Bina Tere Kesi Eid Full Novel By Maryum Imran

Bina Tere Kesi Eid Full Novel By Maryum Imran









Eid special 🥰🎉😻

بن تیرے کیسی عید۔۔💖💖💖
مریم۔عمران۔۔

قسط نمبر 1#

افف حسنہ بس کردے کب سے چھت پہ کھڑی ہو کل نہی پرسو کا روضہ ہے ۔۔

افف آپی تم تو رہنے دو ہر بار پہلے سے تکے لگالیتی ہو ہر بات کے۔۔

ارے میری ماں میں تکے نہی لگارہی۔۔عیشا نے منہ بنا کے کہا۔۔
ابھی خبروں میں دیکھ کے آرہی ہو کل ہے سعودیہ عرب میں روزہ تو ہمارا پرسوں ہوگا نہ۔۔
اور ابھی بابا اجائینگے مسجد سے نہ تو تم نے روٹیاں بنائ ہے نہ سلاد ۔۔
یہ بول کے عیشا نیچے جانے لگی ۔
جب اسٹول پہ چڑھی حسنہ تیزی سے نیچے اتری اور عیشا کو پیچھے سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔

ہائے میری پیاری اپی تم تو بہت اچھی ہو ہائے قسم سے دیکھو میری ہاتھ حسنہ نے ایک دم اپنے ہاتھ آگے کیہ اور کہا ۔روٹی تم۔بنا دو ۔۔

قسم سےصبح سے امی نجانے کون کون سی نسل کی چٹنی بنوا کے فریج میں رکھوا رہی ہیں کبھی بیسن چھان کے ڈبے میں ڈلوارہی رہی ہیں تو کبھی چھولے صاف کروا رہی ہیں۔۔اور فریج تو مت پوچھو کتنی بار صاف کرا ہے میں نے۔۔۔

اوہ ہیلو میڈم تم نے تو خالی کچن کا کام کیا ہے میں نے تو پورا گھر صاف کیا کے ایک ایک کشن ،،پردے پتہ نہی کتنی بار میں نے کارپیٹ کی چادر بدلی ہے مجھے تو معاف کرو بہن اور ویسے بھی مجھے کل سب سے پہلے اٹھنا ہے سحری کیلیے تم جانتی ہو امی پورا دن سونے نہی دیتی رمضان میں کچھ نہ کچھ کرواتی ہی رہتی ہیں اوپر سے سلائ الگ کرواتی ہیں ۔۔اپنے کپڑوں کیساتھ ساتھ تمہارے کپڑے بھی سیتی ہو بھولو۔۔مت عیشا نے بھی حساب برابر کرتے ہوئے کہا ۔

زرا سے تمہیں روٹیاں کیا پکانے کو بول دی تم نے تو اتنا بڑا لیکچر ہی سنا ڈالا آپی اور اکیلے میرے کپڑے نہی سیتی میڈم اپنی پیاری پھپھو جان کا تو آپ نام لینا ہی بھول گئ جو اب آپکی ساس بھی ہیں۔۔

پھپھو کا ذکر کرتے ہی ایک تاریخ سا عکس عیشا کی آنکھوں کے سامنے لہرایا اور وہ ایک دم سنجیدہ ہوگئ۔۔
حسنہ یہ بات نوٹ کرچکی تھی اس لیہ فورا بولی۔

آپی ارمان بھائ کو معاف کردو صرف ایک تمہاری معافی کی وجہ سے وہ دو سال سے پاکستان نہی ائے ہیں۔ پھپھو بھی ان کو دیکھنے کیلیے ترستی ہیں۔
بیویوں کا تو دل اللہ نے ویسے ہی بہت بڑا بنایا ہوتا ہے معاف کردو آپی وہ واقعی بہت شرمندہ ہیں پلیز۔۔

عیشا نے ایک تلخ مسکراہٹ لیہ حسنہ کی طرف دیکھا اور کہا۔۔
کس نے کہا ایسا کے عورتوں کو درد نہی ہوتا انہیں تکلیف نہی ہوتی مانا اللہ نے عورت کو قربانی کا جذبہ صبر کا جزبہ مردوں سے زیادہ دیا ہے اسکا مطلب یہ نہیں انہیں تکلیف نہہی ہوتی۔۔پھپھو کو تکلیف میری وجہ سے نہی ہوئ حسنہ میں تو تب بھی خاموش تھی آج بھی ہو میں تو ارمان سے کوئ شکوہ نہی کیا ہاں بس اب مجھے کوئ فرق نہی پڑتا انکے ہونے سے یہ نہ ہونے سے ایک وقت تھا جب میں انکا ہر عید پہ انتظار کرتی تھی ۔اور وہ جان بوجھ کے بےگانگی ظاہر کرتے تھے میں نے محبت دل سے کی اور انہوں نے شاید زبان سے۔۔
یہ بول کے عیشا جانے لگی تب حسنہ نے پیچھے سے کہا۔
آپی اللہ اتنی دفعہ معافی مانگنے پہ اپنے بندے کو معاف کر دیتا ہے اور اپنے بندوں سے یہی توقع کرتا ہے کے وہ بھی اسکے بندوں کو معاف کردے۔۔
اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔

عیشا نے بنا حسنہ کی طرف مڑے اسکی بات کا جواب دیا۔۔
بے شک اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے مگر حسنہ شرک تو اللہ کوبھی پسند نہی تو پھر میں کیسے اپنی محبت میں شرک کرنے والے کو معاف کردو۔ 
اور عیشا حسنہ کو ہمیشہ کی طرح لاجواب کرگئ۔۔

#########
اگلے دن چاند دیکھتے ہی سکینہ بیگم (حسنہ اور عیشا کی والدہ) نے دونوں بچیوں سے باقاعدہ گھر میں تراویح کا اہتمام کروایا بلکہ سحری کا بھی سارا انتظام کروایا۔۔
سکینہ بیگم اور ک,کامران صاحب نے باری باری اپنی دو بہنوں کا فون کرکے رمضان کی مبارک بعد دی پھر حسنہ اور عیشا نے بھی اپنی دونوں پھپھو سے دل کھول کے باتیں کی۔۔

سارے کاموں سے فارغ ہوکے جب عیشا کمرے میں آئ تو اسکا موبائل بجنے لگا عیشا نے جب موبائل اٹھایا یہ دیکھنے کیلیے کے کس کی کال ہے مگر موبائل پہ نمبر آتا دیکھ عیشا کے سامنے کسی کا عکس لہرایا عیشا کا چہرہ ایک دم سنجیدہ ہوا اور موبائل بند کرکے سونے لیٹ گئ۔۔

حسنہ جو اپنی دوست سے گپ شپ میں لگی تھی بات ختم کرکے اندر آنے لگی تو اسکے نمبر پہ کال آنے لگی جسے دیکھ وہ مسکرائ اور کال اٹھا کے کہا۔
اسلام وعلیکم۔۔
ارمان بھائ کیسے ہیں آپ؟؟
 رمضان کا چاند دیکھا وہاں؟؟

ہاں یار دیکھا ارمان کی مایوسی بھری آواز اسپیکر سے ابھری۔۔

کیا ہوا ارمان بھائ آپ اتنے مایوس کیوں ہیں کیا ہوا؟؟

تم جانتی ہو میری مایوسی کی وجہ حسنہ ؟؟؟

ارمان کی بات سن کے حمنہ نے ایک ٹھنڈی اہ بھری اور کہا۔۔

جانتی ہو ارمان بھائ آج بھی انہوں نے اپکی کال نہی اٹھائ مگر ارمان بھائ آپ یہ بھی تو دیکھے ابھی تک انہوں نے نمبر نہی بدلا اپنا اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کے آج بھی وہ آپ سے محبت کرتی ہیں بس آپ سے ناراض ہیں اور ارمان بھائ آپ جانتے ہیں بھلے بابا نے باقی سب نے اپکی اس غلطی کو معاف کردیا مگر اپنے انکی محبت میں شرک کیا ہے اتنا تو حق بنتا ہے انکا ناراض ہونے کا۔۔

حسنہ کی کسی بات کا جواب ارمان کے پاس نہی تھا اس لیہ وہ خاموش رہا۔
حسنہ نے کان سے ہٹا کے موبائل دیکھا تو کال لگی ہوئ تھی۔جب حسنہ نے اپنی بات جاری رکھتے و ہوئے کہا۔
دیکھے ارمان پچھلے ڈیڑھ سال سے آپ دور بیٹھ کے اپنی بیوی سے اپنی غلطی کی معافی کسی کے تھرو مانگ رہے ہیں کبھی پھپھو کے زریعے کبھی ماما کے زریعے اور کبھی میرے زریعے۔۔

تم کہنا کیا چاہتی ہو حسنہ میں سمجھا نہی؟؟

ارے میرے بھولے ارمان بھائ اب اتنے بھی معصوم نہی آپ میرے کہنے کا مطلب ہے اب جب دور بیٹھ کے معافی نہی مل رہی بیوی نہی مان رہی تو کیوں نہ اس بار روبرو معافی مانگی جائے یہ عید اپنی بیوی کو منانے کے اس کے ساتھ گزارے اور کچھ روزے بھی سمجھ رہے ہیں نہ میری بات ۔۔
حسنہ یہ بول کے مسکرائے تو ادھر ارمان کے لب بھی دھیرے سے مسکرائے اور اس نے کال کٹ کردی۔۔

جاری ہے۔۔

بن تیرے کیسی عید،💖💖
مریم عمران۔۔
قسط نمبر 2#

،جبران صاحب کی تین اولادیں تھیں۔
کامران ،نزہت،زینب۔۔
سب سے بڑی زینب ۔پھر نزہت اور پھر کامران ۔۔

نزہت بیگم کی شادی جبران صاحب نے اپنے دوست کے بیٹے سے کی اور کامران صاحب کی اپنے کزن کی بیٹی سکینہ سے۔۔
زینب کہ شادی انہوں نے اپنے خاندان میں کی۔۔

بہت بڑے کپڑے کے کاروبار کے مالک کامران صاحب نے اپنے والدین کی موت کے بعد اپنی بہنوں کو اکیلا نہی چھوڑا سکینہ بیگم جنہوں نے سگھڑپن کا نہ صرف ثبوت دیا بلکہ اپنی دونوں بیٹیوں کی تربیت میں بھی کوئ کمی نہی چھوڑی۔
نوکر ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی بیٹیوں پہ ہرکام کی زمہ داری لگائ، نماز روزہ کا پابند بنایا۔موبائل وغیرہ ہر چیز کی سہولت گھر میں موجود تھی مگر کبھی کامران صاحب کی بیٹیوں نے اپنی حدود نہی لانگی۔۔
جہاں کامران صاحب کا ایک روب تھا اپنی بیٹیوں پہ وہی انکی جان تھی اپنی بیٹیوں میں خاص کر عیشا میں۔۔
تو ادھر نزہت بیگم کے جوانی میں ہی بیوہ ہونےکا غم انکے بھائ کو بہت پریشان کرتا نزہت بیگم کے شوہر ایک میجر تھے ۔جو ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔۔نزہت بیگم کی دو اولادیں تھی بڑی بیٹی ہانیہ اور ارمان۔جبکہ زینب بیگم خوشحال اپنی شوہر کیساتھ پنڈی میں ہی رہتی تھی جنکا ایک ہی بیٹا تھا کاشان۔۔
نزہت بیگم کے بیوہ ہونے کے بعد کامران صاحب نے اپنی اس بہن کا بہت خیال رکھا پوری کوشش کی انہوں نے کے وہ کسی طرح انکے ساتھ انکے گھر چل کے رہے مگر وہ نہ مانی اور اپنی دو اولادوں کے ساتھ لاہور میں ہی مقیم رہی ۔
کامران صاحب نے ہانیہ کی شادی اچھے خاندان میں کروا دی اور ارمان کو اچھی تعلیم دلوائی آج وہ باہر ملک میں ایک اچھی کمپنی میں جاب کررہا ہے۔۔

##########
(ڈھائ سال پہلے)

تم سچ کہہ رہے ہو بیٹا؟؟نزہت بیگم نے خوش ہوکے اپنے خوبرو بیٹے سے کہا۔
ارمان نے مسکرا کے اپنے ماں کی گودھ میں سر رکھا اور کہا۔۔

ہاں میری پیاری امی میں بچپن سے عیشا کو پسند کرتا ہو تھوڑی سے دبو قسم کی ہے شرماتی بہت ہے اور میرے سامنے تو پتہ نہی اسے کیا ہوجاتا ہے گھبرائ گھبرائ سے رہتی ہے مگر پھر بھی امی مجھے وہ بہت عزیز ہے آپ ماموں جان سے بات کرے نہ میں باہر جانے سے پہلے اسے اپنے نام کرنا چاہتا ہو۔۔
  اچھا اچھا میری جان میں ابھی بھائ صاحب کو کال کرتی ہو اور انہیں اپنی آمد کا بتاتی ہو ۔۔

نزہت بیگم یہ کہہ کر اٹھی تو ارمان کے سامنے شرمائے لجائ سی عیشا کا سراپا لہرایا اور اسکے لبوں پہ ایک حسین مسکراہٹ اگئ۔۔

#########
عیشا تھکی ہاری یونی سے آکے بیٹھی جب دھپ کرکے حسنہ اسکے برابر میں ا بیٹھی اور آنکھوں میں شرارت لیہ اسے دیکھنے لگی۔۔
عیشا نے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا۔
کیا بات ہے آج بڑی خوش ہو کیا بریانی بنائ ہے آج امی نے ؟؟
عیشا نے اپنا سامان سمیٹے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔۔

نہی نہ آپی اب تو آپکے نکاح کی بریانی کھائئنگے ۔۔
حسنہ نے بولتے ہی زبان دانتوں تلے دبائ تو ادھر عیشا کا دل زور سے ڈھرکا اور اس نے کہا۔

کیا مطلب حسنہ؟؟؟
کو۔ چ۔۔کچھھ۔
نہی آپی میں چلتی امی بلا رہی ہیں۔یہ بول کے حسنہ جانے لگی۔
جب پیچھے سے عیشا نے کہا۔
تمہں میری قسم ہے حسنہ اگر تم نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا فورا میرے کمرے میں او۔۔
یہ بول کے عیشا اپنے کمرے میں گئ تو پیچھے پیچھے حسنہ بھی کمرے داخل ہوئ جب عیشا نے گھور کے اسے دیکھا اور کہا۔۔

اب بتاؤ سچ سچ کیا ماجرا ہے؟؟؟؟
 ایک بھی بات اگر گھما پھرا کے کہی تو یاد رکھنا میں بات نہی کرونگی۔۔۔

وہ آپی حسنہ اپنا گلہ تر کیا اور کہا۔۔۔

پہلے وعدہ کرو آپی تم یہ بات اپنے تک رکھوگی اگر تم نے امی سے پوچھا تو بھی بھول جانا کے میں تم سے بات کرونگی!!!

حسنہ نے بھی اپنا مدعا عیشا کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔۔

ہاں ہاں نہی پوچھونگی پکا عیشا نے حسنہ کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔۔

حسنہ عیشا نے سامنے صوفے پہ بیٹھی اور کہا ۔

بڑی پھپھو نے ارمان بھائ کیلیے آپکا رشتہ مانگا ہے کل بابا اور امی رات میں اس موضوع پہ بات کررہے تھے ۔میں انکے کمرے میں پانی کا جگ رکھنے جارہی تھی جب دروازے کے باہر سے سنا۔
اور پھپھو نے یہ رشتہ ارمان بھائ کی خواہش پہ مانگا ہے پرسوں تک پھپھو آفیشلی آپکا ہاتھ مانگنے ائینگی۔۔
حسنہ نے ایک جھٹکے میں اپنی بات ختم کری ۔تو ادھر عیشا کے دل کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگی۔
بچپن سے جس سے خاموش محبت کی اللہ اسے یو اچانک اسکی جھولی میں ڈال دے گا یہ تو عیشا نے سوچا نہی تھا۔۔
جب تھوڑی دیر تک عیشا حسنہ کی بات سن کے کچھ نہی بولی تو حسنہ اتھ کے عیشا کے برابر میں آکے بیٹھی اور عیشا کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا۔

"کیا ہوا آپی تم تو ارمان بھائ کو پچپن سے محبت کرتی ہو تمہارے ہر راز سے میں واقف ہو تو پھر اتنی بڑی خوشی کی خبر سن کے تم نے کوئ ریکٹ نہی کیا ؟؟؟کیا اب تم ارمان بھائ کو پسند نہی کرتی؟؟؟
حسنہ کی بات پہ عیشا نے مسکرا کے حسنہ کی طرف دیکھا اور کہا۔
مجھے تو یقین نہی آرہا حسنہ کے اللہ میری محبت پہ بن مانگے اتنی جلدی کن بول دے گا ۔

ارے آپی اللہ ہمارے دلوں کے حال بہتر جانتا ہے تو پھر میری اتنی پیاری اپی کی خواہش کیسے پوری نہی کرتا ۔۔
یہ بول کے حسنہ تو چلی گئ مگر عیشا کا دل ڈرنے لگا یہ سوچ کے جنکو محبت بہت آسانی سے مل جاتی ہے انکی زندگی میں محبت میں جدائی بھی بہت جلدی آتی ہے۔۔۔

جاری ہے۔۔۔

Eid special 🥰🥳🎉

بن تیرے کیسی عید💖💖
⁦✍️⁩مریم عمران
قسط نمبر 3#

پھر پتہ ہی نہیں چلا عیشا کو کے کب پھپھپو آئ کب نکاح کی ڈیٹ فکس ہوئ۔۔

آج اسکے ہاتھ میں ارمان کے نام کی مہندی لگ رہی تھی ۔ہر طرف خوشی کا عالم تھا عیشا کو تو یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا۔۔
ارمان کی شوخ نظریں ،ااسکے پھپھو کا اسکا واری واری جانا،اسکے ماں باپ کا خوشی سے دمکتا چہرہ ،اسکی بہن کی شوخ شرارتیں ،اسکے کزن کا اسکو چھیرنا،ایک خواب سا لگ رہا تھا عیشا کو۔۔عیشا کے دل میں نجانے ایک ڈر تھا بے شک وہ ارمان سے بچپن سے محبت کرتی تھی اسکی خوبصورتی ایسی تھی کے یونیورسٹی میں کئ لڑکوں نے اسے محبت کا پیغام دینا چاہا مگر عیشا نے تو خود کو ارمان کی محبت کے لیہ سنبھال کے رکھا تھا۔۔

######

عیشا تیار ہونے پالر گئ تھی جبکہ حسنہ گھر میں تیار ہورہی تھی ۔جب ایک دم کاشان کے چیخنیں کی آواز پہ جھمکے پہنتی حسنہ نے زور سے اپنی آنکھیں بند کی اور جھمکے پہنے لگی۔۔جب اچانک اسکے کمرے کا دروازہ ڈھار کرکے کھلا اور کاشان غصہ سے حسنہ کے کمرے میں داخل ہوا ۔۔
حسنہ نے ایک نظر کاشان کے غصیلی چہرے کو دیکھا اور پھر اسکے ہاتھ میں راؤ سلک کے بلو کرتے کو جو فرنٹ سے جلا ہوا تھا۔

تم اتنی پھوہڑ ہو ایک کرتا تم سے استری نہی ہوا جلا دیا تم نے جاہل لڑکی اب میں کیا پہنونگا۔۔؟؟؟

کاشان نے کرتا اسکے منہ پہ مارتے ہوئے کہا۔۔
بھئ مجھے نہی آتا کرتوں پہ استریاں کرنا بولا تھا تمہیں اب جل گیا تو بھگتو۔۔

حسنہ نے اپنا دفاع کیا اور دوبارہ تیار ہونے لگی۔۔
جب کاشان نے ایک جھٹکے سے اسکا رخ اپنی طرف موڑا اور بے دردی سے اسکے کان سے جھمکا اتار کے توڑ ڈالا اور کہا۔۔

اووو سو سوری غلطی سے توٹھ گیا تمہارا جھمکا یہ بول کے کاشان کمرے سے چلا گیا۔۔
جبکہ حسنہ منہ کھولے ہونقوں کی طرح اپنے جھمکے کو دیکھنے لگی اسے سمجھ ہی نہیں آیا کے دو منٹ پہلے وہ کس زلزلے سے گزری۔۔

###########
ریڈ اور وائٹ کلر کے کنٹراس میں خوبصورت سا انگ رکھا پہنے عیشا پہ غضب کا روپ آیا تھا تو ادھر وائٹ کاٹن کے سوٹ میں ارمان بھی کسی سے کم نہی لگ رہا تھا ہلکی بریڈ میں اسکی شان ہی نرالی تھی ۔۔
پردہ کے دونوں اعتراف وہ دونوں اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کرنے آج آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔
جالی دار پردے کے پار سے بھی ارمان عیشا کے گھوگھنٹ میں چھپے روپ کو اپنے دل میں اتار رہا تھا تو ادھر عیشا نے مظبوطی سے حسنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور حسنہ یہ دیکھ کے کافی حیران تھی کے عیشا باقاعدہ کپکپا رہی تھی۔۔

نکاح کے ہوتے ہی جالی دار پردہ اٹھایا گیا اور ساتھ میں عیشا کا گھونگھٹ بھی دو پل کیلیے ارمان عیشا کا دلہن کا روپ دیکھ کے ساکن رہ گیا۔۔
عیشا کو ارمان کے برابر میں بیٹھایا گیا جب ارمان نے دھیرے سے عیشا کے کان میں سرگوشی کی۔
جانمن آج تو چاند کو بھی مات دے رہی ہو یہ بول کے ارمان نے ہلکا سا عیشا کا ہاتھ دبایا ۔۔عیشا نے بہت مشکل سے اپنے ڈھرکتے دل کو روکا اور ارمان کے ہاتھوں کے اپنا ہاتھ آزاد کروایا۔۔۔

تو ادھر کاشان اور حسنہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے تھے دونوں کا بس نہی چل رہا تھا کے ایک دوسرے کا خون کردے۔۔

نکاح کی تقریب نمٹی تو سب ابھی کامران صاحب کے گھر ہی مقیم تھے کیونکہ ایک ہفتہ بعد ارمان کی لندن کی فلائٹ تھی۔۔

ارمان بہانے بہانے عیشا کے ارد گرد منڈلاتا کبھی اسے باہوں میں بھرنے کی کوشش کرتا کبھی راتوں کو اسکے ساتھ وقت گزارنے کی ضد کرتا ۔۔
مگر عیشا جیسے یہ سب بہت عجیب لگتا تھا ارمان سے چھپنے لگی ۔ارمان اسے اسکی شرماوحیا سمجھ کے اگنور کردیتا۔۔
اور پھر ارمان کے جانے سے ایک دن پہلے ارمان نے عیشا کو اپنے کمرے میں بلایا اور نہ آنے پہ اسے دھمکی دی ناراض ہونے کی۔۔

سب کے سونے کے بعد بہت ہمت کرکے عیشا ارمان کے کمرے میں ڈرتے ڈرتے پہنچی۔۔۔
ارمان جو آرام سے بیڈ پہ لیٹا تھا عیشا کے آتے ہی بیڈ پہ بیٹھا اور اسے اپنے پاس بلایا ۔۔
عیشا جھجھکتے ہوئے ارمان کے پاس گئ۔
ارمان نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا۔۔
بچپن سے تمہیں چاہتا ہو عیشا میرے محبت کب اتنی گہری ہوئ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے کب میں نے اتنا بڑا فیصلہ کرلیا کے تمہارے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارو۔۔
کل میں چلا جاؤنگا اور دو سال بعد آؤنگا مجھے مس کروگی؟؟

ارمان کی بات سن کے عیشا نے ہاں میں گردن ہلائی اور نظر اٹھا کے اسے دیکھا۔
اور وہی لمحہ تھا جب ارمان نے اپنے رشتہ کا جائز استعمال کرکے عیشا کے لبوں کو چھونا چاہا۔
ارمان اس سے پہلے عیشا کے لبوں کو چھوتا عیشا ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئ اور کہا ۔۔

کافی رات ہوگئ ارمان میں جارہی ہو۔۔
یہ بول کے عیشا جانے لگی کے ارمان نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف کھینچا اور اسے باہنوں میں بھر کے کہا۔

تو کیا ہوا تم کسی غیر کے ساتھ نہی اپنے شوہر کیساتھ ہو یہ بول کے ارمان نے عیشا کی گردن پہ اپنے لب رکھے ارمان کا ایسا کرنا تھا کے عیشا نے بھر پور مزاحمت کی خود کو چھڑوانے کی مگر ناکام رہی۔۔
ارمان دوبارہ عیشا کے لبوں پہ جھکا مگر عیشا کے لبوں کو چھونے سے پہلے ہی عیشا کا طمانچہ ارمان کا گال لال کرچکا تھا۔۔
جہاں ارمان اپنے گال پہ ہاتھ رکھ کے سکتے کی حالت میں عیشا کو دیکھنے لگا وہی عیشا کا ہاتھ بھی بے ڈھرک اپنے منہ پہ گیا اور وہ نفی میں گردن ہلانے لگی۔۔
اور ڈورتی ہوئ ارمان کے کمرے سے چلی گئ۔۔

صبح ارمان ناشتہ کی ٹیبل پہ سب سے ملا مگر اسنے ایک نظر بھی عیشا پہ نہی ڈالی عیشا کو بھی اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا مگر صرف وقتی طور پہ ۔
ارمان سب سے ملا مگر عیشا سے نہی ایئرپورٹ بھی وہ اپنے ساتھ کسی کو لے کر نہی گیا اور دو سال کیلیے لندن چلا گیا۔

جاری ہے۔

Eid special 🥰🥳🎉

بن تیرے کیسی عید💖💖
⁦✍️⁩مریم عمران#
قسط نمبر 4#

ارمان کو گئے آج ایک مہینہ ہوگیا تھا۔مگر اس نے ایک بار بھی عیشا سےبات نہی کی۔۔
گھر کے تمام افراد سے بات کرتا مگر جب جب عیشا سامنے آجاتی بات کرنے وہ اوف ہوجاتا شروع شروع میں تو عیشا نے نوٹس نہی لیا۔۔
مگر جب ارمان کے رویہ رتی برابر بھی فرق نہی آیا تو اسے تشویش ہونے لگی۔۔

اس نے ارمان کا نمبر لے کے اسے پرسنلی کال کی جو تھوڑی دیر بعد تو ریسیو کرلی گی مگر ارمان نے عیشا کا چہرہ دیکھتے ہی کال کٹ کردی۔۔

عیشا نے ڈھیروں سوری کے میسج ارمان کو کیہ نجانے کتنی وڈیو کال کی مگر ارمان نے ایک بھی کال پک نہی کری ۔۔
عیشا نے پھر بھی۔ہمت نہی ہاری جب عیشا کسی طور پہ ارمان کو کال کرنے سے باز نہی آئ تو ارمان نے عیشا کی کال پک کی اور غصہ میں کہا۔۔

اب کیا مصیبت ہے تمہیں عیشا دور تو ہوگیا ہو تم سے نہی آرہا تمہارے قریب اب کیوں تنگ کررہی ہو مجھے؟؟؟

ارمان اس سے پہلے آگے سے کچھ اور بولتا عیشا کی سسکیوں نے اسکی بولتی بند کردی۔۔
ارمان نے کال کٹ کرکے فورا ویڈیو کال کری۔۔
اور سامنے ہی اسے اسکی دشمن جان نظر ائ،سرخ آنکھوں اور سرخ ناک کیساتھ۔۔

ارمان نے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا۔
اب یہ رونا دھونا کس لیہ تم نے ثبوت دے تو دیا کیا عزت ہے میری تمہاری نظر میں اب یہ ڈرامہ کیوں۔۔؟؟

ارمان کے اتنے سخت الفاظ میں عیشا نے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا اور ارمان جسکا سارا غصہ عیشا کی بہتی آنکھیں دیکھ اڑن چھو ہوگیا۔۔

ارمان نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا۔
جانتی ہو عیشا مجھے لگتا تھا تم بھی مجھ سے بچپن سے محبت کرتی ہو جیسے میں کرتا ہو تم بھی مجھے دن رات ایسے ہی سوچتی ہو جیسے میں سوچتا ہو ۔مگر میں غلط تھا تمہارے ایک مہینے پہلے کے رویہ نے مجھے یہ بات اچھی طرح سمجھا دی کے میں نے شاید جلد بازی میں اپنے زندگی کیساتھ ساتھ تمہارے ساتھ بھی زیادتی کرڈالی۔شاید میں غلط سمجھ بیٹھا تمہاری آنکھوں کا پیغام کے تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو؟؟

ارمان اس سے پہلے کچھ اور بولتا عیشا بول پڑی۔۔
نہی ارمان آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں بچپن سے صرف آپ سے محبت کرتی آئ ہو ہمیشہ آپ کیلیے اپنی محبت سنبھال کے رکھی۔۔

تو بچپن کی محبت جب کسی جائز رشتے کی صورت میں اپکو ملے تو اسکے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسا تم نے کیا۔۔ارمان نے بھی آج حساب برابر کرنے کا سوچا۔۔

غلطی ہو گئ نہ مجھ سے پکا اب نہی کرونگی عیشا نے کسی معصوم بچے کی طرح منہ بنا کے کہا۔۔
اور یہ سنتے ہی ارمان کے لبوں پہ مسکراہٹ اگی۔۔

اب عیشا ارمان سے زور باتیں کرتی کبھی پوری پوری رات کبھی دن میں ہر نئے دن کیساتھ ارمان کی ویڈیو پہ فرمائش بڑھنے لگی کبھی وہ عیشا کو کس کا بولتا ،کبھی بنا ڈوپٹہ کے بیٹھنے کو بولتا ،کبھی رومینس کرنے کو بولتا۔۔
ان سب جیسوں سے عیشا بہت جلدی گھبرانے لگی تھی اب وہ ایک بار پھر اپنے خول میں قید ہونے لگی اسے یہ سب بہت عجیب لگنے لگا وہ بہانے بہانے سے ارمان سے یہ تو بات نہی کرتی اور کرتی تو صرف 5منٹ ۔۔
ارمان عیشا کی ساری باتیں بہت اچھی طرح نوٹ کررہا تھا اور اس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔
جب ارمان نے بہت دل سے عیشا کو کال کی اور پیاری بھری باتیں کرنے کو کہا۔
مگر عیشا نے یہ کہہ کے کال کٹ کردی کے وہ اپنی دوست کے ہاں ہے بعد میں بات کرے گی۔۔

عیشا کا جواب سن کے فلحال تو ارمان چپ ہوگیا۔مگر پھر پتہ نہی کیا سوچ کے ارمان نے حسنہ کو کال کی۔۔

ہیلو حسنہ کیا کررہی ؟

ارے واہ بھئ آج تو بڑے بڑے لوگوں نے ہمیں کال کی حسنہ نے خوش اسلوبی سے کہا۔۔
ہاں بس ایسی ہی اور کیا ہورہا تھا۔؟؟
ارے ارمان بھائ کچھ نہی بس اسٹڈی کررہی تھی۔۔

ہمم اور تمہارے آپی کہاں ہے؟؟؟
 ارمان نے ڈھرکتے دل کیساتھ حسنہ سے پوچھا۔۔
بھائ وہ تو ٹی وی دیکھ رہی ہیں ۔حسنہ نے لاپروائ سے جواب دیا۔۔
حسنہ کے جواب پہ ارمان کے دل میں چھن کرکے کچھ توٹا اور اس نے ادھر ادھر کی بات کرکے کال کٹ کردی۔۔
اور خود سے تہیںہ کیا کے اب وہ عیشا کو کال نہی کرے گا۔

عیشا کے بھی پیپر اسٹارٹ ہوگئے اور وہ بھی اپنی پڑھائ میں مصروف ہوگئ۔۔
اور یوں ارمان اور عیشا کے درمیان ایک مہینے کا وقفہ آگیا نہ تو عیشا نے ارمان کو کال کی اور نہ ارمان نے۔۔
عیشا جو یہ سب کرکے یہ سمجھ رہی تھی کے جب ارمان واپس آئے گا اس کی رخصتی ہوگی تو وہ ارمان سے نہ صرف اپنے جزبات کا اظہار کرے گی بلکے اپنے عمل سے بھی بتائے گی کے اسکا ارمان اسکے لیہ کیا ہے ۔۔

مگر کہتے ہیں نہ اکثر خوش فہمی انسان کو لے ڈوبتی ہے ۔۔ایسا ہی کچھ عیشا کیساتھ ہوا جب عیشا نے ارمان سے دوری اختیار کی اسکے جزبات کی قدر نہی کی۔
تو وہ بہت جلد ارمان کی زندگی میں اسکے جزباتوں کی قدر کرنے والی اگئ۔۔

ماریہ ارمان کے آفس کی نئ۔کولیگ تھی۔۔ارمان سے بہت جلد اسکی دوستی ہوگئ۔۔
ارمان جو پہلے سے ہی توٹا تھا ماریہ کا ساتھ ملتے ہی وہ پھر جی اٹھا۔۔
روز گھنٹوں گھنٹوں باتیں کرنا۔ساتھ گھومنا پھرنا ارمان کی باتیں اسکے جزبات ماریہ کیلیے بہت معنی رکھنے لگے۔۔۔۔
ان سب میں ارمان عیشا کو بھول گیا۔
اب اسکی زندگی میں ماریہ تھی جو کپڑوں سے لے کر ہر بات میں ارمان کی پسند میں ڈھل گئ تھی۔مگر اس میں ایک خرابی تھی وہ فرینک بہت جلدی ہوجاتی تھی ۔ہر کسی سے آفس کے کئ مردوں سے ہنسی مزاق کرتی انکے گلے ملتی۔۔

مگر فلحال ارمان کو ان سب سے کوئ مسئلہ نہی تھا۔
تو ادھر جب ارمان نے دو مہینے تک عیشا کو کال نہی کوئ رابطہ نہی کیا۔تو عیشا کو پریشانی ہونے لگی مگر اب کافی دیر ہوچکی تھی جو جگہ خود عیشانے خالی کی تھی اب وہ بھر چکی تھی اب عیشا ارمان کو کال کرتی رہتی مگر ارمان اب ارمان کے پاس اسکے لیہ ٹائم نہی تھا۔۔

اور پھر وہ ہوا جو کسی نے سوچا نہی تھا جب ارمان نے کہا کے وہ اپنی آفس کی۔کولیگ سے شادی کررہا ہے عیشا چاہے تو خلا لے کے اپنی زندگی گزار سکتی ہے۔۔

ارمان کی بات نے جہاں نزہت بیگم اور کامران صاحب کی دنیا ہلا دی وہی عیشا کو لگا وہ اگلا سانس لے نہی پائے گی۔۔
سب نے ارمان کو بہت سمجھایا مگر بے سود رہا۔
مگر حسنہ سے اپنی آپی کی یہ حالت دیکھی نہی جارہی تھی کئی گھنٹوں وہ ایک جگہ۔کو گھورتی رہتی عیشا کی زندگی جیسے رک سی گئی تھی مگر شاید اسے ابھی تک اس بات کا اندازہ نہی ہوا تھا کے یہ سب اسکے اپنے ہاتھوں کا کیا ہے۔۔۔

حسنہ نے جب ارمان کو کال کرکے ان سب کی وجہ پوچھی تو ارمان نے صرف اتنا کہا۔
کے اپنی آپی سے پوچھو حسنہ کے یہ رشتہ وہ نبھانا نہی چاہتی ۔۔
ارمان کی بات حسنہ کے سر کے اوپر سے گزر گی مگر جب ارمان نے اسے ساری بات بتائی عیشا کا جھوٹ بتایا تو وہ خاموش ہوگی۔۔
نزہت بیگم نے ارمان سے ہر تعلق توڑ لیا۔
تو ادھر ماریہ جو ارمان سے صرف دل لگی کررہی تھی بہت جلدی ارمان سے اکتانے لگی ارمان کی بے جا پابندیاں اب اسے بری لگنے لگی۔۔
اور ایک دن اس نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کے وہ صرف اسکا دوست ہے اس سے زیادہ کچھ اور شادی وہ ابھی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔
ماریہ کی باتیں ارمان کیلیے بہت بڑا جھٹکا تھی اس نے ماریہ کو بہت سمجھانا چاہا ۔مگر ماریہ ایک آزاد خیال لڑکی وہ ساری زندگی شادی کا طوق اپنے گلے میں ڈال کے نہی گھوم سکتی یہ بات وہ ارمان کو صاف صاف لفظوں میں بتا چکی تھی اور ارمان کو یہ بات صحیح طریقے سے تب سمجھ میں آئ جب ارمان نے ماریہ کو اپنے آفس کے باس کیساتھ گاڑی میں جاتے دیکھا۔۔

ارمان کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا کے وہ غصہ میں بہت غلط کرگیا اور گھر والوں کیساتھ اور اس لڑکی کیساتھ جسکے ساتھ اسنے محبت کا دعوا کیا تھا۔
کیا تھا جو عیشا نے اس سے رخصتی تک کا ٹائم مانگا تھا مگر اپنے ناقدری میں ارمان نے بہت غلط کرلیا تھا اپنے ساتھ۔۔

اس نے کئ بار اپنی امی اپنے ماموں سے اپنے کیہ کی۔معافی مانگی بہت رویا اور نزہت بیگم۔ تو ماں تھی معاف کرگئ۔۔
سب نے ہی اسے معاف کردیا مگر جو ارمان کے شرک کو نہ بھول پائ جو زرا سا ٹائم نہ دینے پہ ارمان کی اتنی بڑی سزا کو نہ بھول پائ عیشا نے نہ تو کبھی ارمان سے بات کی اور نہ ہی اسے معاف کیا۔۔

جاری ہے۔۔۔۔

بن تیرے کیسی عید 💖💖
⁦✍️⁩مریم عمران#

قسط نمبر 5#

لاہور ائیرپورٹ پہ اترتے ہوئے جہاں اسکا دل زور سے ڈھرکا وہی اسکے قدم بھی لڑکھڑائے۔۔
پاکستان سے جاتے وقت اسے کے ساتھ سب کچھ تھا مگر آج جب ڈھائ سال بعد وہ واپس آیا تو ایک انجانا ڈر تھا اسکے دل میں نجانے اسے اسکے شرک کی معافی ملے گی یہ نہی۔۔

ارمان نے ایک لمبی سانس لی اور ٹیکسی کرکے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
جہاں اسکی ماں ڈھائ سال سے اسکی راہ تک رہی تھی جنکا دل وہ بہت بار دوکھا چکا تھا۔۔

ٹیکسی اسکے گھر کے پاس رکی تو چوکیدار نے اسے دیکھ کے سلام کیا ۔
ارمان اس سے ملل کے اندر داخل ہوا اسکا خوبصورت سا گھر ویسا ہی تھا ۔۔گارڈن عبور کے کرکے جب وہ ہال میں داخل ہوا تو نزہت بیگم سوچو میں غرق چائے پینے میں مصروف تھی انکی پشت ارمان کی طرف تھی۔ارمان نے آرام سے اپنا سامان سائیڈ میں رکھا اور دبے پاؤں آگے بڑھا اور جاکے اپنی ماں کی پشت کے پیچھا کھڑا ہوا مگر نزہت بیگم کی گودھ میں اپنی تصویر دیکھ کے اسکی آنکھیں بھیگنے لگی ۔
اچانک اس نے نزہت بیگم کے گلے ۔میں اپنی باہیں ڈالی اور کہا۔
اورجنل پیس سے پیار کرے تصویر میں کیا رکھا ہے۔۔
نزہت بیگم اچانک چونکی اور بے یقینی کی حالت میں پلٹ کے ارمان کو دیکھنے لگی۔۔
اسکا چہرہ چھوتے وقت اگر نزہت بیگم کی انکھوں سے آنسو جاری تھی تو کچھ ایسا ہی حال ارمان کا بھی تھا۔۔
نزہت بیگم تیزی سے ارمان کے سینے سے لگ کے رونے لگی ۔
تو تو اگیا ارمان..

اب جائے گا تو نہی نہ اپنی ماما کو چھوڑ کے؟؟؟

نہی۔ماما پردیس میں صرف تنہائ کے اور دھوکے کے سوا کچھ نہی رکھا اب ہمیشہ کیلیے آپکے پاس آگیا ہو اور بہت جلد آپکی بہو کو بھی۔لے اونگا۔۔

نزہت بیگم کو ارمان نے آرام سے صوفے پہ بیٹھاتے ہوئے کہا ۔

ارمان وہ معاف نہی کرے گی بیٹا ؟؟
کرے گی معاف امی جب سچے دل سے معافی مانگنے پہ اللہ ہماری ساری غلطیاں معاف کر دیتا ہے تو وہ تو اللہ کی بندی ہے ۔۔
ارمان کی بات پہ نزہت بیگم نے پریشان لہجے میں کہا ۔۔

ارمان شرک اللہ بھی معاف نہی کرتا۔
جانتا ہو امی مگر سچے دل سے معافی مانگنے پہ وہ ہرگناہ معاف کر دیتا ہے بس آپ میرا ساتھ دیجیے مجھے آپکے ساتھ کی ضرورت ہے۔۔
ارمان نے نزہت بیگم کے ہاتھوں کو چوم کے کہا۔۔

میں ہمیشہ اپنے بیٹے کیساتھ ہو مگر تم یہ بتاؤ یو اچانک کیسے آئے بتایا بھی نہی تم نے ۔۔؟؟؟؟؟

امی سوچا دور بیٹھ کے معافی نہی مل رہی کیوں نہ پاس رہ کے معافی مانگ لو۔۔

مطلب میں سمجھی نہی بیٹا؟؟
ارمان نے اپنی اور حسنہ کے درمیان ہوئ ساری بات نزہت بیگم کو بتا دی۔۔

بس امی آپ خالہ کو اور ماموں کو بھی اس پلین میں شامل کرلے ماموں سے اجازت لے لے میرے کراچی آنے کی۔باقی آپکی بہو کو منانا میرا کام ہے۔۔

نزہت بیگم نے ارمان کی بات پہ ہاں میں ہاں ملائ۔۔
نزہت بیگم نے کال کرکے سب کو ارمان کا پلین بتا دیا اور سب اسکا ساتھ دینے کیلیے تیار ہوگئے۔۔

#########
امی بھئ روزے میں تنگ نہی کرے میں نہی جارہا کراچی ۔۔
کاشان نے شکل پہ بیزاریت لاتے ہوئے کہا ۔

کاشان زیادہ مجھے تنگ نہی کرو آپ کچھ بول کیوں نہی رہے اسے ارمان اور اپا کراچی جارہے ہیں انکا فون آیا تھا عید وہی گزارینگی وہ ارمان عیشا کو منانے جارہا ہے ۔۔
زینب بیگم نے اپنے شوہر نادر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو ان دونوں ماں بیٹے کی نوک جھونک بھی سن رہے تھے اور اخبار بھی پڑھے تھے۔۔

تو امی ارمان بھائ کی تو بیوی کا مسئلہ ہے میں کس خوشی میں جاو؟؟کاشان نے بھی حساب برابر کرتے ہوئے کہا ۔

کیونکہ تم بھی بہت جلد اس گھر کے داماد بنے والے ہو میں حسنہ کا ہاتھ مانگ رہی ہو بھائ سے تمہارے لیہ رمضان میں ہی نکاح کرونگی تمہارا۔۔

کیاااااااااااا

کاشان نے تقریبا چیختے ہوئے زینب بیگم کی بات پہ کہا۔

امی میں کسی صورت اس پھوہڑ لڑکی سے نکاح نہی کرونگا یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لے یہ میری زندگی ہے اور مجھے پورا حق ہے اپنا جیون ساتھی چننے کا۔۔

کاشان کیا برائ ہے حسنہ میں تمہارے ماموں کی بیٹی ہے پڑھی لکھی ہونہار سلیقے مند بچی ہے۔۔
زینب بیگم نے کاشان کو غصہ میں گھورتے ہوئے کہا۔۔

ایک نمبر کی پھوہڑ لڑکی ہے امی ایک کرتا تو استری کرنا آتا نہی اسے۔۔

کاشان یہ بہت پرانی بات بتا رہے ہو تم ڈھائ سال ہوگئے ہیں تمہیں حسنہ سے ملے ہوئے آپ کچھ بولتے کیوں نہیں نادر اسے زینب بیگم نے آخر میں اپنی باتوں کی توپوں کا رخ نادر صاحب کی طرف موڑا۔۔

ماما آپ مجھ پہ اپنی مرضی اس بار مسلط نہی کرے پلیز کم از کم نکاح کس سے کرنا ہے یہ حق تو آپ مجھے دے کاشان نے جب زینب بیگم کو روتے دیکھا تو کہا۔۔
ٹھیک تو پھر جو تمہیں پسند ہے وہ بتا دو میں اس کے گھر لے چلتی ہو رشتہ میرے نزدیک تمہاری پسند کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔۔
زینب بیگم نے بھی کاشان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔

ارے یار ماما مجھے کوئ پسند نہی ہے ہوتی تو کیا اپکو نہی بتا تا۔۔
تو پھر اپنی ماں کی بات مان لو کاشان نادر صاحب بیچ میں بول پڑے۔۔
پاپا اب آپ بھی؟؟
کاشان نے مایوسی سے نادر صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
بیٹا کوئ زبردستی نہی ہے تم جاؤ اپنی ماما کیساتھ حسنہ کو دیکھو اسے جانو اگر پھر بھی تمہارا دل اسکی طرف راغب نہ ہو تو پھر تمہاری ماما بھی تمہارے ساتھ زبردستی نہی کرے گی یہ میرا وعدہ ہے۔۔

ٹھیک ہے پاپا چلا جاتا ہو کاشان نے بھی ہار مانتے ہوئے کہا ۔۔

#######
سحری میں ہی سکینہ بیگم نے اپنی دونوں بیٹیوں کو اطلاع دے دی تھی کے اسکی دونوں پھپوپیاں یہاں آرہی ہے عید یہی گزراینگی۔۔
عیشا کے علاؤہ سب جانتے تھے کے ارمان بھی آرہا ہے ساتھ مگر فلحال یہ بات سب نے ہی عیشا سے چھپائ۔۔
دوپہر تک سب کراچی پہنچ چکے تھے ۔جب حسنہ ڈورتی ہوئی عیشا کے کمرے میں پہنچی جو نماز پڑھ رہی تھی ۔
آپی آپی پھپھو آگئ ۔۔

اچھا چلو تم میں آتی ہو عیشا نے دعا مانگتے ہوئے کہا۔۔

عیشا تیزی سے جاء نماز لپیٹ کے نیچے آئ اور جیسے ہی نزہت بیگم اور زینب بیگم کو سلام کرا اسکی نظر سامنے صوفے پہ بیٹھے ارمان پہ پڑی ۔۔
ڈھائ سال بعد اس بیوفا کو دیکھ کے عیشا کی آنکھیں بھیگنے لگی یہ منظر کاشان ارمان کیساتھ ساتھ وہاں بیٹھے سب نے دیکھا۔۔
جہاں عیشا کی آنکھوں میں ہزاروں شکوے گلے وہی ارمان کی آنکھوں میں معافی کی درخواست اور ندامت تھی۔۔۔

جب ماحول کو کاشان کی آواز نے درست کیا۔۔

ارے سوئیٹ کزن مجھ سے نہی ملوگی۔۔
کاشان کے بولنے پہ عیشا ایک دم اپنی سوچوں باہر نکلی ایک نظر وہاں بیٹھے ہر نفوس پہ ڈالی اور اوپر چلی گئ۔۔
حسنہ نے ایک اس بھری نظر اگر عیشا پہ ڈالی تو تو رحم بھری نظر ارمان پہ جسکے لبوں پہ ایک تلخ مسکراہٹ تھی۔۔۔
جب کے کاشان کی نظریں بار بار بھٹک کے حسنہ کے چہرے کا طواف کررہی تھی ۔۔

حسنہ عیشا کے کمرے میں آئ تو وہ بیڈ پہ بیٹھ کے رو رہی تھی۔جب حسنہ نے عیشا کے کندھے پہ۔ہاتھ رکھا اور کہا۔۔

آپی ؟؟
حسنہ کے بولنے پہ عیشا نے چہرہ اٹھا کے غصہ سے حسنہ کی طرف دیکھا اور کہا۔۔
تم جانتی تھی یہ بات کے ارمان ساتھ آئینگے؟؟ پھپھو کے ساتھ جھوٹ مت بولنا حسنہ مجھ سے ۔۔

عیشا کے بولنے پہ حسنہ نے نظریں جھکا کے گردن ہلائی تو عیشا نے غصہ میں اسکا کندھا پکڑ کے جھنجھوڑ ڈالا اور کہا۔۔

تم ایسا کیسے کرسکتی ہو حسنہ میرے ساتھ یہ جانتے بوجھتے کے اس شخص نے تمہاری آپی کیساتھ کیا کیا۔

اور اب اب وہ کیا لینے آئے ہیں یہاں ؟؟؟؟

آپی وہ بہت شرمندہ ہے اپنے کیہ پہ پچھلے دو سالوں سے تم سے معافی مانگ رہے ہیں وہ بس کردو آپی محبت اگر ایک بار روٹھ جائے تو بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں وہ مناتی ہے تم ان خوش نصیبوں میں سے ہو آپی بس کردو اپی۔۔

تم کچھ نہی جانتی حسنہ محبت میں شرک کرنے والے کو معافی نہی ملتی۔۔عیشا نے اپنے آنسو بے دردی سے ڑگرتے ہوے کہا۔۔

میں سب جانتی ہو آپی معاف کرنا اگر ارمان بھائ نے محبت میں شرک کیا تو مجبور آپ نے کیا آپ بیوی تھی انکی کوئ گرل فرینڈ نہی محرم کا رشتہ تھا آپکے ساتھ انکا کوئ حرام کا نہی ۔۔ارے بیویاں تو شوہر کی انکھیوں کے اشارے سمجھ جاتی ہیں تو آپ کیسی بیوی ہیں۔۔
حسنہ کی باتوں پہ عیشا نے حیران نظروں سے حسنہ کو دیکھا ۔
مگر حسنہ نے عیشا کی نظروں کا خاص نوٹس نہی لیا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

انہوں نے کبھی آپ سے نکاح ہونے سے پہلے کوئ غلط بات کی کوئ فرمائش کی عزت دار طریقے سے اپکو اپنا بنایا ایک پاک رشتہ میں باندھا اور بدلے میں اپنے کیا کیا۔۔ارے دور دیس میں بیٹھا شخص اگر اپنی بیوی سے پیار محبت کی باتیں نہی کرے گا تو کس سے کریگا۔۔

مجے یہ سب پسند نہی ہے حسنہ عیشا نے اپنی کمزور سے وضاحت دی۔۔

ہاں تو اب تو آپ انکی بیوی تھی نہ کوئ منگیتر نہی اور پھر جب جب انہوں نے آپ سے محبت کرنی چاہی آپ نے انہیں اگنور کیا یہاں تک کے جھوٹ تک بولے۔۔
معاف کرنا اپی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اگر وہ بھٹکے تو موقع اپنے دیا ۔۔
اور اگر اب بھی آپ اپنی ضد پہ قائم ہیں تو ٹھیک ہے پھر ختم کرے یہ شرک شرک کا راگ الاپنا نہی رکھنا تعلق تو ختم کرے یہ نکاح لے لے خلا میں وعدہ کرتی ہو آپ سے میں دونگی اپکاساتھ۔۔
یہ بول کے حسنہ غصہ میں عیشا کے کمرے سے باہر نکلی تو ارمان کو کھڑا پایا جو ان دونوں بہنوں کی باتیں سن چکا تھا جس نے حسنہ کے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہاں خوش رہو۔۔
اور حسنہ نے مسکرا کے صرف اتنا کہا۔
محبت پی خالی دھول جمی ہے ارمان بھائ جیسے صرف اپ۔ہٹا سکتے ہیں یہ بول کے حسنہ چلی گئ ۔ادھر ارمان نے ایک نظر عیشا کے کمرے پہ ڈالی اور آگے بڑھ گیا۔
مگر پلر کے پیچھے کھڑا کوئ اور بھی تھا جس نے ان دونوں بہنوں کی باتیں سنی تھی اور مسکراتے ہوئے اپنا فیصلہ بدلنے کا سوچا۔۔۔

جاری ہے

بن تیرے کیسی عید💖💖
⁦✍️⁩مریم عمران#

قسط نمبر 6#

حسنہ کے جانے کے بعد عیشا کو اور زیادہ رونا آیا یہ سوچ کے کے اسکی بہن بھی اسکو سمجھ نہی سکی۔۔

4بجے کے قریب حسنہ اور عیشا کچن میں افطاری کا انتظام کرنے گھسے ۔۔

پکوڑے ،دہی بڑے ،فروٹ چاٹ ،کوفتے ،رول سموسے ،چھولو کی چاٹ ،سب ہی وہ دونوں بہنیں بنا رہی تھی مگر کچن میں بلکل خاموشی تھی ۔۔
نہ حسنہ عیشا سے بات کررہی تھی نہ عیشا حسنہ سے۔۔
ارمان نماز پڑھ کے کچن میں ایا تو دونوں بہنوں کام میں جتا پایا مگر ارمان کی نظریں تو عیشا کا ہی طوااف کررہی تھی ۔بلیک اور پنک کلر کے کنٹراس سوٹ میں ڈھیلا سا جوڑا بنائے سائیڈ میں ڈوپٹہ باندھے کام میں مگن تھی۔۔
جب ارمان نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا۔۔

حسنہ میری کوئ ہیلپ چاہیے افطاری بنانے میں۔۔؟؟
ارمان کی آواز پہ فروٹ چاٹ بناتی عیشا کا دل زور سے ڈھرکا وہی اسنے ڈوپٹہ کھول کے سر پہ لیا۔
جبکہ حسنہ نے ڈوپٹہ سینے پہ درست کیا اور پلٹ کے ارمان سے کہا۔۔

ارے ارمان بھائ اپکو افطاری بنانا آتی ہے؟؟
ہاں نہ اب پردیس میں بیوی تو ساتھ تھی نہی جو میرے لیہ افطاری اور سحری بناتی ۔ 
یہ بات کہہ کے ارمان نے کن اکھیوں سے عیشا کو دیکھا تھا ۔۔
ایک دو دوست تھے جو غیر مسلم تھے تو بس اس لیہ سب کام خودی کرنا پڑتا تھا۔۔
اوہ چلے ارمان بھائ ابھی تو 18 روزے باقی ہیں آپ کو خدمت کا موقع ضرور دینگے ۔۔
حسنہ اور عیشا باتوں میں لگے تھے ۔جب کاشان نے کچن میں اینٹری تھی اور ڈائئنگ ٹیبل پہ بیٹھ کے تھکن زدہ حال میں عیشا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔۔

افف عیشا بھئ تمہارے کراچی میں تو بہت گرمی ہے بات سنو سوئیٹ کزن زرا روح افزا میں برف زیادہ ڈالنا۔۔
کاشان کی بات سن کے عیشا مسکرائ اور ارمان نے تو کبھی غور ہی نہیں کیا عیشا کی مسکراہٹ اتنی حسین ہے ۔۔۔
عیشا کاشان کے پاس پکوڑوں کا سامان لے کے بیٹھی اور کہا۔
بے فکر رہو مجھے پتہ ہے کراچی اور پنڈی کے موسم میں بہت فرق ہے اس لیہ میں تمہاری لیہ لسی بھی بنائ ہے۔
ارے واہ کزن جیو ۔۔۔
تو ادھر ارمان عیشا کو دیکھ کے خالی یہی سوچ سکا کے کب وہ اس سے اس انداز میں بات کرے گی۔۔
مگر حسنہ اسکا تو کاشان کی۔نزاکت دیکھ کے ہی روزے میں پارہ ہائ ہوگیا اور اس نے دہی بڑے بناتے ہوئے کہا۔ 
افف ارمان بھائ ایک تو پنڈی کے لوگوں میں نزاکت بہت ہوتی ہے اب گرمی ہے تو برداشت کرو روزہ تو ویسے بھی صبر کا نام ہے۔۔
حسنہ کی بات پہ نا چاہتے ہوئے جہاں عیشا کے لبوں پہ مسکراہٹ آئ وہی ارمان کا بھی ایسا ہی حال تھا ۔جبکہ کاشان نے ماتھے پہ بل ڈال کے حسنہ کو دیکھا اور کہا۔
حسنہ میڈم چھولوں میں دہی زرا زیادہ ڈالنا کیا ہے نہ میں نے سنا ہے روزہ رکھ کے کراچی کے لوگوں پارہ ساتویں آسمان پہ ہوتا ایسا لگتا ہے جیسے احسان کیا ہو سامنے والے پہ روزہ رکھ کے کچھ کام بھی کرلو زیادہ آئٹم عیشا نے ہی بنائے ہیں باتیں بنانے کے علاؤہ اور بھی بہت کچھ بنا لو۔۔
یہ بول کے کاشان اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کچن سے نکلا ۔۔حسنہ نے منہ کھولے جاتے ہوئے کاشان کو دیکھا دہی بڑے فریج میں رکھ کے عصر کی نماز پڑھنے چلی گئ۔۔
جبکہ عیشا پکوڑوں کا بیسن گھولنے لگی اور ساتھ ساتھ میں سوچنے لگی۔
اب یہ کچن میں کیا کررہے ہیں جا کیوں نہی رہے۔۔
بیسن گھولتی عیشا جہاں اپنی سوچوں میں گم تھی ۔وہی اپنی بالوں کی لٹوں سے بھی پریشان تھی جو بار بار اڑ اڑ کے اسکے چہرے پہ آرہی تھی جس سے عیشا کافی ڈسٹرب ہورہی رہی تھی۔۔
ارمان نے جب دو بار عیشا کو بیسن والے ہاتھوں سے اپنی لٹوں کو اپنے چہرے سے ہٹاتا دیکھا تو آٹھ کے عیشا کے قریب آیا عیشا جو بیسن گھولنے میں مگن تھی ارمان کے اسطرح قریب آنے پہ گھبراگئ۔۔
ارمان نے آگے جھک کے اسکے جوڑے سے بال پن نکال اور اسکی دونوں لٹو کو سمیت کے پن اپ کردیا۔۔اور کچن سے چلا گیا۔۔
یہ سب اتنی جلدی ہوا کے عیشا کو سمجھ میں ہی نہی آیا کے وہ کیا کرے۔
کر تو کچھ نہی پائ مگر برابڑائ ضرور۔۔

دکھاوا ۔۔

###### 
افطاری خوشگوار ماحول میں کھائ سب ہی ٹیبل پہ اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے جبکہ ارمان کی ۔نگاہیں عیشا کے گلاس پہ تھی جس میں لسی بچی ہوئ تھی۔۔
عیشا نے جیسی ہی ہاتھ آگے بڑھایا گلاس اٹھانے کیلیے ارمان نے جھٹ گلاس اٹھایا اور ہونٹوں سے لگالیاعیشا نے ایک خونخوار نظر ارمان پہ ڈالی اور خاموش ہوگئ۔۔

تراویح کی بعد سب ہی سو گئے تھے مگر عیشا کچن سمیٹ رہی تھی کیونکہ آج باری اس کی تھی جب ارمان کچن میں ایا اور کہا۔۔
ایک کپ کافی ملے گی ؟؟
ارمان کے بولنے پہ کچن صاف کرتی عیشا کا ہاتھ پل بھر کیلیے تھما اور اس نے کافی بنانے رکھی۔
ارمان وہی بیٹھ کے عیشا کی ہر حرکت نوٹ کررہا تھا۔۔
کافی بنتے ہی عیشا نے کافی کا مگ ٹیبل پہ رکھا اور جیسی ہی جانے کیلیے مڑی ارمان نے اسکی کلائی تھام لی اور کہا۔۔

بس کردو عیشا اتنی دور سے صرف تمہارے لیہ آیا ہو جانتا ہو گناہ ہوگیا مجھ سے مگر تم بھی جانتی ہو اکیلے میں قصور وار نہی پلیز معاف کردو۔۔
عیشا نے ایک جھٹکے سے ارمان سے اپنی کلائی آزاد کروائ اور کہا۔
مجھے بھی تو اپنے خلا کا کہا تھا میں نے تو نہی لی میری محبت میں بھی تو اپنے شرک کیا میرے زندگی میں تو کوئ نہی آیا ۔
میں نے نہی کہا آپ سے کے آئے مجھے منائے یہ معافی مانگیں۔۔
آپکی زندگی ہے جیسے چاہے گزراے مجھے اب فرق نہی پڑتا۔۔
یہ بول کے عیشا جانے لگی جب ایک جھٹکے سے ارمان نے اسے کھینچ کے دیوار سے لگایا اور کہا۔

فرق نہی پڑتا تو میری زندگی کی دعائیں کیوں مانگتی ہو ،فرق نہی پڑتا تو کیوں آج تک نمبر نہی بدلا،فرق نہی پڑتا تو کیوں آج تک میرے نام پہ بیٹھی ہو،کیوں نہی لی خلا عیشا میڈم ۔۔

بس بہت ہوا عزت سے عید کے بعد رخصتی کی تیاری کرو ۔۔

میرے ساتھ زبردستی نہی کرسکتے آپ آئ سمجھ۔عیشا نے اپنے اپکو چھڑواتے ہوئے کہا جس میں وہ ناکام رہی۔۔

اوہ رئیلی بیوی ہو میری جائز حق ہے میرا تم پہ جب چاہو جو چاہو تمہارے ساتھ کچھ بھی کرسکتا ہو۔۔ہاں وہ بات الگ ہے جب تم مجھ سے تعلق توڑنا چاہو جب آزاد ہو تم ۔۔
اور مجھے نہی لگتا کے تم مجھ سے دور ہونا چاہتی ہو ارمان نے عیشا کے اور قریب آتے ہوئے کہا۔۔۔
دور رہے مجھ سے عیشا نے جھٹکے سے ارمان کو خود سے دور کیا۔۔
میری قربت کی عادت ڈال لو یا تو مجھے اپناؤ یہ پھر مجھ سے الگ ہوجاو ۔۔
یہ بول کے ارمان کچن سے باہر نکل گیا۔۔

جاری ہے۔۔

بن تیرے کیسی عید💖💖

⁦✍️⁩مریم عمران#

قسط نمبر 7#

ارمان جیسی ہی کچن سے نکلا تو حسنہ کو اپنا منتظر پایا ۔
ارمان کو دیکھتے ہی حسنہ نے اسے گڈ لک کا اشارہ کیا ارمان مسکراتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔

عیشا کمرے میں آئ تو حسنہ اپنے موبائل میں لگی تھی دو دن سے دونوں بہنوں میں بات چیت بند دی ۔
عیشا نے آکے حسنہ سے کہا۔۔

حسنہ ناراض ہو مجھ سے؟؟
عیشا کی بات سن کے حسنہ نے ایک نظر عیشا کو دیکھ کے دوبارہ اپنے موبائل میں مگن ہوتے ہوئے کہا 
نہی میں کون ہوتی ہو آپی تم سےناراض ہونے والی ۔۔
ایسی بات نہی ہے حسنہ تم۔جانتی ہو تم میرے لیہ کیا ہو۔۔
یہ بول کے عیشا روہانسی ہوئ تو حسنہ فورا اسکے قریب آئ اور اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔
آپی میں بس تمہیں خوش دیکھنا چاہتی اور یہ بات تم خود بھی جانتی ہو کے تمہاری خوشی کس کے ساتھ ہے تو ضد چھوڑ دو آپی ایک موقع تو دو ارمان بھائ کو میں نے دیکھا ہے انکی آنکھوں میں صرف پچھتاوا ہے ۔۔

حسنہ میرے لیہ بہت مشکل ہے یہ سب اور پلیز اب تم اس معاملے میں نہی بولونگی وعدہ کرو مجھے سے دل سے فیصلہ کرنے دو حسنہ میں دل سے فیصلہ کرنا چاہتی ہو باتوں میں آکے نہی۔۔

اففف!!!
 حسنہ نے ایک لمبی سانس لی اور کہا ۔

ٹھیک ہے آپی نہی بولونگی آج کے بعد تمہیں مگر پلیز فیصلہ واقعی دل سے کرنا دماغ سے نہی۔۔
حسنہ بول کے چپ ہوئ تو عیشا نے صرفہاں میں گردن ہلائ۔۔

#######
اگلے دو دن کافی سکون سے گزرے آخری عشرہ شروع ہونے میں دو دن باقی تھے جب کاشان اپنی امی کے کمرے میں گیا جو فون پہ نادر صاحب سے بات کررہی تھی ۔
کاشان کمرے میں بیڈ پہ جاکے لیٹا اور زینب بیگم کی کال کٹ ہونے کا ویٹ کرنے لگا۔۔
زینب بیگم نے کال کٹ کی جب کاشان نے انکی۔گودھ میں سر رکھا اور آنکھیں موند لی۔۔
زینب بیگم نے آہستہ آہستہ اسکے سر میں انگلیاں چلائ جب کاشان نے کہا۔

امی آپ یہاں جس مقصد کیلیے آئ تھی وہ تو آپ بھول ہی گئ۔۔
کاشان کی بات پہ۔زینب بیگم نے کہا۔
اب جوان لڑکے کیساتھ زبردستی کرتے ہوئے اچھی لگونگی۔۔
اب جب تمہاری خوشی ہی نہی تو پھر فائدہ۔۔
آپ سے کس نے کہا میری خوشی نہی۔۔
یہ بات بول کاشان کے لب پر مسکرائے وہی زینب بیگم کا ہاتھ پل بھر کیلیے رکا ۔کاشان اٹھ کے بیٹھا تو زینب بیگم نے اس سے بے یقینی دیکھا اور کہا۔ 

کیا کہا تم نے پھر سے کہو ۔؟؟

کاشان مسکرا کے دوبارہ زینب بیگم کی گود میں لیٹا اور کہا ۔
یہی کے اپکی نکمی بھتیجی اتنی بھی نکمی نہی آپ ماموں سےبات کرے اور آخری عشرہ شروع ہونے سے پہلے نکاح رکھ لے۔۔۔

ہاے میں صدقے میری جان میں آج ہی کامران بھائ سے بات کرونگی روزے کے بعد۔ 

روزے کے بعد سارے بڑے کمرے میں موجود تھے جب حسنہ اور کاشان کو بلایا گیا ۔
باہر ارمان اور عیشا ہی رہ گئے ۔۔عیشا پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی جب ارمان نے اس سے کہا۔
بے فکر رہو ابھی رخصتی کی تیاریخ طے نہی ہورہی جو خوشی سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہی ہو ۔۔
اب سے کس نے کہا میں اپنی رخصتی پہ خوش ہونگی۔۔
ہاں یہ بھی ہر مشرقی لڑکی اپنے بابا کا گھر چھوڑتے وقت اداس ہوتی ہے ارمان نے اسے نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔۔

افف انسان کو اتنی بھی خوش فہمی بھی نہی پالنی چاہیے ارمان۔۔
میں ابھی رخصتی کا منع کردونگی۔۔
یہ بول کے عیشا دوبارہ بند کمرے کی طرف دیکھنے لگی ۔جب پیچھے سے آکے ارمان نے اسے پیٹ سے تھاما اور اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔۔

سوچ سمجھ کے انکار کرنا آگے کی زمدار تم خود ہوگی جانمن اور اندر بند کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
جب کے عیشا کا چہرہ اب ارمان کی قربت سے بلش ہونے لگا تھا۔اب اسے ارمان کا قریب آنا برا نہی لگتا تھا مگر ایک آنا کا خول تھا جیسے شاید توڑنے میں عیشا ہچکچا رہی تھی۔۔

#########

بند کمرے میں ہونے والی میٹنگ میں یہ طے پایا کے دو دن بعد کاشان اور حسنہ کا نکاح تھا اور عید کے بعد دونوں بہنوں کی رخصتی ۔۔
یہ خبر جہاں عیشا کیلیے خوشی کا باعث تھی وہی عیشا کے لیہ پریشان کن بھی کیوں کے وہ ابھی تک ارمان کی طرف سے اپنا دل صاف نہی کرپائ تھی۔۔
جبکہ ماں باپ کے فیصلے پہ حسنہ نے خوشی خوشی سر تو جھکا لیا تھا مگر اسے کاشان کی طرف سے اس بات کی امید نہی تھی۔۔
دو دن کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا صبح میں حسنہ کے ہاتھ میں کاشان کے نام کی مہندی لگی تو وہی عیشا کے ہاتھوں میں سکینہ بیگم نے ذبردستی مہندی لگوائ۔۔

افطاری کے بعد نکاح کا انتظام رکھا گیا۔۔
بلیڈ ریڈ کلر کے برانڈڈ شلوار قمیض کےسوٹ پہ جہاں حسنہ پہ توٹھ کے روپ آیا تھا تو مہرون کلر کے کرتے میں کاشان کی بھی شان نرالی تھی تو ادھر رائل بلیو کلر کی میکسی میں عیشا ارمان کی دنیا ایک بار پھر ہلا چکی تھی۔۔
نکاح کی رسومات کے بعد حسنہ عیشا کے گلے لگ کے خوب روئ تو ادھر آج کامران صاحب اور سکینہ بیگم کی آنکھیں بھی بھیگ گئ تھی دونوں بیٹیوں کے فرض سے آج وہ دونوں سبکدوش ہوگئے تھے۔۔
ارمان نے کسی بیٹے کی طرح ہر زمہداری سبنھالی عیشا کن انکھیوں سے ارمان کی ساری بھاگ ڈور دیکھ رہی تھی سب ہی خوش تھے ارمان سے بس اسکے دل کا میل ہی دھل کے نہی دے رہا تھا۔۔

نکاح ساتھ خیریت سے نبٹا تو سب ہی باہر لان میں بیٹھے تھے سحری میں وقت کم تھا اس لیہ سونے کا کوئ فائدہ نہی تھا عیشا سب کیلے کچن میں چائے بنا رہی تھی اور حسنہ کمرے میں چینج کرنے چلی گئ۔
مسلسل اپنے ڈوپٹہ سے الجھتی حسنہ رونے کو تھی جب اسکے کمرے کا دروازہ کھلا وہ سمجھی عیشا ہوگی اسلیے بنا دیکھے بول پڑی ۔۔
یار آپی یہ پن دیکھو کہاں اٹک گئ ہےڈوپٹہ اتر ہی نہی رہا بہت ہیوی سوٹ ہے یار یہ مجھے گرمی لگ رہی ہے۔۔
یہ بول کے حسنہ دوبارہ ڈوپٹہ سے الجھنے لگی جب کاشان نے آگے بڑھ کے اسکے ڈوپٹے کی پن نکالی ڈوپٹہ جھٹکے سے حسنہ کے پیروں میں اگرا۔
حسنہ نے جھک کے ڈوپٹہ جیسی ہی اٹھایا تو شیشہ میں عیشا کی جگہ کاشان کا عکس دیکھ کے وہ شرما کے نگاہ جھکا گئ۔تو ادھر کاشان بھی بنا ڈوپٹہ کے حسنہ کے حسییین سراپے کو دیکھ کے نظریں چرا گیا۔۔
حسنہ نے وہی ڈوپٹہ اپنے سینے پہ پھیلایا اور کاشان سے کہا۔۔
کوئ کام تھا اپکو؟؟
کاشان نے اسکے سراپے پہ ایک بھر پور نظر ڈالی اور کہا۔
نہی ملنے آیا تھا اپنی بیوی سے جو نکاح کا سننتے ہی سات پردوں میں چھپ گئ تھی۔۔

کاشان کی بات سن کے حسنہ نے اپنے دل میں کب سے مچلتا سوال پوچھ لیا۔
آپ نے مجھے سے شادی کرنے کو کیوں کہا پھپھو کو۔۔
کاشان کو حسنہ سے اسی سوال کی توقع تھی ۔۔
کاشان حسنہ کے تھوڑا اور قریب آیا تو حسنہ کے قدم خود بخود پیچھے کو اٹھے اور وہ ڈریسنگ سے لگ گئ کاشان نے جھک کے اسکے گالوں کو چوما اور کہا۔۔
کیوں کے میں چاہتا ہو تم ساری زندگی میرے کرتے جلاتی رہو۔۔
یہ بول کے کاشان نے جیب میں سے رنگ نکال کے حسنہ کو پہنائ اور کہا۔
نکاح مبارک ہو مسسز کاشان ۔۔
اور کمرے سے چلاگیا۔۔
حسنہ کے لبوں کو ایک حسین مسکراہٹ نے چھوا اور وہ اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا گئ۔۔

جاری ہے۔۔

بن تیرے کیسی عید 💖💖
⁦✍️⁩مریم عمران#

قسط نمبر 8#
(سیکنڈ لاسٹ)

آخری عشرہ تیزی سے گزر رہا تھا جہاں عید کی تیاری جاری تھی عیشا اور حسنہ کی وہی ان دونوں کی رخصتی کی بھی تیاری زور شور سے جاری تھی۔۔
کاشان روز کچھ نہ کچھ حسنہ کو دلانے بازار لے کر جاتا کبھی وہ لوگ سحری باہر کرتے کبھی روزہ باہر کھولتے کبھی ڈنر باہر کرتے۔۔
تو ادھر ارمان ہمشیہ کیسی کے ریفرنس سے عیشا کو شاپنگ پہ لے کے جاتا۔۔
آج بھی وہ عیشا کو لےکے مارکیٹ آیا تھا ۔دل کھول کے عیشا کو شاپنگ کروائی تھی مگر اسکے لبوں پہ مسکراہٹ نہی لاپایا۔
ارمان اب تھکنے لگا تھا وہ ہر ممکن کوشش کرچکا تھا مگر ناکام رہا عیشا کا دل جیتنے میں۔۔

آج جاگنے کی رات تھی عبادت کی رات تھی عیشا تراویح پڑھ کے سوئ نہی تو ادھر پرسنل پرابلم کی وجہ سے حسنہ کو نہ تو روزے رکھنے تھے نہ عبادت کرنی تھی وہ سوئی پڑی تھی عیشا کچن میں کافی بنانے آئ تو نزہت بیگم کو کچن میں پہلے سے کھڑا پایا۔۔

ارے پھپھو آپ اس وقت کچن میں کیا کررہی ہیں؟؟
کوئ کام تھا تو مجھے بتا دیتی ؟؟
بیٹا کام تو تھا مگر شاید تم نہی کرتی اس لیہ میں خودی آگئ کچن میں۔
ایسا بھی کیا کام پھپو آپ بتائے مجھے میں کرتی ہو۔۔
بیٹا وہ اصل میں ارمان کو بہت تیز بخار ہے نزلے سے سر میں اور ناک میں بہت درد ہورہا ہے ۔بہت بولا اسے دوائ لینے کا مگر سن نہی رہا ابھی بھی بخار میں ہے تو سوچا تھوڑی سے چاہے ہی پلا دو زبردستی تاکے دوائ دے دو۔۔

پھپھو آپ جائے آرام کرے میں دیکھ لیتی ہو ۔۔۔
عیشا نے پھپھو کو کچن سے رخصت کیا اور کافی سلائس اور دوائ لے کے ارمان کے کمرے کی۔جانب بڑھ گئ ۔۔۔

عیشا نے ڈھرکتے دل کیساتھ ارمان کے کمرے میں قدم رکھا تو وہ ماتھے پہ ہاتھ رکھا لیٹا تھا کمرے کا دروازہ کھلنے پہ ارمان سمجھا نزہت بیگم ہے اس لیہ بول پڑا۔۔

یار امی میں نے اپکو کہاں ہے نہ مجھے دوائ نہی کھانی بار بار ڈسٹرب نہی کرے پلیز ۔۔
یہ بول کے ارمان نے کروٹ لے لی مگر جب آنے والا کچھ دیر تک کچھ نہی بولا تو ارمان نے پلٹ کے دیکھا تو عیشا سادے سے چاکلیٹی سوٹ میں نماز کی طرح ڈوپٹہ اورھے ٹرے ہاتھ میں لے کے کھڑی تھی۔۔پل بھر کے لیہ ارمان چونکا ۔۔

ارمان نے ایک دم کروٹ لی اور سیدھا ہوکے کہا۔
میں نے امی کو منع کردیا تھا مجھے دوائ نہی لینی انہوں نے خاماخای میں تمہیں تکلیف دی۔۔

ارمان کی کسی بات کا جواب عیشا نے نہی دیا خاموشی سے ٹرے ارمان کے سامنے رکھی اور خود بھی بیٹھ گئ۔۔
پہلے سلائس اور کافی دی اسکے بعد میڈیسن ۔!!

ارمان کسی بچے کی طرح اسکی ساری بات مان رہا تھا جب عیشا آٹھ کے جانے لگی تو ارمان نے عیشا کی کلائی تھامی اور کہا۔۔
سر میں بہت درد ہے کیا دبا دوگی تھوڑی دیر یہ پھر کوئ بام لگا دو۔۔
ارمان کے لہجہ میں کچھ ایسا تھا کے عیشا منع نہی کرسکی ۔۔
سائیڈ ٹیبل کی ڈرار میں سے بام نکال کے اس کے لگائ اور پھر آہستہ آہستہ اسکا سر دبانا شروع کیا ۔ارمان کے اتنے قریب بیٹھ کے عیشا کا سانس لینا محال تھا۔مگر عیشا نے جب اسکے ماتھے پہ۔ہاتھ رکھا تو اسے اندازہ ہوا ارمان کو واقعی بخار ہے۔۔
ارمان تھوڑی دیر میں سوگیا اور عیشا اسکا سر دباتے دباتے اسکے سینے پہ سر رکھ کے سوگئ۔۔

سحری کے ٹائم پہ الارم پہ حسنہ کی آنکھ کھلی بھلے روزہ نہی رکھنا ہو یہ نہ رکھنا ہو مگر سحری تو بنانی تھی۔۔
حسنہ یہ سوچ کے کچن میں آئ کے عیشا کچن میں ہوگی مگر وہاں دونوں پھپھو کو دیکھ کے حیران ہوئ اور نزہت بیگم سے کہا۔۔

ارے پھپھو آپ کیوں بنارہی ہیں سحری مجھے اٹھا دیتی اور آپی کہاں ہے ؟؟

ارے بیٹا رات ارمان کی طبیعت ٹھیک نہی تھی اسے میڈیسن دینے گئ تھی ۔شاید تھک گئ ہو اس لیہ اپنے کمرے میں ہو تم دیکھو اسے ہم بنا لینگے سحری۔۔

نزہت بیگم کی بات پہ حسنہ ارمان کے کمرے میں پہنچی دروازہ ہلکا سا کھلا تھا حسنہ نے دروازہ کھول کے اندر جھانکا تو اسے یقین نہی آیا جہاں اسے خوشی ہوئ وہی حیرت بھی ۔۔
عیشا ارمان کے سینے پہ سر رکھ کے سورہی تھی اور ارمان کا ہاتھ عیشا کی کمر پہ تھا۔۔
یہ منظر دیکھ کے حسنہ کے لب مسکرائے اور اوہ بنا ان للو برڈ کو ڈسٹرب کیہ کمرے سے باہر نکلنے لگی جب کاشان سے تکراتے تکراتے بچی۔۔۔
کاشان نے حسنہ کو ارمان کے کمرے سے ایسے نکلتے دیکھا تو پوچھا ۔۔

یہ چوروں کی طرح تم ارمان کے کمرے سے کیوں نکل رہی ہو ؟؟
حسنہ نے اپنی مسکراہٹ دبائ اور کاشان کو کہا آپ بھی اندر جائینگے تو واپس میری طرح ہی ائئینگے۔۔

حسنہ کی بات پہ کاشان نے ایک ایبرو اٹھا کے اسے دیکھا اور کمرے کے اندر چلا گیا مگر وہ بھی دو سیکنڈ بعد حسنہ کی طرح کمرے سے باہر نکلا اور ارمان کے نمبر پہ کال کی۔۔
بیل کی آواز میں ارمان کی نیند میں خلل پڑا اس نے اپنے موبائل اٹھا کے کان سے لگایا جب کاشان کی آواز ابھری ۔۔

لو برڈ اگر رومینس ختم ہوگیا ہوتا اٹھ جائے سحری کا ٹائم ہوگیا ہے۔۔
یہ بول کے ارمان نے کال کٹ کی اس سے پہلے وہ کاشان کی بات کا مطلب سمجھتا اپنے سینے پہ سوئے عیشا پہ اسکی نظر پڑی اور اسے کاشان کی بات کا مطلب سمجھ میں آیا ۔۔
عیشا کسی معصوم گڑیا کی طرح ارمان کے سینے سے لگ کے سورہی تھی۔۔
شاید رات کافی دیر تک وہ ارمان کا سر دباتی رہی جبھی موبائل کی آواز پہ بھی اسکی آنکھ نہی کھلی ۔۔
ارمان نے عیشا کے چہرے پہ سے بال ہٹائے اور پیار سے عیشا کو آواز دی۔۔

عیشا عیشا؟؟
ارمان کے پکارنے پہ عیشا کی ایک دم آنکھ کھلی اور اپنی پوزیشن محسوس کرتے ہوئے وہ فورا ارمان سے الگ ہوئی اور نیچے کو بھاگی۔۔

سحری میں جہاں کاشان اور حسنہ کے لبوں پہ ارمان اور عیشا کو دیکھ کے شرارتی مسکراہٹ تھی وہی عیشا کا چہرہ ہر قسم کے جزبات سے آری تھا۔۔

دوپہر کے وقت حسنہ کو شدید بھوک اور پیاس کا احساس ہوا اس نے ادھر ادھر کا بھر پور جائزہ لے کے دو تین سیب اور ایک پانی کی بوتل لےکے اوپر چھت کی طرف ڈور لگائ ۔
مگر کاشان کی نظروں نے بچ سکی۔۔
عیشا اسٹور روم میں بیٹھ کے مزے سے سیب سے انصاف کررہی تھی جب اسٹور روم کا دروازہ کھلا اور کاشان اندر آیا ۔۔
کاشان کو اندر آتا دیکھ حسنہ کے ہاتھوں سے سیب چھوت کے نیچے گرا ۔۔
اور اسکا دل چاہا وہ منظر سے فورا غائب ہوجائے۔۔

کاشان آرام سے حسنہ کے برابر میں آکے بیٹھا اور کہا۔
آج کا روزہ نہی رکھا حسنہ؟؟
حسنہ نے بہت شرمندگی کیساتھ نفی میں گردن ہلائی ۔۔

کیوں؟؟
وہ مجھے رکھنے نہی ہیں روزرے حسنہ نے گردن نیچے کرکے جواب دیا۔۔

اوووووو۔۔
سمجھ گیا کے کیوں نہی رکھنے روزے ۔مگر اسطرح چھپ کے کیوں کھا پی رہی ہو یہ تو اللہ کی طرف سے سب کے سامنے کھاؤ پیو۔۔
کاشان کی بات پہ حسنہ نے حیران ہوکے کاشان کو دیکھا اور کہا۔۔۔۔
بھلے اللہ کی۔طرف سے ہو کاشان مگر شرم وحیا بھی کوئی چیز ہے گھر میں بابا ارمان بھائ اور آپ ہیں میں ایسے کیسی سب کے سامنے کھا پی سکتی ہو جنکو نہی بھی پتہ ہو انہیں بھی میں بتا دو میں ناپاک ہو۔۔

اللہ نے بھلے عورت کیساتھ یہ مسئلہ رکھا مگر اسکا یہ مطلب نہی کے ہم رمضان کا احترام بھول کے اس چیز کا ڈھنڈورا پیٹنے رہے۔۔

حسنہ کے جواب پہ۔کاشان کو اپنے فیصلے پہ فخر محسوس ہوا اور اسنے حسنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔

پتہ ہے حسنہ میں نے کئ گروپ میں لڑکیوں ,,,,عورتوں کو ایسے ایسے پرسنل سوال پوچھتے دیکھا ہے کے بعض اوقات وہ سوال پڑھ کے مجھے شرم آجاتی ہے اور اگر کوئ شرم وحیا والی لڑکی ایسی پوسٹ پہ انہیں ٹوک دے تو بس اسے ہر طرح کا لیکچر دینے لگ جاتی ہے ۔میرے کتنے دوست ہے جو لڑکیوں کے گروپ میں لڑکی بن کے پوسٹ پہ جواب دیتے ہے اسیے ایسے سوالوں پہ لڑکی بن کے جواب دیتے ہیں کے مت پوچھو اور اگر کوئ بائ چانس کوئ دوست انہی منع کرتا ہے تو اگے سے کہتے ہیں کے لڑکیاں جب خود بے شرم ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں ورنہ پرسنل پرابلم وہ اپنی کسی بزرگ سے اپنی امی بہن،ممانی خالا پھپھو سے بھی پوچھ سکتی ہیں۔

افف خیر چھوڑو مجھے فخر ہے تم پہ حسنہ اور تم اپنے کھانے پینے کی ٹینشن بلکل مت لینا جب تک تم روزے نہی رکھ رہی روزانہ اسی ٹائم اسٹور میں آجانا یہاں رکھ جاونگا میں تمہارے لیہ کھانے کا سامان اب تم بیوی ہے میری تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھنا میرا فرض ہے یہ بول کے کاشان نے اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے اور چلا گیا۔۔

جاری ہے ۔  
⁦⁦
بن تیرے کیسی عید 💖💖
⁦✍️⁩مریم عمران#

قسط نمبر 9#

(لاسٹ اپیسوڈ)#

عید میں ایک دن باقی تھا ارمان بہت خوش تھا پرسوں رات جس طرح سحری تک ارمان کے سینے سے عیشا لگ کے سورہی تھی ارمان سمجھ رہا تھا کے وہ عیشا کا دل جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔۔

اسی۔خوشی میں سرشار وہ اپنی امی کو ڈھونڈتے ہوئے سکینہ بیگم کے کمرے کے باہر پہنچا ہاتھ بڑھا کے جیسے ہی دروازہ بجانا چاہا اندر سے آتی سکینہ بیگم کی غصیلی آواز پہ اسکا ہاتھ رکا۔  

تمہارا دماغ خراب ہوگیا کے عیشا یہ کیا بکواس کرہی ہو شادی سے ایک ہفتہ پہلے تم بول رہی ہو تمہں رخصتی نہی کرنی ابھی ۔۔

سکینہ بیگم غصہ میں عیشا سے مخاطب تھی جو انکے کمرے میں گردن جھکا کے بیٹھی جس نے آج سکینہ بیگم سے بات کرنے کی ٹھانی تھی وہ ارمان کیلیے دل صاف نہی کرپارہی تھی ۔۔

امی میں کیا کرو میرے دل سے ارمان کی بیوفائی نہی جارہی۔۔

تو بیوفائی کرنے کا موقع اسے کس نے دیا۔۔
سکینہ بیگم کی بات پہ عیشا نے حیران نظروں سے انہیں دیکھا۔۔

ایسے مت دیکھو عیشا مجھے حسنہ سب بتا چکی ہے تم تو خود کو خوش نصیب سمجھو کے وہ ایک بار بیوفائی کرنے پہ۔دوبارہ بیوفائی کے راستے پہ نہی چلا ۔تم سے آج بھی وہ محبت کرتا ہے جبھی آج تک تمہارا دل جیتنے کی کوشش میں لگا ہے ورنہ مرد کا دل اگر ایک بار کسی عورت سےخراب ہوجائے۔تو سمجھ لو اس عورت کی بدقسمتی شروع۔۔
تماری کوئ نیکی تھی عیشا جو تمہارے پاس وہ پھر لوٹ کے آیا ہے تم کوئ انوکھی نہی ہو جس کے قریب اسکا شوہر آیا ہے ۔۔
کان کھول کے سن لو رخصتی اپنے ٹائم پہ ہوگی۔۔

سکینہ بیگم اپنی بات کرچکی تو ہلکی سی دستک کیساتھ دروازہ کھلا اور ارمان اندر آیا جیسے دیکھ کے جہاں سکینہ بیگم سٹپٹائ وہی عیشا بھی نظریں چرا گئ۔۔

معافی چاہتا ہو ممانی میں اسطرح آپ ماں بیٹی کی باتوں میں مداخلت دینے چلا ایا۔

عیشا تمہارے ساتھ کوئ زبردستی نہی کرے گا میں آج رات کو ہی لاہور چلا جاونگی اور تم جب چاہو جس وقت چاہو مجھ سے خلا کا مطالبہ کر لینا۔۔

ارے ارمان بیٹا یہ تو پاگل ہے تم اسکی باتوں پہ
دیھان مت دو۔۔

سکینہ بیگم نے بات سنبھالتے ہوئے کہا ۔
ارمان سکینہ بیگم کے قریب آیا انہیں کندھے سے تھام کے بیڈ پہ بیٹھایا اور کہا۔

ممانی جان ذبردستی کے رشتے بندھ تو جاتے ہی مگر پائیدار نہی ہوتے پلیز عیشا کو مجبور مت کرے میں چپ چاپ یہاں سے چلا جاؤنگا اور دو تین بعد واپس لندن میں تو ایک بار ویسے ہی برا بن چکا ہو دوبارہ بن جاونگا مگر آپ وعدہ کرے یہ بات ساری زندگی اپنی زبان پہ نہی لائئنگی۔۔
یہ بول کے ارمان عیشا کے قریب آیا اور کہا۔۔

شاید میں نے نے لوٹنے میں دیر کردی یا پھر میرا گناہ اتنا بڑا کے مجھے معافی نہی ملے گی۔۔
تم سے محبت تھی ہے اور رہے گی ۔عیشا جب چاہو مجھ سے خلا لے سکتی ہو ۔۔
میں لندن جانے کے بعد اب کبھی نہی لوٹونگا۔۔ارمان کے اس جملے پہ عیشا کا دل لرزا اس نے نگاہ اٹھا کے ارمان کو دیکھا تو حیران رہ گئ ارمان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی۔۔

اور ہاں ممانی جان امی کو اپ سنبھال لینا میں رات کو ہی چلا جاؤنگا اپنا خیال رکھنا ممانی جان
اور تم بھی عیشا ۔۔

یہ بول کے ارمان کمرے سے نکلا اور لمبی لمبی سانس لینے لگا اس کے کب سے روکے آنسو بہنے لگے اور وہ ڈور کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔

روزے کے بعد کاشان حسنہ کو لے کے مہندی لگوانے چلا گیا ۔۔
مگر عیشا وہ تو ارمان کی باتوں میں ہی کھو گئ۔۔

اسکے کانوں میں ارمان کے الفاظ گونجنے لگے پورے رمضان ارمان کا عیشا کے آگے پیچھے گھومنا عیشا کو بے چین کرنے لگا۔۔۔

عیشا رونے میں مصروف تھی جب حسنہ کمرے میں آئ جسکے ہاتھوں میں بھر بھر کے مہندی اور چوڑیاں تھی۔۔۔

حسنہ نے عیشا کو ایسے روتے دیکھا تو فورا اسکی طرف لپکی اور کہا۔۔

آپی کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو؟؟؟

حسنہ میں نے ایک بار پھر ارمان کو کھو دیا اپنے ہاتھوں اسے اپنی خوشیاں کو برباد کردیا مجھے نہی پتہ تھا کے میری آنا میری محبت کو ایک بار مجھ سے دور کردے گی۔؟؟؟

آپی یہ کیا بولے جارہی ہو بتاؤ تو ہوا کیا؟؟

حسنہ کے پوچھنے پہ عیشا نے سکینہ بیگم کے کمرے میں ہوئ ساری بات حسنہ کو بتا دی۔۔
حسنہ میں اب انہیں کھونا چاہتی پلیز انہیں بولو نہ رک جائے پلیز میں میں غصہ میں تھی۔۔

عیشا کسی معصوم بچے کی طرح حسنہ سے ضد کررہی تھی۔۔
حسنہ عیشا کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا۔۔

آپی پہلے بتاؤ تم محبت کرتی ہو ارمان بھائ سے ان کو معاف کردیا تم نے؟؟؟

حسنہ اگر محبت نہی کرتی تو آج تک ان کے نام پہ نہی بیٹھی ہوتی۔۔

پھر جاؤ آپی مناؤ ارمان بھائ کو روکو انہیں۔۔

وہ نہی ہے حسنہ اپنے کمرے میں میں نے دیکھا ہے۔وہ چلے گئے حسنہ پکککا چلے گئے۔۔۔
یہ بول کے عیشا رونے لگی ۔
وہ نہی گئے آپی وہ چھت پہ ہیں۔۔
حسنہ کےبولنے پہ عیشا نے چھت کی طرف ڈور لگائ تو ارمان واقعی چھت پہ تھا اور عید کے چاند کو گھور رہا تھا جب پیچھے سےعیشا نے پکارا۔۔

ارمان ؟؟
عیشا کی آواز پہ ارمان نے پلٹ کے عیشا کو دیکھا اور پھر گھوم گیا اور کہا۔
کچھ رہ گیا تھا بولنا عیشا جو بولنے آئ ہو۔۔

ہاں ؟؟
کیا؟ارمان نے دوبارہ بنا گھومے کہا۔
مت جائے پلیز 
کیوں تمیں تو میرا ساتھ قبول نہیں نہ اچھا میں نہی ہونگا تو تمہاری عید اچھی گزرے گی۔۔

بن تیرے کیسی عید 💖💖
کبھی محبت کیساتھ کے بنا بھی کوئ عید ہوتی خاص کر جب آپکی محبت آپ س ناراض ہوکے اتنی دور جارہی ہو۔

عیشا کے بولنے پہ ارمان تیزی سے پلٹا اور عیشا کے پاس آکے کہا۔۔

کیا کہا تم نے پھر سے کہو۔۔
عیشا ارمان کے قریب ائ اور کہا۔۔
یہی کے آپکے بنا کیسی عید ناراض ضرور تھی آپ سے مگر کبھی آپ سے دور جانے کا نہی سوچا اب آپ سے دور رہی تو مشکل ہو جائے گا جینا ۔۔

سچ کہہ رہی ہو عیشا؟؟
ارمان نے بے یقینی سے کہا۔
میری آنکھیں میں دیکھے کیا کچھ بتانے کی ضرورت ہے۔۔
عیشا کے ایسے اظہار پہ ارمان نے بے خودی میں عیشا کو گلے سے لگالیا اور پھر کچھ یاد آنے پہ ایک دم پیچھے ہوئے اور کہا ۔

سوری جزباتی ہوگیا۔۔

عیشا نے بھی شرم سے نظریں جھکا لی جب حسنہ نے اینٹری دی ۔۔
اگر میل ملاپ ہوگیا ہوتا زرا سالی کی عیدی کا بھی دیھان رکھیے گا ۔۔
ہاں ہاں کیوں نہی سالی صاحبہ ۔ارمان نے حسنہ کے سر پہ۔ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
ہمم چلے میں زرا امی کو خوشخبری دو کے انکی بیٹی کا دماغ جگہ پہ۔اگیا ۔۔
ابھی حسنہ آگے کچھ بولتی جب کاشان کی آواز آنے لگی ۔
کاشان کی آواز پہ حسنہ تیزی سے نیچے ڈوری۔۔

چھت پہ صرف عیشا اور ارمان تھے جب ارمان نے عیشا کے ہاتھ تھامے اور کہا چلو مہندی لگوادو ۔۔
ارمان یہ بول کے جانے لگا جب عیشا نے اسے آواز دے کے روکا ۔۔
عیشا ارمان کے قریب ائ اور اسکے گالوں کو لبوں سے چوما اور نیچے کو ڈور لگاتے ہوئے کہا۔۔

میں چوڑیاں بھی لونگی۔۔
اور عیشا کے جاتے ہی ارمان کے لبوں پہ دلکش مسکراہٹ آگئ ۔

ختم شد The End