Qurbat Tak Ka Safar Full Novel Written by Areej - UrduKahaniyanPdf


 قربت_تک_کا_سفر

قسط 1

اریج


"کبھی چھوڑ بھی دیا کرو اس کی جان۔ باقی لڑکیوں کو دیکھا ہے کبھی؟ ہر وقت اپنا بناؤ سنگھار کرنے میں مصروف رہتی ہیں" پاکیزہ کی امی غصّے میں بولیں۔

"کچھ وقت ہی تو ملتا ہے موبائل یوز کرنے کے لئے  ماما۔ اب ہر چیز شکل و صورت کو دیکھ کے تو نہیں کی جاتی نا۔ آپ ریلیکس رہا کریں" پاکیزہ موبائل استعمال کرنے میں مشغول تھی اور سب باتیں اس طرح اس کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں جیسے اسے کچھ فرق ہی نہ پڑتا ہو۔

"مت سنو میری بات لیکن ایک دن تمہیں میری سب باتیں یاد آئیں گی" پاکیزہ کی امی اس کا رویہ دیکھتے ہوئے بولیں۔

پاکیزہ اپنے دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور گھر میں سب سے زیادہ لاڈلی تھی۔ سب سے بڑے بھائی کا نام علی تھا اور دوسرے بھائی کا نام ذیشان تھا۔ پاکیزہ تیسرے نمبر پر آتی تھی۔ پاکیزہ کے چھوٹے بھائی کا نام عبداللہ تھا۔

 سب اس پہ اپنی جان چھڑکتے تھے۔ وہ کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تھی اور ہر چیز کو مذاق میں اْڑا دیتی تھی۔ ابھی وہ گیارہویں جماعت میں تھی اور ہمیشہ سے کو ایجوکیشن میں پڑھی تھی لیکن پھر بھی اْسے لڑکوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی کسی لڑکے کو اپنا دوست بناتی تھی۔ کئی لڑکے اُس سے بات کرنا چاہتے لیکن وہ کبھی کسی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئی تھی یا شاید کوئی آج تک اُسکو بھایا ہی نہیں تھا۔ اس کے والد مسٹر دانش ایک کاروباری آدمی تھے اور اْن کا کاروبار بہت وسیع تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی ہر خواہش پوری کی تھی۔ پاکیزہ اتنی خوبصورت تو نہیں تھی اور کوئی بھی شخص پہلی نظر میں اْسے دیکھتا تو سوچتا کہ وہ بہت شوخ لڑکی ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ وہ انتہائی سْلجھی ہوئی اور عاجز لڑکی تھی۔ ہر کوئی اُس سے بات کر کے اُسکی سیرت سے متاثر ہو جاتا۔ کئی لوگ اس سے بات کر کے اسکی طرح بننے کی کوشش کرتے۔ زیادہ تر وقت پڑھائی میں یا اپنی سہیلیوں سے بات کرتے ہوئے گزارتی تھی۔ اسکی دوستی کا دائرہ اتنا وسیع تو نہیں تھا لیکن اُسکی ایک پَکی سہیلی حالے تھی جس کے ساتھ وہ ہر طرح کی بات کر لیتی تھی اور اُس پر خود سے زیادہ بھروسہ کرتی تھی۔ کوئی بھی اس سے بات کرتا تو اسے اپنا دوست بنانا چاہتا لیکن زیادا تر لوگ اْس کا فائدہ ہی اْٹھاتے تھے کیونکہ وہ سب کی باتوں میں بہت جلدی آ جاتی تھی۔ دین کی طرف زیادہ رحجان نہیں تھا اُسکا اور دُعا مانگنے پہ بھی زیادہ یقین نہیں رکھتی تھی۔ ہر وقت مْسکراتی رہتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی غم یا دْکھ اْسے چھو کر بھی نہیں گزر سکتا۔ اْس کی اپنی امّی کے ساتھ بہت بنتی تھی اور وہ اپنی ہر بات اْن کو بتاتی تھی۔ وہ ہمیشہ اسے یہی تلقین کرتی رہتیں کہ خود پر بھی توجہ دیا کرو۔ 

ابھی وو گیارہویں جماعت میں ہی تھی کہ ایک دن اسکی بات ایک اجنبی سے ہوئی۔ بات فیسبک پر ہی ہوئی۔ مُراد ایک بہت خوبصورت; دلکش اور قد آور انسان تھا۔ وہ سعودی عرب میں ایک الیکٹریکل انجینئر کی حیثیت سے نوکری کرتا تھا اور پاکیزہ سے چھ سال بڑا تھا اور پاکیزہ سے بالکل مختلف تھا۔ بہت ٹھہرا ہوا اور عبادت گزار انسان تھا۔ بات پہلے مُراد نے شروع کی تھی۔ مُراد ویسے تو لڑکیوں  سےبات نہیں کرتا تھا لیکن قسمت کے بھی لوگوں کو ملوانے اور آزمانے کے عجیب طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا مسج مُراد نے کیا تھا۔

"ہیلو"

"کیسی ہیں آپ؟"

پاکیزہ نے یہ جاننے کے لئے میسج کا جواب دیا کہ کہیں یہ اسکا کوئی کلاس فیلو تو نہیں۔

"آپ کون؟ کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟"

"مائی سیلف مُراد احمد اور میں آپکو نہیں جانتا"

"اوکے دین اللہ حافظ"

"لیکن  بات تو سنیں۔ نہیں جانتی تو جان جائیں گی"

"مجھے نہیں جاننا کسی کو" 

"میں کوئی برا لڑکا نہیں اور نہ ہی لڑکیوں سے بات کرتا ہوں۔ آپ ایک دفع بات کر کے تو دیکھیں "

"نہیں کرنی بات"

پاکیزہ اجنبیوں سے بات نہیں کیا کرتی تھی اسی لئیے وہ مُراد سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن مُراد کئی دن تک میسج کرتا رہا اور آخر تنگ آکر پاکیزہ نے میسج کیا کہ "وٹس یور پروبلم؟ جب کہا ہے کہ میسج نہ کریں تو نہ کریں"

"لیکن پلیز آپ بات تو سن لیں"

"جی سنائیں"

"آپ بہت غصّے والی ہیں"

"بس یہی بتانا تھا؟"

"نہیں ابھی تو اور بھی بہت کچھ بتانا ہے"

ایسے ہی دونوں کی لڑائی جھگڑے میں بات شروع ہوئی اور دوستی ہو گئی۔ اور پھر روز باتیں ہونے لگیں۔

وہ پہلا انسان تھا جسکی باتیں سن کر وہ مدہوش سی ہو جاتی تھی۔ اس طرح بات بڑھتی گئی۔ فیسبک سے نمبر پہ بات ہونے لگی۔

__________

ایک دن بات کرتے کرتے مُراد کہنے لگا "پاکیزہ میں تمہیں ایک بہت اہم بات بتانا چاہتا ہوں جو ابھی تک میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتائی ہوئی"

"ایسی کیا بات ہے جو گھر والوں کو بھی نہیں پتا؟" پاکیزہ نے مذاق میں پوچھا۔

"لیکن وعدہ کرو کہ تم یہ بات سُن کر مجھے چھوڑ کے نہیں جاؤ گی" مراد نے مزید سنجیدہ ہو کر پاکیزہ سے کہا۔

"اب بتائیں بھی کہ کیا بات ہے" پاکیزہ نے گھبرا کر کہا۔

"مجھے"

"کیا مجھے؟ اب بول بھی دیں کہ کیا بتانا چاہ رہے ہیں؟"

"مجھےکینسر ہے۔ بلڈ کینسر!"

پاکیزہ کی سانسیں مانو رُک سی گئی ہوں۔ اُس کے ہاتھ ٹھنڈے ہو گئے اور اُسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ 

"آپ سیریس ہیں؟" اس نے لرزتی ہوئی زبان سے کہا۔

"اتنی بڑی بات میں مذاق میں کیسے کہہ سکتا ہوں پاکیزہ" "آپ نے یہ بات گھر والوں کو کیوں نہیں بتائی؟"

"میں ماں جی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا"

"پریشان؟ جب کچھ بُرا ہوگا تب وہ پریشان نہیں ہوں گی؟ تب وہ پریشان نہیں بہت زیادہ غمگین ہوں گی کہ انکے بیٹے نے انہیں اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ انہیں کچھ بتا سکے۔ اور علاج؟ علاج شروع کیا ہے اسکا؟"

"نہیں ابھی تک تو نہیں کیا"

"کیسی عجیب باتیں کر رہے ہیں آپ مُراد؟ آپکو خود کا احساس نہیں تو اپنے گھر والوں کا احساس کریں۔ ماں جی کا سوچیں۔ اُن کا کیا ہوگا؟"

"تم باقی باتیں چھوڑو پاکیزہ اور یہ بتاؤ کہ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گی نا؟"

"یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے۔ آپ کل ہی ڈاکٹر کے پاس جائیں اور علاج شروع کریں۔ اور ہاں اپنے گھر والوں کو بھی بتائیں"

"اچھا میں عصر کی نماز پڑھ لوں۔ ہم بعد میں بات کرتے ہیں"

مراد یہ کہہ کر چلا گیا اور پاکیزہ کو ایک گہری سوچ میں ڈال گیا۔ پاکیزہ کئی دیر تک ایک صدمے میں رہی اور سوچتی رہی۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک اس کے کانوں میں مغرب کی اذان کی آواز پڑی۔ وہ اُٹھی اور وُضو کر کے نماز پڑھنے لگی۔ اُس کی امی اسے دیکھ کر حیران تھیں کہ وہ لڑکی جو کہنے پہ بھی نماز نہیں پڑھتی آج خود نماز پڑھ رہی تھی۔ مغرب کی نماز ختم کرنے کے بعد وہ سجدے میں گِر پڑی اور زار و قطار رونے لگی۔ یہاں تک کہ اسکی ہچکی بندھ گئی۔ روتے روتے اللہ سے فریاد کرنے لگی کہ "اے اللہ! اے میرے پروردگار آج میں پہلی دفع پُر اُمید ہو کر تجھ سے مانگ رہی ہوں۔ یا اللہ میری پکار رد نہ کرنا۔ میرے مُراد کو ٹھیک کر دے۔ وہ تو بہت اچھا انسان ہے تو پھر اچھے انسانوں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کو تو بھول بھی جائے گا تو کسی حساب میں کوئی کمی تو نہیں آئے گی نا۔ میرے مُراد کو بالکل ٹھیک کر دے"

یہ وہ لڑکی تھی جو کبھی روئی نہیں تھی۔ یہ وہ لڑکی تھی جو ہمیشہ مسکراتی رہتی تھی۔ یہ وہ لڑکی تھی جس نے کبھی بھی دُعا نہیں مانگی تھی اور آج ایک اِبنِ آدم کے لئے رو رہی تھی۔ گڑگڑا کے خدا سے دُعا مانگ رہی تھی۔

اگلے دن سے مُراد کا علاج شروع ہوا اور اُس نے سب اپنے گھر والوں کو بتایا۔ اُس کے گھر والے پریشان تھے اسی لئے مُراد کو پاکستان واپس آنے کے لئے کہا اور وہ پاکستان آگیا۔ پاکیزہ نے شہر کے کئی اچھے ڈاکٹروں سے مشورے کئے اور مُراد کو بتایا۔ کچھ ہی مہینوں میں مُراد کی بیماری کافی حد تک ٹھیک ہو گئی اور پاکیزہ کا اللہ پہ ایمان مضبوط ہو گیا۔

پاکیزہ نے مُراد کے بارے میں حالے کو بتایا۔ حالے ہمیشہ سے پاکیزہ کی طرح بننا چاہتی تھی اور اس سے بہت متاثر تھی۔ حالے کو یہ سب سُن کر جلن سی محسوس ہوئی اور پاکیزہ سے پوچھنے لگی کہ "تم مُراد کے بارے میں سیریس ہو"

"ہاں بالکل" پاکیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 

"تو اس سے شادی کرنے کا ارادہ ہے؟" حالے نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

"پتہ نہیں۔ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتی" پاکیزہ نے کندھے اُچکاتے ہوئے بولا۔ 

پاکیزہ اور مُراد کبھی ملے نہیں تھے۔ انھوں نے بس میسج یا کال پہ ہی بات کی تھی۔ یہاں تک کہ مُراد نے آج تک پاکیزہ کو دیکھا بھی نہیں تھا لیکن مُراد پاکیزہ کی آواز اور اسکی باتوں کا دیوانہ تھا۔ باقیوں کی طرح اسے بھی پاکیزہ کے کردار نے متاثر کر دیا تھا۔ اسکو پاکیزہ کی آواز کوئل کی طرح میٹھی اور سُریلی لگتی تھی اور ہر وقت چاہتا تھا کہ اسکی آواز سنتا رہے۔ کچھ عرصے بعد مُراد نے پاکیزہ کو پروپوز کر دیا۔ پاکیزہ کی خوشی کا تو جیسے کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ اس نے مُراد کا پروپوزل قبول کر لیا۔ لیکن اس وقت تک وہ دوبارہ سعودی عرب چلا گیا تھا تا کہ اپنی نوکری جاری رکھ سکے۔ اس وجہ سے وہ پاکیزہ کے بارے میں اپنے گھر والوں کو نہیں بتا سکا اور اس نے پاکیزہ سے وعدہ کیا کہ جب وہ پاکستان واپس آئے گا تو وہ اپنے گھر والوں کو پاکیزہ کے گھر لے کے جائیگا۔ پاکیزہ نے اپنی امی کو مُراد کے بارے میں سب بتا دیا تھا اور اسکی امی تو اسکی خوشی میں ہی خوش تھیں کیوں کہ اسکی کوئی بات نہ مانی جائے ایسا تو ممکن ہی نہیں تھا۔ پاکیزہ نے اپنی امی کو مُراد کی بیماری کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ 

پاکیزہ کو سب سے زیادہ اس بات کی خوشی تھی کے مُرا کو اسکی صورت نہیں بلکہ اسکی سیرت سے محبت تھی۔ اسکے کردار سے محبت تھی۔ محبت کے اظہار کے بعد اس نے مُراد کو اپنی تصویر دکھائی۔ 

"تو مِس پاکیزہ دانش ایسی دِکھتی ہیں آپ؟" مُراد نے ہنستے ہوئے کہا۔

"جی مسٹر مُراد احمد کچھ ایسی ہی دِکھتی ہوں میں"

"کچھ ایسی سے کیا مطلب ہے آپکا مِس پاکیزہ" 

"آپ اب شک کر رہے ہیں مِسٹر مُرا اسی لئے یہ کہا۔ ورنہ تو یقیناً میں ایسی ہی دِکھتی ہوں"

"ویسے اگر سچ بولوں تو بہت خوبصورت ہیں آپ"

"اچھا؟ مجھے تو ایسا بالکل نہیں لگتا"

"نہیں بئی خدا کو جان دینی ہے۔ جھوٹ نہیں بولوں گا۔ یوں لگتا ہے جیسے میری قسمت میں اللہ نے ایک پَری لکھ دی ہو"

پاکیزہ نے ایک کہکہا لگاتے ہوئے کہا "اتنی تعریف بھی مت کریں اب نہیں تو آپکی پَری کے تھوڑا سا شوخا ہونے کے چانسِز ہی"

"تو کوئی بات نہیں۔ میں ہوں نہ نکھرے برداشت کرنے کے لئیے" مُراد نے ہنستے ہوئے کہا۔

پاکیزہ اس وقت محسوس کر رہی تھی جییسے وہ خوش قسمت ترین انسان ہو اور اُسے اُسکا شہزادہ مل گیا ہو۔

اچانک سے مُراد کہنے لگا کہ "اگر میں مر"

"شی! خاموش رہیں۔ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں آپکو کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گی اور اللہ سے آپ کو اپنے حصّے میں لکھوا لوں گی۔ آئیندہ ایسا سوچئیے گا بھی مت" پاکیزہ نے مُراد کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

"اتنا پیار کرتی ہو کیا مُراد سے؟" مُراد نے پاکیزہ سے پُر جوش انداز میں سوال پوچھا۔

"بہت زیادہ! اور ابھی آپ نے تو میرا پیار دیکھا ہی نہیں ہے۔ اسی لئے کہتی ہوں ایسی باتیں مت کیا کریں" پاکیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اچھا بابا ٹھیک ہے۔ آئیندہ ایسا کچھ نہیں کہوں گا" مُراد نے پاکیزہ کو چڑاتے ہوئے کہا۔

اسی طرح دونوں کئی دیر تک باتیں کرتے رہتے اور وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب پَر لگا کر اُڑ گیا ہے۔

معمول کے مطابق پاکیزہ نے سب باتیں حالے کو بتائیں۔

"اچھا تو اسکا مطلب اب تم مُراد کی گرل فرینڈ ہو" حالے نے جَلن محسوس کرتے ہوئے کہا۔

"بالکل نہیں۔ میں گرل فرینڈ نہیں ہوں اُنکی" پاکیزہ نے غّصے میں حالے کی بات کا جواب دیا۔ 

"تو پھر؟ پھر کیا لگتی ہو تم اُسکی؟" حالے نے اس بار بہت ہی عجیب انداز میں سوال پوچھا تھا۔

"ہونے والی بیوی ہوں میں اُنکی۔ ہماری محبت بہت پاک ہے۔ کسی گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کی طرح حرام نہیں ہے کہ دو چار غلط باتیں کر کے چھوڑ دِیا جائے ایک دوسرے کو" پاکیزہ نے یہ باتیں کہتے ہوئے راحت بھری سانس لی تھی جیسے اسے سب کچھ مکمل محسوس ہو رہا ہو اور اُس کے چہرے پہ ایک دَبی ہوئی مُسکراہٹ تھی۔ 

حالے یہ سب سُننے کے بعد ایک عجیب سی کیفیت میں تھی۔ کہنے کو تو وہ پاکیزہ کے لئیے بہن سے بھی بڑھ کر تھی لیکن اُسے پاکیزہ کی خوشی بالکل بھی برداشت نہیں ہوئی تھی۔

قربت_تک_کا_سفر

قسط 2


ادیج


مُراد کو پاکیزہ سے کال پہ بات کرنا بہت پسند تھا اسی لئیے وہ زیادہ تر اس سے کال پہ ہی بات کیا کرتا تھا۔ ایک دن بات کرتے کرتے کہنے لگا "پاکیزہ!"

"جی"

"پاکیزہ!"

"ہاں جی"

"پاکیزہ!"

"جی مُراد" پاکیزہ کے تجسس میں اضافہ ہوئے جا رہا تھا۔

"پاکیزہ!"

"اب بولیں بھی مُراد۔ ایسے سسپینس کرییٹ نہ کیا کریں۔ چلیں جلدی سے بولیں کہ کیا کہنا ہے؟:

"مجھے کہنا یہ ہے کہ۔۔۔"

"جی جی میں سُن رہی ہوں۔ آپ بولیں"

"کہنا یہ ہے کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ آئی لو یو سو مچھ"

"ارے تو یہ کہنا تھا آپکو جسے کہنے میں اتنی دیر لگائی"

"ہاں مجھے بس یہی کہنا تھا اور میں یہ بار بار کہنا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں بار بار بتانا چاہتا ہوں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں"

"مجھے پتہ ہے لیکن جب آپ یہ بولتے ہیں نہ تو مجھے اپنا آپ مکمل سا محسوس ہونے لگتا۔ دل کرتا ہے کہ ایک ہی انسان سے ایک ہی اظہار بار بار کرواؤں اور ہر دفع میری خوشی الگ سی ہوتی ہے" پاکیزہ کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک تھی۔ شاید یہ چمک نہیں عشق کا نشہ تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

"آئی لو یو پاکیزہ"

"اینڈ آئی لو یو مور مُراد۔ مجھ جتنا پیار تو آپ بھی نہیں کر سکتے"

"میں بہت خوش قسمت ہوں پاکیزہ کہ تم میری بیوی بنو گی۔ تم میری محرم بنو گی اور تم سے زیادہ اچھی بیوی مجھے کبھی نہیں مل سکتی اور مجھے اتنا بھی پتہ ہے کہ تم مجھے کبھی بھی اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤ گی"

"کبھی نہیں۔ آپ سے الگ ہو گئی تو میں کہاں جاؤں گی۔ پاکیزہ کی محبت تو مُراد پہ ہی ختم ہو گئی ہے اور آپ سے زیادہ خوش قسمت میں ہوں جو آپ ملے مجھے"

دونوں اسی طرح ساری رات گفتگو میں مصروف رہے اور اسی طرح رات بھی گزر گئی۔

اس کے کچھ دن بعد پاکیزہ کالج میں تھی اور اپنی سہیلیوں اقراء اور حالے سے بات کر رہی تھی کی اچانک اس کا موبائل وائبریٹ ہوا۔ اس نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو مُرادکا میسج تھا۔ اس نے خوشی سے میسج پڑھنے کے لئیے موبائل کا لاک کھولا اور میسج پڑھنے لگی۔ میسج پڑھنے کے بعد اس کے چہرے کا تاثرات ہی بدل گئے اور اس کا چہرہ زرد سا ہو گیا۔ 

"کیا ہوا پاکیزہ؟ تم ٹھیک تو ہو نا؟" اقراء نے پاکیزہ کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ کچھ نہیں۔ میں ٹھیک ہوں" پاکیزہ ہڑبڑاہٹ میں بولی۔

"بتاؤ تو کیا ہوا؟ کوئی پروبلم ہے کیا؟" اقراء نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔ 

"یار مُراد!" پاکیزہ پریشانی میں بولی۔

"کیا مُراد؟" اقراء نے مزید پوچھتے ہوئے کہا۔

"مُراد کا میسج آیا ہے کہ وہ ہوسپِٹل میں ہیں اور اگر ریپلائی نہ کریں تو میں پریشان نہ ہوں"

"ہاں تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ شاید نارمل چیک اپ کے لئیے گیا ہو گا"

"نہیں لیکن وہ تو کچھ دیر کے لئیے ہی جائیں گے نا"

"ہاں تو کال کر کے پوچھ لو۔ تمہیں تسلی ہو جائے گی"

"کیسے پوچھوں؟ کال ریسیو نہیں کر رہے اور واٹس ایپ پہ اب آن لائن نہیں ہیں"

"یار تم ٹینشن مت لو۔ ریلیکس رہو۔ گھر جا کر پوچھ لینا"

پاکیزہ نے کالج کا سارا وقت پریشانی میں گزارا اور گھر جاتے ہی اس کے نمبر پہ کال کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد آخر مُراد نے کال ریسیو کی۔

"ہیلو" مُراد بہت دھیمی آواز میں بولا۔

"کیسے ہیں آپ؟ ہوسپِٹل کیوں گئے تھے؟ واپس آ گئے ہیں یا۔۔۔۔" پاکیزہ پریشانی میں بولے جا رہی تھی اور مُراد پاکیزہ کی بات کاٹ کر بولنے لگا "بس بس کتنا بولتی ہو۔ اتنے سارے سوال ایک ساتھ پوچھ لئیے۔ اب مجھے بھی بولنے دو

"تو بولیں نا اور اتنی باتیں مت کریں۔ پہلے یہ بتائیں کہ ہوسپِٹل کیوں گئے تھے؟"

"طبیعت خراب ہو گئی تھی کافی تو دوست یہاں لے آیا۔ آج آفِس بھی نہیں گیا۔ اب تو کافی بہتر ہوں اور ڈاکٹروں نے ڈسچارج بھی کر دیا ہے"

"آپ اپنا بالکل خیال نہیں رکھتے مُراد۔ کتنی دفع کہتی ہوں کہ میڈیسنز ٹائم پہ کھایا کریں۔ روز رات کو دودھ پی کر سویا کریں لیکن آپ کہاں سُنتے ہیں۔ آپ کو تو چھوٹے بچوں کی طرح ٹریٹ کرنا پڑتا ہے اور کہتے مجھے رہتے ہیں کہ تم چھوٹی ہو ابھی"

"ہاں ہاں بولتی رہو سُن رہا ہوں۔ رُک کیوں گئی؟"

"ہاں بس سُنئیے گا ہی۔ کیجئیے گا مت"

"کتنی اچھی لگتی ہو تم ایسے بولتے ہوئے۔ میری طبیعت تو تمہاری آواز سُن کر ہی ٹھیک ہو جاتی ہے اور آواز سُننے کے چکر میں باتیں بھول ہی جاتا ہوں"

"ہاں بس باتیں جتنی مرضی کروا لو آپ سے"

"نہیں یہ بس باتیں نہیں ہیں۔ سچ کہتا ہوں میں۔ مجھے پاکیزہ سے تو محبت ہے ہی لیکن پاکیزہ سے زیادہ اس کی آواز سے محبت ہے۔ مِس پاکیزہ دانش ' مُراد احمد آپ سے زیادہ آپکی آواز پہ مرتا ہے۔"

پاکیزہ نے ایک قہقہہ بلند کیا اور کہنے لگی "اب اتنی باتیں مت کریں اور میڈیسن کھا کر ریسٹ کریں۔ ہم بعد میں بات کریں گے"

"ہاں تو میں ریسٹ ہی کر رہا ہوں۔ سکون سے لیٹ کر تمہیں سُن رہا ہوں"

"باتیں تو بہت بناتے ہیں۔ رات کافی ہو گئی ہے اسی لئیے سو جائیے۔ آرام نہیں کریں گے تو ایویں طبیعت خراب ہو جائے گی"

"اچھا محترمہ ٹھیک ہے۔ سو جاتا ہوں"

"ہاں اب ٹھیک ہے۔ ہم کل بات کر لیں گے" پاکیزہ نے یہ کہہ کر موبائل رکھا اور سکون کا سانس لیا۔

آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا اور پاکیزہ اور مُراد کے رشتے کی مضبوتی بھی لیکن مُرا کو پاکیزہ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا پسند نہیں تھا۔ اس بات پہ اکثر دونوں کی لڑائی بھی ہوتی تھی اور پاکیزہ ہمیشہ یہ کہہ کر بات ختم کر دیتی تھی کہ "وہ میرے گھر والے ہیں۔ فیملی کے ساتھ ٹائم سپینڈ نہیں کروں گی تو اور کس کے ساتھ کروں گی"

مُراد پاکیزہ کے لئیے بہت سنجیدہ تھا اور اس کو پاکیزہ کا کسی سے بات کرنا پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ پاکیزہ صرف اسی سے بات کرے اور اپنا سارا وقت اس کے ساتھ گزارے۔ اسی لئیے اس کو پاکیزہ کا اس کے کزنز سے بات کرنا بھی پسند نہیں تھا۔ 

پاکیزہ نے سب کی طرح اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سوچ رکھا تھا۔ وہ مُراد کا خیال اس طرح رکھتی تھی جیسے ایک ماں اپنے نو مولود بچے کا خیال رکھتی ہو اور کبھی بھی اسے اسکی بیماری کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔  وہ مُراد کی ہر بات ماننے کی کوشش کرتی تھی اور خود کو مُراد کے رنگ میں ہی ڈھال لیا تھا۔ اُس نے کئی طرح کے کھانے بنانے سیکھے اور اسکی پسند کے رنگ پہنتی تھی۔ وہ بھی مُراد کی طرح ہی انجینئیر بننا چاہتی تھی۔ اسکی زنگی کا مرکز مُراد ہی بن گیا تھا اور اس کی پوری زندگی مُراد کے گرد گھومتی تھی۔ وہ مُراد سے دور ہونے کا یا اس کے دور جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ مُراد ایک واحد انسان تھا جس نے پاکیزہ کا دل جیت لیا تھا۔ پاکیزہ اسکی بہت عزت کرتی تھی اور اسکی ہر ایک عادت پاکیزہ کو بہت پسند تھی۔

_________

پاکیزہ اور مُراد کی پہلی لڑائی اس بات پہ ہوئی کہ پاکیزہ نے عید پہ مُراد سے بات نہیں کی تھی اور سارا وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارا تھا۔ مُراد غصّے کا بہت تیز تھا۔ وہ پاکیزہ سے سخت ناراض تھا۔ پاکیزہ اسے منانے کی کوشش کرتی رہی لیکن مُراد اپنی ناراضگی پہ ڈٹا رہا۔ آخر پاکیزہ نے مُراد کو کال کی اور مُراد نے ریسیو کر لی۔

"ہیلو" پاکیزہ آہستہ آواز میں بولی۔

دوسری طرف گہری خاموشی تھی۔

"اچھا سوری نا۔ مان بھی جائیں اب۔ آئیندہ ایسا نہیں کروں گی" پاکیزہ نے بات بڑھاتے ہوئے کہا لیکن دوسری طرف سے پھر کوئی آواز نہیں آئی۔ پاکیزہ منانے کی کوشش کرتی رہی لیکن مُراد ایک لفظ بھی نہ بولا۔ آخر پاکیزہ رونے لگی اور بولی "پلیز سُن لیں بات۔ اس بار معاف کر دیں۔ آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گی" 

لیکن پھر بھی مُراد نے جواب نہیں دیا اور آخر روتے روتے پاکیزہ نے کال کاٹ دی۔ پاکیزہ ساری رات روتی رہی کیونکہ وہ مُراد کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ مُراد وہ انسان تھا تھاجو کہتا تھا

"پاکیزہ تم رویا مت کرو۔ تمہارے رونے سے مجھے بھی رونا آتا ہے اور خود کو بہت کم ظرف اور مجبور سمجھنے لگتا ہوں کی میرے ہوتے ہوئے تم رو رہی ہو اور میں کچھ نہیں کر پاتا۔ تمہارے یہ موتی بہت قیمتی ہیں۔ بلکہ قیمتی نہیں انمول ہیں اور ان کو بہنے مت دیا کرو" اور یہ وہی انسان تھا جس پر پاکیزہ کے آنسوؤں کا بھی کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا۔

 مُراد کی عادت کچھ ایسی ہی تھی کہ غصّے میں وہ کیا کر رہا ہے اسے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا اور بعد میں معافی مانگ کر بات اس طرح ختم کر دیتا تھا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو لیکن اس کے کہے گئے الفاظ سننے والے کے دل میں گہرا گھاؤ چھوڑ جاتے تھے۔

اگلے ہی دن مُراد نے پاکیزہ سے معافی مانگ لی۔

"سوری اس وقت میں غصّے میں تھا"

"تو رہیں اب آپ غصّے میں ہی" پاکیزہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔

"اچھا سوری نا۔ اب مان بھی جاؤ۔ اب آئندہ ایسا نہیں کروں گا"

"اٹس اوکے!"

پاکیزہ مُراد سے زیادہ دیر ناراض رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ 

اُن دونوں کی لڑائی بہت کم ہوتی تھی لیکن جب ہوتی تھی تو بہت ہی زیادہ ہوتی تھی۔ 

کچھ دن بعد پاکیزہ کی سالگرہ تھی اور پاکیزہ بہت خوش تھی کیونکہ پورے سال میں اس کی سالگرہ کا دن اسکے پسندیدہ دنوں میں سے ایک تھا۔ پاکیزہ رات کے بارہ بجنے کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی کیونکہ اس کی ساری سہیلیاں اور سب گھر والے اسے رات کو بارہ بجے ہی وِش کرتے تھے اور اس بار تو اسکی زندگی میں ایک نیا انسان بھی تھا جو اس کی زندگی میں ہمیشہ رہنے والا تھا۔ رات کے بارہ بجتے ہی پاکیزہ کو سب کے میسج آنے لگے لیکن اسکو تو ایک خاص شخص کے میسج کا انتظار تھا۔ وہ انتظار کرتی رہی تھی اور تھوڑی سی مایوس بھی ہو گئی تھی۔ آخر ایک بجے مُراد کی کال آئی اور پاکیزہ کے چہرے کی چمک دیکھنے والی تھی۔

"ہیلو" مُراد نے دھیمی آواز میں کہا۔

"السلام عليكم! کیسے ہیں آپ؟" پاکیزہ نے دبی سی مسکراہٹ چہرے پہ اوڑھے ہوئے بولا۔

"میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟"

"میں بھی ٹھیک ہوں"

پاکیزہ اس انتظار میں تھی کہ مُراد اسے کب وِش کرے گا لیکن وہ دونوں بات کرتے رہے اور مُراد نے پاکیزہ کو وِش نہیں کیا کیونکہ اسے پاکیزہ کی سالگرہ یاد ہی نہیں تھی۔ پاکیزہ نے ساری رات مایوسی میں سوچتے ہوئے گزاری۔ اگلے دن بھی مُراد کے وِش کرنے کا انتظار کرتی رہی کہ شاید اسے یاد آجائے لیکن شاید پاکیزہ اس کے لئے اب اتنی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔اس دن رات کو گیارہ بجے مُراد کو یاد آیا اور مُراد نے پاکیزہ کو وِش کیا لیکن تب تک پاکیزہ کا پورا دن برباد ہو چکا تھا اور اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔

مُراد نے پھر کئی دفع معافی مانگی اور پاکیزہ نے معاف بھی کر دیا لیکن یہ بات پاکیزہ کے دل میں کہیں گھر کر گئی تھی۔ 

"ویسے میں سوچتی ہوں کہ جیسے آپ میری سالگرہ بھول گئے ویسے ہی کسی دن آپ مجھے بھی بھول جائیں گے" پاکیزہ نے سوچوں میں ڈوبے وئے کہا۔

"کیسی باتیں کر رہی ہو۔ میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں پاکیزہ؟"

"ویسے ہی جیسے میری سالگرہ بھول گئے"

"غلطی ہو گئی نا مجھ سے۔ بھول بھی جاؤ اب سب"

"نہیں ایسے نہیں کہیں۔ بس اتنا یاد رکھئے گا کہ اتنی بھی غلطیاں مت کیجئے گا جو میں معاف کرتے کرتے تھک جاؤں کسی دن"

"نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ اب میں کوئی غلطی نہیں کروں گا اب"

"اُمید تو یہی کرتی ہوں میں"

"ہاں اُمید رکھو کہ اب دوبارہ ایسا کچھ نہیں ہو گا"

پاکیزہ کوئی جھگڑا نہیں چاہتی تھی اور ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے تنگ آ گئی تھی۔ 

حالے بھی پاکیزہ سے دور رہنے لگی تھی کیونکہ اس نےکبھی پاکیزہ کو اپنی بہن کی طرح چاہا ہی نہیں تھا۔ وہ تو اسکی ہر بات سے جلنے لگی تھی۔ پاکیزہ کے لئے سب کچھ بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چھوٹی بات محسوس  کرنے لگی تھی۔

ایسے ہی وقت گزرتا رہا اور پاکیزہ نے اپنے اور مُراد کے کےرشتے کی ڈور مظبوطی سے تھامے رکھی۔

پاکیزہ دعاؤں پہ زیادہ یقین نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی کبھی نماز یا عبادت میں دلچسپی لی تھی۔ اس کے برعکس مُرا ایک عبادت گزار انسان تھا اور پانچ وقت کی نماز پڑھا کرتا تھا۔ اس نے کبھی پاکیزہ کو اس سب کی تلقین نہیں کی تھی۔ پاکیزہ ایک ماڈرن قسم کی لڑکی تھی۔ مُراد اسے پردہ اور نقاب کرنے کا کہا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ تقریبات اور شادی بیاہ میں بھی نقاب کر کے جانے کو کہا کرتا تھا۔ پاکیزہ نے مُراد کی ہر بات ماننے کی کوشش کی لیکن اس بات سے انکار کر دیا کرتی تھی۔ کہتی تھی کہ میں کوشش کرتی ہوں لیکن نقاب میں مجھے گھُٹن محسوس ہوتی ہے۔ 

مُراد اور پاکیزہ کو بات کرتے ہوئے سال گزر گیا تھا۔پاکیزہ اب بارہویں جماعت میں تھی۔ ایک دن مُراد نے پاکیزہ کو بہت غصّے میں میسج کیا۔ اُن دنوں پاکیزہ کے بارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات ہو رہے تھے۔

"کیا ہوا مُراد؟ اتنے غصّے میں کیوں ہیں آپ؟" پاکیزہ نے پریشان ہو کر پوچھا۔ 

"میری مرضی۔ میں جیسے مرضی بات کروں۔ تم کون ہوتی ہو کچھ پوچھنے والی؟"

"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟ بتائیں تو سہی کہ کیا ہوا ہے؟ میری کوئی بات بُری لگی ہے کیا؟"

"کچھ نہیں ہوا مجھے۔ مجھے تنگ مت کرو اب میسج کر کر کے"

"لیکن آپ بات تو سنیں۔ میری غلطی کیا ہے"

"کہا نا کہ میسج مت کرو مجھے"

پاکیزہ بہت ڈر سی گئی اور رونے لگی۔ بار بار مُراد کو کال کر کے بات کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر اسکی کوشش کامیاب ہوئی اور مُراد نے کال ریسیو کر لی۔ 

"کیا ہے؟ کیوں کال کر رہی ہو؟ تمہیں ایک بار کہی بات سمجھ نہیں آتی کیا؟ اب دوبارہ تنگ مت کرنا" مُراد گرج دار آواز میں چیخ کے بولا تھا اور یہ کہہ کر اسنے کال کاٹ دی تھی۔ پاکیزہ یہ سب سن کے سہم سی گئی کیونکہ آج تک اس سے کبھ کسی نے اس طرح بات نہیں کی تھی۔ پاکیزہ کا پورا چہرہ سُرخ ہو گیا اور وہ رونے لگی۔ اگلے دن اس کا امتحان تھا لیکن اسے امتحان کی ہوش ہی نہ رہی۔ وہ ساری رات روتی رہی۔ چاہتی تھی کہ زور زور سے روئے لیکن رو ننہیں سکتی تھی اسی لیئے منہ پہ ہاتھ رکھ کے رونے لگی تا کہ کوئی اسکی آواز نہ سن لے۔

اگلے روز مُراد نے پاکیزہ کو میسج کیا اور معافی مانگنے لگا۔

"آئی ایم سوری پاکییزہ۔ کل میں غصّے میں تھا اسی لئے اتنا کچھ بول گیا"

"اٹس اوکے! مجھے کوئی شکایت نہیں آپ سے" پاکیزہ نے روتے ہوئے کہا۔

 گزشتہ رات جو سب ہوا وہ اس کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ وہ سکتے کی سی حالت میں تھی۔ مُراد پھر سے حسبِ معمول پاکیزہ سے بات کرنے لگا۔ لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد مُراد پھر سے کسی وجہ کے بغیر لڑنے لگا اور یہ لڑائی دن بدن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ پاکیزہ اب ڈپریشن میں رہنے لگی تھی۔ ہمیشہ کوشش کرتی کہ لڑائی کو ختم کر سکے اور اگلی بار مُراد پچھلی بار کے بھی سارے ریکارڈ توڑ دیتا۔ پاکیزہ کے امتحانات ختم ہو گئے اور نتیجہ بھی آگیا لیکن اس بار نتیجہ ہر بار کی طرح قابلِ داد نہیں تھا۔ اس بار اس کے نمبر بہت کم آئے تھے اور سب گھر والے حیران تھے لیکن کسی نے اسے کچھ کہا نہیں تھا کیونکہ وہ آخر سب کی لاڈلی تھی لیکن اسے خود معلوم تھا کہ اسکے ساتھ سب بہت بُرا ہو رہا ہے جسکی وجہ وہ بخوبی جانتی تھی لیکن جان کر بھی انجان بنی ہوئی تھی۔ وہ کسی کو بھی اپنی حالت کا قصور وار نہیں ٹھہرانہ چاہتی تھی۔ سب کچھ ریت کی طرح اسکے ہاتھوں سے پِھسلے جا رہا تھا اور وہ تماشا دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔ 

آخر جس بات کا ڈر تھا وہی سب ہوا۔ پاکیزہ اور مُراد کا بہت جھگڑا ہوا۔

"مجھے تم لڑکیوں جیسی ٹینشنز بالکل نہیں پسند" مُراد نے غصّے میں کہا۔

پاکیزہ یہ سب سن کے اپنی جگہ پہ منجمد سی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگے اور وہ کچھ بھی نہیں کہہ پا رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسکے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔

"کیا۔۔۔ کیا مطلب؟ کیا کہا آپ نے؟"

پاکیزہ اٹکتے اٹکتےہوئے لرزتی زبان سے بول رہی تھی۔

"جو تم نے سُنا وہ کہا میں نے۔ مجھے بار بار بولنے کی عادت نہیں"

مُراد اپنی سب حدیں پار کر چکا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ اپنے غصے پر قابو پانا نہیں جانتا تھا اور دن بھر کا سارا غصہ اور چڑچڑا پن پاکیزہ پہ اتار دیا کرتا تھا اور یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ پاکیزہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر کہے کہ کہاں گئی آپکی محبت۔ وہ چاہ رہی تھی کہ چیخ کر بتائے کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہے لیکن کچھ نہیں کہہ پا رہی تھی۔

اس نے فیصلہ کِیا کہ اب وہ مُراد سے بات نہیں کرے گی کیونکہ وہ روز تھوڑا تھوڑا کر کے ٹوٹ رہی تھی اور یہ سب سن کے تو وہ پوری طرح سے ٹوٹ چکی تھی۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ پوری رات اپنے کمرے میں گُم سُم سی بیٹھی رہی۔ اگلے دن بھی کچھ کھائے پئے بغیر وہیں منجمد بیٹھی رہی۔ سب گھر والے اسکی حالت دیکھ کر بہت پریشان تھے لیکن وہ کچھ بول ہی نہیں رہی تھی۔ رات کو پاکیزہ کا چھوٹا بھائی عبداللہ اس کے پاس آیا اور پوچھنے لگا "آپی کیا ہو گیا ہے آپکو؟"

پاکیزہ اپنے بیڈ پہ گھٹنوں پہ اپنا سر ٹکائے بیٹھی تھی۔ 

"دل ٹوٹ گیا ہے شاید" پاکیزہ کسی بھی تاثر کے بغیر بوجھل آواز میں بولی۔ 

"دل کیسے ٹوٹتا ہے آپی"

"جب ہم کسی شیشے کے گلاس کو دسویں منزل سے پھینکتے ہیں نا تو وہ چور چور ہو جاتا ہے اور اسکے ٹکڑے اکٹھا کرنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کے کڑوے الفاظ بھی کچھ ایسا ہی کام کرتے ہیں اور دل اتنا چور ہو گیا ہے کہ اسکی ایک ایک کِرچی میرے اندر ایسے چُبھ رہی ہے جیسے اس نے ایسا زخم پیدا کر دیا ہو جو ناسور سے بھی زیادہ بُرا ہو۔ کچھ لوگوں کے الفاظ میں اتنا خطر ناک زہر ہوتا ہے کہ وہ نہ تو انسان کو جینے دیتا ہے اور نہ ہی مرنے دیتا ہے"

یہ سب اسے ایک عزیت ناک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ ایک ڈراؤنی رات کی طرح تھا سب جو کبھی نہ ختم ہونے والی بھیانک رات تھی۔ پاکیزہ اب پہلے کی طرح مُسکراتی ہوئی بابا کی لاڈلی نہیں رہی تھی۔ یہ وہ پاکیزہ نہیں تھی جو ہر بات کو مذاق میں اُڑا دیتی تھی۔ یہ بے دَھڑک اور بے خوف پاکیزہ نہیں تھی۔ اُسے مُراد کی ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی بات یاد تھی اور ہر بات پہ اُسے مُراد یاد آ جاتا تھا لیکن مُراد کو شاید پاکیزہ یاد نہیں تھی اب۔ وہ جسے پَری کہا کرتا تھا اُسے ہی ھول چکا تھا۔ 

اب پاکیزہ اپنے ہی خیالوں کی قید میں گِرفتار ہو کر رہ گئی تھی جہاں سے رہائی بالکل ممکن نہیں تھی۔ وہ محض اپنے خوابوں کی قیدی بن کر رہ گئی تھی۔ 

کچھ دن بعد حالے پاکییزہ کے گھر اُس سے ملنے کے لئے آئی کیونکہ پاکیزہ کی امی نے حالے کو کال کر کے بلایا تھا تا کہ پاکیزہ اس کے ساتھ تھوڑی باتیں کر کے اچھا محسوس کرے۔

حالے جب پاکیزہ کے کمرے میں گئی تو وہ اُلٹی لیٹ کر رو رہی تھی۔

"بھول کیوں نہیں جاتی تم اُسے؟" حالے نے پاکیزہ کو خود کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔

"بھول جاؤں؟ تم کہتی ہوں بھول جاؤں اُسے؟ اُس انسان کو بھول جاؤں جس سے محبت نہیں عشق کیا تھا میں نے؟ اُس انسان کو بھول جاؤں جس کے لئے خدا سے رو رو کر گِڑگِڑا کر دعائیں مانگی تھیں؟ اُس انسان کو بھول جاؤں جسے میں اپنا محرم تصور کرتی تھی؟ مجھے اُن کے قدموں کی چھاپ آج بھی سُنائی دیتی ہے۔ مجھے اُنکا پیار سے جانا کہہ کر بُلانا آج بھی یاد ہے۔ مجھے ہر ایک بات یاد ہے اور تم کہتی ہو بھل جاؤں میں انہیں۔ میں اُس انسان کو نہیں بھول سکتی حالے جس کی وجہ سے آج میں اس حالت میں ہوں" پاکیزہ چیخ چیخ کر بول رہی تھی اور اسکی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ 

"تو ٹھیک ہے۔ رہو تم اسی کی یاد میں لیکن یہ بھی یاد رکھنا کہ کسی کو یاد کر کے کچھ نہیں ملتا۔ کچھ بھی نہیں"

"جذبات تو جذبات ہوتے ہیں نا۔ پھر چاہے وہ سہی ہوں یا غلط اور پھر میرے جزبات تو بہت خالص ہیں حالے"

حالے یہ سب سن کر غصّے میں کمرے سے  چلی گئی۔ 

چاروں طرف اتنی خاموشی ہو گئی کہ گھڑی کی ٹِک ٹِک صاف سُنائی دے رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اُسے سانس لینے میں مشکل ہونے لگی کیوں کہ جب بھی وہ کسی بات سے بے چین ہوتی تھی تو یوں لگتا تھا جیسے اس کی سانس کسی درد بھرے لمحے میں اٹک کر رہ گئی ہے اور وہ ان بے مطلب سانسوں کو اس ویرانے سے آزاد ہی نہیں کروانا چاہ رہی۔ وہ مُراد کے ساتھ گزرے کچھ حسین لمحے سوچ رہی تھی۔ ان لمحوں کو سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں اس سب کا انجام بھی آ گیا۔ ہاں اسے وہ سب یاد آ گیا جس کی وجہ سے وہ اس اذیت میں تھی۔ اس کی آنکھوں سے جھلملاتے آنسو بہنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے دکھوں کی صندوق کھول دی ہے اور اس میں سے درد بہنے لگا ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ سر ٹکائے بیٹھی تھی اور اس نے اپنے ہاتھ بھینچ لئیے کیوں کہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان زہریلے دکھوں کی اذیت زیادہ ہے جو وہ کڑوے گھونٹوں کی طرح پی رہی تھی یا سر کے درد کی شدت! وہ ایک اذیت ناک قید میں تھی جہاں اندھیرے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ ایسا اندھیرا جو آنکھوں کی روشنی اور خوابوں کو کھا جائے۔

پاکیزہ اب ڈائری لکھنے لگی تھی اور ڈائری لکھتے ہوئے پہلی چیز جو اُس نے لکھی تھی وہ کچھ اشعار تھے جو کچھ یوں تھے:

ہواؤں نے صداؤں نے

تمہی کو تو پکارا تھا

اُن راتوں کی تاریکیوں میں

جو تھا سب کچھ ہمارا تھا

قسم تم نے تو دی تھی نا

کہ تم ساتھ نبھاؤ گے

مگر تم دور بہت ہو اب

میرا بس اِک سہارا تھا

خدائی سب نے دکھائی تھی

خدا بھی یاد دلایا تھا

باتیں تو تھیں بہت کم پر

جھگڑا تم نے بڑھایا تھا

اب تو لوٹ آؤ نا

کہ ہم بہت اکیلے ہیں

نہ چھوڑو گے کبھی ہم کو

یہ بس اِک وہم ہمارا تھا

قربت_تک_کا_سفر_


قسط 3

اریج


پاکیزہ اکیلی ہو گئی تھی۔ بالکل اکیلی۔ کوئی بھی اسکا نہیں تھا اب۔ نہ تو مُراد جو اسکی زندگی تھا اور نہ ہی اسکی بہن جیسی دوست حالے۔ سب کچھ اتنا اچانک ہو رہا تھا کہ پاکیزہ کو اپنی زندگی میں اندھیرے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

اگلے ہی دن پاکیزہ ہینڈ فری لگا کر ریڈیو سُن رہی تھی اور ریڈیو سُنتے سُنتے اس نے ایک حدیث سُنی جسے سُن کے مانو جیسے اُسے اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں آ  گیا ہو۔ وہ حدیثِ قدسی کچھ یوں تھی کہ:

اے ابنِ آدم!

اِک تیری چاہت ہے اور اِک میری چاہت ہے

مگر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے

پس اگر تو نے سپُرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے 

جو میری چاہت ہے

تو میں بخش دوں گا وہ بھی

جو تیری چاہت ہے

اگر تو نے مخالفت کی اسکی

جو میری چاہت ہے

تو میں تھکا دوں گا تجھے اس میں

جو تیری چاہت ہے

پھر ہوگا وہی 

جو میری چاہت ہے

اُس وقت رات کا آخری پہر تھا۔ تیز بارش ہو ہورہی تھی اور ہر طرف طرف مٹی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ پاکیزہ نے ٹھنڈے پانی سے وُضو کیا اور تہجد کی نماز پڑھنے لگی۔ نماز پڑھنے کے بعد اُس نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔ وہ بولنا چاہ رہی تھی۔ بہت کچھ بولنا چاہ رہی تھی لیکن اُس کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے۔ وہ سِسکنے لگی اور پھر کئی دیر روتی رہی یہاں تک کہ اسکی آنکھیں سوجھ گئیں۔ آخر اس نے خاموشی توڑی اور بولی کہ:

"یا اللہ مجھے بخش دے۔ بخش دے میری ہر ایک غلطی کو۔ میں نے اپنی ساری زندگی تجھ سے دور رہ کر گزاری ہے لیکن اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ میرے مولا تُو تو ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے نا تو مجھے اس پیار کے صدقے معاف فرما دے۔ میں نے تجھے چھوڑ کے دنیا کی چاہت کو اپنا لیا تھا لیکن سب نے مجھے ٹھکرا دیا۔ اے میرے پروردگار! اگر تو بھی ٹھوکر مار دے گا تو میں کس در پہ جاؤں گی؟ میں ایک نامحرم کو اپنا سب کچھ مان بیٹھی تھی۔ اُس نامحرم کی محبت نکال دے میرے دل سے۔ اگر اسے مجھ سے دور کرنا ہی تھا تو اسکی محبت ڈالی کیوں میرے دل میں؟ میرے مولا سیدھا راستہ دکھا"

پاکیزہ ساری رات بِلَک بِلَک کر روئی تھی اور روتے روتے ہی سو گئی تھی۔ 

ابھی تو شاید اسکی مشکلات شروع ہی ہوئی تھیں۔ وہ بالکل بدل گئی تھی۔ ہر چھوٹی بات پہ رونے لگتی تھی۔ کسی کے اونچا بولنے سے ڈر سی جایا کرتی تھی۔ سب سے دور رہنے لگی تھی۔ زیادہ تر تنہائی میں رہتی اور رات کے اندھیروں کو پسند کرنے لگی تھی۔ ہر نماز کے بعد رو کےدُعا کرتی اور ہر رات تہجد کے بعد سجدے میں روتی اور گڑگڑاتی تھی۔ کئی گھنٹے سجدے میں روتی رہتی اور ایک ہی دُعا کی "یا اللہ! بخش دے مجھے اور مُراد کی محبت نکال دے میرے دل سے"

وہ سمجھ رہی تھی کہ اس کے ساتھ سب غلط ہو رہا ہے اور وہ اب زندگی کی خواہش مند ہی نہیں تھی۔ بلکہ اس کی ساری خواہشات مر چکی تھیں۔ اس کی روح زخموں سے داغ دار ہو گئی تھی اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والے داغ تھے جنہیں وہ رو کر دھونے اور ختم کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ ایسی موت مر چکی تھی جس کا جنازہ بھی نہیں ہوتا۔ ہاں وہ خواہشات کی موت مر چکی تھی۔ مُراد کی محبت تھی کہ اس کے دل سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور اسے یوں لگتا تھا کہ یہ محبت پہلے سے بھی زیادا بڑھتی جا رہی ہے۔ اسے یہ بات زیادہ عزیت دیتی تھی کہ مُراد نے دوبارا رابطہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور اپنی زندگی مزے سے گزار رہا تھا۔ اسکو کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ ہر وقت یہی سوچتی رہتی کہ مُراد کو محبت تھی بھی؟ اور اگر تھی تو کہاں گئی اب وہ محبت۔ کیسے کہہ دیا اس نے مجھے اتنا سب کچھ۔

 "وہ کہتے ہیں نہ کہ محبت کسی سے ہو جائے تو محبوب کی ہر بات ماننی چاہئے نہیں تو محبوب روٹھ جاتے ہیں۔ میں نے ہر بات مانی تھی تو یہ سب کیوں؟ کیا یہ ہر بات ماننے کی سزا تھی یا مُراد نے مجھے اس سے محبت کرنے کی سزا دی؟" پاکیزہ اپنی ڈائری پہ یہ سب لکھ رہی تھی اور اپنے آنسؤوں کو ضبط کئے بیٹھی تھی۔  آنسؤں سے اس کی آنکھیں دھندلا گئی تھیں۔ آخر اسکی ضبط اور صبر کا بان توڑ کر بہہ پڑے اور اسکی ڈائری کا صفح آنسؤوں سے بھر گیا۔ یہاں تک کہ ڈائری پہ لکھے ہوئے الفاظ بھی دھندلے ہو گئے۔

پاکیزہ کے اس طرح خاموش اور تنہا رہنے کی وجہ سے سب گھر والے پریشان تھے کیونکہ وہ سب پاکیزہ کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ سب اس سے بار بار پوچھتے لیکن کوئی خاص جواب نہ ملتا۔ آخر پاکیزہ کی امی اس کے پاس آئیں اور اس سے کہنے لگیں کہ 

"کیا ہو گیا ہے پاکیزہ؟ تم ایسے کیوں رہنے لگی ہو؟ یہ سب اس انسان کے لئیے ہے نا جو شاید تمہیں بھول چکا ہے۔ جس نے کبھی اپنے گھر والوں کو بھی تمہارے بارے میں نہیں بتایا۔ تم بھول کیوں نہیں جاتی مُراد کو؟ وہ انسان اب تک تم میں زندہ کیوں ہے بیٹا جس میں تم کب کی مر چکی ہوئی ہو؟ اسے تو تمہارا رونا بھی نظر نہیں آتا لیکن اپنے گھر والوں کی تو فکر کرو۔ علی بار بار تمہیں ہنسانے آتا ہے اور ذیشان بار بار آکر یہ دیکھتا ہے کہ کہیں تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہ ہو۔ عبداللہ بار بار مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپی کو کیا ہو گیا ہے۔ اور تمہارے بابا! ان کو کیا کہوں میں؟ اُن کو یہ کہہ کر بات تو ٹال دی کہ تم بیمار ہو لیکن انہیں میں کب تک تک ان کو یہ کہتی رہوں گی؟ اس طرح رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔"

پاکیزہ خاموشی سے یہ سب سنتی رہی اور امی کی بات ختم ہونے کے بود کچھ دیر گہری سوچ میں رہی اور بولی "کون مُراد؟ کس مُراد کی بات کر رہی ہیں ماما؟ میں نہیں جانتی کسی مُراد کو"

یہ کہنے کے بعد پاکیزہ یوں محسوس کر رہی تھی جیسے اس کا دل پھٹ جائے گا یا زمین پھٹے گی اور وہ اس میں غرق ہو جائے گی لیکن اس کے چہرے پہ ایک پُر اصرار سکون تھا۔ اب وہ ادکارہ بھی بن چکی تھی۔ ایک ایسی اداکارہ جو اپنے چہرے پہ من چاہے تاثرات قائم کر سکتی تھی۔

"اگر ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے۔ اپنا وقت برباد مت کرو اور زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو کیونکہ ابھی تو تمہاری پوری زندگی باقی ہے" پاکیزہ کی امی پریشانی کے عالم میں بول رہی تھیں۔ 

"جی ماما آپ فکر نہ کریں۔ اب آپ مجھے ایسے بالکل نہیں دیکھیں گی۔" پاکیزہ مسکراتے ہوئے بول رہی تھی۔ اسے دیکھ کے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی پھول ابھی کھلنے کے مرحلے میں تھا لیکن وہ بد قسمت پھول کھلے بغیر ہی مرجھا گیا ہو۔

یہ الفاظ کہنے کے بعد پاکیزہ کا دل بہت بے سکونی میں تھا اور ساری رات پاکیزے اپنے کہے ہوئے الفاظ سوچتی رہی۔ اگلے دن دوپہر کے دو بج گئے لیکن پاکیزہ ابھی تک سو رہی تھی۔ ویسے تو وہ دیر تک سوئی رہتی تھی۔ لیکن کچھ دن سے خلافِ معمول پاکیزہ جلدی ہی جاگ جاتی تھی۔ اس کی امی نے سوچا کہ کافی دن سے پاکیزہ جلدی جاگ جاتی ہے تو آج اسے نیند پوری کرنے دیتی ہوں اسی لئیے انہوں نے پاکیزہ کو نہیں جگایا۔ شام کے چار بج گئے لیکن پاکیزہ اب تک سو رہی تھی تو اس کی امی پریشان یو گئیں اور اس کو اٹھانے کے لئیے گئیں۔

"پاکیزہ! اُٹھ جاؤ بچے چار بج گئے ہیں" پاکیزہ کی امی اسے ہِلا کر اُٹھا رہی تھی لیکن پاکیزہ بے سود پڑی رہی۔

"پاکیزہ! پاکیزہ! کیا ہو گیا تمہیں؟ اُٹھ بھی جاؤ اب" پاکیزہ کی امی کی دھڑکن تیز ہو گئی اور پریشانی کے عالم میں ان کی آواز اونچی ہونے لگی۔ 

"ذیشان! علی! دیکھو پاکیزہ کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ اٹھ نہیں رہی" اب امی کی آواز اور بلند ہو گئی اور وہ روتے ہوئے پاکیزہ کے بھائیوں کو آوازیں دینے لگیں۔ گھر میں ہر طرف کہرام برپا ہو گیا اور پاکیزہ کو گاڑی کے ذریعے ہسپتال لے جایا گیا۔ ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹروں نے پاکیزہ کا چیک اَپ کیا۔

"ڈونٹ وَری مسز دانش۔ پاکیزہ بس بے ہوش ہو گئی تھی۔ شاید یہ کسی ڈپریشن میں ہے اور گلوکوز کی کمی کی وجہ سے بھی ایسا ہوا۔ میں نے ڈرِپ لگا دی ہے اور کچھ میڈیسنز لکھ دی ہیں۔ کوشش کیجئے گا کہ پاکیزہ ٹینشن نہ لے۔ ہوش آنے کے بعد آپ اسے گھر واپس لے جا سکتے ہیں"

"تھینک یو ڈاکٹر" پاکیزہ کی امی دبی ہوئی پریشان آواز میں بولی تھیں۔

رات کو سات بجے پاکیزہ کو ہوش آ گیا اور اس کے گھر والے اسے گھر لے گئے۔ پاکیزہ کی امی اور ابو دونوں ہی بہت زیادہ پریشان تھے اور بھائیوں کا تو رو رو کے بُرا حال تھا کیں کہ وہ اپنی بہن سے بہت پیار کرتے تھے۔

اگلے دن تک پاکیزہ کی طبیعت میں بہت سُدھار آچکا تھا۔

"اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں اس مُراد کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کیا حالت بنا دی ہے اس نے میری بیٹی کی۔ اس کی یادیں کب جان چھوڑیں گی تمہاری؟" پاکیزہ کی امی غصّے سے بولیں۔

پاکیزہ لیٹی ہوئی تھی اور مسکراتے ہوئے جواباً بولی "اب اس کا کیا قصور ہے اس میں ماما؟ وہ کہاں سے آگیا؟ کبھی کبھی انسان بیمار ہو ہی جاتا ہے"

"تم نے سُنا نہیں ڈاکٹر نے کیا کہا تھا؟ تم ڈپریشن کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی"

"اچھا نا اب آپ تو ناراض مت ہوں۔ میں اور ڈپریشن؟ نہ نہ دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں" پاکیزہ نے بولتے ہوئے قہقہہ لگایا تھا اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ آنسو چھپانے کے لئے اُس نے دوسرے طرف کروٹ لے لی۔

"کاش ایسا ہی ہو۔ تم پہلے والی پاکیزہ بن جاؤ نا۔ اب شرارت کرنے پہ تمہیں کبھی نہیں ڈانٹوں گی" پاکیزہ کی امی بھی اب رونے لگی تھیں۔

"ماما اب مجھے اموشنل نہ کریں اور فکر نہ کریں میں پہلے جیسی ہی ہوں۔ اب مجھے سونے دیں۔ باقی باتیں بعد میں کروں گی" 

پاکیزہ کی امی کمرے سے چلی گئیں اور پاکیزہ روتی رہی۔

پاکیزہ میں کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ وہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ تہجد بھی ادا کرتی اور تہجد کے وقت کئی دیر تک سجدے میں ہی رہتی۔ بعض اوقات تو نوبت یہاں تک آ جاتی کہ وہ سجدے میں ہی سو جایا کرتی تھی۔ وہ سجدے میں روتی رہتی اور اللہ سے ایک ہی دُعا کرتی کہ اے اللہ میرے دل سے مُراد کی محبت نکال دے۔ یہ وہی پاکیزہ تھی جو مُراد کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنے کی دعائیں کیا کرتی تھی اور اب وہی مُراد کو اپنے دل و دماغ سے دور کر دینا چاہتی تھی۔ مُراد پاکیزہ کی روح کا حصّہ تھا جسے خود سے الگ کرنا اسے مشکل ہی نہیں نہ ممکن لگ رہا تھا۔ اس نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا کہ مُراد بالکل بدل جائے گا۔ اتنا کہ اسے پاکیزہ بھی بھول جائے گی۔ مُراد نے ایک بار بھی پاکیزہ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ پاکیزہ اب پردہ کرنے لگی تھی۔ یہ وہی پاکیزہ تھی جو کہا کرتی تھی کہ میرہ دم گھٹتا ہے اسی لئے میں نقاب نہیں کر سکتی۔ 

پاکیزہ اور مُراد کو دور ہوئے سال ہو چکا تھا۔ وہ اور حالے الگ الگ یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے اور حالے نے بھی پاکیزہ سے کبھی بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ لیکن پاکیزہ کو تو سب یاد تھے۔ وہ آج تک کسی کو نہیں بھولی تھی اور نہ ہی آج تک اس نے کوئی سہیلی بنائی تھی۔ وہ زیادہ تر سب سے دور رہنے کی ہی کوشش کیا کرتی تھی۔ پاکیزہ کو حالے کی بہت یاد آئی تو اس نے حالے کو میسج کیا۔

"ہیلو"

"کیسی ہو؟"

حالے نے میسج کا اگلے دن جواب دیا۔

"میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟"

پاکیزہ نے میسج دیکھتے ہی فوراً جواب دیا۔

"شکر اللہ کا میں بھی ٹھیک ہو۔ کہاں ہوتی ہو آج کل؟"

"بس یونیورسٹی اور پڑھائی میں مصروف ہوتی ہوں"

"کبھی میری یاد نہیں آئی حالے؟"

"نہیں میں مصروف بہت ہوتی ہوں بس اسی لئے"

"مصروف تو سب ہی ہوتے ہیں لیکن اپنوں کے لئے تو وقت نکالا جاتا ہے نا" پاکیزہ دل میں سوچ رہی تھی کہ اپنا تو میرا کوئی نہیں تو پھر میں حالے سے کیسی اُمید رکھ سکتی ہوں۔

"نہیں پاکیزہ تھوڑا سا بھی وقت نہیں ہوتا کہ کسی سے بات کر لوں"

"اب تو تماری بہت سی نئی سہیلیاں ہوں گی"

"ہاں ہیں تو اور سب بہت اچھی ہیں"

"ہاں سب اچھے ہی ہوتے ہیں حالے۔ بس وقت اور حالات سب کو بُرا بنا دیتے ہیں" پاکیزہ سوچ میں پڑ گئی تھی کہ اس نے ایسا کیا بُرا کر دیا تھا جو سب اس سے اتنا دور ہو گئے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ اتنی ہی بُری تھی جو اسے اتنی بڑی سزا ملی۔

_________

پاکیزہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی اس کے ساتھ بہت غلط کر رہی ہے اور اللہ نے آج تک اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اسے لگنے لگا تھا کہ اسے اب ایسے ہی ساری زندگی تنہائی میں گزارنی ہوگی اور نہ تو کوئی کبھی اس کا اپنا تھا اور نہ ہی کوئی اپنا بنے گا۔ اس نے سب کے ساتھ زندگی بہت مخلص ہو کر گزاری تھی لیکن اس کے ساتھ تو کبھی کسی نے مخلصی نہیں دکھائی تھی۔ سب نے ہی تو ہمیشہ اسے استعمال کیا تھا اور وہ بڑی خوشی خوشی استعمال ہونے کے لئیے تیار ہو جاتی تھی اور جب تک وہ حقیقت سے آشنا ہوتی تب تک تو وہ ایک بےکار استعمال شُدہ کاغز کی طرہ کسی سوچوں کے ویرانے میں پھینک دی گئی ہوتی تھی اور وہ اس ویرانے میں یہی سوچ سوچ کے وقت گزار دیتی کے اس کی شاید کوئی غلطی تھی یا پھر شاید وہ اس قابل ہی نہیں تھی لیکن غلطی ہمیشہ اس کی نہیں ہوتی تھی۔ اس کی یہ سوچ غلط تھی کہ وہ اس قابل نہیں کیوں کہ کئی لوگ اس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ اسے اپنانا چاہتے تھے۔ اسے اپنی مخلصی دکھانا چاہتے تھے۔ اسے یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ کتنی خاص ہے لیکن اس کے لئے کوئی بھی معنی نہیں رکھتا تھا۔ پاکیزہ کے لئیے تو صرف وہی لوگ معنی رکھتے تھے جو اس کے اپنے ہوتے تھے اور حقیقت ہمیشہ کچھ اور ہوتی تھی۔ حقیقت میں وہ اس کے اپنے نہیں بلکہ اس کی ویرانی کے سب سے بڑے حامی اور اس کی خوشیوں کے سب سے بڑے دشمن ہوتے تھے۔ 

اس رات حالے سے بات کرنے کے بعد پاکیزہ اپنی ڈائری لکھنے میز کے آگے پڑی کرسی پہ بیٹھ گئی۔ کمرے میں اتنی خاموشی تھی کہ ہوا کی سرسراہٹ اسے واضح سنائی دے رہی تھی۔ میز میں بنے دراز سے اس نے اپنی ڈائری اور قلم باہر نکالا۔ ڈائری اس نے میز پہ رکھ دی اور میز پہ کہنی رکھ کر سر کو ہاتھ کے سہارے ٹکا لیا۔ کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا اور صرف میز پہ پڑی لیمپ کی ہلکی سی روشنی تھی جس سے میز پر پڑی ہر چیز صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میز کے آگے بنی کھڑکی کھلی ہوئی تھی جس سے ہلکی ہلکی ہوا اندر آرہی تھی اور ہوا کی وجہ سے پاکیزہ کے کھلے بال اس ک چہرے پر آ رہے تھے۔ کھڑکی سے آسمان میں پورا چاند نظر آ رہا تھا۔ پہلے تو کئی دیر پاکیزہ چاند کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتی رہی۔ وہ ہوا کی وجہ سے چہرے پہ اُڑ کر آنے والے بالوں کو پیچھے بھی نہیں کر رہی تھی اور بالکل ساکن بیٹھی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا مانو جیسے کوئی بے جان چیز ہو۔ پاکیزہ کھلی آنکھو سے چاند کو دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں بند نہ کرنے کی وجہ سے پانی آ گیا۔ 

پھر وہ ڈائری کھول کے ورق پلٹنے لگی اور سب اچھے لمحات پڑھنے لگی۔ ہر صفحے سے تھوڑا تھوڑا پڑھ رہی تھی۔

"آج آخر آپ نے مجھے پروپوز کر دیا اور یہ میری خوشی کا حسین طرین لمحہ ہے۔ اب آپکو جواب کیسے دوں گی میں"

"آپ ہنستے تو کبھی کبھی ہیں لیکن ہنستے ہوئے بہت پیارے لگتے ہیں۔ کہیں میری نظر ہی نہ لگ جائے آپکو"

"جب مُراد مجھے سمجھاتے ہیں کچھ تو مجھے اچھا لگتا ہے"

"آج حالے کی برتھ ڈے تھی اور ہم نے بہت انجوائے کیا۔ اسے میرا سرپرائس بہت پسند آیا"

ڈائری پڑھتے پڑھتے اس نے ایک خالی صفح کھولا اور قلم پکڑ کر لکھنے لگی۔

آپ کیوں چلے گئے مُراد؟ آپ نے مجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا۔ آپ سے میری ساری اُمیدیں وابستہ تھیں لیکن آپ نے تو میری ساری اُمیدیں توڑ دیں۔آپ نے پیچھے مُڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ آپکی پاکیزہ زندہ بھی ہے یا مر گئی۔ میں تو آج بھی آپکی ہوں لیکن آپ تو اب میرے نہیں ہیں۔ آپ تو مجھ سے دور چلے گئے نہ۔ میری کوئی عادت بُری لگی تھی تو بتا دیتے۔ کوئی بات بُری لگی تھی تو بتا دیتے۔ سب بدل لیتی میں۔ کہتے تو خود کو بھی بدل لیتی لیکن آپ نے تو کوئی شکوہ کئے بغیر ڈانٹ دیا۔ کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا؟ آخر کیوں؟ جواب کیوں نہیں دیتے آپ؟ اوہ ہاں آپ کے پاس تو کوئی جواب ہی نہیں ہوگا۔ بس دل بھر گیا ہو گا اسی لئے چھوڑ دیا اور میری اوقات یاد دلا دی کہ میں کسی کے پیار کے قابل ہی نہیں۔ آپ فکر نہ کریں کیوں کہ اب میں اپنی اوقات یاد رکھوں گی۔ اب میں کسی سے پیار کرنے کی کوشش تو کیا جُراْت بھی نہیں کروں گی کیوں کہ آپ نے مجھے اب اس قابل چھوڑا ہی کہاں ہے؟ آپ نے تو میری ساری تمناؤں اور ساری اُمنگوں کا قتل کر دیا جن کو میں کب سے دفنا چکی ہوں۔ میری زندگی تو ان کورے کاغذوں کی طرح ہو گئی ہے جن پہ سیاہی بکھیرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ جن کو لوگ اپنے جذبات بتانے کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن وہ اپنی داستان کسی کو نہیں سُنا سکتے.

پاکیزہ نے ڈائری بند کی اور اسی ٹیبل پہ پڑی ڈائری پہ سر رکھ کے سوچنے لگی اور پھر اسی طرح سو گئی۔

وہ یونیورسٹی میں بھی اکیلی ہی رہا کرتی تھی اور سب سے دور ہی رہا کرتی تھی اسی لئیے کوئی بھی اس سے بات نہیں کیا کرتا تھا۔ اس کی کلاس میں بس ایک ہی لڑکا تھا جود بھی بڑی مزاحیہ حِسّ رکھتا تھا اور پاکیزہ کو بھی ہمیشہ ہنسانے کی کوشش کرتا رہتا تھا لیکن پاکیزہ نے کبھی کسی کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ نقاب کی وجہ سے پاکیزہ کا چہرہ ڈھکا ہوتا تھا اسی لئیے اسے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا اور اس کے نام سے بھی کم ہی لوگ واقف تھے۔

پاکیزہ لوگوں سے سب تعلق توڑ کر اللہ سے تعلق جوڑنے میں لگی رہتی تھی۔ اسےسجدوں میں سُرور آنے لگا تھا۔ نماز پڑھنا اچھا لگنے لگا تھا۔ اب کچھ بھی اس کے ہاتھ میں باقی نہیں رہا تھا لیکن پھر بھی اسے اللہ پہ پورا یقین تھا۔ کامل یقین! اس نے کبھی دُعا جیسی چیزوں پہ یقین نہیں کیا تھا اور مُراد کے ملنے کے بعد تو جیسے وہ اللہ کو بھول ہی گئی تھی لیکن اب اسے دُعا پہ سب سے زیادہ یقین تھا جبکہ ابھی تک اسکی دُعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ اس کی ایک ہی دُعا تھی کہ "یا اللہ مُراد کو میرے دل سے نکال دے۔ مُراد کی محبت کو میرے دل سے نکال دے۔"

ابھی تک اس کا دل مُراد کی محبت سے لبریز تھا اور اسے مُراد کے علاوہ کچھ دکھائی اور سُنائی نہیں دیتا تھا جبکہ مُراد نے تو اتنا کچھ کیا تھا لیکن اسکا یہ سب کرنا پاکیزہ کے لئیے بہت بے معنی تھا۔ معنی رکھتا تھا تو مُراد کے لئیے پاکیزہ کا پیار۔ پاکیزہ اکثر بیٹھے بیٹھے اپنی ڈائری پر اشعار بھی لکھا کرتی تھی۔ اس نے پہلے کبھی شعر نہیں لکھے تھے اور نہ ہی اسے شاعری کا اتنا شوق تھا لیکن اب وہ سوچتے سوچتے کئی شعر لکھ لیتی تھی اور کبھی کبھی تو اسے خود کے لکھے ہوئے اشعار پہ بھی بہت حیرت ہوتی تھی کہ وہ اتنی بدل کیسے گئی۔ تہجد پڑھنے کے بعد وہ ڈائری لکھنے بیٹھ گئی اور کچھ اشعار لکھنے لگی جو کچھ یوں تھے۔

پیار پیار لبدا پھر یا

کِتوں نہ پیار کمایا میں

اَکھاں کھول کے چلدا سی پر

دل بند کر بیٹھاں سی میں

واپس خالی ہَتھ جدوں آیا

سب کُج گوا بیٹھا سی میں

اَکھاں وِچ تے ہنجو سی بس

تے لبدا فردا سی خدا نوں میں

سجدے وچ جدوں ڈگیا فیر

اپنا آپ کمایا میں

وہ سجدے میں خود کو اللہ کے بہت قریب محسوس کرتی تھی۔ اسے ایسے لگتا تھا جیسے اس کے اور خدا کے راستے میں حائل جتنے بھی پردے تھے وہ سب ہٹ چکے ہوں اور ایسا محسوس کرتی تھی جیسے اس نے اپنا سر ماں کی گود میں رکھ لیا ہو اور کوئی اسکا سر سہلا رہا ہو۔ اسے اپنا حقیقی محسن مل گیا تھا۔ اُسے یہ سمجھ آگیا تھا کہ جو اللہ ہم سے ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ کبھی ہمیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔ جب کوئی ہمارے ساتھ نہیں ہوتا تو وہی واحد ذات ہے جو ہمیشہ ہمارے ساتھ موجود ہوتی ہے۔

ایک رات پاکیزہ اپنے بیڈ پہ پیچھے کی طرف سر ٹکائے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ سوچوں میں گُم تھی۔ کمرے کی سب کھڑکیاں کھلی تھیں اور تیز آندھی کی وجہ سے کھڑکی کے دروازے زور زور سے ہل رہے تھے۔ کمرے میں کھڑکیوں کا شور پھیلا ہوا تھا اور کھڑکی سے آتی ہوئی چاند کی ہلکی سی روشنی تھی۔ پاکیزہ اس شور سے لا پروہ ہو کر سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کچھ دیر بعد تیز بارش ہونے لگی اور مٹی کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی۔ پاکیزہ کو بارش بہت پسند تھی اور بارش کے ہوتے ہی وہ ایسے خوش ہو جاتی تھی جیسے بہار کے موسم میں کوئی گلاب کا پھول کِھل گیا ہو لیکن آج اسے یہ بارش خوش نہیں کر پا رہی تھی۔ بلکہ اس بارش کی وجہ سے وہ آسودہ ہو گئی تھی جیسے آسودگی کی زنجیروں نے اُسے زور سے جکڑ لیا ہو۔ ٹھنڈی تیز ہوا کی وجہ سے بارش کی بوچھاڑ کھڑکی سے اپنا راستہ ڈھونڈتے ہوئے اندر داخل ہو رہی تھی جس کی بندیں پاکیزہ کے چہرے پر آ ر گر رہی تھیں۔ اچانک سے اسے موبائل کی گھنٹی سنائی دی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو موبائل اُس کی سائیڈ ٹیبل پر اُلٹا پڑا تھا۔ اُس نے موبائل پکڑا اور دیکھا تو کوئی انجانا نمبر تھا۔ پہلے تو وہ سوچتی رہی کہ اتنی رات کو کس کا فون ہوگا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کال بند ہو گئی۔ اس نے پھر موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ کچھ منٹ بعد پھر گھنٹی بجنے لگی۔ اُس نے دیکھا تو اسی نمبر سے کال آرہی تھی۔ اس بار اس نے کچھ سوچے بغیر کال ریسیو کر لی۔

"ہیلو!"

پاکیزہ تشویش ناک انداز میں بولی تھی۔

"السلام علیکم" آگے سے بہت ہی نرم لہجے میں اور دھیمی آواز میں کوئی بولا تھا۔

جب پاکیزہ نے آواز سُنی تو اس کی سانسیں رُک سی گئیں اور دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی کہ اس کی دھک دھک اس کی سماعت تک آرام سے پہنچ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ جواب دے، حیران ہو یا ایسے ہی چپ کر کے سنتی رہے۔

"ہیلو" دوسری طرف سے پھر کوئی دھیمی آواز میں بولا تھا۔

"وعلیکم السلام" پاکیزہ نے دبی ہوئی آواز میں اور تیزی سے سانس لیتے ہوئے بولا تھا۔

"پہچانا مجھے؟" دوسری طرف سے پھر سے ایک دفع سوال آیا تھا۔

"جی۔۔ پہچا۔۔ ہاں جی پہچان لیا" پاکیزہ رُک رُک کر گھبراتے ہوئے بول رہی تھی۔

"مجھے تو لگا تھا بھول گئی ہوگی"

پاکیزہ کچھ دیر خاموش رہی اور ایک گہری درد بھری سانس لیتے ہوئے بولی "آپکو میں کیسے بھول سکتی ہوں مُراد"

پاکیزہ بہت ڈَری ہوئی سی بول رہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی آواز کہیں اندر ہی سوالوں کے سمندر میں قید ہو کر رہ گئی ہے اور کچھ بھی بولنا اسے بہت مشکل لگ رہا تھا۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے۔

"تم رو رہی ہو پاکیزہ؟" مُراد نے پریشان آواز میں پوچھا۔

"نہیں۔ میں نہیں رو رہی۔ روؤں گی بھی کیوں۔ مجھے کونسا کوئی غم یا دُکھ ہے جو روؤں گی میں" پاکیزہ نے اپنی لرزتی ہوئی آواز پہ قابو پا کر بولا۔ 

"تم مجھ سے اب بھی پیار کرتی ہو نا پاکیزہ؟"

"یہ کیسا عجیب سا سوال ہے؟ اب کیا دیکھنے کے لئیے کال کی ہے آپ نے؟"

"مجھے تمہاری بہت یاد آ رہی تھی۔ اسی لئیے کال کر لی"

"یاد؟ اس بات پہ میں ہنسوں؟ یا روؤں؟ کیا کروں؟"

"ایسے کیوں کہہ رہی ہو پاکیزہ؟"

"آپکو نہیں پتا؟ آپ ایسے کیوں بات کر رہے ہیں جیسے انجان ہوں اس سب سے۔ آپ نے تو پورے سال میں ایک بار میسج تک نہیں کیا تو کس یاد کی بات کر رہے ہیں مُراد آپ؟"

"تو تم نے بھی تو مجھے کوئی میسج نہیں کیا اور دیکھو اب بھی میں نے ہی کال کی پاکیزہ تو اس سب میں کیا غلطی ہے میری؟"

"آپ اب بھی اپنی غلطی پوچھ رہے ہیں مُراد؟ آپ کو کچھ یاد نہیں کیا؟"

"میں اپنی ہر غلطی کی معافی مانگ چکا ہوں پاکیزہ"

"پاکیزہ! کچھ بولتی کیوں نہیں ہو اب؟"

"کال کَٹ کریں۔ مجھے صبح یونیورسٹی جانا ہے اور کافی رات ہو گئی ہے اب"

"ٹھیک ہے لیکن مجھے میری باتوں کے جواب چاہئیے"

یہ سُن کر پاکیزہ نے کال کاٹ دی. وہ سیدھا لیٹ کر چھت کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ اس کے کان کی طرف ڈِھلَک گیا اور یوں قطار در قطار آنسوؤں نے اپنا راستہ آنکھوں سے باہر کی طرف بنانا شروع کر دیا۔

قربت_تک_کا_سفر


قسط 4

اریج


اگلے دن پاکیزہ یونیورسٹی گئی تو پہلے سے بھی زیادہ بُجھی بُجھی تھی۔ گزری رات کی سب باتیں اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔ وہ جب بھی اداس ہوتی تھی یا بہت اکیلا پن محسوس کرتی تھی تو اپنی پسندیدہ جگہ پر آکر بیٹھ جاتی تھی جہاں تناور درخت کے سائے تلے ایک بینچ تھا اور درخت کے قریب بہت سارے پھول کھلے ہوتے تھے جس کی وجہ سے وہاں بہت سی خوبصورت رنگ برنگی تتلیاں ہوتی تھیں۔ اسے اکیلا دیکھ کر وہی لڑکا پاکیزہ کے پاس آ گیا جو پاکیزہ کو ہنسانے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ 

"آپ آج پھر سے یہاں پر اکیلی بیٹھی ہیں۔ پتہ ہے ایسے اکیلی بیٹھی بالکل اچھی نہیں لگتیں کیونکہ پتا نہیں کِن سوچوں میں گُم ہوتی ہیں"

"نہیں بس ایسے ہی یہاں بیٹھی ہوں"

"میں تو ایسے اکیلا بیٹھا بیٹھا بور ہی ہو جاؤں۔ دوست کیوں نہیں بناتیں آپ کوئی؟"

"مجھے پسند نہیں دوست بنانا اور آپ اتنے سوال مت پوچھا کریں۔ نہ ہی مجھ سے آکر بات کیا کریں"

"لیکن آج میرا کوئی دوست نہیں آیا اور انفورچونیٹلی میں بھی آج آپکی طرح اکیلا ہوں۔ اسی لئیے آپکو ایسے دیکھا تو سوچا چلو آپکی اداس روح کو دور بھگانے میں تھوڑی مدد کی جائے آپکی۔"

"آپ مجھ سے دور رہیں۔ یہی بہتر ہے آپ کے لئیے"

"اچھا مِس سُن لیا میں نے لیکن مانوں گا نہیں کیونکہ آپکی بات میرے سر کے اوپر سے گزر گئی" اُس لڑکے نے کہکہا بلند کرتے ہوئے کہا تھا۔

"آپ بہت عجیب ہیں۔ ہنسنے کے علاوہ آپکو کچھ نہیں آتا کیا؟" پاکیزہ اسکی باتیں سن کر چڑچڑی ہو گئی تھی اور اب تھوڑا غصّے میں بولی تھی۔

"آتا ہے نا۔ مجھے ہنسنے کے علاوہ پاکیزہ کو چِڑانا بھی آتا ہے"

"آپ میرا نام مت لیا کریں پلیز"

"اچھا نہیں لیتا۔ میری جگہ آپ میرا نام لے لیا کریں"

"کوئی ضرورت نہیں۔ اب آپ یہاں سے اُٹھ کر جائیں گے یا میں چلی جاؤں؟"

"اچھا سوری سوری۔ جا رہا ہوں میں۔"

اس کے جانے کے بعد پاکیزہ پھر سے کہیں سوچوں کے سمندر میں ڈوب گئی۔ رات ہوئی تو تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پاکیزہ بیڈ پر لیٹ کر مُراد کی کال کے بارے میں سوچنے لگی۔ بظاہر تو وہ مُراد کے دل سے نکلنے کی دعائیں کرتی تھی لیکن کہیں نہ کہیں اسے مُراد کی کال کا شدت سے انتظار تھا۔ ایک بجتے ہی اسکا موبائل وائبریٹ ہونے لگا اور اسکی سانسیں رُک گئیں۔ اس نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو مُراد کی کال تھی۔ اس نے فوراً ریسیو کر لی۔

"السلام علیکم" مُراد ہمیشہ کی طری ہلکی آواز میں بولا تھا۔

"وعلیکم السلام" پاکیزہ نے بھی تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد جواب دیا۔

"کیسی ہو؟"

"زندہ ہوں! آپ کیسے ہیں؟"

"یہ کیسا جواب تھا؟ ٹھیک سے بتاؤ نا"

"میرے لئیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ زندہ ہوں اسی لئیے اس سے زیادہ ٹھیک سے نہیں بتا سکتی"

"پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟"

"آپ مجھے کال مت کیا کریں مُراد۔ اب جب ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے تو بات کر کے کیا فائدہ؟"

"لینا دینا ہے پاکیزہ۔ تم میری ہونے والی بیوی ہو"

پاکیزہ اب غصّے میں آگئی تھی اور اونچی آواز میں بولی "کون؟ میں؟ جاگیر ہوں آپ کی؟ جب دل کیا چھوڑ دیا اور جب دل کیا واپس آگئے۔ کتنی دیر رکھیں گے مجھے دھوکے میں؟"

"میں تم سے پیار کرتا ہوں پاکیزہ"

"بس کریں۔ خدا کے لئیے چپ ہو جائیں۔ مجھے نہیں پتا کہ کیا ہوتا ہے پیار۔ مجھے نہیں ہے کوئی پیار اور نہ ہی میرا ایسے لفظ سے کوئی سرو کار ہے"

یہ کہہ کر پاکیزہ نے کال کاٹ دی۔ یہ سب اس کے لئیے محض عزیت سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اب اس کی راتیں اور بھی زیادہ بھیانک ہو گئی تھیں۔ لیکن وہ خود پہ حیران ضرور تھی کہ مُراد سے اس طرح بات کرنے کی اور اس کی کال کاٹنے کی ہمت اس میں آتی کہاں سے ہے۔ وہ تو خود مُراد سے بات کرنا چاہ رہی ہوتی تھی لیکن کوئی اندرونی طاقت اسے ایسا کرنے سے روک لیتی تھی۔ اس کے بعد ایک مہینہ گزر گیا لیکن مُراد کی پھر سے کوئی کال یا میسج نہیں آیا اور نہ ہی پاکیزہ نے کوئی رابطہ کیا لیکن پاکیزہ ہر وقت سوچتی ضرور رہتی تھی۔

ایک دن حسبِ معمول پاکیزہ درخت کے قریب بینچ پر بیٹھی تھی کہ اچانک وہ لڑکا پھر آگیا اور اس کے آگے کی جانب نیچے گھاس پہ بیٹھ گیا اور پاکیزہ کو دیکھنے لگا۔

"ارے آپ یہاں پہ کیوں بیٹھ گئے ہیں؟ پلیز اُٹھ جائیں یہاں سے مجھے ایسے اچھا نہیں لگ رہا"

"یہاں بیٹھنا منع ہے کیا؟"

"نہیں منع نہیں ہیں لیکن ایسے۔۔۔ آپ۔۔ میرے پاؤں کے قریب بیٹھے ہیں اچھا نہیں لگ رہا" پاکیزہ گھبرائی ہوئی بول رہی تھی۔ 

"تو کیا ہوا۔ آج میں پھر اکیلا ہوں اسی لئیے پھر سے آپ کو تنگ کرنے آ گیا۔"

"آپ کیوں نہیں سمجھتے ارزانش کہ مجھے آپکا اس طرح مجھ سے بات کرنا نہیں پسند"

"ہائے زرا پھر سے بولئیے"

"کیا؟ کیا بولوں؟"

"ابھی آپ نے میرا نام لیا نا۔ زرا دوبارہ نام لیجئیے گا میرا"

"میں مزاق نہیں کر رہی"

"ویسے مجھے لگتا تھا کہ آپ کو تو میرا نام بھی نہیں پتا ہو گا لیکن آپ کے بولنے کے بعد میرے نام کی شان میں اضافہ ضرور ہو گیا ہے" ارزانش یہ کہہ کر ہنسنے لگا۔

"آپ بس مزاق ہی کر سکتے ہیں۔ آپ کے ساتھ بات کر کے ٹائم ویسٹ نہیں کرنا مجھے"

"اچھا ایک سوال کا جواب دیں۔ پھر میں تنگ نہیں کروں گا"

"کیسا سوال؟"

"پہلے پوچھنے تو دیں۔ پھر ہی آپ کو پتہ چلے گا کہ پوچھنا کیا ہے مجھے"

"جی پوچھیں"

"ہاں تو یہ بتائیں کہ اگر کئی دفع کوشش کر کے بھی کوئی انسان آپ کو نہ ملے تو پھر آپ کو کیا کرنا چاہئییے؟"

پاکیزہ کچھ دیر کے لئیے ایک گہری سوچ میں پڑ گئی اور پھر بولنے لگی کہ "اگر کوئی انسان کوشش کرنے کے بعد بھی نہ ملے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہماری دسترس میں نہیں ہے اور جب کئی ہماری دسترس میں نہ ہو تو اسے دعاؤں کے ذریعے مانگا جاتا ہے۔ اور اللہ سے اپنی بات منوانے کا سب سے بہترین طریقہ تہجد ہے کیونکہ تہجد اللہ تعالیٰ کی لاڈلی عبادت ہے"

"واہ! کیا بات ہے۔ آپکو تو بہت کچھ پتا ہے"

"اگر آپکے سوالات ختم ہو گئے ہوں تو جائیں یہاں سے"

"جا رہا ہوں بئی۔ ڈانٹتی بہت ہیں آپ"

"جائیں"

"اوکے خدا حافظ! لاسٹ تھِنگ! آئی مَسٹ سے دیٹ یور لائف پارٹنر وِل بی سو لَکی" ارزانش یہ کہہ کر چلا گیا لیکن پاکیزہ پہ اداسی کی کیفیت طاری کر گیا۔

اُس کو کیا معلوم تھا کہ وہ خود کو اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ بد قسمت ترین انسان تصور کر رہی تھی۔ اب مُراد کا پھر کچھ پتہ نہیں تھا اور یوں ہی وقت گزرتا جا رہا تھا۔ 

آخر رمضان کا مہینہ آگیا اور مُراد کو پاکیزہ سے دور ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ پاکیزہ اکیلی بیٹھی اکثر مُراد کی ساتھ ہوئی پُرانی گفتگو موبائل سے کھول کر پڑھتی رہتی تھی۔ اس دن بھی سحری سے پہلے اپنے کمرے میں بیٹھی مُراد سے ہوئی پُرانی باتیں پڑھ رہی تھی۔ پڑھتے پڑھتے اسے پیاس لگی تو وہ موبائل اُلٹا رکھ کر سائڈ ٹیبل پہ رکھا پانی کا گلاس اور جگ پکڑ کر گلاس میں پانے ڈالنے لگی۔ پانی پیتے پیتے کسی کی کال آنے لگی۔ اس نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو کوئی انجانا نمبر تھا۔ اس نے کال ریسیو کر لی۔

"ہیلو"

"السلام علیکم" پاکیزہ اداس آواز میں بولی تھی۔

"وعلیکم السلام"

"آج اتنے عرصے بعد پھر سے کیسے یاد آ گئی آپکو میری؟"

"تمہاری کال آئی تھی"

"کال؟ میری؟"

"ہاں تمہاری کال آئی تھی ابھی"

کچھ دیر کے لئیے پاکیزہ سوچ میں پڑ گئی اور پھر بولنے لگی "اوہ! سوری وہ میں نے موبائل اُلٹا رکھا تھا تو شاید ڈائل ہو گیا ہو گا نمبر"

"تم میری کنورسیشن اوپن کر کے بیٹھی ہوئی تھی؟"

"نہیں۔۔ میں ۔۔ کیوں اوپن کروں گی۔ شاید۔۔ نہیں نہیں یقیناً غلطی سے ہی کنورسیشن اوپن ہو گئی ہو گی لیکن آپ۔۔ آپ نے کیوں بیک کال کی؟"

"تم سے بات کرنے کا دل کر رہا تھا پاکیزہ"

"مُراد جھوٹ بولنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے آپ؟"

"نہیں یقین کرو میں جھوٹ نہیں بول رہا"

"تو پھر اتنے عرصے بعد وہ بھی میرے غلطی سے کال کرنے پہ کیوں کال کی مجھے؟ آپکو تو کبھی میری یاد بھی نہیں آئی ہو گی"

"نہیں پاکیزہ ایسا نہیں کہ تم سے بات نہیں کی تو یاد بھی نہیں آئی ہوگی۔ میں نے پُرانی جاب چھوڑ دی ہے اور ایک نئی جاب شروع کی ہے۔ انڈر گراؤنڈ ڈپارٹمنٹز ہیں اور وہاں سگنل بہت کم آتے ہیں۔ بس اسی لئیے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا"

"مُراد آپ چاہتے کیا ہیں آخر۔ مجھے آپ کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ایسے تو پاگل ہو جاؤں گی میں"

"تمہیں چاہتا ہوں۔ صرف تمہیں ہی چاہتا ہوں پاکیزہ۔ اور کچھ نہیں چاہتا"

"چاہتے ہیں؟ یہ بھی جھوٹ ہے۔ آپ مجھ سے پیار کرتے تھے نا۔ کہاں گیا آپ کا پیار؟"

"میں اب بھی پیار کرتا ہوں پاکیزہ۔ تم سمجھتی ہی نہیں ہو۔ مُراد صرف پاکیزہ کو چاہتا ہے"

"تو پھر وہ سب کیا تھا؟ آپکا زور سے چیخنا۔ آپکا کسی بھی بات کے بغیر ناراض ہو جانا۔ آپکو تو میرا رونا بھی کبھی نظر نہیں آیا مُراد"

"میں کتنی دفع معافی مانگ چکا ہوں یار اور اب پھر سے معافی مانگ لیتا ہوں۔ معاف کر دو مجھے۔ کہتی ہو تو تمہارے پاؤں پڑ جاتا ہوں"

پاکیزہ کی آنکھیں اب نم ہونے لگی تھیں اور وہ سسکنے لگی تھی۔ "یہ سب مت کہیں۔ شرمندہ مت کریں مجھے پلیز۔ میں آپکی بہت عزت کرتی ہوں"

"تو پھر مان جاؤ نہ یار۔ بھول جاؤ سب"

"کیسے بھول جاؤں مُراد؟ کیوں نہیں سمجھتے آپ کہ میں کس عزیت سے گزری ہوں۔ ہر ایک دن، ہر ایک رات میں نے بہت مشل سے گزاری ہے۔ آپ کے لئیے تو چھوڑ کر جانا آسان ہے۔ آپ پھر چلے گئے تو میرا کیا ہوگا۔ کہاں جاؤں گی میں؟"

"نہیں اب نہیں چھوڑوں گا کبھی۔ تمہاری ہر بات مانوں گا۔ بس ایک بار بھول جاؤ سب۔ چلو ہم ایک نئی" شروعات کرتے ہیں۔ سب نئے سِرے سے شروع کرتے ہیں"

"میرا دل نہیں مانتا مُراد۔ جذبات تو جیسے مر گئے ہوں۔ میرے اندر کا ہنستا کھیلتا انسان برباد ہو چکا ہے"

پاکیزہ اب پہلے سے زیادہ آنسوؤں کے ساتھ رونے لگی تھی اور وہ کچھ اور بول نہیں پا رہی تھی

"پاکیز پلیز رونا بند کرو" کچھ دیر خاموشی کے بعد مُراد پھر سے بولا "پاکیزہ کچھ تو بولو۔ تم رو لو پہلے اچھے سے۔ دل میں جو کچھ بھی ہے نکال لو۔ پھر بات کر لیں گے ہم"

"ٹھیک ہے"

اس کے بعد مُراد نے کال کاٹ دی۔ پاکیزہ پھر سے سب سوچنے لگی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ کرے تو کیا کرے۔ دل مُراد کی باتوں پہ یقین کرنے کے لئیے اصرار کر رہا تھا اور دماغ اُس کی سب باتوں کو رَد کر رہا تھا کہ وہ اتنے عرصے کے بعد اچانک سے پھر سے یہ سب کیسے کہہ سکتا ہے۔ 

پاکیزہ کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ وضو کر کے تہجد کی نماز ادا کرنے لگی۔ اس کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنے لگی۔ "اے اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ مجھے اب سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں۔ مجھے اندھیرے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ میری مدد فرما۔ مجھے اس اندھیرے سے نکال دے۔" پاکیزہ کی رخصاروں سے پھِسلتے ہوئے اس کے آنسو دُعا کے لئیے پھیلے ہاتھوں پہ گر رہے تھے۔

اگلے دن پاکیزہ اپنی جماعت میں بیٹھی کھڑکی سے باہر پرندوں کو اُڑتے دیکھ رہی تھی۔ اس کی کلاس فیلو لاریب آ کر کہنے لگی کہ "پاکیزہ کسے دیکھ رہی ہو باہر؟"

"کسی کو نہیں۔ بس ایسے ہی بیٹھی تھی تو سوچا نیچر انجوائے کر لوں"

"ایسے تو تم بور ہو جاؤ گی۔ ہمارے ساتھ چلو۔ آج تو میم بھی نہیں آئیں"

"نہیں نہیں آپ جائیں۔ میں یہیں ٹھیک ہوں"

"اب چلو بھی یار۔ آج ارزانش کی برتھ ڈے بھی ہے۔ ہم سب سیلیبریٹ کرنے والے ہیں" لاریب یہ کہتے ہوئے پاکیزہ کی بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے گئی۔

ارزانش عالمگیر پوری یونیورسٹی میں اپنی شرارتوں اور بچپنے کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ وہ شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور خوش شکل بھی تھا۔ وہ ایک اچھا انسان تھا۔ خوش شکل، خوش جسامت اور اچھے قد کی وجہ سے وہ لڑکیوں میں بھی بہت مشہور تھا۔ آخر وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور رئیس باپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے تھوڑا بگڑا بھی ہوا تھا۔ لڑکیاں اس پہ مرتی تھیں لیکن وہ لڑکیوں کو دوست نہیں بناتا تھا۔ اُن سے بس مزاق کی حد تک تھوڑی بہت بات کر لیا کرتا تھا اور لڑکیاں اتنے میں ہی خوش ہو جایا کرتی تھیں۔ اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جو اس کی سَگی بہن نہیں تھی بلکہ خالہ کی بیٹی تھی اور خالہ کی وفات کے بعد اب وہ مِسٹر عالمگیر کے گھر میں اُن کی بیٹی کی طرح ہی رہتی تھی اور ارزانش اس سے بہت زیادہ پیار کرتا تھا۔ یہاں تک کہ گھر میں سب سے زیادہ اپنی چھوٹی بہن ہانیہ کی ہی بات مانتا تھا۔

اس دن یکم جنوری یعنی ارانش کی سالگرہ کا دن تھا اور وہ بہت خوش تھا۔ یونیورسٹی کے کیفیٹیریا کو اس کے دوستوں نے غبارے اور پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔ ارزانش نے اپنے پسندیدہ کالے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور وہ بہت ہی خوبصورت اور دلکش لگ رہا تھا۔ کیفیٹیریا کے درمیاں میں میز پر ایک بہت خوبصورت کیک پڑا تھا جس پہ ارزانش کی شکل بنی ہوئی تھی۔ سب اسکی سالگرہ منانے کے لئیے وہاں جمع ہو گئے اور ارزانش بھی میز کے پاس کھڑا تھا۔ اتنے میں لاریب پاکیزہ کو کیفیٹیریا میں لے آئی اور زبردستی اسے میز کے قریب لے گئی۔

ارزانش نے پاکیزہ کی طرف ایک سرسری سی نگاہ ڈالی اور کیک کاٹنے لگا۔

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو"

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو"

"ہیپی برتھ ڈے ڈئیر ارزانش"

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو"

ارد گرد کھڑے سب لوگ ارزانش کو سالگرہ کی مبارکباد دینے لگے۔ ارزانش کیک کاٹنے کے بعد اس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر پاکیزہ کے قریب گیا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ سب اس کو پاکیزہ کے قریب دیکھ کر حیران ہو گئے۔ پاکیزہ خود بہت حیران تھی کہ وہ اپنے دوستوں کو چھوڑ کر پہلے اسے کیک کھلانے کیوں آیا ہے۔

"نہیں میرا روزہ ہے" پاکیزہ حیرانی کے عالم میں تھی اور سر جھکائے بول رہی تھی۔

"اچھا پھر ٹھیک ہے۔ مت کھائیں لیکن آج میری برتھ ڈے سیلیبریشن میں کیسے آ گئیں آپ؟" ارزانش پاکیزہ کے مزید قریب ہو کر بولا تھا۔ پاکیزہ کچھ قدم پیچھے ہٹ گئی اور سہمی سی بولی "وہ۔۔ میں۔۔ لاریب مجھے یہاں لے آئی تھی۔ سوری فور ڈسٹربنس۔ جا رہی ہوں"

یہ کہہ کر پاکیزہ جماعت میں واپس چلی گئی۔ ارزانش اپنے دوستوں کے ساتھ سالگرہ منانے میں مصروف ہو گیا۔ سالگرہ ختم ہونے کے بعد ارزانش کا دوست ارباب اس سے پوچھنے لگا کہ "یار تو پہلے وہ لڑکی۔۔ کیا نام تھا اسکا۔۔"

"پاکیزہ! پاکیزہ نام ہے اسکا"

"ہاں ہاں وہ تو پاکیزہ کو پہلے کیک کھلانے کیوں چلا گیا تھا؟"

"کچھ نہیں بس چِڑا رہا تھا اسے۔ اور کیوں جاؤں گا"

اوہ اچھا۔ میں خود حیران تھا کہ تو اس کے پاس کیوں چلا گیا پہلے"

دوستوں سے فارغ ہو کر ارزانش بھی جماعت میں چلا گیا۔ وہاں پاکیزہ اکیلی بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔

"کیا میں آپ کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ سکتا ہوں؟"

"باقی پوری کلاس بھی خالی ہے۔ آپ کہیں اور بیٹھ جائیں"

ارزانش پاکیزہ کے آگے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور کرسی کا رُخ پاکیزہ کی طرف کر لیا۔

"اب آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ آپ کو اور کوئی کام نہیں ہے کیا؟"

"ایک تو آپ کی بات مان کر وہ چیئر چھوڑ دی میں نے اور اب بھی آپ ڈانٹ رہی ہیں"

"بہت پڑا احسان کیا ہے آپ نے۔ تھینک یو سو مچھ"

"آپ نے تو مجھے وِش بھی نہیں کیا ابھی تک"

"ہیپی برتھ ڈے"

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ٹو"

پاکیزہ اب کھلی آنکھوں سے ارزانش کی طرف دیکھ رہی تھی۔ 

"کیا ہوا؟ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں میری طرف جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو؟"

"آپ۔۔ آپ مجھے کیوں وِش کر رہے ہیں" پاکیزہ اپنی کھلی آنکھوں سے ارزانش کی طرف حیرانی سے دیکھ رہی تھی کیونکہ اُس نے پاکیزہ کو پھر ایک بار حیران کر دیا تھا۔

"آج آپکی برتھ ڈے نہیں ہے کیا؟"

"ہاں۔۔ نہیں۔۔ ہاں لیکن آپ کو کیسے پتا؟"

"اب یہ بھی بتانا پڑے گا کیا کہ کیسے پتا چلا؟"

"لیکن۔۔میری برتھ ڈے کے بارے میں تو کسی کو نہیں پتا تو۔۔ آپ"

"اتنا مت سوچا کریں۔ کچھ لڑکیاں بات کر رہی تھیں کہ آپکی برتھ ڈے ہے آج بس تب سُنا"

"نہیں لیکن۔۔"

ارزانش پاکیزہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا "اب کوئی لیکن اگر نہیں۔ کافی دیر ہو گئی۔ اب جاتا ہوں میں۔ انجوائے یور برتھ ڈے"

اس بار پاکیزہ قدرت پہ بہت حیران تھی کہ آخر یہ اس کے ساتھ کیسا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ پاکیزہ کو کچھ ہی لمحوں میں ارزانش کا وِش کرنا بھول گیا کیونکہ وہ ایک بہت ہی لاپروہ لڑکا تھا اور پاکیزہ سوچتی تھی کہ اس کی کسی بھی بات کو سنجیدگی سے لینا بیکار ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی مُراد پاکیزہ کی سالگرہ بھول گیا تھا اور پاکیزہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے وِش کرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ انتظار میں ہی پورا دن گزر گیا اور آخر رات کو انتظار میں چور ہوئی پاکیزہ سونے ہی والی تھی کہ دو بجے کے قریب مُراد کی کال آئی اور پاکیزہ نے غصّے میں ہونے کے باوجود کال ریسیو کر لی۔ 

"السلام علیکم"

"وعلیکم السلام" پاکیزہ نے اس بار بہت بے رُخی سے جواب دیا۔

"کیسی ہو؟"

"اب کیوں کال کی ہے آپ نے؟"

"مجھے کل والی باتوں کے جواب چاہئیے پاکیزہ"

"جواب؟ آپ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے مُراد۔ آپ سے کوئی بھی شکوہ کرنا بیکار ہے"

"اب کیا ہو گیا یار؟"

"اس بار آپ پھر میری برتھ ڈے بھول گئے۔ اب بھی اپنی صفائی پیش کرنا چاہیں گے؟"

"مجھے یاد تھی پاکیزہ لیکن میں نے بس وِش نہیں کیا کیونکہ میں نے سوچا اتنا ضروری نہیں وِش کرنا"

پاکیزہ نے ایک گہری سانس لی اور بولی "ضروری تو میں بھی نہیں ہوں آپ کے لئیے"

"نہیں تم ضروری ہو"

"ایک اور جھوٹ۔ اور کتنے جھوٹ بولنے والے ہیں؟ مجھے بالکل اعتبار نہیں رہا آپ پہ"

"کیسے سمجھاؤں تمہیں کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتا ہوں۔ تم سے بہت پیار کرتا ہوں"

"پیار بتایا نہیں جاتا۔ پیار دکھایا جاتا ہے مُراد"

"تو دیکھو نا۔ دیکھنے کی کوشش کرو میرا پیار"

"کوشش؟ میں کروں کوشش؟ شروع سے اب تک کوشش میں نے ہی کی تھی کہ ہم ساتھ رہیں۔مجھے آپکا پیار نظر نہیں آتا۔ مجھے صرف اور صرف اپنا مستقبل نظر آتا ہے جس میں اندھیرے کے سِوا کچھ نہیں ہے"

"نہیں اندھیرے میں نہیں ہو گا تمہارا مستقبل۔ تم مان جاؤ پلیز اور بھول جاؤ سب۔ نہیں تو مُراد مر جائے گا تمہارے بغیر"

"اللہ نہ کرے۔ کیسی عجیب باتیں کر رہے ہیں۔ کچھ نہیں ہوگا آپکو۔آپ اب تک میرے بغیر ہی رہے ہیں نہ۔ آگے بھی رہ لیں گے اکیلے"

"نہیں رہ سکتا۔ میں بالکل اکیلا ہو گیا ہوں۔تنہائی میں میرا دم گُھٹتا ہے"

"آپ اب یہ سب مت کہیں۔ آپکو شاید مجھ سے کوئی اچھی لڑکی مل جائے جسے آپ پیار دے سکیں اور اس کے ساتھ وہ کبھی نہ کریں جو میرے ساتھ کیا"

"لیکن کسی اور کی کوئی جگہ نہیں میری زندگی میں۔ میں صرف تمہیں چاہتا ہوں"

"اب بات ختم کریں مُراد۔ ماما مجھے سحری کے لئیے آواز دے رہی ہیں۔ انہوں نے مجھے آپ سے بات کرتے سن لیا تو بہت ڈانٹیں گی"

"اچھا ٹھیک ہے لیکن پلیز پاکیزہ سوچنا ضرور"

"سوچنے کے علاوہ اور کچھ بچا ہی نہیں مُراد"

پاکیزہ کی امی مُراد سے بہت نفرت کرتی تھیں کیونکہ اس کی وجہ سے پاکیزہ کی یہ حالت ہو گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتیں تھیں کہ اب مُراد کا سایہ بھی دوبارہ ان کی بیٹی کی زندگی پر پڑے۔ پاکیزہ اب عجیب سے شش و پنج میں تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی زندگی اب کس رُخ مُڑے گی۔

قربت_تک_کا_سفر


قسط5

 اریج


ہر روز افطاری کے وقت پاکیزہ جب دُعا کے لئیے ہاتھ اُٹھاتی تو روز اس کے ذہن میں ایک ہی بات گردش کرتی کہ پہلے وہ مُراد کے ساتھ اپنی خوشی مانگا کرتی تھی اور اب وہ مُراد کے بغیر اپنی خوشی مانگتی تھی۔ اب یہ سب روز کا معمول بن گیا تھا کہ مُراد پاکیزہ کو روز کال کرتا اور پاکیزہ روز اسے سمجھاتی کہ اسے اب یقین نہیں رہا کسی پہ۔ وہ کال نہ کیا کرے۔لیکن ایک بات بہت واضح تھی کہ پاکیزہ کی بے رُخی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ پاکیزہ کے دل کو ایک اطمینان سا آنے لگا تھا لیکن مُراد کی خلِش اُسے بہت شدت سے محسوس ہوتی تھی۔

پاکیزہ کو اب یونیورسٹی میں بھی تین سال گزر چکے تھے اور آخری سال شروع ہو چکا تھا۔ اُن دنوں اس کی کلاس کو ایک فائنل پروجیکٹ ملنا تھا جس میں اچھے نمبر لینا بہت ضروری تھا کیونکہ اس کا اثر اس کی ڈگری پہ ہو سکتا تھا۔ 

سب کلاس میں بیٹھے پروفیسر کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد پروفیسر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔

"گُڈ مورننگ سٹوڈنٹس"

"گُڈ مورننگ سَر" سب طلباء بہت تر و تازہ انداز میں بولے۔

"آج میں پروجیکٹ کے لئیے تم سب کی گروپنگ کروں گا اور ہر گروپ میں صرف دو ہی سٹوڈنٹس ہوں گے۔ اگر آپ سب کوپریٹ کریں گے تو پروجیکٹ اچھا بن جائے گا۔

اب پروفیسر صاحب نے سب کے نام لے کر اُن کے گروپ بنانا شروع کر دئیے۔ کچھ لمحوں بعد پروفیسر صاحب نے پاکیزہ کا نام لیا تا کہ اس کے ساتھ بھی کسی کا گروپ بنا سکیں۔

"مِس پاکیزہ دانش۔۔۔ آپ۔۔ آپ اپنا پروجیکٹ ارزانش عالمگیر کے ساتھ کمپلیٹ کریں گی"

"لیکن سَر۔۔" پاکیزہ یہ سُنتے ہی ڈری ہوئی سی فوراً بولی تھی لیکن پروفیسر صاحب بات کاٹتے ہوئے بولنے لگے "آپ ارزانش کے ساتھ ہی پروجیکٹ مکمل کریں گی۔ مجھے پتا ہے کہ آپ کونفِڈنٹ نہیں ہیں اسی لئیے ارزانش آپکی کافی ہیلپ کر دے گا"

پاکیزہ یہ سُن کر خاموش ہو گئی۔ ارزانش پاکیزہ کی طرف دیکھنے لگا۔ جب پاکیزہ کی نظر ارزانش پر پڑی تو ارزانش تاثرات بدل کر اُسے چِڑاتے ہوئے ہنسنے لگا اور پاکیزہ غصّے میں آگئی۔ پروفیسر صاحب کے جاتے ہی ارزنش پاکیزہ کے پاس گیا اور کہنے لگا "تو پارٹنر! کب سے کام شروع کریں پھر؟"

پاکیزہ نے تیز نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔ "پہلے تو یہ پارٹنر کہنا بند کریں آپ مجھے"

"ہائے اتنی ظالم نظروں سے مت دیکھا کرو" ارزانش نے اپنا ہاتھ دل پہ رکھتے ہوئے کہا تھا۔

"اگر آپ یہ سب کریں گے تو میں سچ میں اس بار آپکی کمپلین کر دوں گی"

"ایک تو غصّے میں بڑی جلدی آ جاتی ہیں۔ اب بچے کی جان لیں گی کیا"

"سَر کو بتانے کے بعد اس سب کی ضرورت نہیں پڑے گی" پاکیزہ سخت لہجے میں بول رہی تھی۔

"اچھا اتنا سیریس مت ہوں۔ اب نہیں کرتا مزاق"

"بہتر ہوگا آپ کے لئیے"

"فرینڈز؟" ارزانش نے ہاتھ پاکیزہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

"نیور ایون تھنک اِٹ اگین(Never even think it again)"

پاکیزہ نے یہ کہتے ہوئے اپنا بیگ پکڑا اور ارزانش کی دائیں جانب سے راستہ بناتے ہوئے چلی گئی۔

ارزانش کا دوست ارباب یہ سب دیکھ رہا تھا۔ پاکیزہ کے جانے کے بعد وہ ارزانش کے پاس آکر کہنے لگا "یار یہ لڑکی پاگل لگتی ہے۔ تو کیسے اس کے ساتھ اپنا پروجیکٹ کمپلیٹ کرے گا؟"

"ایسے نہیں کہتے کسی کو۔ وہ پاگل نہیں ریسرو ہیں بس۔ اور تو فکر نہ کر۔ پروجیکٹ تو میں بنا ہی لوں گا۔" ارزانش نے اپنا بازو ارباب کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا۔

"چلو دیکھتے ہیں کہ کیسے اس لڑکی کے ساتھ تو پروجیکٹ کمپلیٹ کرتا ہے"

پاکیزہ وہاں سے جاتے ہی سوچ میں پڑ گئی کہ اب وہ کیا کرے گی۔ اُس نے اپنی کالج کی سہیلی اقراء کو میسج کیا جس سے اکثر وہ بات کر لیا کرتی تھی۔

"ایک پروبلم ہے۔ سَر نے میرا گروپ ایک عجیب لڑکے کے ساتھ بنا دیا ہے جس کو مزاق کے علاوہ کچھ نہیں کرنا آتا"

اقراء نے میسج دیکھتے ہی ریپلائی کیا "کیسا گروپ"

"وہ فائنل پروجیکٹ بنانے کے لئیے سَر نے گروپ بنائے تو بس اسی کی بات کر رہی ہوں"

"ہاں تو بس اسے مجبوری سمجھ لو اور زیادہ بولے تو اِگنور کر دیا کرنا۔بس پروجیکٹ بننے تک برداشت کر لو اسے"

"بہت مشکل ہے یار۔ پتا نہیں کیا عجیب عجیب باتیں کرتا رہتا ہے"

"تو تم اسکی عجیب باتوں کو اِگنور کر دینا جیسے تم نے کچھ سُنا ہی نہ ہو"

"اچھا ٹھیک ہے۔ کوشش کروں گی۔ ویسے مشورے کے لئیے تھینک یو"

"مینشن نوٹ"

اگلے دن سے پاکیزہ اور ارزانش نے پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو بہت مشکل تھا سب پاکیزہ کے لئیے۔ پھر آہستہ آہستہ اسے سمجھ آنے لگی کہ ارزانش دل کا بُرا نہیں ہے۔ اب وہ اُسے تھوڑا برداشت کرنے لگی تھی۔ ارزانش نے پاکیزہ کو اپنا نمبر دے دیا تھا تا کہ جب بھی ضرورت پڑے وہ اسے میسج یا کال کر سکے لیکن پاکیزہ میں بہت جِھجک تھی۔ ارزانش زیادہ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ ہی گزارتا تھا اسی لئیے مجبوراً پاکیزہ کو بھی ارزانش کو بُلانے کے لئیے میسج کرنا پڑا۔

 "Hey"

"کون؟"

"پاکیزہ"

"وہ میں نے یہ کہنے کے لئیے میسج کیا کہ آپ اب آجائیں تا کہ تھوڑا سا پروجیکٹ پر کونسنٹریٹ کر لیں"

ابھی پاکیزہ نے دوسرا میسج سینڈ ہی کیا تھا کہ ارزانش اس کے پاس آگیا۔

"آپ۔۔ اتنی جلدی۔۔ ابھی تو میسج کیا تھا آپکو"

"جب آپکا نام دیکھا تو سمجھ گیا تھا کہ کیا کہنا ہوگا"

پاکیزہ کو ارزانش کا ایسے عجیب سا برتاؤ کبھی کبھی بہت حیران کر دیتا تھا۔

"اب ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟" ارزانش نے پاکیزہ کی آنکھوں کے آگے چُٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ 

"کچھ نہیں"

"ویسے آج تو مجھے کچھ بانٹنا چایئے"

"کیوں"

"آخر آپ نے میسج کر ہی دیا مجھے"

"ہاں وہ دن کم رہ گئے ہیں بس اسی لئیے سوچا کمپلیٹ کر لیں۔"

ان کو پروجیکٹ بنانے کے لئیے دو ہفتے ملے تھے اور آٹھ دن گزر چکے تھے۔ اگلے دن پاکیزہ ابھی یونیورسٹی سے آکر نقاب اور عبایا اُتار کر بیٹھی ہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ 

پاکیزہ اُٹھ کر دروازہ کھولنے کے لئیے گئی۔

"کون؟"

دوسری طرف گہری خاموشی تھی ۔

پاکیزہ نے دوسری دفع پوچھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ دروازے کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ پاکیزہ نے دروازہ کھول دیا۔ سامنے ارزانش کھڑا تھا۔ پاکیزہ اسے اپنے گھر میں دیکھ کر چونک سی گئی۔ ارزانش پاکیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھے جا رہا تھا اور ساکن سا ہو گیا تھا۔ پاکیزہ نے اپنی نظریں جھکا لیں۔

"آپ۔۔ یہاں۔۔"

"آپ۔۔ میں۔۔ پاکیزہ۔۔ " ارزانش اب اپنے ہواس میں نہیں تھا۔ وہ بوکھلایا ہوا سا بول رہا تھا۔

"آپ یہاں پہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ مجھے فولو کر رہے تھے کیا؟ ایسی کوئی پرمِشن نہیں دی تھی میں نے آپکو"

"نہیں۔۔۔ وہ۔۔ میں آپ کو فولو نہیں کر رہا تھا۔ آپکی بُکس رہ گئی تھیں تو میں نے سوچا دے دوں۔ آپ کو ضرورت ہوگی" ارزانش اپنے ہواس بحال کرتے ہوئے بولا۔

"لیکن۔۔ آپکو میرے گھر کا ایڈریس دیا کس نے؟"

"وہ میں نے لاریب سے پوچھا تھا تو اُس نے بتایا مجھے"

"ویسے اس کو بتانا نہیں چاہئیے تھا"

"آپ۔۔ پاکیزہ ہی ہیں نا"

"اس سے آپ کو مطلب نہیں ہونا چاہئیے۔ اب جا سکتے ہیں آپ" پاکیزہ ارزانش کے ہاتھوں سے کتابیں پکڑتے ہوئے بولی۔

اتنے مں پاکیزہ کی امی آگئیں۔ "کون ہے پاکیزہ؟"

"ماما۔۔ وہ۔۔"

"السلام علیکم آنٹی" ارزانش نے پاکیزہ کی امی کو دیکھتے ہی سلام کیا۔

"وعلیکم السلام بیٹا"

"ماما یہ میرے کلاس فیلو ہیں اور ان کے ساتھ ہی میں اپنا پروجیکٹ کمپلیٹ کر رہی ہوں" پاکیزہ اپنی امی کی سوالیہ نظریں دیکھ کر ارزانش سے متعارف کروانے لگی۔

"باہر کیوں کھڑے ہو۔ اندر آجاؤ بیٹا۔"

نہیں ماما بس وہ جا رہے ہیں۔ انکو کہیں جانا ہے اسی لئیے جلدی میں ہیں"

ارزانش یہ سُن کر پاکیزہ کے قریب آکر آہستہ آواز میں کہنے لگا "جھوٹ بھی بول لیتی ہیں آپ"

پاکیزہ نے ارزانش کو غصّے بھری نگاہوں سے دیکھا۔

"کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ دیر بیٹھ جاؤ۔ کھانا کھا کر چلے جانا۔"

"نہیں آنٹی نیکسٹ ٹائم ضرور آؤں گا۔ ابھی نہیں گیا تو آپکی بیٹی اور زیادہ غصّے سے دیکھے گی مجھے"

پاکیزہ کی امی ہنسنے لگیں اور ارزانش خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ 

پاکیزہ کی امی کُھلی اور مثبت ذہنیت کی مالک تھیں اسی لئیے ان کو ارزانش کا گھر آنا بالکل بُرا نہیں لگا تھا۔ بلکہ وہ تو خود چاہتی تھیں کہ پاکیزہ کا دھیان کسی اور طرف جائے تا کہ اس کے چہرے پہ مُسکراہٹ آسکے۔ انہوں نے ارزانش کو دیکھا تو وہ اُن کو اچھا لڑکا لگا۔

 اب ارزانش کا پاکیزہ کے گھر آنا جانا زیادہ ہو گیا تھا کیونکہ ارزانش کی خوش اخلاقی نے پاکیزہ کے گھر والوں اور خاص طور پر اس کی امی کو بہت متاثر کیا تھا اور اس کی امی ارزانش کو اپنا بیٹا ماننے لگی تھیں۔

اسی طرح دو ہفتے بھی گزر گئے اور پاکیزہ اور ارزانش کا پروجیکٹ بھی مکمل ہو گیا۔ اب بس اُس پروجیکٹ کو پروفیسر صاحب کو دکھانا باقی رہ گیا تھا۔ 

سب طلباء نے اپنے اپنے پروجیکٹ پیش کئیے۔ پروفیسر صاحب کو سب کے پروجیکٹ پسند آئے لیکن ایک پروجیکٹ ان کو سب سے زیادہ پسند آیا۔

"مجھے بالکل اُمید نہیں تھی لیکن مِس پاکیزہ دانش اور مِسٹر ارزانش عالمگیر کا پروجیکٹ سب سے اچھا بنا ہے۔ ویل ڈَن" پروفیسر صاحب نے بہت خوشی کے ساتھ یہ بات کہی تھی۔ اُن کے پروجیکٹ کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کو بیسٹ پروجیکٹ کا ٹائٹل بھی دیا گیا۔ ارزانش اور پاکیزہ کے چہرے کِھل اُٹھے تھے اور ارزنش پاکیزہ کی طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے فتح نصیب ہوئی ہو۔ ارباب ارزانش کو کہنی مار کر کہنے لگا "آخر تو نے پروجیکٹ بنا ہی لیا"

"بس دیکھ لے۔ تیرا دوست ہے ہی بہت ٹیلنٹڈ۔" ارزانش کے چہرے پر ایک پُر اطمینان مُسکراہٹ تھی۔

________

پاکیزہ اُس دن بہت خوش تھی۔ پروفیسر صاحب کے جانے کے بعد ارزانش پاکیزہ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور پاکیزہ کے ساتھ بیٹھی لاریب سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ "ویسے لاریب اپنی دوست کو کہو کہ اب تھینک یو کی ضرورت نہیں۔ یہ تو میرا فرض تھا" وہ کہکہا لگا کر بولا تھا۔

پاکیزہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش بیٹھی رہی۔

"چلو کوئی نہیں۔ کبھی تو تمہاری دوست ہمیں اچھا سمجھ ہی لے گی"

لاریب ارزانش کی باتوں پہ مُسکرائے جا رہی تھی۔ پاکیزہ نے گھر جاتے ہی اپنی امی کو بتایا۔ پاکیزہ کو خوش دیکھ کر اس کی امی بھی بہت خوش تھیں۔ پاکیزہ کی امی نے اسے ارزانش کا شکریہ ادا کرنے کا کہا۔ کچھ دیر بعد پاکیزہ نے ارزانش کو میسج کیا "تھینک یو فور یور ہیلپ"

ابھی پاکیزہ نے میسج کیا ہی تھا کہ تین سے چار سیکنڈ کے اندر اندر ارزانش کا ریپلائی آگیا "تو آپ نے تھینکس کہہ ہی دیا آخر"

"آپ ڈیسرو(Deserve) کرتے ہیں اسی لئیے کہا"

"واہ! فائنلی کچھ تو ایڈمِٹ کیا آپ نے"

"بولتے بہت ہیں آپ"

"ہاہاہاہا۔ اچھا اب تو فرینڈ بن جائیں"

"نہیں مجھے نہیں پسند فرینڈز بنانا"

"دیکھیں یہ آفر محدود مُدت کے لئیے ہے۔ اب پلیز مان جائیں نا"

"فورس نہ کریں"

"ماما کی خاطر ہی مان جائیں نا۔ میں زیادہ بولوں گا بھی نہیں اور تنگ بھی نہیں کروں گا"

"اچھا ٹھیک ہے لیکن دور ہی رہئیے گا"

"کہتی ہیں تو نظر ہی نہ آؤں"

"نہیں اب ایسا بھی نہیں کہا میں نے" پاکیزہ کا چہرہ بہت دنوں بعد کِھلکِھلا اُٹھا تھا۔ 

وہ سارا دن بہت اچھے سے گزرا۔ رات ہوتے ہی مُراد کی کال آنے لگی۔ پاکیزہ نے کال ریسیو کر لی اور اس بار بہت خوش مزاجی سے بولی تھی۔

"السلام علیکم"

"وعلیکم السلام! کیسی ہو؟"

"میں بالکل ٹھیک۔ آپ کیسے ہیں؟"

"میں بھی ٹھیک۔ خیر ہے؟ آج بہت خوش لگ رہی ہو"

"جی خیر ہی ہے۔ کبھی کبھی انسان کو خوش بھی رہ لینا چاہئیے۔ بس اسی لئیے خوش ہوں"

"اچھی بات ہے۔ لیکن مجھے تو تم نے اُداس ہی چھوڑ دیا ہے"

"میں نے؟ مُراد میں نے تو کچھ نہیں کیا اب"

"اتنا کچھ کر کے بھی کہہ رہی ہو کہ کچھ نہیں کیا تم نے۔"

"کِیا کیا ہے آخر میں نے؟"

"تم واپس کیوں نہیں آجاتی پاکیزہ؟"

"اب ایسا نہیں ہو سکتا مُراد"

"لیکن کیوں؟ تمہیں کبھی پیار نہیں تھا کیا مجھ سے؟"

"یہ بات آپ اب بھی مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ آپکو نظر نہیں آیا کبھی میرا پیار؟"

"تو اب کہاں گیا؟ کہاں گیا تمہارا پیار؟"

"میں کہتی تھی نا مُراد کہ اگر کوئی ایک دفع میرے دل سے اُتر جائے تو وہ مجھ سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ آپ میرے دل سے اُتر گئے ہیں مُراد" اب پاکیزہ کی آنکھوں میں نمی آنے لگی تھی۔

"لیکن ایسا کیسے ہو گیا پاکیزہ؟ مُراد تمہارے دل سے کیسے اُتر سکتا ہے؟"

"مجھے خود نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہو گیا لیکن یہی سچ ہے"

"اگر تم نے کبھی پیار کیا تھا تو تمہیں اسکا واسطہ۔ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ"

"یہ سب مت کہیں پلیز"

"تو اور کیا کروں یار؟ اب مجھ سے کوئی میرا حال نہیں پوچھتا۔ کوئی مجھے نہیں کہتا کہ ٹائم پہ میڈیسنز کھا لینا۔ کوئی میرا خیال نہیں رکھتا۔ کوئی رات کو سونے سے پہلے مجھ سے یہ نہیں پوچھتا کہ دودھ پِیا یا نہیں"

یہ سب باتیں سُن کر پاکیزہ بہت افسُردہ ہو گئی تھی اور اس کے اندر جذبات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا جو اس کی خود کی ذات سے بغاوت کرنے کے لئیے تیار تھا۔

"پتا ہے جب کوئی ہماری زندگی میں آتا ہے تو ہم اس کو بھول سے جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں یہ تو ہمارے پاس ہی ہے۔ اس نے کہاں جانا ہے۔ اس کی ناقدری کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ دور چلا جاتا ہے تو پہلے پہل ہماری زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے لیکن بعد میں ہم اُداس ہو جاتے ہیں۔ اُس کے واپس آنے کی دُعائیں کرتے ہیں۔ اس انسان کی قدر اس کے جانے کے بعد ہوتی ہے ہمیں۔ لیکن تب تک تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ دور جا چکا ہوتا ہے۔ بہت دور!"

اب مُراد کی آواز پہلے سے بھی زیادہ دھیمی ہو گئی تھی۔ "مطلب اب تم واپس نہیں آؤ گی"

"چاہ کے بھی نہیں"

"لیکن میں تمہارا انتظار کروں گا۔ تب تک جب تک تم شادی نہیں کر لیتی کسی اور سے"

"آپ انتظار مت کیجئیے۔ اپنی لائف انجوائے کریں۔ کسی اور کو موقع دیں"

"ایسا نہیں ہو سکتا۔ تمہارے بغیر میں کبھی لائف انجوائے نہیں کر سکتا"

"کر سکتے ہیں آپ۔ جب اتنا عرصہ دور رہے تو یہ بھی کر سکتے ہیں آپ۔"

"ٹھیک ہے پاکیزہ۔ اب تنگ نہیں کروں گا لیکن یاد رکھنا کہ جو تم نے میرے ساتھ کیا وہ تمہارے ساتھ بھی ضرور ہوگا"

پاکیزہ یہ بات سُن کر سُن سی ہو گئی تھی اور اب اس کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔

"کیا کہہ رہے ہیں؟ بد دُعا دے رہے ہیں آپ؟"

"بد دُعا نہیں۔ بس بتا رہا ہوں کہ یہ دنیا مقافاتِ عمل ہے"

"ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں مُراد آپ؟"

یہ سُن کر مُراد نے کال کاٹ دی اور پاکیزہ ساکن سی ہو گئی۔ وہ سوچے جا رہی تھی کہ مُراد نے کیا کہا ہے اور آخر وہ ایسا کیسے کہہ سکتا ہے۔ اس کی خوشی کچھ ہی منٹ میں بالکل غائب ہو گئی تھی۔ کئی دن تک یہ بات پاکیزہ کو اندر ہی اندر زہر کی طرح گھولے جا رہی تھی۔ وہ کچھ دن تک یونیورسٹی بھی نہیں گئی۔ ارزانش نے پاکیزہ کو کافی میسج کئیے لیکن پاکیزہ نے کسی ایک بھی بات کا جواب نہیں دیا۔ چار دن گزر گئے تھے اور پاکیزہ کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ آخر پانچویں دن ارزانش پاکیزہ کے گھر آگیا۔ 

"السلام علیکم انٹی جی"

"وعلیکم السلام! کیسے ہو بیٹا؟"

"اللہ کا شکر ہے آنٹی جی۔ آپ کیسی ہیں؟"

"میں بھی ٹھیک ہوں"

"آنٹی جی پاکیزہ کہاں ہے؟"

"وہ اپنے روم میں ہے اور اتنے دن سے کچھ کھا پی بھی نہیں رہی"

"آپ پلیز بُلا دیں پاکیزہ کو"

"ہاں بیٹا میں بلاتی ہوں اسے"

پاکیزہ کی امی اس کے کمرے میں گئیں تو پاکیزہ کہیں سوچوں میں گُم بیٹھی تھی۔ اس کے آگے ایک کتاب کھلی تھی جو شاید اس نے پڑھنے کی غرض سے کھولی تھی لیکن دل اس بات پہ متفق نہ ہوا تو وہ کہیں سوچوں میں غرق ہو گئی۔

"پاکیزہ! ارزانش آیا ہے نیچے۔ بُلا رہا ہے تمہیں"

"ماما مجھے نہیں ملنا کسی سے۔ آپ پلیز انہیں کہہ دیں کہ میں سو رہی ہوں۔" پاکیزہ چڑچڑی سی ہو کر بولی تھی۔

"یہ غلط بات ہے بیٹا۔ جا کر اس سے پوچھ تو لو کہ کیوں آیا ہے۔ شاید تم سے کوئی ضروری کام ہو۔"

"مجھ سےکیا کام ہو سکتا ہے کسی کو"

"یہ تو تم خود جا کر پوچھ لو"

"اچھا اچھا جاتی ہوں"

پاکیزہ نے اُٹھ کر دوپٹہ پکڑا۔ خود کو دوپٹے میں لپیٹ کر نیچے چلی گئی۔ 

"السلام علیکم" ارزانش پاکیزہ کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور پرُجوش ہو کر بولا۔

پاکیزہ نے تھکی ہوئی آواز میں سلام کا جواب دیا

 "وعلیکم السلام"

"آپ یونیورسٹی کیوں نہیں آرہیں؟"

"بس ایسے ہی دل نہیں کر رہا تھا۔ کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ کوئی کام تھا آپکو؟"

"نہیں وہ۔۔ آپ ایک ریگولر سٹوڈنٹ ہیں اور اچانک سے اتنے دن سے غائب ہیں۔ کسی میسج کا ریپلائی بھی نہیں کر رہیں۔ یہاں پاس سے گزر رہا تھا تو سوچا پوچھ لوں کہ طبیعت تو ٹھیک ہے نا"

"تھینک یو فور کَمِنگ بَٹ آپ اتنا سوچا مت کریں۔ میرا بس کبھی کبھی اپنی مرضی چلانے کا زیادہ دل کرتا ہے"

"آپکی شکل دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا" ارزانش منہ میں بڑبڑایا تھا۔

"کچھ کہا آپ نے؟"

"نہیں وہ میں کہہ رہا تھا کہ کبھی کبھی یا ہمیشہ ہی؟" ارزانش یہ کہہ کر پھر سے ایک دفع کِھلکِھلا کے ہنسا تھا۔<

"آپ نے پھر سے مذاق شروع کر دیا"

"سوری سوری بس ایسے ہی کہہ رہا تھا۔ سوچا شاید ہنس ہی پڑیں لیکن آپ کے چہرے کے تاثرات واقعی اپنی مرضی کے بڑے پَکّے ہیں۔"

اتنے میں پاکیزہ کا چھوٹا بھائی عبداللہ آگیا اور ارزانش اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"کیسے ہو بَڈی(Buddy)"

ارزانش نے ہوا میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے کہا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں بھائی؟" عبداللہ نے ارزانش کے ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔"

"میں بالکل فِٹ دوست"

ارزانش اور عبداللہ ایسے بات کر رہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے کو کئی سالوں سے جانتے ہوں۔ پاکیزہ یہ سب دیکھ کر چونک سی گئی تھی کیونکہ عبداللہ بہت ہی شرمیلا قسم کا بچا تھا اور بہت کم لوگوں سے ہی بات کیا کرتا تھا۔ ارزانش عبداللہ سے بات کر کے چلا گیا۔

"عبداللہ تم پہلے سے انہیں جانتے ہو کیا؟" پاکیزہ نے عبداللہ کے اس طرح بات کرنے کی وجہ جاننے کے لئیے پوچھا۔ 

"نہیں آپی بس اس دن گھر آئے تھے تب میرے فرینڈ بن گئے تھے"

"اچھا ٹھیک ہے لیکن ذیادہ فرینک ہونے کی ضرورت نہیں ہے"

"ٹھیک ہے آپی"

کچھ دن تک پاکیزہ بہت حد تک سنبھل گئی۔ مُراد کے کہے الفاظ اُسے ان دونوں کے رشتے کی بربادی کی آخری سیڑھی لگ رہے تھے جو مُراد پار کر چکا تھا۔ پاکیزہ کی دُعائیں کہیں نہ کہیں اپنا اثر دکھا رہی تھیں کیونکہ مُراد کو سمجھنا ناممکن تھا۔ وہ چاہتا کچھ تھا اور کرتا کچھ اور ہی تھا لیکن پاکیزہ ہر وقت یہی سوچتی تھی کہ شاید کہیں نہ کہیں سب اس کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔ ہر بات پہ خود کو قصور وار ٹھہراتی تھی۔ اسے کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ مُراد اس سے پیار کرتا بھی تھا یا نہیں اور مُراد کے آخری الفاظ بھی پاکیزہ کے کانوں میں گونجتے رہتے تھے۔ یہ بات تو واضح تھی کہ اگر پاکیزہ مُراد کے ساتھ رہتی تو اس کی خواہشات اور اس کے جذبات کی بہت بُری موت واقع ہوتی۔ اس کے احساسات گُھٹن کے مارے اپنا دم توڑ دیتے۔ 

عید سے کچھ دن پہلے مِسںز دانش کے بار بار کہنے پر پاکیزہ ان کے ساتھ بازار چلی گئی۔ وہاں پہ کچھ خریداری کے بعد پاکیزہ جب اپنے لئیے کپڑے لینے لگی تو اس نے کالے رنگ کا جوڑا پسند کیا۔اچانک اس کا موبائل وائیبریٹ ہونے لگا۔ اس نے موبائل دیکھا تو ارزانش کا میسج تھا۔ پاکیزہ نے میسج پڑھنے کے لئیے موبائل کا کال کھولا اور میسج پڑھنے لگی جو کہ یہ تھا کہ "Killing someone on sacred day of Eid is not good ma'am"

پاکیزہ میسج پڑھ کر حیران سی ہو گئی اور اپنے ارد گرد دیکھنے لگی لیکن اسے ارزانش کہیں نظر نہیں آیا۔ اس نے اس میسج سے بے پرواہ ہو کر دوبارہ شاپنگ شروع کر دی۔

رمضان کا مہینہ گزر چکا تھا اور چاند رات پہ گھر میں سب لوگ عید کی وجہ سے بہت خوش تھے۔ لیکن پاکیزہ نے نہ تو ابھی تک مہندی لگوائی تھی اور نہ ہی وہ خوش نظر آ رہی تھی حالانکہ پاکیزہ کو مہندی لگوانا بہت پسند تھا۔ اُسے خود تو لگانی نہیں آتی تھی البتہ اپنی کسی سہیلی یا کزن سے لگوا لیا کرتی تھی اور عید کے علاوہ عام دنوں میں بھی اس کے ہاتھ مہندی سے رنگے نظر آتے تھے۔ پاکیزہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ اس کی ملازمہ امبر اس کے کمرے میں آکر کہنے لگی "آپا آپ کو آپ کے بابا بُلا رہے ہیں"

"اس وقت؟ کیا کہنا ہے بابا جان نے؟"

"یہ تو مجھے نہیں پتا۔ انہوں نے کہا کہ آپکو بُلا دوں تو بس بُلانے آگئی"

"کہاں ہیں بابا اس وقت؟"

"سٹَڈی روم میں بیٹھے ہیں"

"ٹھیک ہے تم جاؤ میں آ رہی ہوں"

مِسٹر دانش بہت نرم مزاج آدمی تھے اور اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔

قربت_تک_کا_سفر


قسط 6

اریج


 کچھ دیر باد پاکیزہ سٹَڈی روم میں گئی تو مِسٹر دانش سوفے پہ بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔ "آپ نے بُلایا بابا؟"

"جی میری جان۔ آجاؤ اندر"

پاکیزہ مِسٹر دانش کے سامنے پڑے سوفے پر بیٹھ گئی۔ 

"آج مہندی نہیں لگواؤ گی پاکیزہ؟" مِسٹر دانش بہت ہی نرم لہجے میں بولے۔

"نہیں موڈ نہیں آج مہندی لگوانے کا"

"تو پھر ایسا کرتے ہیں آئس کریم کھانے چلتے ہیں۔ تمہیں تو سردیوں میں آئس کریم کھانا بہت پسند ہے نا۔ تمہارا فیورٹ ونیلا فلیور کھائیں گے۔ میری گڑیا کا موڈ بھی اچھا ہو جائے گا۔"

"نہیں بابا جان دل نہیں کر رہا۔ مجھے تو بہت نیند آئی ہے۔ آپ اپنے ساتھ عبداللہ کو لے جائیں۔ نہیں تو علی بھائی اور ذیشان بھائی کو لے جائیں"

"نہیں مجھے تو اپنی سِنڈریلا کے ساتھ جانا ہے"

"پھر کبھی چلیں گے بابا جان۔ ابھی تو میں بہت تھکی ہوئی ہوں اور بالکل نیند میں ہوں"

"چلو ٹھیک ہے۔ سو جاؤ لیکن ہنستی رہا کرو گڑیا۔ بہت اچھی لگتی ہو ہنستے ہوئے"

"اتنا ہنسوں گی تو لوگ کہیں گے کہ کولگیٹ ایڈورٹائز کر رہی ہے" پاکیزہ نے مِسٹر دانش کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی اور پاکیزہ اور مِسٹر دانش دونوں ہی اس بات پہ کہکہا لگا کر ہنسنے تھے۔

"ہاں یہ بھی ٹھیک ہے" مِسٹر دانش ہنستے ہوئے بولے۔

"اچھا اب میں جاتی ہوں اپنے روم میں۔گُڈ نائٹ بابا جان"

"گُڈ نائٹ بیٹا"

اس کے بعد پاکیزہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور ابھی جا کر بیٹھی ہی تھی کہ پاکیزہ کا بڑا بھائی علی اس کے کمرے میں آگیا۔ سب لوگ پاکیزہ کو ہنسانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔

"اوئے پاکیزہ آجا لونگ ڈرائیو پہ چلتے ہیں" علی نے پاکیزہ کے بال کھراب کرتے ہوئے کہا۔

"نہ کریں بھائی۔ ابھی نہیں جانا مجھے کہیں" پاکیزہ چِڑتے ہوئے بولی۔

ایویں نہیں جانا۔ ایک تو میں اپنے دوستوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آیا ہوں اور تم ہو کہ قدر ہی نہیں ہے کوئی۔ قدر کیا کرو بیٹا میری"

"اب بھائی کا میلو ڈرامہ شروع۔ آخر سیکھتے کہاں سے ہیں آپ یہ سب"

"میں سیکھتا نہیں سکھاتا ہوں۔ تمہیں بھی کلاسز چاہئیں ہوں تو آجانا۔ فری کلاسز دوں گا۔ کیا یاد کرو گی" علی نے ہنستے ہوئے کہا۔

"بہت مہربانی آپ کی لیکن مجھے نہیں لینی کوئی کلاسز۔ ایسی کلاسز لینا شروع کیں تو سارا کام ہی خراب ہو جانا ہے" پاکیزہ نے علی کو مزاق میں کندھے سے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔

"نہ لو نہ لو۔ میرا کیا جاتا ہے۔ تمہارا ہی نقصان ہے۔"

پاکیزہ اور اس کے بھائی ایک دوسرے سے بہت مزاق کیا کرتے تھے اور وہ سب بہن بھائی کم دوست زیادہ لگتے تھے۔ اب پاکیزہ کا مُوڈ تھوڑا بہتر ہو گیا تھا۔ 

"اچھا ویسے بھائی میں آپ سے ایک بات پوچھوں کیا؟"

"نہیں"

"لیکن کیوں؟"

"تم ایک نہیں دو پوچھو"

"اب مزاق نہ کریں نہ۔ بات سُنیں میری"

"ہاں ہاں سُن رہا ہوں۔ بولو تم"

"لوگ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں؟"

علی پاکیزہ کی بات سُن کر کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولنے لگا "ہماری زندگی میں بہت سے لوگ آتے ہیں۔ بہت سے نئے رشتے بنتے ہیں۔ اُن میں سے کئی لوگ تو ہمیں چھوڑ جاتے ہیں۔ کئی لوگوں کو ہم چھوڑ دیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہمیشہ ساتھ نبھانے کے لئیے رشتے قائم کرتے ہیں کیونکہ وہ واقعی ہماری بہت پرواہ کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کو اللہ ہماری زندگی میں ایک خاص مقصد کے لئیے بھیجتا ہے۔۔"

علی یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔

"کیسا مقصد بھائی؟"

پاکیزہ کے سوال کرنے پر علی اپنی بات جاری کرتے ہوئے بولا "اللہ کچھ لوگوں کو ہماری زندگی میں بھیجتا ہی اسی لئیے ہے تا کہ وہ ہمیں بتا سکے کہ اُس واحد ذات کے سوا ہمارا کوئی اپنا نہیں ہے۔ اور یہ احساس بھی اللہ بہت خوش نصیب لوگوں کو عطا کرتا ہے جن کو وہ نیکی کی راہ دکھانا چاہتا ہے۔ اور جب لوگ ہمیں چھوڑ کر جاتے ہیں تو اس میں بھی ہمارا ہی فائدہ ہوتا ہے"

"فائدہ؟ وہ کیسے؟" پاکیزہ علی کی باتیں بہت خاموشی سے سُن رہی تھی۔

"جب کوئی ہمیں چھوڑ کر جاتا ہے تو پہلے پہل تو ہم بہت اُداس ہوتے ہیں۔اگر رشتہ مضبوط ہو تو ہمیں لگتا ہے ہم اس کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ لیکن جب وہ جاتا ہے تو ہمیں سب کام حسبِ معمول کرنے پڑتے ہیں۔ تب ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ہم کسی کے بغیر بھی رہ سکتے ہیں۔ پھر صبر حاصل کرنے کے لئیے اللہ سے دُعائیں کرتے ہیں۔ اس طرح اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ جب صبر آتا ہے تو اللہ کی عظمت پہ یقین بھی آجاتا ہے۔ اتنے سارے تو فائدے ہیں"

"اچھا اور کسی کی یاد کو دل سے نکالنا ہو تو کیا کرنا چاہئیے؟"

"یادیں کبھی نہیں جاتیں۔ مرتے دم تک نہیں۔ ہاں وقت کے ساتھ ساتھ دُھندلی ضرور ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے جینا تھوڑا آسان ہو جاتا ہے"

"تھینک یو سو مچھ بھائی۔ تھینک یو اتنا کچھ بتانے کے لئیے" پاکیزہ علی سے گلے مِل کر اسکا شکریہ ادا کرنے لگی۔ 

"تھینک یو کی ضرورت نہیں پاگل۔ بس خوش رہا کرو۔ چلو اب سو جاؤ نہیں تو کہو گی کہ میری تو نیند ہی پوری نہیں ہوئی"

"جی سونے لگی ہوں اب"

پاکیزہ لیٹ گئی اور علی اس پر کمبل دے کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

سخت سردی تھی لیکن علی کی باتیں سُن کر پاکیزہ کے ہاتھ پاؤں بہت گرم ہو گئے تھے کیونکہ علی کی باتوں نے پاکیزہ پہ بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ اُسے شاید اب سب سمجھ آنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد ا یک کال آئی۔ پاکیزہ نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو ارزانش کی مسلسل کال آ رہی تھی۔ وہ کال کاٹ کر میسج کرنے لگی تو دیکھا کے ارزانش کے بہت سے میسج آئے ہوئے تھے۔ 

"جی بولیں۔" پاکیزہ نے کال اور میسج کی وجہ پوچھنے کے لئیے ارزانش کو میسج کیا۔

"پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ نے میسج دیکھ کے ریپلائی نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے کیا؟"

"سوری لیکن میں نے میسج دیکھا ہی نہیں۔ بس اسی لئیے ریپلائی نہیں کیا"

"چلیں آپ کہتی ہیں تو مان لیتے ہیں"

"اب بتائیں کیا کہنا تھا؟"

"وہ کہنا یہ تھا کہ۔۔" ارزانش نے ایک ادھورا میسج کیا تھا۔

"جی بولیں"

"بس چاند رات وِش کرنی تھی۔ اور کیا کہہ سکتا ہوں میں"

"اور بس اسی وجہ سے آپ نے میری نیند خراب کر دی"

"اوہ سوری! مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ آج بھی اتنی جلدی سو جائیں گی"

پاکیزہ نہیں چاہتی تھی کہ ارزانش سے دوستی کا مضبوط رشتہ قائم ہو۔ وہ کسی سے بھی کوئی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 

"اِٹس اوکے لیکن آئندہ خیال رکھئیے گا"

"جی ٹھیک ہے۔"

"اب سو سکتی ہوں میں؟"

"نہیں ابھی نہیں"

"لیکن کیوں؟"

"پہلے مجھے تو وِش کر دیں۔ نوٹ فیئر نا۔ میں نے وِش کیا لیکن آپ نے نہیں"

"چاند رات مبارک"

"شکریہ شکریہ۔ اب سو سکتی ہیں"

"خدا حافظ"

"خدا حافظ۔ ٹیک کیئر"

ارزانش سے بات کرنے کے بعد پاکیزہ سو گئی۔ عید کے تین دن بھی گھر میں ہی گزر گئے کیونکہ نہ تو پاکیزہ کی کوئی دوست تھی اور نہ ہی پاکیزہ کسی سے ملنا چاہتی تھی۔

_________

اب مُراد کا کچھ پتہ نہیں تھا کیونکہ آخری بار جب مُراد نے پاکیزہ کو بد دُعا دی تھی اس کے بعد پاکیزہ سے اس نے رابطہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور پاکیزہ بھی اپنے دن اور رات بمشکل گزار رہی تھی کیونکہ وہ اپنا درد کسی کو نہیں بتاتی تھی۔ سب کچھ خود ہی برداشت کر لیا کرتی تھی۔ یونیورسٹی میں بھی پاکیزہ کے چار سال پورے ہو چکے تھے۔ ہر طالبِ علم کنووکیشن کی تیاریوں میں مصروف تھا کیونکہ ان سب کو ڈگری ملنے والی تھی اور یہ ہر طالبِ علم کی زندگی کا کامیاب اور اہم ترین لمحہ ہوتا ہے۔ سب بہت خوش تھے اور پاکیزہ بھی بہت خوش تھی کیونکہ یہ ڈگری محض ایک ڈگری ہی نہیں تھی بلکہ یہ پاکیزہ کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ وہ الیکٹریکل انجینئیر بننا چاہتی تھی جو اب وہ بن چکی تھی۔ 

آخر انتظار ختم ہوا اور کنووکیشن کا دن آگیا۔ سب طلباء وقت سے پہلے ہی وہاں موجود تھے لیکن ارزانش حسبِ معمول اس دن بھی دیر سے آیا تھا اور آ کر پاکیزہ کے قریب کھڑا ہو گیا۔ 

"ویسے آج آپ جیسے پڑھاکو بچوں کے ساتھ آج ہم جیسے نکموں کو بھی ڈگری مل ہی جائے گی" ارزانش پاکیزہ کے قریب آکر بولا۔ پاکیزہ ارزانش کو دیکھے بغیر اس کی بات کا جواب دینے لگی۔ 

"بہت بولتے ہیں۔ تھکتے نہیں ہیں کیا؟"

بس یہی ایک کام تو ہے جس پہ ہمیشہ آن ڈیوٹی رہتی ہوں" ارزانش ہنستے ہوئے بولا۔

پاکیزہ اس کی بات سُن کر مُسکرانے لگی۔

"چلیں آپ ہنسی تو"

"آپ کو کس نے کہا کہ میں ہنسی ہو؟" پاکیزہ نے ارزانش کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"اب آپ کے نقاب میں اتنی طاقت کہاں کہ آپکی خوبصورت ہنسی کی شدت چھپا سکے" ارزانش نے شعر کہنے کے انداز میں یہ بات کی تھی۔

"آپ مزاق کم اور کام کی بات زیادہ کیا کریں۔ یہ شعر و شاعری پاس ہی رکھیں" پاکیزہ کی زبان کم اور آنکھیں زیادہ بول رہی تھیں۔

"اتنا غصّہ کیوں ہوتی ہیں؟ وہ تو آپ کی آنکھیں صاف بتا رہی تھیں کہ آپ مُسکرا رہی ہیں" ارزانش نے پاکیزہ کی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"سامنے سٹیج کی طرف دیکھیں گے تو زیادہ بہتر ہو گا"

"سْن لیتے ہیں آپکی بات۔ کیا یاد کریں گی"

"نہ بھی سُنیں گے تو مجھے فرق نہیں پڑنے والا"

اب ارزانش کا رویہ تھوڑا سا بدل گیا اور وہ ظاہر نہ کرواتے ہوئے بولا "اچھا ہے۔ فرق پڑنا بھی نہیں چاہئیے۔ ایویں فرق پڑنے سے اداسی چھا جاتی ہے۔"

پاکیزہ نے ارزانش کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔آخر کار سب کو ڈگریاں ملنا شروع ہو گئیں۔ کنووکیشن کے بعد سب ہی بہت زیادہ خوش نظر آ رہے تھے اور خاص طور پر پاکیزہ بہت خوش تھی کیونکہ اسکا خواب اب تکمیل کو پہنچ گیا تھا۔ ابھی پاکیزہ ہال سے نکلی ہی تھی کہ ارزانش اس کے سامنے آگیا اور اسکا راستہ روک لیا۔

"ایک منٹ بات سُنیں" ارزانش مغلوب انداز میں بول رہا تھا۔

"جی بولیں"

"آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے مجھے"

"جی کہیں"

"نہیں ابھی نہیں"

"تو پھر کب؟"

"رات کو۔ رات کو پلیز آپ میری کال ریسیو کر لیجئیے گا۔ میں آپکو بار بار تنگ نہیں کروں گا"

"لیکن آپ۔۔"

ارزانش پاکیزہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا "پلیز منع مت کیجئیے گا۔ میں زیادہ دیر بات نہیں کروں گا۔ اگر ضروری بات نہ ہوتی تو فورس نہیں کرتا"

"جی ٹھیک ہے۔ کر لوں گی ریسیو"

"تھینک یو۔ تھینک یو سو مچھ"

"کوئی بات نہیں"

اس کے بعد پاکیزہ گھر چلی گئی۔ وہ سب کچھ مُراد کو بتانا چاہتی تھی۔ اتنا سب ہونے کے باوجود وہ اپنی خوشی سب سے پہلے اس سے بانٹنا چاہتی تھی لیکن اس کی میسج کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو پا رہی تھی۔ وہ ہمیشہ انباکس کھول کر مُراد کے میسج کا انتظار کیا کرتی کہ شاید اس کا کوئی میسج آجائے لیکن یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔ میسج آنے پہ بھی تو وہ مُراد سے سخت لہجے میں بات کیا کرتی تھی۔ وہ چاہتی کیا تھی اسے یہ خود کو بھی معلوم نہیں تھا۔ دن گزرا تو چاند نے تاروں بھرے آسمان میں اپنی جگہ بنا لی۔ پاکیزہ نے ارزانش سے بات کرنے کی حامی بھری تھی لیکن وہ اس بات سے بے پرواہ ہو کر بیڈ پہ بیٹھی ڈائری لکھ رہی تھی۔

"کاش ہم دونوں ساتھ ہوتے۔ کتنا اچھا ہوتا نا مُراد۔ آپ کتنا خوش ہوتے میری ڈگری ملنے پر۔ پھر اسی خوشی میں ہم ہمیشہ کی طرح ڈھیر ساری باتیں کرتے۔ آپ کتنا فورس کرتے تھے نہ بات کرنے کے لئیے کہ پلیز تھوڑی دیر اور بات کر لو۔ آج بھی کریں نہ۔ اور سب سے زیادہ مزہ تو تب آتا تھا جب آپکو تصویروں کے لئیے ویٹ کرواتی تھی۔ دیر بعد دکھانے پہ کتنی تعریف کیا کرتے تھے میری۔ مجھے وہ سب بہت اچھا لگتا تھا" اس بار پاکیزہ کے رونے کی آواز اس کے کانوں تک نہ پہنچ سکی کیونکہ اس بار اس کا وجود نہیں بلکہ اسکا دل رو رہا تھا۔ 

اس نے ڈائری رکھ کر موبائل پکڑا تو ارزانش کی بہت ساری کالز آئی ہوئی تھیں۔ اس نے فوراً ارزانش کو بیک کال کی تو ارزانش نے کال کاٹ دی۔ پاکیزہ تھوڑا حیران ہوئی لیکن کچھ ہی لمحوں بعد اس نے پھر کال کی۔

"السلام علیکم" ارزانش آواز سے بہت ہی خوش لگ رہا تھا۔

"وعلیکم السلام"

"کیسی ہیں آپ؟"

"اللہ کا شکر ہے۔ آپ کیسے ہیں؟"

"میں بہت پیارا" ارزانش یہ کہہ کر ہنسنے لگا۔

"آپ نے کچھ کہنا تھا"

"جی جی کہنا تھا نہیں کہنا ہے"

"تو بولیں"

"مجھے کہنا یہ تھا کہ۔۔"

"جی کہیں" پاکیزہ ارزانش کی ادھوری بات جاننے کے لئیے بولی۔

ارزانش کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کہنے لگا "میں۔۔ اب کیسے کہوں سمجھ نہیں آ رہا۔ آپ۔۔۔ آپ میری محرم بنیں گی؟"

پاکیزہ کے دائیں کان سے ہوتی ہوئی یہ بات جب اس کی سماعت کوٹکرائی تو پاکیزہ پتھرا سی گئی۔ کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی۔ 

"آپ سُن رہی ہیں نا پاکیزہ؟"

ارزانش کی آواز سُن کر پاکیزہ نے ہوش بحال کرتی ہوئے کہا "آپ ایسا مزاق کیسے کر سکتے ہیں ارزانش؟ ایسی باتیں مزاق میں نہیں کہی جاتیں۔ بہت بُرا مزاق تھا یہ"

"میں مزاق نہیں کر رہا پاکیزہ۔ میں نے چاہے زندگی میں جتنے بھی مزاق کئیے ہوں لیکن خدا کی قسم میں آج مزاق نہیں کر رہا۔ اس شب کے چاند، تارے، کبھی نہ ختم ہونے والا گہرا آسمان اور یہ اندھیرا۔ سب آپ کے نام کی طرح میری محبت کی پاکیزگی کے گواہ ہیں"

پاکیزہ بالکل خاموش تھی۔ وہ یہ پتہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔

"خاموش کیوں ہیں؟ کچھ تو بولیں پلیز۔"

ارزانش کے بولنے کے باوجود دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔

"اب ہونٹ دُبانا بند کریں اور پہلے بات کا جواب دیں"

"پاکیزہ کی حیرت اب آسمان کو چھو چکی تھی۔ اُس کے اندر ایک سناٹا چھا گیا تھا۔

"اگر آپکو جواب دینے کے لئیے وقت چاہئیے تو لے لیں۔ آرام سے سوچئیے گا اس بارے میں کیونکہ یہ میری زندگی کا سوال ہے۔ اس کو بھی مزاق مت سمجھئیے گا نہیں تو میری زندگی مزاق بن کر رہ جائے گی۔ اور ہاں۔ اُنگلی منہ سے باہر نکالیں۔ ناخن چبانے سے میری باتوں کے جواب نہیں ملیں گے"

اب پاکیزہ نے کال کاٹ دی تھی۔ اس نے منہ سے انگلی نکال دی اور سوچنے لگی کہ ارزانش نے یہ سب اتنے یقین سے کیسے کہہ دیا۔ اسے کیسے پتا چلا۔ وہ اتنی درستگی سے کیسے بتا سکتا ہے۔ بہت سارے سوال پاکیزہ کے دماغ میں گھومنے لگے جس میں سے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اُسے محبت ہوئی کب۔ اُسے محبت ہوئی کیسے۔ کوئی کیسے ایک مُردہ روح لڑکی و پسند کر سکتا ہے۔

ارزانش نے پاکیزہ کو اسکی وہ سب عادات سے آگاہ کیا تھا جن کو ارزانش کے بتانے سے پہلے تک وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔ کچھ لمحوں کے لئیے اس کی باتیں مزاق سمجھ بھی لیتی لیکن ان سب باتوں کے بعد پاکیزہ کو یہ بالکل مزاق نہیں لگ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیا ہو گیا ہے اور وہ کیا کرے۔ سوچتے سوچتے وہ راستہ تلاش کرنے کے لئیے تہجد پڑھنے لگی۔

"اے پروردگار! یہ مُشکلات کب تک رہیں گی۔ کب ختم ہو گا یہ سب۔ میں کیسے نکلوں اس سب سے۔ مدد فرما"

اگلی رات کو ارزانش پاکیزہ کو میسج کرتا رہا لیکن پاکیزہ نےکوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد پاکیزہ کی کلاس فیلو لاریب کا میسج آیا۔

"پاکیزہ ٹیرس پہ آؤ"

"لیکن کیوں؟"

"تم آؤ تو۔ ٹیرس پہ جا کر چاند دیکھو ابھی۔ پلیز جلدی جاؤ"

پاکیزہ ٹیرس پہ گئی اور آسمان کی طرف دیکھا۔ چاند تو معمول کے مطابق ہی تھا۔ وہ واپس جانے لگی تو اس کی نظر نیچے پڑی۔

ایک گاڑی کے آگے ارزانش نیلی شرٹ اور کالی پینٹ میں ملبوس کھڑا تھا۔ ایک ہاتھ میں بہت سارے سرخ رنگ کے دل کی شکل کے غبارے اور دوسرے ہاتھ میں ایک ڈبی تھی۔ 

اس کے آگے گلاب کے پھول کی پتیاں ایک بڑے سے دل کی شکل میں ترتیب دی گئیں تھیں۔ پاکیزہ کو ٹیرس پہ کھڑے بھی سب واضح نظر آرہا تھا۔ 

ارزانش آگے بڑھا اور ان پتیوں کے گھیرے میں آ گیا۔ غبارے ہوا میں چھوڑ دئیے اور گھٹنوں کے بَل بیٹھ گیا۔ پاکیزہ ٹیرس پہ کھڑی حیران کُن نظروں سے سب دیکھ رہی تھی۔ ارزانش نے ڈبی کھولی جس میں ایک بہت خوبصورت انگوٹھی تھی اور اوپر پاکیزہ کی طرف بڑھائی۔ 

پاکیزہ نے جب یہ سب دیکھا تو کچھ کہے سُنے بغیر اپنے کمرے میں واپس چلی گئی۔ کمرے میں جاتے ہی کمرہ بند کر لیا اور دروازے کو ٹیک لگاتے ہوئے زمیں پہ بیٹھ کر رونے لگی۔ یہاں تک کہ پاکیزہ کی ہچکی بندھ گئی۔ وہ مُراد کے علاوہ کبھی کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔ اُسکی روح ابھی بھی مُراد کی محبت کے سُرور سے پوری طرح باہر نہیں آئی تھی۔ 

اگلے دن پاکیزہ نے ارزانش کو کال کی اور تلخ لہجے میں کہنے لگی کہ "مجھے آئیندہ کے بعد کوئی کال یا میسج مت کیجئیے گا۔ میں نہیں کرتی کسی سے کوئی محبت اور نہ ہی مجھے اس سب پہ یقین ہے۔ اپنا ٹائم ویسٹ کرنا بند کریں"

اور ارزانش کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کال کاٹ دی۔ 

اس کے بعد کئی دن تک ارزانش کے کسی میسج یا کال کا کوئی جواب نہ دیا۔ ارزانش پاکیزہ کو ہر منٹ بعد کال یا میسج کرتا۔ وہ پاکیزہ کے پیار میں پاگل ہو گیا تھا۔ ارزانش کے گھر میں پاکیزہ کے بارے میں صرف اس کی چھوٹی بہن ہانیہ کو پتا تھا۔ ہانیہ نے اسے بہت سمجھایا کہ اگر وہ نہیں مانتی تو چھوڑ دو اُسے۔ بھول جاؤ لیکن وہ شاید اپنے دل کے ہاتھوں بہت مجبور تھا۔ جب پاکیزہ نے کئی دن تک کوئی میسج یا ریپلائی نہ کیا تو ارزانش بیمار رہنے لگا۔ اسکو بہت تیز بخار ہو گیا جو اُترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ارزانش کے گھر والے بہت پریشان تھے کیونکہ وہ لڑکا جو کبھی چپ ہی نہیں کرتا تھا اب کئی دن سے کچھ بول ہی نہی رہا تھا۔ ارزانش کی امی نے اس سے بہت دفع پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے لیکن اس نے نہیں بتایا۔ آخر اس کی چھوٹی بہن ہانیہ نے سب اپنی امی کو بتا دیا کیونکہ وہ اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھی اور اسے اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ 

مِسِز عالمگیر نے ارزانش سے پاکیزہ کے گھر کا پتہ پوچھا اور ارزانش نے بتا دیا۔

اگلے ہی دن مِسِز عالمگیر مِسٹر عالمگیر اور اپنی بیٹی ہانیہ کے ساتھ پاکیزہ کے گھر چلی گئیں۔ جب اُن کے گھر کی گھنٹی بجائی تو دروازہ پاکیزہ کی امی نے کھولا۔

"آپ۔۔ آپ لوگ کون؟ سوری لیکن میں نے پہچانا نہیں۔"

"میں ارزانش کی ماما ہوں، یہ میری چھوٹی بیٹی ہانیہ اور یہ ارزانش کے پاپا" ارزانش کی امی نے مِسٹر عالمگیر اور ہانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"اوہ السلام علیکم۔ آئیں آپ اندر" پاکیزہ کی امی مِسِز عالمگیر، ہانیہ اور مِسٹر عالمگیر کو اپنے ساتھ ڈرائینگ روم میں لے گئیں۔ رسمی سلام دُعا کے بعد ارزانش کی امی کہنے لگیں "میرا بیٹا آپکی بیٹی پاکیزہ سے بہت پیار کرتا ہے اور وہ اس کے بغیر بری حالت میں ہے۔ نہ تو کچھ کھا رہا ہے اور نہ ہی کچھ پی رہا ہے۔ کئی دن سے اسے تیز بخار ہے اور میں بہت پریشان ہوں۔ یقین مانیں وہ آپ کی بیٹی کو بہت خوش رکھے گا اور کبھی کوئی کمی نہیں آنے دے گا۔ میرا بیٹا دل کا بہت صاف ہے"

"جی میں آپکی بات سمجھ سکتی ہوں لیکن اس بارے میں مجھے کچھ نہیں پتا تھا۔ ارزانش کافی دفع میرے گھر بھی آیا لیکن ایسا کچھ نہیں لگا۔ مجھے لگا کہ بس فرینڈز ہیں دونوں" پاکیزہ کی امی بہت ہی نرم اور خوش اخلاق لہجے میں بول رہی تھیں۔

"مجھے بھی سب کل ہی پتا چلا ہے لیکن شاید پاکیزہ نہیں مان رہی۔ پلیز آپ اسے اس رشتے کے لئیے راضی کر لیجئیے۔ یہ دونوں کے لئیے ہی بہت اچھا ہو گا" ارزانش کی امی ارزانش کی وجہ سے بہت پریشان تھیں۔

"آپ فکر نہ کریں۔ میں پوری کوشش کروں گی پاکیزہ کو منانے کی۔ آگے جو اللہ کو منظور ہوا۔"

"جی ٹھیک ہے۔ یہ میری طرف سے شگُن رکھ لیں" ارزانش کی امی نے بیگ سے سونے کے کڑے نکالے اور پاکیزہ کی امی کو دیتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے ساتھ بہت ساری مٹھائیاں بھی لے کر آئیں تھیں۔

"اسکی کوئی ضرورت نہیں۔ پہلے رشتہ تو پکا ہونے دیں"

"نہیں پلیز آپ رکھ لیں اور پوری کوشش کیجئیے گا"

اتنے میں مِسٹر عالمگیر بولنے لگے "اب ہم چلتے ہیں۔"

پاکیزہ کی امی ان کو روکتے ہوئے کہنے لگیں "آپ نے تو کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔ کچھ دیر رک جائیں۔ کھانا کھا کر چلے جائیے گا"

"نہیں بہت مہربانی لیکن ارزانش کی طبیعت نہیں ٹھیک اسی لئیے مجھے تھوڑی جلدی ہے۔اب تو اُمید ہے کہ آنا جانا لگا رہے گا" ارزانش کی امی جواباً بولیں۔

"جی ٹھیک ہے"

"اچھا جی خدا حافظ"

"خدا حافظ"

جاری ہے

قربت_تک_کا_سفر

 

قسط 7

اریج


پاکیزہ ان سب باتوں سے بے خبر تھی۔ پاکیزہ کی امی کو ارزانش پہلے ہی بہت پسند تھا اور اب تو انہیں لگنے لگا تھا کہ پاکیزہ کو ارزانش سے زیادہ کوئی خوش رکھ ہی نہیں سکتا۔ وہ پاکیزہ کے کمرے میں گئیں اور پاکیزہ کو سب بتا دیا۔

"مجھے نہیں لگا تھا کہ ارزانش اتنا بھی سیریس ہو سکتا ہے" پاکیزہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

"تم مان کیوں نہیں جاتی پاکیزہ؟ وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا"

"کیسی باتیں کر رہی ہیں ماما آپ؟ مجھے نہیں رہنا ایسے خوش۔ مجھے کوئی شادی وادی نہیں کرنی"

"تو کیا ساری زندگی ایسے ہی کنواری رہو گی"

"ہاں رہ لوں گی میں۔ آپ فکر نہ کریں"

"بچوں والی باتیں مت کرو پاکیزہ۔ ایسے زندگیاں نہیں گزرتیں"

"گزر جائے گی ماما۔ لیکن مجھے شادی کرنی ہی نہیں ہے"

"بچپنہ مت دکھاؤ۔ مان جاؤ"

"نہیں میں نہیں کر سکتی اس سے شادی"

"تو ٹھیک ہے۔ کرتی رہو ضد لیکن اس بار نہیں چلے گی تمہاری۔ اس بار تمہیں ماننا ہوگا اور یہی تمہارے لئیے بہتر ہے"

یہ کہہ کر پاکیزہ کی امی کمرے سے چلی گئیں۔ پاکیزہ اپنی امی کے پیچھے پیچھے ان کو مناتے ہوئے کمرے سے باہر آگئی۔ 

"ماما جان مان جائیں نا۔ پلیز ناراض مت ہوں"

"نہیں پاکیزہ اس بار نہیں۔ منانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تم مانو گی شادی کے لئیے تو میں خود ہی مان جاؤں گی۔"

یہ سُن کر پاکیزہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اب وہ بہت بڑی کشمکش میں تھی۔ وہ رو رو کر دُعائیں مانگنے لگی۔ رب سے فریاد کرنے لگی۔ پاکیزہ کی امی نے کھانا کھانا بھی چھوڑ دیا۔ دوسری طرف ارزانش کی طبیعت بھی ابھی تک سنبھلی نہیں تھی۔ وہ ابھی تک بہت بیمار تھا۔ 

تین دن یونہی گزر گئے اور پاکیزہ پریشانی کی وجہ سے بس روئے جا رہی تھی۔ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے پاکیزہ کی امی بہت بیمار ہو گئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ اس رات پاکیزہ ساری رات سجدے میں روتی رہی۔ گڑگڑاتی رہی۔ دُعائیں مانگتی رہی کہ اسے سہی فیصلہ کرنے کی توفیق دے۔ جب پاکیزہ کی امی کی طبیعت تھوڑی ٹھیک ہوئی تو پاکیزہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ پاکیزہ کی امی آنکھیں بند کر کے لیٹی ہوئی تھیں۔ پاکیزہ ان کی دائیں جانب پڑی کرسی پر بیٹھ گئی اور اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔

"ماما آپ اتنا ناراض کیسے ہو سکتی ہیں مجھ سے؟ مجھے پتا ہے کہ آپکی اس حالت کی ذمہ دار میں ہی ہوں۔ مجھے معاف کر دیں پلیز۔ میں بہت خود غرض ہو گئی تھی۔ اب آپ جو کہیں گی میں وہی کروں گی۔ میں ارزانش سے شادی کرنے کے لئیے تیار ہوں"

یہ سُن کر پاکیزہ کی امی کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ آگئی اور وہ کہنے لگیں "نہیں ساری غلطی تمہاری نہیں تھی۔ میں بھی ضِد میں آ گئی تھی لیکن بیٹا اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ ایسے تم اپنی پوری زندگی برباد کر بیٹھو گی"

پاکیزہ سر جھکائے بولنے لگی "اب میں آپکی سب باتیں مانوں گی لیکن پلیز دوبارہ ایسے مت کیجئیے گا"

"ٹھیک ہے بیٹا"

ہسپتال سے گھر جاتے ہی پاکیزہ کی امی نے ارزانش کی امی کو فون کر کے ہاں کہہ دی۔ ارزانش کی امی نے ارزانش کو بتایا۔ ارزانش کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے وہ ساتویں آسمان پہ ہو۔ اُس کی طبیعت بھی اب بہت بہتر ہو گئی تھی۔ دونوں گھروں میں اب شادی کی زور و شور سے تیاریاں ہونے لگیں۔ سب لوگ بہت خوش تھے لیکن پاکیزہ کے آنسؤوں اور دعاؤں میں دن بدن شدت آتی جا رہی تھی کیونکہ اس سب کے بارے میں کبھی پاکیزہ نے سوچا بھی نہیں تھا اور سب بہت ہی اچانک ہو گیا تھا۔ وہ اپنے دل میں مُراد کی جگہ کبھی کسی کو نہیں دینا چاہتی تھی اور نہ ہی کسی کے ساتھ رہ سکتی تھی۔ یہی سوچ سوچ کر اس کے لئیے دن اور رات گزارنا مُشکل ہوتا جا رہا تھا۔ 

مِسِز عالمگیر پاکیزہ کو بالکل اس کی ماں کی طرح پیار کرتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ارزانش اور پاکیزہ ہمیشہ ساتھ اور خوش رہیں۔ جب شادی کی خریداری شروع کی گئی تو مِسِز عالمگیر چاہتی تھیں کہ کسی چیز میں کوئی کمی نہ آئے اسی لئیے انہوں نے پاکیزہ کو کہا کہ وہ خود ہی اپنی پسند کا سب کچھ خرید لے تا کہ کسی کمی کی گنجائش ہی نہ رہے۔ انہوں نے یہ کہنے کے لئیے پاکیزہ کو کال کی۔

"السلام علیکم"

"وعلیکم السلام آنٹی۔ کیسی ہیں آپ؟"

"میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا۔ آپ کیسی ہو؟"

"اللہ کا شکر ہے آنٹی میں ٹھیک ہوں"

"میں نے شادی کی شاپنگ کرنی تھی تو سوچا یہ ذمہ داری آپ کو دے دی جائے۔ آپ ارزانش کے ساتھ جا کر سب اپنی پسند کا ہی خرید لیں"

"جی۔۔ ٹھیک ہے آنٹی"

"آپ چار بجے تک تیار رہنا۔ ارزانش اور ہانیہ آپ کو لینے آجائیں گے"

"ٹھیک ہے"

"خیال رکھنا بیٹا اپنا۔ خدا حافظ"

"خدا حافظ"

پاکیزہ نے سب اپنی امی کو بتا دیا اور اسکی امی نے اسے تیار ہونے کو کہا۔ اس کے بعد پاکیزہ دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ کچھ دیر بعد پاکیزہ تیار ہونے کے لئیے اپنے کمرے میں چلی گئی اور پہننے کے لئیے الماری میں لٹکے ہوئے کپڑے نکال لئیے۔ اتنی دیر میں دروازے کی گھنٹی بجی تو پاکیزہ دروازہ کھولنے چلی گئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ارزانش کھڑا تھا۔

"ابھی تک تیار نہیں ہوئی آپ؟"

"نہیں۔۔ بس ہونے لگی تھی تیار" پاکیزہ نے نظریں جھکائے ہوئے بولا۔

ارزانش پاکیزہ کی بائیں طرف سے راستہ بناتے ہوئے اندر آگیا۔

"اچھا چلیں بتائیں کونسا ڈریس پہننے والی ہیں"

"جب تیار ہوں گی تو دیکھ لیجئیے گا"

"نہیں مجھے پہلے دیکھنا ہے" یہ کہتے ہوئے ارزانش پاکیزہ کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے بیڈ پہ سفید رنگ کے کپڑے پڑے تھے۔

"یہ پہنیں گی آپ؟"

"جی"

"کوئی فوت ہو گیا کیا؟"

"کیا مطلب؟" پاکیزہ نے سوالیہ نظروں سے ارزانش کی طرف دیکھا۔

"اب میری بیوی بننے والی ہیں آپ۔ ایسے پھیکے رنگ مت پہنا کریں۔ کِھلے ہوئے رنگ پہن کر گلاب کا پھول لگتی ہیں۔ رُکیں میں آپکی ہیلپ کرتا ہوں ڈریس سَلّیکٹ کرنے میں" ارزانش یہ کہتے ہوئے پاکیزہ کی الماری کی طرف گیا اور الماری میں اس کے سارے لٹکے ہوئے کپڑے دیکھنے لگا۔ پھر ایک کالے رنگ کی فراق پکڑ کر ہوا میں لہراتے ہوئے بیڈ پہ رکھ دی۔

"یہ پہنیں نہ۔ اس میں بہت اچھی لگیں گی آپ۔ بلیک کلر میں تو ویسے بھی آپ باربی لگتی ہیں"

پاکیزہ بس سر جھکائے سب سُن رہی تھی۔

"اچھا چلیں میں باہر کار میں آپکا ویٹ کر رہا ہوں۔ جلدی سے تیار ہو کر آ جائیں۔"

"جی ٹھیک ہے"

ارزانش جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔

"آپی کو لے کر نہیں آئے؟" ارزانش کو اکیلا دیکھ کر ہانیہ اس سے پوچھنے لگی۔

"نہیں وہ ابھی تیار ہو رہی ہیں۔ کچھ دیر تک آ رہی ہیں"

کچھ دیر بعد پاکیزہ گھر سے باہر نکلی تو ہانیہ اور ارزانش پاکیزہ کو گاڑی کی طرف سے آتا دیکھ کر گاڑی سے باہر نکل آئے۔ پاکیزہ نے وہی کالے رنگ کی فراق پہنی تھی جو ارزانش نے اس کے لئیے نکالی تھی۔ چہرے پہ ہلکا سا میک اپ کر رکھا تھا اور سر پہ دوپٹہ لئیے ہوئے تھی۔ دور سے آتے ہوئے وہ کسی حور کی مانند لگ رہی تھی۔ ہانیہ سے سلام کرنے کے بعد پاکیزہ پیچھے کی طرف بیٹھنے لگی تو ہانیہ نے اسے روک لیا۔

"آپ آگے بیٹھ جائیں آپی۔"

"نہیں نہیں کوئی بات نہیں آپ ہی آگے بیٹھ جاؤ ہانیہ۔ میں پیچھے بھی کمفرٹیبل فیل کروں گی"

"اچھا چلیں ٹھیک ہے۔ ویسے بہت پیاری لگ رہی ہیں آج۔"

"تھینک یو"

یہ کہہ کر پاکیزہ بیٹھنے لگی تو ارزانش نے آکر پاکیزہ کے لئیے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ وہ بیٹھی اور پھر دروازہ بند کر دیا۔ وہ آگے جا کر بیٹھ گیا اور گاڑی چلانا شروع کی۔ ارزانش پاکیزہ کی طرف ہی دیکھے جا رہا تھا۔ سارے راستے میں وہ شیشے کے ذریعے پاکیزہ کو دیکھتا رہا اور پاکیزہ اس سب سے انجان گاڑی سے باہر کی طرف دیکھتی رہی۔ آخر تینوں ایک مال پہنچ گئے اور وہاں سے شاپنگ کرنے لگے۔ پاکیزہ اور ہانیہ کو خریداری کرتے دیکھ کر ارزانش ہانیہ کو کہنے لگا کہ "آپ دونوں اچھے سے شاپنگ کر لو۔ میں باہر دونوں کا ویٹ کر رہا ہوں"

"اچھا لیکن کہیں اور مت چلے جائیے گا۔ باہر ہی رہئیے گا۔"

"ہاں میری ماں ٹھیک ہے۔ باہر ہی کھڑا ہوں گا"

ارزانش یہ کہہ کر باہر چلا گیا اور گاڑی کے پاس کھڑا ہو کر دونوں کا انتظار کرنے لگا۔ خریداری کرنے کے بعد پاکیزہ اور ہانیہ ارزانش کو ڈھونڈنے کے لئیے باہر آئے تو ارزانش گاڑی کا پاس ہینڈ فری لگا کر کھڑا تھا۔ پاکیزہ اور ہانیہ کی آپس میں بہت دوستی ہو گئی تھی اور ہانیہ کو پاکیزہ بہت پسند تھی۔ ارزانش کے پاس جا کر ہانیہ نے ارزانش کو کندھے سے ہلاتے ہوئے کہا "ہو گئی شوپنگ ختم۔ اب چلیں؟"

"ابھی؟ کچھ کھائے بغیر ہی گھر چلیں کیا؟" ارزانش کانوں سے ہینڈ فری باہر نکالتے ہوئے بولا۔

"آپ کہتے ہیں تو کچھ کھا لیتے ہیں تا کہ آپی کے ساتھ زیادہ ٹائم سپینڈ ہو سکے آپکا" ہانیہ ارزانش کو آنکھ مارتے ہوئے بولی۔ 

"ہاں چلتے ہیں نا۔ ویسے بھی آپ لوگوں نے شاپنگ میں اتنا ٹائم لگا دیا کہ ڈنر کا ٹائم ہو گیا ہے"

"چلیں ٹھیک ہے لیکن آج کھانا میری مرضی کے ریسٹورنٹ میں کھائیں گے"

"ہاں ہاں ٹھیک ہے"

وہ تینوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور کچھ دیر میں ریسٹورنٹ پہنچ گئے۔ ریسٹورنٹ پہنچ کر تینوں ایک میز کے ارد گرد رکھی کرسیوں پہ بیٹھ گئے۔ پاکیزہ اور ہانیہ میز کی ایک طرف بیٹھے تھے اور ارزانش ان کے سامنے میز کی دوسری طرف رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

"اب سب اپنی اپنی مرضی کا آرڈر کر لیں تا کہ بعد میں کوئی گھورے نہیں میری طرف" ارزانش پاکیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

"آپی آپ کیا کھائیں گی؟" یہ کہتی ہوئے ہانیہ نے مینیو پاکیزہ کی طرف بڑھایا۔

"آپ کچھ بھی آرڈرکر لو ہانیہ" پاکیزہ نے مینیو میز پہ گھسیٹتے ہوئے ہانیہ کی طرف کر دیا۔

ہانیہ اور ارزنش نے کھانا آرڈر کیا اور کچھ دیر میں کھانا آ گیا۔ تینوں نے کھانا شروع کیا لیکن پاکیزہ کھانے سے زیادہ دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی۔ وہ سہمی ہوئی سی لگ رہی تھی جس کے تاثرات اس کے چہرے پر واضح دکھائی دے رہے تھے۔ 

"اگر آپ کمفرٹیبل نہیں ہیں تو میں باہر چلا جاؤں؟ آپ آرام سے کھانا کھا لیں" ارزانش پاکیزہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔

پاکیزہ نے دائیں ہاتھ سے اپنا بایاں ہاتھ زور سے بھینچ لیا اور کہنے لگی "نہیں نہیں آپ بیٹھے رہیں۔ میں ایسے بھی کمفرٹیبل ہوں۔"

"آر یو شور؟"

"جی جی"

ہانیہ ارزانش اور پاکیزہ کو ایسے باتیں کرتا دیکھ کر ہنسنے لگی اور کہنے لگی "بھائی آپ آپی کے ساتھ آکر بیٹھ جائیں۔ زیادہ مفرٹیبل فیل کریں گی"

"گُڈ آئیڈیہ ہانیہ" ارزانش ہانیہ کی گال پہ پیار سے انگلی مارتے ہوئے بولا۔

ہانیہ کے کہنے کے بعد ارزانش اور ہانیہ نے اپنی جگہ تبدیل کر لی۔ جب ارزانش پاکیزہ کے پاس آ کر بیٹھا تو پاکیزہ کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ دل میں دُعائیں کر رہی تھی کہ اللہ اسے اس رشتے کو نبھانے کی توفیق دے۔ اتنے میں اسے اپنے ہاتھ پہ کسی کا لمس محسوس ہونے لگا۔ اُس نے گردن جھکا کا میز کے اپنی گود کی طرف دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے ہاتھ پر ارزانش کا ہاتھ تھا۔ پاکیزہ نے ہاتھ ہٹانے کیکوشش کی تو ارزانش نے اس کے ہاتھ پہ گرفت مضبوط کر لی۔ اب پاکیزہ کے کانپتے ہاتھوں میں تھوڑا ٹھہراؤ آگیا تھا۔ ہانیہ اپنا کھانا کھانے میں مصروف تھی۔ ارزانش پاکیزہ کے تھوڑا قریب آیا اور اس کے کان کے قریب آکر بولا "فکر نہ کریں ہمیشہ ایسے ہی مضبوطی سے پکڑ کر رکھوں گا۔ کبھی ڈگمگانے نہیں دوں گا"

پاکیزہ نے ایک گہری سانس لی۔ اتنے میں ہانیہ نے اپنا کھانا کھا لیا تھا۔

"اب چلتے ہیں بھائی۔ لیٹ ہو گئے ہیں۔ ابھی مجھے پارلر بھی جانا ہے" ہانیہ ارزانش کے میز پہ رکھے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے بولی۔

"ہاں چلتے ہیں۔ پہلے تمہیں پارلر ڈروپ کر دوں گا اور پھر پاکیزہ کو اس کے گھر"

"ہاں ہاں آپی اور آپ اکیلے اکیلے" ہانیہ ارزانش کو آنکھ مارتے ہوئے بولی۔

"زیادہ بولنے لگ گئی ہو ہانیہ۔ ماما کو بتاؤں کا گھر جا کے"

"ہاں ہاں بتا دینا۔ میں نے کونسا غلط کہا" ہانیہ نے یہ کہہ کر ایک زور دار کہکہا لگایا۔

وہ تینوں وہاں سے نکلے تو گاڑی کے قریب ہی فٹ پاتھ پر ایک فقیر بیٹھا تھا۔ وہ ارزانش اور پاکیزہ کو پاس کھڑا دیکھ کر کہنے لگا "لگتا ہے جوڑی ہیر رانجھا جیسا کمال دکھائے گی"

"بابا جی اتنی اچھی قسمت تو نہیں ابھی تک" ارزنش پاکیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔

"سو سال جیو بیٹا۔ دیکھ لینا جنت تک تمہیں ساتھ لے کے جائے گی"

یہ سُن کر اب پاکیزہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی تھی جیسے اسے کچھ پُرانا یاد آگیا ہو۔ یقیناً وہ مُراد کے کئیے ہوئے وعدے اور اُن کی ساتھ سوچی ہوئی یادیں تھیں جو شاید اب ہمیشہ کے لئیے کہیں دفن ہونے جا رہی تھیں۔

"بابا جی کمال کرتے ہیں۔ دل خوش کر دیا آپ نے۔ ویسے بھی دکھنے میں جنت کی کسی حور سے کم نہیں لگتی" اب ارزانش کے دل کی بات اس کے لبوں پہ آگئی تھی جو کب سے وہ کہہ نہیں پا رہا تھا۔ یہ کہہ ر ارزانش نے پینٹ کی جیب سے والٹ نکال کر ہزار روپے کا نوٹ فقیر کی طرف بڑھا دیا۔ 

"آج اتنے مہربان کیسے ہو گئے بھائی؟" ہانیہ نے ہزار کا نوٹ دیتے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا۔

"بابا جی نے بات ہی اتنی کمال کی ہے کہ انمول ہے۔ اس کی قیمت تو بہت چھوٹی لگائی ہے میں نے"

"واہ! اتنی پسند آگئی آپکو بات؟"

"سیدھا دل تک گئی ہے لڑکی"

"چلیں اب۔ میں لیٹ ہو گئی ہوں" ہانیہ جلدی میں بولی۔

ان سب باتوں کے بعد تینوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور ارزانش نے ہانیہ کو پارلر تک چھوڑ دیا۔ اب ارزانش اور پاکیزہ اکیلے تھے اور ارزانش نے پاکیزہ کو اس کے گھر تک چھوڑنا تھا۔ پاکیزہ ہانیہ کے اصرار پر گاڑی کی آگے والی سیٹ پہ بیٹھ گئی تھی۔ سخت سردی تھی اور پاکیزہ سردی کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔ ارزانش نے اپنا کوٹ اُتار کر پاکیزہ کے کندھوں پر ڈال دیا اور گاڑی کا ہیٹر چلا دیا۔ پاکیزہ کے رُخسار اس طرح سُرخ تھے کہ لگ رہا تھا جیسے ساری شرم یہیں سے بہہ نکلے گی۔ ارزانش راستے سے زیادہ پاکیزہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دونوں خاموش بیٹھے تھے کہ آخر پاکیزہ نے خاموشی توڑی۔

"ہر رشتے کی بنیاد یقین پر ہوتی ہے اور اسی یقین کو بحال رکھنے کے لئیے مجھے آپکو کچھ بتانا ہے"

"جی بولیں"

"اس کے بعد ہمارا رشتہ۔۔۔"

اتنے میں ارزانش کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی اور ارانش نے دیکھا تو اس کی امی کی کال تھی۔ اس نے کال کاٹ دی۔

"آپ کچھ کہہ رہی تھیں۔"

"جی میں یہ کہہ رہی تھی کہ میرے سب بتانے کے بعد شاید۔۔"

"آپ پہلے میری بات سُنیں۔ آپکی تو ساری زندگی سُنوں گا" ارزانش پاکیزہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

"جی جی کہیں"

"میں بس اتنا کہوں گا کہ واقعی ہر رشتے کی بنیاد ہی اعتبار ہوتا ہے اور میں آپ پہ اپنی ذات سے بھی زیادہ اعتبار کرتا ہوں۔ آپ مجھے کچھ بھی بتائیں گی یا کچھ بھی کہیں گی تو میں اپنے دماغ میں دوسری سوچ لائے بغیر آپکی بات پہ سر جھکا دوں گا کیوں کہ چاہے میں جیسا بھی ہوں لیکن میری محبت شفاف پانی کی طرح ہے جس میں آپکو اپنا عکس واضح دکھائی دے گا۔ میں پانی کی طرح ہی آپکی کسی بھی ڈھالی ہوئی صورت میں ڈھل جاؤں گا۔ کبھی بھی آپکو آپ کے فیصلے پہ پچھتانے نہیں دوں گا۔"

"آپکا بہت شکریہ" پاکیزہ جھکی نگاہوں سے بول رہی تھی۔

"شکریہ کیسا؟ آپ میری شریکِ حیات بننے جا رہی ہیں اور یہ آپکا حق ہے۔ میں کچھ زیادہ انوکھا نہیں کروں گا۔ ہاں بس میرا اندازِ محبت انوکھا ضرور ہو سکتا ہے۔ اسی لئیے اس شکریہ کو اپنی میموری سے ڈیلیٹ کر دیں"

پاکیزہ ارزانش کی بات پہ مُسکرانے لگی اور اتنے میں پاکیزہ کا گھر آگیا۔ ارزانش نے گاڑی سے اُتر کر پاکیزہ کے لئیے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ پاکیزہ گاڑی سے اُتری اور خدا حافظ کہہ کر گھر کی جانب جانے لگی۔ کچھ قدم آگے جا کر پاکیزہ واپس مُڑ گئی۔ اتنی دیر میں ارزانش گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ پاکیزہ گاڑی کے قریب آئی اور جھک کر گاڑی کے کھلے شیشے سے کوٹ اندر کی طرف بڑھایا۔

"آپکا کوٹ تو رہ ہی گیا۔ بہت ہیلپ کی آج اس نے مجھے سردی سے بچانے میں" پاکیزہ مسکراتے ہوئے بولی۔

"اب پاس ہی رکھ لیجئیے کیونکہ اس کوٹ سمیت سب آپکا ہی تو ہے۔ یہاں تک کہ میں بھی کب سے آپکا ہو گیا ہوا ہوں"

پاکیزہ یہ سب سُن کر پھر سے شرما سی گئی تھی اور کچھ کہے بغیر کوٹ بازو پہ ڈال کر گھر چلی گئی۔

پاکیزہ ساری رات ارزانش کی باتوں کو سوچتی رہی۔ اس کے لئیے یہ سب بہت مشکل تھا۔ وہ اپنے رب کے سوا کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں پاتی تھی اور شاید اسکا رب ہی اس کی سب سننے کے لئیے کافی تھا۔ اسے اپنے رب پہ کامل یقین تھا لیکن وہ اس بات سے بہت ڈرتی تھی کہ اگر اس سے کسی طرح کا حق ادا کرنے میں کوتاہی ہو گئی یا کسی نا محرم کا خیال اس کے ذہن میں رہا تو وہ ایک گناہ گار عورت بن جائے گی۔ اس کے دن اور رات یہی سب سوچنے میں گزرتے تھے۔

قربت_تک_کا_سفر

قسط8 (second last)


اریج 


پاکیزہ اور ارزانش کی امی نے کہیں باہر اکٹھے گھومنے جانے کا فیصلہ کیا تا کہ ارزانش اور پاکیزہ ایک ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں اور دونوں خاندانوں کے تعلقات مزید بہتر ہو جائیں۔ سب گھر والے بہت خوش تھے اور خاص طور پر ارزانش سب سے زیادہ خوش تھا کیونکہ اسے تو پاکیزہ کو دیکھنے اور اس سے باتیں کرنے کے لئیے موقعے کی تلاش رہتی تھی۔ پاکیزہ اور ارزانش دونوں کے گھر والوں نے بس پر اکٹھے کسی پہاڑی مقام جانے کا فیصلہ کیا۔ مقررہ دن پر دونوں کے گھر والے تیار ہو گئے اور بس کے ذریعے سب ایک پہاڑی مقام چلے گئے۔ راستے میں سب نے بہت ساری باتیں کیں اور پاکیزہ کے بھائیوں نے اسے ارزانش کے نام سے بہت چڑایا۔ پاکیزہ کو پہاڑی مقام بہت پسند تھے اور اےسے مقامات پر جا کر اس کا چہرہ کِھل جایا کرتا تھا لیکن آج اس کے چہرے پہ کوئی رونق نہیں تھی۔ 

دونوں کے گر والوں نے رہنے کے لئیے جو گیسٹ ہاؤس لے رکھا تھا وہ ایک بہت اونچے پہاڑ پر تھا اور اس کے باہر سے سارہ نظارہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ سب وہاں پہنچے تو رات کا وقت تھا اور سب تھکے ہوئے تھے اسی لئیے سو گئے۔ پاکیزہ باہر آکر کھڑی ہو گئی اور نظارہ دیکھنے لگی۔ کچھ دیر بعد ارزانش اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ اُس کے ہاتھوں میں دو کپ تھے۔ ایک کپ پاکیزہ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا "آج میرے ہاتھ کی کافی پئیں۔ پسند آ جاؤں گا میں"

پاکیزہ یہ سُن کر ہنسنے لگی اور گرم کافی سے بھرا کپ پکڑ لیا۔ 

"اچھا تو اب بتائیں کہ سوئی کیوں نہیں اب تک؟"

"ویسے ہی بس ابھی نیند نہیں آ رہی تھی تو یہاں آ کر کھڑی ہو گئی"

پاکیزہ نے ایک کافی کا گھونٹ لے کر کہا "کافی تو اپنی باتوں جیسے ہی اچھی بنا لیتے ہیں"

"بس دیکھ لیں۔ کبھی غرور نہیں کیا۔" یہ کہہ کر ارزانش ہنسنے لگا۔ 

"اُس دن میری ایک بات ادھوری رہ گئی تھی تو آج ہی پوری کر لیتی ہوں کیونکہ یہ بات مجھے بہت بے چین کر دیتی ہے" پاکیزہ نے تھوڑا سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔

"جی آپ کہہ لیں جو کہنا چاہ رہی ہیں"

"میں کسی اور سے۔۔"

"بچوں ابھی تک سوئے نہیں تم لوگ؟" پیچھے سے ارزانش کی امی آ گئیں اور پاکیزہ خاموش ہو گئی۔

"ماما نیند نہیں آرہی تھی اسی لئیے یہاں آ کر کھڑے ہو گئے" ارزانش مُڑ کر اپنی امی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

"ایسے تم دونوں جاگے رہو گے تو بیمار ہو جاؤ گے اسی لئیے سو جاؤ ابھی۔ باقی پرائیویٹ باتیں بعد میں کر لینا۔" ارزانش کی امی پاکیزہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ پاکیزہ یہ سُن کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور ارزانش بھی سونے کے لئیے چلا گیا۔ صبح ہوتے ہی سب اُٹھ کر تیار ہو گئے تا کہ سیر کے لئیے جا سکیں۔

پاکیزہ جب تیار ہو کر آئی تو ارزانش کو ان دلکش وادیوں سے زیادہ خوبصورت پاکیزہ لگ رہی تھی جس پر سے اسکا دل نظریں ہٹانے کو تیار نہیں تھا۔ 

"نظر لگ جائے گی میری بہن کو اسی لئیے مسلسل نہ دیکھا کریں" پاکیزہ کا بڑا بھائی ذیشان ارزانش کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

"ہاں کہتے تو ٹھیک ہیں کیونکہ آپکی بہن ہے ہی بہت خوبصورت" ارزانش مسلسل پاکیزہ کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔

جب سب سیر کے لئیے گئے تو سب نے مل کر وہاں بیڈمنٹن کھیلنا شروع کر دی۔ پاکیزہ ایک طرف پہاڑی کے کنارے بیٹھ گئی جس کے نیچے گہری کھائی تھی اور سامنے بہت ہی حسین نظارہ تھا۔ کھیلتی کھیلتی جب ارانش کی نظروں نے پاکیزہ کو ارد گرد نہ پایا تو وہ پاکیزہ کو ڈھونڈنے لگا۔ اچانک سے اسے پاکیزہ پہاڑ کے کنارے بیٹھی نظر آئی۔ وہ پاکیزہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا لیکن پاکیزہ کو بالکل پتا نہیں چلا۔

"کِن سوچوں میں گُم ہیں؟"

"آپ۔۔ میں۔۔۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی یہاں آکر بیٹھ گئی۔" یہ کہہ کر پشاکیزہ پھر کہیں سوچوں میں گُم ہو گئی۔

"سامنے اتنے گہرائی ہے۔ ڈر نہیں لگتا کیا؟"

"نہیں اب کسی گہرائی سے ڈر نہیں لگتا۔" پاکیزہ بغیر کسی تاثر کے سوچوں میں گُم رہتے ہوئے بولی۔ 

"اس گہرائی کی طرح اتنی گہری باتیں نہ کیا کریں۔ کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں میں۔"

"میں خود ان باتوں سے آذادی چاہتی ہوں لیکن کیا کروں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب بول دیتی ہوں"

ارزنش نے مُٹھی بند کر کر پاکیزہ کے چہرے کی سامنے کی جانب بڑھائی اور ہاتھ کھول کر ہتھیلی پر پھونک ماری۔ 

"یہ کیا کر رہے ہیں؟"پاکیزہ نے جاننے کے لئیے پوچھا۔

"آذاد۔ آپکو ان باتوں سے آذاد کر رہا ہوں"

"ایسا کرنے سے آذاد ہو جاؤں گی کیا؟"

"نہیں یقین تو خود ہی دیکھ لیجئیے گا۔ لیکن مجھے جھوٹا مت کہئیے گا کیونکہ اس کا اثر کچھ دن بعد شروع ہو گا۔ پھر آپ کو میرے میجک پہ یقین آ جائے گا۔"

"جی ٹھیک ہے۔ دیکھ لیتے ہیں کتنا اثر دکھاتا ہے آپکا میجک"

اتنے میں پاکیزہ کی امی سب کو اواز دینے لگیں کیونکہ کافی وقت ہو گیا تھا اور آج ہی ان کو گھر واپس جانے کے لئیے نکلنا تھا۔ سب وہاں سے گیسٹ ہاؤس چلے گئے اور اپنا سامان باندھنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں سب گھر کے لئیے روانہ ہو گئے۔ واپسی کے سفر میں بھی سب بہت لطف اندوز ہوئے اور اب دونوں کے گھر والے کافی حد تک گُھل مِل گئے تھے۔ اگلے دن تک سب گھر واپس پہنچ گئے۔ ایک ہفتے بعد پاکیزہ اور ارزانش کا نکاح تھا۔ یہ ہفتہ اتنی تیزی سے گزر گیا کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا لیکن پاکیزہ کے لئیے یہ اس کی زندگی کے سب سے مشکل ترین دن تھے کیونکہ وہ ہر ایک لمحہ سوچتی رہی کہ وہ اب کسی اور کی ہو جائے گی اور وہ مزید مُراد کے بارے میں نہیں سوچ سکتی۔ نکاح سے پہلے رات کو تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پاکیزہ سجدے میں گِر پڑی اور سجدے کی حالت میں خوب روئی اور بہت گڑگڑائی۔ روتے روتے دُعا کرنے لگی کہ "اے میرے پروردگار! بیشک سب آپکی ہی مرضی سے ہوتا ہے۔ آپ ہی سب کاموں پہ کُن فرماتے ہیں۔ آپ نے میرے اور مُراد کے رشتے پہ کُن نہیں فرمایا اس میں بھی آپکی کوئی حکمت ہوگی۔ مُراد نے میرے ساتھ جو بھی کیا آج میں اُسے اس سب کے لئیے معاف کرتی ہوں کیونکہ وہی شخص ہے جو مجھے مجازی عشق سے حقیقی عشق کی طرف لے کر آیا۔ اگر مُراد مجھ سے دور نہ جاتا تو میں کبھی بھی آپ کے اتنا قریب نہ آتی۔ بس اب مجھے ایک اچھی بیوی بننے کی توفیق عطا فرما دیں تا کہ میں بیوی کے سارے حقوق ادا کر سکوں۔ مجھے ہمت دیجئیے گا۔ مجھے اتنی ہمت دیجئے گا کہ میں مُراد کو کبھی یاد نہ کر پاؤں۔ آج میں نے مُراد کی محبت کو اپنے دل کے کسی چھوٹے کونے میں دفن کر دیا ہے جو اب ساری زندگی ویران ہی رہے گا اور آپ سے دُعا پے کہ مجھے اتنی ہمت دیں کہ وہ کونہ ہمیشہ ویران ہی رہے۔ میں ایک اچھی بیوی بن سکوں" پاکیزہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ جائے نماز اس کے آنسؤوں کی وجہ سے بھیگتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد وہ مُراد کو کال کرنے لگی تا کہ آخری بار اس سے بات کر سکے۔ وہ مسلسل کال کرتی رہی لیکن کسی نے کال نہ اُٹھائی اور وہ نا اُمید سی ہو گئی۔ پھر سے دُعا کرنے لگی۔ 

اسی طرح دُعائیں کرتے ہوئے رات گزر گئی۔ اتنا عرصہ گزر گیا تھا لیکن مُراد نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ 

اگلے دن سب بہت خوش تھے۔ پاکیزہ کہ امی نے پاکیزہ کو تیار کیا۔ ارزانش کی زندگی کا تو آج اہم ترین دن تھا۔ 

ارزامش کے گھر والے مقررہ وقت پر پاکیزہ کے گھر آ گئے اور مولوی صاحب کو بھی نکاح کے لئے بُلا لیا گیا۔ اب بس پاکیزہ کا وہاں پہ موجود ہونا باقی تھا۔ 

کچھ دیر بعد پاکیزہ کی امی اُسے اپنے ساتھ نیچے لے آئیں۔ جب پاکیزہ نیچے آئی تو مِسٹر دانش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے پاکیزہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پاکیزہ مِسٹر دانش کے گلے لگ گئی اور رونے لگی۔

"نہیں بیٹا روتے نہیں ہیں۔ آج تو میری باربی کا سب سے سپیشل ڈے ہے۔ آج تو بالکل نہیں رونا" مِسٹر دانش پاکیزہ کو کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کرتے ہوئے بولے۔

پاکیزہ اور مِسٹر دانش کو دیکھ کر مِسِز دانش کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ اتنے میں مِسِز عالمگیر آ گئیں۔

"آج یہ رونا نہیں چلے گا۔ آپ ٹینشن نہ لیں آج کے بعد سے میری بیٹی کبھی نہیں روئے گی۔" مِسِز عالمگیر پاکیزہ کی امی کو تسلی دیتے ہوئے بولیں۔ 

جب پاکیزہ کو نکاح کے لئیے ارزانش کے قریب لایا گیا تو ارزانش پاکیزہ کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ ٹکتکی باندھ کر پاکیزہ کو دیکھنے لگا۔

"ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں جیسے پہلی بار دیکھا ہو؟" پاکیزہ نے ارزانش کو اس طرح دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"چاند کا دیدار تو روز ہوتا ہے لیکن چودھویں کا چاند بہت زیادہ دلکش اور حسین ہوتا ہے۔ دیکھنے میں بھی مہینے میں بس ایک بار ہی ملتا ہے۔ اسی لئیے سوچا جی بھر کے دیکھ لوں"

پاکیزہ کا چہرہ شرم کے مارے سُرخ ہو گیا۔ اس کے بعد دونوں کا نکاح اچھے سے ہو گیا۔ ارزانش کو تو "قبول ہے" کہنے کی اتنی جلدی تھی جیسے پاکیزہ بھاگ جائے گی۔ نکاح کے بعد سب ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے اور ارزانش وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد پاکیزہ کا چھوٹا بھائی عبداللہ آیا اور پاکیزہ کے کان میں کہنے لگا لگا کہ "ارزانش بھائی ٹیرس پہ کھڑے ہیں اور آپکو بُلا رہے ہیں"

پاکیزہ وہاں سے اُٹھ کر ٹیرس پہ گئی تو وہاں کھڑا ارشانش پاکیزہ کا انتظار کر رہا تھا۔ پاکیزہ اس کے قریب چلی گئی۔

"وہ۔۔ عبداللہ۔۔ اس نے بتایا کہ آپ مجھے بُلا رہے ہیں"

"جی جی میں نے ہی بُلایا تھا"

"کچھ کام تھا؟"

"کام تو تھا۔ ہاں تو اب آپ میری محرم بن گئی ہیں۔ اسکا مجھے بہت دیر سے انتظار تھا اور آج اللہ نے میری خواہش پری کر ہی دی۔ کہنا یہ تھا کہ اب سے آپ کے سارے دُکھ میرے اور میری ساری خوشیاں آپکی۔ آج سے کبھی آپکو دُکھی نہیں ہونے دوں گا۔"

اتنے میں پاکیزہ کی دائیں آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ بہہ گیا اور ارزانش نے ہاتھ آگے کر لیا تو وہ قطرہ ارزانش کی ہتھیلی پہ آ کر ٹھہرا۔

"یہ آنسو نہیں موتی ہیں میرے لئیے۔ اور یہ بہت قیمتی ہیں۔ رخصتی تک انہیں سنبھال کر رکھئیے گا۔ بعد میں مَیں خود ہی حفاظت کر لوں گا" ارزانش نے اپنے ہاتھ پہ آنسو کا قطرہ دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد ارزانش نے پاکیزہ کی رخصار سے آنسو پی لیا۔ پاکیزہ کے رخصار اب گلابی سے ہو گئے تھے اور اس کے ہاتھ سرد ہو گئے۔

"اب تو محرم ہوں آپکا۔ یہ سب کرنے کا حق رکھتا ہوں" ارزانش نے پاکیزہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ 

جب پاکیزہ نے محرم اور حق کے الفاظ سُنے تو اسے پھر سے کچھ بتانا یاد آ گیا۔

"لیکن آج میں آپکو کچھ بتانا چاہتی۔۔"

ابھی پاکیزہ بات کر ہی رہی تھی کہ ارزانش نے اس کے ہونٹوں پہ اُنگلی رکھ دی۔ 

"مُراد کے بارے میں بتانا چاہتی ہیں نا؟"

ارزانش کے منہ سے مُراد کا نام سُن کر وہ ہکی بکی رہ گئی۔

"لیکن۔۔ آپ۔۔ آپ کیسے جانتے ہیں مُراد کو؟"

"بھائی رومینس پورا ہو گیا ہو تو آ جائیں۔ کب سے سب آپ دونوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔" اتنے میں ہانیہ ارزانش اور پاکیزہ کو بُلانے کے لئیے آ گئی۔ دونوں نیچے آ گئے لیکن پاکیزہ کی حیران نظریں مسلسل ارزانش کی آنکھوں کا تاقب کر رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ارزانش اور اُس کے گھر والے واپس چلے گئے کیونکہ رخصتی اگلے دن تھی۔ 

ساری رات پاکیزہ ارزانش کو کال کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ارزانش کے موبائل کی بیٹری کم ہونے کی وجہ سے اس کاموبائل بند تھا۔ ابھی وہ بار بار کال کر ہی رہی تھی کہ اسے ایک کال آئی۔ اس نے ہڑبڑی میں کال ریسیو کر لی اور بولنے لگی "ہیلو! کون؟"

"آج اتنی جلدی میں کیوں ہو؟ نہ سلام نہ دُعا" دوسری جانب سے ایک بہت جانی پہچانی آواز آئی تھی جو کبھی اس کے دل کے بہت قریب ہوا کرتی تھی۔ وہ دل میں سوچنے لگی کہ آج پتا نہیں کیا کیا ہو گا۔

"اب کیوں کال کی ہے مُراد؟ ختم ہو گیا۔ اب سب ختم ہو گیا ہے۔ دور چلے جائیں آپ۔ اب کچھ باقی نہیں رہا۔"

"کیا مطلب؟ ایسا کیا ہو گیا ہے جو یہ سب کہہ رہی ہو؟"

پاکیزہ کچھ دیر خاموش رہ کر بولنے کے لئیے الفاظ تلاش کرنے لگی اور پھر چیخ کر بولی "بیوی ہوں میں اب کسی کی۔ نکاح ہو گیا ہے میرا۔ آپ نے تو ناکام محبت کو آخری الوداع کہنے کا موقع بھی نہیں دیا۔ 

مُراد نے پاکیزہ کو پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ جس دن اُسکا نکاح ہو گیا اُس دن وہ اس کا پیچھا چھوڑ دے گا۔ مُراد یہ سب سننے کے بعد کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کال کاٹ دی۔ پاکیزہ چیخ چیخ کر رونے لگی اور اپنے رب سے ہمت اور صبر کی خواہش کرنے لگی۔ مُراد کا کچھ بولے بغیر کال کاٹنا اس کے لئیے زیادہ عزیت ناک تھا۔ 

اگلے دن سب تیار ہو کر ہال پہنچ گئے۔ آج پاکیزہ کی رخصتی کا دن تھا اور ہال بہت خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا۔ کچھ دیر میں بارات آ گئی۔ سب بہت خوش تھے لیکن خوشی کے ساتھ ساتھ پاکیزہ کے بھائیوں کو اس کے جانے کا دُکھ بھی تھا کیونکہ وہ تینوں بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔

اور تینوں بھائی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ بارات کی شاندار تقریب کے بعد رخصتی کا وقت آ گیا۔ پاکیزہ کے بھائی اپنی بہن سے اپنے آنسو چھپا رہے تھے لیکن پاکیزہ بھی ان کی بہن تھی اور وہ سب جانتی تھی۔ تینوں بھائی اکٹھے کھڑے تھا۔ تینوں بھائی اور پاکیزہ ایک دائرے کی شکل میں کھڑ ہو گئے اور ایک ہی وقت پہ ایک دوسرے کو گلے لگا کر بہت روئے۔ پھر مِسٹر دانش پالیزہ کے گلے لگ کر رنے لگے۔ مِسِز دانش کہنے لگیں "یہ بھی کوئی رونے کا وقت ہے؟ وہ اپنے گھر جا رہی ہے تو اُسے ہنس کر جانے دو"

یہ سُن کر پاکیزہ اپنی امی کے پاس آئی اور جب اُن کے گلے لگی تو اُس کی امی جو سب کو رونے سے منع کر رہی تھیں خود بھی رونے لگیں۔ اس کے بعد پاکیزہ کو رخصت کر دیا گیا۔

قربت_تک_کا_سفر

اریج 

قسط_9_آخری


جب وہ ارزانش کے گھر پہنچی جو اب سے اسکا بھی گھر تھا تو تھوڑی ڈری سی ہوئی تھی اور ذہن میں کئی سوالات تھے جن لے جوابات صرف ارزانش کے پاس تھے۔ 

وہ دنوں اپنے کمرے میں گئے تو ارزانش واش روم چلا گیا۔ وہ بیڈ کے دائیں طرف بیٹھی تھی جس کے قریب سائیڈ ٹیبل پر پھولوں کا گلدستہ موجود تھا۔ بیڈ کے درمیان میں گلاب کے پھول کی پتیوں کو دل کی شکل میں ترتیب دیا گیا تھا۔ کمرے کے چاروں طرف مختلف رنگوں اور شکلوں کی خوبصورت موم بتیاں جل رہی تھیں جن کی موم سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اس خوشبو کے ساتھ گلاب کے پھولوں کی مدہوش کر دینے والی خوشبو ملی ہوئی تھی۔ کمرے کی کھلی کھڑکیوں سے آتی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے کھڑکیوں پہ پڑے جامنی رنگ کے پردے لہرا رہے تھے۔ پاکیزہ سامنے رکھی موم بتی کو دیکھنے لگی اور کچھ ہی لمحوں میں اس کی شمع میں کھو گئی۔ اس جلتی لو کی طرح اسے خود کا سارا وجود بھی جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ارزانش کمرے میں آیا تو پاکیزہ کو بیڈ پہ بیٹھا دیکھ کر کہنے لگا "آج تہجد نہیں پڑھیں گی؟ میں نے وضو کر لیا ہے۔ جائیں اب آپ بھی کر لیں۔ آج میری امامت میں نماز پڑھ کر دیکھیں"

پاکیزہ ارزانش کی آواز سے اس کی طرف متوجہ ہو گئی اور اس  کو ایسے دیکھ کر بہت حیران تھی۔ وہ کچھ کہے بغیر اُٹھ کر وضو کرنے چلی گئی۔ وضو کر کے آئی تو پاکیزہ نے ارزانش کی امامت میں تہجد ادا کی۔ پھر ارزانش بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا۔ پاکیزہ اس کے قریب جا کر بیٹھی اور بولنے لگی "پہلے آپ مجھے میرے سب سوالوں کے جواب دیں پلیز"

ارزانش نے پاکیزہ کو اس کی کمر سے پکڑا اور خود پر گراتے ہوئے بولنے لگا "کتنے سوال پوچھتی ہیں نہ آپ"

"لیکن۔۔ آپ۔۔ پہلے مجھے بتائیں کہ آپکو کیسے پتا تھا کہ میں کیا کہنے والی ہوں؟" پاکیزہ خود کو ارزانش سے خود کو پیچھے کرتے ہوئے بولی۔ ارزانش نے پاکیزہ کے گرد اپنے بازؤوں کے حصار کو اور تنگ کر لیا اور کہنے لگا "آپکو اپکا وہ کلاس فیلو یاد ہے جسے سَسپینڈ کر دیا گیا تھا؟"

"کونسا کلاس فیلو؟ بات مت گھمائیں آپ" پاکیزہ نے خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ارزانش پاکیزہ کی ہر کوشش پر اپنا حصار اور تنگ کر لیتا تھا۔

"اسی سے سب سمجھ آئے گا۔ یاد کریں وہ تھری کلاس میں۔ ایک لڑکے کو دوسے لڑکے کو مارنے کی وجہ سے سے سسپینڈ کر دیا گیا تھا"

"ہاں تھوڑا بہت یاد ہے"

"پتا ہے اُس نے دوسرے لڑکے کو کیوں مارا تھا؟"

"یہ مجھے کیسے پتا ہوگا؟ اچھا آپ چھوڑیں تو۔ پہلے ٹھیک سے بات تو کر لیں" پاکیزہ کے سوالات اب بڑھتے جا رہے تھے۔

ارزانش پاکیزہ کو چھوڑتے ہوئے کہنے لگا "چلیں پہلے آپکے سوالات دور کر دیتے ہیں۔ آپ بھی کیا یاد کریں گی"

"اب بتائیں سب"

"اس لڑکے نے دوسرے لڑکے کو بس اتنی سی بات پہ مارا تھا کیونکہ اس نے آپکو دھکا دیا تھا"

"لیکن۔۔ آپکو کیسے پتا ہے یہ سب؟"

"اُس لڑکے کا نام یاد کرنے کی کوشش کریں"

"نام۔۔ اس کا نام۔۔ ارزانش" یہ نام لیتے ہی پاکیزہ کا منہ کھلا رہ گیا تھا اور پاکیزہ کی حیرانی اب ساتویں آسمان تک پہنچ گئی تھی۔

"آپ۔۔ مطلب۔۔آپ وہ ارزانش ہیں؟" پاکیزہ سے حیرت کی وجہ سے کچھ بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔

"جی جی وہی ارزانش ہوں" ارزانش نے پاکیزہ کی گال کھینچتے ہوئے کہا۔

"لیکن۔۔ اب۔۔ آپ۔۔ آپ کو کیسے یاد ہے یہ سب اور میں بھی؟"

"میں سکول سے تو چلا گیا تھا لیکن آپکی زندگی سے نہیں۔ اسی لئیے اُس دن آپکا برتھ ڈے یاد تھا مجھے۔ آپکے گھر کا ایڈریس بھی پہلے سے پتہ تھا۔ ایک یونیورسٹی میں پڑھنا اتفاق نہیں میری کوشش تھا۔ ایک ساتھ پروجیکٹ بنانا میرے سَر کو ریکویسٹ کرنے کی وجہ سے ہوا"

پکیزہ اتنی حیرت زدہ تھی کہ وہ ارزانش کو دیکھے جا رہی تھی بس اور آہستہ آہستہ اسے اس کے سب سوالوں کے جواب ملتے جا رہے تھے۔ 

"اور رہی بات مُراد کی۔ تو وہ سب مجھے عبداللہ نے بتایا تھا۔ عبداللہ کو بہت پہلے سے میں نے اپنا اچھا دوست بنایا ہوا تھا اور زیادہ تر باتیں مجھے اسی سے پتا چل جایا رتی تھیں۔ لیکن آپ فکر مت کریں کیونکہ میرے لئیے کوئی مُراد معنی نہیں رکھتا۔ معنی اگر کوئی رکھتا ہے تو وہ ہے پاکیزہ۔ وہ آپ کے قابل ہی نہیں تھا اور ہاں۔ میں آپکی پوری مدد کروں گا کہ آپ اسے پورے طریقے سے بھُلا سکیں۔"

"میں۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی اتنا اچھا بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ کئی اتنا پاگل بھی ہو سکتا ہے کسی کے پیچھے" پاکیزہ آنکھیں بند کئیے بغیر ارزانش کو دیکھے جا رہی تھی۔ 

"میں محبت نہیں۔ جھلی میں آپ سے عشق کرتا ہوں۔ اور آج میں آپکو اپنی زندگی میں دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ 

فبایّ آلاء ربّکما تکذّبان" ارزانش پاکیزہ کے دائیں ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے بول رہا تھا۔ 

"اچھا اب اپنی آنکھیں بند کریں جلدی سے" ارزانش نے پاکیزہ کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ 

پاکیزہ نے زندگی بھر کبھی اتنا محفوظ محسوس نہیں کیا تھا خود کو جتنا وہ اس وقت ارزانش کے ساتھ خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی اسی لئیے اس نے فوراً ہی آنکھیں بند کر لیں۔


ارزانش نے پاکیزہ کے ہاتھوں میں کچھ تھماتے ہوئے کہا "اب کھول لیں آنکھیں"

پاکیزہ کے ہاتھ میں دو ٹکٹیں تھیں۔ 

"یہ کیا ہے؟" پاکیزہ نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔

" آپکی خواہش تھی نہ محرم کے ساتھ عمرہ کرنے کی۔ تو یہ رہا محرم" ارزانش خود کی طرف اشارہ کرتے ہو بولا اور پھر ٹکٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا "یہ رہیں عمرہ کی ٹکٹس"

پاکیزہ کی خوشی کی تو جیسے کوئی انتہا ہی نہیں تھی۔ اس کا خدا پہ کامل یقین رنگ لے آیا تھا۔ دو دن بعد دونوں عمرہ کے لئیے روانہ ہو گئے۔ وہاں پر پہنچ کر جب پاکیزہ اور ارزانش خانہ کعبہ کے سامنے گئے تو پاکیزہ سجدے میں گر پڑی اور خدا کی ہر ایک نعمت کا رو کر شکر ادا کرنے لگی۔ دونوں نے عمرہ ادا کیا۔ پاکیزہ کا تو خانہ کعبہ کے قریب سے کہیں اور جانے کا دل ہی نہیں کرتا تھا اسی لئیے رات کے وقت ارزانش پاکیزہ کی گود میں سر رکھ کر سو جاتا اور پاکیزہ خانہ کعبہ سے سامنے بیٹھی خوشی سے روتی رہتی اور قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی۔ 

شادی کے تین ماہ بعد پاکیزہ ارزانش کے قریب آ کر کہنے لگی "مجھے آپکو ایک بات بتانی ہے"

"جی بولیں"

پاکیزہ ارزانش کے کان کے قریب جا کر سرگوشی کرتے ہوئے بولی "آپ بابا جان بننے والے ہیں"

ارزانش کہ چہرے پر ایک بہت بڑی مسکراہٹ آگئی۔ وہ پاکیزہ کے رخصار چومتے ہوئے بولا "شکریہ میری زندگی میں آ کر اسے اپنے جیسا حسین بنانے کے لئیے۔"

پاکیزہ شرما سی گئی۔ ایک سال بعد پاکیزہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اس نے مُراد رکھا کیونکہ شاید پہلی محبت دل کے کسی گوشے میں رہ ضرور جاتی ہے لیکن ارزانش کو بالکل بھی بُرا نہیں لگا کیونکہ اسے پاکیزہ پہ پورا اعتماد تھا اور "مُراد" اس کے لئیے محض نام سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اب تو یہ اس کے بیٹے کا نام تھا اسی لئیے اسے اس نام سے ایک انس تھا۔

"یہ بالکل آپ پہ گیا ہے پاکیزہ" ارزانش اپنے بیٹے مُراد کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔

پاکیزہ ہنسنے لگی اور بولی "لیکن یہ بالکل اپنے بابا جان جیسا ہی دل کا اچھا ہو گا"

اس کے بعد پاکیزہ کو وہ حدیثِ قدسی یاد آنے لگی کہ 

"اگر تو سپُرد کر دے گا اپنے آپ کو جو میری چاہت ہے

تو میں وہ بھی بخش دوں گا جو تیری چاہت ہے"

پاکیزہ اب خود کو مکمل محسوس کر رہی تھی۔ اس نے دُعا کے لئیے ہاتھ اُٹھائے تو کہنے لگی کہ "اے میرے رب! تیری قربت تک کا سفر بہت لمبا اور دشوار تھا۔ مجھے تو یوں لگا تھا جیسے میں اس منزل میں خود کو بھی ہار جاؤں گی لیکن میرے اس دشوار سفر کے بعد تو نے جتنا مجھے نوازا ہے اس کا شکر میں کبھی ادا نہیں ک سکتی۔ میں خود کو اتنا مکمل محسوس کرتی ہوں جتنا کوئی کبھی خود کو مکمل محسوس نہیں کر سکتا"

اور یونہی پاکیزہ کے صبر اور شکر نے اسے اللہ کے بہت قریب کر دیا اور ایک مکمل عورت بنا دیا۔

۔۔۔ختم شد۔۔