبائل اٹھا لیا

فاکہہ کی کال تھی 

ایک نظر شیراز کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کال ریسیوکر لی

"ہیلو... شیراز ؟" فاکہہ کی آواز ابھری تھی 

"شیراز تھوڑا مصروف ہے, آپ کون ؟" اس نے پوچھا 

"میں ان کی وائف بات کر رہی ہوں, پلیز اگر وہ پاس ہیں تو میری ان سے بات کروا دیں,  ان کی امی کی طبعیت اچانک خراب ہو گئی ہے" فاکہہ کہتی چلی گئی,  رشا سن رہ گئی تھی 

اس نے جھوٹ بولا تھا... وہ سنگل نہیں تھا

وہ شادی شدہ تھا

کال کاٹتے ہوئے اس نے شیراز کا موبائل زور سے کرسی پر پھینکا اور اٹھ کھڑی ہوئی 

"مجھے ایک ضروری کام سے جانا پڑ گیا ہے, آپ بیشک یہ شوٹ کسی اور سے کروا لیں... "وہ اپنا بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے ڈائریکٹر کی طرف آئی تھی 

"لیکن میڈم... ہوا کیا ہے؟" وہ چکرا گیا

"اور ہاں... " وہ جاتے جاتے شیراز کے پاس رکی 

"تمہاری وائف کی بار بار کالز آ رہیں ہیں... پہلے اس کی سن لو" رشا کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے,  شیراز اس کی بات سن کر دم بخود رہ گیا

.......................

"آخر کیا ضرورت تھی مجھے کال کرنے کی... اور اگر کر ہی لی تھی تو یہ بکواس کرنا ضروری تھا کہ تم میری وائف ہو" وہ بری طرح فاکہہ پر برس پڑا تھا 

"شیراز میں نے تو... " شیراز نے اس کی بات کاٹ دی

"ایک دفعہ کر لی تھی نا... تو بس ٹھیک تھا,  بار بار کال کیوں کی ؟" اسے شدید غصہ تھا 

"شیراز پھپھو کی طبعیت... " شیراز نے اسے پھر نہ بولنے دیا

"تو تم لے جاتیں انہیں ہسپتال... پہلے کونسا کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی تم" شیراز نے کہا

"شیراز بس کر... ایسا ہی گناہ کر دیا اس نے جو تو برسے ہی جا رہا ہے, اگر کہہ ہی دیا کہ تیری بیوی ہے تو تیرے پہ پہاڑ ٹوٹ گیا کیا ؟" رقیہ کی بس ہو گئ تھی 

"امی آپ کو نہیں پتہ نا... میں نے اسی لئے کہا تھا آپ سے کہ کچھ دیر تک جائیں لیکن آپ کو لگی پڑی تھی میری شادی کی" اس کی توپ کا رخ رقیہ کی طرف ہوگیا 

"مجھے بس یہ بتا دے کہ اگر سب کو یہ پتہ چل گیا کہ تیری بیوی نے تجھے کال کی تھی تو کیا ہو گیا ؟" رقیہ نے کہا, شیراز بس انہیں دیکھ کر رہ گیا,  اب انہیں اصل مسئلہ کیا بتاتا ؟ بس ایک نظر فاکہہ کو گھورتے ہوۓ وہاں سے چلا گیا

.......................

وہ شام کو حاتم منزل پہنچا تو حسب معمول حاتم قریشی اور نورین لان میں بیٹھے چاۓ کا مزہ لے رہے تھے,  وہ ان دونوں کو سلام کرتا ہوا اپنی نشست پر بیٹھ گیا

"رشا کہاں ہے ؟" آس نے پوچھا 

"اپنے کمرے میں ہے " نورین نے کہا

"رشا کا پھر سے کوئی آکڑا چل رہا ہے کیا ؟" اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا 

"کیوں ؟" نورین اسے چاۓ کا کپ پکڑاتے ہوۓ بولیں

"مجھے کال کر کہ بلایا ہے اس نے,  کہہ رہی تھی کوئی کیس لڑوانا ہے" حاتم اور نورین ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے 

"رشا کو بلاؤ" نورین نے ملازمہ کو آواز دی تھی,  وہ کچھ دیر بعد ان کے پاس چلی آئی

"اسے کیوں بلوایا ہے ؟" حاتم نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

"آپ نے کہا تھا نا کہ میں دو دن میں آپ کو اپنی پسند کے بارے میں بتا دوں...تو میں نے لڑکا پسند کر لیا ہے" رشا نے دھماکہ کر فیا

"کون ؟" حاتم اور نورین دونوں نے ایک ساتھ پوچھا تھا 

"حنان... " رشا نے کہا

"کیا... ؟" سب سے اونچی آواز حنان کی تھی

"حنان... بیٹے تو مجھے تو بتاتا کہ تو اس سے شادی کرنا چاہتا ہے " نورین کو سخت صدمہ تھا 

"یعنی تم اس کا نہیں اپنا کیس لڑنے آۓ ہو" حاتم بھی بغور اس کی طرف دیکھ رہے تھے 

اور وہ... حنان فارس

وہ بس منہ کھولے,  آنکھیں پھاڑے رشا کو دیکھے جا رہا تھا 

"تم تو کہہ رہی تھیں... " رشا نے اس کی بات کاٹ دی

"ہاں تو یہ ہی ڈیسائڈ ہوا تھا کہ ہم دونوں مل کر ڈیڈ سے بات کریں گے" رشا نے اسے آ نکھ کے اشارے سے چپ رہنے کو کہا تھا

"ڈیڈ... میں حنان سے شادی کر لوں گی" وہ کہتے ہوئے اندر چلا گئی 

"ماموں جان میں بس ابھی آیا... " حنان ایک نظر ان دونوں کو دیکھتے ہوئے اس کے پیچھے ہی اندر آیا تھا 

"یہ کیا تماشا ہے ؟" وہ اپنے بستر پر اوندھی پڑی تھی 

"رشا... میں کچھ پوچھ رہا ہوں " حنان اس کے قریب آیا تھا 

"حنان میری زندگی اجیرن کی ہوئی ہے ڈیڈ نے... شادی,  شادی,  شادی... مجھے کہہ رہے تھے کہ خود کوئی ڈھونڈ لو ورنہ میں اپنی مرضی سے کسی سے کر دوں گا" وہ پھٹ پڑی

"تو تم ڈھونڈ لو پھر کوئی ؟" حنان نے کہا

"ڈھونڈا تھا... " اس کا سر جھک گیا

"لیکن وہ شروعات میں ہی دغا دے گیا,  حنان میری بات سنو... بس اس بار میری مدد کر دو,  دوبارہ نہیں کہوں گی تم سے کچھ بھی,  بس ایک بار ڈیڈ کو چپ کروانے کے لیے مجھ سے شادی کر لو.. پھر چاہے چھوڑ دینا... " رشا سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی 

"لیکن رشا... وہ میرے ماموں جان ہیں,  میں بعد میں کیسے چھوڑ دوں گا تمہیں ؟" حنان نے کہا

"تم نہ چھوڑنا... میں خلع لے لوں گی" رشا کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھا

"اور اگر شادی کے بعد مجھے تم. سے محبت ہو گئی تو ؟" حنان نے اس کی آنکھوں میں جھانک تھا

نہ جانے کتنے سال ہو گئے تھے اسے رشا حاتم کی ان خوبصورت آنکھوں کے خواب دیکھتے...وہ بس خواب ہی تو دیکھ سکتا تھا , اسقدر حسین دل ربا کی خواہش کرنا تو شائد اس کا حق ہی نہیں تھا اسلئے آج تک چپ تھا

"نہیں ہوتی... " رشا نے کہا

"رشا... " حنان نے کچھ کہنا چاہا لیکن رشا نے اس کی بات کاٹ دی

"تم مجھ سے پیپر میرج کر رہے ہو بس... " اس نے دھونس جما کر کہا تھا,  حنان بس اسے دیکھ کر رہ گیا

.........................

آج ان دونوں کا نکاح تھا,  حاتم قریشی بہت خوش تھے... بہت ہی زیادہ خوش

رشا کے لئے حنان سے بہتر کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا تھا,  نکاح کا فنکشن حاتم منزل میں ہی رکھا گیا تھا,  صرف حاتم قریشی اور حنان کے چند قریبی دوست مدعو تھے,  رشا کی ضد پر سب کچھ انتہائی خاموشی اور سادگی سے کیا گیا تھا,  ڈنر کے بعد وہ اسے لیکر اپنے گھر آ گیا

سرخ رنگ کی ساڑھی میں اس کے برابر چلتے ہوئی وہ اس کی دھڑکنوں کو مسلسل منتشر کر رہی تھی 

"میں بس کچھ دن یہاں رہوں گی پھر ڈیڈ کی طرف واپس چلی جاؤں گی,  مجھے کوئی الگ کمرہ سیٹ کروا دو" سس نے کہا

"جاؤ اوپر میرے بیڈ روم میں چلی جاؤ,  میں نیچے سو جایا کروں گا" حنان نے اسکے چاند چہرے سےنظریں چراتے ہوئے کہا تھا 

.................

وہ مسلسل دو ہفتوں سے رشا سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ نہ تو اس کا فون اٹھا رہی تھی اور نہ ہی کسی شوٹنگ سائٹ پر مل رہی تھی,  وہ اسے کھونا نہیں چاہ رہا تھا,  شیراز کے لئے وہ صرف ایک لڑکی نہیں تھی... شہرت اور کامیابیوں کا ایک دروازہ تھی جو اسے بند ہوتا نظر آ رہا تھا , آخر ایک دن وہ اسے ایک میوزیکل ویڈیو کی شوٹنگ سائٹ پر مل گئی

"رشا بس ایک منٹ... میری بات تو سنو" وہ تیر کی طرح اس کی طرف آیا تھا 

"یہاں سے چلے جاؤ" رشا اس کی بات تک سننے کے لئے تیار نہیں تھی,  شیراز اس کی شوٹنگ ختم ہونے تک وہیں رکا رہا اور وہ جیسے ہی فارغ ہو کر میک اپ روم کی طرف گئی,  اس کے پیچھے ہی چلا آیا

"رشا... میری بات سنو" شیراز مسلسل اسے پکار رہا تھا 

"گیٹ لاسٹ... " رشا کو شدید غصہ تھا 

"جسٹ ون منٹ... " شیراز نے اس کا بازو پکڑ کر کھینچا تھا,  رشا ایک دم اس کے سینے سے آ لگی اور اس سے پہلے کے الگ ہوتی,  شیراز نے اس کے گرد اپنا بازو کس دیا

"چھوڑو مجھے... " وہ کسمسا رہی تھی 

"رشا...  میری بات سنو,  وہ شادی صرف ایک فارمیلیٹی ہے,  صرف میری ماں کی خواہش... میں کبھی اس کے قریب نہیں گیا" شیراز کی سانسیں اس کے چہرے کو چھو رہی تھیں 

"میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا رشا... " وہ اس پر جھک رہا تھا 

"تم نے جھوٹ بولا... " نہ جانے کیوں ؟ نہ جانے کیسے ؟ رشا آس سے ہارتی جا رہی تھی,  وہ اس کی کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھی لیکن... پھر بھی سن رہی تھی,  وہ اس کی کسی بات کا یقین نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن... پھر بھی کر رہی تھی 

"صرف ایک بار میرا یقین کر لو... صرف آخری بار" شیراز نے سے بالکل بے بس کر دیا تھا,  وہ بس اس کی انتہائی دلکش آنکھوں میں جھانکتی رہ گئی 

.........................

وہ اس دن شوٹنگ کے لئے نکلی تو راستے میں اس کی گاڑی دغا دے گئی,  کئی بار سٹارٹ کرنے پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی,  سٹئرنگ پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے وہ باہر نکل آئی اور گاڑی لاک کر دی,  وہاں سے فارس انٹر پرائزرز بس چند قدم پر ہی تھا, وہ سیدھی وہیں چلی آئی,  سارا سٹاف اسے جانتا تھا,  بڑے غرور سے چلتے ہوئے وہ سیدھی حنان کے آفس میں آ گئی 

"حنان... گاڑی کی چابی دو" اس نے اندر آتے ہی اس کے اوسان خطا کئے تھے 

"کیوں ؟ کیا ہوا ؟" وہ ٹخنوں سے اوپر تک آتی انتہائی ٹائیٹ فٹنگ جینز اور سلیو لیس گہرے سے گلے کی انتہائی ٹائیٹ فٹنگ شرٹ میں اس کے ہوش ربا سراپے کو نمایاں ہوتے دیکھتا رہ گیا

"میری گاڑی خراب ہو گئی ہے" وہ اس کے سر پر کھڑی تھی 

"ذرا پیار سے مانگو" حنان نے اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بھرپور نظروں سے اسے دیکھا تھا 

"حنان مجھے دیر ہو رہی ہے..." غصے سے کہتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر اس کی میز پر پڑی چابی اٹھانی چاہی لیکن حنان نے اس سے پہلے ہی جھپٹ کر چابی اپنے قبضے میں کر لی

"حنان... پلیز چابی دے دو" اس کا لحجہ تھوڑا دھیما ہو گیا

"اور پیار سے... " حنان نے مسکرا کر کہا

"چابی دے دو... " وہ بڑے ناز سے بولی تھی 

"اور پیار سے..." حنان کو اس پر ٹوٹ کہ پیار آیا,  رشا اسے ایک نظر دیکھتی ہوئی اس کی طرف بڑھی اور بڑے حق سے اس کی گود میں جا بیٹھی,  وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ ہوۓ تھا,  رشا نے اپنے دونوں بازو اس کی گردن کے گرد پرو دئیے,  اسکے بدن سے اٹھتی تیز مہک حنان کے نتھنوں میں اترنے لگی تھی

"چابی دے دو... " وہ اس کے بے حد قریب ہو کر دھیرے سے بولی تھی اور اس سے پہلے کہ حنان اس کی رعنائیوں کے زیر اثر کسی گستاخی کا مرتکب ہوتا,  آفس کا دروازہ کھلا اور فاکہہ اندر داخل ہو گئی,  حنان نے لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے خود سے الگ کیا تھا, فاکہہ بھی ایک دم بوکھلا گئی 

"سوری سر...میں بعد میں.... " اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی رشا اس پر چڑھ دوڑی

"اتنی تمیز نہیں ہے تمہیں کہ دروازہ ناک کر کہ اندر آتے ہیں جاہل لڑکی... " اس کا پارہ آسمانوں کو چھو رہا تھا 

"ایم سوری میم... میں ابھی چند سیکنڈ پہلے ہی سر کے آفس سے باہر نکلی تھی اور سر نے ہی کہا تھا کہ فائل لیکر ابھی واپس آؤ... مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آپ اندر ہیں... " فاکہہ نے اپنی صفائی دینا چاہی تھی 

"اٹس اوکے فاکہہ... کوئی بات نہیں,  ان سے ملو,  یہ میری وائف ہیں,  کچھ دن پہلے ہی ہمارا نکاح ہوا ہے" حنان کو اپنی ریپوٹیشن کی فکر پڑ گئی تھی 

"مبارک ہو سر... میں ٹھر کر آ جاتی ہوں " فاکہہ ایک نظر رشا کے دھواں دھار چہرے کو دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی

"اسے یہ بتانا کتنا ضروری تھا کہ میں تمہاری بیوی ہوں " وہ حنان پر چڑھ دوڑی

"بہت ضروری تھا... وہ بھلا کیا سوچتی کہ میں کس کردار کا شخص ہوں ؟ حنان نے کہا

"دو چابی... " رشا نے انتہائی غصے سے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے چابی چھینی اور اسے قہر آلود نظروں سے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی,  حنان ایک لمبی سانس بھر کر رہ گیا تھا 


جاری ہے

#تیری دہلیز جنت ہے 

#عائشہ ذوالفقار 


تیسری قسط 

وہ صرف ایک ہفتہ اس کے گھر رہی تھی پھر اسے بتاۓ بغیر اپنا سامان اٹھا کر حاتم قریشی کی طرف واپس آ گئی,  اس شام وہ گھر واپس آیا تو رشا ندارد تھی,  رات تک وہ اس کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آئی,  آخر تنگ آ کر اس نے رشا کا نمبر ملا لیا

"کہاں ہو ؟" آس نے پوچھا تھا 

"گھر " رشا نے کہا

"کونسے گھر؟" حنان نے حیرانی سے پوچھا 

"ڈیڈ نے گھر... " وہ بولی

"مجھے بتانا نہیں تھا کہ وہاں جا رہی ہو ؟" حنان کے لحجے میں شکوہ گھل گیا

"میں نے ضروری نہیں سمجھا" وہ لاپرواہی سے بولی تھی 

"واپس کب آؤ گی ؟" حنان نے نہ جانے کس امید پر پوچھا تھا 

"کبھی بھی نہیں... بس میں اب ڈیڈ کی طرف ہی رہوں گی,  تم بھی موج کرو" وہ مسکرا کر کہتے ہوئے کال کٹ کر گئی,  حنان بس اپنے موبائل کی سکرین کو گھورتا رہ گیا تھا

.......................

ایک بار پھر سے ان دونوں کی دوستی پروان چڑھنے لگی تھی,  دن بدن رشا اس کی کی سحر آمیز آنکھوں سے ہارتی جا رہی تھی,  دن بدن سس کی قیامت انگیز قربت کی عادی ہوتی جا رہی تھی, یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس نے حنان سے پیپر میرج کی ہوئی ہے,  یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیراز شادی شدہ ہے... وہ اس کے قریب آتی جا آرہی تھی اور شیراز... وہ تو جیسے ہواؤں میں اڑنے لگا تھا, دن بدن فاکہہ اس کے لئے انتہائی غیر اہم ہوتی چلی گئی, وہ صرف اس وقت اس کے قریب جاتا... جب رشا کے قرب کی خواہش زور پکڑنے لگتی تھی

سس دن بھی ان دونوں کو ایک سائٹ پر پہنچنا تھا, گھر سے نکلتے ہی اس نے شیراز کا نمبر ملا لیا... وہ مسلسل بند جا رہا تھا,  کچھ سوچ کر وہ اس کے گھر کی طرف آ گئی, اس دن فاکہہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی سو وہ گھر پر ہی تھی,  دروازہ اسی نے کھولا,  وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر بوکھلا سی گئیں "آپ یہاں ؟" فاکہہ نے خود پر تھوڑ قابو پاتے ہوئے پوچھا 

"شیراز ہے ؟" رشا نے بس ایک نظر اس کا جائزہ لیا تھا 

"جی اندر ہیں... آئیں" فاکہہ نے کہا

"نہیں شکریہ... اسے بھیج دو,  ہمیں دیر ہو رہی ہے" وہ اسے کہتے ہوئے واپس مڑ گئی,  دل عجیب سا ہو گیا تھا,  دو منٹ بعد ہی شیراز باہر نکل آیا

"یہ پہلی اور آخری بار تھا کہ میں نے پورے دو منٹ تمہارا انتظار کر لیا... آئیندہ نہیں کروں گی" وہ بھڑک کر اس پر چڑھ دوڑی

"سوری یار...سیل آف ہو گیا تھا اور جلدی آنکھ ہی نہیں کھلی " شیراز نے کہا

"کیوں ؟ ساری رات سوۓ نہیں کیا ؟" اس نے کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھا

"تم مجھ پر شک کر رہی ہو ؟" شیراز نے پوچھا 

"میرا تم پر شک کرنا واجب ہے مسٹر شیراز... کیونکہ تم ایک دفعہ مجھے دھوکہ دے چکے ہو" وہ تڑخی 

"تم گھر کیوں آئیں ؟" شیراز نے بات گھمانی چاہی تھی

"تمہاری بیوی سے ملنے  " رشا نے کہا

"بس... مل لیا ؟" شیراز اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا 

"تم نے کبھی بتایا نہیں کہ تمہاری بیوی فارس انٹرپرائزرز میں کام کرتی ہے" اس نے پوچھا 

"تمہیں کیسے پتہ ؟" شیراز چونک گیا

"کل میں نے اسے وہاں دیکھا تھا " رشا نے کہا

"تم وہاں کیا کرنے گئی تھیں ؟" شیراز مسلسل اسے دیکھ رہا تھا 

"فارس انٹرپرائزرز کا چئر پرسن میرا فرسٹ کزن ہے... حنان فارس" رشا نے بڑی رعونت سے کہا تھا,  شیراز بس سر ہلا کر رہ گیا

...........................

"مس فاکہہ نہیں آئیں آج ؟" اس نے فاکہہ کی حاضری والا خانہ خالی دیکھ کر اپنے چپڑاسی کو بلایا تھا 

"آئیں ہوئی ہی صاحب جی" چپڑاسی نے کہا

"تو حاضری کیوں نہیں لگائی ؟" اس نے پھر پوچھا 

"پتہ نہیں صاحب جی... صبح سے اپنی کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کئے بیٹھی ہیں,  دس ڈبے جوس کے منگوا کر پی چکی ہیں" چپڑاسی نے بتایا

"جوس کے ڈبے ؟" وہ حیرانی سے بولا

"جی صاحب جی...جب پریشان ہوتی ہیں تو جوس ہی منگوا منگوا کر پئے جاتی ہیں... ٹھنڈا ٹھار مینگو جوس" چپڑاسی نے کہا

"بھیجو انہیں" چپڑاسی سر ہلا کر باہر نکل گیا, کچھ دیر بعد وہ اندر چلی آئی

"حاضری کیوں نہیں لگائی ابھی تک... ؟" اس نے ایک نظر اس کے بیزار سے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا 

"ذہن میں نہیں رہا... " وہ سر جھکا کر بولی,  حنان نے رجسٹر اس کے سامنے کر دیا,  فاکہہ نے چپ چاپ سائن کر دئیے 

"طبیعت ٹھیک ہے ؟" اس نے پھر پوچھا تھا

"جی... " فاکہہ نے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن اس کے چہرے سے واضح ہو رہا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی 

اس کی طبیعت پچھلے کئی دنوں سے ایسی ہی تھی... مضمحل سی,  بیزار سی

وہ کئی دفعہ شیراز کو ڈاکٹر ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہہ چکی تھی لیکن وہ ٹال مٹول کر جاتا تھا

...........................

رشا کو حاتم منزل گئے ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا تھا,  اس دوران اس کی حنان سے بس ایک دو بار ہی ملاقات ہوئی تھی,  وہ تو ہر لحاظ سے ٹینشن فری ہو چکی تھی,  نہ تو اب اس کے سر پر حاتم قریشی کی "شادی" والی تلوار رہی تھی اور نہ ہی سے حنان کی طرف سے کوئی روک ٹوک تھی,  خلع کا مطالبہ تو وہ تب کرتی جب حنان کی طرف سے کوئی پیش رفت دکھائی دیتی... لیکن فی الحال تو راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا,  وہ اور شیراز پوری طرح ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار رہے تھے, آۓ دن کہیں نہ کہیں لنچ,  ڈنر... ڈانس پارٹیز,  لانگ ڈرائیوز,  فارن ٹورز... 

آس دن بھی وہ آفس سے نکلنے لگا تھا جب اسے حاتم قریشی کی کال آ گئی 

"ابھی مل سکتے ہو برخوردار... ؟" وہ پوچھ رہے تھے 

"خیریت تو ہے ماموں جان ؟" وہ پریشان ہو گیا

"ہاں... دیکھنے میں تو خیریت ہی ہے,  گھر آ جاؤ" انہوں نے کہا,  وہ گھر جانے کی بجاۓ سیدھا حاتم منزل ہی چلا آیا, حاتم قریشی اسےٹی وی لاؤنج میں ہی مل گئے تھے 

"رشا سے کوئی جھگڑا ہو اہے تمہارا ؟" انہوں نے پوچھا,  ٹورین نے اس کے آگے چاۓ کا کپ رکھا تھا 

"نہیں تو... " اسے حیرانی ہوئی 

"تو پھر دو ماہ سے یہاں کیوں رہ رہی ہے ؟" انہوں نے استفسار کیا

"ماموں جان اس نے کہا کہ اس کا دل نہیں لگتا وہاں... اسے آپ دونوں کے ساتھ رہنا ہے تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے " اس نے جلدی سے بات بنائی تھی 

"آج مسلسل بیسواں دن ہے ہمیں اس کی شکل دیکھے,  صبح وہ کب اٹھتی ہے کوئی پتہ نہیں,  رات کو کب واپس آتی ہے کوئی پتہ نہیں, کب وہ باہر کے دوروں پر نکل جاتی ہے کوئی خبر نہیں... اس طرح دل لگا رہی ہے وہ ہمارا اور اپنا... " وہ کہتے چلے گئے,  حنان بالکل خاموش تھا 

"یہ دیکھو... اس طرح دل لگا رہی ہے وہ ہم سب کا" انہوں نے ایک میگزین اس کے سامنے پھینکا تھا,  وہ رشا کا کوئی فارن شوٹ تھا

رشا اور شیراز... ایک دوسرے کے انتہائی قریب

وہ کسی پرفیوم کمپنی کا فوٹو شوٹ تھا,  شیراز بنا شرٹ کے رشا کو اپنے بازؤں میں لئے کھڑا تھا اور رشا اس کے سینے سے لگی اس پرفیوم کی خوشبو محسوس کر رہی تھی,  حنان ان سے نظریں بھی نہ ملا سکا

"کون ہے یہ لڑکا حنان فارس ؟ " انہوں نے سوال کیا تھا,  وہ جواب نہ دے سکا

"آج تک تمہارے اتنے قریب آئی ہے وہ ؟ تمہارے ساتھ ہیں اس کی اسقدر قربتیں ؟ تمہارے ساتھ ہیں اس کی اسقدر بے باکیاں؟ تمہارے ساتھ وہ ایک بھی دفعہ گئی ہے کسی فارن ٹور پہ ؟ " وہ پوچھتے جا رہے تھے اور حنان چپ تھا 

"میں اپنی غلطی مانتا ہوں حنان...وہ میری ایک ہی بیٹی تھی,  میں آنکھیں بند کر کہ اس کی ہر جائز اور ناجائز خواہش پوری کرتا چلا گیا,  نتیجہ یہ ہوا کہ وہ میرے سر پر بیٹھ گئی,  وہ میری ایک بھی نہیں سنتی حنان... میں نے صرف اسلئے اسے شادی کے بندھن میں باندھا کہ شائد وہ اپنے شوہر سے تھوڑا ڈر کر رہے گی,  شائد وہ اس کی تھوڑی حیا کر لیا کرے گی لیکن... مجھے لگتا ہے وہ تمہارے بھی سر پر بیٹھ گئی ہے حنان... یا پھر تم نے اپنی مرضی سے اسے اپنے سر پر بٹھا لیا ہے" وہ بولے

"میں نے بس اس کی خوشی کا احترام کیا تھا ماموں جان... " وہ دھیرے سے بولا تھا 

"وہ مجھے جتنا بیوقوف سمجھتی ہے نا میں اتنا ہوں نہیں حنان... مجھے کیا پتہ نہیں ہے کہ اس نے تم سے شادی کیوں کی ؟ بیس سالوں سے تو اسے کبھی تم نظر آۓ نہیں اور اب ایک دم... ڈیڈ مجھے حنان سے شادی کرنی ہے,  اسے بس مجھے مطمئن کرنا تھا اور... اس نے کر دیا,  شوہر کے روپ میں اسے مٹی کا ایک مادھو چاہئے تھا جو اسے مل گیا" وہ سچ کہہ رہے تھے

"لیکن کیا تم بھی اس کی طرح مجھے بیوقوف ہی سمجھتے ہو حنان... ؟ کیا میں نے یونہی آنکھیں بند کر کہ اس کی خواہش پر اسے تمہیں سونپ دیا ؟ نہیں... بالکل نہیں,  میں نے سوچا تھا کہ تم اسے ایک شوہر کی طرح ڈیل کرو گے... ایک دوست یا ایک عاشق کی طرح نہیں" انہوں نے کہا

"میں اس پر زبردستی کیسے کروں ماموں جان... ؟" وہ بے بس ہو گیا

"کیا مطلب ہے کیسے کروں ؟ کیسے کرتے ہیں شوہر بیویوں کے ساتھ زبردستی ؟ کیسے لاتے ہیں بگڑی ہوئی بیویوں کو راہ راست پر ؟ " انہیں غصہ آ گیا

"وہ آپ کا خون ہے ماموں جان... بعد میں آپ کو ہی گلہ ہو گا" اس نے کہا

"مجھے تب گلہ ہو گا حنان جب وہ یہاں رہے گی,  اور یہ سب کرتی رہے گی,  اس کا شوہر اسے اپنے ساتھ لیکر جاۓ,  وہ اس کے ساتھ رہے اور اس کی اجازت سے یہ سب کرے... تو مجھے کوئی گلہ نہیں " انہوں نے کہا,  حنان خاموش ہو گیا تھا 

.....................

اس دن بھی اس کی طبیعت بہت نڈھال تھی,  صبح سے دو بار قے کر چکی تھی,  بڑی منت سماجت کر کہ اس نے شیراز سے ایک گھنٹے کا وقت لیا تھا

"میں تمہیں آفس سے پک کر لوں گا,  ایک دو کام نمٹا لوں " وہ اسے یقین دہانی کروا کر نکل گیا تھا, فاکہہ اس کے آنے کی امید پر آفس چلی آئی, ابھی پوری طرح کرسی پر بیٹھی بھی نہیں تھی کہ حنان کا بلاوا آ گیا,  وہ تھکے تھکے قدموں سے اس کے آفس چلی آئی,  حنان کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ, آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا 

"جی سر... " آس نے کہا

"فاکہہ آج گیارہ بجے ایک میٹنگ ہے,  یہ اس کا ایجنڈا ہے,  پلیز اس میٹنگ کے تمام لوازمات تیار کر کہ میری ٹیبل پر پہنچا دیں" وہ اسے خود سے بھی زیادہ تھکا ہوا لگا

"اوکے سر... " دھیمے سے لحجے میں کہتی ہوئی وہ باہر آ گئی,  گیارہ بجے تک اس نے میٹنگ سے متعلق تمام فائلیں اور ڈاکومنٹس تیار کر دئے,  اس دوران اس نے شیراز کو کوئی پچاس دفعہ کال کی لیکن جواب ندارد... گیارہ بجے جب وہ سب کچھ لیکر اس کے آفس میں پہنچی تو ایک نیا حکم صادر ہو گیا

"میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے مس فاکہہ... آج کی میٹنگ میں آپ میری جگہ بریف کر دیجئے گا" وہ گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا

"سر میری طبیعت کچھ... " وہ ہولے سے منمنائی تھی

"کیا... ؟" حنان کو اس کی بات سمجھ نہیں آئی 

"کچھ نہیں سر... " وہ چپ کر گئی,  دس منٹ میں وہ دونوں ہال پہنچ گئے,  وہاں جا کر حنان خود تو کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر اپنی عزت ک ماتم منانے میں مصروف ہو گیا جبکہ فاکہہ کی شامت آ گئی,  الف سے لیکر یہ تک ساری بریفنگ اسی نے دی,  خدا خدا کر کہ دو گھنٹے کی میٹنگ اٹینڈ کر کہ جب وہ باہر نکلی تو اس کی آنکھوں کے آگے بار بار اندھیرا آ رہا تھا,  شیراز کا سیل ہی بند ہو گیا تھا,  وہ بار بار اپنی آنکھوں میں آیا پانی صاف کر رہی تھی,  پارکنگ ایریا میں کھڑی حنان کی گاڑی تک آتے آتے اس کی بس ہو گئ,  حنان نے ابھی اپنی طرف کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ وہ لہرا کر زوردار آواز سے اس کی گاڑی کے بونٹ پر گر گئی 

"فاکہہ... " حنان کے طوطے اڑ گئے تھے 

"فاکہہ... کیا ہوا ؟" وہ پوری طرح ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی,  حنان نے اسے بازؤں میں اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے آیا,  اس کا بی پی خطرناک حد تک لو ہو گیا تھا,  لیڈی ڈاکٹر نے اسے ڈرپس لگائیں,  کچھ ٹیسٹ کئے اور پھر مسکراتے ہوئے حنان کی طرف مڑی,  وہ اس کے عین سامنے کرسی پر بیٹھا تھا 

"مبارک ہو مسٹر حنان... آپ کی مسز امید سے ہیں" وہ اسے نہ جانے کیا سمجھی

"ڈاکٹر یہ میری وائف نہیں ہیں... یہ میری سیکرٹری ہیں" اس نے جلدی سے وضاحت دی تھی 

"اوہ... ایم سوری,  مجھے لگا شائد... " ڈاکٹر تھوڑی شرمندہ سی ہو گئی 

"بہر حال میں نے یہ میڈیسنز لکھ دی ہیں,  انہیں باقاعدگی سے استعمال کرنا ہے" تقریباً بیس منٹ بعد وہ وہاں سے فارغ ہو گئے, حنان نے اس کی نہ نہ کہ باوجود اسے میڈیسنز بھی خرید دی تھیں, پورا راستہ وہ کچھ نہیں بولی,  اسے حنان سے سخت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی 

"تم مجھے بتا نہیں سکتی تھیں کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ؟" آخر حنان نے ہی بات شروع کی

"میں نے آپ کو بتایا تھا پر... آپ نے سنا ہی نہیں" اس نے سر جھکا لیا

"دراصل میں نے آج شیراز کے ساتھ چیک اپ کے لئے جانا تھا لیکن.... وہ آۓ ہی نہیں,  اور پھر آپ نے میٹنگ کا کہہ دیا تو اسلئے...." وہ ایک نظر اسے دیکھ کر بولی تھی 

"ابھی میرے سر چڑھ جاتیں تم... " حنان مسکراتے ہوئے بولا 

"صبح سے کیا کھایا ہے ؟" اس نے پوچھا 

"جوس پیا تھا... " وہ دھیرے سے بولی,  حنان نے ایک نظر اسے دیکھتے ہوۓ گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے آگے روک دی

"آؤ کچھ کھا لیتے ہیں,  پھر میں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا" وہ فاکہہ کے انکار کے باوجود اسے زبردستی اندر لے آیا

"کیا کھاؤ گی ؟" اس نے پوچھا تھا 

"جو مرضی منگوا لیں " اس نے ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا,  حنان آرڈر دینے میں مصروف ہو گیا اور وہ ادھر ادھر دیکھنے میں... اچانک ہی اس کی نظر حنان کی پشت پر موجود ٹیبل کی طرف گئی تھی 

وہ شیراز کی تھا... اس کی طرف رخ کئے بیٹھا تھا 

اور ساتھ... اس نے ایک نظر حنان کو دیکھا,  وہ اپنے سیل میں کھویا ہوا تھا 

ساتھ وہی تھی... مشہور کمرشل اینڈ فیشن ماڈل

رشا حاتم...

وہ دونوں ہنس رہے تھے,  انتہائی خوشگوار موڈ میں باتیں کر رہے تھے,  اس نے یونہی شیراز کا نمبر ملا لیا,  بیل جا رہی تھی,  شیراز نے ایک نظر سیل کی طرف دیکھتے ہوئے اسے آف کر دیا تھا,  فاکہہ کی آنکھوں میں پانی بھر آیا

بس یہ وقعت تھی اس کی... بس اتنی سی

اسے ٹشو سے آنکھیں صاف کرتے دیکھ کر حنان ایک دم چونک گیا

"کیا ہوا...؟" وہ پریشانی سے بولا

"کچھ نہیں سر... بس مجھے جلدی گھر چھوڑ دیں پلیز... " وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولی 

"ہاں بس کھانا کھا کر چلتے ہیں" حنان اس کے لئے کافی فکر مند تھا

کچھ ہی دیر بعد رشا اور شیراز وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے 


جاری ہے

#تیری دہلیز جنت ہے 

#عائشہ ذوالفقار 


چوتھی قسط 

اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے رشا کو کال کی تھی,  صد شکر کہ اس نے کال ریسیو کر لی

"بولو حنان... " وہ آواز سے ہی بہت مصروف لگ رہی تھی 

"گھر کب آنا ہے مسز حنان فارس ؟" اس نے پوچھا,  ایک لمحے کو تو وہ بول ہی نہ سکی

"کیا مطلب... ؟" اس نے پوچھا 

"میں نے کہا... گھر کب آنا ہے ؟" حنان نے  اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا تھا 

"کیوں ؟ تم نے کیا کرنا ہے مجھے گھر لا کر ؟" رشا نے کہا

"کیا مطلب کیا کرنا ہے ؟ بیویاں شادی کے بعد اپنے شوہروں کے گھروں میں ہی رہتی ہیں" حنان نے کہا

"حنان تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟" وہ تنگ آ گئی 

"بس اتنا کہ گھر واپس آ جاؤ" اس نے کہا

"تمہیں ڈیڈ نے کچھ کہا ہے ؟" وہ تاڑ گئی 

"جس نے بھی کہا ہو... تم بس واپس آؤ, تمہیں جو کرنا ہے یہاں رہ کر کرو" حنان نے کہا

"حنان ہم ن صرف ایک ڈیل کی تھی...ہمارا رشتہ صرف ایک کاغذی رشتہ ہے,  سمجھے تم ؟" اسے غصہ آ گیا

"ٹھیک ہے... پھر آج شام تک یہ بات ماموں جان کو سمجھا دو ورنہ میں تمہیں آ کر لے جاؤں گا" حنان نے ذرا سرزنش کے سے انداز میں کہتے ہوۓ کال کاٹ دی تھی 

................

شیراز نے نیا گھر خرید لیا تھا, کچھ ہی دنوں میں وہ سارے معاملات طے کر کہ رقیہ اور فاکہہ دونوں کو وہاں لے آیا,  وہاں سے فاکہہ کو فارس انٹرپرائزرز اور دور ہو گئی تھی,  اس دن رات کو خلاف معمول وہ گھر پر ہی تھا,  فاکہہ اسے چاۓ کا کپ پکڑاتے ہوۓ اس کے پاس ہی بیٹھ گئی,  وہ پوری طرح اپنے سیل میں کھویا ہوا تھا 

"شیراز... " فاکہہ نے دھیرے سے اس کا بازو ہلایا

"ہاں... " شیراز نے سیل پر سے نظریں ہٹاۓ بغیر کہا تھا 

"شیراز میں جاب چھوڑ دوں ؟" آس کے کہتے ہی وہ ایک دم چونک گیا

"کیوں ؟" آس نے پوچھا 

"یہاں سے کمپنی بہت دور پڑتی ہے مجھے,  سفر زیادہ ہو گیا ہے,  اوپر سے پریگنینسی... میں بہت زیادہ تھک جاتی ہوں,  اب تو ماشاءاللہ آپ کے پاس ڈھیروں آفرز ہیں,  نیا گھر بھی لے لیا ہے,  میں اگر اب جاب نہ بھی کروں تو... " شیراز نے اس کی پوری بات بھی نہ سنی

"دیکھو فاکہہ... مجھے بس یہ بتا دو کہ میں اپنے کام کے لوازمات کا خرچہ اٹھاؤں یا... تمہارا ؟" اس نے کہا,  فاکہہ چپ رہ گئی 

"تم نے ہی مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی میرے پیر کا کانٹا نہیں بنو گی, تم اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچہ خود اٹھا لو گی " شیراز نے کہا

"تو اٹھا نہیں رہی ہوں شیراز... لیکن میری حالت تو دیکھیں ؟" وہ بے بسی سے بولی,  اس کا تیسرا مہینہ چل رہا تھا,  طبیعت ہر وقت بوجھل اور نڈھال ہوئی رہتی تھی 

"فاکہہ یار میں نے ابھی نیا گھر خریدا ہے, ابھی تو اس کے سارے پیسے بھی نہیں دئیے,  تم پلیز ابھی جاب نہ چھوڑو,  کچھ عرصہ اور میرا ساتھ دے دو" شیراز نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لئے,  فاکہہ بس ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھ کر رہ گئی تھی 

...........................

وہ اور حنان پرسوں ہونے والی میٹنگ سے متعلق کچھ پوائنٹس ڈسکس کر رہے تھے جب چپڑاسی اس دن کا اخبار اور اس ہفتے کا سنڈے میگزین لئے اس کے آفس میں چلا آیا

"یہاں رکھ دو... " ایک نظر چپڑاسی کی طرف دیکھتے ہوئے حنان دوبارہ اس کے ساتھ ڈسکشن میں مصروف ہو گیا تھا,  یونہی اپنے سامنے پڑے میٹنگ ایجنڈے سے نظریں ہٹاتے ہوئے اس نے ایک نظر فاکہہ کی طرف دیکھا, وہ حنان کو تو سن ہی نہیں رہی تھی,  بس پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے سامنے پڑے سنڈے میگزین کے ٹائٹل کور کو دیکھے جا رہی تھی, حنان نے اسے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ نظر میگزین کی طرف چلی گئی 

رشا اور شیراز... ہوش اڑا دینے والا منظر

ایک دوسرے سے بے حد قریب... 

وہ کسی ہئر شیمپو کا فوٹو شوٹ تھا... شیراز نے پوری طرح اسے اپنی بانہوں میں مقید کیا ہوا تھا اور وہ اپنے بال اس کے چہرے پر گراۓ اس پر جھکی ہوئی تھی 

حنان پانی پانی ہو گیا... اسے ایک دم قہر چڑھا تھا 

"اسے یوں گھور گھور کر دیکھنے سے مجھے شرمندہ کرنا بند کرو گی تم ؟" وہ فاکہہ پر چڑھ دوڑا,  اس کی آنکھیں ایک دم لبالب بھر گئیں 

"گیٹ لاسٹ... " اس نے ہاتھ مار کر میز پر پڑی فائلیں تتر بتر کی تھیں,  فاکہہ چپ چاپ اٹھ کھڑی ہوئی, ہولے ہولے چلتی ہوئی دروازے تک آئی اور پھر رکی

"سر میں آپ کو شرمندہ نہیں کر رہی تھی... میں تو خود شرمندہ ہو رہی تھی " اس کے آنسو نکل آۓ,  حنان دم بخود رہ گیا تھا 

"کیا مطلب... کیا یہ تمہارے... ؟" وہ بات مکمل نہ کر سکا

"یہ میرے شوہر ہیں" وہ بے دردی سے گال رگڑتے ہوۓ باہر نکل گئی تھی,  حنان اپنی کرسی پر بیٹھا رہ گیا, کچھ لمحوں بعد اپنی کرسی سے اٹھا اور باہر نکل آیا,  وہ دونوں ٹانگیں کرسی پر چڑھاۓ,  اس کی پشت سے ٹیک لگاۓ, آنکھیں بند کئے, جوس ہر جوس اپنے اندر انڈیل رہی تھی

"اچھا سوری... اب میرے سر چڑھ کر اپنی حق حلال کی کمائی یوں جوس کے ڈبوں پر حرام نہ کرو" وہ اس کی میز کے پاس کھڑا ہو کر بولا تھا,  فاکہہ بس نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کھڑی ہو گئی 

"سوری... مجھے غصہ آ گیا تھا " وہ واقعی نادم تھا

"کوئی بات نہیں سر... " اس سے زیادہ وہ اور کیا کہتی

اسے رشا پر شدید غصہ آ رہا تھا,  رات تک وہ اپنے آفس میں بند ہو کر بیٹھا رہا,  نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا... بار بار نظر اس میگزین کی طرف جا رہی تھی,  رات تقریباً دس بجے کا وقت تھا جب اس نے رشا کو کال کی

"کہاں ہو ؟" اس کا لحجہ برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا

"گھر... کیوں کیا ہوا ... ؟" حنان نے اس کی پوری بات سنے بغیر ہی کال کاٹ دی اور دھواں دھار گاڑی چلاتا ہوا حاتم منزل چلا آیا,  حاتم قریشی اور نورین ڈنر کر رہے تھے,  وہ ان دونوں کو سلام کرتا ہوا رشا کے کمرے کی طرف آ گیا,  وہ اپنے بستر پر اوندھی لیٹی ہوئی فل ٹائم شیراز سے خوش گپیوں میں مصروف تھی,  اسے اپنے سر پر کھڑا دیکھ کر چونک گئی 

"کیا ہوا ہے ؟" اس نے سیل کان سے ہٹاتے ہوئے پوچھا 

"اسے بند کرو... " حنان نے کہا,  رشا نے بادل نخواستہ کال کاٹ دی

"ہوا کیا ہے... ؟" وہ بستر سے اٹھتے ہوئے بولی 

"میں تمہیں لینے آیا ہوں... گھر چلو" حنان نے کہا,  رشا حیران رہ گئی

"میں تمہاری نوکر نہیں ہوں جو اس لحجے میں بات کر رہے ہو" اسے غصہ آ گیا

"رشا... گھر چلو" اس نے حتی المکان اپنے لحجے کو دھیما رکھنے کی کوشش کی تھی 

"نہیں جاؤں گی... صبح ہی تم سے خلع... " حنان نے اس کی بات پوری بھی نہ ہونے دی,  تیر کی طرح اس کی طرف بڑھا اور صوفے پر پڑا سٹالر اٹھا کر زور سے اس کے منہ پر باندھ دیا,  پھر انتہائی سختی سے اس کی کلائی پکڑی اور اسے گھسیٹتا ہوا نیچے لے آیا,  رشا اپنی کلائی اس کی گرفت سے چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی, وہ یونہی اسے لئے حاتم قریشی اور نورین کے پاس سے گزر گیا,  وہ دونوں ایک لفظ بھی نہیں بولے,  رات کے گیارہ بج رہے تھے جب وہ اسے ساتھ لیکر گھر آ گیا,  لاؤنج میں آتے ہی اس نے رشا کو صوفے پر دھکا دیا تھا,  رشا نے انتہائی غصے سے اپنے منہ پر بندھا کپڑا کھول دیا

"کیا بیہودگی ہے یہ ؟" وہ گلا پھاڑ کر چلائی تھی 

"جو بیہودگیاں تم نے پھیلا رکھی ہیں ان کے مقابلے تو یہ کچھ بھی نہیں" حنان نے کہا

"میں جو مرضی کروں... تم آخر ہوتے کون ہو میرے ساتھ یوں زبردستی کرنے والے ؟" وہ چلائی

"تمہارا شوہر... سمجھیں" حنان اس کی طرف آیا تھا 

"تمہارا یہ زعم بھی صبح ہی ختم کرتی ہوں میں... خلع لیکر " وہ تڑخی 

"اچھا... مجھ سے خلع لینے کے بعد کس کے پاس جاؤ گی ؟" حنان نے پوچھا 

"جس کے پاس مرضی جاؤں..." وہ کھڑی ہو گئی 

"جسے چن رکھا ہے نا تم نے... وہ شادی شدہ ہے مسز رشا حنان... اور ایک بچے کا باپ بننے والا ہے" حنان نے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا, وہ سن رہ گئی 

"ایک بچے کا باپ... " اس کے لبوں سے سرگوشی سی نکلی تھی 

"خدا کے لئے بس کر دو رشا... بخش دو اس کی معصوم بیوی اور بچے کو" حنان اسے تاسف سے دیکھتا ہوا اوپر چلا گیا تھا اور رشا... 

وہ بے جان سی ہو کر وہیں صوفے پر گر گئی 

"شیراز... تم نے مجھ سے پھر جھوٹ بولا" اسے رہ رہ کر شیراز پر غصہ آ رہا تھا 

"اور میں... میں کیوں اس کی باتوں میں آ گئی ؟" اسے خود پر بھی افسوس ہو رہا تھا 

.........................

وہ اس دن آفس جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جب دروازے کی گھنٹی بجی,  شیراز ابھی تک بستر میں گھسا ہوا تھا, وہ جلدی سے اپنا بیگ کندھے پر ڈالتی ہوئی دروازے کی طرف آ گئی 

رشا اس کے گھر کی دہلیز پر کھڑی تھی 

"شیراز ہے ؟" فاکہہ کی حالت اسے اس کے ان تمام سوالات کے جوابات دے گئی جو وہ شیراز سے پوچھنے آئی تھی 

"جی... اندر ہیں" فاکہہ نے کہا

"میں اس سے دو منٹ کے لئے مل سکتی ہوں ؟" رشا نے پوچھا 

"ضرور... تشریف لائیں" فاکہہ نے ایک طرف کو ہو کر اسے راستہ دے دیا, اسے لاؤنج میں چھوڑ کر وہ شیراز کو اٹھانے چلی گئی

"تم یہاں ؟" وہ بے حد بوکھلایا ہوا باہر نکلا تھا,  فاکہہ بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی 

"تم آفس جانے لگی تھیں ؟" رشا کو اندازہ ہو گیا

"جی... " اس نے کہا

"تو چلی جاؤ... مجھے بس اس سے ایک ضروری بات کرنی ہے" رشا کا انتہائی اکھڑ اور پرغرور لحجہ دیکھ کر فاکہہ نے اس سے مزید بات کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس کی,  بس چپ چاپ اس کے ستے ہوۓ چہرے کی طرف دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی,  رقیہ بیگم ابھی تک اپنے کمرے میں ہی تھیں

"تم نے مجھ سے پھر جھوٹ بولا شیراز... " وہ تن فن کرتی اس پر چڑھ دوڑی

"کیا مطلب ؟" شیراز سمجھ نہ سکا

"تم نے کہا تھا کہ تمہاری شادی صرف ایک فارمیلیٹی ہے,  تم کبھی اپنی بیوی کے قریب نہیں گئے,  پھر آخر وہ پریگنینٹ کیسے ہو گئی ؟" رشا کو اس پر شدید غصہ تھا 

"رشا سنو تو... " وہ اس کی طرف کو آیا تھا 

"کیا سنوں ؟ شیراز آخر اور کتنے جھوٹ بولو گے تم ؟" نہ جانے کیوں رشا کی آنکھیں بھیگ گئیں 

"رشا... میری جان میری بات سنو,  وہ بس ایک... " شیراز اسے منا نہیں پا رہا تھا 

"بکواس بند کرو... اور خبردار جو آج کے بعد مجھے اپنی شکل دکھائی تو " وہ اسے وارننگ دیتی ہوئی وہاں سے نکل گئی تھی 

................

پورا ایک ہفتہ ہو گیا تھا اسے گھر میں مقید ہوۓ, سیل مسلس بند کیا ہوا تھا, باہر کی دنیا سے ہر رابطہ منقطع کیا ہوا تھا اور  شیراز کی شکل تک نہ دیکھنے کی قسم کھا رکھی تھی,  مسلسل ایک ہفتے سے وہ حنان کے گھر پر ہی تھی

اس دن بھی وہ رات تقریباً نو بجے آفس سے گھر آیا تو وہ صوفے پر آڑی ترچھی ہو کر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی,  حنان بس ایک نظر اسے دیکھتا ہوا اوپر چلا گیا,  وہ اس سے بات ہی نہیں کر رہا تھا 

شائد اپنی بگڑی ہوئی بیوی کو راہ راست پر لانے کی کوشش کر رہا تھا 

وہ فریش ہو کر نیچے آیا,  اپنے لئے چاۓ کا ایک کپ بنایا اور دھیرے سے اس کے ساتھ صوفے پر آ بیٹھا,  رشا کچھ دیر تو ویسے ہی صوفے کی پشت سے ٹیک لگاۓ بیٹھی رہی,  پھر دھیرے سے اٹھی اور اپنا سر حنان کے کندھے پر رکھ کر اس کے بالکل ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی 

"تم ناراض ہو ؟" اس نے پوچھا تھا,  حنان کا دل یکدم ڈگمگا گیا

وہ تو اس کا برسوں کا خواب تھی

"تمہیں کیا لگتا ہے ؟" حنان نے کہا

"اچھا سوری... " رشا نے ریموٹ ایک طرف پھینکتے ہوئے اپنے دونوں بازو اس کے گرد باندھ دئیے, حنان کی بس ہو گئ,  شائد اس کے لئے اتنی سزا کافی تھی,  دھیرے سے چاۓ کا کپ میز پر رکھتے ہوۓ اس نے رشا کا ہوش ربا سراپا اپنے بازؤں میں بھرا تھا 

"اب کیا سوچا ہے تم نے ؟" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا,  رشا نے بولنے کی بجاۓ اپنے دونوں بازؤں کی گرفت آس کی گردن پر مضبوط کر دی تھی,  اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپا لیا تھا 

اس لمحے اسے شیراز کی بے وفائی بری طرح چبھ رہی تھی,  پورا ہفتہ ہو گیا تھا اسے ماتم مناتے... شیراز کی طرف سے بھلے ہی کوئی دلی وابستگی نہ ہوتی,  لیکن اس نے واقعی دل لگایا تھا,  شیراز پر اس کے ایک جھوٹ کے باوجود اعتبار کیا تھا 

اس لمحے حنان کے مضبوط بازؤں کی آغوش میں اسے ٹوٹ کر شیراز کی بے وفائی پر رونا آیا

"رشا... " حنان کو لگا جیسے اس کی شرٹ بھیگ رہی ہے

"میری جان... رو کیوں رہی ہو؟" وہ اسکے چاند چہرے پر اپنے ہونٹ ثبت کرتا ہوا پوچھ رہا تھا 

"سوری... " وہ دوبارہ اس سے لپٹ گئی

"اوپر لے چلوں ؟" وہ اس سے پوچھ رہا تھا 

"لے چلو... " رشا کے کہتے ہی وہ اسے بانہوں میں اٹھا کر کھڑا ہو گیا

"بعد میں غصہ تو نہیں کرو گی ؟" وہ بولا

"نہیں کرتی... " رشا سے اس کے لبوں کا سامنا کرنا دوبھر ہو رہا تھا 

"صبح اٹھکر یہ تو نہیں کہو گی کہ یہ بس ایک پیپر میرج تھی ؟" وہ اسے بستر پر گراتے ہوئے پوری طرح اس پر حاوی ہوتا جا رہا تھا 

"نہیں کہوں گی" رشا کا وجود ہی کافی تھا اسے پاگل کرنے کے لئے... اور وہ پاگل ہوتا جا رہا تھا


جاری ہے

#تیری دہلیز جنت ہے 

#عائشہ ذوالفقار 


پانچویں قسط 

آخر وہ آج اسے ایک شوٹنگ سائٹ پر مل ہی گئی تھی, اس کے اصرار کرنے پر تو وہ کبھی بھی اس سے بات نہ کرتی... سو کوئی کھیل ہی کھیلنا تھا,  میک اپ مین کی مٹھی گرم کر کہ اس نے رشا کے ساتھ تنہائی میں چند منٹ خرید لئے

وہ وقفے کے بعد میک اپ روم کی طرف گئی تو ایک دم ہی اس کے پیچھے دروازہ بند ہو گیا

"تم... نکلو یہاں سے" وہ اس پر چڑھ دوڑی تھی 

"رشا میری بات سنو... " وہ تیر کی طرح اس کی طرف آیا تھا 

"خبردار جو مجھے ہاتھ بھی لگایا تو... " وہ پیچھے کو ہٹتے ہوۓ بولی  

"رشا... سنو" شیراز نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا, وہ لڑکھڑا کر اس کے سینے سے آ لگی

"رشا میری جان... " اس نے مضبوطی سے اپنے دونوں بازو اس کے نازک وجود کے گرد باندھ کر گرفت مضبوط کی تھی 

"شیراز... چھوڑو" وہ اس کے چنگل سے نکلنے کی پوری کوشش کر رہی تھی 

"میری جان... میری رشا" وہ اسے خود میں سموۓ بڑے جنون سے اس کے چہرے کو چومتا چلا گیا,  رشا کی ہر پیش رفت بیکار چلی گئی 

"شیراز... " اس نے ایک آخری اجتجاجی کوشش کرنا چاہی تھی 

"رشا... " جسے شیراز نے اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کرتے ہوئے ختم کر دیا, وہ اس وقت تک اسے خود میں قابو کئے کھڑا رہا جب تک رشا کا وجود ڈھیلا نہیں پڑ گیا

"تم نے جھوٹ بولا... " اس کی آنکھیں بھر آئیں تھیں 

"میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے یار... بہت زیادہ,  میں نہیں رہ سکتا تمہارے بنا,  تمہاری عادت ہو گئی ہے مجھے" وہ اسے آزاد نہیں کر رہا تھا 

"بس کچھ دن اور اعتبار کر لو مجھ پر... اس کی ڈلیوری ہوتے ہی اسے طلاق دے دوں گا,  پکا وعدہ" وہ اسے ایک بار پھر جھانسے میں لا رہا تھا 

"پیار کرتی ہو نا مجھ سے ؟" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا اور رشا...!

 وہ آخر کیسے چھپاتی اس سے کی بے تحاشا محبت کو ؟ وہ آخر کیسے کہہ دیتی کہ مجھے تم سے کوئی پیار نہیں ہے... نہیں کہہ سکی

"مجھ سے دور نہ جایا کرو رشا... میرا بدن ٹوٹنے لگتا ہے,  لت پڑ گئی ہے مجھے تمہاری " وہ جانتا تھا کہ رشا اس سے دل لگا بیٹھی ہے سو وہ اسے زیر کرتا جا رہا تھا 

..............

وہ اپنی نشست پر بیٹھی تھی جب اسے حنان کا بلاوا آ گیا,  اس کی پریگنینسی کے آخری دن چل رہے تھے,  بس آج کل میں وہ اس سے چھٹی مانگنے ہی والی تھی 

"جی سر... " وہ اندر آتے ہوئے بولی

"مس فاکہہ اگر آپ کو برا نہ لگے تو مجھے ایک فیور دے سکتی ہیں ؟" اس نے کہا

"جی سر... ضرور" وہ بولی

"آج رات ایک بہت بڑی بزنس گیدرنگ ہے,  کئی کمپنیوں کے چئیرمین اور آنرز وہاں موجود ہوں گے,  بہت سارے ٹینڈرز اور کانٹریکٹس کا تبادلہ بھی ہو گا,  اگر ممکن ہو تو کیا آپ میرے ساتھ چل سکتی ہیں ؟" اس نے پوچھا 

"سر ایشو تو کوئی نہیں ہے,  میں یہاں پر بھی تو آتی ہی ہوں لیکن... اتنی رات کو آؤں گی کیسے ؟" وہ بولی 

"نو پرابلم... میں آپ کو پک بھی کر لوں گا اور ڈراپ بھی کر دوں گا,  دراصل فاکہہ کچھ قصور آپ کا ہے اور کچھ میرا... میں نے کچھ زیادہ ہی خود کو آپ پر ڈیپینڈینٹ کر لیا ہے,  اب اکثر چیزیں تو مجھے پتہ بھی نہیں ہوتیں اور آپ کلئیر کر دیتی ہیں" وہ کہتا چلا گیا

"کوئی بات نہیں سر... وہ کہتے ہیں نا کہ نوکر کیا اور نخرہ کیا... ؟" وہ دھیرے سے بولی تھی,  حنان نے پہلی بار نظر بھر کر اس کی طرف دیکھا

وہ عام سی شکل و صورت کی انتہائی سادہ سی لڑکی تھی لیکن...اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں بلا کی چمک تھی,  اس کے پر وقار چہرےپر بلا کی ذہانت تھی,  اس کی خوب سیرتی کو شائد خوب صورتی کی ضرورت بھی نہیں تھی

وہ اس کے یوں مسلسل دیکھنے پر سٹپٹا سی گئی 

"ٹھیک ہے سر... میں چلی جاؤں گی آپ کے ساتھ ؟" اس نے بات ختم کرنی چاہی تھی 

حنان دھیرے سے مسکرا دیا,  اس نے عام سیکریٹریوں کی طرح کبھی اس کے آفس میں دیر تک رکنے کے بہانے نہیں ڈھونڈے تھے,  بس اپنے کام سے آتی اور کام ہوتے ہی چلی جاتی,  کبھی گھنٹوں اس کے ساتھ بیٹھ کر گپیں نہیں ماریں,  کبھی اپنے کام کے ساتھ ناانصافی نہیں کی

"ایک پرسنل سی بات پوچھوں آپ سے فاکہہ ؟" وہ آج پہلی بار اس کے ساتھ اتنا کھل رہا تھا 

"جی سر... " وہ بولی

"آپ کے ہسبینڈ کا رویہ کیسا ہے آپ کے ساتھ ؟" اس نے پوچھا,  فاکہہ فوراً سے جواب نہ دے سکی

"اگر نہیں بتانا چاہیں تو کوئی زبردستی نہیں ہے... " وہ اس کی خاموشی کو نہ جانے کیا سمجھا

"سر دراصل ہم حقیقت سے کتنا بھی منہ چھپائیں... وہ پھر بھی حقیقت ہی رہتی ہے,  اور یہ حقیقت ہے کہ میں خوبصورت نہیں ہوں,  اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بہت زیادہ ہینڈسم اور چارمنگ ہیں,  وہ فی الحال مجھ سے شادی نہیں کرنا چا رہے تھے,  بچپن کی منگنی تھی اسی لئے مجبور ہو گئے..." وہ اتنا کہہ کر چپ ہو گئی,  حنان اس کی بات سمجھ گیا تھا 

"ٹھیک ہے مس فاکہہ... آپ جا سکتی ہیں " اس نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا تھا 

.................

پورے دس بجے اس نے فاکہہ کو اس کے گھر سے پک کر لیا,  شیراز کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا,  رقیہ بیگم سو چکی تھیں, اس نے انہیں اپنی میٹنگ کے بارے میں بتا دیا تھا,  نفیس سا سوٹ پہن کر اس نے اپنا آپ بڑی مہارت سے ایک شال میں چھپا رکھا تھا, میٹنگ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں تھی,  شہر کے سبھی چھوٹے بڑے بزنس مین وہاں موجود تھے,  حاتم قریشی بھی آۓ ہوۓ تھے,  حنان نے فاکہہ سے بھی ان کا تعارف کروایا 

"یہ رشا کے فادر ہیں... " اس نے ذرا زور دیتے ہوئے کہا تھا 

کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک حنان کی نظر دروازے سے اندر آتی رشا پر پڑی,  اس کے پیچھے ہی شیراز اندر داخل ہوا تھا,  وہ ایک دم چونک گیا,  اسے تو لگا تھا کہ سب ٹھیک ہو چکا ہے,  رشا کو اس کے گھر آۓ ایک ماہ سے اوپر ہو چلا تھا

وہ دونوں ایک دوسرے میں مگن چلتے ہوئے کاؤنٹر پر چلے گئے,  ریسیپشن پر کھڑے لڑکے نے کچھ دیر بعد ایک چابی شیراز کے حوالے کر دی,  حنان سن رہ گیا تھا,  شیراز نے بڑے حق سے اس کا ہاتھ تھاما اور وہ دونوں سیڑھیاں چڑھ گئے,  وہ حاتم قریشی سے نظریں بچاتا ہوا ان دونوں کے پیچھے آیا تھا, شیراز نے تھرڈ فلور پر آ کر ایک کمرہ کھولا اور رشا کو اندر جانے کا اشارہ کر دیا, وہ مسکراتی ہوئی اندر داخل ہو گئی تھی, شیراز نے اس کے پیچھے اندر جاتے ہوئے دروازہ لاک کر دیا تھا 

حنان کچھ دور سیڑھیوں پر ہکا بکا کھڑا رہ گیا تھا 

بات تو پھر وہیں کی وہیں تھی 

رشا نے اس کو بھی مطمئین کر دیا تھا اور اپنے چسکے بھی اسی طرح پورے کر رہی تھی,  اچانک ایک ویٹر جوس کے دو گلاس لیکر اوپر آیا,  حنان نے دھیرے سے کچھ نوٹ اس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوۓ اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا 

ویٹر نے دروازہ ناک کیا

"کون ؟" شیراز نے پوچھا 

"روم سروس... " ویٹر نے کہا

"جاؤ اب... " حنان نے اسے کہا اور کچھ دیر بعد شیراز نے دروازہ کھول دیا,  وہ بنا شرٹ کے دروازے میں کھڑا تھا,  اپنے سامنے تھری پیس میں ملبوس حنان فارس کو دیکھ کر بوکھلا سا گیا

حنان ایک نظر اس کی طرف دیکھتے ہوئے دو قدم آگے کو آیا تھا,  رشا جس حالت میں بستر پر لیٹی ہوئی تھی وہ اسے شرم سے پانی پانی کر گئی,  وہ اسے دیکھ کر یکدم گڑبڑا گئی تھی

"فاکہہ... " اس سے پہلے کہ وہ اسے گھسیٹتا ہوا وہاں سے لیکر جاتا, اس نے اپنے پیچھے شیراز کی آواز سنی تھی,  وہ ایک دم پلٹا,  فاکہہ عین دروازے کے سامنے کھڑی تھی 

پھٹی آنکھیں... کھلے لب...وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرش پر بیٹھتی چلی گئی تھی 

"فاکہہ... " شیراز ایک دم اس کی طرف بڑھا لیکن فاکہہ نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ ایک دم جھٹک دیا,  اپنی پوری ہمت جمع کر کہ دوبارہ کھڑی ہوئی اور سیڑھیوں کی طرف واپس مڑ گئی لیکن... 

اس کی چیخ سن کر حنان سیڑھیوں کی طرف بھاگا تھا , وہ بے ہوش ہوۓ جا رہی تھی,  حنان اسی وقت اسے بازؤں میں لئے ہسپتال کی طرف دوڑ پڑا تھا 

.....................

اسے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا لیبر روم کے باہر کھڑے ہوۓ,  نہ تو اس کے پاس فاکہہ کے گھر کا کوئی نمبر تھا اور نہ سسرال کا... شیراز نہ جانے کہاں تھا,  اس نے مڑ کر فاکہہ کا اتا پتہ پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی,  فاکہہ کا بیگ بھی ہوٹل میں ہی رہ گیا تھا,  اس کی تکلیف آمیز چیخیں حنان کو باہر تک سنائی دے رہی تھیں,  اچانک اسے نومولود بچے کے رونے کی آواز آئی,  وہ ایک دم چونک گیا,  کچھ ہی دیر بعد لیڈی ڈاکٹر لیبر روم سے باہر نکلی,  وہ تیرکی طرح اس کی طرف بھاگا تھا 

"مبارک ہو مسٹر... آپ ایک بیٹے کے باپ بن گئے ہیں" وہ اسے وہی سمجھی... جو سمجھنا چاہیے تھا 

"میں ان کا شوہر نہیں... " اس کی بات درمیان میں ہی رہ گئی تھی,  نرس نے سفید کپڑے میں لپٹا ایک ننھا سا وجود اس کے بازؤں میں ڈال دیا, وہ بس ہکا بکا اس چھوٹے سے موم جیسے گڈے کو دیکھتا رہ گیا,  آنکھیں نہ جانے کیوں بھر آئیں,  ہونٹ نہ جانے کیوں لرز اٹھے,  وہ بس اس کی پیشانی چوم کر رہ گیا,  اسے بازؤں میں لئے اس نے ایک نظر لیبر روم کی طرف دیکھا,  وہ نڈھال سی بستر پر پڑی تھی 

"انہیں تھوڑی دیر تک ہوش آ جاۓ گا " نرس نے کہا تھا,  تبھی اس کا ڈرائیور فاکہہ کا بیگ لے آیا,  اس نے رقیہ اور قدسیہ دونوں کو کال کر دی تھی,  تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں پہنچ گئیں,  حنان وہ بچہ ان کی گود میں ڈال کر ہسپتال کا سارا بل چکا کر چپ چاپ گھر واپس آ گیا

رشا وہاں نہیں تھی 

..........................

وہ اپنے آفس میں تھا جب چپراسی اس کی میز پر ایک لفافہ رکھ کر چلا گیا,  اس نے کھولا اور سن بیٹھا رہ گیا

وہ کورٹ کی طرف سے نوٹس تھا

رشا نے اس کے خلاف خلع کا کیس دائر کر دیا تھا 

"اگر میں نے رشا کو طلاق دے دی تو ؟" اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے سوچا,  ایک دم اس کی نظروں میں وہ ننھا سا وجود ابھر آیا

وہ موم کا گڈا... اس کی انتہائی معصوم ماں

رشا آزاد ہوتے ہی شیراز سے شادی کر لیتی اور ظاہر ہے وہ سوتن کو تو اپنے سر پر کبھی بھی برداشت نہ کرتی

"نہیں رشا... میں تمہیں دو معصوم زندگیوں کے ساتھ کھیلنے نہیں دوں گا" اس نے فیصلہ کر لیا

اسی رات وہ ایک بار پھر اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر اسے زبردستی گھر لے آیا تھا 

...................

اس دن حاتم قریشی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی,  وہ رشا کی حرکتوں سے سخت پریشان تھے,  نورین نے کال کر کہ اسے حاتم کی طبیعت خرابی کے بارے میں بتایا,  وہ ہسپتال میں تھے,  حنان اسی وقت ان سے ملنے ہسپتال چلا آیا

"یہ کیا ماموں جان... ؟" وہ ان کی زرد رنگت دیکھ کر دکھی ہو گیا

"عمر کا تقاضا ہے..." وہ دھیرے سے مسکراۓ تھے

"میں نے کہا تھا نا ماموں جان کہ وہ آپ کا خون ہے,  بعد میں آپ کو گلہ ہو گا ؟" اس نے کہا

"میں نے گلہ تو نہیں کیا بیٹے ؟" وہ بولے

"لیکن آپ کی اس حالت سے مجھے اپنا آپ قصوروار لگ رہا ہے" حنان نے کہا

"اگر آپ کہتے ہیں تو میں اسے ابھی اسی وقت آزاد کر دیتا ہوں" حنان نے کہا

"اچھا... اس کے بعد کیا ہو گا ؟" انہوں نے پوچھا 

"وہ شائد اس لڑکے سے شادی کر لے... تب وہ جو کرے گی اس کی مرضی سے کرے گی " حنان نے کہا

"نہیں حنان... ایسا نہیں ہو گا,  اس لڑکے کو بس ایک سیڑھی چاہئے,  اسے رشا سے کوئی سروکار نہیں ہے,  وہ عروج پر پہنچ کر اسے چھوڑ دے گا اور رشا... وہ ہے تو میرا خون لیکن نہ جانے کیسا نکلا ہے ؟ اسے عادت پڑ گئی اس سب کی... بے جا آزادی کی, عیاشیوں کی... وہ اس سے شادی کر کہ بھی راہ راست پر نہیں آۓ گی,  وہ شوہر بن گیا تو پابندیاں لگاۓ گا اور سارا مسئلہ پابندیوں کا ہی تو ہے" وہ کہتے چلے گئے,  حنان چپ رہ گیا تھا,  وہ ان کی عیادت کر کہ وہاں سے نکلا تو اچانک ایک نرس اس کے پیچھے بھاگی آئی

"مسٹر حنان فارس... آپ کو میڈم بلا رہی ہیں" وہ اس کے قریب آ کر بولی,  حنان حیران سا اس کے ساتھ ہو لیا

وہ وہی لیڈی ڈاکٹر تھی جس کے پاس وہ ایک بار فاکہہ کو لے گیا تھا 

"بیٹھیں مسٹر حنان... آپ سے بس ایک بات ڈسکس کرنا تھی " اس نے کہا

"جی ڈاکٹر... " وہ بیٹھ گیا

"آپ رشا حاتم کے شوہر ہیں ؟" اس نے پوچھا 

"جی... " وہ اور حیران ہو گیا

"دراصل مسٹر حنان آپ ایک بزنس سلیبرٹی ہیں,  میرے شوہر بھی بزنس مین ہیں اسلئے میں آپ کو تھوڑا بہت جانتی ہوں,  آپ ایک مرتبہ اپنی سیکریٹری کو میرے پاس لیکر آۓ تھے,  وہ امید سے تھی, آپ اس کے لئے انتہائی فکر مند تھے, میں بس یہ پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ  اپنی سیکریٹری کے لئے اور اس کے ہونے والے بچے کے لئے اسقدر فکر مندی اور اپنے خود کے بچے کا ابارشن کروا دیا... " لیڈی ڈاکٹر نے اس کے سر پر دھماکہ کیا تھا 

"ابارشن... " وہ بول بھی نہ سکا

"مجھے شائد یہ نہ پتہ چلتا کہ آپ ان کے شوہر ہیں اگر میں ان کی کیس ہسٹری اتنی تفصیل سے نہ پڑھتی,  وہ اکیلی ہی میرے پاس آئی تھیں,  بقول ان کے آپ کو وہ بچہ نہیں چاہئے تھا... " لیڈی ڈاکٹر کہتی چلی گئ,  حنان کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا 

"مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ پریگنینٹ تھی... " وہ بس اتنا ہی کہہ سکا اور کھڑا ہو گیا,  لیڈی ڈاکٹر اس کے دھواں دھواں چہرے کو دیکھ کر مزید کچھ نہ بولی,  وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا ہسپتال سے نکل آیا,  اس کی گاڑی کا رخ گھر کی طرف تھا,  گاڑی کھڑی کر کہ وہ اندر آ گیا,  صوفے پر اوندھی لیٹی,  سیل کان سے لگاۓ ہنس ہنس کر باتیں کرتی رشا نے اس کا سارا دکھ غصے میں بدل دیا,  تیر کی طرح اس کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے زور سے اس کے کان سے لگا سیل فون کھینچا اور دیوار پر دے مارا

"یہ کیا بے ہودگی ہے ؟" وہ ایک دم چلائی تھی 

"زبان بند کرو اپنی..." اس نے ایک دم رشا کی گردن دبوچی تھی

"ابارشن کیوں کروایا ؟" اس نے رشا کو دیوار کے ساتھ لگا دیا 

"گردن چھوڑو میری " وہ مسلسل اس سے اپنی گردن چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی, حنان نے اسے ایک جھٹکے سے صوفے پر پھینک دیا

"تم سے زیادہ بے غیرت لڑکی میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی رشا حاتم... نفرت ہوتی ہے مجھے تمہاری شکل دیکھ کر" وہ تنفر سے بولا تھا 

"اتنی ہی نفرت ہے نا میری شکل سے تو طلاق دے دو مجھے" وہ چلائی 

"ایک بات اچھی طرح دماغ میں بٹھا لو بے حیا عورت... طلاق تو تمہیں کسی قیمت پر نہیں دوں گا" اس نے زور سے رشا کی کلائی جکڑی اور اسے گھسیٹتا ہوا اوپر لے آیا

"چھوڑو مجھے بے ہودہ انسان..." وہ حلق کے بل چلائی, حنان نے اسے ایک جھٹکے سے بستر پر دھکا دے دیا

"صبح و شام اس کمرے میں بند رہو گی تم... میں بھی دیکھتا ہوں کیسے خلع لیتی ہے تم ؟" وہ اس پر پہلی بار دھاڑا تھا

"حنان میں آخری بار کہہ رہی ہوں....جانے دو مجھے" وہ  اس کے سامنے انگلی اٹھا کر بولی تھی 

"کہاں جانے دوں تمہیں ؟ اس بے غیرت شخص کے پاس جسے نہ اپنی بیوی کی پرواہ ہے اور نہ چند دن کے بچے کی...چلو وہ تو مرد ہے اسلئے بے غیرت ہے,  تم عورت ہو کر بھی اس قدر بے حیا کیسے ہو رشا ؟" وہ چیخا تھا

"بکواس بند کرو... " وہ ایک دم دھاڑی اور حنان کا تھپڑ اسے خاموش کروا گیا

"آئیندہ میرے سامنے ایسے گلا مت پھاڑنا قاتل عورت... " وہ اسے نفرت سے دیکھتا کمرے سے نکلا اور دروازہ لاک کر دیا,  رشا مسلسل وہ بند دروازہ بجاتی چلی گئی تھی 


جاری ہے

#تیری دہلیز جنت ہے 

عائشہ ذوالفقار 


آخری قسط 

وہ اس دن اپنے آفس میں تھا جب اسے فاکہہ کی کال آئی,  حنان نے اسے بیس دن کی چھٹی اوکے کر دی تھی 

"جی مس فاکہہ... کیسی ہیں آپ ؟" وہ بڑی خوشدلی سے بولا تھا 

"ٹھیک ہوں سر... وہ دراصل میں نے آپ کو انفارم کرنا تھا کہ میں اب آپ کی کمپنی جوائن نہیں کر سکوں گی,  کل تک میرا استعفیٰ آپ کو مل جاۓ گا" اسے فاکہہ کی آواز بہت نڈھال سی لگی

"خیریت تو ہے نا فاکہہ... اگر آپ کو مزید چھٹیاں چاہئیں تو میں بڑھا دیتا ہوں" حنان جلدی سے بولا,  وہ اسقدر قابل ایمپلائی کو کھونا نہیں چاہتا تھا 

"سر دراصل مجھے کچھ زیادہ ہی لمبی چھٹی کرنی پڑ جاۓ گی اسلئے ؟" فاکہہ نے بات ادھوری چھوڑ دی

"کیا مطلب ؟" وہ سمجھ نہ سکا

"مجھے ڈائیوورس ہو گئی ہے سر... " فاکہہ کے الفاظ اس پر بجلیاں گرا گئے تھے 

"مجھے عدت گزارنی ہے" حنان کو لگا جیسے اس کی آواز بھرا رہی ہو,  وہ جواباً بول بھی نہ سکا,  فاکہہ چپ چاپ کال کاٹ گئی تھی,  اس نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی, اس کی میز پر رشا کی طرف سے آیا خلع کا دوسرا نوٹس بھی پڑا ہوا تھا

اس نے سوچا تھا کہ شائد رشا راہ راست پر آ جاۓ تو فاکہہ کا گھر بچ جاۓ لیکن... شیراز کو واقعی صرف اس کی ڈلیوری تک کا انتظار تھا,  اپنے بچے کی پیدائش کے صرف ایک ہفتے بعد ہی اس نے فاکہہ کو طلاق دے دی تھی, دھیرے سے اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنے وکیل کو کال کی

"وکیل صاحب... طلاق کے کاغذات تیار کروائیں, میں رشا حاتم کو طلاق دینے کے لئے تیار ہوں" اس نے اپنا سر میز پر گراتے ہوئے کہا تھا 

.........................

رات تقریباً بارہ بجے کا وقت تھا جب وہ گھر پہنچا, پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا 

"امی... " رقیہ کو آوازیں دیتے ہوئے اس نے ایک ایک کر کہ ساری لائٹیں آن کر دیں

"امی... " وہ کسی بھی کمرے میں نہیں تھیں,  انتہائی پریشان ہو کر اس نے رقیہ کا نمبر ملایا تھا

"ہاں شیراز... ؟" انہوں نے رات کے اس پہر اس کی کال ریسیو کر ہی لی... وہ جاگ رہی تھیں 

"امی آپ کہاں ہیں ؟" س نے پوچھا 

"فاکہہ کی طرف... " انہوں نے کہا

"بتا تو دیتیں... " شیراز ذرا ناراضگی سے بولا تھا 

"میں اب یہیں رہوں گی شیراز... مجھے بار بار کال نہ کرنا" انہوں نے کہا

"کیوں ؟" وہ حیران رہ گیا

"کیونکہ چند دن بعد اس لڑکی کو یہاں لا کر تو مجھے بھی یونہی نکال باہر کرے گا جیسے فاکہہ کو کیا,  جیسے اپنے بچے کو کیا... تو کیا فائدہ بے عزت ہو کر نکلنے کا,  میں پہلے ہی چھوڑ آئی تیرا گھر " وہ کہتی چلی گئیں 

"امی میں آپ کا بیٹا ہوں... ایسا بھی کیا گناہ کر دیا میں نے,  ہزاروں لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیتے ہیں اور دوسری شادی کرتے ہیں,  میں کوئی انوکھا کام تو نہیں کرنے لگا" وہ تڑخ گیا

"یہ ہی تو المیہ ہے شیراز کہ ہزاروں لاکھوں لوگ پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت کی طرف راغب کیوں ہو جاتے ہیں ؟ اور بیوی بھی فاکہہ جیسی... نیک سیرت,  فرمانبردار,  با حیا... " رقیہ نے کہا

"امی میری نہیں بنی اس سے... بس" اس نے چیخ کر کہا

"تو نے بنانی چاہی ہی نہیں شیراز... میری ایک بات کان کھول کر سن لے,  تیرے جیسے ہوتے ہیں جنہیں ناقدری اور ناشکری کی سزا ملتی ہے, ناقدری کی ہے تو نے ایک نیک سیرت بیوی کی اور نا شکری کی ہے اولاد جیسی نعمت کی... دوبارہ نہیں ملیں گی دیکھ لینا" انہوں نے کہا

"آپ مجھے بددعا دے رہی ہیں ؟" وہ بولا

"نہیں میرے لعل... میں تجھے تیری سزا بتا رہی ہوں,  تجھے ہی مبارک ہو تیرا وہ بڑا سا گھر,  تیری وہ چھپڑ پھاڑ کمائی اور تیری ہونے والی بیوی... میں نہیں آؤں گی اب " انہوں نے کہتے ہوئے کال کاٹ  دی تھی

.....................

رات کے دس بج رہے تھے جب وہ آفس سے سیدھا گھر پہنچا,  فریش ہو کر کپڑے تبدیل کئے,  اپنے لئے کافی کا ایک مگ بنایا اور اپنے بیڈروم سے منسلک ٹیرس پر آ گیا,  بہت دیر سوچنے کے بعد اس نے فاکہہ کو کال کی تھی 

"اسلام علیکم سر... " اس نے کال ریسیو کر لی

"کیسی ہیں آپ فاکہہ ؟" وہ بولا

"ٹھیک ہوں سر... آپ کیسے ہیں ؟" فاکہہ کی آواز اسے آج بھی بہت مدھم لگ رہی تھی 

"اس دن آپ سے ٹھیک سے بات ہی نہیں ہو سکی,  دراصل مجھے آپ کی طلاق کا سن کر اسقدر افسوس ہوا کہ مجھ سے بولا ہی نہیں گیا... " اس نے کہا,  فاکہہ خاموش رہی

"میں بذات خود آپ کے گھر آنا چاہ رہا تھا لیکن...پھر مجھے لگا کہ مجھے آپ کی عدت کے دنوں میں آپ سے نہیں ملنا چاہیے,  فاکہہ مجھے آپ کے گھر ٹوٹ جانے کا بے حد دکھ اور افسوس ہے" اس نے کہا

"میری قسمت... " وہ بولی

"بچے کی خاطر بھی سمجھوتہ نہیں ہو پایا ؟" اس نے پوچھا 

"سمجھوتہ تو تب ہوتا نا سر جب اس بچے سے کوئی دلی وابستگی ہوتی  یا اس کے مستقبل کی کوئی پرواہ ہوتی, جب بندے کو سرے سے کوئی سروکار ہی نہ ہو تو سمجھوتہ کیسا ؟" اس نے کہا

"فاکہہ ہم لوگ حقیقت سے کتنا بھی منہ چھپائیں لیکن یہ ہی سچ ہے کہ جس عورت کی وجہ سے آپ کا گھر اجڑا... وہ میری بیوی تھی " اس نے کہہ ہی دیا

"نہیں سر... سچ یہ ہے کہ جس شخص کی وجہ سے میرا گھر اجڑا... وہ میرا اپنا شوہر تھا" اس نے کہا

"لیکن آپ دونوں کے بیچ تو رشا ہی آئی تھی نا... " حنان نے کہا

"رشا نہ آتی توکوئی اور آ جاتی... خدا کا لکھا میرا نصیب بدل تو نہیں جانا تھا نا" اس نے کہا,  حنان چہ رہ گیا

"بحر حال مس فاکہہ... مجھے آپ کے یوں داغدار ہو جانے کا بہت دکھ ہے" آس نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا تھا 

"مجھے بھی... سر" فاکہہ نے دھیرے سے کہتے ہوئے کال کاٹ دی تھی 

.....................

وہ آج بڑے دنوں بعد حاتم قریشی سے ملنے آیا تھا,  رشا کو طلاق ہوۓ دو ہفتے ہو چکے تھے,  وہ دونوں نفوس حسب عادت اسے شام کی چاۓ پر لان میں ہی مل گئے 

"بڑے دنوں بعد آۓ حنان ؟" نورین نے اس کے آگے چاۓ کا کپ رکھا تھا, وہ بس مسکرا کر رہ گیا

"خفا ہیں ؟" اس نے حاتم قریشی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا 

"کیوں بھلا ؟" وہ حیران ہو کر بولے

"میں آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا... " وہ بولا

"جس کی اپنی سگی اولاد آس کی امیدوں پر پورا نہ اترے... وہ کسی اور سے کیا گلہ کرے " انہوں نے کہا

"ایم سوری ماموں جان لیکن مجھے لگا کہ میرے اور زبردستی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں,  اس نے بائیس سال اپنی من مرضی کرتے گزارے ہیں اور... بائیس سال بہت ہوتے ہیں من مرضیاں کرنے کا عادی بننے کے لئے " حنان نے کہا

"قصور میرا ہے... اسے من مرضیاں کرنے کا عادی بھی میں نے ہی بنایا تھا " حاتم نے کہا

"اب کیا کہتی ہے ؟" اس نے کچھ دیر بعد پوچھا 

"وہ کونسا کچھ کہتی ہے... وہ تو بس کر گزرتی ہے" حاتم نے کہا

"شادی نہیں کرے گی ؟" اس نے پھر پوچھا 

"خدا جانے... ہر حد تو پار کر چکی ہے وہ,  شادی جیسا بندھن بھلا کوئی اہمیت رکھتا ہو گا اس کے لئے ؟" انہوں نے کہا

"اگر میں دوسری شادی کرنا چاہوں تو آپ ناراض تو نہیں ہوں گے ؟" اس نے پوچھا تھا 

"دوسری شادی... ؟ تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری پہلی شادی بھی ہوئی تھی ؟" وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے,  حنان خاموش رہ گیا

اب انہیں کیا بتاتا کہ اس نے بیس سال رشا کا خواب دیکھا... جب بھی اس سے ملا,  ہر بار یہ ہی خواہش کی کاش... وہ ستارہ اس کا ہو جاۓ,  جب وہ اسے ملی تو اسے لگا کہ اس کی دونوں مٹھیاں چاند ستاروں سے بھری ہوئی ہیں,  وہ ایک رات جب رشا نے اپنا آپ اس پر لٹایا... اس کے لئے کسی جنت سے کم نہیں تھی لیکن... وہ شائد دنیا کا واحد انسان تھا جس کا خواب مکمل ہو کر بھی ادھورا رہ گیا تھا,  جو محبت کو پا کر بھی نہ پا سکا تھا 

...............

چار ماہ بعد 

"فاکہہ... " وہ اپنے بیٹے کے لئے کسٹرڈبنا رہی تھی جب راکعہ نے اسے آواز دی

"کیا ہے ؟" وہ کچن سے ہی بولی تھی اور اس سے پہلے کہ باہر نکل کر اس کی بات سنتی,  راکعہ پھولی پھولی سانسوں سے بھاگتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی 

"فاکہہ... تمہارے باس آۓ ہیں" اس نے فاکہہ کو حیران کیا تھا 

"جاؤ...میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا ہے" راکعہ نے اس کے ہاتھ سے چمچ پکڑتے ہوئے اسے باہر کو دھکیلا تھا,  وہ منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ہوئی,  دوپٹہ اوڑھ کر ڈرائنگ روم کی طرف آ گئی , حنان نے ایک نظر اسے دیکھ کر کھڑے ہوتے ہوئے سلام کیا تھا 

"کیسی ہیں مس فاکہہ... ؟" اس کا وہی مخصوص سا لحجہ

"ٹھیک ہوں سر... " اور فاکہہ کا وہی مخصوص سا جواب

"بیٹا کیسا ہے ؟" اس نے پھر پوچھا 

"وہ بھی ٹھیک ہے سر" اس نے کہا

"دوبارہ جوائن نہیں کرنا ؟" اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا,  راکعہ چاۓ رکھ گئی تھی 

"سر کرنا تو تھا لیکن... مجھے لگا کہ چار ماہ میں اس کرسی پر یقینا کوئی اور بیٹھ چکی ہو گی" وہ بولی

"فاکہہ اگر میں آپ کو اپنے آفس کے باہر والی کرسی کی بجاۓ آفس کے اندر والی کرسی پر بٹھانا چاہوں تو ؟" حنان نے کہا,  فاکہہ اس کی بات سن کر سن رہ گئی تھی

"آپ کے لئے رشا کے بعد بھی لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں ہے سر... ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور امیر" اس نے کہا

"ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور امیر ہی چنی تھی میں نے... نتیجہ ؟ رنڈوے کا ٹیگ لگا کر چھوڑ گئی " وہ دھیرے سے مسکرایا تھا 

"میں اکیلی نہیں ہوں سر,  ایک بیٹا ہے میرا, پوری  فیملی ہے جسے سپورٹ کرنا ہے" اس نے کہا

"وہ جو تمہارا بیٹا ہے نا... اسے تم سے بھی پہلے میری انگلیوں نے چھوا تھا,  تمہاری آغوش سے پہلے وہ میری آغوش میں آیا تھا , اس کا ماتھا سب سے پہلے اس کی ماں یا باپ نے نہیں... میں نے چوما تھا,  تمہیں کیا لگتا ہے میں ساری عمر اس معصوم لمس کو بھول پاؤں گا... " وہ کہتا چلا گیا

"اور تمہاری فیملی... میرا نہیں خیال کہ میں اسقدر کم ظرف اور گھٹیا انسان ہوں کہ تمہیں تمہاری فیملی کو سپورٹ کرنے سے روک دوں گا " حنان نے پاس اس کے ہر سوال کا جواب موجود تھا 

"رشا کیا سوچے گی ؟" فاکہہ نے کہا

"اور تمہارا سابقہ شوہر کیا سوچے گا ؟ اور سارا شہر کیا سوچے گا ؟ اور ساری دنیا کیا سوچے گی ؟ ہے نا ؟" حنان کو اس پر غصہ بھی آیا اور لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ بھی پھیل گئی,  فاکہہ بس اس کی طرف دیکھ کر رہ گئی تھی 

"اپنی امی کو بلاؤ... مجھے ان سے بات کرنی ہے " حنان نے ایک نظر اس کے پریشان سے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا 

...........................

اس کے نکاح میں حاتم قریشی اور نورین دونوں شامل ہوۓ تھے

"بہت لمبے چوڑے وعدے نہیں کروں گا تم سے...بس اتنا کہ جب تک میں زندہ ہوں,  تم پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا,  تمہارے آنکھوں میں آنسو کبھی میری وجہ سے نہیں آئیں گے,  میرے ہوتے کبھی تمہیں کسی چیز کے لئے محتاجی نہیں ہو گی, تمہارا شوہر بن کر تمہارے آگے نہیں,  ہمیشہ تمہارے برابر میں کھڑا ہوں گا,  میری زبان اور ہاتھ سے تمہیں کبھی کوئی گزند نہیں پہنچے گا" ایک بیوی کیا چاہتی ہے اپنے شوہر سے... ؟ بس یہ ہی کچھ نا... اور حنان فارس اس کے ہاتھ تھامے اسے یہ سب دینے کا وعدہ کر رہا تھا 

"میں بھی آپ سے وعدہ کرتی ہوں حنان کے آپ ہمیشہ مجھے اپنے دکھ سکھ میں برابر کا شریک پائیں گے,  میرے لبوں سے کبھی کوئی ایسی خواہش نہیں نکلے گی جسے پورا کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ہو گا, آپ کی آنکھیں کبھی میری وجہ سے نیچی نہیں ہوں گی,  جب تک میں زندہ ہوں,  آپ کا مان یونہی قائم رکھوں گی" اور کیا چاہتا ہے ایک شوہر اپنی بیوی سے ...؟ بس یہ ہی کچھ نا... جس کا وعدہ فاکہہ اس کے سینے پر سر رکھے کر رہی تھی 

........................

چار سال بعد 

اس نے اپنی دو سالہ بیٹی کو گود میں اٹھاتے ہوئے اسے کال کی تھی 

"کہاں رہ گئے ؟" وہ دونوں بچوں کو لیکر نیچے گیٹ کے پاس کھڑی تھی 

"یار ٹریفک میں پھنس گیا ہوں... بس دس منٹ" حنان نے کہا,  اس نے اوکے کرتے ہوئے کال کاٹ دی تھی 

آج اس کی چھوٹی بیٹی کی سالگرہ تھی,  حنان نے فائیو سٹار میں سپیشل ٹیبل بک کروایا تھا,  تھوڑی ہی دیر میں اس کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا,  دونوں بچے ایک دم باہر کو بھاگ لئے,  ہوٹل پہنچ کر اس نے گاڑی پارک کی اور اپنی بیٹی کو گود میں اٹھاتے ہوئے اندر آ گیا,  فاکہہ نے اپنے بیٹےکی انگلی تھامی ہوئی تھی,  ہنستے, مسکراتے وہ چاروں اپنی میز کی طرف آ گئے,  اچانک فاکہہ کی نظر کچھ دور بیٹھے شیراز پر پڑی,  وہ اکیلا نہیں تھا,  لیکن جو اس کے ساتھ تھی وہ رشا نہیں تھی,  اسے یوں سوالیہ نشان بنا دیکھ کر حنان نے اس کے آگے ہاتھ لہرایا تھا

"بس کرو... نظر لگا دو گی ان دونوں کو ؟" وی مسکراتے ہوئے بولا

"یہ رشا تو نہیں... " حنان نے اس کی بات کاٹ دی 

"رشا آجکل اس کے ساتھ نہیں رہ رہی...اس نے ایک بار پھر خلع کا کیس دائر کیا ہو اہے" حنان نے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا 

"کیوں ؟" وہ حیرانی سے بولی

"کیوں کرتی ہے کوئی عورت خلع کا کیس دائر ؟کیوں مانگتی ہے اپنے شوہر سے طلاق ؟ کیونکہ وہ اس کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی " حنان نےکہا

"لیکن شیراز تو رشا سے... " حنان نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی

"وہ محبت نہیں تھی فاکہہ... وقتی ابال تھا,  جنون تھا,  شہرت کی سیڑھیاں چڑھنے کی ایک کوشش تھی اور بس... محبت نہیں تھی " حنان نے کہا,  فاکہہ سر جھٹک کر رہ گئی 

حاتم قریشی نے ٹھیک کہا تھا,  رشا کو عادت پڑ گئی تھی من مرضیاں کرنے کی... انہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ مسئلہ تو سارا ہے ہی پابندیوں کا... شیراز کے لئے وہ تب تک ہی ڈریم گرل تھی جب تک اس کی دسترس سے دور تھی,  جیسے ہی ان دونوں نے نکاح کیا... وہ یک دم روائتی شوہر بن گیا,  کونسا شوہر اپنی بیوی کوسر عام بے حیائی کرنے دیتا ہے ؟ 

رشا نے من مرضی کرنی چاہی اور شیراز نے پابندی لگا دی... بس 

وہ ایک بات پھر سے خلع کا کیس دائر کئے ہوئے تھی,  اور شیراز کی بانہوں میں ایک کے بعد ایک نئی تتلی آتی جا رہی تھی 

حاتم قریشی بالکل درست تھے... اسے لت پڑ گئی تھی یہ سب کرنے کی...اور شائد اس نے اب یہ ہی سب کرنا تھا


ختم شد


جاری ہے